Saturday 17 October 2015

دنباشی؛ ایمان و استقامت کی ناقابل فراموش داستان

سیّد دنباشی کی کہانی انسانی تاریخ میں ایمان و استقامت اور عزم و حوصلے کی ناقابل فراموش داستان ہے۔ ایسی داستان جس کی عقلی و منطقی تعبیر ممکن نہیں۔ بس یہ ماننا پڑتا ہے کہ انسان کا ایمان اور جذبہ ناممکن کو بھی ممکن کرسکتا ہے اور تمام مادّی مشکلات کو پھلانگ کر حیرت انگیز نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ 

سید دنباشی کی داستان عزیمت و شجاعت کا تعلق جنگ عظیم اوّل میں اتحادیوں کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے مرکز استنبول پر بحری حملے سے ہے۔ آپ ایک نظر جغرافیہ پر ڈالیں تو دکھائی دے گا کہ ترکی کے شمال میں تین سمندر ہیں جنہیں دو درّے ملاتے ہیں۔ بحراسود اور بحرمرمرہ کو آبنائے باسفورس ملاتی ہے اور بحرمرمرہ کو بحرایجہ (Aegean Sea) سے درئہ دانیال ملاتا ہے۔ گیلی پولی کی تاریخی جنگ میں برطانیہ کا بحری بیڑہ درئہ دانیال سے گزر کر بحرمرمرہ میں آگیا تھا۔ اس بیڑے میں وہ جنگی جہاد بھی شامل تھا جو اس وقت تک بنائے جانے والے جہازوں میں سب سے بڑا اور تباہ کن جہاز سمجھا جاتا تھا۔ اس کی قیادت میں برطانوی بحری بیڑے نے سمندر میں آگ اور بارود کا طوفان برپا کر رکھا تھا۔

اس طوفان کے سائے میں اتحادی افواج کی پیش قدمی مسلسل جاری تھی اور وہ یورپی ساحل پر ترکی کا آخری قلعہ جو ’’چنک قلعہ‘‘ کہلاتا تھا، تک جاپہنچی تھیں۔ یہ آخری دفاعی حصار تھا جس کے ٹوٹنے کے بعد استنبول اتحادی افواج کے لیے ترنوالہ ہوتا اور اسے ہزیمت سے بچانا تقریباً ناممکن ہوجاتا۔ سیددنباشی کی ذمہ داری اس عثمانی جہاز پر تھی جس کو اس قلعے اور قریب جود بحری درّے کی حفاظت سونپی گئی تھی۔ اس قلعے کو ’’چنک قلعہ‘‘ اس لیے کہتے تھے کہ اس کی شکل بھی تالے جیسے تھی اور یہ حقیقت میں بھی استنبول کا تالا تھا۔ یہ عثمانی افواج کے دفاع کا آخری مرکز تھا اور اس کا بند ٹوٹنے کا مطلب پہلے استنبول اور پھر ترکی کا اتحادی یلغار کے ریلے میں بہہ جاتا تھا۔ 

سیددنباشی کے مدافعتی جہاز کا برطانوی بحری جہاز سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ برطانوی جہاز کی مسلسل گولہ باری سے دنباشی کے جہاز میں شگاف پڑگئے تھے۔ اس کی توپیں دبے دبے انداز میں خود بھی گولے داغ رہی تھیں۔ آخر برطانوی جہاز کا ایک گولہ ایسا آکر لگا کہ دنباشی کے ساتھ موجود تمام عثمانی سپاہی شہید ہوگئے۔ سوائے دنباشی اور ایک زخمی جوان کے کوئی نہ بچا۔ عثمانی جہاز کی توپیں خاموش ہوچکی تھیں۔ ان کی طرف سے رہی سہی مدافعت ختم ہوچکی تھی اور برطانوی بحری بیڑے کی کشتیوں اور جہازوں نے بے دھڑک درّے میں داخل ہونے کے لیے پرتول رہے تھے۔ سیددنباشی کا چھوٹا سا جہاز آخری ہچکی لے رہا تھا۔ اس میں سوار تمام عثمانی مجاہد شہید ہوچکے تھے۔ ایک زخمی اور ایک سیددنباشی دو آدمی باقی تھے۔ اس جہاز میں جو توپ تھی اس سے 140 کا گولہ پھینکا جاتا تھا۔ اس گولے کو ایک چھوٹی سی کرین اُٹھاکر پٹڑی نما آلے پر ڈالتی تھی۔ وہاں سے وہ آگے بڑھتا اور توپ کی نال تک پھسلتا چلتا جاتا۔ دنباشی نے دیکھا کہ برطانوی جہاز اطمینان سے آگے بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ عثمانی جہازوں کی مدافعت دم توڑ چکی ہے اور اتحادی افواج اب استنبول تک بغیر مزاحمت کے جارہی ہیں۔ اس کے ایمان اور غیرت نے برداشت نہ کیا۔ اس نے ہمت کی اور گولہ لوڈ کرنے والی کرین تک گیا۔ وہ ناکارہ ہوچکی تھی، لیکن دنباشی ایک آخری کوشش کرنا چاہتا تھا۔ عام طور پر 6 میٹر طویل اس توپ کو چلانے کے لیے 10 آدمی ڈیوٹی دیتے تھے۔ دنباشی نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھوں سے گولہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ گولہ اس کے ہاتھوں سے کندھے پر منتقل ہوا۔ آپ تصویر دیکھیے۔ دنباشی نے کندھے پر گولہ اُٹھاکر توپ تک پہنچایا۔ برطانوی بحری جہاز کو نشانے پر لیا جو خراماں خراماں فاتحانہ شان سے چلا آرہا تھا اور ’’بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کہہ کر گولہ داغ دیا۔ گولہ نشانے پر لگا۔ برطانوی ششدر رہ گئے۔ پھر استنبول کا رُخ چھوڑ کر دنباشی کے جہاز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ دنباشی نے دیکھا کہ برطانوی جہاز قریب آرہا ہے۔ ایک اور کوشش کرنے میں حرج نہیں ہے۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر وہ گولہ اُٹھالیا جو عام حالات میں اس جیسے کئی آدمی نہیں اُٹھاسکتے تھے۔ پھر اس کو نشانہ باندھ کر داغ دیا۔ یہ وار کاری تھا۔ برطانوی جہاز میں آگ لگ گئی۔ فتح کے نعروں کی جگہ چیخ و پکارنے لے لی۔ دنباشی کے ایمان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ آج تک اس شکست کی لغت مٹانے کے لیے اتحادی صحافی اور برطانوی تاریخ نگار لکھتے ہیں کہ برطانوی جہاز بھنور میں پھنس گیا تھا۔ اس علاقے میں بھنور کبھی تھے نہ آج ہیں۔ اس جگہ برطانوی جہاز ایک مجاہد کے ایمان کے سامنے شکست کھاگیا نہ کہ سمندری بھنور میں پھنس کر۔

                      ۱
جب عثمانی افسران کو یقین تھا کہ ہمارا کوئی جوان زندہ باقی نہیں ہے اور اسنبتول کو وہ ہاتھ سے جاتے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ کایا پلٹتے دیکھ کر بھاگم بھاگ دنباشی کے جہاز پر پہنچے تو دیکھا کہ دنباشی زخمی ساتھی کی دیکھ بھال کررہا ہے۔ انہوں نے جائزہ لیا کہ دو گولے کس طرح چلائے گئے۔ زخمی نے بتایا کہ دنباشی نے چلائے ہیں۔ انہوں نے دنباشی سے کہا گولہ اُٹھاکر دکھائو۔ دنباشی جیسے دو آدمی ایسے گولے کو ہلا بھی نہ سکتے تھے، لیکن پٹڑی پر نشان موجود تھے۔ کرین خراب کھڑی تھی۔ وہ استعمال نہیں ہوئی تھی، لیکن گولے یقینا چلائے گئے تھے۔ ہدف سے اُٹھنے والی آگ بھی گواہ تھی کہ ایمان ابراہمی نے آتش نمرود میں آج پھر انداز گلستان پیدا کردیا ہے۔ تمام افسران نے ایک گولہ خالی کرواکے دنباشی سے کہا: ’’گولہ اُٹھائو اور توپ تک لے جائو۔ ہم تمہارے اس کارنامے کو عثمانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے سبق آموز یادگار بناناچاہتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن سید دنباشی کے کارنامے کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ 

راقم نے جب پہلی مرتبہ یہ ماڈل ایک دکان کے شوکیس پر دیکھا تو تعجب ہوا کہ کندھے پر گولہ اُٹھائے سپاہی کی توپ تک روانگی کا ماڈل کس غرض سے بنایا گیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ 18 مارچ 1915ء کے دن دنباشی کے کارنامے کی یادگار ہے۔ اس یادگار میں ترکی میں ’’18 مارچ یونیورسٹی‘‘ (Canakkale 18 March University) کے نام سے عظیم تعلیمی ادارہ بنایا گیا۔ یہ اس جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں اس واقعے کے چند دنوں بعد 2 لاکھ عثمانیوں نے جمع ہوکر عید کی نماز پڑھی۔ شکرانہ ادا کیا اور دنباشی کے کارنامے کو تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی خاطر یہاں ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں اس ادارے کے مشاہدے کا موقع ملا۔ سیکولر دور میں یہاں دینیات پر پابندی لگادی گئی تھی۔ شراب سستے داموں بکتی تھی۔ ترکی کے موجودہ انقلابی حکمران طیب اردگان نے یہاں ’’علوم اسلامیہ‘‘ کا شعبہ جاری رکھا اور افتتاحی خطاب میں اس جملے کو موضوع بنایا گیا کہ ہم یہاں مجاہدین اور شہداء کی قربانیوں کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کردیں گے۔ دنباشی ایک عام مجاہد تھا، لیکن اس کی جراء ت ایمانی نے وہ ناقابل فراموش تاریخ رقم کی جس کی کوئی عقلی و منطقی توجیہ نہیں کی جاسکتی، لیکن اہلِ ایمان کو ہمیشہ ایمان کی تازگی کا ذریعہ فراہم کرتی رہے گی۔

                        ۲

No comments:

Post a Comment