اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك
اے الله همیں اپنے غضب کی وجه سے قتل نه کرنا اور اپنے عذاب کے ذریعے هلاک نه کرنا اور همیں اس سے پهلے هی عافیت عطا فرمادینا...
زلزلہ کے وقت کا عمل
زلزلہ کےموقع پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کرناچاہئے،کثرت سےتوبہ و استغفار کرنا چاہئے،نیز انفرادی طور پردو رکعت نفل نماز،زلزلہ کی تباہی سے محفوظ رہنے کی غرض سے پڑھی جائے۔
مآخذ﴿فتوی نمبر:39/1232) جامعہ دارالعلوم کراچی
دعاء وقت زلزال
اللهم إني أسألك العافية في الدنيا والآخرة، اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي، اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي، اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي، وعن يميني، وعن شمالي، ومن فوقي، وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي
زلزلے ہیں آفات الہی
اے الله همیں اپنے غضب کی وجه سے قتل نه کرنا اور اپنے عذاب کے ذریعے هلاک نه کرنا اور همیں اس سے پهلے هی عافیت عطا فرمادینا...
زلزلہ کے وقت کا عمل
زلزلہ کےموقع پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کرناچاہئے،کثرت سےتوبہ و استغفار کرنا چاہئے،نیز انفرادی طور پردو رکعت نفل نماز،زلزلہ کی تباہی سے محفوظ رہنے کی غرض سے پڑھی جائے۔
مآخذ﴿فتوی نمبر:39/1232) جامعہ دارالعلوم کراچی
دعاء وقت زلزال
اللهم إني أسألك العافية في الدنيا والآخرة، اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي، اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي، اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي، وعن يميني، وعن شمالي، ومن فوقي، وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي
زلزلے ہیں آفات الہی
ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: “ ﯾﮑﻮﻥ ﻓﯽ ﺁﺧﺮ ﮨﺬﮦ ﺍﻷﻣﺔ ﺧﺴﻒ ﻭﻣﺴﺦ ﻭﻗﺬﻑ ﻗﺎﻟﺖ : ﻗﻠﺖ: ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ، ﺃﻧﮭﻠﮏ ﻭﻓﯿﻨﺎﺍﻟﺼﺎﻟﺤﻮﻥ؟ﻗﺎﻝ:ﻧﻌﻢ، ﺍﺫﺍﮐﺜﺮﺍﻟﺨﺒﺚ
(ﺃﺧﺮﺟﮧﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ:2185 )
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽﺻﻠﻰﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺍﺭﺷﺎﺩﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻨﺴﺎ ﺩﺋﮯﺟﺎﻧﮯ،ﺻﻮﺭﺗﻮﮞﮐﻮﻣﺴﺦ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞﺳﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ : ﺍﮮﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯﺭﺳﻮﻝ!ﮨﻤﺎﺭﮮﺍﻧﺪﺭﺍﺑﮭﯽ ﻧﯿﮏﻟﻮﮒﻣﻮﺟﻮﺩﮨﻮﻧﮕﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺩﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ؟
ﺁﭖﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﮨﺎﮞ ﺟﺐ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻋﺎﻡ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺗﺸﺮﯾﺢ : ﺁﺝ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﮯ ﮔﻮﺷﮯ ﻣﯿﮟﺯﻟﺰﻟﮯ،ﺳﯿﻼﺏﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﺎﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ، ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﺲ ﺟﺎﻧﮯ، ﻓﻠﮏ ﺑﻮﺱ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺑﻮﺱ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﯿﻼﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽﺯﺩﻣﯿﮟﺁﺟﺎﻧﮯﮐﮯﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻥﺁﻓﺎﺕ ﻭ ﺑﻼ ﮐﯽ ﻃﺒﻌﯽ ﻭﻓﻄﺮﯼ ﻭﺟﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺪﺍﻋﻤﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﮯ ، ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎﮐﻮﺋﯽ ﮔﻮﺷﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺧﺎﻟﻖ ﻭﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﮐﮭﻠﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ ، ﯾﮩﯽﻭﮦ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﯿﻦ ﮔﻮﺋﯽ ﺻﺎﺩﻕ ﻭ ﻣﺼﺪﻭﻕﻧﺒﯽﺍﻣﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕﻣﺤﻤﺪﻣﺼﻄﻔﯽﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺯﯾﺮﺑﺤﺚﺣﺪﯾﺚﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﺱﺍﻣﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﮏﻭﻗﺖﺍﯾﺴﺎ ﺿﺮﻭﺭﺁﺋﮯﮔﺎﺟﺐﻟﻮﮒ ﺯﻟﺰﻟﻮﮞ ،ﺻﻮﺭﺕ ﻭﺳﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺴﺦﮨﻮﺟﺎﻧﮯﺍﻭﺭﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ،ﺍﻭﺭﺍﯾﺴﺎﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﻇﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﻌﺾ ﺑﺪ ﺍﻋﻤﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺩﺍﺵ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ، ﺟﯿﺴﮯﺯﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻮﺭ ﺯﻧﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻋﺎﻡ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯﺩﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺒﺎﺣﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ، ﮔﺎﻧﮯ ﻭ ﺑﺎﺟﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻋﺎﻡ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﮔﮯ ، ﺷﺮﺍﺏ ﻭ ﻣﻨﺸﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭﮦ ﺍﺱﻗﺪﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﻭ ﻣﺴﻠﻤﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﮏ ﮐﺮﻧﮯﻟﮕﯿﮟ ﮔﮯﺗﻮﺍﯾﺴﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺗﻌﺠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﺒﺎﮦﮐﻦ ﺣﺎﻻﺕ ﻭ ﻇﺮﻭﻑ ﭘﯿﺶ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧﺗﻌﺠﺐ ﺗﻮ ﯾﮧﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺳﺒﺐ ﮨﮯﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖﺍﻟﮩﯽ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ، ﺟﻮ ﺍﻥ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﮯ ﻇﺎﮨﺮﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﮨﮯ ،
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ :
ﻭﻣﺎ ﻧﺮﺳﻞﺑﺎﻵﯾﺎﺕ ﺍﻻ ﺗﺨﻮﯾﻔﺎ “
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺗﻮﻣﺤﺾ ﮈﺭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯﻧﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻻﺳﺮﺍﺉ : 59
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺁﻓﺎﺕ ﻭ ﺑﻼ ﺀﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻠﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺘﻨﺒﮧ ﮐﺮﻧﺎﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭨﻨﮯ ﮐﯽﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﺎﮨﮯ۔
ﻓﻮﺍﺋﺪ : ( 1 ) ﺯﻟﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮨﮯ۔
( 2 ) ﮔﻨﺎﮦ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﯿﮟ۔
( 3 ) ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﻣﺼﯿﺒﺖ ﻭ ﺑﻼ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯﻭﮦﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺩﺍﺵ ﮨﮯ۔
( 4 ) ﺯﻟﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ، ﺳﯿﻼﺏ ﻭ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞﮐﻮ ﻣﺘﻨﺒﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﯽﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ
مصائب کے وقت کی دعا
عن ابن عمر – رضي الله عنهما –
قال: «لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يَدَعُ هَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ حِينَ يُمْسِى وَحِينَ يُصْبِحُ« اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِى دِينِى وَدُنْيَاىَ وَأَهْلِى وَمَالِى اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِى وَآمِنْ رَوْعَاتِى اللَّهُمَّ احْفَظْنِى مِنْ بَيْنِ يَدَىَّ وَمِنْ خَلْفِى وَعَنْ يَمِينِى وَعَنْ شِمَالِى وَمِنْ فَوْقِى وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِى ».
