اسلامی ریسرچ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اسلامی خدمت پر 2015 کا شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ دیا گیا ۔بدھ 14 ربیع الثانی 1436هـ - 4 فروری 2015م کومکہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل اور انعامی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل عبداللہ العثیمین نے الخزیمہ سنٹر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں انعام جیتنے والے افراد کے ناموں کا اعلان کیا۔انعام میں ہاتھ سے تحریر کردہ عربی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے جس میں ایوارڈ جیتنے والے کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نیز 24 قیراط اور 200 گرام وزن کا گولڈ میڈل اور ساڑھے سات لاکھ سعودی ریال کا نقد انعام بھی ایوارڈ کا حصہ ہے۔کسی بھی شعبے میں ایک سے زیادہ افراد کے جیتنے کی صورت میں نقد انعام کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کو بھی ان کی عالم اسلام کے لئے خدمات پر انہیں پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔
ذاکر عبدالکریم نائیک ایک بھارتی مقرر ہیں، جو تقابل ادیان اور مناظروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، تاہم 1991ء سے اسلام کی تبلیغ کو اپنی مکمل توجہ دینا شروع کردی۔ آپ عیسائی ، ہندو وغیرہ سے مناظرہ میں مشہور ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ اسلام قبول کیا ۔ آپ بمبئی میں اسلامی تحقیق سنٹر کے صدر ہیں اور اسلامی چینل پیس کے نام سے چلا رہے ہیں ۔
ذاکر نائیک حاضر جوابی اور مناظرہ میں دسترس رکھتے ہیں، ان کو عالمگیر شہرت عیسائی مناظر ولیم کیمپبل کے ساتھ مناظرہ سے حاصل ہوئی
- اسلام پر چاليس(40) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب
- مذاہب عالم ميں تصور خدا اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے بیس سوال
- بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں
- اسلام اور ہندومت (ایک تقابلی مطالعہ)
- اسلام میں خواتین کے حقوق ... جدید یا فرسودہ؟
عقائد و نظریات
دور حاضر کا مشہور اسکالر‘ کوٹ ٹائی میں ملبوس ماڈرن اسلام کا شیدائی ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی غیرمقلدین اہلحدیث فرقے سے تعلق رکھتا ہے کچھ عرصے قبل نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ میرا تعلق اہلحدیث فرقے سے ہے اور میں ذاتی طورپر اہلحدیث ہوں۔ (جیو ٹی وی انٹرویو 2008ئ)
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے جواب سے واضح ہو گیا ہے کہ جو عقائد غیر مقلدین فرقے کے ہیں‘وہی عقائد ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جو شعائر اسلام کے خلاف باتیں کیں ہیں وہ بھی ملاحظہ ہوں۔
1:۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اگر ہندو سوال کرے گا توجواب میں اس کو وہ میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 259 سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی)
تبصرہ :… ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے کیا کبھی کافر مسلمان کا بھائی ہو سکتا ہے؟
2:۔ قرآن و حدیث میں یہ ذکر کہیں بھی نہیں ہے کہ عورتیں مساجد میں جا سکتیں۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 272 سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی)
تبصرہ :… کیا ذاکر نائیک نے تمام حدیثیں پڑھ لیں؟
3:۔ اسلام میں فرقوں کی گنجائش نہیں ہے۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 316 مطبوعہ سٹی بک پوائنٹ اردو بازار لاہور)
تبصرہ :… جب ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک فرقوں کی گنجائش نہیں ہے تو پھر ٹی وی چینلز پر اپنے آپ کو اہلحدیث فرقے کا مولوی کیوں کہلواتا ہے؟
4:۔ جب کسی مسلمان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون ہو عموماً جواب یہ ملتا ہے کہ میں سنی ہوں یا میں شیعہ ہوں اسی طرح کچھ لوگ اپنے آپکو حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی کہتے ہیں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ میں دیو بندی ہوں یا بریلوی ہوں۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کیا تھے؟کیاوہ حنبلی‘ شافعی‘ حنفی یا مالکی تھے؟ بالکل نہیں۔
(کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 317سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی)
تبصرہ:… جب رسول اﷲ ﷺ سنی‘ حنبلی‘ حنفی‘ شافعی اور مالکی نہ تھے تو کیا حضوراﷲﷺ اہلحدیث تھے؟ بالکل نہیں۔
5:۔ حضور اﷲ ﷺ لکھنا‘ پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ (معاذ اﷲ)
(خطبات ذاکر نائیک صفحہ نمبر 57`58 )
تبصرہ:… ڈاکٹر ذاکر نائیک اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی بیان کی ہوئی حدیثیں پڑھ کر خود کو پڑھالکھا ظاہر کرتا ہے اور جن کی حکمت و دانائی سے بھر پور حدیثیں بیان کر تا ہے اس نبی ﷺ کے متعلق یہ لکھتاہے کہ وہ (معاذ اﷲ) پڑھے لکھے نہ تھے دوسری زبان میں یوں سمجھ لیں کہ نائیک نے اﷲتعالٰی کے رسول ﷺ کوان پڑھ لکھا۔ کیا اپنے نبی ﷺ کو ان پڑھ کہنے والا خود پڑھا لکھا ہوسکتا ہے؟ یا جاہل؟
6:۔ تین طلاقیں تین نہیں بلکہ ایک ہیں۔ (طلاق کے عنوان سے سی ڈی میں بیان)
تبصرہ‘… تین طلاق کے تین ہونے پر پوری امت مسلمہ کا اجتماع ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک تین طلاقیں ایک ہیں لہذا جماع امت کا انکار کرنے والا گمراہ ہے۔
7:۔ معرکئہ کربلا سیاسی جنگ تھی اور یزید پلید کو( رحمتہ اﷲ علیہ) کہا۔ (مشہور سی ڈی سوالات کے جوابات‘ سی ڈی ادارے کے پاس موجود ہے)
تبصرہ:… ڈاکٹر ذاکر نائیک نے معرکئہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار دے کر گھرانہ اہلبیت کی قربانیوں کا مذاق اڑایا ہے اور دشمن اسلام اور دشمن اہلبیت یزید پلید کو رحمتہ اﷲ علیہ کہہ کر ثابت کردیا ہے کہ میں یزیدی ہوں۔
8:۔ مزارات پر حاضری دینا‘ غیر اﷲ کا وسیلہ پیش کرنا اورمیلاد کی محافل کا انعقاد شرک ہے۔
تبصرہ:… ڈاکٹر ذاکر نائیک دراصل ہندوستان کے شہر مدراس کا رہنے والا ہے یعنی مدراسی ہے نہ وہ کسی درالعلوم سے فارغ التحصیل ہے وہ عالم دین نہیں ہے اپنی طرف سے جو جواب سمجھ میں آتا ہے وہ دینا شروع کردیتا ہے اگر وہ واقعی عالم دین ہوتا توایسے جوابات ہرگز نہ دیتا لہذا ذاکر نائیک سے ہماری گزارش ہے کہ وہ علم دین سیکھ لے تاکہ گمراہیت سے بچ جائے۔
9:۔ فجر کی سنتوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے مولویوں نے اسے اہمیت والا بنادیا ہے۔ (پروگرام پیس ٹی وی چینلز 2007)
تبصرہ:… ڈاکٹر ذاکر نائیک اگر صحاح ستہ پڑھ لیتا یعنی بخاری شریف‘ مسلم شریف‘ ابودائود شریف وغیرہ پڑھ لیتا تو کبھی اس طرح اہمیت والی عبادت کو غیر اہم قرار نہ دیتا مگر افسوس کہ اس نے کبھی علم سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
10:۔ ذاکر نائیک سے کوئی بھی سوال کیا جائے تو فوراًجواب آتا ہے سورہ انفال آیت 17 حالانکہ کوئی شخص بھی اس طرح برجستہ جواب نہیں دے سکتا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر الزام نہیں لگاتا آپ خود ہی تحقیق کرلیں جو یہ آیت نمبر بتاتا ہے اس سوال کا جواب اس آیت میں ہوتا ہی نہیں ہے یعنی اپنی طرف سے آیت نمبر کہہ کر قرآنی آیت کا مفہوم بتا کر آگے بڑھ جاتا ہے ‘تحقیق ضرور کیجئے گا۔
محترم بھائیو! یہ تو چند جھلکیاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے عقائد کی تھیں اس کے علاوہ جتنے اہلحدیث فرقے کے عقائد و نظریات ہیں یہ انہی عقائد و نظریات پر کار بند ہے لہذا عوام الناس کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے خطبات سننے سے پرہیز کریں یاد رکھئے تقابل ادیان کا علم رٹ لینے سے فقط کوئی عالمی مذہبی اسکالر نہیں بن جاتا بلکہ علم کے ساتھ رب کا فضل بھی ہونا چاہئے جو صرف سنی صحیح العقیدہ شخص کو ہی مل سکتا ہے۔
...مولانا محمد طفیل رضوی
خدا و رسول کی اطاعت:
دین متین میں خدا و رسول کی اطاعت فرض ہے اور عدم اطاعت نافرمانی و گناہ۔مگر نافرمانی کے مراتب متعدد ہیں۔جس طرح ایمان لانے کے بعد خداورسول کے احکام کی تعمیل نہ کرنا اور گناہوں سے نہ بچنا معصیت ہے اسی طرح خداو رسول کی باتوں کو اپنی اغراض کے مطابق بنا لینا،ان کے اصل کلام کو اصل مفہوم اور مقصد سے پھیر کر اپنے مقصد پر منطبق کرنا بھی نافرمانی اورمعصیت ہے، اسی کو الحاد کہتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ: ﴿ان الذین یلحدون فی اٰ یٰتنا﴾
کہ
” جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
”الالحاد وضع الکلام علی غیر مواضعہ“․
اس الحاد کوتحریف فی الدین ،تفسیر بالرائے اور زندقہ بھی کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کتاب و سنت کی تفسیر ،تشریح اور تحقیق صرف وہی معتبر ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرات صحابہ کرام اور سلف صالحین نے فرمائی ہے ۔اس کے علاوہ کوئی تحقیق معتبر نہیں ۔عصر حاضر میں ایک طرف تو دین سے جہالت و غفلت انتہا کو پہنچ گئی ہے اور دوسری طرف جدید ذہنیت اور مستشرقین کے گم راہ کن پرو پیگنڈے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے اسلام کے مسلم اصولوں پر بحث و گفتگو شروع کردی ہے ․ایسے افراد علوم دینیہ سے بے بہرہ ہیں اور انہوں نے اسلام کے متعلق اگر کچھ معلومات حاصل بھی کیں تو اہل یورپ اور دشمنان اسلام سے حاصل کیں ․انہوں نے نصوص قطعیہ میں طرح طرح کی باطل تاویلیں کرکے شریعت کے متفق علیہ احکام کی تغییر وتحریف کو اسلام کی خدمت سمجھ لیا۔
ہمارے دور میں اس کی واضح مثال ،زمانہ حال کا متجدد ڈاکٹر ذاکر نائیک ہے، جس نے میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ تنہا وہ ہی دین کا فہم رکھنے والا اور بلا شرکت غیر ے پیش آمدہ جدید مسائل کا حل پیش کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔تفہیم دین کے خوب صورت عنوان کے ذریعے ڈاکٹرصاحب نے یہ منفردخدمت بھی سرانجام دی کہ اسلاف کی تشریحات پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے الحاد کا دروازہ کھولا ۔اور مادیت و جدیدیت سے متاثر ہو کر قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی خود ساختہ تشریح کرکے لوگوں کو علمائے راسخین سے متنفر کرنے کی سعی لاحاصل کی ۔
اس میں شک نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں، مگر محض اپنی محدود سوچ اور عقل نارسا کو معیار ٹھہرا کر اسلا ف امت وائمہ مجتہدین کے بیان کردہ مسلم اصولوں سے رو گردانی کرنا گم راہی کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے #
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
تقابل ادیان کے نام پر:
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ابتدا میں تو اپنی دعوت کا آغاز یوں کیا کہ اسلام پر غیروں کے اعتراضات کے جوابات دینا شروع کیے اور تقابل ادیان کے نام پر اپنے آپ کو سب سے بڑا اسلام کا دفاع کرنے والا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔لوگوں کے ذہن میں یہ دفاع اسلام کی خدمت بسانے کے بعد انہوں نے بڑی منصوبہ بندی سے اپنی اصل تحریک کا آغازکیا کہ اسلاف امت کی تشریحات سے ہٹ کر اسلام کے مسلم اصولوں کی نئی تعبیریں کرنا شروع کر دیں اور دلفریب انداز گفتگو سے فکری آزادی کا درس دینا شروع کیا، جس سے سادہ لوح مسلمان اس کے دام تزویر میں جکڑے گئے اور اس کی تعریف کرنے لگے ۔لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے خلاف ابھار ا جن پر پوری امت کا اعتماد چلاآرہا ہے ۔مگر اہل بصیرت اس کی تقریر و تحریر سے بھانپ گئے کہ فرقہ لادینیہ یعنی غیر مقلدین کے پرانے شکاری نیا جال لے کر آئے ہیں ان اور یوں رفتہ رفتہ اس کی اصلیت ظاہر ہوگئی۔
﴿افرأیت من اتخد الھہ ھواہ واضلہ اللہ علی علم ﴾
اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اجماع امت سے ہٹ کر دین کی جونئی تعبیریں پیش کی ہیں اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خیال یہ ہے کہ سلف کے طریق سے ہٹ کر دین کی جدید تشریح کی ضرورت ہے ۔
٭... ائمہ اربعہ کی تقلید (جس پر پوری امت متفق چلی آرہی ہے)امت کی گم راہی کی اصل بنیاد ہے۔
٭... مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں(حالاں کہ متعدد ہدایات میں فرق بیان کیا گیا ہے)۔
٭... دین کے بارے میں ہر شخص فتویٰ دے سکتا ہے فتویٰ کا مطلب اپنی رائے دینا ہے (یہ دین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے)۔
٭... مردعورت سے ذمہ داری میں اونچا ہے نہ کہ فضیلت میں (یہ آیات قرآنیہ میں تحریف معنوی ہے۔
٭... ننگے سر نمازپڑھنا جائز ہے(یہ بے ادبی کا انداز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پگڑی پہنتے تھے)۔
٭... بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے (یہ بات قرآن وحدیث کے مفہوم کے خلاف ہے)۔
