Wednesday 14 October 2015

فتوحاتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ

عمر بن خطاب ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قریشی ملقب بہ فاروق. آپکی پیدائش 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں وفات 7 نومبر 644ء مدینہ میں ہوئی. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کے مشہور ترین اشخاص اور نمایاں قائدین میں سے ایک ہیں۔عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علماء و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔
عمر بن خطاب اسلامی تقویم کے بانی ہیں، عمر بن خطاببن نفیل بن عبدالعزّٰی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و‌کنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب آپ کو سرورِ کائنات محمد ﷺ سے ملا جو کے فاروقِ ہے۔اسی نسبت سے آپکو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جسکے معنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی
کعب کے دو بیٹے تھے ایک عدی دوسرا مرہ، اور مرہ  نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ہیں لہذا اسطرح آپکا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ ہجرتِ نبوی سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اشرافِ قریش میں سے تھے اور آپکا خاندان سفارت سے منسوب تھا جب بھی قریش کی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی آپ کے قبیلے کے بزرگوں کو معاملات سنبھالنے کے لئیے بھیجا جاتا تھا۔
آپکی والدہ ابوجہل کی بہن تھیں اس طرح ابوجہل آپکے ماموں تھے۔

علم ، پیشہ ،شوق و شجاعت:
آپ رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں اونٹوں کے چرانے کا شوق تھا۔جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شہسواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کے آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپکا رعب اور دبدبا اتنا تھا کے بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے آپکے ساتھ مقابلے پہ آنے پہ ۔ گھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔ جاہلیت کے دور میں اور اس کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا۔539 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔

حلیہ اور فضائل:
آپکی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پہ غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا۔رخساروں پہ گوشت کم تھا داڑھی گھنی تھی۔ اور صحت ماشااللہ بہت بہترین تھی۔