( سنن أبوداود : 5074 ، الأدب ، سنن إبن ماجة : 3871 ، الدعاء ، مسند أحمد : 2/25 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شام کو اور صبح کے وقت یہ دعائیں پڑھنا نہ چھوڑتے تھے ،
دعا کا ترجمہ
اے اللہ تعالی میں آپ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے آرام و راحت کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ میں آپ سے اپنے دین و دنیا میں اور اہل وعیال میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ میرے عیبوں کو چھپالے ، خوف و خطرات سے مجھے امن عطا کر ، اے اللہ میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور میرے پیچھے سے ، میرے دائیں اور میرے بائیں سے ، اوپر کی جانب سے میری حفاظت فرما ، اور اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے نیچے کی طرف سے ہلاک کردیا جائے \" ، امام وکیع بیان کرتے ہیں کہ نیچے کی جانب سے ہلاک کرنے کا معنی :
زلزلہ وغیرہ کے ذریعہ زمین میں دھنسا دیا جانا ہے ۔
سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، مسند احمد
اللہ سب کو حفظ و امان میں رکهے آمین :
7.7 ﺷﺪﺕ ﮐﺎ ﺯﻟﺰﻟﮧ
مصائب کے وقت کی دعا
عن ابن عمر – رضي الله عنهما –
قال: «لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يَدَعُ هَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ حِينَ يُمْسِى وَحِينَ يُصْبِحُ« اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِى دِينِى وَدُنْيَاىَ وَأَهْلِى وَمَالِى اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِى وَآمِنْ رَوْعَاتِى اللَّهُمَّ احْفَظْنِى مِنْ بَيْنِ يَدَىَّ وَمِنْ خَلْفِى وَعَنْ يَمِينِى وَعَنْ شِمَالِى وَمِنْ فَوْقِى وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِى ».
( سنن أبوداود : 5074 ، الأدب ، سنن إبن ماجة : 3871 ، الدعاء ، مسند أحمد : 2/25 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شام کو اور صبح کے وقت یہ دعائیں پڑھنا نہ چھوڑتے تھے ،
دعا کا ترجمہ
اے اللہ تعالی میں آپ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے آرام و راحت کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ میں آپ سے اپنے دین و دنیا میں اور اہل وعیال میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ، اے اللہ میرے عیبوں کو چھپالے ، خوف و خطرات سے مجھے امن عطا کر ، اے اللہ میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور میرے پیچھے سے ، میرے دائیں اور میرے بائیں سے ، اوپر کی جانب سے میری حفاظت فرما ، اور اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے نیچے کی طرف سے ہلاک کردیا جائے \" ، امام وکیع بیان کرتے ہیں کہ نیچے کی جانب سے ہلاک کرنے کا معنی :
زلزلہ وغیرہ کے ذریعہ زمین میں دھنسا دیا جانا ہے ۔
سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، مسند احمد
اللہ سب کو حفظ و امان میں رکهے آمین :
7.7 ﺷﺪﺕ ﮐﺎ ﺯﻟﺰﻟﮧ
دراصل اﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﯿﻮﻟﻮﺟﯿﮑﻞ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻼﻗﻮﮞﻣﯿﮟ ﺭﯾﮑﭩﺮ ﺳﮑﯿﻞ ﭘﺮ 7.7 ﺷﺪﺕ ﮐﺎ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﯽ ﻣﺮﮐﺰ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻓﺘﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻓﯿﺾ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ 196ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮﺗﮭﯽ۔
ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ شاہد ہیں کہ ہند،ﭘﺎک ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻼﻗﻮﮞﻣﯿﮟ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺒﺮ ﭘﺨﺘﻮﻧﺨﻮﺍ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ شہرﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺩﮨﻠﯽ ﺗﮏ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ گئے...
جب تک اللہ توفیق نہ دے
رابعہ بصری سےکسی نےپوچها کہ کیا گنہگارکی توبہ قبول ھوتی ھے؟
فرمایا: انسان اس وقت تک توبہ کرھی نہیں سکتا جب تک اللہ توفیق نہ دے اور جب توفیق مل جاۓتو پهر قبولیت میں کوئی شک نہیں.
اسباب اور کرنے کے کام
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ . حال وارد کینیا
پاکستان، کشمیر ،انڈیا، افغانستان اور بعض دیگر ممالک کے بعض علاقوں میں حالیہ زلزلہ سے بہت تباہی پھیلی ہے اور بہت بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ تادم تحریر کئی افراد اس کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسے ہیں اور سینکڑوں شدید زخمی ہیں۔
جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے لے کر اب تک اور تا قیامت آفات و حوادثات پیش آتے رہتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ آفات و بلیَات کے اسباب و عوامل اور عناصر معلوم کر کے ان کی روک تھام کا بندوبست کیا جائے یہ عقل انسانی کے عین مطابق بھی اور وقت کا اہم تقاضا بھی۔
زلزلے کے اسباب:
بعض لوگ اس کو محض سائنس کا ہی کرشمہ تصور کرتے ہیں اور اس کے اسباب کو سائنسی وجوہات کے زاویے سے ہی پرکھتے ہیں جبکہ اہل اسلام کا اس بارے نظریہ وہی ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، سائنسی وجوہات کا دارومدار بھی اللہ احکم الحاکمین کے حکم کے پر ہے۔ اس لیے محض سائنسی وجوہات تک محدود رہنے کی بجائے اس کے آگے اللہ رب العزت کے حکم اور ارادہ کو اثر انداز ماننا چاہیے۔ دنیا میں جو کچھ فساد رونما ہوتا ہے اس بارے میں اللہ رب العزت کا واضح ارشاد موجود ہے:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس۔ بر و بحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا کیا دھرا ہے۔
جامع ترمذی میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ والسلام نے ارشاد فر مایا کہ
1. جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھاجانے لگے ۔
2. امانت؛ غنیمت سمجھ کر دبالی جائے۔
3. زکوٰة کو تاوان سمجھا جانے لگے۔
4. دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے۔
5. انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور ماں کو ستائے۔
6. دوست کو قریب کرے اور ماں باپ کو دور کرے۔
7. انسان کی عزت اس لئے کی جائے تاکہ وہ شرارت نہ پھیلائے۔
8. گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے۔
9. شرابیں پی جانے لگیں۔
10. اور بعد میں آنے والے لوگ امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
تواس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو
زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو
اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جا ئے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں۔
امام ابن ابی الدنیا نے روایت کی ہے کہ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ”ام المؤمنین ہمیں زلزلہ کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے؟ “ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا” جب لوگ زنا کو حلال کر لیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو الله تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔“
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا ”اے زمین! تو ساکن ہو جا“ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔ اس کے بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ”اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے۔“
فقیہ امت جلیل القدر صحابی سیدناعبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:
أيها الناس! إن ربَّكم يستعتِبُكم فأعتِبُوه؛
أي: فاقبَلُوا عتبَه،
وتوبوا إليه قبل ألا يُبالِيَ في أي وادٍ هلكتُم
ترجمہ: اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اُمّت میں زمین دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ ہونے کا اور پتھر برسنے کا عذاب بھی ہو گا“ ایک شخص نے عرض کیا کہ کب ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہو جائے گا اورشرابیں پی جانے لگیں گی ۔“ (سنن ترمذی)
کرنے کے کام:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ نے اپنے گورنروں کو پیغام بھیجا تھا کہ ”سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام کی دعا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخٰسرین ( ترجمہ) 'اے پروردگار !ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ،اگر تو ہمیں معاف نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے' کثرت سے پڑھا کرو۔“
(الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی: 54-53، مصنفہ علامہ ابن القیم)
اور شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں یہ لکھ کر بھیجا :اخرُجوا، ومن استطاعَ منكم أن يُخرِجَ صدقةً فليفعَل؛ فإن الله تعالى يقول: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
(14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى
الأعلى: 14، 15
نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا۔
توبہ و استغفار، صدقہ اور بعض اہلِ علم کے نزدیک (ایسے موقع پر) جماعت کے علاوہ (اکیلے، انفرادی) نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔چنانچہ بیہقی شریف میں ہے :صلَّى ابنُ عباسٍ - رضي الله عنهما - للزلزلةِ بالبصرة"؛ رواه البيهقي بسندٍ صحيحٍ.
