Wednesday, 4 July 2018

طلاق، تفریق وخلع کے وجوہات، مدت عدت اور نفقہ وسکنی کے احکام

طلاق، تفریق وخلع کے وجوہات، مدت عدت اور نفقہ وسکنی کے احکام
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،، مفتیان کرام توجہ فرمائیں،
طلاق دینے کی کیا کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ 
طلاق دینے کا طریقہ شرعی کیا ہے؟.                                                 
2.  شوہر سے خلع لینے کی کیا کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ 
خلع لینے کا طریقہ شرعی کیا کیا ہوسکتا ہے؟                               
نیز ان دونوں صورتوں میں مدۃِ عدت کیا ہوگی؟                       
طلاق و خلع سے فراغت کے بعد عورت اور اسکے بچوں کے نان و نفقہ کا انتظام کیسے ہوگا اور کس کے ذمہ ہوگا؟          
مکمل مفصل، مدلل تحریر فرمائیں،                            
نوٹ: یہ مسئلہ ایک ایڈووکیٹ (وکیل) نے معلوم کیا ہے، انکو یہ مسئلہ بعینہ  کورٹ میں پیش کرنا ہے، اس میں آئمہ کرام کا اختلاف نہیں، بلکہ صرف مفتی 'بہ قول لکھا جائے
عبدالستار قاسمی مظفرنگری.      
      
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
نکاح زندگی بھر ساتھ نبھانے کا مقدس رشتہ ہے۔بلاوجہ اس بندھن کو توڑنا نہ صرف خداودند قدوس کی نظر میں مبغوض ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر زبان رسالت سے سخت وعید سنائی گئی ہے۔
حدیث شریف میں ہے: ”أَبْغَضُ الْحَلَالِ الی اللّٰہِ الطَّلَاقُ“ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰة ص:۲۹۳): جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: لاَ خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً عَلٰی وَجہِ الأرْضِ أبْغَضَ الیہ مِنَ الطَّلاَقِ (دارقطنی بحوالہ مشکوٰة ص:۸۴) کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسند چیز کو پیدا نہیں فرمایا۔ طلاق ایسا غیرمعمولی اقدام ہے کہ جب کوئی آدمی، اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جاتا ہے۔ (عمدة القاری۳۰/۴۵)
ایک حدیث میں کہا گیا ہے جو عورت بلا وجہ (یعنی بغیر سخت تکلیف وپریشانی کے) اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پہ جنت کی خوشبو بھی حرام ہے:
أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ (سنن الترمذي 1187 ۔باب المختلعات)
لیکن  دینی واخلاقی ومعاشرتی حق تلفی کے وقت مطالبہ طلاق و خلع کو  مباح قرار دیا گیا ہے،
چنانچہ اگر جدائی مرد کے اختیار سے ہوتو ”طلاق“ ہے، اور بیوی کے مطالبہ پر باہمی رضامندی سے ہوتو ”خلع“ ہے اور اگر بیوی کے مطالبہ پر ”قاضی“ یا ”شرعی پنچایت“ کے فیصلے سے ہوتو ”فسخ“ ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص۱۲۶)
اسباب طلاق وفسخ:
 ١- میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو، دونوں ایک دوسرے نفرت کرتے ہوں، اور اختلاف شدت پکڑلے، حل کی کوئی شکل نہ ہو۔
۲-   دونوں معیشت میں تنگی محسوس کرتے ہوں، شوہر کھانا، خرچہ اور مکان نہ دے سکتا ہو۔
۳-  شوہر حقوق کی ادائیگی پر قادر نہ ہو مثلاً: اس کا آلہٴ تناسل کٹا ہوا ہو، یا آلہٴ تناسل تو ہو مگر جماع کی طاقت و صلاحیت نہ ہو۔ 
٤ - یا کسی ایک میں حُمق (بے وقوفی) یا کم عقلی ہو، جسے دوسرا برداشت کرنے سے قاصر ہو۔
 ۵-   بیوی کسی وجہ سے قابلِ جماع نہ ہو یا اس سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہو اور وہ سوکن کو برداشت کرنے پر راضی نہ ہو۔
ان تمام صورتوں میں شوہر کو خوب سوچ سمجھ کر سنت کے مطابق بیوی کو طلاق دیکر اسے آزاد کردینے کی اجازت ہے۔
اسی طرح اگر:
۱-   شوہر مفقود الخبر ہو، لاپتہ ہو معلوم نہیں، زندہ ہے یا مردہ۔
۲-  یہ تو معلوم ہوکہ فلاں جگہ ہے؛ لیکن نہ خود آتا ہو، نہ بیوی کو بلاتا ہو اور نہ ہی خرچہ دیتا ہو اور نہ طلاق دیتا ہو۔
۳-  شوہر نفقہ دینے سے عاجز ہو۔
۴-  شوہر استطاعت کے باوجود نفقہ نہ دیتا ہو۔
