سورج گھومتا ہے
ایک لمبے عرصے تک یوروپی فلسفیوں اور سائنس دانوں کا یقین یہ رہا کہ زمین، کائنات کے مرکز میں ساکن کھڑی ہے اور سورج سمیت، کائنات کی ہر چیز اس کے گرد چکر لگارہی ہے۔ اوریہ نظر یہ جسے ارض ساکن یا 'ارض مرکزی ساکن' بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بطلیموس (Ptolmy) کے زمانے (دوسری صدی قبل از مسیح ) سے لے کر سو لیویں صدی عیسوی تک سب سے زیادہ تسلیم کیا جانے والا سائنسی نظریہ رہا۔ پھر 1512ء میں نکولس کو پرنیکس(Nicholas Copernicus ) نے (Heliocentric Theory of Planetry Motion) کا نظریہ پیش کیا جس کے مطا بق سورج نظام شمسی کا مرکز ہے اور ساکن ہے اور تمام سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ 1609ء میں ایک جرمن سائنسدا دن یوہا نس کیپلر (Yohannus Keppler) نے آسٹرونومیانووا (Astronomia Nova) کے نام سے ایک کتاب شائع کروائی۔ اس کتاب میں کیپلر (Keppler) نے صرف یہی ثابت نہیں کیا کہ نظام شمسی کے سیارے بیضہ نمامداروں (Eliptical Orbits) میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیاکہ سیارے اپنے محوروں پر غیر مستقل نوعیت کی رفتاروں سے گردش بھی کرتے ہیں۔ اس علم کی بدولت یورپی سائسندانوں کے لیے نظام شمسی کے کئی ایک نظاموں کی درست وضاحت کرنی ممکن ہوگئی۔ بشمول رات اور دن کے تسلسل کے، ان دریافتوں کے بعد یہ سمجھاجانے لگا کہ سورج ساکن ہے اور زمین کی طرح اپنے محور پر گردش نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ اسکول کے دنوں میں جغرافیہ کی کئی کتابوں میں اسی غلط فہمی کا پرچار کیا گیا تھا۔ اب ذرا قرآن پاک کی درج ذیل آیت مبارکہ ملا خطہ فر مایے۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النّھَا رَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلُ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ[13]
ترجمہ:۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
غور فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیت میں عربی لفظ یَسْبَحُوْن استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ بذات خود سے نکلا ہے۔ جس کے ساتھ ایک ایسی حرکت کا تصور وابستہ ہے جو کسی جسم کے متحرک ہونے سے پیدا ہوئی ہو۔ اگر آپ یہ لفظ زمین پر کسی شخص کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ لڑک رہا ہے۔ بلکہ اس سے یہ مراد ہو گی کہ وہ شخص دوڑ رہا ہے یا چل رہا ہے۔ اگر یہ لفظ پانی میں کسی شخص کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ (پانی پر) تیر(float) رہا کہ بلکہ اس سے مراد ہوگی کہ وہ شخص پانی میں تیراکی کر رہا ہے۔
اسی طرح جب آ پ یہ لفظ سَبَحَا کسی آسمانی جسم (جرم فلکی) سورج کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہو گا کہ وہ جسم خلا میں حرکت کر رہا ہے، بلکہ اس کا پورا مطلب یہ ہوگاکہ کوئی ایسا جسم جو خلا میں حرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے محور (axis) پر بھی گھوم رہا ہے۔ آج اسکولوں کی بیشتر نصابی کتابوں نے اپنی معلومات درست کرتے ہوئے یہ حقیقت شامل کرلی ہے کہ سورج اپنے محور پر گرد ش بھی کررہا ہے۔ سورج کی محوری گردش کی تصدیق کسی ایسے مشاہداتی سازو سامان کی مدد سے آسانی کی جاسکتی ہے جو سورج کا عکس کسی میز جتنی بڑی جگہ پر پھیلا کر دکھا سکے، اسی طرح نابیناپن کے خطرے سے دو چار ہوئے بغیر سورج کے عکس کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج کی سطح پر دھبے ہیں جو اپنا ایک چکر تقریباً پچیس دن میں مکمل کرلیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سورج کو اپنے محور کے گرد ایک چکر پوار کرنے کرنے میں تقریباً پچیس دن لگ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سورج تقریباً 240 کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے (اپنے سیاروں سمیت) خلا میں سفر کررہا ہے۔ اس رفتا ر سے یہ تقریباً بیس کروڑ سال میں ہماری ملکی وے (Milky Way) کہکشاں کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُد ْرِکَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَا بِقُ النَّھَا رِط وَکُلُّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ [14]
ترجمہ:۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
یہ آیت مبارکہ ایک ایسی بنیادی اور اہم حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے جسے جدید فلکیات نے قدرے حال ہی میں دریافت کیا ہے، یعنی چاند اور سورج کے انفرادی مداروں کی موجودگی اور حرکت کرتے ہوئے خلا میں انکا سفر کرنا۔
وہ ساکن جگہ جس کی سمت ہماراسورج اپنے تمام (نظام شمسی) سمیت سفرکر رہا ہے۔ جدید فلکیات کی بدولت ٹھیک شاخت کر لی گئی ہے۔ اسے سولر اپیکس کا نام دیا گیا ہے۔ پورا نظام شمسی در حقیقت خلا میں اس مقام کی سمت حرکت کر رہا ہے جو ہر کو لیس (Herculis) نامی برج (ایلفا لیرایٔ) میں واقع ہے اور جس کی درست جگہ آج ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔
چاند اپنے محور پر اتنی مدت میں گردش پوری کرتا ہے کہ جتنی دیر میں وہ زمین کے گردایک چکر پورا کرتا ہے چاند کو اپنی ایک محوری گردش پورے کرنے میں ساڑ ے انتیس دن لگ جاتے ہیں۔ قرآن پاک کی آیات مبارکہ میں سائنسی حقائق کی درستی پرحیران ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کیا ہمارے زہینوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتاکہ قرآن میں پیش کیے گئے علم کا ماخذ، علم کا منبع آخر کیا ہے.
