جنازہ لے جاتے وقت ذکر بالجہر
(11) جنازہ لے جاتے وقت جنازہ کے ساتھ ساتھ ذکر بالجہر و نعت خوانی وغیرہ کرنا
مفتی صاحب احمد یار نعیمی گجراتی بریلوی لکھتے ہیں:
باب جنازہ کے آگے کلمہ طیب یا نعت خوانی کا ثبوت
(جاء الحق ص404)
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جنازہ کے آگے کلمہ طیبہ یا تسبیح و تہلیل یا درود شریف یا نعت شریف آہستہ آہستہ یا بلند آواز سے پڑھنا جائز اور میت و حاضرین کو مفید ہے اس پر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ و اقوال فقہاء شاہد ہیں۔
(جاء الحق ص 404)
لیکن فقہاء احناف اس کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک آدمی خاموشی کے ساتھ جنازہ میں شریک رہے اور اپنے ذہن میں موت اور آخرت کا استحضار کرے، اگر کچھ ذکر کرنا چاہے تو آہستہ آہستہ کرے، بلند آواز سے نہ اذکار پڑھے نہ قرآن مجید کی تلاوت کرے بلکہ بقول طحطاوی کے جو اس کیفیت سے روکنے پر قادر ہو اس کے لیے اس پر خاموشی اختیار کرنا بھی جائز نہیں۔ ملاحظہ ہو:
امام طحطاوی نقل کرتے ہیں:
’’ویستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولاً بذکر اﷲ ای اسرًا والتفکر فی ما یلقاہ المیت وان ہذا عاقبۃ اہل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام وان ہذا وقت ذکر وموعظۃ فتصبح فیہ الفضلۃ فان لم یذکر اﷲ تعالٰی فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقرأۃ ولا بالذکر ولا یغتر بکثرۃ من یفعل ذلک واما ما یفعل الجہال فی القرأۃ علی الجنازۃ من رفع الصوت والتمطیط فیہ فلا یجوز بالاجماع ولا یسع احدًا یقدر علی انکارہ ان یسکت عنہ ولا ینکر علیہ‘‘
(طحطاوی علی مراقی الفلاح ص253)
جنازہ کے پیچھے چلنے والوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اﷲ کے ذکر میں مشغول رہے اور میت کو پیش آنے والے اور اہل دنیا کے انجام پر غور کرتا رہے اور بے فائدہ باتوں سے بچتا رہے کہ یہ پند و موعظت کا وقت ہے جس میں بڑے بڑوں کا حال بگڑ جاتا ہے۔ پس اگر اﷲ کا ذکر نہ کرے تو خاموش رہے اور ذکر و قرأت میں آواز بلند نہ کرے اور ایسا کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے دھوکہ نہ کھائے، جنازہ پر بآواز بلند پڑھنے کا جو عمل جہال کرتے ہیں یہ بالاجماع جائز نہیں، اور نہ کسی ایسے شخص کے لیے جو اس پر اظہار ناپسندیدگی کرنے پر قادر ہو اس پر خاموش رہنا اور اظہارِ ناپسندیدگی سے گریز کرنا جائز ہے، یعنی وہ منع کرے۔
یہی بات علامہ شامی نے بھی لکھی ہے، درمختار کی عبارت کہ جنازہ میں بلند آواز سے تلاوت اور ذکر مکروہ ہے’’وکرہ فیھا رفع الصوت بذکر اوقرأۃ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے’’البحر الرائق‘‘سے نقل کرتے ہیں:
’’وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظہیرۃ فان اراد ان یذکر اﷲ تعالٰی یذکرہ فی نفسہٖ لقولہٖ تعالٰی انہ لا یحب المعتدین ای المجاہرین بالدعائ۔‘‘
(رد المحتار باب الجنائز ج1 )
جنازہ کے پیچھے چلنے والے کے لیے مناسب ہے کہ طویل خاموشی اختیار کرے اور اس میں ظہیریہ سے منقول ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہے تو آہستہ کرے اس ارشادِ خداوندی کہ وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی زور زور سے دعا کرنے والوں کو۔
پس ہمارے زمانہ میں جنازہ کے ساتھ گزرتے ہوئے بآواز بلند بلکہ راگ کے ساتھ ذکر و تسبیح کا جو رواج پڑ گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
احناف ڈیجیٹل لائبریری
http://library.ahnafmedia.com/229-books/firqa-barelviat-ka-tahqiqi-jaiza/2117-jnaza-le-jatey-waqat-zikr-baljahr
.......
میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمہ پڑھنا اچھا ہے تو ناجائز کیسے ہے؟
Published on: Nov 7, 2016
جواب # 68239
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1040-1103/Sd37=2/1438
میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمہ پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، اس موقع پر آپ خاموش رہتے تھے؛ اس لیے اس وقت کلمہ نہیں پڑھنا چاہیے، یہ مکروہ ہے۔ (احکام میت، ص: ۵۲، ۱۹۵، ط: رحیمیہ، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/68239
...............
سوال # 2846
جنازہ کو قبرستان میں لے جاتے وقت تیسر کلمہ زور سے پڑھیں یا آہستہ سے پڑھیں؟
Published on: Feb 27, 2008
جواب # 2846
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 99/ ل= 100/ ل
اگر اس وقت ذکر کرنا ہو تو آہستہ سے ذکر کریں، زور سے نہیں:
وینبغي لمن تبع الجنازة أن یطیل الصمت وفیہ عن الظھیریة: فإن أراد أن یذکر اللہ تعالی یذکرہ في نسفہ (شامي: ۳:۱۳۸، ط زکریا دیوبند)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/2846
....................
سوال # 147
کیا جنازہ کے ساتھ راستے میں کلمہٴ شہادت کا پڑھنا درست ہے؟بہت سے لوگ بلند آواز پڑھتے ہیں، لیکن اہل سنت حنفی دیوبندی حضرات اکابر اس سے منع کرتے ہیں اور اسے بدعت کہتے ہیں۔ آپ بتاسکتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے؟اس کا پس منظر کیا ہے اوریہ کہاں جائز ہے؟اگر جائز نہیں تو کیوں؟ قرآن و سنت و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
Published on: Apr 16, 2007
جواب # 147
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 383/ج=383/ج)
جنازہ کے ہمراہ راستہ میں کلمہٴ شہادت یا کوئی اور ذکر بلند آواز سے کرنا مکروہ و بدعت ہے، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تین موقعوں پر خاموش رہنے کو پسند فرماتے ہیں: قرآن شریف کی تلاوت کے وقت، دشمن سے مقابلہ (قتال) کے وقت اور جنازے کے پاس (تفسیر ابن کثیر: 2/417 تحت قولہ تعالیٰ: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً الآیة) اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تین موقعوں پر بولنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ جنازے، قتال اور ذکر اللہ کے وقت
(البحرالرائق: 5/128، کتاب السیر) وعلی متبعي الجنازة الصمت ویکرہ لہم رفع الصوت بالذکر وقراء ة القرآن کذا في شرح الطحطاوي (عالمگیري: ۱/162) وفي الفتاوی السّراجیة: رفع الصوت بالذکر وقراء ة القرآن وقولہم کل حي لا یموت ونحو ذلک خلف الجنازة بدعة اھ
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/147
.............................
