Thursday, 22 December 2016

ضبط ولادت Birth Control

ایس اے ساگر
تقسیم وطن کے بعد خاندانی منصوبہ بندی عرف فیملی پلاننگ نے وہ سماں باندھا کہ بچوں کی پیدائش کے متعلق تمام جھمیلے خواتین ہی کو بھگتنے پڑتے ہیں، مرد اس معاملے میں خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ بچوں کی پیدائش مستقل طور پر روکنے کے لئے خواتین کے آپریشن کی طرح مردوں کی ’نس بندی‘ کا طریقہ کافی عرصہ پہلے متعارف ہو چکا ہے اور بھارت میں تو اس کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مردوں کے معاشرے نے اسے یکسر رد کر دیا۔ ضبط ولادت Birth Control سے متعلق بعض معلومات پر مشتمل ایک امیج سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل ہوگئی ہے، جس پر وارد چند سوالات کے ایک وضاحتی جواب میں مولانا نجیب قاسمی سنبھلی رقمطراز ہیں:
سب سے پہلے صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد ایک حدیث پیش کررہا ہوں: صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جب قرآن نازل ہورہا تھا، عزل کرتے تھے، اور ہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے سے منع نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بعض صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عزل کرنے کو بیان کررہے ہیں۔ مشہور محدث علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزل کا مطلب ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرے، جب منی نکلنے کا وقت قریب آجائے تو منی باہر نکال دے۔ یعنی اُس زمانہ کے اعتبار سے حمل نہ ٹھہرنے کا یہ ایک ذریعہ تھا۔ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی طور پر مانع حمل کے اسباب اختیار تو کئے جاسکتے ہیں، لیکن جو مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا۔
اس موقع پر ایک اور حدیث ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھ کو ایک حسب ونسب والی خاتون ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے (یعنی اس کے اولاد نہیں ہوسکتی) کیا میں اس سے نکاح کرسکتا ہوں؟
آپ ﷺ نے اس سے شادی کرنے کو منع فرمادیا، پھر دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا،
پھر تیسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے) محبت کرنے والی ہوں اس لئے کہ میں تم سے امت کو بڑھاؤں گا۔
(نسائی ۔ کتاب النکاح ۔ باب کراہیۃ تزویج العقیم ۔ ابوداود ۔ کتاب النکاح ۔ باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء)
اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء، دانشور اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق اولاد کی کثرت مطلوب ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی ایک موقع پر بھی بچوں کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے، بلکہ آپ ﷺ نے اپنے عمل سے بھی امت مسلمہ کو زیادہ بچے کرنے کی ترغیب دی کہ آپﷺکی چار لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے آپ ﷺ سے بھی زیادہ بچے پیدا ہوئے لیکن آپﷺ نے کسی ایک صحابی کو ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اب بس کرو، اور ان ہی کی تربیت کرلو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد لوگوں کی تربیت ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ کثرت اولاد بچوں کی بہترین تربیت سے مانع نہیں ہے، اگر ہے تو حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو کثرت اولاد سے کیوں نہیں روکا؟ حضور اکرم ﷺ کی زندگی نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے موڈل ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ (نمونہ) ہے۔
غرضیکہ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ ہر زمانہ کے اعتبار سے وقتی مانع حمل کے مہیا اسباب اختیار کرنے کی گنجائش تو ہے مگر یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ نیز ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو چیز بھی مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گی اور رازق وخالق ومالک کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر بچہ اپنے ساتھ اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ میرے لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اِن دنوں بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر بھی استعمال کرتے ہیں، اسی لئے میں نے تحریر کیا کہ اُن کو معلوم ہوجائے کہ وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام نہیں ہے، بلکہ شرعی اعتبار سے ان کی گنجائش ہے اگرچہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ دوسرے بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھ کر یہ اسباب اختیار نہیں کرتے ہیں، لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل Abortion کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں حالانکہ اسقاط حمل حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اولاد کے درمیان وقفہ چاہتے ہیں تو مانع حمل کے جائز طریقے پہلے سے اختیار کرلیں، تاکہ بعد میں اسقاط حمل کا معاملہ ہی درپیش نہ ہو، کیونکہ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کروانا حرام ہے۔
اس امیج میں عبارت کم تھی، نیز ظاہر ہے کہ اس طرح کی امیج میں حوالوں کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے بعض الفاظ کے استعمال اور حوالوں کے ذکر نہ کرنے پر بعض حضرات کا سوال تھا۔جو میں سمجھتا ہوں کہ وہ دور ہوگیا ہوگا، باقی جو میں نے تحریر کیا تھا کہ دو یا تین بچوں کی ولادت کے بعد ، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس سے کم یا زیادہ کی صورت میں وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی وقت وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرسکتا ہے، اگرچہ یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ اور ولادت کے سلسلہ کو بالکل ختم کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر عورت کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے تو پھر گنجائش ہے، خواہ وہ ایک بچہ کی ولادت کے بعد یا اس سے زیادہ کی صور ت میں۔ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، الّا یہ کہ عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ اجازت محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔
کیا ہے دوسری صورت؟
اہل علم حضرات کے نزدیک ضبط ولادت کی دوسری شکل یہ ہے کہ صلاحیت تولید تو باقی رہے مگر ایسی صورت اختیار کی جائے جس سے ولادت نہ ہوسکے، قرون اولیٰ میں اس کے لیے عزل کی صورت اختیار کی جاتی تھی، مجموعہٴ احادیث پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عزل کرنا مختلف اغراض کے تحت ہوتا تھا: مثلاً: باندی سے اولاد نہ ہو تاکہ گھر کے کام کاج میں پریشانی نہ ہو، یا باندی ام ولد نہ بن جائے ورنہ اس کو فروخت کرنا جائز نہ ہوگا، زمانہٴ رضاعت میں حمل ٹھہرنے نہ پائے تاکہ شیرخوار بچہ کی صحت متأثر نہ ہو، صحابہٴ کرام کا کوئی غیرشرعی یا ناجائز عمل پیش نظر نہ تھا، اس لیے آپ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا، اگر عزل کرنے والے کا مقصد کوئی ناجائز امر یا نصوص شرعیہ کے خلاف کام ہوتا تو آپ اس سے ضرور منع فرماتے۔ عزل کے متعلق احادیث مسلم: ۱/۴۶۵، بخاری: ۲/۷۸۴ وغیرہ میں مذکور ہیں، اگر ان روایات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاں عزل کی اجازت طلب کی ہے یا عزل کیا ہے وہ انھیں مذکورہ صورتوں میں منحصر ہے، اس میں رزق کی تنگی کے پیش نظر کہیں بھی نہ اجازت طلب کی گئی ہے اور نہ آپ نے اس کی اجازت دی ہے، بلکہ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے مذکورہ حالات میں بھی عزل کی ہمت افزائی کہیں نہیں فرمائی بلکہ ناپسندیدگی یا اس کے فضول ہونے کا اشارہ فرمایا ہے، خلفائے اربعہ ابن عمر، ابن مسعود ابوامامہ باہلی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کی کراہت کے قائل تھے، اس لیے عام حالات میں فقہائے کرام نے اس کو مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے، اگر رزق ومعاش کی تنگی پیش نظر ہو تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شبہ نہیں رہے گا۔
نکاح کا مقصد:
نکاح کا مقصد اصلی توالد وتناسل ہے اسی کو قرآن نے استعارہ میں یوں کہا ہے:
﴿فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توضیح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”تناکحوا تناسلوا“
(احیاء علوم الدین: ۲/۲۵، ط: لبنان)
امام غزالی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں صرف بچوں کے لئے شادی کرتا ہوں (حوالہٴ سابق) ضبط ولادت کے جو مہلک اثرات معاشرہ پر پڑتے ہیں وہ انتہائی تباہ کن، مہلک اور خطرناک ہیں، زنا، فحاشی کی کثرت، شرح طلاق میں اضافہ، خودغرضی اور ہوس رانی کا فروغ وغیرہ، یہ وہ معاشرتی جراثیم ہیں جو ایک پاکیزہ معاشرہ اور پُراَمن ماحول کو پلید کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں، ان ساری وجوہات کی بناء پر اس عمل کے مکروہ ہونے میں کوئی کلام نہیں رہ جاتا ہے۔ البتہ عذر اور مجبوری کے حالات ہرجگہ مستثنیٰ ہوتے ہیں، اس جگہ بھی خاص اعذار کی حالت میں کبھی یہ کراہت رفع ہوسکتی ہے، پہلی شکل جس میں نطفہ کو رحم میں پہنچنے سے روک دیا جاتا ہے، کنڈوم نرودھ کا استعمال کرنا ہے، اس کی درج ذیل اعذار کی بنیاد پر اجازت ہوسکتی ہے:
اجازت کی صورتیں:
عورت اتنی کمزور ہو کہ وہ بارِحمل کا تحمل نہیں کرسکتی یا پہلا بچہ ایامِ رضاعت میں ہو اور حمل ٹھہرنے کی وجہ سے اس بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر ثابت ہو جس سے فطری طور پر اس کے بدن ومزاج میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوسکتی ہو، یا بچہ کی پیدائش ماں کی جسمانی دماغی صحت یا اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو اور وہ خطرہ واقعی یا ظن غالب کے درجہ میں ہو یا دو مسلم ماہر طبیب اس کا مشورہ دیں۔
گنجائش ختم:
اگر شخصی یا انفرادی طور پر کسی شخص کو یہ اعذار ہوں تو وقتی طور پر اس کے لئے منع حمل کی کوئی تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے، عذر کے رفع ہونے کے بعد اس کے لئے بھی تدابیر منع حمل کا یہ طریقہ ممنوع ہوگا، اس قسم کے اعذار کے علاوہ کسی اور شکل میں منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا شرعاً درست نہیں۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment