خود لذتی کیا ھے اور اس کا علاج کیا ھے؟
آجکل جسے دیکھو زکاوتِ حس کا شکار نظر آتا ھے۔
کسی بھی طبی پینل میں دیکھیں، سب سے زیادہ پوسٹیں زکاوتِ حس، جریان، احتلام، سرعت انزال اور مردانہ کمزوری سے متعلق نظر آئیں گی۔
آخر، یہ زکاوت ِحس ھے کیا بیماری، اس کے اسباب کیا ھیں، علاج کیا ھے؟
الله کریم نے جسم ِانسانی جہاں پانچ مخصوص قسم کی حسیں رکھی ھیں جنھیں حواس ِخمسہ بھی کہا جاتا ہے، وہیں پر کچھ اور حسیں بھی رکھ دی گئی ھیں جوکہ موقع مناسبت سے اپنا فرض نبھاتی ھیں۔
حواس خمسہ سے ھمیں جسم کی دفاعی ضروریات اور دیگر ایسے عوامل جو کہ ھمارے لئے باعث شر ھوسکتے ھیں، کی بر وقت اطلاع ملتی ھے، یہ وہ حسیں ھیں جن ميں سے اگر کسی کے فعل اگر خرابی واقع ھوجائے تو اسان پریشان ھوجاتا ھے۔ اپنے آپکو بیمار تصور کرنے لگتا ھے۔
جس طرح انسان چاھتا ھے کہ اس کی ان حسوں میں کوئی خرابی پیدا نہ ھو اور ان کی حفاظت کرتا ھے مگر افسوس کہ جو حس اسکی زندگی کی ضامن ھے اسکو برباد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور اس کو ھوش اس وقت آتا ھے جب پانی سر سے بلند ھوجاتا ھے۔ پھر حکموں کے در کے چکر لگاتے نہیں تھکتا اور طبیب اسے لُوٹتے نہیں تھکتے۔
آیئے، جائزہ لیتے ھیں کہ یہ بیماری کیا ھے، کیسے شروع ھوتی ھے اس سے بچنے کا طریقہ اور علاج کیا ھے!
یاد رکھیں، ھر چیز کا نقطئہ ِ آغاز اور انجام ھوتا ھے۔ اور اس نامراد بیماری کا بھی ایک نقطہ آغاز ھے، جسے عرفِ عام میں "مُشت زنی، ھتھ رس، خود لذتی، مُٹھ مارنا، استمنابالید" وغیرہ کے نام دئیے جاتے ھیں۔
آدم کی جنسی تسکین کے لئے، اللہ پاک نے عورت کو خلق کیا۔
عورت کو خلق کرنے کی آخر وجہ کیا تھی۔ جبکہ عورت کے بغیر بھی تو کام چل سکتا تھا؟
مختصراً، اسکے دو مقاصد سمجھ لیں،
1. ایک تو یہ کہ اس سے مقصود نسل ِانسانی کی میں اضافہ،
2. دوسرا، مرد کی جنسی تسکین، مردانگی، جُرات، بہادری، شجاعت کی بقاء اور آگے آنے والی نسل میں منتقلی۔
اللہُ بصیر نے، عورت کے خدوخال، چال ڈھال اور آواز میں وہ شیرینی اور جمال رکھ دیا ھے کہ مرد (صحت مند) اس کی جانب کھچا چلا جاتا ھے۔ اور جب دوسری جانب سے بھی نظر ِالتفات ملتی ھے تو مرد اور عورت، دونوں کی جنسی حسیں متحرک ھوجاتی ھیں۔۔۔
کسی بھی طبی پینل میں دیکھیں، سب سے زیادہ پوسٹیں زکاوتِ حس، جریان، احتلام، سرعت انزال اور مردانہ کمزوری سے متعلق نظر آئیں گی۔
آخر، یہ زکاوت ِحس ھے کیا بیماری، اس کے اسباب کیا ھیں، علاج کیا ھے؟
الله کریم نے جسم ِانسانی جہاں پانچ مخصوص قسم کی حسیں رکھی ھیں جنھیں حواس ِخمسہ بھی کہا جاتا ہے، وہیں پر کچھ اور حسیں بھی رکھ دی گئی ھیں جوکہ موقع مناسبت سے اپنا فرض نبھاتی ھیں۔
حواس خمسہ سے ھمیں جسم کی دفاعی ضروریات اور دیگر ایسے عوامل جو کہ ھمارے لئے باعث شر ھوسکتے ھیں، کی بر وقت اطلاع ملتی ھے، یہ وہ حسیں ھیں جن ميں سے اگر کسی کے فعل اگر خرابی واقع ھوجائے تو اسان پریشان ھوجاتا ھے۔ اپنے آپکو بیمار تصور کرنے لگتا ھے۔
جس طرح انسان چاھتا ھے کہ اس کی ان حسوں میں کوئی خرابی پیدا نہ ھو اور ان کی حفاظت کرتا ھے مگر افسوس کہ جو حس اسکی زندگی کی ضامن ھے اسکو برباد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور اس کو ھوش اس وقت آتا ھے جب پانی سر سے بلند ھوجاتا ھے۔ پھر حکموں کے در کے چکر لگاتے نہیں تھکتا اور طبیب اسے لُوٹتے نہیں تھکتے۔
آیئے، جائزہ لیتے ھیں کہ یہ بیماری کیا ھے، کیسے شروع ھوتی ھے اس سے بچنے کا طریقہ اور علاج کیا ھے!
