Thursday 15 October 2015

طہارت اور صفائی میں کیا ہے فرق؟

ایس اے ساگر


ارشاد باری تعالیٰ ہے

 

فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُ وْ ا وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبہ: ۱۰۸)

اس میں ایسے مرد ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ پاکیزہ رہیں اور اللہ پسند فرماتا ہے پاکیزہ رہنے والوں کو

 

اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک عادت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکیزگی سے محبت رکھتے تھے اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی صورت میں  ہر مومن کے دل میں یہ تمنا نہیں ہونی چاہئے کہ وہ پاکیزہ رہے تاکہ رب کریم کے محبوب بندوں میں شمولیت نصیب ہو۔ نبی علیہ الصلوہ و السلام نے ارشاد فرمایا۔

 
اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ

طہارت ہے نصف ایمان

 

کیا ہے صفائی اور پاکیزگی میں فرق؟

 

جمن شبراتی کو تو چھوڑئیے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ صفائی اور پاکیزگی میں فرق نہیں کرپاتے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اگر کسی چیز پر میل کچیل نہ ہو تو اسے صاف کہتے ہیں جبکہ عین ممکن ہے کہ وہ شرع کے نقطہ نظر سے پاکیزہ نہ ہو۔ پاکیزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں سے پاک ہو۔

 
نجاست غلیظہ

 

وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں سخت اور زیادہ ہو مثلاً

 

* انسان کا پیشاب، پاخانہ اور منی

* جانوروں کا پاخانہ

* حرام جانوروں کا پیشاب

* انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون

* شراب اور سور کا گوشت ، ہڈی ، بال وغیرہ

* مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ

 
نجاست خفیفہ

 

وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں ہلکی اور کم ہو ۔مثلاً حلال جانوروں کا پیشاب اور حرام پرندوں جیسےچیل ، گدھ وغیرہ کی بیٹ۔

 
نجاست حقیقی

 
نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں کو نجاست حقیقی کہتے ہیں۔

 
نجاست حکمی

 

وہ نجاست جو دیکھنے میں نہ آئے مگر شریعت سے ثابت ہو مثلاً بے وضو ہونا، احتلام یا جماع وغیرہ کی وجہ سے غسل کا فرض ہو جانا۔ قرآن مجید میں ہے

 

اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ
(التوبہ:۲۸)

یعنی مشرک نجس ہوتے ہیں

 

حدث اکبر

 

‌جب مردو عورت پر احتلام یا جماع کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے یا عورت حیض و نفاس سے فارغ ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ اس کو حدث اکبر کہتے ہیں۔

 
حدث اصغر

 

وضو ٹوٹ جانے کو حدث اصغر کہتے ہیں۔

 

طہارت کے چار درجات

 

اللہ رب العزت پاک ہیں۔ ان سے واصل ہونے کیلئے مومن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔اہل علم نے اس کے چار درجات متعین فرمائے ہیں۔

 
کیا ہے طہارت بدن از نجاست

 

جدید فیشن کے مارے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ظاہری صفائی سب کچھ ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ شریعت نے شرط رکھی ہے کہ بدن کو نجاست حقیقی اور حکمی دونوں سے پاک رکھا جائے جبکہ چند باتیں غور طلب ہیں۔

 

دین سے دور صفائی کے دلدادہ فرض غسل کی شرائط سے نابلد ہوتے ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ شریعت کی روشنی میں علمائے کرام نے لکھا ہے کہ فرض غسل کے تین فرائض ہیں۔

 

روزہ نہ ہونے کے باوجود معمولی کلی کرکے سمجھ لیا کہ صفائی نصیب ہوگئی لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ جس نے پابند کیا ہے کہ غرغرہ یعنی کلی اس طرح کرنا کہ پانی اچھی طرح حلق کے اندر تک پہنچ جائے۔

نہا لئے جبکپ ناک میں پانی داخل نہیں کیا لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ ناک کے اندر نرم ہڈی تک پانی کو اچھی طرح پہنچانا۔

نہا دھوکر غسل خانہ سے نکل آئے لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ پورے جسم پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔

ایک نہیں سو مرتبہ نہا لیجئے لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ پورے جسم کو اچھی طرح مل مل کر دھونا اور ناف، کان ، بغل وغیرہ میں انگلی ڈالنا اور جگہ کو گیلا کرنا واجب ہے۔

 

اپنی مرضی سے بالوں کو سنوارکے خواتین سمجھتی ہیں کہ مسئلہ حل ہوگیا لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ اگر عورت نے بالوں کی چٹیا بنائی ہوئی ہے تو اسکے لئے سر پر اچھی طرح پانی بہانا فرض ہے۔ اگر لمبے بال گندھے ہونے کی وجہ سے خشک رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر بال کھلے ہوں تو سر کے ہر ہر بال کو گیلا کرنا ضروری ہے۔

 

نجانے کتنی خواتین ایسی مل جائیں گی جنھیں صفائی کی تو خوب سمجھ ہے جبکہ پاکی سے دور ہیں لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ جن عورتوں نے زیور پہنا ہوا ہو انکے لئے ضروری ہے کہ زیور کے نیچے کی جگہ پر پانی پہنچائیں۔ خاص طور پر انگلیوں میں انگوٹھی کے  نیچے، کان کی بالیوں کے سوراخ میں اور ناک میں لونگ کے سوراخ میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔

 

کسی زمانہ میں مسلم عورتیں مہندی سے ہاتھ پاوں سجاتی تھیں جبکہ دور حاضر میں نیل پالش کے بغیر انگلیاں جاذب نظر شمار نہیں ہوتیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اگر ہاتھ پاؤں کے ناخنوں پر ناخن پالش لگی ہوئی ہو تو اس کو اتارنا ضروری ہے تاکہ اس کی تہہ کے نیچے پانی پہنچ سکے۔

 

فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے ناخن بڑھاکر لمبے کرنا عام بات ہے لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ اگر ہاتھ پاؤں کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انکے اندر کا میل کچیل نکالنا اور اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔

 

ہونٹوں پر لپ اسٹک لگائی ہوئی عورت کبھی گندی نہیں کہلائے گی لیکن شریعت کا کیا کیجئے کہ اگر ہونٹوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی ہو تو اسے سو فیصد صاف کرنا ضروری ہے تاکہ ہونٹوں تک پانی پہنچ سکے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بیرون ملک کی تیار شدہ لپ اسٹک میں حرام اشیاء شامل ہوتی ہیں۔

                             

No comments:

Post a Comment