٭... آیت ﴿ویعلم مافی الارحام﴾کے معنٰی سمجھنے میں مفسرین کو غلطی ہوئی ہے، اس میں جنین کی جنس نہیں، بلکہ اس کی فطرت مراد ہے۔(یہ تفسیر بالرائے ہے)
٭... آیت﴿اذا جاء ک المومنات یبایعنک﴾الایة میں بیعت کے لفظ میں آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی داخل ہے ۔(یہ بھی تفسیر بالرائے ہے)
٭... خون بہہ جانے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا ،اس بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ غلط ہے (جب کہ حدیث میں خون بہہ جانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہے)۔
٭... حالت حیض میں عورت قرآن پڑھ سکتی ہے(جمہور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے)۔
٭... خطبہ جمعہ عربی کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے (یہ بات آنخضرت صلى الله عليه وسلم کے دائمی عمل کے خلاف ہے وعظ و نصیحت اور چیز ہے اور خطبہ دوسری چیز ۔خطبہ جو کہ دورکعت کے قائم مقام ہے عربی میں ہی ضروری ہے)۔
٭... گاؤں میں جمعہ جائز ہے(نماز جمعہ صرف شہر میں ہونے کا حکم حدیث میں ہے)۔
٭... تین طلاق سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے(جب کہ تین پراجماع منعقد ہوچکا ہے)۔
٭... پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی دن عید کرنا چاہیے(حالاں کہ ایسا ممکن نہیں)۔
٭... ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مدت اقامت صرف پانچ ،چھے دن ہے(جب کہ حدیث میں پندرہ دن کا ذکر ہے)۔
٭... ان کے ہاں تراویح آٹھ رکعت ہے(جب کہ بیس رکعت پر پوری امت کاا جماع ہے)۔
٭... عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں(حالاں کہ سیدہ عائشہ اور دیگر ازواج مطہرات کا مردوں کے سامنے سے گزر تے ہوئے چہرے کا پردہ کرنا حدیث سے ثابت ہے)۔
٭... چند مواقع کے علاوہ ہر جگہ ایک عورت کی گواہی معتبر ہے (یہ قرآن حکیم کے حکم کی صاف مخالفت ہے )۔
٭... آنخضرت صلى الله عليه وسلم نے متعدد شادیاں سیاسی مفادات کی خاطر کیں (جب کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہوئے، ان میں بہت سی دینی حکمتیں تھیں، نہ کہ سیاسی مفادات)۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دریا کے کیڑے مکوڑے بھی حلال ہیں (جب کہ حدیث میں صرف مچھلی کی حلت کا ذکرہے اور مچھلی کی تمام قسمیں حلال ہیں ۔مچھلی وہ ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی ہو، سانس لینے کے گل پھڑے ہوں اور تیرنے کے لیے پر ہوں، جب کہ کیکڑے میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہوتیں)۔
٭... ڈاکٹر ذاکر کے ہاں مشینی ذبیحہ بھی حلا ل ہے (جب کہ ان کا نظریہ قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے )۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک آنخضرت صلى الله عليه وسلم کی حیات کے منکر ہیں (جب کہ عقیدہ حیات صلى الله عليه وسلم پر امت کا اجماع ہے، صرف معتنر لہ اورروافض اس کے منکر ہیں)۔
٭... قرآن وصحیح حدیث میں وسیلہ کرنے کا ذکر نہیں (حالاں کہ صحیح احادیث سے وسیلہ ثابت ہے)۔
فائدہ:ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مذکورہ نظریات کے لیے دیکھیے ان کی کتب :
خطبات ذاکر نائیک ،اسلام پر چالیس اعتراضات، اسلام اور عالمی اخوت، اسلام میں خواتین کے حقوق ،ٹی وی پروگرام ”گفتگو“وغیرہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھ
...مولانا عبدالمجیدتونسوی
...مولانا محمد طفیل رضوی
خدا و رسول کی اطاعت:
دین متین میں خدا و رسول کی اطاعت فرض ہے اور عدم اطاعت نافرمانی و گناہ۔مگر نافرمانی کے مراتب متعدد ہیں۔جس طرح ایمان لانے کے بعد خداورسول کے احکام کی تعمیل نہ کرنا اور گناہوں سے نہ بچنا معصیت ہے اسی طرح خداو رسول کی باتوں کو اپنی اغراض کے مطابق بنا لینا،ان کے اصل کلام کو اصل مفہوم اور مقصد سے پھیر کر اپنے مقصد پر منطبق کرنا بھی نافرمانی اورمعصیت ہے، اسی کو الحاد کہتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ: ﴿ان الذین یلحدون فی اٰ یٰتنا﴾
کہ
” جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
”الالحاد وضع الکلام علی غیر مواضعہ“․
اس الحاد کوتحریف فی الدین ،تفسیر بالرائے اور زندقہ بھی کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کتاب و سنت کی تفسیر ،تشریح اور تحقیق صرف وہی معتبر ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرات صحابہ کرام اور سلف صالحین نے فرمائی ہے ۔اس کے علاوہ کوئی تحقیق معتبر نہیں ۔عصر حاضر میں ایک طرف تو دین سے جہالت و غفلت انتہا کو پہنچ گئی ہے اور دوسری طرف جدید ذہنیت اور مستشرقین کے گم راہ کن پرو پیگنڈے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے اسلام کے مسلم اصولوں پر بحث و گفتگو شروع کردی ہے ․ایسے افراد علوم دینیہ سے بے بہرہ ہیں اور انہوں نے اسلام کے متعلق اگر کچھ معلومات حاصل بھی کیں تو اہل یورپ اور دشمنان اسلام سے حاصل کیں ․انہوں نے نصوص قطعیہ میں طرح طرح کی باطل تاویلیں کرکے شریعت کے متفق علیہ احکام کی تغییر وتحریف کو اسلام کی خدمت سمجھ لیا۔
ہمارے دور میں اس کی واضح مثال ،زمانہ حال کا متجدد ڈاکٹر ذاکر نائیک ہے، جس نے میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ تنہا وہ ہی دین کا فہم رکھنے والا اور بلا شرکت غیر ے پیش آمدہ جدید مسائل کا حل پیش کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔تفہیم دین کے خوب صورت عنوان کے ذریعے ڈاکٹرصاحب نے یہ منفردخدمت بھی سرانجام دی کہ اسلاف کی تشریحات پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے الحاد کا دروازہ کھولا ۔اور مادیت و جدیدیت سے متاثر ہو کر قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی خود ساختہ تشریح کرکے لوگوں کو علمائے راسخین سے متنفر کرنے کی سعی لاحاصل کی ۔
اس میں شک نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں، مگر محض اپنی محدود سوچ اور عقل نارسا کو معیار ٹھہرا کر اسلا ف امت وائمہ مجتہدین کے بیان کردہ مسلم اصولوں سے رو گردانی کرنا گم راہی کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے #
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
تقابل ادیان کے نام پر:
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ابتدا میں تو اپنی دعوت کا آغاز یوں کیا کہ اسلام پر غیروں کے اعتراضات کے جوابات دینا شروع کیے اور تقابل ادیان کے نام پر اپنے آپ کو سب سے بڑا اسلام کا دفاع کرنے والا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔لوگوں کے ذہن میں یہ دفاع اسلام کی خدمت بسانے کے بعد انہوں نے بڑی منصوبہ بندی سے اپنی اصل تحریک کا آغازکیا کہ اسلاف امت کی تشریحات سے ہٹ کر اسلام کے مسلم اصولوں کی نئی تعبیریں کرنا شروع کر دیں اور دلفریب انداز گفتگو سے فکری آزادی کا درس دینا شروع کیا، جس سے سادہ لوح مسلمان اس کے دام تزویر میں جکڑے گئے اور اس کی تعریف کرنے لگے ۔لوگوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے خلاف ابھار ا جن پر پوری امت کا اعتماد چلاآرہا ہے ۔مگر اہل بصیرت اس کی تقریر و تحریر سے بھانپ گئے کہ فرقہ لادینیہ یعنی غیر مقلدین کے پرانے شکاری نیا جال لے کر آئے ہیں ان اور یوں رفتہ رفتہ اس کی اصلیت ظاہر ہوگئی۔
﴿افرأیت من اتخد الھہ ھواہ واضلہ اللہ علی علم ﴾
اس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اجماع امت سے ہٹ کر دین کی جونئی تعبیریں پیش کی ہیں اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خیال یہ ہے کہ سلف کے طریق سے ہٹ کر دین کی جدید تشریح کی ضرورت ہے ۔
٭... ائمہ اربعہ کی تقلید (جس پر پوری امت متفق چلی آرہی ہے)امت کی گم راہی کی اصل بنیاد ہے۔
٭... مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں(حالاں کہ متعدد ہدایات میں فرق بیان کیا گیا ہے)۔
٭... دین کے بارے میں ہر شخص فتویٰ دے سکتا ہے فتویٰ کا مطلب اپنی رائے دینا ہے (یہ دین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے)۔
٭... مردعورت سے ذمہ داری میں اونچا ہے نہ کہ فضیلت میں (یہ آیات قرآنیہ میں تحریف معنوی ہے۔
٭... ننگے سر نمازپڑھنا جائز ہے(یہ بے ادبی کا انداز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پگڑی پہنتے تھے)۔
٭... بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے (یہ بات قرآن وحدیث کے مفہوم کے خلاف ہے)۔
٭... آیت ﴿ویعلم مافی الارحام﴾کے معنٰی سمجھنے میں مفسرین کو غلطی ہوئی ہے، اس میں جنین کی جنس نہیں، بلکہ اس کی فطرت مراد ہے۔(یہ تفسیر بالرائے ہے)
٭... آیت﴿اذا جاء ک المومنات یبایعنک﴾الایة میں بیعت کے لفظ میں آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی داخل ہے ۔(یہ بھی تفسیر بالرائے ہے)
٭... خون بہہ جانے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا ،اس بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ غلط ہے (جب کہ حدیث میں خون بہہ جانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہے)۔
٭... حالت حیض میں عورت قرآن پڑھ سکتی ہے(جمہور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے)۔
٭... خطبہ جمعہ عربی کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے (یہ بات آنخضرت صلى الله عليه وسلم کے دائمی عمل کے خلاف ہے وعظ و نصیحت اور چیز ہے اور خطبہ دوسری چیز ۔خطبہ جو کہ دورکعت کے قائم مقام ہے عربی میں ہی ضروری ہے)۔
٭... گاؤں میں جمعہ جائز ہے(نماز جمعہ صرف شہر میں ہونے کا حکم حدیث میں ہے)۔
٭... تین طلاق سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے(جب کہ تین پراجماع منعقد ہوچکا ہے)۔
٭... پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی دن عید کرنا چاہیے(حالاں کہ ایسا ممکن نہیں)۔
٭... ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مدت اقامت صرف پانچ ،چھے دن ہے(جب کہ حدیث میں پندرہ دن کا ذکر ہے)۔
٭... ان کے ہاں تراویح آٹھ رکعت ہے(جب کہ بیس رکعت پر پوری امت کاا جماع ہے)۔
٭... عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں(حالاں کہ سیدہ عائشہ اور دیگر ازواج مطہرات کا مردوں کے سامنے سے گزر تے ہوئے چہرے کا پردہ کرنا حدیث سے ثابت ہے)۔
٭... چند مواقع کے علاوہ ہر جگہ ایک عورت کی گواہی معتبر ہے (یہ قرآن حکیم کے حکم کی صاف مخالفت ہے )۔
٭... آنخضرت صلى الله عليه وسلم نے متعدد شادیاں سیاسی مفادات کی خاطر کیں (جب کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہوئے، ان میں بہت سی دینی حکمتیں تھیں، نہ کہ سیاسی مفادات)۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دریا کے کیڑے مکوڑے بھی حلال ہیں (جب کہ حدیث میں صرف مچھلی کی حلت کا ذکرہے اور مچھلی کی تمام قسمیں حلال ہیں ۔مچھلی وہ ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی ہو، سانس لینے کے گل پھڑے ہوں اور تیرنے کے لیے پر ہوں، جب کہ کیکڑے میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہوتیں)۔
٭... ڈاکٹر ذاکر کے ہاں مشینی ذبیحہ بھی حلا ل ہے (جب کہ ان کا نظریہ قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے )۔
٭... ڈاکٹر ذاکر نائیک آنخضرت صلى الله عليه وسلم کی حیات کے منکر ہیں (جب کہ عقیدہ حیات صلى الله عليه وسلم پر امت کا اجماع ہے، صرف معتنر لہ اورروافض اس کے منکر ہیں)۔
٭... قرآن وصحیح حدیث میں وسیلہ کرنے کا ذکر نہیں (حالاں کہ صحیح احادیث سے وسیلہ ثابت ہے)۔
فائدہ:ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مذکورہ نظریات کے لیے دیکھیے ان کی کتب :
خطبات ذاکر نائیک ،اسلام پر چالیس اعتراضات، اسلام اور عالمی اخوت، اسلام میں خواتین کے حقوق ،ٹی وی پروگرام ”گفتگو“وغیرہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھ
...مولانا عبدالمجیدتونسوی
مسئلہ نمبر (149)
سوال: ڈاکٹر ذاکر نائیک کا شمار کن لوگوں میں ہے، اہل ِ حق میں، یا اہل ِ باطل میں؟ پھر اِن کے بیانات و پروگرام وغیرہ کو سننا یا دیکھنا کیسا ہے؟
جواب: مسلم شریف کے مقدمّہ میں امام المحدّثین حضرت محمد ابن ِ سیرین رحمت اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ہے
جواب: مسلم شریف کے مقدمّہ میں امام المحدّثین حضرت محمد ابن ِ سیرین رحمت اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ہے
ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم
( ج۱ ص۱۱)
کہ علم ِ فقہ و حدیث دین ہے، تو بس اچھی طرح غور کر لو کہ تم کس سے دین لے رہے ہو..؟
اِس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت کا علم یا مسائل وغیرہ کی معلومات ہر آدمی سے نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اُسی آدمی (عالِم و مفتی) سے کرنی چاہیے جس نے معتبر اساتذہ یا معتبر علماء کی خدمت میں رہ کر علم ِ دین حاصل کیا ہو، اور اُس کے علم و عمل پر لوگوں کو بھروسہ بھی ہوچکا ہو...