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بصرہ میں زلزلہ (نہ ہونے یا رُکنے) کی نماز پڑھی۔
جذبہ خیر خواہی
یاد رکهیں کہ زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات محض عذاب ہی نہیں بلکہ اللہ کے نیک بندوں پر بطور آزمائش بهی آتی ہیں. اس لیے رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے تمام افراد سے گزارش ہے کہ آفت زدہ لوگوں کی بلا تفریق مذہب بحیثیت انسان ہر ممکن امداد کی جائے، بالخصوص اسلام تو اپنے پیروکاروں کو یہی تعلیم دیتا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں اجتماعی طور پر مسلم و غیر مسلم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر رفاہی خدمات انجام دی جائیں، اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور اس تنبیہ سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر موت آجاتی
ایک پل کو سوچئے کہ اگر اس زلزلے میں اور سینکڑوں لوگوں کے ساتھ ہماری موت لکھی ہوتی تو کیا ہم اس وقت موت کیلئے تیار ہیں کیا ہمارے کام اس وقت جنت والے ہیں یا جہنم والے ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اگر تو موت کی تیاری کر رکھی ھے تو شکر ادا کریں ورنہ اسی وقت اللہ سے توبہ استغفار کریں
موت ایک ایسی حقیقت ھے کہ جس سے کسی کو انکار نہیں بچہ ہو جوان ہو بوڑھا ہو کالا ہو گورا ہو عورت ہو مرد ہو امیر ہو یا غریب کافر ہو مسلمان ہو سب کو موت آنی ھے ،، کل نفس ذائقۃ الموت ،، ہر شخص کو موت آنی ھے ، ہمارے آنے کا تو طریقہ کار ھے کہ پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا مگر جانے کا کوئی پتہ نہیں پہلے دادا جائے یا پوتے کو موت آجائے اور ہمارا ایمان ھے کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ھے اور پھر اپنا حساب کتاب دینا ھے کیونکہ اللہ نے فرمادیا ،، لیبلوکم ایکم احسن عملا ،، ہمیں یہاں آزمانے کیلئے بھیجا ہے کہ کون اچھے عمل کرتا ھے کون اللہ کو مان کر اللہ کے رسول کے طریقے پر چل کر اللہ کو راضی کرتا ھے اور پھر ایک دن ،، فمن یعمل مثقال زرۃ شر یرہ ،، جو برا کرے گا اس کا بدلہ پالے گا اچھا کرے گا اس کا بدلہ گا ،، عقل مند وہ ھے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرلے
ہم آج موت کی تیاری تو کیا موت کو تذکرے سے بھی بھاگتے ہیں اگر کوئی موت کے متعلق بات کرے یا کسی کو یاد دلائے تو فورا اسے چپ ہونے کا کہا جاتا ھے کیونکہ ہم مرنے کو تیار نہیں موت پسند نہیں پوری زندگی کی پلیننگ میں موت کہیں بھی شامل نہیں حالانکہ وہ کسی وقت بھی آسکتی ھے
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کے ہیں پل کی خبر نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم موت کو اکثر یاد فرماتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبرستان سے گزرتے تو بہت روتے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ موت کو یاد کرتے تو ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی ھے مگر آج ہم موت کا لفظ سننے کو تیار نہیں ہیں
نہ تیرے چاہنے سے نہ میرے چاہنے سے ہوتا ھے ہوتا ھے وہی جو منظور خدا ہوتا ھے
آج بھی وہی اللہ ھے آج ہمارے کام بھی وہی ہیں جن کی وجہ سے پچھلی امتوں پر عذاب آئے آج بھی رب کا قانون وہی ھے اس کی طاقت وہی ھے اس کا قبضہ قدرت ویسے ہی ھے آج بھی زمین اس کے امر کن سے ہلتی ھے آج بھی پہاڑ اس کے حکم سے لرزتے ہیں
وہ ہلاتا ھے جھنجوڑتا ھے موقع دیتا ھے اور پیغام دیتا ھے کہ جاگو اور موت کی تیاری کرو
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ھے
یہ عبرت کی جا ھے تماشا نہیں ھے
میں تیری پناہ لیتا ہوں
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَ أَعُوْذُبِكَ مِنَ التَّرَدِّیْ وَأَعُوْذُبِكَ مِنَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْهَرَمِ وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ یَتَخَبَّطَنِیَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ أَمُوْتَ فِیْ سَبِیْلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِیْغًا
سنن أبی داؤد:1552
اے الله!بے شک میں تیری پناہ لیتا ہوں کہ(کوئی مکان یا دیوار مجھ پر)آ گرے یا کسی بلند (مقام)سے گر پڑوں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے یا از حد بوڑھا ہو جانے سے، اور میں تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ شیطان مجھے موت کے وقت بدحواس کر دے، اورمیں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے راستے میں پیٹھ پھیرتے ہوئے مروں،اورمیں تیری پناہ لیتا ہوں اس کیفیت سے کہ(زہریلے جانور کے)کاٹنے سے مجھے موت آئے
یوروپ میںکیوں نہیں آتے زلزلے ؟
سوال
یوروپ میں گناہ زیادہ ہوتے ہیں زنا زیادہ ہوتے ہیں تو زلزلے وہاں کیوں نہیں آتے ؟
جواب
زلزلے آتے ہیں وہاں بھی سونامی بھی اور بھی بہت کچھ مگر ایک اور بات بھی ھے
کیونکہ ہم نے کلمہ پڑھا ھے ہم فرمانبرداری کے مکلف ہیں اور ہم ہی نیک اعمال اور دین سے دور ہیں تو جھنجوڑا بھی ہمیں جائے گا تاکہ اپنے اللہ کو یاد کرلیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدنیا سجن المؤمن وجنت الکافر
دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت ھے
تو اس لئے کافر کو زرا ڈھیل دی جاتی ھے
اس کی یہ جنت ھے مزے کرلیں
آخرت میں تو سزا ہی ھے انکے لئے اس کے مقابل مسلمان پر آزمائش آتی ھے
لیکن اس سے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں گناہ معاف ہوتے ہیں
سائنسی وجوہات
