از:
مولانامحمد شعیب اللہ خاں،
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم،
بنگلور
تصویر کی حرمت پر بہت سے علماء نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے اور ہند و بیرونِ ہند کے دارالافتاوٴں سے بھی اس کے بارے میں حرمت کے فتاوی باربار جاری ہوتے رہے ہیں۔ اور تقریباً اس کا حرام و ناجائز ہونا عوام و خواص کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے ؛مگر اس کے باوجو د اس میں عوام تو عوام خواصِ امت کا بھی ابتلاء عام ہے ، اور اسی صورتِ حال کو دیکھ کر بعض ناواقف لوگوں کو اس کے جائز ہونے کا شبہ ہوجاتا ہے ،بالخصوص جب علماء و مدارس اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کی جانب سے تصاویر کے سلسلہ میں نرم رویہ برتا جاتا ہے اور ان کی تصاویر اخبارات و رسائل وجرائد میں بلا کسی روک ٹوک کے شائع ہوتی ہیں، تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ حلال ہونے کی وجہ سے لی جا رہی ہے یا یہ کہ ان کے تساہل کا نتیجہ ہے؟ پھر جب وہ علماء کی جانب رجوع کرتا ہے اور اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو حرام ہے ۔اس سے اس کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ علماء کے بارے میں کسی منفی رائے کے قائم کرنے میں حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ علماء کی تصاویر کے سلسلہ نے جہاں عوام الناس کو بے چینی و پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، وہیں اس سے ایک حرام کے حلال سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے ، جو اور بھی زیادہ خطرناک و انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے ؛ کیونکہ حرام کو حرام اورحلال کو حلال سمجھنا ایمان کا لازمہ ہے ،اگر کوئی حرام کو حلال سمجھنے لگے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو تا ہے ۔
کسی عربی شاعر نے اسی صورت پر دلگیر ہو کر یہ مرثیہ لکھا ہے :
کَفٰی حُزْنًا لِلدِّینِ أَنّ حَمَاتَہُ
اِذَا خَذَلُوْہُ قُلْ لَنَا کَیْفَ یُْنصَر
مَتٰی یَسْلَمُ الْاِسْلَامُ مِمَّا أَصَابَہ
اِذَا کَانَ مَنْ یُرْجٰی یُخَافُ وَ یُحْذَر
(دین پر غم کے لیے یہ کافی ہے کہ دین کے محافظ ہی جب اس کو ذلیل کریں تو مجھے بتاوٴ دین کی کیسے نصرت ہو گی ؟ اسلام کب ان باتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو اس کو پیش آرہی ہیں جبکہ جن لوگوں سے اسلام کی حفاظت کے لیے امید لگی ہوئی تھی انھیں سے اس کو خوف وخطرہ لاحق ہو گیا ہے)
آج کئی مدارس اور علماء اور دینی و ملی تحریکات کے ذمہ داران کی تصاویر آئے دن اخبارات میں بلا تامل شائع ہو تی ہیں ، یہاں تک کہ بعض علماء کی جانب سے شائع ہو نے والے ماہناموں میں بھی تصاویر کی بھرمار ہو تی ہے اور ان میں عورتوں اور لڑ کیوں کی تصاویر بھی ہو تی ہیں ۔کیا یہ صورتِ حال انتہائی تعجب خیزاور افسوس ناک نہیں ؟ علماء جو رہبرانِ قوم تھے ان کا خود یہ حال ہو تو عوام الناس کہاں جائیں ؟ کسی شاعر نے کہا:
بِالْمِلْحِ نُصْلِحُ مَا نَخْشٰی تَغَیُّرَہ
فَکَیْفَ بِالْمِلْحِ اِنْ حَلَّتْ بِہِ الْغِیَر
(ہم نمک کے ذریعہ اس کھانے کی اصلاح کرتے ہیں جس کے خراب ہوجانے کا خدشہ ہو ، اگر نمک ہی میں خرابی پیدا ہو جائے تو کیا حال ہو گا)
ہمارے اکابر و علماء و مشائخ تو حلال امور میں بھی احتیاط برتتے اور لوگوں کے لیے تقوے کا ایک اعلی نمونہ ہوا کرتے تھے ،اور یہاں یہ ہو رہا ہے کہ حرام کا ارتکاب بے محابا اور کھلے طور پر کیا جا رہا ہے ۔اگر اس میں اختلاف بھی مان لیا جائے تو رہبرانِ قوم کا کیا فرض بنتا ہے ؟ اس پر غور کیجیے ۔