اِس تفصیل کی روشنی میں جب ہم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ دینی موضوعات یا دینی مسائل پر رائے زنی کرنے کے بالکل بھی اہل نہیں ہیں، اسلئے کہ نہ تو انھوں نے اوپر ذکر کیے گئے طریقہ کے مطابق علم حاصل کیا ہے کہ جس پر قرآن فہمی اور حدیث دانی کا مدار ہے، مثلاً علم ِ صرف و نحو، یا عربی ادب وغیرہ، اور نہ ہی انھوں نے دین کے ماہر اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے، بلکہ اِن کی معلومات کا سارا مدار اُردو یا انگریزی ترجمے والی کتابوں پر ہے، تو جس شخص نے اصل نصوص یعنی قرآن و حدیث یا مسائل کو براہ ِ راست یعنی فیص ٹو فیص حاصل نہ کیا ہو، وہ دین کی باتیں یا مسائل وغیرہ کسی کو کیسے بتا سکتا ہے..؟
مگر اِس کے باوجود تعجّب ہے ڈاکٹر صاحب پر کہ وہ اپنے پروگراموں میں پوری قوّت سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں، اور مزید یہ کہ سننے والوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اُنھوں نے جو مطلب سمجھا ہے وہی صحیح اور اصل ہے، اگرچہ علمائے امّت کا فیصلہ یا فتوٰی اُس کے خلاف ہو...
پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پرورش ایک غیر مقلّد گھرانے میں ہوئی ہے، اِسی لیے وہ اُن کتابوں کو پڑھ کر علم حاصل کرتے ہیں جن کو غیر مقلدین نے لکھا ہے، یا اُن سے متاثّر ہیں، یا پھر آزاد خیال ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب پر اُسی ماحول اور اُنھیں غیر مقلدین کی کتابوں اور اُن کے عقائد و خیالات کا رنگ چڑھا ہوا ہے، اور اُن کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پروگرام سننے والوں یا اپنی کتابیں پڑھنے والوں کو غیر مقلدیت کا پیغام دیں، اور اِس مشن پر وہ پوری دلجمعی سے کام بھی کر رہے ہیں، پھر ڈاکٹر صاحب کے اندر خود اعتمادی اور خودرائی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوچکی ہے، کیونکہ وہ قرآن کی تفسیر بھی اپنی رائے سے کر بیٹھتے ہیں، اور بڑے بڑے علماء و مفسرین کی تفسیر کو غلط قرار دے دیتے ہیں، مثلاً
(۱) قرآن کی آیت "الرجال قوّامون علی النساء“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اِس میں مردوں کا عورتوں سے افضل ہونا مراد نہیں ہے، بلکہ ذمہ داری میں اونچا ہونا مراد ہے، (خطبات ذاکر نائیک ص۲۹۵)
(۲) اِسی طرح آیت "ویعلم ما فی الأرحام“ کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم (پیٹ) میں کیا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی..؟
کہتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر سمجھنے میں مفسرین سے غلطی ہوئی ہے یعنی صرف اللہ ہی کو رحم کے بارے میں علم نہیں ہے، بلکہ اب سائنس بھی بتا دے گا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ اور آیت سے مراد یہ ہے کہ "اللہ ہی جانتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچّہ نیک ہوگا یا بُرا، یعنی بچّے کی جنس کا معلوم ہونا مراد نہیں ہے بلکہ نیک و بد ہونا مراد ہے، (اسلام پر چالیس اعتراضات ص۱۳۰)
(۳) یا ایھا النبی اذا جاءک المؤمنات یبایعنک الخ
کہ علم ِ فقہ و حدیث دین ہے، تو بس اچھی طرح غور کر لو کہ تم کس سے دین لے رہے ہو..؟
اِس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت کا علم یا مسائل وغیرہ کی معلومات ہر آدمی سے نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اُسی آدمی (عالِم و مفتی) سے کرنی چاہیے جس نے معتبر اساتذہ یا معتبر علماء کی خدمت میں رہ کر علم ِ دین حاصل کیا ہو، اور اُس کے علم و عمل پر لوگوں کو بھروسہ بھی ہوچکا ہو...
اِس تفصیل کی روشنی میں جب ہم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ دینی موضوعات یا دینی مسائل پر رائے زنی کرنے کے بالکل بھی اہل نہیں ہیں، اسلئے کہ نہ تو انھوں نے اوپر ذکر کیے گئے طریقہ کے مطابق علم حاصل کیا ہے کہ جس پر قرآن فہمی اور حدیث دانی کا مدار ہے، مثلاً علم ِ صرف و نحو، یا عربی ادب وغیرہ، اور نہ ہی انھوں نے دین کے ماہر اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے، بلکہ اِن کی معلومات کا سارا مدار اُردو یا انگریزی ترجمے والی کتابوں پر ہے، تو جس شخص نے اصل نصوص یعنی قرآن و حدیث یا مسائل کو براہ ِ راست یعنی فیص ٹو فیص حاصل نہ کیا ہو، وہ دین کی باتیں یا مسائل وغیرہ کسی کو کیسے بتا سکتا ہے..؟
مگر اِس کے باوجود تعجّب ہے ڈاکٹر صاحب پر کہ وہ اپنے پروگراموں میں پوری قوّت سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں، اور مزید یہ کہ سننے والوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اُنھوں نے جو مطلب سمجھا ہے وہی صحیح اور اصل ہے، اگرچہ علمائے امّت کا فیصلہ یا فتوٰی اُس کے خلاف ہو...
پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پرورش ایک غیر مقلّد گھرانے میں ہوئی ہے، اِسی لیے وہ اُن کتابوں کو پڑھ کر علم حاصل کرتے ہیں جن کو غیر مقلدین نے لکھا ہے، یا اُن سے متاثّر ہیں، یا پھر آزاد خیال ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب پر اُسی ماحول اور اُنھیں غیر مقلدین کی کتابوں اور اُن کے عقائد و خیالات کا رنگ چڑھا ہوا ہے، اور اُن کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پروگرام سننے والوں یا اپنی کتابیں پڑھنے والوں کو غیر مقلدیت کا پیغام دیں، اور اِس مشن پر وہ پوری دلجمعی سے کام بھی کر رہے ہیں، پھر ڈاکٹر صاحب کے اندر خود اعتمادی اور خودرائی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوچکی ہے، کیونکہ وہ قرآن کی تفسیر بھی اپنی رائے سے کر بیٹھتے ہیں، اور بڑے بڑے علماء و مفسرین کی تفسیر کو غلط قرار دے دیتے ہیں، مثلاً
(۱) قرآن کی آیت "الرجال قوّامون علی النساء“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اِس میں مردوں کا عورتوں سے افضل ہونا مراد نہیں ہے، بلکہ ذمہ داری میں اونچا ہونا مراد ہے، (خطبات ذاکر نائیک ص۲۹۵)
(۲) اِسی طرح آیت "ویعلم ما فی الأرحام“ کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم (پیٹ) میں کیا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی..؟
کہتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر سمجھنے میں مفسرین سے غلطی ہوئی ہے یعنی صرف اللہ ہی کو رحم کے بارے میں علم نہیں ہے، بلکہ اب سائنس بھی بتا دے گا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ اور آیت سے مراد یہ ہے کہ "اللہ ہی جانتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچّہ نیک ہوگا یا بُرا، یعنی بچّے کی جنس کا معلوم ہونا مراد نہیں ہے بلکہ نیک و بد ہونا مراد ہے، (اسلام پر چالیس اعتراضات ص۱۳۰)
(۳) یا ایھا النبی اذا جاءک المؤمنات یبایعنک الخ
(سورہ ممتحنہ آیت۱۲)
اِس آیت میں توبہ پر بیعت کرنے کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر توبہ کرو کہ آج کے بعد ہم شرک، قتل، زنا، جھوٹ اور اِس جیسے دوسرے گناہ نہیں کریں گے.
مگر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ توبہ پر بیعت نہیں تھی، بلکہ یہ تو ووٹ دینے کا ثبوت ہے، یعنی جس طرح آج زمانے میں ووٹ دے کر لوگ اپنا لیڈر و حاکم بناتے یا چنتے ہیں، اِسی طرح صحابہ نے آپ کو ووٹ دے کر اپنا حاکم و امیر بنایا تھا، (اسلام میں خواتین کے حقوق ص۵۰)
جبکہ موجودہ دور کے ووٹ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، مگر ڈاکٹر صاحب قرآن کی آیت کے معنی و تفسیر بگاڑ کر جمہوریت کو اسلام سے جوڑنے یا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اسلام میں تو جمہوریت اِس کا نام ہے کہ امّت کے سمجھدار، عقلمند، دیانتدار، نیک و متّقی لوگ کسی ایک کے بارے میں اتفاق یا کثرت ِ رائے سے فیصلہ کردیں، کہ حاکم یا امیر فلاں شخص ہوگا، جیساکہ حضرت ابوبکر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو جلیل القدر صحابہ کی ایک جماعت نے امیر و حاکم مقرر فرمایا تھا، آجکل کی نام نہاد جمہوریت کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جس میں عقل و بصیرت کے بجائے لوگوں کی تعداد دیکھی جاتی ہے، اور نااہل، بےوقوف، دھوکہ باز، فتّین لوگوں کو حاکم بنا دیا جاتا ہے، (کتاب النوازل۲ ص۵۳۸)
(٤) ایسے ہی جب ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ فتوی دینے کا حق کس کو ہے؟ تو جواب دیا کہ ہر آدمی فتوی دے سکتا ہے، اسلئے کہ فتوے کے معنی ہیں رائے دینا، حالانکہ علمائے امت کا اتفاق ہے کہ ہر آدمی فتوی دینے کا اہل نہیں ہے، بلکہ عالِم و مفتی ہی فتوی دے، اور عالِم و مفتی بھی ایسا جسے دین کے مسائل میں مہارت ہو، اِسی لیے اِس صلاحیت کو پیدا کرنے کیلئے مدارس میں دوسال کا نصاب پڑھایا جاتا ہے.
حدیث: جو شخص بغیر علم کے فتوی دے اُس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں،
(الفقیہ والمتفقہ ص۴۵۸) (بحوالہ کتاب النوازل۱ ص۲۰۰)
اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کے بعد صحابہ کو جب کسی مسئلہ میں تردّد ہوتا تو وہ فقہائے مدینہ کی طرف رجوع کرتے تھے، اور پورے مدینہ میں صرف سات صحابہ اِس کام پر مامور تھے:
اِس آیت میں توبہ پر بیعت کرنے کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر توبہ کرو کہ آج کے بعد ہم شرک، قتل، زنا، جھوٹ اور اِس جیسے دوسرے گناہ نہیں کریں گے.