یاد رکھیں، ھر چیز کا نقطئہ ِ آغاز اور انجام ھوتا ھے۔ اور اس نامراد بیماری کا بھی ایک نقطہ آغاز ھے، جسے عرفِ عام میں "مُشت زنی، ھتھ رس، خود لذتی، مُٹھ مارنا، استمنابالید" وغیرہ کے نام دئیے جاتے ھیں۔
آدم کی جنسی تسکین کے لئے، اللہ پاک نے عورت کو خلق کیا۔
عورت کو خلق کرنے کی آخر وجہ کیا تھی۔ جبکہ عورت کے بغیر بھی تو کام چل سکتا تھا؟
مختصراً، اسکے دو مقاصد سمجھ لیں،
1. ایک تو یہ کہ اس سے مقصود نسل ِانسانی کی میں اضافہ،
2. دوسرا، مرد کی جنسی تسکین، مردانگی، جُرات، بہادری، شجاعت کی بقاء اور آگے آنے والی نسل میں منتقلی۔
اللہُ بصیر نے، عورت کے خدوخال، چال ڈھال اور آواز میں وہ شیرینی اور جمال رکھ دیا ھے کہ مرد (صحت مند) اس کی جانب کھچا چلا جاتا ھے۔ اور جب دوسری جانب سے بھی نظر ِالتفات ملتی ھے تو مرد اور عورت، دونوں کی جنسی حسیں متحرک ھوجاتی ھیں۔۔۔
مرد کے دماغ سے فوراً اشارے (سگنل) آنا شروع ھوجاتے ھیں، ساتھ ھی آلہ مجہول کی طرف دوران ِخون کی روانی بڑھ جاتی ھے اور طبیعت جماع کی طرف مائل ھوجاتی ھے۔
طبعیت، مرد کی پیشاب کی نالی کو تر کرنے کے لئے، غدہ قدامیہ میں رطوبت پیدا کرکے نالی کو تر کردیتی ھے، تاکہ دوران ِانزال، مرد کی منی تیزی سے اس رطوبت پر پھسلتی ھوئی عورت کے رحم میں داخل ھوجائے، دوسرا یہ کہ منی کی تیز رفتاری کے باعث نالی میں کوئی خراش نہ پڑجائے۔ یہی وجہ ھے کہ انزال کے وقت مرد کی منی اچھل اچھل کر نکلتی ھے تاکہ وہ چھلانگیں لگاتی ھوئی رحم میں داخل ھوجائے۔ جو کہ مرد کی لذت کا باعث بنتی ھے۔
مرد کی منی اچھل کر کیوں نکلتی ھے، یہ ایک الگ موضوع ھے۔
یہاں پر یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ایک غلط خیال آجکل نوجوانوں کے ذھن میں پختہ ھو گیا ھے کہ مرد کا آلہ تناسل جتنا لمبا ھوگا عورت کے لئے باعث لذت ھوگا۔
یہ خیال بالکل غلط اور لغو ھے، اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔۔
دراصل، قدرت نے پہلے ھی انسان کو احسنِ تقویم پیدا فرمایا ھے۔ یہ الگ بات ھے ھم ان رموز کو اپنی کم علمی کیوجہ سے صحیح طور سمجھ نہیں پائے۔ دوسری بات یہ کہ جب ایک کامل اور تندرست شخص، عورت سے ملاپ کرتا ھے، تو عورت کی بچہ دانی فرط ِجذبات میں خود بخود مرد کے تناسل کی طرف آگے آکر اس سے مل جاتی ھے، اھلِ فن اس عمل کی حقیقت سے بخوبی واقف ھیں۔ ایسے کہاں گیا آلہ کے لمبے ھونے کا تصور؟ بات دراصل یہ ھے کہ ڈرائیور اگر مشاق ھوگا تو وہ ھر قسم کی گاڑی کو اچھی طریقے سے چلاسکتا ھے، لیکن اگر، گاڑی چاھے نئی بی ایم ڈبلیو ھی کیوں نہ ھو، ایک اناڑی ڈرائیور اس کو صحیح طور پر چلا نہیں پائے گا۔ اور انہی نادان کھلاڑیوں کے لئے طب ِقدیم کے حکماء نے ملذات بنائے جنکو اب اصل مقصد سے ھٹ کر تفریح طبع کے لئے استعمال کیا جاتا ھے۔
طبعیت، مرد کی پیشاب کی نالی کو تر کرنے کے لئے، غدہ قدامیہ میں رطوبت پیدا کرکے نالی کو تر کردیتی ھے، تاکہ دوران ِانزال، مرد کی منی تیزی سے اس رطوبت پر پھسلتی ھوئی عورت کے رحم میں داخل ھوجائے، دوسرا یہ کہ منی کی تیز رفتاری کے باعث نالی میں کوئی خراش نہ پڑجائے۔ یہی وجہ ھے کہ انزال کے وقت مرد کی منی اچھل اچھل کر نکلتی ھے تاکہ وہ چھلانگیں لگاتی ھوئی رحم میں داخل ھوجائے۔ جو کہ مرد کی لذت کا باعث بنتی ھے۔
مرد کی منی اچھل کر کیوں نکلتی ھے، یہ ایک الگ موضوع ھے۔