وَ ھُوَ الَّذِ یْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النّھَا رَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلُ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ[13]
ترجمہ:۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
غور فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیت میں عربی لفظ یَسْبَحُوْن استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ بذات خود سے نکلا ہے۔ جس کے ساتھ ایک ایسی حرکت کا تصور وابستہ ہے جو کسی جسم کے متحرک ہونے سے پیدا ہوئی ہو۔ اگر آپ یہ لفظ زمین پر کسی شخص کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ لڑک رہا ہے۔ بلکہ اس سے یہ مراد ہو گی کہ وہ شخص دوڑ رہا ہے یا چل رہا ہے۔ اگر یہ لفظ پانی میں کسی شخص کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ (پانی پر) تیر(float) رہا کہ بلکہ اس سے مراد ہوگی کہ وہ شخص پانی میں تیراکی کر رہا ہے۔
اسی طرح جب آ پ یہ لفظ سَبَحَا کسی آسمانی جسم (جرم فلکی) سورج کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہو گا کہ وہ جسم خلا میں حرکت کر رہا ہے، بلکہ اس کا پورا مطلب یہ ہوگاکہ کوئی ایسا جسم جو خلا میں حرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے محور (axis) پر بھی گھوم رہا ہے۔ آج اسکولوں کی بیشتر نصابی کتابوں نے اپنی معلومات درست کرتے ہوئے یہ حقیقت شامل کرلی ہے کہ سورج اپنے محور پر گرد ش بھی کررہا ہے۔ سورج کی محوری گردش کی تصدیق کسی ایسے مشاہداتی سازو سامان کی مدد سے آسانی کی جاسکتی ہے جو سورج کا عکس کسی میز جتنی بڑی جگہ پر پھیلا کر دکھا سکے، اسی طرح نابیناپن کے خطرے سے دو چار ہوئے بغیر سورج کے عکس کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج کی سطح پر دھبے ہیں جو اپنا ایک چکر تقریباً پچیس دن میں مکمل کرلیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سورج کو اپنے محور کے گرد ایک چکر پوار کرنے کرنے میں تقریباً پچیس دن لگ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سورج تقریباً 240 کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے (اپنے سیاروں سمیت) خلا میں سفر کررہا ہے۔ اس رفتا ر سے یہ تقریباً بیس کروڑ سال میں ہماری ملکی وے (Milky Way) کہکشاں کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُد ْرِکَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَا بِقُ النَّھَا رِط وَکُلُّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ [14]
ترجمہ:۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
یہ آیت مبارکہ ایک ایسی بنیادی اور اہم حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے جسے جدید فلکیات نے قدرے حال ہی میں دریافت کیا ہے، یعنی چاند اور سورج کے انفرادی مداروں کی موجودگی اور حرکت کرتے ہوئے خلا میں انکا سفر کرنا۔
وہ ساکن جگہ جس کی سمت ہماراسورج اپنے تمام (نظام شمسی) سمیت سفرکر رہا ہے۔ جدید فلکیات کی بدولت ٹھیک شاخت کر لی گئی ہے۔ اسے سولر اپیکس کا نام دیا گیا ہے۔ پورا نظام شمسی در حقیقت خلا میں اس مقام کی سمت حرکت کر رہا ہے جو ہر کو لیس (Herculis) نامی برج (ایلفا لیرایٔ) میں واقع ہے اور جس کی درست جگہ آج ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔
چاند اپنے محور پر اتنی مدت میں گردش پوری کرتا ہے کہ جتنی دیر میں وہ زمین کے گردایک چکر پورا کرتا ہے چاند کو اپنی ایک محوری گردش پورے کرنے میں ساڑ ے انتیس دن لگ جاتے ہیں۔ قرآن پاک کی آیات مبارکہ میں سائنسی حقائق کی درستی پرحیران ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کیا ہمارے زہینوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتاکہ قرآن میں پیش کیے گئے علم کا ماخذ، علم کا منبع آخر کیا ہے.
No comments:
Post a Comment