آپ رضی اللہ عنہ بعض روایات کے مطابق چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے بعض کے مطابق انتالیس مردوں اور تینتیس عورتوں اور بعض کے مطابق پینتالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لائے (واللہ علم) آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جس کی حدیث روایت کا آگے آحادیث کے حصے میں بیان کروں گا (انشااللہ) ۔آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہیں آپکا شمار نبی کریم  ﷺ کے زمانے سے ہی نہایت جید علما میں ہوتا تھا۔ قرآ ن میں پردہ کا حکم بھی آیا تو اس پہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی۔ آپ نہایت غیرت  مند اور دلیر تھے۔ اسلام پہ سختی سے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے آپ کے دبدبے کے بارے میں صحیح بخاری میں حدیث نقل کی ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے کہا کے آپکو دیکھ کے تو شیطان بھی رستہ بدل لیتا ہے (آگے تفصیلا ذکر آئے گا انشا اللہ)۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اس لئیے بھی فضیلت حاصل کہ آپکی ہدایت کے لئے رسول اکرم ﷺ نے خود خاص الخاص دعا فرمائی کہ دونوں عمر (ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)میں سے ایک کو ہدایت دے اور آپ کے حق میں اللہ نے دعا قبول کی اور آپکو مشرف بااسلام کیا ۔ ابن مسعود روایت کرتے کہ آپکا اسلام لانا تھا کہ اس کے بعد اسلام عزت ہی پاتا گیا۔ گویا کے آپکا اسلام فتح تھی آپ کی ہجرت نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کیا اور کسی کفارِ مکہ میں اتنی جرائت نا تھی کہ کچھ کہتا۔ اس لئیے کہتے آپ کے ایمان لانے پہ کفار نہ کہا کے مسلمانوں نے ہم سے سارا بدلہ لے لیا۔ ایک آپ کے دبدے کی جھللک پیشِ خدمت کے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ برہنہ تلوار لائے دوسرے ہاتھ میں تیر اور پشت پہ کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں آئے تلوار کو زمیں میں گاڑا سات مر تبہ طواف کیا اور دو رکعت مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کے پڑھیں ، بھر قریش کے سرداروں کو  (ابو سفیان اور ابو جہل خصوصاً)مخاطب کر کے کہا جو قرب و جوار میں تھے کہ جو شخص اپنی ماں کو بے فرزند اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو، جسکو میری عبادت کرنے پہ اعتراض ہو وہ مجھ سے آکے مدمقابل ہو۔ لیکن ان شیطان کے چیلوں کو کیا ہمت ہوتی جو جذبہ ایمان سے خالی تھے کسی میں چوں چراں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ ہیی نہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مشرکین پہ اتنا رعب و دبدبا تھا کہ مسلمانوں تک کو مشرکین کو نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت دو سال اور تین ماہ پر مشتمل ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتدینِ عرب اور نبوت کے دعوے داروں کا خاتمہ ہو چکا تھا اور اسلامی فتوحات کا دور شروع ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی سال عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ شام پر لشکر کشی تو آپ رضی اللہ کے دورِ خلافت کے آغاز میں ہی ہو چکی تھی۔ یہ فتوحات ابھی اپنے ابتدائی مڑاحل میں ہی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے۔
خلافت کے بارے میں تو آپ رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہو ہی چکا تھا کہ یہ بارِ گراں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کوئی نہیں اٹحا سکتا تاہم اکابرِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ سے پوچھا تو فرمایا کہ عمر کی قابلیت میں کیا کلام ہے بس مزاج کے ذرا تند ہیں۔ یہ سن کے حضرت ابی بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ وہ سخت اس لئے ہیں کہ میں نرم تھا ، جب ذمہ داری ان پر پڑے گی تو خود بخود نرم ہو جائیں گے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا جواب نہیں۔ جب یہ باتیں زبان زدِ عام ہوئیں تو کچھ صحابہ کو تردد ہوا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ سے جا کر کہا کہ آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر کا ہمارے ساتھ کیا برتاؤ تھا اب وہ خلیفہ ہونگے تو جانے کیا کریں گے۔ آپ تو خدا کے ہاں جاتے ہیں یہ سوچ لیں کہ خدا کو کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ نے فرمایا کہ میں اللہ سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ کو بلایا اور حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں فرمان لکھوایا۔ یہ فرمان بعد میں پڑھ کر سنایا گیا لوگوں نے سمعنا و اطعنا کہا اور اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ کو کچھ نصیحتیں فرمائیں۔
