اُستاد کا حقیقی ادب
ایک دفعہ ابنِ انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں مقامی استاد سے محوِ گفتگو تھے،
جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابنِ انشاءکو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا،
ابھی یونیورسٹی کی حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے،
اس دوران ابنِ انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباء اُچھل اُچھل کر گزر رہے ہیں،
باتیں ختم ہوئیں تو ابنِ انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ
محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اُچھل کر کیوں گزر رہا ہے؟
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بآواز بلند قہقہہ لگایا اور ابن انشاء کو بتایا کہ
سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑرہا ہے اور یہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ
اس کے پاﺅں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں،
اس لئے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر گزر رہا ہے،
یہ قوم کیوں نہ ترقی کرے‘
کیا یہ وصف ھم میں ھے؟
ہمارے معاشرے میں تو استاد کا احترام اس کے منصب اورعہدے سے منسلک ہے۔
جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابنِ انشاءکو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا،
ابھی یونیورسٹی کی حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے،
اس دوران ابنِ انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباء اُچھل اُچھل کر گزر رہے ہیں،
باتیں ختم ہوئیں تو ابنِ انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ
محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اُچھل کر کیوں گزر رہا ہے؟
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بآواز بلند قہقہہ لگایا اور ابن انشاء کو بتایا کہ
سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑرہا ہے اور یہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ
اس کے پاﺅں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں،
اس لئے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر گزر رہا ہے،
یہ قوم کیوں نہ ترقی کرے‘
کیا یہ وصف ھم میں ھے؟
ہمارے معاشرے میں تو استاد کا احترام اس کے منصب اورعہدے سے منسلک ہے۔
No comments:
Post a Comment