یہاں پر یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ایک غلط خیال آجکل نوجوانوں کے ذھن میں پختہ ھو گیا ھے کہ مرد کا آلہ تناسل جتنا لمبا ھوگا عورت کے لئے باعث لذت ھوگا۔
یہ خیال بالکل غلط اور لغو ھے، اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔۔
دراصل، قدرت نے پہلے ھی انسان کو احسنِ تقویم پیدا فرمایا ھے۔ یہ الگ بات ھے ھم ان رموز کو اپنی کم علمی کیوجہ سے صحیح طور سمجھ نہیں پائے۔ دوسری بات یہ کہ جب ایک کامل اور تندرست شخص، عورت سے ملاپ کرتا ھے، تو عورت کی بچہ دانی فرط ِجذبات میں خود بخود مرد کے تناسل کی طرف آگے آکر اس سے مل جاتی ھے، اھلِ فن اس عمل کی حقیقت سے بخوبی واقف ھیں۔ ایسے کہاں گیا آلہ کے لمبے ھونے کا تصور؟ بات دراصل یہ ھے کہ ڈرائیور اگر مشاق ھوگا تو وہ ھر قسم کی گاڑی کو اچھی طریقے سے چلاسکتا ھے، لیکن اگر، گاڑی چاھے نئی بی ایم ڈبلیو ھی کیوں نہ ھو، ایک اناڑی ڈرائیور اس کو صحیح طور پر چلا نہیں پائے گا۔ اور انہی نادان کھلاڑیوں کے لئے طب ِقدیم کے حکماء نے ملذات بنائے جنکو اب اصل مقصد سے ھٹ کر تفریح طبع کے لئے استعمال کیا جاتا ھے۔
کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق مشت زنی اور خود لذتی حرام ہے۔
اول: قرآن مجید سے دلائل:
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔[المؤمنون: 5، 6]
امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: {فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} چنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7] اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، اس لیے مشت زنی حلال نہیں ہے، واللہ اعلم" ماخوذ از امام شافعی کی "کتاب الام"
کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ} اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔
دوم: احادیث نبویہ سے خود لذتی کے دلائل:
علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کر لے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔
اس مسئلے کے بارے میں مزید دلائل بھی ہیں لیکن ہم انہی پہ اکتفا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم
رہا یہ مسئلہ کہ جو شخص اس گناہ میں ملوث ہو تو اس کیلیے اس بیماری سے بچنے کیلیے متعدد مشورے اور عملی اقدامات ہیں:
1- اس گناہ سے بچنے کا محرک یہ ہو کہ میں نے اللہ کے حکم کی پاسداری کرنی ہے اور اللہ کی ناراضی سے بچنا ہے۔
2- اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پہ عمل کرے اور شادی کر لے۔
3- مشت زنی اور خود لذتی کی طرف لے جانے والے خیالات اور وسوسوں سے دور رہے، اپنے ذہن اور فکر کو دینی اور دنیاوی مفید سرگرمیوں میں مشغول رکھے؛ کیونکہ وسوسوں میں پڑکر انہی میں گھِرتے چلے جانے سے وسوسوں کا انسان پر تسلط قائم ہو جاتا ہے اور پھر بیماری عادت بن جاتی ہے اور اس سے خلاصی پانا مشکل ہو جاتا ہے۔
4- نظروں کی حفاظت کریں؛ کیونکہ ہیجان انگیز تصاویر یا ویڈیوز دیکھنے سے شہوت بھڑکتی ہے اور انسان حرام کام پر آمادہ ہو جاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} آپ کہہ دیں مومنوں کو وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔ [النور: 30]، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک نظر کے بعد دوسری مرتبہ نظر مت دوڑاؤ) ترمذی: (2777) اور صحیح الجامع (7953) میں [البانی نے] اسے حسن قرار دیا ہے۔ لہذا پہلی نظر وہ ہے جو اچانک پڑ جائے، تو اچانک پڑنے والی نظر میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ لیکن دوسری نظر حرام ہے، اسی طرح ایسی جگہوں سے بھی دور رہیں جہاں پر ہیجان انگیز صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔
5- مختلف قسم کی عبادات میں مصروف عمل رہیں اور گناہ کیلیے فرصت ہی نہ چھوڑیں۔
6- مشت زنی اور خود لذتی سے جسمانی صحت پر رونما ہونے والے طبی نقصانات کو ذہن میں اجاگر رکھیں کہ اس سے نظر کمزور ہوتی ہے، اعصاب ڈھیلے پڑتے ہیں اور عضو خاص بھی کمزور ہو جاتا ہے، اسی طرح کمر کا درد شروع ہو جاتا ہے، یا اسی طرح کے دیگر نقصانات اہل طب بیان کرتے ہیں ان سب کو ذہن نشین رکھیں۔ ایسی ہی نفسیاتی نقصانات مثلاً: ذہنی تناؤ اور ضمیر کی ملامت، ان سب نقصانات میں سے سب سے بڑھ کر یہ کہ نمازیں ضائع ہو جائیں گی کیونکہ بار بار غسل کرنا پڑے گا یا غسل کرنے کو دل نہیں چاہے خصوصا جب سردیوں کا موسم ہو، اسی طرح روزہ خراب ہو جائے گا۔
7- اپنے آپ کی دی گئی غلط تسلیوں سے دور کریں؛ کیونکہ کچھ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے آپ کو زنا یا لواط سے بچانے کیلیے خود لذتی جائز ہے، حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان زنا یا لواط کے قریب جا ہی نہ سکتا ہو۔
8- ارادی قوت اور عزم مصمم ہر وقت ساتھ ہو، اور یہ کہ اپنے آپ کو شیطان کے سامنے ڈھیر مت کرے، تنہائی سے بچے ، مثلاً رات کو اکیلے مت سوئے، اور ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (کوئی بھی شخص اکیلے رات مت گزارے) اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور صحیح الجامع (6919) میں بھی موجود ہے۔
9- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تجویز کردہ کار گر علاج اپنائے، یعنی روزے رکھے، کیونکہ روزہ شہوانیت کو ماند کر دیتا ہے اور جنسی خواہش کو معتدل بنا دیتا ہے، تاہم غیر مناسب طریقے مت اپنائے کہ قسم اٹھا لے کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، یا نذر مان لے؛ کیونکہ اگر اس نے دوبارہ یہی کام کرلیا تو یہ قسم توڑنے کی بنا پہ ایمان میں کمی کا باعث ہو گا، اسی طرح ایسی ادویات مت استعمال کرے جو شہوت کو ٹھنڈا کر دیں؛ کیونکہ ان سے طبی اور جسمانی نقصانات رونما ہو سکتے ہیں، کیونکہ صحیح احادیث میں یہ بھی منع ہے کہ انسان ایسی چیزیں کھائے جن سے شہوت کلی طور پر ختم ہو جائے۔
10- سوتے وقت سونے کے اذکار کی پابندی کرے، دائیں کروٹ پہ سوئے اور منہ کے بل اوندھا مت لیٹے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا ہے۔
11- گناہوں سے دوری اور پاکدامنی کا دامن کبھی نہ چھوٹے؛ کیونکہ حرام کاموں سے رکے رہنا ہمارے لیے لازمی ہے؛ اگرچہ نفس چاہتا ہے کہ گناہ کرے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب نفس عفت اور پاکدامنی کا عادی ہو جائے تو پھر یہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص عفت چاہے اللہ تعالی اسے پاکدامنی عطا کر دیتا ہے اور جو اللہ تعالی سے تونگری چاہے تو اللہ تعالی اسے غنی فرما دیتا ہے اور جو صبر چاہے اللہ تعالی اسے صبر عطا کر دیتا ہے، اور کوئی شخص صبر جیسی نعمت عطا نہیں کیا گیا) بخاری مع الفتح: (9/146)
12- اگر انسان اس گناہ میں ملوث ہو بھی جائے تو فوری توبہ استغفار کرلے، نیکی کرے ، مایوسی اور اداسی کا شکار نہ ہو؛ کیونکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