زلزلے کے آنے کی کئی وجوہات ہیں۔ نسلِ انسانی کی ابتدا سے ہی زلزلے کو ایک ایسی آفت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جس سے بچاو کی تمام تر تدابیر رائیگاں رہی ہیں۔سائنس دان بھی کوئی ایسا طریقۂ کار دریافت نہیں کرسکے جس کے ذریعے یہ پیش گوئی کی جاسکے کہ کب کوئی زلزلہ آئے گا؟ آج 26 اکتوبر کے زلزلے کی مناسبت سے زلزلے آنے کی وجوہات کے بارے میں اپنے دوستوں کو کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں ۔سائنسی تحقیقات کی رو سے زمین پر اس وقت ’لرزہ‘ طاری ہوتا ہے جب زیر زمین ارضی پلیٹس اپنے مقام سے سرکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس میں ایک لمحہ میں ہزاروں افراد ہلاک اور شہروں کے شہر تباہ ہوسکتے ہیں۔ ایک زلزلے کے بعد بہت سارے آفٹر شاکس آتے ہیں جن کی شدت قدرے کم ہوتی ہے اور اکثر اوقات یہ بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آفٹر شاکس چند روز سے لے کر کئی برسوں تک جاری رہ سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار زلزلہ کی شدت پر ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسی بہت سی قدرتی آفات نے تباہی مچائی ہے جن کو زلزلے کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے، جیسا کہ 2004ء میں سونامی کی لہروں نے ہندوستان، تھائی لینڈ اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساحلی علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا 2005ء میں پاکستان میں آنے والا زلزلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بنا۔
ارتعاش سے زلزلہ
اب سائنس دان اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جنہیں علمِ ارضیات کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے قرب میں واقع ہیں۔ ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault نمایاں ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زیرِزمین جو مقام میگما کے دبائو کا نشانہ بنتا ہے، اسے زیر مرکز یا Hypocenterکہتے ہیں اور اس کا بالائی مقام یا زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔زلزلوں سے پیدا ہونے والی تباہی کا براہِ راست تعلق اس کی ریکٹر سکیل پر شدت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہے۔ اگر زلزلہ سمندر کی تہہ میں آئے تو ا س سے تند و تیز لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ساحلی علاقوں میں زبردست تباہی مچاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر زلزلے زیر سمندر ہی آتے ہیں۔
تین فالٹ لائنز
دنیا میں تین فالٹ لائنز ہیں جہاں پر عموماً زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ اولین فالٹ لائن ہندوستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ میں یوگوسلاویہ سے فرانس تک جاتی ہے۔دوسری فالٹ لائن براعظم شمالی امریکا کی مغربی ریاست الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف میکسیکو سے گزر کر لاطینی امریکہ کے ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے چلّی تک پھیلی ہوئی ہے۔تیسری فالٹ لائن جاپان سے شروع ہوکر تائیوان ، فلپائن، برونائی، ملائیشیاء اور انڈونیشیا تک جاتی ہے۔
ذہن میں رہے کہ کوئی سائنس دان یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ کب کوئی زلزلہ آئے گا، چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ کسی زلزلہ سے چند گھنٹوں یا ایام قبل لوگ ممکنہ طور پر متاثرہ علاقے سے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی زلزلوں سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جاسکتا ہے، جیسا کہ جاپان میں زلزلے آنا معمول ہے لیکن اہل جاپان نے تعمیرات کرتے ہوئے اس پہلو کو پیشِ نظر رکھا ہے کہ ریکٹر سکیل پر شدید ترین زلزلہ سے بھی کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو۔
عجیب و غریب نظریات
انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈرائونے خواب مسلط رہتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔اور مالی نقصانات کا تو کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنسی ریسرچ کے حقائق کے انکشافات سے پہلے زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب نظریات لوگوں میں مروج تھے۔ آج ان نظریات میں سے کچھ کے متعلق اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔
1۔قدیم عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں ۔
2۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں۔
3۔ قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔
4۔ کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر رکھی ہوئی ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔
5۔سائبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے۔
6۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔
7۔قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔
8۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔
9۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔
10۔تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔
11۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔
12۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ''پلیٹ ٹیکٹونکس'' کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر ، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے Joint پر واقع ہیں۔
کیا یہ محض ایک اتفاق ہے ؟
دوسری طرف زلزلوں کے ساتھ منسلک ایک پہلوایسا ہے جوچونکادینے والا ہے اوروہ ہے ان زلزلوں کا 26تاریخ کے ساتھ ایک انجانامیل۔دنیا میں آنے والے زلزلوں پرایک نظرڈالی جائے تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئے گی کہ دنیا میں زیادہ تربڑ ے زلزلے اورسونامی مہینے کی 26تاریخ کو رونما ہوئے۔26تاریخ کوآنے والے چند بڑے زلزلوں کا ذکریہاں دلچسپی سے خالی نہیںہوگا،26دسمبر1932کوچین میں آنے والے زلزلے نے سترہزارندگیاں نگل لیں، 26 دسمبر 1939کو ترکی کے شہرارزن کان میں 7.8سکیل کے زلزلے نے تباہی مچادی،جس میں بتیس ہزارسے زائد لوگ مارے گئے،26جنوری 2001 کوبھارتی گجرات میں زلزلہ آیا، 7.7شدت کے زلزلے میں تقریبا بیس ہزارلوگ مارگے گئے جبکہ پونے دولاکھ زخمی ہوئے،26دسمبر2003کو ایران کے شہربام میں 6.6شدت کے زلزلے میں چھبیس ہزارسے زائد افراد لقمہ اجل بنے،26دسمبر2004کو بحرہندمیں آنے والے سونامی سے دولاکھ اسی ہزارافراد مارے گئے،9.1سکیل کے اس زلزلے نے انڈیا ،سری لنکا،انڈونیشیا،مالدیپ ،تھائی لینڈاورصو مالیہ میں تباہی مچائی،،یہ سیسمو گراف پرریکارڈ کیاجانے والا تاریخ کا تیسرابڑا زلزلہ تھا،26 فرورری 2010 کوجاپان میں سات اعشاریہ تین شدت کا زلزلہ آیا،اوکی ناواشہرمیں آنے والے اس زلزلے نے بڑی تباہی مچائی،زلزلے اور26تاریخ کا یکجا ہونا کیا محض اتفاق ہے یا قدرت کی طرف سے کوئی وارننگ جس کے لئے عام طورپر26تاریخ کا ہی انتخاب کیا جاتاہے۔
چین زلزلہ
26 جولائی 1976
گجرات زلزلے
26 جنوری 2001.