مگر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ توبہ پر بیعت نہیں تھی، بلکہ یہ تو ووٹ دینے کا ثبوت ہے، یعنی جس طرح آج زمانے میں ووٹ دے کر لوگ اپنا لیڈر و حاکم بناتے یا چنتے ہیں، اِسی طرح صحابہ نے آپ کو ووٹ دے کر اپنا حاکم و امیر بنایا تھا، (اسلام میں خواتین کے حقوق ص۵۰)
جبکہ موجودہ دور کے ووٹ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، مگر ڈاکٹر صاحب قرآن کی آیت کے معنی و تفسیر بگاڑ کر جمہوریت کو اسلام سے جوڑنے یا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اسلام میں تو جمہوریت اِس کا نام ہے کہ امّت کے سمجھدار، عقلمند، دیانتدار، نیک و متّقی لوگ کسی ایک کے بارے میں اتفاق یا کثرت ِ رائے سے فیصلہ کردیں، کہ حاکم یا امیر فلاں شخص ہوگا، جیساکہ حضرت ابوبکر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو جلیل القدر صحابہ کی ایک جماعت نے امیر و حاکم مقرر فرمایا تھا، آجکل کی نام نہاد جمہوریت کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جس میں عقل و بصیرت کے بجائے لوگوں کی تعداد دیکھی جاتی ہے، اور نااہل، بےوقوف، دھوکہ باز، فتّین لوگوں کو حاکم بنا دیا جاتا ہے، (کتاب النوازل۲ ص۵۳۸)
(٤) ایسے ہی جب ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ فتوی دینے کا حق کس کو ہے؟ تو جواب دیا کہ ہر آدمی فتوی دے سکتا ہے، اسلئے کہ فتوے کے معنی ہیں رائے دینا، حالانکہ علمائے امت کا اتفاق ہے کہ ہر آدمی فتوی دینے کا اہل نہیں ہے، بلکہ عالِم و مفتی ہی فتوی دے، اور عالِم و مفتی بھی ایسا جسے دین کے مسائل میں مہارت ہو، اِسی لیے اِس صلاحیت کو پیدا کرنے کیلئے مدارس میں دوسال کا نصاب پڑھایا جاتا ہے.
حدیث: جو شخص بغیر علم کے فتوی دے اُس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں،
(الفقیہ والمتفقہ ص۴۵۸) (بحوالہ کتاب النوازل۱ ص۲۰۰)
اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کے بعد صحابہ کو جب کسی مسئلہ میں تردّد ہوتا تو وہ فقہائے مدینہ کی طرف رجوع کرتے تھے، اور پورے مدینہ میں صرف سات صحابہ اِس کام پر مامور تھے:
(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ
(۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ
(۳) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
(٤) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
(۵) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
(٦) حضرت عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ
(۷) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (اعلام الموقعین۱ ص۱۴)
اب آپ خود بتائیے، ڈاکٹر صاحب ہر آدمی کو فتوے کا حق دے کر دین کا مذاق نہیں بنا رہے تو اور کیا کر رہے ہیں..؟ دین میں اپنی رائے کے مطابق عمل کرنے کی دعوت نہیں دے رہے تو اور کیا کر رہے ہیں..؟ حالانکہ اِس پر حضور نے وعید سنائی ہے کہ دین پر اپنی رائے سے عمل کیا جائے،
اب آپ خود بتائیے، ڈاکٹر صاحب ہر آدمی کو فتوے کا حق دے کر دین کا مذاق نہیں بنا رہے تو اور کیا کر رہے ہیں..؟ دین میں اپنی رائے کے مطابق عمل کرنے کی دعوت نہیں دے رہے تو اور کیا کر رہے ہیں..؟ حالانکہ اِس پر حضور نے وعید سنائی ہے کہ دین پر اپنی رائے سے عمل کیا جائے،
من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار
(ترمذی۲ ص۱۲۳)
کہ جو قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہے، بس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے.
(٥) ایک برائی ڈاکٹر صاحب کے اندر یہ ہے کہ وہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں اور بائبل وغیرہ کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنے پروگراموں میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں لوگوں میں اپنی دھاک بٹھانے کیلئے دلیل کے طور پر غیروں کی کتابوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جو کہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابتدائے اسلام میں حضرت عمر کسی یہودی عالِم سے تورات پڑھنے جاتے تھے، آپ علیہ السلام کو اِس کی خبر ہوئی تو آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا، کہ عمر! کیا اللہ کی کتاب قرآن مجید تیرے لیے کافی نہیں ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر کو اِس سے منع فرما دیا.
(٦) ڈاکٹر صاحب دعوت ِ دین کے نام پر لوگوں کو دو باتوں کی طرف بلا رہے ہیں، (۱) مسلم عوام کا علماء سے اعتماد و یقین ہٹا دیا جائے، (۲) پوری امت کو تقلید جیسی نعمت سے ہٹا کر غیر مقلد یا لامذہب بنا دیا جائے.
اور اِن کی شروعات اِنھوں نے اس طرح کی کہ اصلاح و تقوے کا لباس چھوڑ کر کفار و فساق کا حلیہ اپنایا، اور اِسی غیر شرعی لباس میں آکر دینی مسائل پر رائے زنی شروع کر دی، اور اپنے ساتھ دینی مسائل کے سوال و جواب کی مجلس میں ایسے لوگوں کو معاون کے طور پر بٹھایا جو ننگے سر، ڈاڑھی صاف، اور کوٹ پتلون میں رہتے ہیں، اور ایسا جان بوجھ کر اسلئے کیا گیا تاکہ مسلم عوام کی نظر میں علماء اور بزرگوں کے لباس کی جو صورت و ہیئت ہے وہ دلوں سے مٹ جائے، اور کافروں کے لباس کی نفرت مسلمانوں کے دلوں سے ختم کر دی جائے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک مسلم عوام کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی مساجد میں کسی ڈاڑھی منڈے شخص کو امام بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں، اِسی طرح جن لوگوں کی شکل و صورت کفار و فساق کی سی ہو اُن کے بتائے ہوئے مسئلہ پر اطمنان نہیں کرتے، جب تک کہ کسی معتبر عالِم و مفتی سے تحقیق و تصدیق نہ کر لیں...
(٧) اِسی طرح امت کے تمام انصاف پسند طبقوں اور فرقوں کا اِس پر اتفاق رہا ہے کہ دینی نظم کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے لوگ جن کے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے، اُن پر لازم ہے کہ وہ ائمہ ِ اربعہ (حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل) میں سے کسی ایک کی تقلید کرے، یعنی اپنی مَن مانی نہ کرے، لیکن ڈاکٹر صاحب کا پورا زور اسی بات پر رہتا ہے کہ امت کو تقلید سے ہٹا دیا جائے، وہ اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امت کی گمراہی کی اصل وجہ تقلید ہی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے پروگراموں میں بعض لوگوں کو پہلے سے متعین کر کے رکھتے ہیں جو سب کے سامنے اس طرح کے سوال کرتے ہیں جن میں اختلاف ہو، اور پھر ایسے تمام مسائل میں ڈاکٹر صاحب غیر مقلدین کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں، اور بڑے معصومانہ انداز میں اپنے آپ کو غیر مقلد ظاہر کیے بغیر حاضرین و ناظرین کے سامنے براہ ِ راست قرآن و سنت سے حوالہ پیش کرنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں، چنانچہ ننگے سر نماز پڑھنا، عورت و مرد کی نماز میں فرق، عورتوں کا مسجد میں جانا، عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں جمعہ و عیدین کے خطبہ کو جائز کہنا، گاؤں میں جمعہ کی نماز کو جائز قرار دینا، رکعات ِ تراویح کی تعداد آٹھ ہیں، بَیَک وقت تین طلاق، بے وضو قرآن چھونے کی اجازت، اور اِس جیسے دوسرے سینکڑوں مسائل میں غیر مقلدین کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں.
(٨) اِس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تقریروں اور گفتگو میں ایک نہایت خطرناک پہلو یہ دکھایا جاتا ہے کہ وہ قرآنی آیات کے اعداد، پھر سورتوں کے اعداد و رکوعات کے نمبروں اور عدد کو اپنی مرضی سے ضرب و حساب دے کر عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ جاہلوں کی نظر میں یہ بڑی بات ہو، لیکن صحیح دینی فکر رکھنے والوں کی نظر میں یہ باتیں لغو و بیکار اور بے فائدہ ہیں، اسلئے کہ آیتوں کی ترقیم و تحریر اور آیتوں پر وقف کرنے والی علامت و نشانی اور پاروں کی تقسیم اور سورتوں اور پاروں کے اعتبار سے رکوعات کی تعیین یہ سب دور ِ نبوّت کے بعد کی کوششیں ہیں، یعنی پارہ نمبر، رکوع نمبر، سورت نمبر وغیرہ یہ سب آپ علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھے، بلکہ قرآن کی یہ ترتیب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں بعد کے لوگوں نے کی ہے تاکہ قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے میں سہولت ہو، تو بس رکوع یا سورتوں کے عدد میں جوڑ گھٹا کر کے کوئی نتیجہ نکالنا قرآن سے کھلواڑ کرنا ہے، جو صرف ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کے ہم خیال حضرات کی ذہنی پیداوار ہے، اور ان کی کم عقلی و کم علمی کی دلیل ہے، کیونکہ قرآن کوئی علم الاعداد کی کتاب نہیں ہے، کہ اس کو جنرل نالج کی کتاب بنا لیا جائے، بلکہ قرآن تو ہدایت کی کتاب ہے، اس کا "علم ِ جفر و رمل“ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.
علم ِ جَفَر= ایک علم کا نام ہے، جس میں حروف و اعداد کے ذریعے احوال ِ غیب دریافت کرتے ہیں.
رمل= آئندہ کے حالات معلوم کرنے کا ایک علم، اس کو (کنایۃً) نجوم، اور جوتش بھی کہا جاتا ہے.
لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ اِس ہدایت کی کتاب کو جنرل نالج کی کتاب بنا دینا چاہتے ہیں، چنانچہ کبھی تو وہ حضور علیہ السلام کی عمر کو آیتوں کے اعداد سے ثابت کرتے ہیں، اور کبھی انسانوں اور جانوروں کے کروسومز (تخلیقی خلیوں) کی تعداد اور کہیں مختلف دھاتوں کے اوزان کو ثابت کرنے کیلئے آیتوں کے حروف جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یا جوڑ گھٹا کر کے مختلف چیزوں کو ثابت کرتے ہیں، یعنی قرآن کو ریاضی کی کتاب بنا دیا ہے، نعوذ باللہ من ذالک.
آج پوری دنیا میں بولڈ فیشن، اور ماڈرن ذہنیت رکھنے والے مسلمان اِن کے "پیس ٹی وی“ پر دکھائے جانے والے پروگراموں کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں، اور اِن کی پیش کردہ آیتوں کے نمبرات و اعداد کو سن کر تعجب کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے زمانے میں شریعت اور اسلام کی "اسٹڈی“ ڈاکٹر صاحب سے زیادہ کرنے والا کوئی نہیں، اور دین کو جاننے والا ڈاکٹر صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، اور اُس وقت تو لوگ مزید ڈاکٹر صاحب کے علم کے قائل ہو جاتے ہیں جب وہ علماء اور بزرگان ِ دین کے بر خلاف عورت کے چہرے کے پردے کے خلاف دلچسپ دلائل دیتے ہیں، جس سے بے پردہ رہنے والی عورتوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور جب اِن کی گندی زبان "ٹائی کی وکالت“ اور ڈاڑھی کی اہمیت کم کرنے کیلئے حرکت میں آتی ہے، تو پھر ایسی خوشی کا ماحول بنتا ہے کہ مانو جیسے کوئی بہت ہی قیمتی شئے مل گئی ہو،
ظاہر ہے کہ حرام کو حلال کہنے والی باتیں علمائے ربانیین سے کہاں سننے کو ملیں گی..؟
بس ایسے لوگ ڈاکٹر صاحب کو آج کے زمانہ کا سب سے بڑا عالِم و مجدد سمجھتے ہیں، اور بعض بعض تو ڈاکٹر صاحب دیوانے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ "پندرہ سو سالوں میں آج تک دین کی ایسی خدمت و اشاعت یا پبلسٹی کسی نے نہیں کی، جیسی اور جتنی ڈاکٹر صاحب نے کردی ہے." گویا آج تک دین ِ اسلام کو ڈاکٹر صاحب سے زیادہ کسی نے نہیں پھیلایا، حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم مؤرخین کا کہنا ہے کہ "اگر آپ رضی اللہ عنہ دوسال اور زندہ رہ جاتے تو دنیا سے کفر کا نام و نشان مٹ جاتا."
اصل میں ڈاکٹر صاحب لوگوں کا یہی مزاج بنانا چاہتے ہیں کہ دین اور قرآن کو تو صرف اور صرف اُنھوں نے ہی سمجھا ہے، اور آج تک چودہ سو سالوں میں کوئی قرآن کو صحیح سمجھ ہی نہیں سکا ہے، حالانکہ یہ نظریہ و تصور، ضلالت وگمراہی ہے.
حدیث: قیامت تک ہر زمانے میں امت میں علمائے حق کی ایک ایسی جماعت باقی رہے گی جو دین ِ حق اور طریقہ ِ سنت پر عمل کرنے والی ہوگی."
حدیث ٢: میری امت کبھی ضلالت و گمراہی پر مجتمع نہیں ہوسکتی."
مزید ستم یہ کہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کو ٹی وی کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا پروگرام دیکھئے اور گھر بیٹھے دین حاصل کیجئے، جبکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ امت میں بے شرمی، بے حیائی، فتنہ و فساد کو پھیلانے میں ٹی وی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، اسی لیے علماء نے اس کو امّ الخبائث (تمام برائیوں کی جڑ) قرار دیا ہے.
بس ڈاکٹر صاحب ٹی وی کی آڑ میں بے شرمی و بے حیائی، فحاشی و عقائد میں بگاڑ پیدا کرنے کی طرف دعوت دے رہے ہیں، اللہ ہم سب کی حفاطت فرمائے.
خیر... خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے عقائد میں بگاڑ اور فساد ہے اور وہ اہل ِ سنت والجماعت کو چھوڑ کر غیر مقلدین کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، اسلئے ان کے پروگرام نہ دیکھے جائیں اور نہ سُنے جائیں، اور نہ ہی ان کی بات پر اُس وقت تک عمل کیا جائے جب تک کہ اُس کی تصدیق کسی معتبر عالِم ِ دین یا مفتی صاحب سے نہ کر لی جائے.
نوٹ: ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں مزید جاننے کیلئے نیچے دی گئی کتابوں کو پڑھیں
(٥) ایک برائی ڈاکٹر صاحب کے اندر یہ ہے کہ وہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں اور بائبل وغیرہ کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنے پروگراموں میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں لوگوں میں اپنی دھاک بٹھانے کیلئے دلیل کے طور پر غیروں کی کتابوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جو کہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابتدائے اسلام میں حضرت عمر کسی یہودی عالِم سے تورات پڑھنے جاتے تھے، آپ علیہ السلام کو اِس کی خبر ہوئی تو آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا، کہ عمر! کیا اللہ کی کتاب قرآن مجید تیرے لیے کافی نہیں ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر کو اِس سے منع فرما دیا.
(٦) ڈاکٹر صاحب دعوت ِ دین کے نام پر لوگوں کو دو باتوں کی طرف بلا رہے ہیں، (۱) مسلم عوام کا علماء سے اعتماد و یقین ہٹا دیا جائے، (۲) پوری امت کو تقلید جیسی نعمت سے ہٹا کر غیر مقلد یا لامذہب بنا دیا جائے.
اور اِن کی شروعات اِنھوں نے اس طرح کی کہ اصلاح و تقوے کا لباس چھوڑ کر کفار و فساق کا حلیہ اپنایا، اور اِسی غیر شرعی لباس میں آکر دینی مسائل پر رائے زنی شروع کر دی، اور اپنے ساتھ دینی مسائل کے سوال و جواب کی مجلس میں ایسے لوگوں کو معاون کے طور پر بٹھایا جو ننگے سر، ڈاڑھی صاف، اور کوٹ پتلون میں رہتے ہیں، اور ایسا جان بوجھ کر اسلئے کیا گیا تاکہ مسلم عوام کی نظر میں علماء اور بزرگوں کے لباس کی جو صورت و ہیئت ہے وہ دلوں سے مٹ جائے، اور کافروں کے لباس کی نفرت مسلمانوں کے دلوں سے ختم کر دی جائے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک مسلم عوام کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی مساجد میں کسی ڈاڑھی منڈے شخص کو امام بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں، اِسی طرح جن لوگوں کی شکل و صورت کفار و فساق کی سی ہو اُن کے بتائے ہوئے مسئلہ پر اطمنان نہیں کرتے، جب تک کہ کسی معتبر عالِم و مفتی سے تحقیق و تصدیق نہ کر لیں...
(٧) اِسی طرح امت کے تمام انصاف پسند طبقوں اور فرقوں کا اِس پر اتفاق رہا ہے کہ دینی نظم کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے لوگ جن کے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے، اُن پر لازم ہے کہ وہ ائمہ ِ اربعہ (حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل) میں سے کسی ایک کی تقلید کرے، یعنی اپنی مَن مانی نہ کرے، لیکن ڈاکٹر صاحب کا پورا زور اسی بات پر رہتا ہے کہ امت کو تقلید سے ہٹا دیا جائے، وہ اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امت کی گمراہی کی اصل وجہ تقلید ہی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے پروگراموں میں بعض لوگوں کو پہلے سے متعین کر کے رکھتے ہیں جو سب کے سامنے اس طرح کے سوال کرتے ہیں جن میں اختلاف ہو، اور پھر ایسے تمام مسائل میں ڈاکٹر صاحب غیر مقلدین کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں، اور بڑے معصومانہ انداز میں اپنے آپ کو غیر مقلد ظاہر کیے بغیر حاضرین و ناظرین کے سامنے براہ ِ راست قرآن و سنت سے حوالہ پیش کرنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں، چنانچہ ننگے سر نماز پڑھنا، عورت و مرد کی نماز میں فرق، عورتوں کا مسجد میں جانا، عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں جمعہ و عیدین کے خطبہ کو جائز کہنا، گاؤں میں جمعہ کی نماز کو جائز قرار دینا، رکعات ِ تراویح کی تعداد آٹھ ہیں، بَیَک وقت تین طلاق، بے وضو قرآن چھونے کی اجازت، اور اِس جیسے دوسرے سینکڑوں مسائل میں غیر مقلدین کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں.
(٨) اِس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تقریروں اور گفتگو میں ایک نہایت خطرناک پہلو یہ دکھایا جاتا ہے کہ وہ قرآنی آیات کے اعداد، پھر سورتوں کے اعداد و رکوعات کے نمبروں اور عدد کو اپنی مرضی سے ضرب و حساب دے کر عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ جاہلوں کی نظر میں یہ بڑی بات ہو، لیکن صحیح دینی فکر رکھنے والوں کی نظر میں یہ باتیں لغو و بیکار اور بے فائدہ ہیں، اسلئے کہ آیتوں کی ترقیم و تحریر اور آیتوں پر وقف کرنے والی علامت و نشانی اور پاروں کی تقسیم اور سورتوں اور پاروں کے اعتبار سے رکوعات کی تعیین یہ سب دور ِ نبوّت کے بعد کی کوششیں ہیں، یعنی پارہ نمبر، رکوع نمبر، سورت نمبر وغیرہ یہ سب آپ علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھے، بلکہ قرآن کی یہ ترتیب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں بعد کے لوگوں نے کی ہے تاکہ قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے میں سہولت ہو، تو بس رکوع یا سورتوں کے عدد میں جوڑ گھٹا کر کے کوئی نتیجہ نکالنا قرآن سے کھلواڑ کرنا ہے، جو صرف ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کے ہم خیال حضرات کی ذہنی پیداوار ہے، اور ان کی کم عقلی و کم علمی کی دلیل ہے، کیونکہ قرآن کوئی علم الاعداد کی کتاب نہیں ہے، کہ اس کو جنرل نالج کی کتاب بنا لیا جائے، بلکہ قرآن تو ہدایت کی کتاب ہے، اس کا "علم ِ جفر و رمل“ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.
علم ِ جَفَر= ایک علم کا نام ہے، جس میں حروف و اعداد کے ذریعے احوال ِ غیب دریافت کرتے ہیں.
رمل= آئندہ کے حالات معلوم کرنے کا ایک علم، اس کو (کنایۃً) نجوم، اور جوتش بھی کہا جاتا ہے.
لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ اِس ہدایت کی کتاب کو جنرل نالج کی کتاب بنا دینا چاہتے ہیں، چنانچہ کبھی تو وہ حضور علیہ السلام کی عمر کو آیتوں کے اعداد سے ثابت کرتے ہیں، اور کبھی انسانوں اور جانوروں کے کروسومز (تخلیقی خلیوں) کی تعداد اور کہیں مختلف دھاتوں کے اوزان کو ثابت کرنے کیلئے آیتوں کے حروف جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یا جوڑ گھٹا کر کے مختلف چیزوں کو ثابت کرتے ہیں، یعنی قرآن کو ریاضی کی کتاب بنا دیا ہے، نعوذ باللہ من ذالک.
آج پوری دنیا میں بولڈ فیشن، اور ماڈرن ذہنیت رکھنے والے مسلمان اِن کے "پیس ٹی وی“ پر دکھائے جانے والے پروگراموں کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں، اور اِن کی پیش کردہ آیتوں کے نمبرات و اعداد کو سن کر تعجب کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے زمانے میں شریعت اور اسلام کی "اسٹڈی“ ڈاکٹر صاحب سے زیادہ کرنے والا کوئی نہیں، اور دین کو جاننے والا ڈاکٹر صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، اور اُس وقت تو لوگ مزید ڈاکٹر صاحب کے علم کے قائل ہو جاتے ہیں جب وہ علماء اور بزرگان ِ دین کے بر خلاف عورت کے چہرے کے پردے کے خلاف دلچسپ دلائل دیتے ہیں، جس سے بے پردہ رہنے والی عورتوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور جب اِن کی گندی زبان "ٹائی کی وکالت“ اور ڈاڑھی کی اہمیت کم کرنے کیلئے حرکت میں آتی ہے، تو پھر ایسی خوشی کا ماحول بنتا ہے کہ مانو جیسے کوئی بہت ہی قیمتی شئے مل گئی ہو،
ظاہر ہے کہ حرام کو حلال کہنے والی باتیں علمائے ربانیین سے کہاں سننے کو ملیں گی..؟
بس ایسے لوگ ڈاکٹر صاحب کو آج کے زمانہ کا سب سے بڑا عالِم و مجدد سمجھتے ہیں، اور بعض بعض تو ڈاکٹر صاحب دیوانے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ "پندرہ سو سالوں میں آج تک دین کی ایسی خدمت و اشاعت یا پبلسٹی کسی نے نہیں کی، جیسی اور جتنی ڈاکٹر صاحب نے کردی ہے." گویا آج تک دین ِ اسلام کو ڈاکٹر صاحب سے زیادہ کسی نے نہیں پھیلایا، حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم مؤرخین کا کہنا ہے کہ "اگر آپ رضی اللہ عنہ دوسال اور زندہ رہ جاتے تو دنیا سے کفر کا نام و نشان مٹ جاتا."
اصل میں ڈاکٹر صاحب لوگوں کا یہی مزاج بنانا چاہتے ہیں کہ دین اور قرآن کو تو صرف اور صرف اُنھوں نے ہی سمجھا ہے، اور آج تک چودہ سو سالوں میں کوئی قرآن کو صحیح سمجھ ہی نہیں سکا ہے، حالانکہ یہ نظریہ و تصور، ضلالت وگمراہی ہے.
حدیث: قیامت تک ہر زمانے میں امت میں علمائے حق کی ایک ایسی جماعت باقی رہے گی جو دین ِ حق اور طریقہ ِ سنت پر عمل کرنے والی ہوگی."
حدیث ٢: میری امت کبھی ضلالت و گمراہی پر مجتمع نہیں ہوسکتی."
مزید ستم یہ کہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کو ٹی وی کی دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا پروگرام دیکھئے اور گھر بیٹھے دین حاصل کیجئے، جبکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ امت میں بے شرمی، بے حیائی، فتنہ و فساد کو پھیلانے میں ٹی وی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، اسی لیے علماء نے اس کو امّ الخبائث (تمام برائیوں کی جڑ) قرار دیا ہے.
بس ڈاکٹر صاحب ٹی وی کی آڑ میں بے شرمی و بے حیائی، فحاشی و عقائد میں بگاڑ پیدا کرنے کی طرف دعوت دے رہے ہیں، اللہ ہم سب کی حفاطت فرمائے.
خیر... خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے عقائد میں بگاڑ اور فساد ہے اور وہ اہل ِ سنت والجماعت کو چھوڑ کر غیر مقلدین کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، اسلئے ان کے پروگرام نہ دیکھے جائیں اور نہ سُنے جائیں، اور نہ ہی ان کی بات پر اُس وقت تک عمل کیا جائے جب تک کہ اُس کی تصدیق کسی معتبر عالِم ِ دین یا مفتی صاحب سے نہ کر لی جائے.
نوٹ: ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں مزید جاننے کیلئے نیچے دی گئی کتابوں کو پڑھیں
(۱) حقیقت ِ ذاکر نائیک
(۲) فتوی دارالعلوم دیوبند
.
.
सवाल: डॉक्टर जाकिर नाइक की गिनती किन लोगों में है, अहले हक में, या अहले बातिल में? फिर इनके बयान व कार्यक्रम वगैरह सुनना या देखना कैसा है?
.
जवाब: मुस्लिम किताब के शुरू में इमामुल-महद्दिसीन हज़रत मोहम्मद इब्ने सीरीन रहमतुल्लाह अलैह का प्रसिद्ध मकूला है कि इल्मे फ़िक़ा व हदीस दीन है, तो बस अच्छी तरह विचार कर लो कि तुम किससे दीन ले रहे हो..? (1/11)
इसमें इस बात का संकेत है कि शरीयत के इल्म या मसाइल वगैरह की जानकारी हर आदमी से नहीं करनी चाही ए, बल्कि उसी आदमी (आलिम व मुफ्ती) से करनी चाहिए जिसने मोतबर उस्तादों या मोतबर उलेमाओं की सेवा में रहकर दीनी इल्म हासिल किया हो, और उनके इल्मो-अमल पर लोगों को भरोसा भी हो चुका हो...
इस तफसील की रोशनी में जब हम डॉक्टर ज़ाकिर नाइक साहब की तुलना करते हैं तो यह बात खुलकर सामने आती है कि वे दीनी मोज़ू या दीनी मसाइल पर राय ज़नी (टिप्पणी) करने के बिल्कुल भी लायक नहीं हैं, क्योंकि न तो उन्होंने ऊपर ज़िक्र किए गए तरीके के अनुसार इल्म हासिल किया है कि जिस पर कुरान समझने और हदीस जानने का दारोमदार है, जैसे इल्मे सर्फ़ व नहू, या अरबी अदब वगैरह, और न ही उन्होंने दीन के मोतबर उस्तादों से इल्म हासिल किया है, बल्कि इनकी जानकारी का सारा दारोमदार उर्दू या अंग्रेजी तर्जमे वाली किताबों पर है, तो जिस आदमी ने अस्ल नुसूस यानी कुरानो-हदीस या मसाइल को सीधे यानी फेस टू फेस न किया हो, वह दीन की बातें या मसाइल वगैरह किसी को कैसे बता सकता है..?