13- آخر میں یہ ہے کہ اللہ تعالی سے صدق دل کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کرکے اس قبیح عادت سے خلاصی کا علاج ہوسکتا ہے ی سب سے مؤثر علاج ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہے جب بھی وہ اللہ کو پکارتا ہے۔
سوال # 154418
زنا کے خیال سے بچنے کے لیے مشت زنی کرنا کیسا ہے ؟ کیا اس صورت میں مشت زنی سے تسکین پانا درست ہے جب کہ نیت بڑے گناہ سے بچنے کی ہو؟ اور اسکی توبہ کی کیا صورت ہے؟
Published on: Oct 22, 2017
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1408-1385/sn=1/1439
مشت زنی کرنا گناہِ عظیم ہے، جنسی تسکین کے لیے اس کا سہارا لینا قطعاً جائز نہیں ہے خواہ کوئی بھی نیت ہو، جنسی تسکین کے لیے آدمی کو چاہیے کہ جتنی جلد ہوسکے شادی کرلے اور جائز طریقے پر تسکین حاصل کرے؛ البتہ علماء نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر کسی وقت شہوت کا بہت غلبہ ہوجائے اور یہ اندیشہ ہوچلے کہ اگر شہوت پوری نہیں ہوئی تو زنا جیسے گھناوٴنے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسی صورت میں اگر مشت زنی کے ذریعے شہوت پوری کرلے تو امید ہے کہ اس پر اس کا وبال نہ ہوگا۔ (البتہ اس کی عادت نہ کرلے ورنہ طبی اعتبار سے سخت نقصان ہوسکتا ہے۔]نعمان[)
قولہ الاستمناء حرام أي بالکف إذا کان لاستجلاب الشہوة، أمّا إذا غلبتہ الشہوة ولیس لہ زوجة ولا أمة ففعل ذلک لتسکینہا فالرجاء أنہ لا وبال علیہ کما قالہ ابو اللیث الخ (درمختار مع الشامی ۶/۳۸، کتاب الحدود، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
............
سوال # 270
میں مشت زنی کے متعلق ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا اسلام میں مشت زنی جائز ہے؟ اگر ہاں، تو کن آیات و احادیث سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو کن آیات و احادیث کی رو سے منع ہے؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور معیار، شرط ، ضابطہ یا ضرورت ہے جس کی بنیاد پر مشت زنی کی اجازت ہو؟
Published on: Apr 30, 2007
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 379/ب=379/ب)
قرآن پا ک میں ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَo اِلاَّ عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اس آیت کے تحت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہر ی میں لکھا ہے کہ آیت خود دلیل ہے مشت زنی کے حرام ہونے پر۔ پھر ابن جریج کا قول نقل کیا کہ انھوں نے حضرت عطاء سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مکروہ بتایا اور پھر فرمایا میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کے ہاتھ حاملہ ہوں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ اس سے مراد یہی لوگ ہیں۔ اورحضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عذاب دیں گے جو اپنے ذَکر کے ساتھ کھیل کرتے تھے۔ ارو ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ناکح الید ملعون یعنی مشت زنی کرنے والا ملعون ہے۔ ہاں اگر کوئی زنا میں مبتلا ہوجانے کا قوی اندیشہ رکھتا ہے تو زنا سے بچنے کے لیے مشت زنی کرلے تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ (ملاحظہ فرمائیں تفسیر مظہری، ج:5، ص:۳6۵) اور در مختار)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment