اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اچھے سے جان لیجیئے کہ میرا اپنا تعلق تبلیغی جماعت سے نہیں ہے. یہ بھی سچ ہے کہ میں جہاں ان کی کچھ اچھائیوں کا معترف ہوں وہاں کئی حوالوں سے ان سے اختلاف رکھتا ہوں. اس جماعت کے خلاف لکھنے یا بولنے والے آج آپ کو بکثرت دستیاب ہیں مگر شاذ ہی کوئی لکھاری آپ کو ایسا ملے گا جو اس جماعت پر لگے اعتراضات کا جواب دے یا کم سے کم اس جماعت کے محاسن ہی بیان کردے. تبلیغی جماعت آج بدقسمتی سے وہ مظلوم ملامتی طبقہ بن چکی ہے جو ہر عام و خاص مذھبی گروہ کی تنقید و عتاب کا نشانہ ہے. کمال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کسی بھی تنقید اور اشتعال کے جواب میں اکثر خاموشی اختیار رکھتی ہے. ان مٹی کے مادھوؤں کو کوئی کتنا ہی کوس لے، گالیاں دے لے ، مذاق اڑا لے .. یہ جواب میں آپ کو مسکراتے نظر آئیں گے. اس ضمن میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جتنی مقبولیت عوام الناس میں اس تبلیغی تحریک نے حاصل کی ہے ، اس کا عشر وعشیر بھی دیگر مقبول جماعتیں نہیں حاصل کر پائیں. یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ جب دوسری مذہبی جماعتیں اپنی پیش کردہ سوچ کو عوام میں وہ قبولیت نہیں دلوا پاتیں جو تبلیغی جماعت کے پاس ہے تو وہ اس جماعت سے لاشعوری طور پر خائف ہونے لگتی ہیں. ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ اپنے فلسفہ اور دعوت کو مضبوط کرتے، تبلیغی جماعت کی کامیابی کے عوامل کا دیانتدارانہ تجزیہ کرتے اور پھر اپنی سوچ کے ابلاغ کو موثر بناتے. مگر افسوس کے اسکے برعکس وہ کرتے یہ ہیں کہ مائکروسکوپ لے کر تبلیغی جماعت میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں. یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ میرا اشارہ علمی و مثبت تنقید کی جانب نہیں ہے بلکہ اس رویہ کی طرف ہے جہاں طعنہ و تشنیع کو ہتھیار بنالیا جاتا ہے.
طریقہ واردات اکثر یہ ہوا کرتا ہو کہ مختلف مذہبی گروہ پہلے پورے اخلاص سے یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اپنے منشور اور طریق کو یا تو ترک کر دے یا پھر اس میں ترمیم کرکے دین کا وہ نظریہ اپنا لیں جسے یہ پراخلاص ناقد گروہ دین کی ترجیح یا درست راستہ سمجھتا ہے. اب ظاہر ہے کہ ایسا ہونا قریب قریب ناممکن ہے. اپنے منشور و طریق کو ترک کرنے یا ترمیم کرنے کا مطالبہ اگر ان دیگر جماعتوں سے بھی کیا جائے تو یہ کبھی بھی اسے اپنے لئے تسلیم نہ کریں. اب جب یہاں دال نہیں گلتی اور وہ دیکھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت انکی پیش کردہ سوچ کو نہیں اپنا رہی یا اپنا منہج نہیں تبدیل کررہی تو پھر ناراضگی اور الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے. کوئی گروہ پکارتا ہے کہ تبلیغی جماعت میں اتنے سارے لوگ ہیں تو یہ اسرئیل سے جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ یا کشمیر کیوں نہیں آزاد کرواتے؟ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انکی اتنی کثیر تعداد ہے پھر یہ خلافت کی واپسی کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ تیسرا تحقیقی مزاج گروہ بولتا ہے کہ یہ سہہ روزہ وغیرہ چھوڑ کر کوئی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کیوں نہیں کھولتے ؟ .. غرض جتنے منہ اتنے مشورے، اتنی تنقید. یہاں وہ مسالک تو زیر بحث ہی نہیں ہیں جو تعصب کی پٹی باندھ کر صرف مسلکی عداوت کی بناء پر اس جماعت کے دشمن بنے رہتے ہیں. تبلیغی جماعت کا حال یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی فرقہ پرستی سے خود کو دور رکھتی ہے ،لہٰذا یہ دیوبند سے تعلق کے باوجود کبھی تو علامہ طاہر القادری صاحب کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے تو کبھی اہل تشیعہ کی بارگاہ میں نماز ادا کرتی ہے. کبھی امام کعبہ کے ساتھ نظر آتی ہے تو کبھی نعمان علی خان جیسے نوجوان اہل علم کو گلے لگاتی ہے. اگر یہ بیچارے صرف تکفیری گروہوں کا نشانہ ہوتے تو شائد شکایت نہ ہوتی مگر حال یہ ہے کہ جدید و قدیم تمام دانشور اپنے منہج کے مطابق انہیں طرح طرح کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں. لہٰذا ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر جاوید احمد غامدی صاحب تک اور پروفیسر رفیق اختر سے لے کر ڈاکٹر ذاکر نائیک تک الگ الگ زاویوں سے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. یہ دھیان رہے کہ جن بزرگوں کا نام درج کیا ہے ، یہ سب اس جماعت کے کسی نہ کسی درجہ میں معترف بھی ہیں اور اسکی بے پناہ مقبولیت کے قائل بھی.
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو شخص، جماعت یا ادارہ جتنا مقبول ہوتا ہے ، اس کے ناقد اور دشمن بھی اتنے ہی کثیر ہوتے ہیں. دنیا بھر کے بینکوں میں پچھلے برس ‘ایچ ایس بی سی’ بینک کو مقبول ترین بینک قرار دیا گیا، مزیدار بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ فراڈ کی کوشش بھی اسی بینک سے منسلک لوگوں کے ساتھ کی گئی. کمپیوٹر کی دنیا میں ‘ونڈوز آپریٹنگ سسٹم’ کو سب سے مقبول مانا جاتا ہے مگر لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ ہیکنگ اور وائرس کے حملے بھی اسی سافٹ ویئر کے خلاف ہوتے ہیں. قصہ مختصر یہ کہ تنقید اور شکایات اکثر مقبولیت کا ضمیمہ بن کر آتی ہیں.
تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض شائد یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے بیانات میں ضعیف ترین احادیث بھی بیان کردی جاتی ہیں. خود ان کی مقبول ترین کتاب ‘فضائل اعمال’ میں ایسی بہت سی احادیث درج ہیں جو روایت و درایت دونوں پر صحت کے اعتبار سے پورا نہیں اترتیں. جیسا کے میں نے گفتگو کے آغاز میں ہی درج کردیا تھا کہ میں خود تبلیغی جماعت کی کئی باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور شائد یہ بتانا مناسب ہوگا کہ ان ضعیف احادیث کا بیان کرنا میرے ان سے اختلافات میں سرفہرست ہے. مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ احادیث صحت کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس جماعت کے بڑوں سے جاکر ملے ہوں اور اپنے اشکالات کے جواب طالبعلمانہ انداز میں جاننے چاہے ہوں ؟ اگر آپ تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تبلیغی جماعت اہل سنہ میں موجود علماء کی ایک مقبول رائے کے تحت ایسا کرتے ہیں. اس رائے کے مطابق جب دین کے ‘اصول’ بیان کئے جائیں گے تو لازمی ہے کہ ان کی بنیاد قران یا صحیح حدیث کی ‘قطعی’ بنیادوں پر استوار ہو. مگر جب ایک بار کوئی اصول قران و حدیث سے صریح طور پر ثابت ہوگیا تو اس کے ‘فضائل’ میں ضعیف احادیث یا دیگر سبق آموز قصے بھی بیان کے جا سکتے ہیں. اب مثال کے طور پر جنت کا ہونا اور اس میں ہر طرح کی خواہش کا پورا ہونا دین کے واضح نصوص سے ثابت ہے. اس کے حق میں قرانی آیات اور صحیح ترین احادیث موجود ہیں. اب جب جنت میں ہر نعمت ملنا ثابت ہوگیا تو اب جنت کے فضائل میں جو جو بھی احادیث یا واقعات حاصل ہوں گے ، تبلیغی جماعت اور اسی طرح کئی اور جماعتوں میں بے تکلف بیان کردیئے جائیں گے. وجہ وہی ہے کہ اب بات ‘فضائل’ کی ہے ‘اصول یا ایمانیات’ کی نہیں. اسی طرح نماز اور روزہ کا مقبول ترین عبادت ہونا قران و سنت سے اصول میں ثابت ہے. اب شوق پیدا کرنے کی غرض سے جو جو احادیث بھی ان عبادات کے ‘فضائل’ کو بیان کر رہی ہیں ، وہ بیان کر دی جائیں گی. اسی وجہ سے جب میرے جیسے سامع بناء تبلیغی جماعت کی اس اپروچ کو سمجھے بغیر ‘حور’ کے فضائل سنتے ہیں تو ناراض ہو جاتے ہیں. میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ تبلیغی جماعت کی اس رائے سے اختلاف نہ کریں. میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ پہلی بات یہ جان لیں کہ یہ رائے تبلیغی جماعت کی خود ساختہ نہیں ہے بلکہ اکابر میں رائج آراء میں سے ایک ہے. دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ یہ ضعیف واقعات میری یا آپ کی طبیعت پر چاہے کتنے ہی گراں کیوں نہ گزریں مگر کم سے کم اتنی طمانیت ضرور دیتے ہیں کہ ان کے ذریعے دین کے ‘اصول’ متعین نہیں کئے جارہے بلکہ ان کا دائرہ ‘فضائل’ تک محدود ہے.
تبلیغی جماعت پر دوسرا مشہور اعتراض مولانا طارق جمیل کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ صرف نامور ملکی شخصیتوں کو دعوت دیتے ہیں. یہ اعتراض بہت ہی کھوکھلا اور بےبنیاد ہے. اس جماعت سے کمتر ترین واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل سمیت پوری تبلیغی جماعت ہر سطح پر تبلیغ کا اہتمام کرتی ہے. مچھیروں سے لے کر طالبعلموں تک، فوج سے لے کر کرکٹرز تک اور گلوکاروں سے لے کر طوائفوں تک ان کا پیغام ایک جیسی تندہی سے پہنچایا جاتا ہے.
تبلیغی جماعت پر دوسرا مشہور اعتراض مولانا طارق جمیل کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ صرف نامور ملکی شخصیتوں کو دعوت دیتے ہیں. یہ اعتراض بہت ہی کھوکھلا اور بےبنیاد ہے. اس جماعت سے کمتر ترین واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل سمیت پوری تبلیغی جماعت ہر سطح پر تبلیغ کا اہتمام کرتی ہے. مچھیروں سے لے کر طالبعلموں تک، فوج سے لے کر کرکٹرز تک اور گلوکاروں سے لے کر طوائفوں تک ان کا پیغام ایک جیسی تندہی سے پہنچایا جاتا ہے.
ایک تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو چھوڑ کر غیرمسلموں کو کیوں دین کی دعوت نہیں دیتے ؟ .. اس کا جواب مجھے تب ملا جب میں خود انگلینڈ میں غیرمسلوں کو دعوت دینے لگا. مجھے تبلیغ کے بھائیوں نے باقاعدہ کتب مہیا کی. اسی طرح میری ملاقات بحسن اتفاق ایک بزرگ شخصیت ‘شیخ محمد جہانی’ سے ہوئی جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں مگر ان کے ہاتھ پر روز تین سے چار لوگ اسلام قبول کرتے ہیں. لہٰذا یہ سوچنا کہ تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ غیرمسلم افراد کی جانب بلکل توجہ نہیں کرتے، سراسر بےبنیاد ہے. یہ ضرور ہے کہ ان کی ترجیح پہلے اپنے مسلم بھائیوں کی اصلاح ہے .