حرمتِ تصویراور جمہورِ امت کا مسلک
عکسی تصویراور ٹی وی اور ویڈیو کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علماء ہند و پاک ہی ان کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور عالم اسلام کے دوسرے علماء جیسے علماء عرب و مصر وغیرہ سب کے سب ان کو جائز کہتے ہیں ،یہ غلط فہمی خود بندے کو بھی رہی ،لیکن ایک مطالعہ کے دوران علماء عرب و مصر کے متعدد فتاوی وتحریرات نظر سے گزریں تو اندازہ ہوا کہ ان حضرات میں سے بھی جمہورعلماء کا ” عکسی تصویر“ اور” ٹی وی“ اور” ویڈیو “کے بارے میں وہی نقطہ ٴ نظر ہے جو ہندوستانی و پاکستانی علماء کا شروع سے رہا ہے ۔
ہاں اس میں شک نہیں کہ وہاں کے بعض گنے چنے علماء نے عکسی تصویر کو جائز کہا ہے اور ٹی وی اور ویڈیو کی تصاویر کو بھی عکس مان کر ان کو بھی جائز کہا ہے،لیکن یہ وہاں کے جمہور کا فتوی نہیں ہے، جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ یہ تصاویر کے حکم میں ہیں اور اس لیے حرام و ناجائز ہیں ۔ اور خود وہاں کے علماء نے مجوزین کا خوب رد و انکار بھی کردیا ہے ۔جیسے شیخ حمود بن عبد اللہ التویجری نے ” تحریم التصویر “ اور” الاعلان بالنکیر علی المفتونین بالتصویر “نامی رسائل اسی سلسلہ میں لکھے ہیں ، نیز جامعہ قصیم کے استاذ شیخ عبد اللہ بن محمد الطیار نے ” صناعة الصورة بالید مع بیان احکام التصویر الفوتوغرافي “ کے نام سے رسالہ لکھا ہے ،اور مصر کے عالم شیخ ابو ذر القلمونی نے ”فتنة تصویر العلماء “ کے نام سے ان کا رد لکھا ہے ، نیز علماء نے اپنے اپنے فتاوی میں بھی اس پر کلام کیا ہے ۔اسی طرح ڈش آنٹینا جس کا فساد اب حد سے تجاوز کرگیا ہے اور اس نے انسانوں کی تباہی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے، اس کے بارے میں بھی علماء عرب کے فتاوی میں حرمت کا حکم اور اس سے بچنے کی تلقین موجود ہے ۔
حرمتِ تصویر اور علماء ہند،پاک
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیاکہ کیمرے کی عکسی تصویر کی حرمت میں اگر چہ معاصر علماء کے درمیان میں اختلاف ہوا ہے ،اور ایک چھوٹی سی جماعت اس کے جواز کی جانب مائل ہو ئی ہے ،لیکن اس میں کیا شک ہے کہ تصویر کی حرمت جمہور امت کا متفقہ فتوی و فیصلہ ہے ، عرب سے لے کر عجم تک جمہور امت نے اسی کو قبول کیا ہے ۔
جہاں تک علماء ہند،پاک کا تعلق ہے ،بات بالکل واضح و مسلم ہے ۔ فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ علیہ نے تو اپنے رسالہ ”التصویر لأحکام التصویر“میں یہ تصریح کی ہے کہ ان کے زمانے تک کم از کم ہندوستان (جو اس وقت تک غیر منقسم تھا)میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے علاوہ کسی نے جواز پر قلم نہیں اٹھایااور پھر انھوں نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔ (جواہر الفقہ: ۳/۱۷۱)
یہاں یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے ماہنامہ ” معارف“ کی متعدد قسطوں میں ایک مضمون عکسی تصویر کے جائز ہونے پر لکھا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس کے رد میں ”التصویر لأحکام التصویر“ لکھی ، اس کو دیکھ کر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے جواز کے قول سے رجوع کر لیا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ رجوع و اعتراف کا مضمون علامہ سید صاحب کے کمال علم اور کمال تقوی کا بہت بڑا شاہکار ہے ، اس پر خود حضرت مرشد تھانوی سیدی حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے غیر معمولی مسرت کا اظہار نظم میں فرمایا ۔
No comments:
Post a Comment