بحر ہند میں سونامی
26 دسمبر 2004
ممبئی حملے 26/11
26 نومبر 2008
تائیوان میں زلزلے
26 جولائی 2010
جاپان زلزلے
26 فروری 2010
اب نیپال میں زلزلے
26 اپریل 2015.
روڈس زلزلے 26 جون 1926
شمالی امریکہ میں زلزلے 26 جنوری 1700
یوگوسلاویہ زلزلے 26 جولائی 1963
میراپي آتش فشاں دھماکے 26 اکتوبر 2010
بام، ایران میں آئے زلزلے میں 26
دسمبر 2003 (60،000 ہلاک)
سبا سمندری لہروں 26 دسمبر
1996 (1،000 ہلاک)
ترکی زلزلہ 26دسمبر
1939 (41،000 ہلاک کانسو ،چین میں زلزلے کے 26 دسمبر 1932 (70،000 ہلاک)
پرتگال زلزلے 26 جنوری 1951 (30،000 ہلاک)
کراکتوا آتش فشاں دھماکے 26 اگست 1883 (36،000 ہلاک)
آچے سونامی دسمبر 26، 2004
تاسک زلزلے 26
جون 2010
چین زلزلہ 26 جولائی 1976
تائیوان میں زلزلے 26 جولائی 2010
جاپان زلزلے فروری 26، 2010
مین تاویہ سونامی 26 اکتوبر 2010
گجرات زلزلے 26 جنوری 2001.
ممبئی حملے 26/11
ممبئی 26 جولائی 2005 میں سیلاب
اب نیپال زلزلے 26 اپریل 2015.
اور مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی 26 مئی کو لی؟
عجیب بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری کو نافذ ہوا
نیپال زلزلے 26 اپریل 2015.
اور مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی 26 مئی کو لی؟
جبکہ جنوبی ایشیا میں حالیہ زلزلہ بھی 10/2015 26 کو آیا
کیوں یہ ہمیشہ 26 ہے؟
کیا یہ محض اتفاق ہے؟
یہ خبر کمال ہے کہ! اوردہشت بھی ہے کہ ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری کونافذ ہوا تھا!
اصل وجہ بے حیائی
اسلام میں زلزلے آنے کی اصل وجہ بے حیائی ہے۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: یا ام المومنین! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زنا کوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیں اور اپنی بد اعمالیوں سے رک جائیں تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔
جب تک اللہ توفیق نہ دے
رابعہ بصری سےکسی نےپوچها کہ کیا گنہگارکی توبہ قبول ھوتی ھے؟
فرمایا: انسان اس وقت تک توبہ کرھی نہیں سکتا جب تک اللہ توفیق نہ دے اور جب توفیق مل جاۓتو پهر قبولیت میں کوئی شک نہیں.
اسباب اور کرنے کے کام
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ . حال وارد کینیا
پاکستان، کشمیر ،انڈیا، افغانستان اور بعض دیگر ممالک کے بعض علاقوں میں حالیہ زلزلہ سے بہت تباہی پھیلی ہے اور بہت بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ تادم تحریر کئی افراد اس کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسے ہیں اور سینکڑوں شدید زخمی ہیں۔
جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے لے کر اب تک اور تا قیامت آفات و حوادثات پیش آتے رہتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ آفات و بلیَات کے اسباب و عوامل اور عناصر معلوم کر کے ان کی روک تھام کا بندوبست کیا جائے یہ عقل انسانی کے عین مطابق بھی اور وقت کا اہم تقاضا بھی۔
زلزلے کے اسباب:
بعض لوگ اس کو محض سائنس کا ہی کرشمہ تصور کرتے ہیں اور اس کے اسباب کو سائنسی وجوہات کے زاویے سے ہی پرکھتے ہیں جبکہ اہل اسلام کا اس بارے نظریہ وہی ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، سائنسی وجوہات کا دارومدار بھی اللہ احکم الحاکمین کے حکم کے پر ہے۔ اس لیے محض سائنسی وجوہات تک محدود رہنے کی بجائے اس کے آگے اللہ رب العزت کے حکم اور ارادہ کو اثر انداز ماننا چاہیے۔ دنیا میں جو کچھ فساد رونما ہوتا ہے اس بارے میں اللہ رب العزت کا واضح ارشاد موجود ہے:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس۔ بر و بحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا کیا دھرا ہے۔
جامع ترمذی میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ والسلام نے ارشاد فر مایا کہ
1. جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھاجانے لگے ۔
2. امانت؛ غنیمت سمجھ کر دبالی جائے۔
3. زکوٰة کو تاوان سمجھا جانے لگے۔
4. دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے۔
5. انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور ماں کو ستائے۔
6. دوست کو قریب کرے اور ماں باپ کو دور کرے۔
7. انسان کی عزت اس لئے کی جائے تاکہ وہ شرارت نہ پھیلائے۔
8. گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے۔
9. شرابیں پی جانے لگیں۔
10. اور بعد میں آنے والے لوگ امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
تواس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو
زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو
اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جا ئے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں۔
امام ابن ابی الدنیا نے روایت کی ہے کہ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ”ام المؤمنین ہمیں زلزلہ کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے؟ “ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا” جب لوگ زنا کو حلال کر لیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو الله تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔“
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا ”اے زمین! تو ساکن ہو جا“ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔ اس کے بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ”اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے۔“
فقیہ امت جلیل القدر صحابی سیدناعبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:
أيها الناس! إن ربَّكم يستعتِبُكم فأعتِبُوه؛
أي: فاقبَلُوا عتبَه،
وتوبوا إليه قبل ألا يُبالِيَ في أي وادٍ هلكتُم
ترجمہ: اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اُمّت میں زمین دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ ہونے کا اور پتھر برسنے کا عذاب بھی ہو گا“ ایک شخص نے عرض کیا کہ کب ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہو جائے گا اورشرابیں پی جانے لگیں گی ۔“ (سنن ترمذی)
کرنے کے کام:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ نے اپنے گورنروں کو پیغام بھیجا تھا کہ ”سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام کی دعا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخٰسرین ( ترجمہ) 'اے پروردگار !ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ،اگر تو ہمیں معاف نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے' کثرت سے پڑھا کرو۔“
(الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی: 54-53، مصنفہ علامہ ابن القیم)
اور شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں یہ لکھ کر بھیجا :اخرُجوا، ومن استطاعَ منكم أن يُخرِجَ صدقةً فليفعَل؛ فإن الله تعالى يقول: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
(14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى
الأعلى: 14، 15
نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا۔
توبہ و استغفار، صدقہ اور بعض اہلِ علم کے نزدیک (ایسے موقع پر) جماعت کے علاوہ (اکیلے، انفرادی) نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔چنانچہ بیہقی شریف میں ہے :صلَّى ابنُ عباسٍ - رضي الله عنهما - للزلزلةِ بالبصرة"؛ رواه البيهقي بسندٍ صحيحٍ.
