(سعيد بن عزيز يوس زئ رحمه اللّٰه ◎ و ابو عدنان محمد منير قمر حفظه اللّٰه)
ماہِ محرّم میں بالخصوص بر صغیر ھند،پاک کے علاقوں میں بہت سی بدعات اپنائی جاتی ہیں ، جن میں محرّم کا چاند نظر آتے ہی
تعزیہ بنانا
سیاہ لباس پہننا ،
سیاہ جھنڈے بلند کرنا ،
مجالس شہادت منعقد کرنا ،
نوحے اور مرثیئے پڑھنا ،
چُولہے اوندھے کردینا ،
عورتوں کا بدن سے زیورات اُتاردینا ،
ماتمی جلوس نکالنا ،
زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کرنا ،
تعزیئے اور تابوت بنانا ،
پانی کی سبیلیں لگانا ،
کھچڑا پکانا ،
عاشوراء محرّم کے دوران خوشی کی تقاریب شادی وغیرہ نہ کرنا اور
شہادت کا سوگ ہر سال منانا وغیرہ شامل ہے ۔
☜ واضح رہے کہ ان
بدعات کے مرتکب افراد ان تمام کاموں کو باعث ثواب جان کر انجام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان امور میں سے اگر کوئی ایک امر بھی ان سے خطا ہوگیا تو مذہب ہی ہاتھ سے جاتا رہا ۔
اس کی مثال تعزیہ بنانے والے حضرات سے دی جاسکتی ہے ۔
ان کی ایک بڑی تعداد مشرک و بدعتی اور بے نمازی و بے روزہ دار ہے ، لیکن انھیں اس بات کی مطلق فکر لاحق نھیں ہوتی کہ فرائضِ اسلام ترک کردینے پر یہ اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے
لیکن تعزیہ بنانے کی فکر انھیں ماہ محرّم کی آمد سے بہت پہلے لگ جاتی ہے ۔
جو تعزیہ پُشتہا پُشت سے ان کے ہاں بنتا چلا آرہا ہے وہ ہر حال میں بنے گا
جبکہ نہ وہ فرائضِ اسلام میں داخل ہے اور نہ سنّتِ رسول ﷺ ہے اور نہ طریقِ صحابئہ کرام رضی اللہ عنھُم ہے نہ مزعومہ آئمئہ اربعہ سے اس کا جواز ثابت ہے نہ بزرگانِ دین سے یہ رسمِ قبیح ثابت ہے ۔
صرف تعزیہ ہی کیا محرّم کی رسومات میں سے ایک بھی رسم ایسی نھیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو پھر کیوں کر نہ کہا جائے کہ یہ رسومات سراسر بدعات ہیں اور ان کے مرتکب دوزخی ہونے کے خطرے میں مبتلا ہیں ، جب تک کہ ان بدعات سے توبہ نہ کرلیں ۔
☜ برادرانِ اسلام ! میرے مخاطَب صرف اور صرف میرے وہ سنّی مسلمان بھائی ہیں جو کہ بدعات کے جھمیلوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔
رسوماتِ محرّم کے نام سے جو بدعات میئں نے سابقہ سطور میں ذکر کی ہیں ان میں اس بات کا بالخصوص التزام کیا ہے کہ وہ بدعات گنی جائیں
جن میں سنّی بھائی
لاعلمی ،
کم عقلی اور
جہالت کے سبب مبتلا ہوگئے ہیں ۔
کسی دوسرے مکتبئہ فکر پر اس تحریر کو اعتراض نہ سمجھا جائے ۔
🚫بہت سے سنّی بھائی بہن رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اور کچھ ان کے وسیع پروپیگنڈے کا شکار ہوکر مذکورہ بالا بدعات کا ارتکاب کیا کرتے ہیں ۔ صحیح علمِ دین نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سنّی گھرانوں میں محرّم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردئیے جاتے ہیں ۔ نوبیاہی عورتیں عاشورہ
گزارتی ہی ،
شہادتِ حُسین رضی اللہ عنہ کے غم میں زیورات کا پہننا ترک کردیتی ہیں ۔ عاشورہ کے جلوس میں روافض (شیعوں) کے جلوس سے آگے سنّی عوام کے تعزیوں کا جلوس ہوتا ہے ، اسی طرح ان کے جلوس کے پیچھے سنّیوں کا ماتمی جلوس ہوتا ہے جس میں پٹّہ بازی اور منہ سے آگ نکالنے اور تلوار بازی وغیرہ کے تماشے کیئے جاتے ہیں ،
ان کے نیچے سے بچّوں اور بیماروں کو گذارا جاتا ہے جبکہ یہ رسم بُت پرستی سے کسی طرح کم نھیں ۔
👈😓 سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خودساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصّے سنتے سناتے ہیں ، وہی محرّم کے مہینے میں شربت کے مٹکے اور کچھڑے کی دیگیں کھا پی کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں ۔
حالانکہ ان میں دلوں میں اگر ان بزرگوں کی محبّت تو انھیں بھی یہ دن بھوک اور پیاسے رہ کر گزارنا چاہیئے تھا ۔
اسی طرح ان کے بیان کردہ افسانوں کے مطابق انھیں عاشورہ محرّم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہیئے جیسا کہ قاسمؒ کی مہندی خود انہی کے بقول کربلا کے میدان میں شب عاشورہ میں لائی گئی تھی ۔
(عقل کے اندھوں کو یہ بھی نھیں معلوم کہ دولہا اور دلہن کی رسمِ مہندی ایک خالصتًا ہندی رسم ہے عرب علاقوں میں آج بھی مہندی نام کی کوئی رسم نھیں پائی جاتی) اس مہندی کے سلسلے میں ملیدہ بنتا ہے جو بہت سے مسلمان علمِ دین نہ ہونے وجہ سے تعزیوں پر چڑھاتے ہیں ۔
☜ حضرت حُسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شُہداء جو کربلا کے میدان میں خود ان روافض (شیعوں) ہی کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے مظلُومانہ قتل کے سبب شہید کہلائے جاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے نصوص کی رو سے شُہداء کو حق تعالیٰ حیات جادوانی عطا فرماتا ہے ۔
اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نھیں ماسوا بیوہ عورتوں کے ، وہ اپنے خاوند کی اموات و شہادت پر چار ماہ دس دن کا سوگ کرتی ہیں پھر اس سوگ کا ہر سال اعادہ نھیں کرتیں مگر ہمارے نادان سنّی بھائی ہر سال رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں حالانکہ اگر اسلام میں ہر سال ایام مخصوصہ میں سوگ منانا جائز ہوتا تو تو پھر ہم وفاتِ مصطفیٰ ﷺ کا سوگ مناتے کہ دنیا میں مسلمانوں پر اس غم سے بڑھ کر نہ تو کوئی غم آیا ہے اور نہ آئے گا ۔
اس امر کی چونکہ اسلام میں کوئی گنجائش و رخصت نھیں لھٰذا ہم اس غم کی سال بہ سال برسی نھیں مناتے ۔
👈😓 علاوہ ازیں بہت سے سنّی مسلمان اس ماہ میں رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اپنے بچّوں کو حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے ہیں ۔
انھیں کلاوے پہنائے جاتے ہیں ۔
پھر وہ بچّے در در جاکر بھیک مانگتے ہیں ،
پھر اس بھیک کی رقم سے حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کی فاتحہ دلائی جاتی ہے ۔ یہ رسم بھی بدعت ہے ۔
اگر حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا ازروئے شریعت جائز ہوتا تو زین العابدین اپنے بیٹے باقر کو اور باقر اپنے بیٹے جعفر کو اور جعفر اپنے بیٹے موسٰی کاظم کو اور موسٰی کاظم اپنے بیٹے علی رضا کو اور علی رضا اپنے بیٹے محمد تقی ، اپنے بیٹے علی نقی اور اپنے بیٹے حسن عسکری کو ضرور عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے کہ یہ لوگ ان کے قرابت دار اور اولاد ہونے کے ناطے ان امور کو انجام دینے کے واقعتًا مستحق تھے ۔ رسوماتِ محرّم صرف بدعت ہی نھیں بلکہ شرک کے زمرے میں بھی آتی ہیں .
No comments:
Post a Comment