मगर इसके बावजूद आश्चर्य है डॉक्टर साहब पर कि वे अपने कार्यक्रमों में पूरी ताकत से अपनी राय प्रदान करते हैं, और यह कि सुनने वालों को यह विश्वास दिलाना चाहते हैं कि उन्होंने जो मतलब समझा है वही सही और अस्ल है, चाहे उलमाए उम्मत का फैसला या फतवा उसके खिलाफ हो...
फिर आपको पता होना चाहिए कि डॉक्टर जाकिर नाइक की पैदाइश एक गैर मुकल्लिद घराने में हुई है, इसलिए वे उन किताबों को पढ़कर इल्म हासिल करते हैं जिन्हें गैर मुकल्लिदीन ने लिखा है, या उनसे प्रभावित हैं, या फिर आज़ाद खयाल हैं, यही वजह है कि डॉक्टर साहब पर उसी माहौल और उन्हीं गैर मुकल्लिदीन की पुस्तकों और उनके अकाइदो-विचारों का रंग चढ़ा हुआ है, और उनकी इच्छा भी यही है कि वे अपने कार्यक्रम सुनने वालों या अपनी किताबें पढ़ने वालों को गैर मुकल्लिदियत का संदेश दें, और इस मिशन पर वह पूरी सख्ती से काम भी कर रहे हैं, तो डॉक्टर साहब के अंदर आत्मविश्वास और खुदराई पैदा हो चुकी है, क्योंकि वे कुरान की तफसीर भी अपनी राय से कर बैठते हैं, और बड़े बड़े उलेमा और मुफस्सिरीन की तफसीर को गलत करार दे देते हैं, जैसे
(1) कुरान की आयत "अर-रिजालु क़व्वामूना- अलन-निसा" के बारे में कहते हैं कि इसमें मर्दों का औरतों से अफज़ल होना मुराद नहीं है, बल्कि जिम्मेदारी में ऊँचा होना मुराद है, (खुतबात जाकिर नाइक प295)
(2) इसी तरह आयत "व यालमु मा फिर अरहाम" कि सिर्फ अल्लाह ही जानता है कि गर्भ (पेट) में क्या है, लड़का है या लड़की..?
कहते हैं कि मुफस्सिरीन से इस आयत की तफसीर समझने में से गलती हुई है यानी सिर्फ अल्लाह ही को गर्भ के बारे में मालूम नहीं है, बल्कि अब विज्ञान (साइंस) भी बता सकता कि गर्भ में क्या है? और आयत का मतलब है कि "अल्लाह ही जानता है कि पैदा होने वाला बच्चा अच्छा होगा या बुरा, यानी बच्चे के लिंग का पता होने का मतलब नहीं है बल्कि अच्छे और बुरे होने का मतलब है, (इस्लाम पर चालीस ऐतराज का जवाब प130)
(3) सूरह मुम्तहिना की 12_वीं आयत में तौबा पर बैअत करने का बयान है कि आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के हाथ पर हाथ रखकर तौबा करो कि आज के बाद हम शिर्क, क़त्ल, ज़िना, झूठ और इन जैसे दूसरे गुनाह नहीं करेंगे।
मगर डॉक्टर साहब कहते हैं कि यह तौबा पर बैअत नहीं थी, बल्कि यह तो वोट देने का सबूत है, यानी जिस तरह आज ज़माने में वोट देकर लोग अपना नेता या हाकिम वगैरह बनाते या चुनते हैं, इसी तरह सहाबा ने आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को वोट देकर अपना हाकिम व अमीर बनाया था, (इस्लाम में ख्वातीन के हुक़ूक़ प50)
जबकि मौजूदा दौर के मतदान का इस्लाम में कोई ज़िक्र ही नहीं है, लेकिन डॉक्टर साहब कुरान की आयत के माना व तफसीर बिगाड़ कर लोकतंत्र (जमहूरियत) को इस्लाम से जोड़ने या साबित करने की नाकाम कोशिश कर रहे हैं, बल्कि इस्लाम में तो लोकतंत्र (जमहूरियत) इसका नाम है कि उम्मत के समझदार, बुद्धिमान, ईमानदार, अच्छे और भक्त लोग किसी एक के बारे में सहमत या एक राय से फैसला कर दें, कि हाकिम या अमीर फ़ुलाँ आदमी होगा, जैसाकि हज़रत अबु बकर, हज़रत उस्मान और हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्हुम को जलीलुल-क़द्र सहाबा के एक दल (जमात) ने अमीर व हाकिम बनाया था, आजकल के सिर्फ नाम नाम के लोकतंत्र का इस्लाम से कोई वास्ता नहीं है, जिसमें अक्लमंदी के बजाय लोगों की संख्या देखी जाती है, और नालायक, मूर्ख, धोखेबाज, झगड़ालू किस्म के लोगों को हाकिम बना दिया जाता है, (किताबुल नवाज़िल2 प538)
(4) ऐसे ही जब डॉक्टर साहब से पूछा गया कि फतवा देने का अधिकार किसे है? तो जवाब दिया कि हर आदमी फतवा दे सकता है, क्योंकि फतवे के माना हैं राय देना, हालांकि उलेमा-ए-उम्मत का इत्तेफाक है कि हर आदमी फतवा देने में सक्षम नहीं है, बल्कि आलिम व मुफ्ती ही फतवा दे, और आलिम व मुफ्ती भी ऐसा जिसे दीन के मसाइल में महारत है, इसलिए इस टैलेंट को बनाने के लिए मदरसों में दो साल का पाठ्यक्रम (निसाब) पढ़ाया जाता है।
हदीस: जो शख्स बिना ज्ञान के फतवा दे उस स्वर्गदूत (फरिश्ते) लानत भेजते हैं,
(अल्फकीहु वल्मुत्तफिका प458) (किताबुल-नवाज़िल1 प200)
इसलिए आप अलैहिस्सलाम के बाद सहाबा को जब किसी समस्या में झिझक होती तो वह फ़ुक़्हाए मदीना के पास जाया करते थे, और पूरे मदीने में सिर्फ सात सहाबा इस काम में लगे थे: (1) हज़रत उमर रज़ियल्लाहु अन्ह (2) हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्ह (3) हज़रत अब्दुल्ला बिन मसूद रज़ियल्लाहु अन्ह (4) हज़रत आईशा रज़ियल्लाहु अन्हा (5) हज़रत ज़ैद बिन साबित रज़ियल्लाहु अन्ह (6) हज़रत अब्दुल्ला बिन अब्बास रज़ियल्लाहु अन्ह (7) हज़रत अब्दुल्ला बिन उमर रज़ियल्लाहु अन्ह (आलामुल-मुवक्किईन1 प14)
अब आप खुद बताइए, डॉक्टर साहब हर आदमी को फतवा का अधिकार देकर दीन का मजाक नहीं कर रहे तो क्या कर रहे हैं..? दीन में अपनी राय के अनुसार कार्य करने के लिए आमंत्रित नहीं कर रहे तो क्या कर रहे हैं..? हालांकि इस पर पैगम्बर ने चेतावनी सुनाई है कि दीन पर अपनी राय से अमल किया जाए, (तिर्मिज़ी2 प123) कि जो कुरान के बारे में अपनी राय से कुछ कहे, बस वह अपना ठिकाना नरक मैं बना ले।
(5) एक बुराई डॉक्टर साहब के अंदर यह है कि वह हिंदुओं की धार्मिक पुस्तकों और बाइबिल वगैरह का गहराई से अध्ययन (मुताला) करते हैं और फिर अपने कार्यक्रमों में पूछे गए सवालों के जवाब में लोगों में अपनी धाक बिठाने के लिए दलील के रूप में दूसरों की किताबों का भी हवाला देते हैं, जो कि सही नहीं है, क्योंकि शुरू इस्लाम में हज़रत उमर किसी यहूदी आलिम से तौरात पढ़ने जाते थे, आप अलैहिस्सलाम को इसकी खबर हुई तो आपका चेहरा गुस्से से लाल हो गया कि उम्र! क्या अल्लाह की किताब कुरान मजीद तेरे लिए काफ़ी नहीं है? यानी आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने हज़रत उमर को इससे मना किया।
(6) डॉक्टर साहब दावते दीन के नाम पर लोगों को दो बातों की तरफ बुला रहे हैं, (1) मुस्लिम जनता का उलेमाओं से ऐतमादो-यकीन हटा दिया जाए, (2) पूरी उम्मत को तक़लीद जैसी नेमत से हटाकर गैर मुकल्लिद या लामज़हब बना दिया जाए।
और इनकी शुरुआत उन्होंने इस तरह की कि इस्लाहो-तक़वे का लिबास छोड़कर काफिरों और फासिकों का हुलिया अपनाया, और इसी गैर शरई पोशाक में आकर धार्मिक मुद्दों पर राय देना शुरू कर दिया, और अपने साथ धार्मिक मुद्दों के सवालो-जवाब की सभा में ऐसे लोगों को सहायक के रूप में बिठाया जो नंगे सिर, दाढ़ी साफ है, और कोट पैंट में रहते हैं, और ऐसा जानबूझकर इसलिए किया गया ताकि मुस्लिम जनता की नजर में उलेमाओं और बुजुर्गों के कपड़ों की जो शक्लो-सूरत है वह दिलों से मिट जाए और काफिरों के कपड़ों की नफरत मुसलमानों के दिलों से खत्म कर दी जाए, लेकिन अल्लाह का शुक्र है कि अभी तक मुस्लिम जनता का स्वभाव यह है कि वह अपनी मस्जिदों में किसी दाढ़ी मुंडे शख्स को इमाम बनाने के लिए तैयार नहीं हैं इसी तरह जिन लोगों की शक्ल व सूरत काफिरों और फासिकों की सी हो उनके बताए हुए मसले पर संतोष नहीं करते, जब तक कि किसी मोतबर आलिम व मुफ्ती से तहकीको-तसदीक न कर लें...
(7) इसी तरह उम्मत तमाम इंसाफ़ पसंद तबकों और फिरकों का इस बात पर इत्तफाक रहा है कि दीनी इंतजाम को बनाए रखने के लिए ऐसे लोग जिनके अंदर इज्तेहाद की क्षमता नहीं है, उनके लिए ज़रूरी है कि वे चार इमामों (हज़रत इमाम अबु हनीफा, हज़रत इमाम शाफई, हज़रत इमाम मलिक और हज़रत इमाम अहमद बिन हंबल) में से किसी एक का कहा माने, अपनी मनमानी न करे, लेकिन डॉक्टर साहब का पूरा जोर इसी बात पर रहता है कि उम्मत को तकलीद से हटा दिया जाए वह अपनी चिकनी चुपड़ी बातों से यह साबित करना चाहते हैं कि उम्मत के बिगड़ने की अस्ल वजह तकलीद ही है, इसलिए वह अपने कार्यक्रमों में कुछ लोगों को पूर्व निर्धारित करके रखते हैं जो सबके सामने इस तरह के सवाल करते हैं जिनमें मतभेद (इखतेलाफ) हो, और फिर ऐस तमाम मस्अलों में डॉक्टर साहब गैर मुकल्लिदीन की भरपूर तर्जमानी करते हैं, और बड़े भोलेपन से अपने आप को गैर मुकल्लिद ज़ाहिर किए बिना दर्शकों के सामने सीधे कुरानो-सुन्नत से हवाला पेश करने की एक्टिंग करते हैं, चुनांचे नंगे सिर नमाज़ पढ़ना, औरत व मर्द की नमाज़ में अंतर, औरतों का मस्जिद में जाना, अरबी भाषा के अलावा दूसरी भाषाओं में जुमा व ईदैन के ख़ुतबे को जायज़ कहना, गांव में जुमे की नमाज को मान्यता देना, तरावीह की रकात की संख्या आठ हैं, एक साथ तीन तलाक, बे वुज़ू कुरान छूने की अनुमति, और इस जैसे दूसरे सैकड़ों मस्अलों में गैर मुकल्लिदीन की सराहना करते नज़र आते हैं।
(8) इसके अलावा डॉक्टर साहब के भाषणों और बातचीत में एक बहुत खतरनाक पहलू यह दिखाया गया है कि वह कुरान की आयात के आदाद, फिर सूरतों के आदाद, रुकूआत के निशान और आदाद को अपनी मर्ज़ी से गुणा देकर अजीबोगरीब नतीजा निकालते हैं, हो सकता है कि जाहिलों की नज़र में यह बड़ी बात हो, लेकिन सही देनी चिंता रखने वालों की नजर में ये बातें बेकारो बेफायदा है, क्योंकि आयतों की तरकीमो-तहरीर और आयतों पर रुकने के निशानात और पारों की तक़सीम, और सूरतों और पारों के हित से रुकूओं की तायीन, यह सब नबी के ज़माने के बाद की कोशिशें हैं यानी पारा नंबर, रुकू नंबर, सूरत नंबर वगैरह यह सब आप अलैहिस्सलाम के ज़माने में नहीं थे, बल्कि कुरान की यह सेटिंग जो आज हम देख रहे हैं बाद के लोगों ने की है ताकि कुरान पढ़ने वालों को कुरान पढ़ने में सुविधा हो, तो बस रुकू या सूरतों के अंक में जोड़ घटा कर के कोई अनुमान लगाना कुरान से खिलवाड़ करना है, जो सिर्फ डॉ जाकिर नाइक और उनके हम विचार लोगों की मानसिक उपज है, और उनके कम अक्ली व कम इल्मी की दलील है, क्योंकि कुरान इल्मुल-आदाद की किताब नहीं है, कि इसको जनरल नॉलेज की पुस्तक बना लिया जाए बल्कि कुरान तो हिदायत की पुस्तक है, इसका इल्मे जफर व रमल से कोई लेना देना नहीं है।
इल्मे जफर = एक इल्म का नाम है, जिसमें हुरूफो-आदाद के ज़रिए अहवाले गैब की खोज करते हैं।
रमल = फ्यूचर पता करने के लिए एक इल्म, जिसको नुजूम और ज्योतिष भी कहा जाता है।
लेकिन डॉ जाकिर नाइक जैसे लोग इस हिदायत की पुस्तक को जनरल नॉलेज की पुस्तक बना देना चाहते हैं, तो कभी तो वह पवित्र अलैहिस्सलाम की उम्र आयतों के आंकड़े से साबित करते हैं, और कभी मनुष्यों और पशुओं के करोसोमज़ (तखलीकी खलियों) की संख्या और कहीं अलग अलग धातुओं के औज़ान को साबित करने के आयतों के अक्षर जोड़ने की कोशिश करते हैं, या जोड़ घटाकर विभिन्न चीजों को साबित करते हैं, यानी कुरान को गणित की पुस्तक बना दिया है।
आज पूरी दुनिया में बोल्ड फैशन और आधुनिक मानसिकता (मॉडर्न ज़ेहनिय्यत) रखने वाले मुसलमान इनके "पीस टीवी" पर दिखाए जाने वाले कार्यक्रमों को बड़े शौक से देखते हैं, और इनकी पेश की गई आयतों के नंबरातो-आदाद को सुनकर आश्चर्य करते हैं और यह समझते हैं कि आज के युग में शरीयत और इस्लाम की "स्टडी" डॉक्टर साहब से ज़्यादा करने वाला कोई नहीं, और दीन को जानने वाला डॉक्टर साहब से बढ़कर कोई नहीं है, और उस समय तो लोग बहुत ज़्यादा डॉक्टर साहब के इल्म के दीवाने हो जाते हैं जब वे उलेमाओं और बुज़ुर्गों के दीन के खिलाफ औरत के चेहरे के पर्दे के खिलाफ दिलचस्प दलीलें देते हैं, जिससे उजागर रहने वाली औरतों में खुशी की लहर दौड़ जाती है, और जब उनके गंदी ज़बान "टाई की वकालत"और दाढ़ी के महत्व को कम करने के लिए हरकत में आती है, तो ऐसी खुशी का माहौल बनता है कि मानो जैसे कोई बहुत कीमती शए मिल गई हो,
जाहिर है कि हराम को हलाल कहने वाली बातें उलमाए रब्बानिय्यीन से तो कहां सुनने को मिलेंगी..?
