Monday 12 October 2015

ان مع العسر یسرا

پریشانیوں کہ موقع پر ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین کی زندگی کو یاد کرلینا چاہیئے پہر پتہ چلے کہ ان کے غم کس حد تک بڑے ہوئے تهے اور کس قدر بڑے تهے پهر اندازہ ہو. اور اک ہمت بهی ملے کہ ایسے میں ہم انکے طرز حسنہ کو اپنانے والے بن سکیں گے.
علاج الغضب نامی ایک کتاب میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں
کہ جب آدمی غصہ میں ہوتا ہے تو اسکا چہرہ کیسا لگتا ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ غصہ والا آدمی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے غصہ کی تہہ میں اسکے اندر کبر پوشیدہ هوتا ہے جس پر غصہ آتا ہے اسکی حقارت ذہن میں ہوتی ہے اور اپنی برتری ثابت ہوتی ہے جس وقت غصہ چڑھتا ہے اس وقت اسکا چہرہ دیکهلو یا آئینہ اسکے سامنے کردو کہ اپنا چہرہ خود دیکھے اور اگر اسکے لب ولہجہ کو ٹیپ کیا جائے اور پھر اسی کو دکھایا جائے کہ جناب کا چہرہ اور لب و لہجہ ایسا تھا تو اس شعر کا مصداق ہوگا-
رات شیطان کو خواب میں دیکھا تھا
اس کی صورت جناب کی سی تھی


انسانی زندگی میں پیش آمدہ مختلف مصائب کے اسباب اور ان کا حل 
انسان دنیا میں آتا ہے توپانی کےمانند اور جاتا ہےتو ہوا کے مانند.   یعنی روح باپ کے نطفے سے پیدا ہوتا ہے پانی کے مانند اور جب دنیا سے جاتا ہے تو روح نکلتی ہے ہوا کے مانند.
دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو انسان اتنا ضعیف ہے کہ پانی کا بلبلا. بهلا اس بلبلے کا کیا بهروسہ کہ وہ کب بهٹ جائے.اسی طرح کیا بهروسہ انسان کے روح کاکہ روح کا بدن سے رشتہ کب کٹ جائے.
پهر یہی انسان دنیا میں آکر اپنی اوقات بهول جاتا ہے اور تکبر میں آکر بڑی بڑی امیدیں باندهتا ہےجس کے پورے نہ ہونے پر پریشان رہتا ہے جنکی کچه مثالیں یوں ہیں.
بچہ کی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ابهی چهوٹا ہے اور گهر والے اس پر رعب جماتے ہیں اگر بڑا ہو جاوں گاتو کوئی رعب نہ جما ئے گا.
اور نوجوان کی پریشانی یہ ہے کہ اگر کسی اچهے گهرانے میں شادی ہو جائے تو سب پریشانی دور ورنہ مجه پر شہوانی و نفسانی و شیطانی وساوس کا اتنا غلبہ ہے کہ مجهے پڑائی میں دل ہی نہیں لگتا. کسی والدین کی پریشانی اولاد کا نا ہونا اگر اولاد پیدا ہو جائے تو سب پریشانیاں دور.
کسی اولاد والے کو پوچها جائے کہ کیا پریشانی ہے؟ کہے گا کہ اولاد بهرپور ہے مگر دعا کریں کہ لائق بن جائے بہت پریشان ہوں.پهر پڑهے لکهے کی نوکری کی پریشانی کہ اچهی سی نوکری مل جائے تمام مشکلات حل ہوں گے.
پهر رشتہ کی پریشانی کہ کوئی اچها لڑکا مل جائے ساری پریشانی دور اسی طرح بیٹی کی پریشانی کہ اچهے گهرانے میں رشتہ مل جائے تو سب پریشانی دور ہوگی.
پهر اگربیٹے یا بیٹی کی شادی ہو بهی جائے تو پریشانی بہو نیک نہیں. یا ساس صحیح نہیں اگر یہ ٹهیک رہیں گی تو پریشانی دور.
پهر آگے چلئےکہ مال والوں کے پاس مال تو ہے مگر راحت نہیں وہ سکون مل جائے تو پریشانی دور.مال کی کثرت سے اگر سکون ملتا تو قارون دنیا کا سب سے پر سکون انسان ہوتا.حکومت سے اگرسکون ملتاتو فرعون دنیا کا سب سے پر سکون انسان گزرتا.
مال و دولت کے باوجود طبیعت پریشان ہے.مال سے انسان عینک تو خرید سکتا ہے مگر بینائی نہیں؟
کتاب تو خرید سکتا ہے مگرعلم نہیں؟اچها لباس تو خرید سکتا ہے مگر حسن وجمال نہیں؟ نرم بستر تو خرید سکتا ہے مگر میٹهی نیند نہیں؟ مال والے اکثر پریشان نظر آتے ہیں.اک طرح کا بوجه ہے مال جو اٹهائے پهرتے ہیں.انسان جس قدر بڑا ہوگا اسی قدر اس کا خرچہ بهی ہوگااور اسی قدر پریشان بهی پهر تو اسے سکون کہاں؟ مگر سکون توصرف سنت و شریعت والی زندگی میں ہی ہے.
اہل مغرب کی پریشانی یہ ہے کہ وہ مال دولت کے اعتبار سے تو وہ بهرپور ہے مگر اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے باپ بیٹی بہن بهائی میں کوئی فرق نہیں اور جانور جیسی زندگی گزر رہی ہے.سکون چهین لیا گیا ہے. غرض یوں کہئے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی پریشانیوں میں گهرا ہوا ہے اور یہ پریشانیاں یا تو بد اعمالیون کے نتیجہ میں ہوا کرتی ہے یا پهر آزمائش بهی یا پهر قسمت کا کهیل سمجهئے مگر ہربیماری کا دوا ضرور ہے ہریشانیوں کا علاج بهی ضروری ہے.
اگر ہم انفرادی طور پر اپنے اعمال کو سنوارین گے تو اللہ انفرادی طور پر ہمارے حالات کو سنواریں گےاوراگر کسی قوم کے اعمال سنور جائیں گے تواللہ اس قوم کے حالات بهی سنوار دیں گے اور اگر اس کے بالعکس ہوگا تو ذلت اور رسوائی کا مقدر ہوگا جیسا کہ قوم عاد کے ساته تکبروغرور کے نتیجہ میں ہوااور بڑے سے بڑے عذاب نے آ دبوچا.معلوم ہوا کہ اللہ اپنی نعمتون کو دے کر آزماتے بهی ہے اور نا شکری کے نتیجہ میں عذاب سے گهیر بهی لیتے ہے جیسے کہ قرآن کے اندر واقعات گزر ے ہیں. جیسے کہ فرمایا گیا.
عادا و ثمودا و اصحب الرس و قرونا بین ذالک کثیرا
و کلا ضربنا له الامثال کلا تبر نا تتبیرا
دنیا کے نطام میں جس طرح تبدیلی آتی رہتی ہے با لکل اسی طرح انسانی زندگی کے حالات بهی بدلتےرہتے ہیں.کتنے امیر غریب ہوتے دیکها گیا اور کتنے فقیر امیر ہوتے دیکها گیا.کبهی مصر میں یوسف علیہ السلام کو بیچا گیاتو کبهی مصر کے تخت پرراج کرتے دیکها گیا لہذا حالات سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ بچاناچاہے.
مومن کیلئے دو صورتیں ہیں جن سے فرما برداری کرکے خدا کو راضی کر لیا تو پهر وہ امام عالم بنے گا اور اگر عمل میں کوتاہی کر لے گا تو پهر غلام عالم بنے گا پهر تیسری کوئی جگہ نہیں.
جب اعمال بدلیں گے تو حالات بهی بدلیں گے مگر دیکهنے میں یہ آتا ہے کہ کہا جاتا ہے پہلے حالات سنور جائیں تو اعمال سنور جائیں گے الٹی گنگا بہاتے ہیں.جب انسان گناہوں کی زندگی چهوڑ دیتا ہے تو اللہ اسے برکتین عطا فرماتےہیں اس کی صحت میں برکت.اس کے کاموں میں اس کے وقت میں برکت.اس کے مال میں برکت.جملہ ہر جائز امور کام کاج میں برکتیں عطا کی جاتی ہے اسی لئے ہم دیکهتے ہیں کہ آدمی عمر کے اعتبار سے 95سال کا ہوتا ہے مگر پهر بهی اعضاء مضبوط اور توانا معلوم ہوتا ہے یا اس کے بالعکس کم عمر میں بهی وہ کام کر جاتے ہیں جس کے تکمیل کیلئے برسوں بیت جاتے ہیں یہی برکت کا نتیجہ ہے کم وقت میں لاکهوں کا نفع اور وہ لوگ جن کی نافرمانی اور بکثرت گناہون کی صورت میں برکتیں اٹهائی جاتی ہے جنکی عمریں تو طویل ہوا کرتی ہے یا قلیل ہی صحیح اور انکی قوت وقت سے پہلے ہی جواب دے چکے ہوتے ہےاور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی نا قدری اور ناشکری کی بنا پر اللہ ان نعمتوں کو ہی چهین لیتے ہے پهراس طرح کی شکایتیں سننے میں آتی ہے کہ مجهے نظر کی کمی ہے.اعضاء کمزور ہوچکے ہیں اس جوانی میں ہوتے ہوئے بهی ورنہ عام دستور یہ نہیں کہ جوانی میں کبهی اس ڈاکٹر کے پاس تو کبهی اس ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہوتے ہیں.اللہ کے فرمان کے مطابق اگر زندگی گزاری جائے تو دنیا میں بهی آسانی فرمائے گااورآخرت میں بهی. جب انسان معصیت سے پاکی اور پرہیزگاری والی زندگی گزارتا ہے تو ایسے بندے کو اللہ عقل کا نور عطا فرما دیتے ہے جس کی وجہ سے اس کی دماغی صلاحیتوں مین اضافہ ہوتا ہےاور اس کی فراست مین وسعت اور فکر میں گہرائی آجاتی ہے آج جس بندے کو بهی دیکهو اپنے حافظے کی کمی کی شکایت کرتا ہے خصوصا طلباء اس مین گرفتار ہے ورنہ پهر تو ایک دفعہ کا پڑها ہوا سبق ہمیشہ ہمیش یاد رہتا ہے.
جب انسان اللہ کی نافرمانی کرنے لگتا ہے تو اس کے اوپر سے برکات ہٹا دئے جاتے ہے پهر پریشانیوں کی بارش ہوتی ہے جب تک فرمانبرداری کرتے رہے تب تک برکتوں کی چادر نے حفاظت کئے رکها.جب گناہ ہونے لگے تب پردہ پر سوراخ پڑه گیا جتنے گناہ ہوں گے اتنے ہی سوراخ ہوں گے پهر ان گناہوں کا وبال بهی دیکهیں.جب گناہ کو نہیں چهوڑیں گے تب تک پریشانیاں ہم کو نہیں چهوڑیں گی پهر ہوگا یہ کہ نیک اعمال سے محرومی ہوگی توفیق سلب کر لی جائے گی لہذا پہلے نماز کا پابند تها اب سستی کرنے لگے گا پہلے اچهی مجلسوں میں بیٹتا تها اب دل کو اچاٹ لگنے لگا بوریت محسوس ہونے لگے بلکہ یوں کہئے کہ اللہ اس مقبول وقت میں آپ کی شکل بهی دیکهنا نہیں چاہتا پهر عبادت سے غفلت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گهروں میں بے توجهی ہوگی جملہ یوں کہئے کہ جب خدا کو ناراضگی دلائی جائے گی تو خود اسکی دنیا میں بسنے والی مخلوق بهی اس سے نافرمانی کرنے لگے گی جس کو آپ اپنے گهروں میں دیکه سکتے ہیں.
بداعمالیوں کے برے اثرات ان کے اعمال پر پڑهتے ہیں نیتوں میں فتور آنے لگتا ہے دیکها یوں جاتا ہے کہ انسان گناہوں کے پیچهے پڑه کر پریشانیوں کو بهاگ بهاگ کر خرید رہا ہے پهر جب پریشانیاں آتی ہے تو ادهر ادهر کہتا پہرتا ہے کہ میں پریشان ہوں. سوال یہ ہے کہ آپ کو پریشان کس نے کیا؟تو جواب میں کبهی کہے گا کہ کاروبار نے. کبهی کہے گااولاد نے. کبهی کہے گا حکومت نے کبهی کہے گا فلاں فلاں نے پریشان کیا. اصل بات یہ ہے کہ کسی نے کسی کو پریشان نہیں کیا بلکہ خود اپنے آپ کے بد اعمالیوں کے نتیجہ میں ہم نے اپنے آپ کو پریشان کیاہے
ہم بد اعمالیوں کو نہیں چهوڑیں گے پریشانیاں ہم کو نہین چهوڑیں گی چنانچہ فرمایا گیا.
ظهر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس
اور جس کے نتیجہ میں کہیں قہت سالی ہے تو کہیں لوگ بهوکوں مر رہے ہیں.حیوان مر رہے ہے. بارش نہیں ہو پا رہی ہے ہر طرف سے پانی بند ہو چکا ہے.دکانیں بند ہے جملہ یوں کہئے کہ ہر طرف سے کبهی آفتیں گهیر لیتی ہے اور ہم کو دوچار کیا جاتا ہے.
آخر ہم کب جاگ جائیں گے؟ کیا ہم ان تمام بد اعمالیوں کو چهوڑ کر سچی پکی توبہ نہیں کر سکتے؟ پهر اس کے نتیجہ میں کیا ہمارا رب جو موسی علیہ السلام کی قوم کو چالیس سال بغیر کام کئے رزق عطا کر سکتا ہے کیا وہ ہمیں محنت کے باوجود رزق نہ دے گا؟
جو حضرت بی بی مریم علیها السلام کو بن موسم کے پهل کهلا سکتا ہے کیا وہ ہمیں موسم کے پهل کهلا نہیں سکتا؟ تو آخر بات کیا ہے؟
سوچ لو.  بات یہ ہے کہ اللہ نے رزق کی ذمہ داری خوداپنے ذمہ لی ہے اور ہماری ذمہ داری یہ تهی کہ ہم پوری عبادت میں لگ جائیں مگر جب ہم نے رزق کے پیچهے پڑہ کر اصل ذمہ داریوں کو چهوڑ دیا عبادت کو چهوڑ دیا تو اللہ نے بهی اپنی ذمہ داریوں کو چهوڑ دیا اور رزق تنگ ہو گیا.
انسان پر مصیبتیں تو آتی ہے لیکن کچه مصیبتیں ایسی ہوتی ہے جو گرانے اور ستانے والی مصیبتیں ہوا کرتی ہے جسکی کچه نشانیاں یہ ہے کہ جس پر مصیبتیں آ جاتی ہے وہ ادهر ادهر کہتا پهرتا ہے کہ ہم ہی ایک ملے اس مصیبت میں ڈالنے کیلئے لہذا وہ موت تک کی تمنا کرتا ہے لہذا یہ مصیبت اسے گرانے کیلئے آئی ہے.
دوسری نشانی یہ کہ وہ بے چین ہو جاتا ہے اور بے اطمینان ہو جاتا ہے اور یوں کهتا پهرتا ہے کہ کاش یوں کرتا تو یوں ہوتا.ایسا نہیں کرتا تو ایسا ہوتا وغیرہ.
تیسری نشانی نا امیدی پر غالب آنا اتنی نا امیدی کہ موت کی تمنا کرتا ہے اور خود کشی تک کر گزرتا ہے. یہ پہچان ہے اس مصیبت کی جو نیچے گرانے کیلئے آتی ہے.
مگر اللہ والوں کی کیفیت ان صورتوں میں یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ ڈرتےاور کانپتے ہیں کہیں آزمائش تو ہم پر آ نہ پڑی ہو؟ اور مصیبت میں صبر کرنے کی صورت میں اجر سے بهی نوازا جاتا ہے.
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم گهر میں تهے اور چراغ بجه گئی تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑها.تب حضرت عائشہ رضی اللہ عنها نے سوال کیا کہ یہ آیت تو غم اور مصیبت کے موقعہ سے پڑهی جانے والی آیت ہے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چراغ کا بجه جانا بهی مومن کیلئے مصیبت ہےاور اس پر بهی اجر ملتا ہے پهر اندازہ لگائیں کہ بڑی مصیبتوں پرکتنا اجر ملے گا؟
اسی طرح بندہ جب بیمار ہو جائے اور کراہنے لگے تو اللہ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے ہر دفعہ کراہنے پر سبحان اللہ کہنے کا اجر لکها جائے.اور اللہ والے اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کو ایک دوسرے سے کہتے نہیں پهرتے بلکہ اپنے رب سے کہتے ہے چاہے جتنی بهی پریشانی ہو مگر انکے دل مطمئن ہوا کرتے ہیں اور انکو عین موقع پر امید کی کرن نظر آتی ہے امید بندهی رهتی ہے.
جب تین علامتیں کسی بندے میں پائی جائے تو سمجه لیں کہ مصیبت ان پررحمت بن کر آئی ہے. بیماری یا مصیبتیں اس لیئے آتی ہے تاکہ رجوع الی اللہ کرے اورایسے میں پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیئے اور بے صبری سے مصیبتیں ٹلا نہیں کرتی البتہ ان مصیبتوں کا ملنے والا اجر ضائع کر دیا جاتا ہے اور صبر پہلے مرحلے میں ہی ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ پہلے شکوہ و شکیت کر لی گئی اور اب جب کچه نہ بنی تو اب آخری مرحلہ میں صبر کیا جا رہا ہےاور قرآن میں اس سلسلےمیں فرمایا گیا ہے
ان مع العسر یسرا
ہر تنگی کے بعد آسانی ہے.چونکہ انسان کو گرچہ مصیبت میں ڈال دیا جاتا ہے مگر بعد میں آسانی بهی رکهی گئی ہے اور اس صبر کرنے والے کو دو خوشیاں ملتی ہے ایک اس پر صبر کی خوشی اورایک اجر کے حصول پر.کسی مصیبت کے آنے پر دعا بهی کرنی چاہیئے جس سے گناہوں کا وبال بهی دور ہوتا ہے اور نیک اعمال کی کثرت بهی کیونکہ مصیبت انسان کو جگانے کیلئے بهیجی جاتی ہے.
لہذا پریشانیوں سے بچنے کا آسان نسخہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی تمام پریشانیوں کو ایک غم بنا لیا یعنی آخرت والا غم تو اللہ اس کی دنیا کی تمام ضرورتوں کیلئے کافی ہوتا ہے.اس پر کوئی فکر اور پریشانیاں آنے نہیں دیتا.
ہمیں چاہیئےکہ آخرت والا غم اپنے اوپر سوار کرلیں اللہ تعالی دنیا کے تمام غموں سے نجات عطا فرمائیں گے.
تین باتیں لوہے کی لکیر ہے اپنے دل پر لکه لیجئے .
1) جو آدمی اللہ سے جس قدر محبت کرےگا اللہ کی مخلوق اس سے بهی اسی قدر محبت کرے گی یہی وجہ کہ لوگ اللہ کے نیک بندوں سے بڑی عزت و شان سے ملتے ہیں معانقہ کرتے ہیں وغیرہ.
2) جو آدمی اللہ کی جس قدر عبادت کرے گا مخلوق بهی اس کی اسی قدر خدمت میں لگیں گے جیسا کہ اللہ والوں کیلئے لوگ خدمت کیلئے ٹوٹ پڑهتے ہیں.
3) جو اللہ سے جس قدر خوف محسوس کرے گا اور جس قدر خشیت الہی دل میں ہوگی اللہ اسی قدر لوگوں کے دلوں میں رعب ڈالے گا.
بهائیوں. اگر ہم چاہیں کہ ہماری زندگی سنور جائے تو ہمیں اللہ سے اپنے تعلق کو درست کرنا ہوگا اور اسکی محبت دل مین پیدا کرنی ہوگی جب یہ چیز پائی جائے گی تو اللہ خود بخود ہمارے تمام حالات درست فرمادے گا.
کتنی عجیب بات ہے کہ چهوٹی چهوٹی پریشانیوں کی وجہ سے ہم اللہ سے غافل ہوجاتے ہیں کوئی گهریلو پریشانی کو لیکر پریشان ہےکوئی اولادکی.کوئی کاروبار کی. کوئی بیوی وغیرہ کی پریشانیوں کو لیکر پریشان ہے اور اللہ سے غافل ہے مگریہ وقت ہے کہ اللہ رب العزت کے سامنے اس بات کا دل میں عہد کر لیں کہ اے اللہ ہم اپنے دل میں آپ کو یاد کر لیں گے آپ کی محبت دل میں پیدا کر لیں گے اور اللہ کے اپنے حق میں کئے گئے ہر فیصلہ پر راضی ہو جائیں گے چونکہ حدیث میں آیا ہے اللہ نے لوح و قلم کو پیدا کیاتو قلم کو حکم ہوا کہ لکه.تو قلم نے لوح محفوظ پر لکها.
لا الہ الا اللہ أنا. محمد رسولی. من یستسلم بقضا ئی ولم یصبر علی بلائی ولم یشکر علی نعمائی
فلیتخذہ رب سرائی
نہیں کوئی معبود سوا میرے اور محمد میرے رسول ہیں جوشخص میری قضا کو تسلیم نہیں کرتا اور میری بهیجی ہوئی بلاؤں پر صبر نہیں کرتااور میری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اسے چاہیئے کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا رب بنا لے.
ہمیں اپنے رب کے حضور یہ دعا مانگنا چاہیئے.
رضیت با اللہ ربا وبمحمد نبیا وبا الأسلام دینا 
ﺳﻮﺍﻝ :
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﻋﺮﺵ ﭘﮧ ﯾﺎ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ؟ ﻣﺤﺴﻦ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﺧﺎﻥ
ﺟﻮﺍﺏ :
ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﮮ ’’ ﺍَﯾْﻦَ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ؟‘‘ ‏( ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺎﮞ
ﮨﮯ ؟‏) ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ’’: ﮬُﻮَ ﻣَﻮْﺟُﻮْﺩٌ ﺑِﻠَﺎ
ﻣَﮑَﺎﻥٍ‘‘
ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺍﮨﻞ
ﺍﻟﺴﻨﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﻭ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺩﻻﺋﻞ ِ
ﻋﻘﻠﯿﮧ ﻭ ﻧﻘﻠﯿﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ :
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ’’ ﮬُﻮَ ﻣَﻮْﺟُﻮْﺩٌ ﺑِﻠَﺎ ﻣَﮑَﺎﻥٍ ‘‘ ﯾﮧ ﺗﻌﺒﯿﺮﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﺣﻀﺮﺍﺕ
ﮐﯽ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ
ﺑﻼ ﻣﮑﺎﻥ
ﻣﻮﺟﻮ ﺩﮨﮯ‘‘ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ
ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﻮ
ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺣﺎﺿﺮ ﻧﺎﻇﺮ ﮨﮯ‘‘
ﯾﺎ ’’ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘‘ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ
ﮨﮯ۔
ﺍٓﯾﺎﺕِ ﻗﺮﺍٓﻧﯿﮧ :
:1 ﻭَﻟِﻠّٰﮧِ ﺍﻟْﻤَﺸْﺮِﻕُ ﻭَﺍﻟْﻤَﻐْﺮِﺏُ ﻓَﺎَﯾْﻨَﻤَﺎ ﺗُﻮَﻟُّﻮْﺍﻓَﺜَﻢَّ ﻭَﺟْﮧُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ
‏( ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ؛ 115 ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﻣﺸﺮﻕ ﻭ ﻣﻐﺮﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ ،ﺟﺲ
ﻃﺮﻑ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮨﮯ ۔
:2 ﻭَﺍِﺫَﺍ ﺳَﺎَٔﻟَﮏَ ﻋِﺒَﺎﺩِﯼْ ﻋَﻨِّﯽْ ﻓَﺎِﻧِّﯽْ ﻗَﺮِﯾْﺐٌ ‏( ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ؛
186‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺟﺐ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﺗﻮ ‏( ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ‏) ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ
ﮨﻮﮞ۔
ﻓﺎﺋﺪﮦ : ﻋﺮﺵ ﺑﻌﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﺎﺕ ﺁﺳﻤﺎﻥ
ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺮﺳﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻋﺮﺵ
ﮨﮯ۔
‏(ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻻﺳﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ﻟﻼﻣﺎﻡ ﺍﻟﺒﯿﮩﻘﯽ ﺝ 2 ﺹ 145‏)
٭ﺍَﻟﻠّٰﮧُ ﺍﻟَّﺬِﯼْ ﺧَﻠَﻖَ ﺳَﺒْﻊَ ﺳَﻤٰﻮٰﺍﺕٍ۔٭ ﻭَﺳِﻊَ ﮐُﺮْﺳِﯿُّﮧُ ﺍﻟﺴَّﻤٰﻮَﺍﺕِ
ﻭَﺍﻟْﺎَﺭْﺽَ۔٭ ﻭَ ﮐَﺎﻥَ ﻋَﺮْﺷُﮧُ ﻋَﻠَﯽ ﺍﻟْﻤَﺎٓﺉِ۔
:3 ﯾَﺴْﺘَﺨْﻔُﻮْﻥَ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﻭَﻟَﺎ ﯾَﺴْﺘَﺨْﻔُﻮْﻥَ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﻭَﮬُﻮَ ﻣَﻌَﮭُﻢْ
ﺍِﺫْ ﯾُﺒَﯿِّﺘُﻮْﻥَ ﻣَﺎ ﻟَﺎ ﯾَﺮْﺿٰﯽ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻘَﻮْﻝِ۔‏( ﺍﻟﻨﺲﺍﺀ 108: ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﻭﮦ ﺷﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺮﻣﺎﺗﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﺭﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
:4 ﺍِﻥَّ ﺭَﺑِّﯽْ ﻗَﺮِﯾْﺐٌ ﻣُّﺠِﯿْﺐٌ ‏(ﮨﻮﺩ 16:‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻﮨﮯ۔
:5 ﻭَﺍِﻥِ ﺍﮬْﺘَﺪَﯾْﺖُ ﻓَﺒِﻤَﺎ ﯾُﻮْﺣٰﯽ ﺍِﻟَﯽَّ ﺭَﺑِّﯽْ ﺍِﻧَّﮧٗ ﺳَﻤِﯿْﻊٌ ﻗَﺮِﯾْﺐٌ
‏( ﺳﺒﺎ 50: ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﺍﺱ
ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺞ ﺭﮨﺎﮨﮯ
ﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ ،ﺑﮩﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ۔
:6 ﻭَﻧَﺤْﻦُ ﺍَﻗْﺮَﺏُ ﺍِﻟَﯿْﮧِ ﻣِﻦْ ﺣَﺒْﻞِ ﺍﻟْﻮَﺭِﯾْﺪِ ‏( ﺳﻮﺭﮦ ﻕ؛ 16 ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﮧ ﺭﮒ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ
ﮨﯿﮟ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﺗﻮﺟﯿﮧ:
ﺣﻀﺮﺕ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻋﺠﯿﺐ
ﺗﻮﺟﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ، ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺷﮧ
ﺭﮒ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ’’ ﻟَﯿْﺲَ ﮐَﻤِﺜْﻠِﮧٖ
ﺷَﺌﯽٌ ‘‘ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺜﺎﻝ
ﺩﯾﺘﺎﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺩﻭ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﺐ ﮔﻮﻧﺪ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺟﻮﮌﺍ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻏﺬﺍﻭﻝ ﮐﺎﻏﺬ ﺛﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﻮﻧﺪ ﮐﺎﻏﺬ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﺴﺒﺖ ﮐﺎﻏﺬ
ﺛﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺷﮧ ﺭﮒ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮐﯽ ﺷﮧ ﺭﮒ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﮞ۔ ﺩﻭ
ﺟﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ
ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻮﻧﺪ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ
ﮨﮯ ،ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﮧ ﺭﮒ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ۔
:7 ﻭَﻧَﺤْﻦُ ﺍَﻗْﺮَﺏُ ﺍِﻟَﯿْﮧِ ﻣِﻨْﮑُﻢْ ﻭَﻟٰﮑِﻦْ ﻟَّﺎ ﺗُﺒْﺼِﺮُﻭْﻥَ ‏( ﺳﻮﺭﮦ
ﻭﺍﻗﻌﮧ؛ 85 ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﺗﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔
:8 ﻭَﮬُﻮَ ﻣَﻌَﮑُﻢْ ﺍَﯾْﻨَﻤَﺎ ﮐُﻨْﺘُﻢْ ﻭَﺍﻟﻠّٰﮧُ ﺑِﻤَﺎ ﺗَﻌْﻤَﻠُﻮْﻥَ ﺑَﺼِﯿْﺮٌ ‏( ﺳﻮﺭﮦ
ﺣﺪﯾﺪ؛ 4‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﻢ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﮨﻮ، ﻭﮦ ‏( ﺍﻟﻠﮧ ‏) ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ﺟﺐ ﮨﻢ ﻭﮦ ﺍٓﯾﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﯿﺖ
ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ’’ ﻣﻌﯿﺖ
ﻋﻠﻤﯿﮧ‘‘ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ﻣﺜﻼً " ﻭَﮨُﻮَ ﻣَﻌَﮑُﻢْ ﺍﯼ ﻋِﻠْﻤُﮧُ ﻣَﻌَﮑُﻢْ " ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﺟﻮﺍﺏ : ﺍﻭﻻً ۔۔۔۔ﻣﻌﯿﺖ ﻋﻠﻤﯿﮧ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﻣﻌﯿﺖ ﺫﺍﺗﯿﮧ
ﮐﻮ،ﺟﮩﺎﮞ ﺫﺍﺕ ﻭﮨﺎﮞ ﻋﻠﻢ ،ﺭﮨﺎ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ’’ ﺍَﻟَﻢْ ﺗَﻌْﻠَﻢْ ﺍَﻥَّ
ﺍﻟﻠّٰﮧَ ﯾَﻌْﻠَﻢُ ﻣَﺎ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎٓﺉِ ﻭَ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﺍﻻٓﯾۃ ‏( ﺍﻟﺤﺞ ‘‘(70:
ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ، ﺗﻮ
ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟
ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺛﺒﺎﺕِ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﻌﯿﺖ ِﺫﺍﺗﯿﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﮔﯽ ﺑﻮﺟﮧ
ﺗﻼﺯﻡ ﮐﮯ۔
ﺛﺎﻧﯿﺎً۔۔۔ﻏﯿﺮﻣﻘﻞﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ
’’ﺍِﺳْﺘَﻮَﯼٰ ﻋَﻠَﯽ ﺍﻟْﻌَﺮْﺵِ ‘‘ ﯾﺎ ’’ﯾَﺪُﺍﻟﻠّٰﮧِ ‘‘ ﺟﯿﺴﯽ ﺍٓﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﻢ
ﻇﺎﮨﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ،ﺗﺎﻭﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﯾﮩﺎﮞ’’ ﻭَﮨُﻮَ
ﻣَﻌَﮑُﻢْ‘‘ ‏[ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ’’ﮨﻮ ‘‘ ﺿﻤﯿﺮ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ ‏]ﺟﯿﺴﯽ ٓﯾﺎﺕ
ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻭﯾﻞ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
:9 ﻣَﺎ ﯾَﮑُﻮْﻥُ ﻣِﻦْ ﻧَّﺠْﻮَﯼٰ ﺛَﻠٰﺜَۃٍ ﺍِﻟَّﺎ ﮬُﻮَﺭَﺍﺑِﻌُﮭُﻢْ ‏( ﺳﻮﺭﮦ ﻣﺠﺎﺩﻟﮧ؛
7 ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺟﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ
ﮐﺎ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔
:10 ﺍَﺍَﻣِﻨْﺘُﻢْ ﻣَّﻦْ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ ‏( ﺳﻮﺭﮦ ﻣﻠﮏ 16:‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ‏( ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ‏)ﮐﺎ ﺟﻮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮨﮯ، ﺧﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ :
:1 ﻋَﻦِ ﺍﺑْﻦِ ﻋُﻤَﺮَ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍَﻧَّﮧٗ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺍٰﯼ ﺭَﺳُﻮْﻝُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧُﺨَﺎ ﻣَۃً ﻓِﯽْ ﻗِﺒْﻠَۃِ ﺍﻟْﻤَﺴْﺠِﺪِ ﻭَﮬُﻮَﯾُﺼَﻠِّﯽْ
ﺑَﯿْﻦَ ﯾَﺪَﯼِ ﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﻓَﺤَﺘَّﮭَﺎ ﺛُﻢَّ ﻗَﺎﻝَ ﺣِﯿْﻦَ ﺍﻧْﺼَﺮَﻑَ : ﺍِﻥَّ ﺍِﺣَﺪَﮐُﻢْ
ﺍِﺫَﺍ ﮐَﺎﻥَ ﻓِﯽ ﺍﻟﺼَّﻠٰﻮۃِ ﻓَﺎِﻥَّ ﺍﻟﻠّٰﮧَ ﻗِﺒَﻞَ ﻭَﺟْﮭِﮧٖ ﻓَﻠَﺎ ﯾَﺘَﺨَﻤَّﻦْ ﺍَﺣَﺪٌ
ﻗِﺒَﻞَ ﻭَﺟْﮭِﮧٖ ﻓِﯽ ﺍﻟﺼَّﻠٰﻮۃِ۔
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﺝ 1 ﺹ 104ﺑﺎﺏ ﮬﻞ ﯾﻠﺘﻔﺖ ﻻﻣﺮ ﯾﻨﺰﻝ
ﺑﮧ ﺍﻟﺦ، ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺝ 1 ﺹ 207ﺑﺎﺏ ﺍﻟﻨﮩﯽ ﻋﻦ ﺍﻟﺒﺼﺎﻕ
ﻓﯽ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺍﻟﺦ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ
ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻗﺒﻠﮧ ‏( ﮐﯽ
ﺟﺎﻧﺐ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍٓﮔﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﯿﻞ ﮈﺍﻻ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ
ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩﺬﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﻤﺎﺯ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮧ ﺗﮭﻮﮐﮯ۔
:2 ﻋَﻦْ ﺍَﺑِﯽْ ﺳَﻌِﯿْﺪٍ ﺍﻟْﺨُﺪْﺭِﯼْ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﯾَﻘُﻮْﻝُ : ﺑَﻌَﺚَ
ﻋَﻠِﯽُّ ﺑْﻦُ ﺍَﺑِﯽْ ﻃَﺎﻟِﺐٍ ﺍِﻟٰﯽ ﺭَﺳُﻮْﻝِ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﻣِﻦَ ﺍﻟْﯿَﻤَﻦِ ﺑِﺬُﮬَﯿْﺒَۃٍ ﻓِﯽْ ﺍَﺩِﯾْﻢٍ ﻣَﻘْﺮُﻭْﻁٍ ﻟَﻢْ ﺗُﺤَﺼَّﻞْ ﻣِﻦْ ﺗُﺮَﺍﺑِﮭَﺎ
ﻗَﺎﻝَ ﻓَﻘَﺴَﻤَﮭَﺎ ﺑَﯿْﻦَ ﺍَﺭْﺑَﻌَۃِ ﻧَﻔَﺮٍ ﺑَﯿْﻦَ ﻋُﯿَﯿْﻨَۃَ ﺑْﻦِ ﺑَﺪْﺭٍ ﻭَﺍَﻗْﺮَﻉَ ﺑْﻦِ
ﺣَﺎﺑِﺲٍ ﻭَﺯَﯾْﺪٍ ﺍﻟْﺨَﯿْﻞِ ﻭَﺍﻟﺮَّﺍﺑِﻊِ ﺍِﻣَّﺎ ﻋَﻠْﻘَﻤَۃَ ﻭَﺍِﻣَّﺎ ﻋَﺎﻣِﺮِ ﺑْﻦِ
ﺍﻟﻄُّﻔُﯿْﻞِ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺭَﺟُﻞٌ ﻣِﻦْ ﺍَﺻْﺤَﺎﺑِﮧٖ ﮐُﻨَّﺎ ﻧَﺤْﻦُ ﺍَﺣَﻖُّ ﺑِﮭٰﺬَﺍ ﻣِﻦْ
ﮬٰﻮُٔﻟَﺎﺉِ ﻗَﺎﻝَ ﻓَﺒَﻠَﻎَ ﺫٰﻟﮏَ ﺍﻟﻨﺒِِّﯽَّ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﻓَﻘَﺎﻝَ :ﺍَﻟَﺎ ﺗَﺎْﻣَﻨُﻮْﻧِﯽْ ﻭَﺍَﻧَﺎ ﺍَﻣِﯿْﻦُ ﻣَﻦْ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ ﯾَﺎْﺗِﯿْﻨِﯽْ ﺧَﺒَﺮُ
ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ ﺻَﺒَﺎ ﺣًﺎ ﻭَﻣَﺴَﺎﺀ ً ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺝ 2 ﺹ 624ﺑﺎﺏ ﺑﻌﺚ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ
ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻟﺦ ، ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺝ 1 ﺹ 341ﺑﺎﺏ ﺍﻋﻄﺎﺀ ﺍﻟﻤﻮٔﻟﻔۃ
ﻭ ﻣﻦ ﯾﺨﺎﻑ ﺍﻟﺦ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﺧﺪﺭﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ
ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﯾﻤﻦ ﺳﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﻧﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﭼﻤﮍﮮ ﮐﮯ ﺗﮭﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺳﻮﻧﺎ ﺑﮭﯿﺠﺎ ‘ ﺟﺲ ﮐﯽ
ﻣﭩﯽ ﺍﺱ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ‏(ﮐﮧ ﺗﺎﺯﮦ
ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼﺗﮭﺎ ‏)ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻤﻨﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﺎﺭ
ﺍٓﺩﻣﯿﻮﮞ ﻋﯿﯿﻨﮧ ﺑﻦ ﺑﺪﺭ، ﺍﻗﺮﻉ ﺑﻦ ﺣﺎﺑﺲ، ﺯﯾﺪ ﺑﻦ ﺧﯿﻞ ﺍﻭﺭ
ﭼﻮﺗﮭﮯ ﻋﻠﻘﻤﮧ ﯾﺎ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻃﻔﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻘﺴﯿﻢ
ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ ﺍٓﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﻧﺤﻀﺮﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ
ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ
ﺍﻣﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺻﺒﺢ ﻭﺷﺎﻡ
ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ
ﺑﺘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎﮨﮯ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
:3 ﻋَﻦِ ﺍﺑْﻦِ ﻋُﻤَﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍَﻥَّ ﺭَﺳُﻮْﻝَ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻﻠﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐَﺎﻥَ ﺍِﺫَﺍ ﺍﺳْﺘَﻮَﯼٰ ﻋَﻠٰﯽ ﺑَﻌِﯿْﺮِﮦٖ ﺧَﺎﺭِﺟًﺎ ﺍِﻟٰﯽ
ﺳَﻔَﺮٍ ﮐَﺒَّﺮَ ﺛَﻠَﺎﺛًﺎ ﻗَﺎﻝَ : ﺳُﺒْﺤَﺎﻥَ ﺍﻟَّﺬِﯼْ ﺳَﺨَّﺮَ ﻟَﻨَﺎ ﮨٰﺬَﺍ ﻭَﻣَﺎ ﮐُﻨَّﺎ ﻟَﮧٗ
ﻣُﻘْﺮِﻧِﯿْﻦَ ﻭَﺍِﻧَّﺎ ﺍِﻟﯽٰ ﺭَﺑِّﻨَﺎ ﻟَﻤُﻨْﻘَﻠِﺒُﻮْﻥ‘َ ﺍَﻟﻠّٰﮭُﻢَّ ﻧَﺴْﺌَﻠُﮏَ ﻓِﯽْ ﺳَﻔَﺮِﻧَﺎ
ﮨٰﺬَﺍ ﺍﻟْﺒِﺮَّ ﻭَﺍﻟﺘَّﻘْﻮَﯼٰ ﻭَﻣِﻦَ ﺍﻟْﻌَﻤَﻞِ ﻣَﺎ ﺗَﺮْﺿٰﯽ ‘ ﺍَﻟﻠّٰﮭُﻢَّ ﮬَﻮِّﻥْ ﻋَﻠَﯿْﻨَﺎ
ﺳَﻔَﺮَﻧَﺎﮨٰﺬَﺍ ﻭَﺍﻃْﻮِﻋَﻨَّﺎ ﺑَﻌْﺪَﮦٗ ‘ ﺍَﻟﻠّٰﮭُﻢَّ ﺍَﻧْﺖَ ﺍﻟﺼَّﺎﺣِﺐُ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻔَﺮِ
ﻭَﺍﻟْﺨَﻠِﯿْﻔَۃُ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺎَﮨْﻞِ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺝ۱ﺹ۴۳۴ ﺑﺎﺏ ﺍﺳﺘﺠﺎﺏ ﺍﻟﺬﮐﺮ ﺍﺫﺍﺭﮐﺐ
ﺩﺍﺑۃ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ
ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺐ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﭘﺮﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﻧﭧ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ
ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﭘﮍﮬﺘﮯ : ﭘﺎﮎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺟﺎﻧﻮﺭ‏( ﺳﻮﺍﺭﯼ ‏) ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺗﺎﺑﻊ
ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﺑﺎ ﻧﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ
ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ! ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ
ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻧﯿﮑﯽ ‘ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮔﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺎﻡ
ﺟﺴﮯ ﺗﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﮮ، ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺍﺱ
ﺳﻔﺮ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺍٓﺳﺎﻥ ﮐﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﺎﻥ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﺮ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺩﮮ۔ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺗﻮ ﺭﻓﯿﻖ ﮨﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮞﺎﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ
ﮨﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ۔
:4 ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﺷﻌﺮﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﮯ ‘ﻟﻮﮒ ﺯﻭﺭ ﮐﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺗﮑﺒﯿﺮﯾﮟ
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺍِﺭْﺑَﻌُﻮْﺍﻋَﻞٰﯼ ﺍَﻧْﻔُﺴِﮑُﻢْ ‘ ﺍِﻧَّﮑُﻢْ ﻟَﯿْﺲَ ﺗَﺪْﻋُﻮْﻥَ ﺍَﺻَﻢَّ ﻭَﻟَﺎ ﻏَﺎﺋِﺒًﺎ،
ﺍِﻧَّﮑُﻢْ ﺗَﺪْﻋُﻮْﻧَﮧٗ ﺳَﻤِﯿْﻌﺎً ﻗَﺮِﯾْﺒﺎً ﻭَﮬُﻮَ ﻣَﻌَﮑُﻢْ۔ ‘‘
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ؛ ﺝ 2 ﺹ 346ﺑﺎﺏ ﺍﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺧﻔﺾ
ﺍﻟﺼﻮﺕ ﺑﺎﻟﺬﮐﺮ ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ’’ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﺮﻣﯽ ﮐﺮﻭ ! ﺗﻢ ﺑﮩﺮﮮ ﻭ ﻏﺎﺋﺐ
ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﮯ ، ﺗﻢ ﺟﺴﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ،
ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ‘‘ ۔
:5 ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﮨﮯ
’’ﺍﺭْﺣَﻤُﻮْﺍ ﻣَﻦْ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﯾَﺮْﺣَﻤْﮑُﻢْ ﻣَﻦْ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ۔ ‘‘ ‏(ﺟﺎﻣﻊ
ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ ﺝ 2 ﺹ 14 ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻨﺎﺱ ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ’’ﺗﻢ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﻭ، ﺟﻮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔ ‘‘
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮨﻮﻧﺎﺑﺘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ، ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺮﺵ
ﭘﺮ ﮨﮯ ،ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
6 ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﮨﮯ :
’’ ﻟَﻮْﺍَﻧَّﮑُﻢْ ﺩَﻟَّﯿْﺘُﻢْ ﺑِﺤَﺒْﻞٍ ﺍِﻟَﯽ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﺍﻟﺴُّﻔْﻠﯽٰ ﻟَﮭَﺒَﻂَ ﻋَﻠَﯽ
ﺍﻟﻠّٰﮧِ۔ ‘‘ ‏(ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ ﺝ 2 ﺹ 165 ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺳﻮﺭۃ
ﺣﺪﯾﺪ ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺭﺳﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮈﺍﻟﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﮮ ﮔﯽ ۔
ﻓﺎﺋﺪﮦ : ﺭﺳﯽ ﮐﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﻧﺎ ﺩﻟﯿﻞ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﺫﺍﺕ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺻﺮﻑ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺟﻮﺩ
ﮨﮯ ۔
:7 ﻋَﻦْ ﺍَﺑِﯽ ﺍﻟﺪَّﺭْﺩَﺍﺉ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻗَﺎﻝَ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮْﻝَ
ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﯾَﻘُﻮْﻝُ : ﻣَﻦِ ﺍﺷْﺘَﮑٰﯽ ﻣِﻨْﮑُﻢْ ﺷَﯿْﺌًﺎ
ﺍَﻭِ ﺍﺷْﺘَﮑَﺎﮦُ ﺍَﺥٌ ﻟَّﮧٗ ﻓَﻠْﯿَﻘُﻞْ : ﺭَﺑُّﻨَﺎ ﺍﻟﻠﮧّٰ ُ ﺍَّﻟﺬِﯼْ ﻓﯽْ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ،
ﺗَﻘَﺪَّﺱَ ﺍﺳْﻤُﮏَ ‘ ﺍَﻣْﺮُﮎَ ﻓِﯽ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ ﻭَﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﮐَﻤَﺎﺭَﺣْﻤَﺘُﮏَ ﻓِﯽ
ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﺉِ ﻓَﺎﺟْﻌَﻞْ ﺭَﺣْﻤَﺘَﮏَ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ‘ ﺍِﻏْﻔِﺮْﻟَﻨَﺎ ﺣُﻮْﺑَﻨَﺎ ﻭَﺧَﻄَﺎﯾَﺎ
ﻧَﺎ ‘ﺍَﻧْﺖَ ﺭَﺏُّ ﺍﻟﻄَّﯿِّﺒِﯿْﻦَ ‘ ﺍَﻧْﺰِﻝْ ﺭَﺣْﻤَۃً ﻣِّﻦْ ﺭَﺣْﻤَﺘِﮏَ ﻭَ ﺷِﻔَﺎﺉً
ﻣِﻦْ ﺷِﻔَﺎﺋِﮏَ ﻋَٰﻠﯽ ﮨٰﺬَﺍ ﺍﻟْﻮَﺟْﻊِ ﻓَﯿَﺒْﺮَﺍُ۔
‏(ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﺅﺩ ﺝ 2 ﺹ 187 ﺑﺎﺏ ﮐﯿﻒ ﺍﻟﺮﻗﯽ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺍﻟﺪﺭﺩﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮞﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻨﺎ
‘ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ : ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺭﺏ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺗﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺗﯿﺮﺍ
ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‘ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﺮ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺶ ﺩﮮ۔ ﺗﻮ ﭘﺎﮎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺏ ﮨﮯ ۔
ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﻔﺎﺀ ﺍﺱ ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﺭﺩ
ﺟﺎﺗﺎﺭﮨﮯ۔
:8 ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎﮔﯿﺎ:
’’ﻓَﻤَﺎ ﺗَﺰْﮐِﯿَۃُ ﺍﻟْﻤَﺮْﺉِ ﻧَﻔْﺴَﮧٗ ﯾَﺎﺭَﺳُﻮْﻝَ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ‘‘! ﻗَﺎﻝَ : ﺍَﻥْ ﯾَﻌْﻠَﻢَ ﺍَﻥَّ
ﺍﻟﻠّٰﮧَ ﻣَﻌَﮧٗ ﺣَﯿْﺜُﻤَﺎ ﮐَﺎﻥَ۔
‏(ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﻟﻠﺒﯿﮭﻘﯽ ﺝ 4 ﺹ 95 ، 96 ﺑﺎﺏ
ﻻﯾﺎﺧﺬﺍﻟﺴﺎﻋﯽ ‘ ﺷﻊﺏ ﺍﻻﯾﻤﺎﻥ ﻟﻠﺒﯿﮭﻘﯽ ﺝ 3 ﺹ 187 ﺑﺎﺏ ﻓﯽ
ﺍﻟﺰﮐﻮۃ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺍٓﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﺎ’’ ﺗﺰﮐﯿﮧ‘‘ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ
ﻣﺮﺍﺩﮨﮯ ؟ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﯾﮧ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺑﻨﺎ ﻟﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ۔
:9 ﻋَﻦْ ﻋُﺒَﺎﺩَ ۃَ ﺑْﻦِ ﺍﻟﺼَّﺎﻣِﺖِ ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮْﻝُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻﻠﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ : ﺍِﻥَّ ﺍَﻓْﻀَﻞَ ﺍﻟْﺎِﯾْﻤَﺎﻥِ ﺍَﻥْ ﺗَﻌْﻠَﻢَ ﺍَﻥَّ ﺍﻟﻠّٰﮧَ
ﻣَﻌَﮏَ ﺣَﯿْﺜُﻤَﺎ ﮐُﻨْﺖَ۔
‏(ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻻﻭﺳﻂ ﻟﻠﻄﺒﺮﺍﻧﯽ ﺝ 6 ﺹ 287 ﺭﻗﻢ
ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ 8796 ‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺑﻦ ﺻﺎﻣﺖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﺍﻓﻀﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺑﻨﺎ ﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ۔
:10 ﻋَﻦْ ﺍَﺑِﯽْ ﮨُﺮَﯾْﺮَۃَ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻗَﺎﻝَ :ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮْﻝُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ : ﺍِﻥَّ ﺍﻟﻠّٰﮧَ ﻋَﺰَّﻭَﺟَﻞَّ ﯾَﻘُﻮْﻝُ ﯾَﻮْﻡَ
ﺍﻟْﻘِﯿٰﻤَۃِ : ﯾَﺎﺍﺑْﻦَ ﺍٓﺩَﻡَ !ﻣَﺮِﺿْﺖُ ﻓَﻠَﻢْ ﺗَﻌُﺪْﻧِﯽْ ‘ﻗَﺎﻝَ ﯾَﺎﺭَﺏِّ ﮐَﯿْﻒَ
ﺍَﻋُﻮْﺩُﮎَ ﻭَﺍَﻧْﺖَ ﺭَﺏُّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﯿْﻦَ؟ ﻗَﺎﻝَ :ﺍَﻣَﺎﻋَﻠِﻤْﺖَ ﺍَﻥَّ ﻋَﺒْﺪِﯼْ
ﻓُﻠَﺎﻧًﺎ ﻣَﺮِﺽَ ﻓَﻠَﻢْ ﺗَﻌُﺪْﮦٗ؟ ﺍَﻣَﺎ ﻋَﻠِﻤْﺖَ ﺍَﻧَّﮏَ ﻟَﻮْﻋُﺪْﺗَّﮧٗ ﻟَﻮَﺟَﺪْﺗَّﻨِﯽْ
ﻋِﻨْﺪَﮦٗ؟
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺝ 2 ﺹ 318ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﻋﯿﺎﺩۃ
ﺍﻟﻤﺮﯾﺾ،ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺹ 189 ،ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ 269‏)
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮۃ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ : ﺍﮮ ﺍﺑﻦ
ﺍٓﺩﻡ! ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﺮﺳﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ۔
ﺑﻨﺪﮦ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﺮﺳﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﯿﺴﮯ
ﮐﺮﺗﺎ؟ ﺍٓﭖ ﺗﻮ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﺍ ﻓﻼﮞ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺗﮭﺎ ‘ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﺮﺳﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ۔ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﺮﺳﯽ
ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺎﺗﺎ۔
ﻋﻘﻠﯽ ﺩﻻﺋﻞ :
:1 ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺧﺎﻟﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺵ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﮯ ، ﺧﺎﻟﻖ ﺍﺯﻝ
ﺳﮯ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ
ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻋﺮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮩﺎﮞ
ﺗﮭﮯ ؟
:2 ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﻣﺴﺘﻮﯼ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺻﻮﺭﺗﯿﮟ
ﮨﯿﮟ :
ﺍﻟﻒ : ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔
ﺏ : ﻋﺮﺵ ﺳﮯ ﻣﺘﺠﺎﻭﺯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔
ﺝ : ﻋﺮﺵ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔
ﺍﮔﺮ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﺮﺵ ﭼﻮﻧﮑﮧ
ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﻮﻧﺎ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
‘ﺍﻭﺭ ﻣﺘﺠﺎﻭﺯ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺠﺰﯼ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻋﺮﺵ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﺮﺵ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﺎ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﯾﻌﻨﯽ ﺧﺎﻟﻖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ‘ ﺟﺒﮑﮧ
ﯾﮧ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺻﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺤﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﯿﮟ۔
:3 ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺧﺎﻟﻖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﯿﮟ ، ﻋﺮﺵ
ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﻋﺮﺵ
ﭘﺮ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﺎ ’’ ﮐﯿﺎ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ،
ﻣﺤﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ؟‘‘
:4 ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﯽ
ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﯾﮧ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﺟﺴﻢ
ﻣﺮﮐﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻣﺮﮐﺐ ﺣﺎﺩﺙ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻗﺪﯾﻢ ﮨﯿﮟ ۔
:5 ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﺮﺵ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻣﮑﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﺍﻭﺭ ﺿﺎﺑﻄﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﮑﯿﻦ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺱ
ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺳﮯ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ‘‘ ﻭﺍﻻ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
:6 ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﮩﺖِ
ﻓﻮﻕ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺖ ﮐﻮ ﺣﺪ ﺑﻨﺪﯼ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺣﺪ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﻮ ﺟﺴﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ
ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ۔
:7 ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﺮﺵ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﮑﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘
ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ’’: ﻭَﮐَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﺑِﮑُﻞِّ ﺷَﯿْﺊٍ
ﻣُّﺤِﯿْﻄًﺎ۔ ‘‘ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﮯ۔
ﭼﻨﺪ ﺷﺒﮩﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺯﺍﻟﮧ :
ﺷﺒﮧ 1:ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ؟ ﺍﮔﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮧ ’’
ﻧﮩﯿﮟ‘‘ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ’’ ﮨﮯ ‘‘ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮨﮯ ۔
ﺟﻮﺍﺏ :
:1 ﺑﻌﺾ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﺟﻤﺎﻻً ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻭﺭ
ﺍﺩﺏ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺧﻼﻑِ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ۔
ﻣﺜﻼً ﺳﺴﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﻮ ﮐﮩﮯ: ’’ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﺎ
ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ‘‘ ،ﺗﻮ ﺍﺟﻤﺎﻻً ﻗﻮﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺩﺏ
ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﮔﻨﻮﺍﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﮮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺧﻼﻑِ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ۔’’ ﺳﺮ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﭘﺎﻭٔﮞ ﺗﮏ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺧﺎﻟﻖ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ‘‘ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻔﺼﯿﻼً ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻋﻀﻮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ
ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺧﻼﻑِ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ۔’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ
ﮨﮯ‘‘ ﯾﮧ ﺍﺟﻤﺎﻻً ﮐﮩﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺩﺭﺳﺖ
ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻔﺼﯿﻼً ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﮐﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺟﮕﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ، ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻏﻠﻂ ﮨﻮﮔﺎ۔ﻟﮩﺬﺍ ﺍﯾﺴﺎ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﯽ ﻏﻠﻂ، ﻧﺎﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔
:2 ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﺗﺐ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ
ﻭﺟﻮﺩ ﺑﻤﻌﻨﯽ ’’ﺟﺴﻢ ‘‘ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ
ﮐﻮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼﺀ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ
ﺍﺩﺑﯽ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﺣﺎﻓﻆ ﺟﺐ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼﺀ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﻗﺮﺁﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﻢ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﮨﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ
ﻻﺯﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ۔
:3 ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼﺀ ﻣﯿﮟ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮨﮯ ﯾﺎ
ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﮔﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ
ﻟﻐﻮ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﺮ
ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﺮ
ﺟﮕﮧ ﺑﺎ ﺑﺮﮐﺖ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ
ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺷﺒﮧ 2: ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﺣﻠﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ۔
ﺟﻮﺍﺏ : ﺣﻠﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﺗﺐ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ‘ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ
ﮨﯿﮟ۔
ﻓﺎﺋﺪﮦ : ﺩﻭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ
ﻭﺟﻮﺩ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﮯ’’ ﺍﺗﺤﺎﺩ ‘‘ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺍٓﻣﻠﯿﭧ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ
ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﺎﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ
ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ’’ ﺣﻠﻮﻝ ‘‘ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﺮﺑﺖ۔
ﺷﺒﮧ 3: ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﮨﻢ ﮐﻼﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ
ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻼﯾﺎ؟
ﺟﻮﺍﺏ : ﮨﻢ ﮐﻼﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﺑﻼﻧﺎ ﺍﮔﺮ ﻋﺮﺵ
ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﮐﻮﮦ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻼﻡِ ﺍﻟﮩﯽٰ ﺗﺠﻠﯽ ٔﺍﻟﮩﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ
‘ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﻋﺮﺵ ﮐﺎ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮐﻮﮦ
ﻃﻮﺭ ﮐﺎ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺣﻼﺝ ؒﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﮨﻮ۔
ﺷﺒﮧ 4: ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻮﻗﺖ ﺩﻋﺎ ﮨﺎﺗﮫ
ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ؟
ﺟﻮﺍﺏ : ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﮩﺖ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﯿﮟ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﮯ
ﻗﻠﺒﯽ ﺍﺳﺘﺤﻀﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻌﺾ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻌﺾ ﺟﮩﺎﺕ
ﮐﺎ ﺗﻌﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﮩﺖِ ﮐﻌﺒﮧ
ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ، ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﮩﺖِ ﻓﻮﻕ ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﻗﺮﺍﺭ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﺏ ِﺍﻟﮩﯽ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﮯ
ﻟﺌﮯ ﺟﮩﺖِ ﺍﺭﺽ ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ
ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ’’: ﻭَﺍﺳْﺠُﺪْ ﻭَﺍﻗْﺘَﺮِﺏْ)‘‘ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺳﮯ
ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ‏)
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ
ﺟﺴﻢ ﺍﻃﮩﺮ ﺳﮯ ﻟﮕﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺕ ﮐﻌﺒﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ
ﺍﻋﻠﯽٰ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺫﺭﺍﺕ ﮐﻌﺒﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﻌﺒﮧ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﺮﻭ۔ ﮨﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ
ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ
ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻋﺮﺵ ﮐﻌﺒۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ
ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﻋﺮﺵ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ؟؟
ﻓﺎﺋﺪﮦ: ﮐﻌﺒﮧ ﻣﺮﮐﺰِ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻣﺮﮐﺰِﻋﻘﯿﺪﺕ ﮨﮯ۔
ﺷﺒﮧ :5 ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﭘﺮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﺟﻮﺍﺏ : ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﮩﺎﺕِ ﺳﺘﮧ ﺳﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﭘﺎﮎ ﮨﯿﮟ ‘
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﮩﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﯿﻂ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻭَﮐَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﺑِﮑُﻞِّ ﺷّﯿْﺊٍ ﻣُّﺤِﯿْﻄًﺎ ‏( ﺳﻮﺭﮦ
ﻧﺴﺎﺀ ؛ 126 ‏) ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﮯ ‘ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﺕِ
ﺳﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﮩﺖ ِﻋﻠﻮ ﮐﻮ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﮩﺎﺕ ﭘﺮ ﻋﻘﻼً ﻓﻮﻗﯿﺖ
ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻋﻠﻮِ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﯽ
ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺳﺒﻖ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﮩﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﺎ ﺍﺩﺏ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺳﻨﻨﺎ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﺩﯾﻦ
ﮐﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﮩﻢ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔
ﺩﺍﺭﺍﻻﻓﺘﺎﺀ ﻣﺮﮐﺰ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﺴﻨّﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ، ﺳﺮﮔﻮﺩﮬﺎ
25 ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻟﺜﺎﻧﯽ 1435 ﮪ ، 26 ﺍﭘﺮﯾﻞ 2014

    

No comments:

Post a Comment