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بصرہ میں زلزلہ (نہ ہونے یا رُکنے) کی نماز پڑھی۔
جذبہ خیر خواہی
یاد رکهیں کہ زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات محض عذاب ہی نہیں بلکہ اللہ کے نیک بندوں پر بطور آزمائش بهی آتی ہیں. اس لیے رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے تمام افراد سے گزارش ہے کہ آفت زدہ لوگوں کی بلا تفریق مذہب بحیثیت انسان ہر ممکن امداد کی جائے، بالخصوص اسلام تو اپنے پیروکاروں کو یہی تعلیم دیتا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں اجتماعی طور پر مسلم و غیر مسلم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر رفاہی خدمات انجام دی جائیں، اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور اس تنبیہ سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر موت آجاتی
ایک پل کو سوچئے کہ اگر اس زلزلے میں اور سینکڑوں لوگوں کے ساتھ ہماری موت لکھی ہوتی تو کیا ہم اس وقت موت کیلئے تیار ہیں کیا ہمارے کام اس وقت جنت والے ہیں یا جہنم والے ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اگر تو موت کی تیاری کر رکھی ھے تو شکر ادا کریں ورنہ اسی وقت اللہ سے توبہ استغفار کریں
موت ایک ایسی حقیقت ھے کہ جس سے کسی کو انکار نہیں بچہ ہو جوان ہو بوڑھا ہو کالا ہو گورا ہو عورت ہو مرد ہو امیر ہو یا غریب کافر ہو مسلمان ہو سب کو موت آنی ھے ،، کل نفس ذائقۃ الموت ،، ہر شخص کو موت آنی ھے ، ہمارے آنے کا تو طریقہ کار ھے کہ پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا مگر جانے کا کوئی پتہ نہیں پہلے دادا جائے یا پوتے کو موت آجائے اور ہمارا ایمان ھے کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ھے اور پھر اپنا حساب کتاب دینا ھے کیونکہ اللہ نے فرمادیا ،، لیبلوکم ایکم احسن عملا ،، ہمیں یہاں آزمانے کیلئے بھیجا ہے کہ کون اچھے عمل کرتا ھے کون اللہ کو مان کر اللہ کے رسول کے طریقے پر چل کر اللہ کو راضی کرتا ھے اور پھر ایک دن ،، فمن یعمل مثقال زرۃ شر یرہ ،، جو برا کرے گا اس کا بدلہ پالے گا اچھا کرے گا اس کا بدلہ گا ،، عقل مند وہ ھے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرلے
ہم آج موت کی تیاری تو کیا موت کو تذکرے سے بھی بھاگتے ہیں اگر کوئی موت کے متعلق بات کرے یا کسی کو یاد دلائے تو فورا اسے چپ ہونے کا کہا جاتا ھے کیونکہ ہم مرنے کو تیار نہیں موت پسند نہیں پوری زندگی کی پلیننگ میں موت کہیں بھی شامل نہیں حالانکہ وہ کسی وقت بھی آسکتی ھے
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کے ہیں پل کی خبر نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم موت کو اکثر یاد فرماتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبرستان سے گزرتے تو بہت روتے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ موت کو یاد کرتے تو ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی ھے مگر آج ہم موت کا لفظ سننے کو تیار نہیں ہیں
نہ تیرے چاہنے سے نہ میرے چاہنے سے ہوتا ھے ہوتا ھے وہی جو منظور خدا ہوتا ھے
آج بھی وہی اللہ ھے آج ہمارے کام بھی وہی ہیں جن کی وجہ سے پچھلی امتوں پر عذاب آئے آج بھی رب کا قانون وہی ھے اس کی طاقت وہی ھے اس کا قبضہ قدرت ویسے ہی ھے آج بھی زمین اس کے امر کن سے ہلتی ھے آج بھی پہاڑ اس کے حکم سے لرزتے ہیں
وہ ہلاتا ھے جھنجوڑتا ھے موقع دیتا ھے اور پیغام دیتا ھے کہ جاگو اور موت کی تیاری کرو
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ھے
یہ عبرت کی جا ھے تماشا نہیں ھے
میں تیری پناہ لیتا ہوں
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَ أَعُوْذُبِكَ مِنَ التَّرَدِّیْ وَأَعُوْذُبِكَ مِنَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْهَرَمِ وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ یَتَخَبَّطَنِیَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ أَمُوْتَ فِیْ سَبِیْلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِیْغًا
سنن أبی داؤد:1552
اے الله!بے شک میں تیری پناہ لیتا ہوں کہ(کوئی مکان یا دیوار مجھ پر)آ گرے یا کسی بلند (مقام)سے گر پڑوں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے یا از حد بوڑھا ہو جانے سے، اور میں تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ شیطان مجھے موت کے وقت بدحواس کر دے، اورمیں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے راستے میں پیٹھ پھیرتے ہوئے مروں،اورمیں تیری پناہ لیتا ہوں اس کیفیت سے کہ(زہریلے جانور کے)کاٹنے سے مجھے موت آئے
یوروپ میںکیوں نہیں آتے زلزلے ؟
سوال
یوروپ میں گناہ زیادہ ہوتے ہیں زنا زیادہ ہوتے ہیں تو زلزلے وہاں کیوں نہیں آتے ؟
جواب
زلزلے آتے ہیں وہاں بھی سونامی بھی اور بھی بہت کچھ مگر ایک اور بات بھی ھے
کیونکہ ہم نے کلمہ پڑھا ھے ہم فرمانبرداری کے مکلف ہیں اور ہم ہی نیک اعمال اور دین سے دور ہیں تو جھنجوڑا بھی ہمیں جائے گا تاکہ اپنے اللہ کو یاد کرلیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدنیا سجن المؤمن وجنت الکافر
دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت ھے
تو اس لئے کافر کو زرا ڈھیل دی جاتی ھے
اس کی یہ جنت ھے مزے کرلیں
آخرت میں تو سزا ہی ھے انکے لئے اس کے مقابل مسلمان پر آزمائش آتی ھے
لیکن اس سے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں گناہ معاف ہوتے ہیں
سائنسی وجوہات
زلزلے کے آنے کی کئی وجوہات ہیں۔ نسلِ انسانی کی ابتدا سے ہی زلزلے کو ایک ایسی آفت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جس سے بچاو کی تمام تر تدابیر رائیگاں رہی ہیں۔سائنس دان بھی کوئی ایسا طریقۂ کار دریافت نہیں کرسکے جس کے ذریعے یہ پیش گوئی کی جاسکے کہ کب کوئی زلزلہ آئے گا؟ آج 26 اکتوبر کے زلزلے کی مناسبت سے زلزلے آنے کی وجوہات کے بارے میں اپنے دوستوں کو کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں ۔سائنسی تحقیقات کی رو سے زمین پر اس وقت ’لرزہ‘ طاری ہوتا ہے جب زیر زمین ارضی پلیٹس اپنے مقام سے سرکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس میں ایک لمحہ میں ہزاروں افراد ہلاک اور شہروں کے شہر تباہ ہوسکتے ہیں۔ ایک زلزلے کے بعد بہت سارے آفٹر شاکس آتے ہیں جن کی شدت قدرے کم ہوتی ہے اور اکثر اوقات یہ بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آفٹر شاکس چند روز سے لے کر کئی برسوں تک جاری رہ سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار زلزلہ کی شدت پر ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسی بہت سی قدرتی آفات نے تباہی مچائی ہے جن کو زلزلے کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے، جیسا کہ 2004ء میں سونامی کی لہروں نے ہندوستان، تھائی لینڈ اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساحلی علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا 2005ء میں پاکستان میں آنے والا زلزلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بنا۔
ارتعاش سے زلزلہ
اب سائنس دان اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جنہیں علمِ ارضیات کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے قرب میں واقع ہیں۔ ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault نمایاں ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زیرِزمین جو مقام میگما کے دبائو کا نشانہ بنتا ہے، اسے زیر مرکز یا Hypocenterکہتے ہیں اور اس کا بالائی مقام یا زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔زلزلوں سے پیدا ہونے والی تباہی کا براہِ راست تعلق اس کی ریکٹر سکیل پر شدت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہے۔ اگر زلزلہ سمندر کی تہہ میں آئے تو ا س سے تند و تیز لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ساحلی علاقوں میں زبردست تباہی مچاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر زلزلے زیر سمندر ہی آتے ہیں۔
تین فالٹ لائنز
دنیا میں تین فالٹ لائنز ہیں جہاں پر عموماً زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ اولین فالٹ لائن ہندوستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ میں یوگوسلاویہ سے فرانس تک جاتی ہے۔دوسری فالٹ لائن براعظم شمالی امریکا کی مغربی ریاست الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف میکسیکو سے گزر کر لاطینی امریکہ کے ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے چلّی تک پھیلی ہوئی ہے۔تیسری فالٹ لائن جاپان سے شروع ہوکر تائیوان ، فلپائن، برونائی، ملائیشیاء اور انڈونیشیا تک جاتی ہے۔
ذہن میں رہے کہ کوئی سائنس دان یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ کب کوئی زلزلہ آئے گا، چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ کسی زلزلہ سے چند گھنٹوں یا ایام قبل لوگ ممکنہ طور پر متاثرہ علاقے سے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی زلزلوں سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جاسکتا ہے، جیسا کہ جاپان میں زلزلے آنا معمول ہے لیکن اہل جاپان نے تعمیرات کرتے ہوئے اس پہلو کو پیشِ نظر رکھا ہے کہ ریکٹر سکیل پر شدید ترین زلزلہ سے بھی کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو۔
عجیب و غریب نظریات
انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈرائونے خواب مسلط رہتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔اور مالی نقصانات کا تو کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنسی ریسرچ کے حقائق کے انکشافات سے پہلے زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب نظریات لوگوں میں مروج تھے۔ آج ان نظریات میں سے کچھ کے متعلق اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔
1۔قدیم عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں ۔
2۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں۔
3۔ قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔
4۔ کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر رکھی ہوئی ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔
5۔سائبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے۔
6۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔
7۔قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔
8۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔
9۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔
10۔تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔
11۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔
12۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ''پلیٹ ٹیکٹونکس'' کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما Magma کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر ، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے Joint پر واقع ہیں۔
کیا یہ محض ایک اتفاق ہے ؟
دوسری طرف زلزلوں کے ساتھ منسلک ایک پہلوایسا ہے جوچونکادینے والا ہے اوروہ ہے ان زلزلوں کا 26تاریخ کے ساتھ ایک انجانامیل۔دنیا میں آنے والے زلزلوں پرایک نظرڈالی جائے تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئے گی کہ دنیا میں زیادہ تربڑ ے زلزلے اورسونامی مہینے کی 26تاریخ کو رونما ہوئے۔26تاریخ کوآنے والے چند بڑے زلزلوں کا ذکریہاں دلچسپی سے خالی نہیںہوگا،26دسمبر1932کوچین میں آنے والے زلزلے نے سترہزارندگیاں نگل لیں، 26 دسمبر 1939کو ترکی کے شہرارزن کان میں 7.8سکیل کے زلزلے نے تباہی مچادی،جس میں بتیس ہزارسے زائد لوگ مارے گئے،26جنوری 2001 کوبھارتی گجرات میں زلزلہ آیا، 7.7شدت کے زلزلے میں تقریبا بیس ہزارلوگ مارگے گئے جبکہ پونے دولاکھ زخمی ہوئے،26دسمبر2003کو ایران کے شہربام میں 6.6شدت کے زلزلے میں چھبیس ہزارسے زائد افراد لقمہ اجل بنے،26دسمبر2004کو بحرہندمیں آنے والے سونامی سے دولاکھ اسی ہزارافراد مارے گئے،9.1سکیل کے اس زلزلے نے انڈیا ،سری لنکا،انڈونیشیا،مالدیپ ،تھائی لینڈاورصو مالیہ میں تباہی مچائی،،یہ سیسمو گراف پرریکارڈ کیاجانے والا تاریخ کا تیسرابڑا زلزلہ تھا،26 فرورری 2010 کوجاپان میں سات اعشاریہ تین شدت کا زلزلہ آیا،اوکی ناواشہرمیں آنے والے اس زلزلے نے بڑی تباہی مچائی،زلزلے اور26تاریخ کا یکجا ہونا کیا محض اتفاق ہے یا قدرت کی طرف سے کوئی وارننگ جس کے لئے عام طورپر26تاریخ کا ہی انتخاب کیا جاتاہے۔
چین زلزلہ
26 جولائی 1976
گجرات زلزلے
26 جنوری 2001.
بحر ہند میں سونامی
26 دسمبر 2004
ممبئی حملے 26/11
26 نومبر 2008
تائیوان میں زلزلے
26 جولائی 2010
جاپان زلزلے
26 فروری 2010
اب نیپال میں زلزلے
26 اپریل 2015.
روڈس زلزلے 26 جون 1926
شمالی امریکہ میں زلزلے 26 جنوری 1700
یوگوسلاویہ زلزلے 26 جولائی 1963
میراپي آتش فشاں دھماکے 26 اکتوبر 2010
بام، ایران میں آئے زلزلے میں 26
دسمبر 2003 (60،000 ہلاک)
سبا سمندری لہروں 26 دسمبر
1996 (1،000 ہلاک)
ترکی زلزلہ 26دسمبر
1939 (41،000 ہلاک کانسو ،چین میں زلزلے کے 26 دسمبر 1932 (70،000 ہلاک)
پرتگال زلزلے 26 جنوری 1951 (30،000 ہلاک)
کراکتوا آتش فشاں دھماکے 26 اگست 1883 (36،000 ہلاک)
آچے سونامی دسمبر 26، 2004
تاسک زلزلے 26
جون 2010
چین زلزلہ 26 جولائی 1976
تائیوان میں زلزلے 26 جولائی 2010
جاپان زلزلے فروری 26، 2010
مین تاویہ سونامی 26 اکتوبر 2010
گجرات زلزلے 26 جنوری 2001.
ممبئی حملے 26/11
ممبئی 26 جولائی 2005 میں سیلاب
اب نیپال زلزلے 26 اپریل 2015.
اور مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی 26 مئی کو لی؟
عجیب بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری کو نافذ ہوا
نیپال زلزلے 26 اپریل 2015.
اور مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی 26 مئی کو لی؟
جبکہ جنوبی ایشیا میں حالیہ زلزلہ بھی 10/2015 26 کو آیا
کیوں یہ ہمیشہ 26 ہے؟
کیا یہ محض اتفاق ہے؟
یہ خبر کمال ہے کہ! اوردہشت بھی ہے کہ ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری کونافذ ہوا تھا!
اصل وجہ بے حیائی
اسلام میں زلزلے آنے کی اصل وجہ بے حیائی ہے۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: یا ام المومنین! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زنا کوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیں اور اپنی بد اعمالیوں سے رک جائیں تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا ، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے
اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا ، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے
اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
Our Lord! Do not impose blame upon us if we have forgotten or erred. Our Lord, and lay not upon us a burden like that which You laid upon those before us. Our Lord, and burden us not with that which we have no ability to bear. And pardon us; and forgive us; and have mercy upon us. You are our protector, so give us victory over the disbelieving people. (Al-Baqarah:286
आज फिर 26 तारीख है
यह कोई मजाक नहीं बल्कि इसका जादू आपको अचम्भित कर देगा.....
यह एक संयोग है ???
चीन भूकंप
26 जुलाई 1976
गुजरात भूकंप
26 जनवरी 2001।
हिंद महासागर में सुनामी
26 दिसंबर 2004
मुंबई हमले 26/11
26 नवंबर 2008
ताइवान में आए भूकंप
26 जुलाई 2010
जापान भूकंप
26 फ़रवरी 2010
अब नेपाल में आए भूकंप
26 अप्रैल 2015।
क्यों यह हमेशा "26" है?
यह एक मात्र संयोग है या इसे गंभीरता पर सोचने के लिए God..Need से एक समय पर याद आता है !!!
रोड्स भूकंप 26 जून 1926
उत्तरी अमेरिका में आए भूकंप 26 जनवरी 1700
यूगोस्लाविया भूकंप 26 जुलाई 1963
मेरापी ज्वालामुखी विस्फोट 26 अक्टूबर 2010
बैम, ईरान में आए भूकंप में 26
दिसम्बर 2003 (60,000 मृत)
सबा ज्वारीय लहरों 26 दिसंबर
1996 (1,000 मृत)
तुर्की earthquke 26 दिसंबर
1939 (41,000 मृत)
Kansu, चीन में आए भूकंप के 26 दिसम्बर 1932 (70,000 मृत)
पुर्तगाल भूकंप 26 जनवरी 1951 (30,000 मृत)
Krakatau ज्वालामुखी विस्फोट 26 अगस्त 1883 (36,000 मृत)
आचे सुनामी दिसंबर 26, 2004
Tasik भूकंप 26
जून 2010
चीन भूकंप 26 जुलाई 1976
ताइवान में आए भूकंप 26 जुलाई 2010
जापान भूकंप फ़रवरी 26, 2010
Mentawai सुनामी 26 अक्टूबर 2010
गुजरात भूकंप 26 जनवरी 2001।
मुंबई हमले 26/11
मुंबई 26 जुलाई 2005 में बाढ़
अब नेपाल भूकंप 26 अप्रैल 2015।
और मोदी ने प्रधानमन्त्री पद की शपथ भी 26 मई को ली?
क्यों यह हमेशा "26" है?
यह सिर्फ एक संयोग है?
यह खबर कमाल कि है! और डरावनी भी है कि भारत का संविधान भी 26जनवरी को लागू हुआ था ।
आज फिर 26 तारीख है
यह कोई मजाक नहीं बल्कि इसका जादू आपको अचम्भित कर देगा.....
यह एक संयोग है ???
चीन भूकंप
26 जुलाई 1976
गुजरात भूकंप
26 जनवरी 2001।
हिंद महासागर में सुनामी
26 दिसंबर 2004
मुंबई हमले 26/11
26 नवंबर 2008
ताइवान में आए भूकंप
26 जुलाई 2010
जापान भूकंप
26 फ़रवरी 2010
अब नेपाल में आए भूकंप
26 अप्रैल 2015।
क्यों यह हमेशा "26" है?
यह एक मात्र संयोग है या इसे गंभीरता पर सोचने के लिए God..Need से एक समय पर याद आता है !!!
रोड्स भूकंप 26 जून 1926
उत्तरी अमेरिका में आए भूकंप 26 जनवरी 1700
यूगोस्लाविया भूकंप 26 जुलाई 1963
मेरापी ज्वालामुखी विस्फोट 26 अक्टूबर 2010
बैम, ईरान में आए भूकंप में 26
दिसम्बर 2003 (60,000 मृत)
सबा ज्वारीय लहरों 26 दिसंबर
1996 (1,000 मृत)
तुर्की earthquke 26 दिसंबर
1939 (41,000 मृत)
Kansu, चीन में आए भूकंप के 26 दिसम्बर 1932 (70,000 मृत)
पुर्तगाल भूकंप 26 जनवरी 1951 (30,000 मृत)
Krakatau ज्वालामुखी विस्फोट 26 अगस्त 1883 (36,000 मृत)
आचे सुनामी दिसंबर 26, 2004
Tasik भूकंप 26
जून 2010
चीन भूकंप 26 जुलाई 1976
ताइवान में आए भूकंप 26 जुलाई 2010
जापान भूकंप फ़रवरी 26, 2010
Mentawai सुनामी 26 अक्टूबर 2010
गुजरात भूकंप 26 जनवरी 2001।
मुंबई हमले 26/11
मुंबई 26 जुलाई 2005 में बाढ़
अब नेपाल भूकंप 26 अप्रैल 2015।
और मोदी ने प्रधानमन्त्री पद की शपथ भी 26 मई को ली?
क्यों यह हमेशा "26" है?
यह सिर्फ एक संयोग है?
यह खबर कमाल कि है! और डरावनी भी है कि भारत का संविधान भी 26जनवरी को लागू हुआ था ।
No comments:
Post a Comment