बस ऐसे लोग डॉक्टर साहब को आज के ज़माने का सबसे बड़ा आलिम व मुजद्दिद समझते हैं, और कुछ कुछ तो डॉक्टर साहब के दीवाने ऐसे हैं जो कहते हैं कि "पंद्रह सौ सालों में आज तक दीन की ऐसी सेवा और पब्लिसिटी किसी ने नहीं की, जैसी और जितनी डॉक्टर साहब ने की है। "मानो आज तक इस्लाम को डॉक्टर साहब से ज़्यादा किसी ने नहीं फैलाया, हालांकि हज़रत उमर रज़ियल्लाहु अन्ह के बारे में मुस्लिम और गैर मुस्लिम इतिहासकारों का कहना है कि "अगर आप रज़ियल्लाहु अन्ह दो साल और जीवित रह जाते तो दुनिया से नास्तिकता (कुफ्र) का नामोनिशान मिट जाता।"
वास्तव में डॉक्टर साहब लोगों का यही स्वभाव बनाना चाहते हैं कि दीन और कुरान को तो सिर्फ उन्होंने ही समझा है, और आज तक चौदह सौ सालों में कोई कुरान को सही समझ ही नहीं सका है, हालांकि यह सिद्धांत और कल्पना, ज़लालतो-गुमराही है।
हदीस: क़यामत तक हर ज़माने में उम्मत में उलमाए हक़ की एक ऐसी जमात बाकी रहेगी जो दीने हक़ और तरीकाए सुन्नत का पालन करने वाली होगी। "
हदीस 2: मेरी उम्मत कभी ज़लालतो-गुमराही पर जमा नहीं हो सकती। "
अधिक सितम यह कि डॉक्टर साहब लोगों को टीवी के लिए आमंत्रित कर रहे हैं कि हमारा कार्यक्रम देखिए और घर बैठे दीन प्राप्त कीजिए, जबकि हम सभी जानते हैं कि उम्मत मैं बेशर्मी बेहयाई व बुराईयों को फैलाने में टीवी का सबसे बड़ा हाथ है, इसलिए उलेमाओं ने इसे उम्मुल-खबाईस (सभी बीमारियों की जड़) करार दिया है।
बस डाक्टर साहब टीवी की आड़ में बेशर्मी व बेहयाई, अश्लीलता और अकाइद में बिगाड़ पैदा करने की तरफ आमंत्रित कर रहे हैं, अल्लाह हम सब की रक्षा करे।
खैर... कुल मिलाकर यह है कि डॉक्टर साहब के अकाइद में बिगाड़ और शरारत है और वे अहले सुन्नत वलजमात को छोड़कर गैर मुकल्लिदीन की पंक्ति में शामिल हो गए हैं, इसलिए इनके कार्यक्रम न देखे जाएं और न सुने जाएं, न ही इनकी बात पर तब तक अमल किया जाए जब तक कि उसकी पुष्टि किसी विश्वसनीय धर्मगुरू (मोतबर आलिम या मुफ्ती साहब न कर ली जाए।
नोट: डॉक्टर जाकिर नाइक के बारे में अधिक जानने के लिए नीचे दी गई पुस्तकों को पढ़ें!
(1) हकीकते जाकिर नाइक (2) फतवा दारुल उलूम देवबंद...
.
مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نانکوی
.
जवाब: मुस्लिम किताब के शुरू में इमामुल-महद्दिसीन हज़रत मोहम्मद इब्ने सीरीन रहमतुल्लाह अलैह का प्रसिद्ध मकूला है कि इल्मे फ़िक़ा व हदीस दीन है, तो बस अच्छी तरह विचार कर लो कि तुम किससे दीन ले रहे हो..? (1/11)
इसमें इस बात का संकेत है कि शरीयत के इल्म या मसाइल वगैरह की जानकारी हर आदमी से नहीं करनी चाही ए, बल्कि उसी आदमी (आलिम व मुफ्ती) से करनी चाहिए जिसने मोतबर उस्तादों या मोतबर उलेमाओं की सेवा में रहकर दीनी इल्म हासिल किया हो, और उनके इल्मो-अमल पर लोगों को भरोसा भी हो चुका हो...
इस तफसील की रोशनी में जब हम डॉक्टर ज़ाकिर नाइक साहब की तुलना करते हैं तो यह बात खुलकर सामने आती है कि वे दीनी मोज़ू या दीनी मसाइल पर राय ज़नी (टिप्पणी) करने के बिल्कुल भी लायक नहीं हैं, क्योंकि न तो उन्होंने ऊपर ज़िक्र किए गए तरीके के अनुसार इल्म हासिल किया है कि जिस पर कुरान समझने और हदीस जानने का दारोमदार है, जैसे इल्मे सर्फ़ व नहू, या अरबी अदब वगैरह, और न ही उन्होंने दीन के मोतबर उस्तादों से इल्म हासिल किया है, बल्कि इनकी जानकारी का सारा दारोमदार उर्दू या अंग्रेजी तर्जमे वाली किताबों पर है, तो जिस आदमी ने अस्ल नुसूस यानी कुरानो-हदीस या मसाइल को सीधे यानी फेस टू फेस न किया हो, वह दीन की बातें या मसाइल वगैरह किसी को कैसे बता सकता है..?
मगर इसके बावजूद आश्चर्य है डॉक्टर साहब पर कि वे अपने कार्यक्रमों में पूरी ताकत से अपनी राय प्रदान करते हैं, और यह कि सुनने वालों को यह विश्वास दिलाना चाहते हैं कि उन्होंने जो मतलब समझा है वही सही और अस्ल है, चाहे उलमाए उम्मत का फैसला या फतवा उसके खिलाफ हो...
फिर आपको पता होना चाहिए कि डॉक्टर जाकिर नाइक की पैदाइश एक गैर मुकल्लिद घराने में हुई है, इसलिए वे उन किताबों को पढ़कर इल्म हासिल करते हैं जिन्हें गैर मुकल्लिदीन ने लिखा है, या उनसे प्रभावित हैं, या फिर आज़ाद खयाल हैं, यही वजह है कि डॉक्टर साहब पर उसी माहौल और उन्हीं गैर मुकल्लिदीन की पुस्तकों और उनके अकाइदो-विचारों का रंग चढ़ा हुआ है, और उनकी इच्छा भी यही है कि वे अपने कार्यक्रम सुनने वालों या अपनी किताबें पढ़ने वालों को गैर मुकल्लिदियत का संदेश दें, और इस मिशन पर वह पूरी सख्ती से काम भी कर रहे हैं, तो डॉक्टर साहब के अंदर आत्मविश्वास और खुदराई पैदा हो चुकी है, क्योंकि वे कुरान की तफसीर भी अपनी राय से कर बैठते हैं, और बड़े बड़े उलेमा और मुफस्सिरीन की तफसीर को गलत करार दे देते हैं, जैसे
(1) कुरान की आयत "अर-रिजालु क़व्वामूना- अलन-निसा" के बारे में कहते हैं कि इसमें मर्दों का औरतों से अफज़ल होना मुराद नहीं है, बल्कि जिम्मेदारी में ऊँचा होना मुराद है, (खुतबात जाकिर नाइक प295)
(2) इसी तरह आयत "व यालमु मा फिर अरहाम" कि सिर्फ अल्लाह ही जानता है कि गर्भ (पेट) में क्या है, लड़का है या लड़की..?
कहते हैं कि मुफस्सिरीन से इस आयत की तफसीर समझने में से गलती हुई है यानी सिर्फ अल्लाह ही को गर्भ के बारे में मालूम नहीं है, बल्कि अब विज्ञान (साइंस) भी बता सकता कि गर्भ में क्या है? और आयत का मतलब है कि "अल्लाह ही जानता है कि पैदा होने वाला बच्चा अच्छा होगा या बुरा, यानी बच्चे के लिंग का पता होने का मतलब नहीं है बल्कि अच्छे और बुरे होने का मतलब है, (इस्लाम पर चालीस ऐतराज का जवाब प130)
(3) सूरह मुम्तहिना की 12_वीं आयत में तौबा पर बैअत करने का बयान है कि आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के हाथ पर हाथ रखकर तौबा करो कि आज के बाद हम शिर्क, क़त्ल, ज़िना, झूठ और इन जैसे दूसरे गुनाह नहीं करेंगे।
मगर डॉक्टर साहब कहते हैं कि यह तौबा पर बैअत नहीं थी, बल्कि यह तो वोट देने का सबूत है, यानी जिस तरह आज ज़माने में वोट देकर लोग अपना नेता या हाकिम वगैरह बनाते या चुनते हैं, इसी तरह सहाबा ने आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को वोट देकर अपना हाकिम व अमीर बनाया था, (इस्लाम में ख्वातीन के हुक़ूक़ प50)
जबकि मौजूदा दौर के मतदान का इस्लाम में कोई ज़िक्र ही नहीं है, लेकिन डॉक्टर साहब कुरान की आयत के माना व तफसीर बिगाड़ कर लोकतंत्र (जमहूरियत) को इस्लाम से जोड़ने या साबित करने की नाकाम कोशिश कर रहे हैं, बल्कि इस्लाम में तो लोकतंत्र (जमहूरियत) इसका नाम है कि उम्मत के समझदार, बुद्धिमान, ईमानदार, अच्छे और भक्त लोग किसी एक के बारे में सहमत या एक राय से फैसला कर दें, कि हाकिम या अमीर फ़ुलाँ आदमी होगा, जैसाकि हज़रत अबु बकर, हज़रत उस्मान और हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्हुम को जलीलुल-क़द्र सहाबा के एक दल (जमात) ने अमीर व हाकिम बनाया था, आजकल के सिर्फ नाम नाम के लोकतंत्र का इस्लाम से कोई वास्ता नहीं है, जिसमें अक्लमंदी के बजाय लोगों की संख्या देखी जाती है, और नालायक, मूर्ख, धोखेबाज, झगड़ालू किस्म के लोगों को हाकिम बना दिया जाता है, (किताबुल नवाज़िल2 प538)
(4) ऐसे ही जब डॉक्टर साहब से पूछा गया कि फतवा देने का अधिकार किसे है? तो जवाब दिया कि हर आदमी फतवा दे सकता है, क्योंकि फतवे के माना हैं राय देना, हालांकि उलेमा-ए-उम्मत का इत्तेफाक है कि हर आदमी फतवा देने में सक्षम नहीं है, बल्कि आलिम व मुफ्ती ही फतवा दे, और आलिम व मुफ्ती भी ऐसा जिसे दीन के मसाइल में महारत है, इसलिए इस टैलेंट को बनाने के लिए मदरसों में दो साल का पाठ्यक्रम (निसाब) पढ़ाया जाता है।
हदीस: जो शख्स बिना ज्ञान के फतवा दे उस स्वर्गदूत (फरिश्ते) लानत भेजते हैं,
(अल्फकीहु वल्मुत्तफिका प458) (किताबुल-नवाज़िल1 प200)
इसलिए आप अलैहिस्सलाम के बाद सहाबा को जब किसी समस्या में झिझक होती तो वह फ़ुक़्हाए मदीना के पास जाया करते थे, और पूरे मदीने में सिर्फ सात सहाबा इस काम में लगे थे: (1) हज़रत उमर रज़ियल्लाहु अन्ह (2) हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्ह (3) हज़रत अब्दुल्ला बिन मसूद रज़ियल्लाहु अन्ह (4) हज़रत आईशा रज़ियल्लाहु अन्हा (5) हज़रत ज़ैद बिन साबित रज़ियल्लाहु अन्ह (6) हज़रत अब्दुल्ला बिन अब्बास रज़ियल्लाहु अन्ह (7) हज़रत अब्दुल्ला बिन उमर रज़ियल्लाहु अन्ह (आलामुल-मुवक्किईन1 प14)
अब आप खुद बताइए, डॉक्टर साहब हर आदमी को फतवा का अधिकार देकर दीन का मजाक नहीं कर रहे तो क्या कर रहे हैं..? दीन में अपनी राय के अनुसार कार्य करने के लिए आमंत्रित नहीं कर रहे तो क्या कर रहे हैं..? हालांकि इस पर पैगम्बर ने चेतावनी सुनाई है कि दीन पर अपनी राय से अमल किया जाए, (तिर्मिज़ी2 प123) कि जो कुरान के बारे में अपनी राय से कुछ कहे, बस वह अपना ठिकाना नरक मैं बना ले।
(5) एक बुराई डॉक्टर साहब के अंदर यह है कि वह हिंदुओं की धार्मिक पुस्तकों और बाइबिल वगैरह का गहराई से अध्ययन (मुताला) करते हैं और फिर अपने कार्यक्रमों में पूछे गए सवालों के जवाब में लोगों में अपनी धाक बिठाने के लिए दलील के रूप में दूसरों की किताबों का भी हवाला देते हैं, जो कि सही नहीं है, क्योंकि शुरू इस्लाम में हज़रत उमर किसी यहूदी आलिम से तौरात पढ़ने जाते थे, आप अलैहिस्सलाम को इसकी खबर हुई तो आपका चेहरा गुस्से से लाल हो गया कि उम्र! क्या अल्लाह की किताब कुरान मजीद तेरे लिए काफ़ी नहीं है? यानी आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने हज़रत उमर को इससे मना किया।
(6) डॉक्टर साहब दावते दीन के नाम पर लोगों को दो बातों की तरफ बुला रहे हैं, (1) मुस्लिम जनता का उलेमाओं से ऐतमादो-यकीन हटा दिया जाए, (2) पूरी उम्मत को तक़लीद जैसी नेमत से हटाकर गैर मुकल्लिद या लामज़हब बना दिया जाए।
और इनकी शुरुआत उन्होंने इस तरह की कि इस्लाहो-तक़वे का लिबास छोड़कर काफिरों और फासिकों का हुलिया अपनाया, और इसी गैर शरई पोशाक में आकर धार्मिक मुद्दों पर राय देना शुरू कर दिया, और अपने साथ धार्मिक मुद्दों के सवालो-जवाब की सभा में ऐसे लोगों को सहायक के रूप में बिठाया जो नंगे सिर, दाढ़ी साफ है, और कोट पैंट में रहते हैं, और ऐसा जानबूझकर इसलिए किया गया ताकि मुस्लिम जनता की नजर में उलेमाओं और बुजुर्गों के कपड़ों की जो शक्लो-सूरत है वह दिलों से मिट जाए और काफिरों के कपड़ों की नफरत मुसलमानों के दिलों से खत्म कर दी जाए, लेकिन अल्लाह का शुक्र है कि अभी तक मुस्लिम जनता का स्वभाव यह है कि वह अपनी मस्जिदों में किसी दाढ़ी मुंडे शख्स को इमाम बनाने के लिए तैयार नहीं हैं इसी तरह जिन लोगों की शक्ल व सूरत काफिरों और फासिकों की सी हो उनके बताए हुए मसले पर संतोष नहीं करते, जब तक कि किसी मोतबर आलिम व मुफ्ती से तहकीको-तसदीक न कर लें...
(7) इसी तरह उम्मत तमाम इंसाफ़ पसंद तबकों और फिरकों का इस बात पर इत्तफाक रहा है कि दीनी इंतजाम को बनाए रखने के लिए ऐसे लोग जिनके अंदर इज्तेहाद की क्षमता नहीं है, उनके लिए ज़रूरी है कि वे चार इमामों (हज़रत इमाम अबु हनीफा, हज़रत इमाम शाफई, हज़रत इमाम मलिक और हज़रत इमाम अहमद बिन हंबल) में से किसी एक का कहा माने, अपनी मनमानी न करे, लेकिन डॉक्टर साहब का पूरा जोर इसी बात पर रहता है कि उम्मत को तकलीद से हटा दिया जाए वह अपनी चिकनी चुपड़ी बातों से यह साबित करना चाहते हैं कि उम्मत के बिगड़ने की अस्ल वजह तकलीद ही है, इसलिए वह अपने कार्यक्रमों में कुछ लोगों को पूर्व निर्धारित करके रखते हैं जो सबके सामने इस तरह के सवाल करते हैं जिनमें मतभेद (इखतेलाफ) हो, और फिर ऐस तमाम मस्अलों में डॉक्टर साहब गैर मुकल्लिदीन की भरपूर तर्जमानी करते हैं, और बड़े भोलेपन से अपने आप को गैर मुकल्लिद ज़ाहिर किए बिना दर्शकों के सामने सीधे कुरानो-सुन्नत से हवाला पेश करने की एक्टिंग करते हैं, चुनांचे नंगे सिर नमाज़ पढ़ना, औरत व मर्द की नमाज़ में अंतर, औरतों का मस्जिद में जाना, अरबी भाषा के अलावा दूसरी भाषाओं में जुमा व ईदैन के ख़ुतबे को जायज़ कहना, गांव में जुमे की नमाज को मान्यता देना, तरावीह की रकात की संख्या आठ हैं, एक साथ तीन तलाक, बे वुज़ू कुरान छूने की अनुमति, और इस जैसे दूसरे सैकड़ों मस्अलों में गैर मुकल्लिदीन की सराहना करते नज़र आते हैं।
(8) इसके अलावा डॉक्टर साहब के भाषणों और बातचीत में एक बहुत खतरनाक पहलू यह दिखाया गया है कि वह कुरान की आयात के आदाद, फिर सूरतों के आदाद, रुकूआत के निशान और आदाद को अपनी मर्ज़ी से गुणा देकर अजीबोगरीब नतीजा निकालते हैं, हो सकता है कि जाहिलों की नज़र में यह बड़ी बात हो, लेकिन सही देनी चिंता रखने वालों की नजर में ये बातें बेकारो बेफायदा है, क्योंकि आयतों की तरकीमो-तहरीर और आयतों पर रुकने के निशानात और पारों की तक़सीम, और सूरतों और पारों के हित से रुकूओं की तायीन, यह सब नबी के ज़माने के बाद की कोशिशें हैं यानी पारा नंबर, रुकू नंबर, सूरत नंबर वगैरह यह सब आप अलैहिस्सलाम के ज़माने में नहीं थे, बल्कि कुरान की यह सेटिंग जो आज हम देख रहे हैं बाद के लोगों ने की है ताकि कुरान पढ़ने वालों को कुरान पढ़ने में सुविधा हो, तो बस रुकू या सूरतों के अंक में जोड़ घटा कर के कोई अनुमान लगाना कुरान से खिलवाड़ करना है, जो सिर्फ डॉ जाकिर नाइक और उनके हम विचार लोगों की मानसिक उपज है, और उनके कम अक्ली व कम इल्मी की दलील है, क्योंकि कुरान इल्मुल-आदाद की किताब नहीं है, कि इसको जनरल नॉलेज की पुस्तक बना लिया जाए बल्कि कुरान तो हिदायत की पुस्तक है, इसका इल्मे जफर व रमल से कोई लेना देना नहीं है।
इल्मे जफर = एक इल्म का नाम है, जिसमें हुरूफो-आदाद के ज़रिए अहवाले गैब की खोज करते हैं।
रमल = फ्यूचर पता करने के लिए एक इल्म, जिसको नुजूम और ज्योतिष भी कहा जाता है।
लेकिन डॉ जाकिर नाइक जैसे लोग इस हिदायत की पुस्तक को जनरल नॉलेज की पुस्तक बना देना चाहते हैं, तो कभी तो वह पवित्र अलैहिस्सलाम की उम्र आयतों के आंकड़े से साबित करते हैं, और कभी मनुष्यों और पशुओं के करोसोमज़ (तखलीकी खलियों) की संख्या और कहीं अलग अलग धातुओं के औज़ान को साबित करने के आयतों के अक्षर जोड़ने की कोशिश करते हैं, या जोड़ घटाकर विभिन्न चीजों को साबित करते हैं, यानी कुरान को गणित की पुस्तक बना दिया है।
आज पूरी दुनिया में बोल्ड फैशन और आधुनिक मानसिकता (मॉडर्न ज़ेहनिय्यत) रखने वाले मुसलमान इनके "पीस टीवी" पर दिखाए जाने वाले कार्यक्रमों को बड़े शौक से देखते हैं, और इनकी पेश की गई आयतों के नंबरातो-आदाद को सुनकर आश्चर्य करते हैं और यह समझते हैं कि आज के युग में शरीयत और इस्लाम की "स्टडी" डॉक्टर साहब से ज़्यादा करने वाला कोई नहीं, और दीन को जानने वाला डॉक्टर साहब से बढ़कर कोई नहीं है, और उस समय तो लोग बहुत ज़्यादा डॉक्टर साहब के इल्म के दीवाने हो जाते हैं जब वे उलेमाओं और बुज़ुर्गों के दीन के खिलाफ औरत के चेहरे के पर्दे के खिलाफ दिलचस्प दलीलें देते हैं, जिससे उजागर रहने वाली औरतों में खुशी की लहर दौड़ जाती है, और जब उनके गंदी ज़बान "टाई की वकालत"और दाढ़ी के महत्व को कम करने के लिए हरकत में आती है, तो ऐसी खुशी का माहौल बनता है कि मानो जैसे कोई बहुत कीमती शए मिल गई हो,
जाहिर है कि हराम को हलाल कहने वाली बातें उलमाए रब्बानिय्यीन से तो कहां सुनने को मिलेंगी..?
बस ऐसे लोग डॉक्टर साहब को आज के ज़माने का सबसे बड़ा आलिम व मुजद्दिद समझते हैं, और कुछ कुछ तो डॉक्टर साहब के दीवाने ऐसे हैं जो कहते हैं कि "पंद्रह सौ सालों में आज तक दीन की ऐसी सेवा और पब्लिसिटी किसी ने नहीं की, जैसी और जितनी डॉक्टर साहब ने की है। "मानो आज तक इस्लाम को डॉक्टर साहब से ज़्यादा किसी ने नहीं फैलाया, हालांकि हज़रत उमर रज़ियल्लाहु अन्ह के बारे में मुस्लिम और गैर मुस्लिम इतिहासकारों का कहना है कि "अगर आप रज़ियल्लाहु अन्ह दो साल और जीवित रह जाते तो दुनिया से नास्तिकता (कुफ्र) का नामोनिशान मिट जाता।"
वास्तव में डॉक्टर साहब लोगों का यही स्वभाव बनाना चाहते हैं कि दीन और कुरान को तो सिर्फ उन्होंने ही समझा है, और आज तक चौदह सौ सालों में कोई कुरान को सही समझ ही नहीं सका है, हालांकि यह सिद्धांत और कल्पना, ज़लालतो-गुमराही है।
हदीस: क़यामत तक हर ज़माने में उम्मत में उलमाए हक़ की एक ऐसी जमात बाकी रहेगी जो दीने हक़ और तरीकाए सुन्नत का पालन करने वाली होगी। "
हदीस 2: मेरी उम्मत कभी ज़लालतो-गुमराही पर जमा नहीं हो सकती। "
अधिक सितम यह कि डॉक्टर साहब लोगों को टीवी के लिए आमंत्रित कर रहे हैं कि हमारा कार्यक्रम देखिए और घर बैठे दीन प्राप्त कीजिए, जबकि हम सभी जानते हैं कि उम्मत मैं बेशर्मी बेहयाई व बुराईयों को फैलाने में टीवी का सबसे बड़ा हाथ है, इसलिए उलेमाओं ने इसे उम्मुल-खबाईस (सभी बीमारियों की जड़) करार दिया है।
बस डाक्टर साहब टीवी की आड़ में बेशर्मी व बेहयाई, अश्लीलता और अकाइद में बिगाड़ पैदा करने की तरफ आमंत्रित कर रहे हैं, अल्लाह हम सब की रक्षा करे।
खैर... कुल मिलाकर यह है कि डॉक्टर साहब के अकाइद में बिगाड़ और शरारत है और वे अहले सुन्नत वलजमात को छोड़कर गैर मुकल्लिदीन की पंक्ति में शामिल हो गए हैं, इसलिए इनके कार्यक्रम न देखे जाएं और न सुने जाएं, न ही इनकी बात पर तब तक अमल किया जाए जब तक कि उसकी पुष्टि किसी विश्वसनीय धर्मगुरू (मोतबर आलिम या मुफ्ती साहब न कर ली जाए।
नोट: डॉक्टर जाकिर नाइक के बारे में अधिक जानने के लिए नीचे दी गई पुस्तकों को पढ़ें!
(1) हकीकते जाकिर नाइक (2) फतवा दारुल उलूम देवबंद...
.
مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نانکوی
مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نانکوی صاحب کو رب کریم عقل سلیم عطا فرمائے،
ReplyDelete