سوال # 152311
جب جنازہ قبرستان لے جایا جارہا ہو اس وقت میت کا سر آگے ہو یا پیر آگے ہوں؟ نماز جنازہ کے وقت جنازہ کیسے رکھیں؟
Published on: Jun 22, 2017
جواب # 152311
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 959-899/sd=9/1438
جنازہ لے جاتے وقت میت کا سر آگے رکھنا چاہیے۔ (احکام میت، ص: ۵۱)
(۲) نماز جنازہ کے وقت جنازہ قبلہ رخ اِس طرح رکھنا چاہیے کہ میت کا سینہ امام کے مقابل بالکل محاذات میں رہے۔
قال الحصکفی : (ووضعہ) وکونہ ہو أو أکثرہ (أمام المصلی) وکونہ للقبلة۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۲۸۰/۲، ط: باب صلاة الجنازة، ط: دار الفکر، بیروت ، احکام میت، ص: ۶۰)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/152311
مفتی صاحب احمد یار نعیمی گجراتی بریلوی لکھتے ہیں:
باب جنازہ کے آگے کلمہ طیب یا نعت خوانی کا ثبوت
(جاء الحق ص404)
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جنازہ کے آگے کلمہ طیبہ یا تسبیح و تہلیل یا درود شریف یا نعت شریف آہستہ آہستہ یا بلند آواز سے پڑھنا جائز اور میت و حاضرین کو مفید ہے اس پر قرآنی آیات و احادیث صحیحہ و اقوال فقہاء شاہد ہیں۔
(جاء الحق ص 404)
لیکن فقہاء احناف اس کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک آدمی خاموشی کے ساتھ جنازہ میں شریک رہے اور اپنے ذہن میں موت اور آخرت کا استحضار کرے، اگر کچھ ذکر کرنا چاہے تو آہستہ آہستہ کرے، بلند آواز سے نہ اذکار پڑھے نہ قرآن مجید کی تلاوت کرے بلکہ بقول طحطاوی کے جو اس کیفیت سے روکنے پر قادر ہو اس کے لیے اس پر خاموشی اختیار کرنا بھی جائز نہیں۔ ملاحظہ ہو:
امام طحطاوی نقل کرتے ہیں:
’’ویستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولاً بذکر اﷲ ای اسرًا والتفکر فی ما یلقاہ المیت وان ہذا عاقبۃ اہل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام وان ہذا وقت ذکر وموعظۃ فتصبح فیہ الفضلۃ فان لم یذکر اﷲ تعالٰی فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقرأۃ ولا بالذکر ولا یغتر بکثرۃ من یفعل ذلک واما ما یفعل الجہال فی القرأۃ علی الجنازۃ من رفع الصوت والتمطیط فیہ فلا یجوز بالاجماع ولا یسع احدًا یقدر علی انکارہ ان یسکت عنہ ولا ینکر علیہ‘‘
(طحطاوی علی مراقی الفلاح ص253)
جنازہ کے پیچھے چلنے والوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اﷲ کے ذکر میں مشغول رہے اور میت کو پیش آنے والے اور اہل دنیا کے انجام پر غور کرتا رہے اور بے فائدہ باتوں سے بچتا رہے کہ یہ پند و موعظت کا وقت ہے جس میں بڑے بڑوں کا حال بگڑ جاتا ہے۔ پس اگر اﷲ کا ذکر نہ کرے تو خاموش رہے اور ذکر و قرأت میں آواز بلند نہ کرے اور ایسا کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے دھوکہ نہ کھائے، جنازہ پر بآواز بلند پڑھنے کا جو عمل جہال کرتے ہیں یہ بالاجماع جائز نہیں، اور نہ کسی ایسے شخص کے لیے جو اس پر اظہار ناپسندیدگی کرنے پر قادر ہو اس پر خاموش رہنا اور اظہارِ ناپسندیدگی سے گریز کرنا جائز ہے، یعنی وہ منع کرے۔
یہی بات علامہ شامی نے بھی لکھی ہے، درمختار کی عبارت کہ جنازہ میں بلند آواز سے تلاوت اور ذکر مکروہ ہے’’وکرہ فیھا رفع الصوت بذکر اوقرأۃ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے’’البحر الرائق‘‘سے نقل کرتے ہیں:
’’وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظہیرۃ فان اراد ان یذکر اﷲ تعالٰی یذکرہ فی نفسہٖ لقولہٖ تعالٰی انہ لا یحب المعتدین ای المجاہرین بالدعائ۔‘‘
(رد المحتار باب الجنائز ج1 )
جنازہ کے پیچھے چلنے والے کے لیے مناسب ہے کہ طویل خاموشی اختیار کرے اور اس میں ظہیریہ سے منقول ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہے تو آہستہ کرے اس ارشادِ خداوندی کہ وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی زور زور سے دعا کرنے والوں کو۔
پس ہمارے زمانہ میں جنازہ کے ساتھ گزرتے ہوئے بآواز بلند بلکہ راگ کے ساتھ ذکر و تسبیح کا جو رواج پڑ گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
احناف ڈیجیٹل لائبریری
http://library.ahnafmedia.com/229-books/firqa-barelviat-ka-tahqiqi-jaiza/2117-jnaza-le-jatey-waqat-zikr-baljahr
.......
میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمہ پڑھنا اچھا ہے تو ناجائز کیسے ہے؟
Published on: Nov 7, 2016
جواب # 68239
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1040-1103/Sd37=2/1438
میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمہ پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، اس موقع پر آپ خاموش رہتے تھے؛ اس لیے اس وقت کلمہ نہیں پڑھنا چاہیے، یہ مکروہ ہے۔ (احکام میت، ص: ۵۲، ۱۹۵، ط: رحیمیہ، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/68239
...............
سوال # 2846
جنازہ کو قبرستان میں لے جاتے وقت تیسر کلمہ زور سے پڑھیں یا آہستہ سے پڑھیں؟
Published on: Feb 27, 2008
جواب # 2846
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 99/ ل= 100/ ل
اگر اس وقت ذکر کرنا ہو تو آہستہ سے ذکر کریں، زور سے نہیں:
وینبغي لمن تبع الجنازة أن یطیل الصمت وفیہ عن الظھیریة: فإن أراد أن یذکر اللہ تعالی یذکرہ في نسفہ (شامي: ۳:۱۳۸، ط زکریا دیوبند)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/2846
....................
سوال # 147
کیا جنازہ کے ساتھ راستے میں کلمہٴ شہادت کا پڑھنا درست ہے؟بہت سے لوگ بلند آواز پڑھتے ہیں، لیکن اہل سنت حنفی دیوبندی حضرات اکابر اس سے منع کرتے ہیں اور اسے بدعت کہتے ہیں۔ آپ بتاسکتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے؟اس کا پس منظر کیا ہے اوریہ کہاں جائز ہے؟اگر جائز نہیں تو کیوں؟ قرآن و سنت و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
Published on: Apr 16, 2007
جواب # 147
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 383/ج=383/ج)
جنازہ کے ہمراہ راستہ میں کلمہٴ شہادت یا کوئی اور ذکر بلند آواز سے کرنا مکروہ و بدعت ہے، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تین موقعوں پر خاموش رہنے کو پسند فرماتے ہیں: قرآن شریف کی تلاوت کے وقت، دشمن سے مقابلہ (قتال) کے وقت اور جنازے کے پاس (تفسیر ابن کثیر: 2/417 تحت قولہ تعالیٰ: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً الآیة) اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تین موقعوں پر بولنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ جنازے، قتال اور ذکر اللہ کے وقت
(البحرالرائق: 5/128، کتاب السیر) وعلی متبعي الجنازة الصمت ویکرہ لہم رفع الصوت بالذکر وقراء ة القرآن کذا في شرح الطحطاوي (عالمگیري: ۱/162) وفي الفتاوی السّراجیة: رفع الصوت بالذکر وقراء ة القرآن وقولہم کل حي لا یموت ونحو ذلک خلف الجنازة بدعة اھ
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/147
.............................
سوال # 152311
جب جنازہ قبرستان لے جایا جارہا ہو اس وقت میت کا سر آگے ہو یا پیر آگے ہوں؟ نماز جنازہ کے وقت جنازہ کیسے رکھیں؟
Published on: Jun 22, 2017
جواب # 152311
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 959-899/sd=9/1438
جنازہ لے جاتے وقت میت کا سر آگے رکھنا چاہیے۔ (احکام میت، ص: ۵۱)
(۲) نماز جنازہ کے وقت جنازہ قبلہ رخ اِس طرح رکھنا چاہیے کہ میت کا سینہ امام کے مقابل بالکل محاذات میں رہے۔
قال الحصکفی : (ووضعہ) وکونہ ہو أو أکثرہ (أمام المصلی) وکونہ للقبلة۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۲۸۰/۲، ط: باب صلاة الجنازة، ط: دار الفکر، بیروت ، احکام میت، ص: ۶۰)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/152311
No comments:
Post a Comment