۵- شوہر حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتا ہو۔
۶-  شوہر کا آلہٴ تناسل پورا کٹا ہوا ہو یا اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو۔
۷- شوہر کو آلہٴ تناسل تو ہو، مگر وہ جماع کرنے پر قادر نہ ہو۔
۸-   شوہر پاگل ہو۔
۹-  شوہر ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ بیوی کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو۔
۱۰-   شوہر تکلیف دہ حد تک مارتا پیٹتا ہو۔
۱۱-  شوہر سے ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ حَکَمْ وغیرہ سے بھی حل نہ ہوسکے۔
(مجموعہ قوانین اسلامی کتاب الفسخ والتفریق ص۶۰)
تو ان تمام صورتوں میں بیوی شوہر سے علیحدہ ہونے کا دعویٰ دارالقضاء یا شرعی پنچایت میں پیش کرسکتی ہے، پھر علماء کی جماعت اس پر غور و خوض کرکے اگر مناسب سمجھے گی تو تفریق کردے گی اور تفریق ”فسخ“ کہلائے گی۔ فسخ کی صورت میں عددِ طلاق میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے، اگر دوبارہ نکاح ہوجائے تو شوہر تین طلاق کا مالک رہتا ہے۔ (الدرالمختار باب الولی ۲/۴۲)
طلاق دینے کا بہتر طریقہ:      
طلاق دینے کا وہ طریقہ جو سب سے بہتر ہے، حدیث شریف سے ثابت ہے، جسے ”طلاقِ سنت“ بھی کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ: مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ایسے طہر (پاکی) کی حالت میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو، اور ایک ہی طلاق رجعی دی جائے؛ تاکہ زمانہٴ عدت (تین حیض آنے تک) رجوع کرلینے کی گنجائش باقی رہے، پھر اگر شوہر رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کرسکے تو عدت کی مدت گزرجانے دے، اس سے رجعت کی گنجائش تو نہیں رہے گی؛ البتہ دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہوسکے گا۔ اس کو ”طلاقِ احسن“ بھی کہا جاتا ہے۔
طلاق کا دوسرا صحیح طریقہ:
ایک طریقہ یہ ہے کہ: آدمی اپنی مدخولہ بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق نہ دے؛ بلکہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، پھر دوبارہ حیض کے بعد طہر کی حالت آئے اس میں دوسری طلاق دے، پھر حیض کے بعد تیسرے طہر میں، تیسری طلاق دے۔ یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے، اسے ”طلاقِ حسن“ کہا جاتا ہے اور ”طلاقِ سنت“ بھی۔
اور بیوی سے ملاقات اور خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی ہے تو حالتِ حیض میں بھی ایک طلاق دینا ٹھیک ہے، اسے بھی طلاقِ حسن کہا جاتا ہے۔
اور بیوی اگر چھوٹی نابالغہ ہو یا کافی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کو مہینہ کے لحاظ سے ہر ماہ ایک طلاق دینا بھی ”طلاقِ حسن“ کہلاتاہے۔(ماہنامہ دارالعلوم ،شمارہ 5 جلد 96 ۔1433 ہجری)
طلاق دینے کے ممنوع طریقے:
   ۱-   مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا، حیض کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ لیکن ایسی حالت میں اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہے تو رجوع کرلینا مستحب ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۷)
  ۲-  ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں صحبت کرچکا ہو، یہ طریقہ بھی بہتر نہیں ہے؛ لیکن اس میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
  ۳-  طلاقِ بائن دینا۔
  ۴-  ایک ہی طہر میں ایک سے زائد بار (دو یا تین) طلاق دینا، یا ایک جملہ میں تینوں طلاق دینا۔ ان میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۳۴)
  ۵-   نابالغہ بیوی کو یا بڑی عمر والی بیوی کو جس کو حیض نہ آتا ہو ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طریقے ”طلاقِ بدعت“ کے ہیں، جو ممنوع ہیں۔ (الدرالمختار ۲/۵۷۴تا ۵۷۸)
         طلاق دینے کے یہ سارے طریقے ناپسندیدہ ،بدعت اور ممنوع ہیں، تاہم اگر کسی نے ایسی طلاق دے ہی دی تو طلاق دینے والا سخت گنہگار ہوگا؛ لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔
خلع کی اجازت اور اس کا طریقہ:
  اخلاقی اور معاشی حقوق کی پامالی یا جنسی جذبات وخواہشات کی تکمیل میں شوہر کی طرف سے رکاوٹیں آرہی ہوں اور عورت ناقابل تحمل مشقتوں کی شکار ہوگئی ہو تو آخری چارہ کار کے طور پر عورت اپنے شوہر سے اپنا مہر دین معاف کرکے یا کچھ لے دے کے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرسکتی یعنی خلع لے سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ شوہر بھی اس پہ راضی ہو۔کیونکہ خلع دیگر عقود کی طرح ایک عقد ومعاملہ ہے جس میں فریقین کی رضامندی سے یہ معاملہ منعقد ہوسکتا ہے۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ طلاق ہی کی طرح محض لذت اندوزی کے طور پہ خلع کا مطالبہ کرنا بھی ناجائز اور بدبختانہ عمل ہے۔
اور ایسا کرنے والی خاتون اللہ کی نظر میں ملعونہ ہے اور جنت کی خوشبو سونگھنے تک سے محروم رہے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ (سنن الترمذي : 1186 ) ۔
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ لَا يُتَابَعُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ .صحيح البخاري : 4971 باب الخلع.)
وفی الملخص والإیضاح: الخلع عقد یفتقر إلی الإیجاب والقبول یثبت الفرقۃ و یستحق علیہا العوض۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۵/۵ رقم: ۷۰۷۱)
والخلع جائز عند السلطان وغیرہ لأنہ عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وہو بمنزلۃ الطلاق بعوض۔ (المبسوط للسرخسی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۶/۱۷۳)
خلع کا طریقہ: 
یہ ہے کہ بیوی خلع کے بدلے مہر معاف کردے یا کوئی اور چیز بدلِ خلع کے طور پر دیدے اور شوہر اس کے بدلے خلع یا طلاق وغیرہ کے ذریعہ بیوی کو اپنی زوجیت سے نکال
دے، خلع تراضی طرفین (باہمی رضامندی) سے ہوتا ہے، بغیر تراضی طرفین کے خلع درست نہیں۔
سورۃ البقرہ کی 229ء ویں آیت میں  ہے کہ عورت کچھ بدلہ رقم شوہر کو ادا کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرلے۔
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
تمھیں حلال نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا ہے اُس میں سے کچھ واپس لو، مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اﷲ کی حدیں قائم نہ رکھیں گے تو اُن پر کچھ گناہ نہیں، اِس میں کہ بدلا دیکر عورت چھٹی لے، یہ اﷲ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اورجو اﷲ کی حدوں سے تجاوز کریں تو وہ لوگ ظالم ہیں۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں عبداﷲ بن عباس سے مروی کہ ثا بت بن قیس کی زوجہ نے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی، کہ یا رسول اﷲ! ثابت بن قیس کے اخلاق و دین کی نسبت مجھے کچھ کلام نہیں (یعنی اُن کے اخلاق بھی اچھے ہیں اور دیندار بھی ہیں) مگر اسلام میں کفران نعمت کو میں پسند نہیں کرتی (یعنی بوجہ خوبصورت نہ ہونے کے میر ی طبیعت ان کی طرف مائل نہیں) ارشار فرمايا: اُس کا باغ (جو مہر میں تجھ کو دیا ہے) تو واپس کر دیگی؟ عرض کی، ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمايا: باغ لے لو اور طلاق دیدو۔[صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ، الحدیث: 5273، ج3، ص487)
(الھدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج2، ص261
الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج5، ص89
الفتاوی الخانیۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج1، ص256
بدائع الصنائع، کتاب الطلاق، فصل رکن الخلع، ج3، ص229)
خلع کی حیثیت طلاق بائن کی ہے، لہذا خلع لینے سے بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الْخُلْعَ تَطْلِیْقَۃً بَائِنَۃً (دارقطنی)
حضرت عبداللہ بن عباس  کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خلع کو ایک طلاق بائن قرار دیا۔
خلع سے عدت طلاق کی طرح ہوتی ہے:
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رُبَیَّعَ بِنْتَ مُعَوَّذِ بْنِ عَفْرَائَ جَائَ تْ ھِیَ وَعَمَّتُھَا إِلٰی عَبدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّھَا اِخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِھَا فِیْ زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَبَلَغَ ٰذلِکَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَلُمْ یُنْکِرْہُ وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ عِدَّتُھَا عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ (موطا مالک)
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا اور ان کی پھوپھی حضرت عبداللہ بن عمر  کے پاس آئیں اور ان کو بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان  کے دور (خلافت) میں اپنے شوہر سے خلع لے لیا تھااور اس کی خبر حضرت عثمان  کو پہنچی تھی لیکن انہوں نے اس پر کچھ اعتراض نہیں کیا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر  نے (مزید) یہ بات بتائی کہ خلع لینے والی کی عدت وہی ہوتی ہے جو طلاق والی کی ہوتی ہے۔
حنفیہ کے یہاں جو طلاق کی عدت ہے وہی خلع کی بھی عدت ہے ،یعنی  تین حیض ہیں حائضہ کے لئے اور تین ماہ ہیں غیر حائضہ کے لئے۔ در مختار میں ہے وحکمہ ان الواقع بہ الخ طلاق بائن الخ۔ (الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج5، ص89)
طلاق وخلع کی عدت کا نفقہ:
چونکہ عورت نکاح کے بعد شوہر کی ماتحتی اور نگرانی میں آجاتی ہے اس لئے اس کا اوسط درجہ کا کھانے پینے کپڑے اور رہنے کا خرچ شریعت نے مرد کے ذمہ لازم کیا ہے، اس لئے جب تک یہ رشتہ باقی ہے شوہر کو یہ خرچ دینا ضروری لیکن جب ایک مرتبہ یہ رشتہ ختم ہوگیا یعنی عورت کو طلاق ہو جائے یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہتی اس لئے اس کے بعد کسی طرح کا خرچ شوہر سے نہیں مانگ سکتی اور شوہر کے لئے شرعاً دینا واجب بھی نہیں ہے، ہدایہ:۲؍۴۲۳)
اسلامی شریعت میں طلاق دینے کے بعد شوہر کے اوپر صرف عدت کا خرچہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ جہاں عدت گذارنے کے لیے شوہر رکھنا چاہے اسی جگہ عدت گذارنے پر مطلقہ عورت کو عدت کا خرچہ ملتا ہے،  ماہواری آنے والی خاتون کے لئے تین ماہواری گزرنے تک یہ مدت ہے، اور تین ماہواری گزر چکنے کے بعد عدت پوری ہو جاتی ہے، پھر اس کے بعد شوہر سے عدت کے خرچہ کے نام پہ کوئی چیز واجب نہیں ہے، اگر زیادہ عمر کی عورت ہے جس کی وجہ سے ماہواری آنے کا سلسلہ ختم ہوچکا ہو تو اس کی عدت کا زمانہ صرف تین مہینے ہیں، طلاق کے دن سے تین مہینے پورے ہونے پرعدت پوری ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کے شوہر سے کسی قسم کے نان و نفقہ کا حق باقی نہیں رہتا،
عورت اپنا دوسرا نکاح کرکے یا آزادی کے ساتھ رہ کر اپنے خرچے کا انتظام خود کرے۔
زندگی بھر خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری سابق شوہر پہ نہیں ہے ۔
لہذا ختم عدت کے بعد عورت کو شوہر سے نان و نفقہ رہائشی مکان وغیرہ کسی چیز کے مطالبہ کا حق نہیں۔
(وإذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنی فی عدتہا۔ (قدوری، کتاب النفقات ص:۱۹۰، ہدایہ اشرفی ۲/۴۳۸)
ہاں! اس کے جو بچے لڑکے سات سال سے کم عمر کے ہیں، ان کی پرورش کا حکم سات سال تک اور لڑکی کے بالغ ہونے تک بیوی کو ہے، اس کے بعد شوہر کو لے جانے کا حق حاصل ہوتا ہے، ان ایام میں ان چھوٹے بچوں کی  پرورش کے اخراجات  شوہر کے ذمہ ہونگے۔
والحاضنۃ أما أو غیرہا أحق بہ أی بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع و بہ یفتی (إلی قولہ) أحق بہا أی بالصغیرۃ حتی تحیض أی تبلغ فی ظاہر الروایۃ۔ (الدر المختار، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، زکریا ۵/۲۶۷-۲۶۸، کراچی ۳/۵۶۶، مصری ۲/۷۸۱)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور۔ بہار ١٩\شوال \١٤٣٩ ہجری 
١٩\شوال \١٤٣٩ ہجری

No comments:

Post a Comment