Saturday, 10 February 2018

فرعون کا عبرتناک انجام

فرعون
آج سے  تین ہزار سال قبل جب مصر میں فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھائے اور انہیں اپنا غلام بنالیا تب موسیٰ علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ  تم  بنی اسرائیل  کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی زمین کی طرف لے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم  کے مطابق موسیٰ ؑاور ان  کے بھائی ہارون علیہم السلام  ہزاروں  بنی اسرائیلیوں کو لے کر راتوں رات مصر سے نکلے اور بحر احمر ( قلزم) کے شمالی  طرف خلیج  سوئز کےشمال میں پہنچ گئے۔ فرعون کو جب یہ خبر ملی  تو وہ اپنا بھاری لشکر لے کر ان کے پیچھے نکلا۔ اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا:
فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ 63 (سورۃ الشعراء) 
چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ (١٥)
سمندر میں ایک خشک راستہ نکل آیا اور بنی اسرائیل اس پر چلتے ہوئے دوسری طرف بچ نکلے۔ فرعون کا لشکر بھی یہ دیکھ کر ان کے پیچھے چلنے لگا مگر جیسے ہی تمام لشکر دریا کے درمیان  میں پہنچا دریا  کا پانی آپس میں مل گیا اورتمام  لشکر غرق ہوگیا سوائے فرعون کی لاش کے۔
جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب سامنے نظرآنے لگے توکہنے لگا میں اسی ایکوحدہ لاشریک لہ  پہ ایمان لاتا ہوں مگر اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا:
الْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٩١﴾ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ﴿٩٢﴾
(جواب ملا کہ) اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا
تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں۔
قرآن  نے کہہ دیاکہ  فرعون کی لاش عبرت کا نشانہ بن کر رہ جائے  گی۔قرآن کی تعلیم صحیح ثابت  ہوئی فرعون کی یہ لاش 1881 کو بحر احمر سے ملی اور آج مصر کے  عجائب خانہ میں  محفوظ  ہے ۔ فرعون  نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے غرق کر کے اس کی لاش  کو نشان عبرت  بنادیا۔
 فرعون کی لاش:
اس کی لمبائی  202 سینٹی میٹر ہے فرعون  کی لاش1235 قبل مسیح  میں مسندر میں ڈؤبی ہوئی تھی۔ 3ہزار ایک سو سولہ سال سمندر میں پڑے رہنے  کے باوجود بغیر گلے سڑے محفوظ ہے۔ یہ واقعہ  اس بات کا ثبوت  ہے کہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے. عجائب گھر میں باقی بادشاہوں کی ہنوط کی ہوئی ممیاں موجود ہیں  مگرغور طلب بات یہ ہے کہ  فرعون کی ممی نہیں ہے۔ فرعون  واحد ہے جس کی لاش ممی نہیں ہے ۔ فرعون  واحد ہے جس کی لاش پرگوشت روز تروتازہ  لگتا ہے اور گوشت بڑھتا رہتا ہے۔ ہرسال 15 مارچ کو میوزیم میں رکھی فرعون کی لاش پر چوہے چھوڑے جاتے ہیں جو اس کا  فالتو گوشت نوچ کر کھاجاتے ہیں  پھر دوبارہ لالش کی ڈریسنگ کرکے  شیشے میں رکھ دیا جاتا ہے۔
اللہ کی واحدانیت کی مثال:
یہودیوں  اورعیسائیوں  کے عقیدے کے مطابق فرعون کی تمام  فوج تو غرق  ہوگئی تھی  مگرفرعون کنارے پر ہونے  کی وجہ سے بچ گیا  اور بعد میں  اپنی  طبعی   موت مرا تھا۔
1898میں مصر میں پرانے مقبرے دریافت ہوئے  جس میں فرعون سمیت دیگر  بادشاہوں  کی حنوط شدہ  لاشیں دریافت ہوئیں۔
اس دریافت کے 63 سال بعد 1981 میں جب  فرعون کی ممی خراب  ہونے لگی تو مصری حکومت نے  فرانس سے درخواست کی کہ وہ  فرعون کی ممی کو خراب  ہونے سے بچائے  اور اس کی موت  کی اصل وجہ دیافت کرائے۔ فرعون کی لاش  مصر سے فرانس لائی گئی  اور ماہر ڈاکٹروں نے  جس کے سربراہ   مورس بکائیل تھے مختلف ٹیسٹ کیے۔ پتا یہ چلاکہ کہ فرعون کی لاش پر سمندر نمک کے ذرات تھے  جو اس بات  کا واضح  ثبوت ہے کہ اس کی موت سمندر میں ہوئی۔
جب ڈاکٹر مورس بکائیل  کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب  میں یہ لکھا ہواہے کہ  فرعون  کو غرق کرکے اس کی لاش  کو عبرت کے لیے محفوظ کردیا ہے. یہ سن کر ڈاکٹر حیران ہوئے اور حقیقت جاننے کے لیے مسلمان  سائنسدان  سے رجوع کیا۔ انھیں  سورۃ یونس  کی آیت  90۔92 پڑھ کر سنائی گئی ان آیات کو سن کر انھیں بہت حیرت ہوئی کہ قرآن کا نزول فرعون کی موت سے  2 ہزارسال بعد ہوا اور کوئی فرعون کی لاش کے مطابق نہیں جانتا تھا لیکن قرآن کی پیشنگوئی  سچ ثابت ہوئی اور انھوں نے اسلام قبول کیا. ان کی کتاب ”بائبل ،قرآن اور سائنس” نے دنیا میں دھوم مچائی ہوئی ہے ۔؎ 
جگہ  جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہےتماشہ نہیں ہے
http://www.suffahpk.com/firon/
....
سوال # 147538
فرعون جب دریا میں ڈوبنے لگا تو کیا اس نے اس وقت ایمان لانے کی پیش کش کی تھی جو قرآن اور حدیث میں کہیں آیا ہے مگر اس کا ایمان قابل قبول نہیں ہوا کیونکہ اس نے اب تو آخرت کا منظر دیکھ لیا تھا ایسا کچھ ہے یا نہیں؟ اس کی ذرا وضاحت کر دیجئے جس سے مجھ کو تسلی ہو جائے۔

Published on: Jan 31, 2017
جواب # 147538
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 400-415/H=4/1438
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: 
وَجٰوَزْنَا بِبَنِیٓ إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ أَنَّہُ لَآ إِلَہَ إِلَّا الَّذِی اٰمَنَتْ بِہِ بَنُوٓ إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ․ (الی آخر الرکوع سورہٴ یونس: پ:۱۱) 
ان آیاتِ مبارکہ میں نیز اِن کے ترجمہ اور تفسیر وتشریح میں یہی مضمون ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ترجمہٴ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالیٰ اور اس کا حاشیہ ص: ۲۸۹، (مطبوعہ مدرسہ معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ، مسجد ابراہیم علیہ السلام وادئ اسماعیل علیہ السلام علی گڑھ)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Islamic-Beliefs/147538
سوال # 8343
میں نے سنا ہے کہ بی بی آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا (جو کہ فرعون کی بیوی تھیں) اور بی بی مریم رضی اللہ تعالی عنہا (جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ماں تھیں) جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہوں گی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ حقیقت حدیث میں بھی مذکورہے؟ اگر مذکور ہے، تو مجھے ان احادیث کا حوالہ بتادیں اور اپنا فتوی اس حقیقت کے بارے میں جاری کریں کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟

Published on: Nov 13, 2008
جواب # 8343
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1941=1807/د
جی ہاں اس سلسلہ میں حضرت زبیر بن بکار کی روایت ہے جس کو علامہ قرطبی نے اپنی مشہور کتاب تفسیر قرطبی کے اندر نقل فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیں: 
رواہ زبیر بن بکار أن رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال لخدیجة أشعرت أن اللہ زوجني معک في الجنة مریم بنت عمران وکلثوم أخت موسیٰ وآسیة امرأة فرعون فقالت أخبرک اللّہ بہذا فقال: نعم فقالت بالرفاء والبنین․ (تفسیر القرطبي: جز ۱۳، ۱۷۰، م زکریا)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hadith--Sunnah/8343

No comments:

Post a Comment