اسی طرح ایک چوتھا اعتراض یہ ہے کہ یہ سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ بدعات ہیں. لیکن ان سے بات کیجیئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اسے دین کا حصہ نہیں کہتے بلکہ اسے مباحات میں شمار کرتے ہیں. یہ ایک ترتیب ہے جو تجربہ اور اشاروں کی بنیاد پر بنائی گئی ہے. اس کے بارے میں تبلیغی جماعت کا یہ موقف ہرگز نہیں رہا ہے کہ اگر کوئی سہہ روزہ پر نہیں گیا تو وہ گنہگار شمار ہوگا. اس بات کی بھی بار بار تلقین کی جاتی ہے کہ اس تبلیغی ترتیب سے آپ کا خاندان متاثر نہ ہو.
ایک اور معروف اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت تحقیق کیوں نہیں کرواتی. ایسا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس جماعت کے مقاصد کیا ہیں ؟ معلوم ہوگا کہ اس جماعت کا قیام اسلئے نہیں کیا گیا ہے کہ بڑے بڑے محققین پیدا کئے جاسکیں بلکہ اس کے وجود کا واحد مقصد لوگوں کو بنیادی باتوں کی جانب بلانا ہے. بیشمار لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، ہندوستان وغیرہ میں موجود ہیں جو کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے. اس جماعت کا مقصد لوگوں کو بنیادی باتوں کی جانب بلانا ہے جیسے ارکان اسلام یا اچھے اخلاق اور اس ضمن میں یہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں . اعتراضات کی ایک طویل فہرست ہے جو مرتب کی جاسکتی ہے مگر طوالت کی بناء پر میں اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں. اختلاف کیجیئے ، ضرور کیجیئے مگر جہاں اس جماعت پر تنقید کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہاں یہ اخلاقی جرات بھی پیدا کریں کہ ساتھ ساتھ ان کے محاسن کا اعتراف بھی کرسکیں. الله پاک ہم سب میں محبت پیدا کرے اور ہم سب کو اپنی اصلاح کی توفیق دے، آمین.عظیم الرحمن عثمانی نے اکتوبر 20, 2015 کو شائع کیا —
DAWAT O TABLIGH & ISLAH
PARADISE FOR ALL MANKIND..This was the Motto of Prophet Muhammad Sallallahu Alaihu wasallam.He even cried at the death of a Jew. We are his ummati Our concern should be same. To start simultaneously from ourself, family,locality,country to whole mankind till the day of Judgment. Dawah is very effective tool for our correction also.Our success for life here and Hereafter THE LIFE AFTER DEATH is in obeying commands of Allah and following Path of Hazrat Muhammad sallallahu Alahi Wasallam
1.Fazail e Amaal is collection of Nine books in two volume on virtues/Fazail of different acts like Salat, Quran, Rememberance of Allah, Dawah o Tabligh, Fasting and Ramzan, Haj and Umrah, Charity and Huququl Ibad (Personal Social relation and Obligations).Two other books are Stories of Sahaba and Present Degeneration of Muslims and its Remeady.
2.The purpose of Fazail e Amaal to encourage muslim to be connected with Quranic Life.Fazail/virtues of acts/worship strengthen belief on the Rewards of Allah e.g. If I pray Salat with Jamaat/congregation Allah will give reward 27 times more, strong belief on the promises of Allah is the key for moving towards Quranic commands and Islamic way of life.
3.In Fazail e Amaal On each Topic Quranic Ayats Ahadith has been put together with great efforts by Sheikhul Hadith(Person who teaches Bukhari Shareef) Maulana Muhammad Zakariyya (Rah), one of the most distinguished scholar of Islamic World of Last century.
4.In covering different topics Hadhrat sheikh has mentioned Hadith touching the collateral topics also. For example if Hadith is about Salat in which some mention about Child Family Tarbiat (Care) has been done. Then sheikh in commentary will give the related Ahadith about Family Care also. This has made the book very useful and effective for encouraging towards Quranic Life.The millions of people benefiting from, is a reflection of Allah acceptance for the book and writer.
3.Without any doubt Fazail e Amaal hasbenefited hundreds of millions all over the world not only giving Ilm but connecting them with Quranic Life. Islam is a way of Life and not a philosophy and Practical Islamic life is very important for spreading Islam.
5.Although Sheikhul hadith Maulana Zakaria has writtenFazail e Amaal in accordancewith the principles laid down by Great Imams/Scholars on issues like use of weak Ahadith for encouragement, etc.........Even Imam Bukhari R.A.has used weak Ahadith in his book Al Adabul mufrad as it was a book of Fazail, Same case with Ibne Taimmiya R.A. also..................
Sheikh Zakaria himself was an scholar of Bukhari, taught Bukhari Shareef for nearly 20 years in India and Madeena, he even has done scholary work on it ..........................................some muslim groups has some reservation on certain aspect like weak Ahadith etc. These issues are broad in ummat and not only related with book Fazail e Amaal and almost all Muhaddith/Imam among Salafus Salehin has agreed that weak Ahadith are permissible in Virtues/targeeb/Encouragement. Still...........if someone is not Comfortable with Fazail e Amaal.He may go in Jamaat/take part in the Dawah effort of Tablighi Jamaat without using Fazaile Amaal.They may use other books as below mentioned...........
................
1.Some Groups/Brothers make a Propaganda and claim that Fazail E Amaal is only book read in Tablighi Jamaat and Ijtema.
2.First of all in Weekly Ijtema Fazail e Amaal is not read at all. In weekly Ijtema Ahadith and life of prophet and Sahaba (collected in book Hayatus Sahaba) is Read Only.
3.For Individual Taleem You can chose Tafseer/Hadith/any Islamic Book of Your choice.
4.When you are in Jamaat in collective Taleem Tableeghi Jamaat Uses these Four Books.1.Muntakahab Ahadith 2.Fazail e Amaal 3. Hayatus Sahaba 4. Riyadhus Salehin.
4.Out of this Muntakhab Ahadith (Collection of Quranic Ayats and Authentic Ahadith and no Commentry/Stories) is very Popular.So they may use Muntakhab Ahadith.
1.It is a total misconception/allegation that Fazail-e-A’mal is the guide book of Tableegh Jama’at.
2.The concept of Tableegh Jama’at was not derived from this book, nor is the jama’atdependant on this book to do the work of tableegh.
3.They thought it necessary to stipulate such a book that would encourage people towards good deeds/Virtues of Emaan and Amaal e Saliha,thats why Fazail e Amaal book.
4However, it is not compulsory upon each an every person who joins this effort to read Fazail e Amaal.
5.Many Places in India and allover the world are using Muntakhib Ahadith(collection of Quranic Ayah and Ahadith on Iman, Salat, Ilm O Zikr, Ikram E Muslim, Ikhlas E niyah,Dawat E Ilallah,and Tark e Layani. ) and Hayatus Sahaba.
4However, it is not compulsory upon each an every person who joins this effort to read Fazail e Amaal.
5.Many Places in India and allover the world are using Muntakhib Ahadith(collection of Quranic Ayah and Ahadith on Iman, Salat, Ilm O Zikr, Ikram E Muslim, Ikhlas E niyah,Dawat E Ilallah,and Tark e Layani. ) and Hayatus Sahaba.
6.Many of the Arabs who are doing this effort chose to read Riyadu-s-Saliheen instead, and they are carrying on with the work of Dawat-o-Tabligh.
7. Therefore, it is totally incorrect to regard this book as the guide book of Tableegh Jama’at.
Tabligh door is open 24X7.
Come and understand it before making Allegation and confusing Muslims.
The guide book for all Muslims are only Quran and Ahadith.
May Allah save all muslims to be on truth and to prepare for Akhirah.
No comments:
Post a Comment