فتوحاتِ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جس قدر اسلامی فتوحات ہوئیں وہ کسی اور خلیفہ کے دور میں نہیں ہوئیں۔ یہں تک کہا گیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ کچھ عرصہ مزید خلافت کر سکتے تو اسلام دنیا کے آخری کونے تک پہنچ گیا ہوتا۔ ان فتوحات پر اکا ایک جائزہ ذیل میں پیش ہے۔
فتوحاتِ عراق:
عراق کی فتوحات کا ایک بہت بڑا حصہ حضرت خالدرضی اللہ عنہ کی جنگی خدمات اور جنگی کارناموں پر مشتمل ہے۔ یہ فتوحات اس تیزی سے پھیلیں کہ اگر شام میں اسلامی لشکر کشی نہ ہوئی ہوتی اور وہاں حضرت خالد کی ضرورت موجود نہ ہوتی عراق اسی دور میں فتح ہو چکا ہوتا۔ یہ حضرت ابو بکر ہی کے دور کا واقعہ ہے جب حضرت خالد کو شام کے محاز پر بھیجا گیا اور عراقی فتوحات حضرت مثنیٰ بن حارثہ کے ہاتھ میں دے دی گئیں۔ عراق کی فتوحات پر جب ہم ایک گہری نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ ایران کی فتح کے لئے خود حضرت عمررضی اللہ عنہ کا یہ عالم تھا کہ وہ خود ایران پر لشکر کشی کرنے والی فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے لیکن چونکہ عالمِ اسلام کے حالات اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ حضرت عمر مدینہ سے باہر جائیں اس لئے اس مہم کی ذمہ داری حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ کو سونپی گئی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ مدینہ سے لیکر قادسیہ کے میدان تک پیغام رسانی کا ایک ایسا نظام موجود تھا کہ دربارِ خلافت سے ایک ایک بات اور ایک ایک حکم حتیٰ کے صفوں کی درستگی تک کے احکامات خود حضرت عمررضی اللہ عنہ بھیجا کرتے تھے۔ جنگ کے حوالے سے قادسیہ کے میدان کو چننے کا فیصلہ بھی حضرت عمر نے خود کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایران کا پورا نقشہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ہاتھ کی لکیروں پر درج ہے۔اس جنگ میں اکابرِ صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے بذاتِ خود حصہ لیا۔ ستر صحابہ کرام وہ تھے جو غزوہ بدر میں رسول اللہ رضی اللہ کے ہمر کاب تھے، تین سو صحابہ کرام وہ تھے جو بیعتِ رضوان میں موجود تھے اور اسی کے بقدر بزرک صحابہ کرام وہ تھے جو فتح مکہ میں سرورِ کونین کے ساتھ موجود تھے۔سات سو افراد ایسے تھے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد تھے۔
فتوحاتِ شام:
3ہجری میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے شام پر لشکر کشی کی۔ افواج کی کل تعداد 4000 تھی۔ لشکر مختلف مقامات پر حملہ آور ہوا جن میں دمشق، حمص، اردن اور فلسطین شامل ہیں۔ لشکرِ اسلام وہاں پہنچا تو روم کی افواج پہلے سے جنگ کے لئے تیار تھیں۔ یہ وہی وقت تھا جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ کی مدد کو گئے ہوئے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ کو اطلاع پہنچی تو حضرت خالد کو کہلا بھیجا کہ عراق کی آدھی فوج کے ساتھ شام میں لشکرِ اسلام کی مدد کو پہنچیں۔حضرت خالد رضی اللہ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑتے دمشق پہنچے، اس کو فوج کا مستقر مقرر کیا اور باقی افواج کو کہلا بھیجا کہ سب ہی یہاں جمع ہو جائیں۔ ادھر قیصر نے روم کی فوج کو پیشقدمی کا حکم دیا اور اجنادین میں جمع ہوئیں۔ ایک بڑی جنگ لڑی گئی جس میں تین ہزار مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور آخر کار فتح حاصل کی۔یہی وہ فتوحات ہیں جن میں اجنادین اور یرموک جیسی تاریخی جنگیں لڑی گئیں۔
ایران پر عام لشکر کشی:
ایران کی فتوحات نے ایرانیوں کو مشتعل کر رکھا تھا وہ ایک جگہ سے شکست کھا کر جاتے تو دوسری جگہ اکٹھے ہو جاتے اور اکثر مفتوحہ علاقوں میں آئے روز نئی بغاوت سر اٹھاتی رہتی۔حضرت عمر فرماتے تھے کہ کاش ہمارے اور فارس کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا نہ وہ ہم پر حملہ کرتے نہ ہم ان پر حملہ آور ہوتے۔ حضرت عمر رضی اللہ نے اکابرِ صحابہ کو جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا۔ صحابہ کا کہنا تھا کہ جب تک ایران کے تخت کا وارث موجود ہے یہ بغاوتیں فرو نہیں ہو سکتیں۔یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے حضرت عمر نے ایران پر عام لشکر کشی کا فیصلہ کیا، اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے اور مختلف ممالک کے حکمرانوں کو ارسال فرمائے ان میں احنف بن قیس، مجاشع بن مسعود، عثمان بن العاص، ساریہ بن رہم، سہیل بن عدی، عاصم بن عمر اور عتبہ شامل ہیں۔ایران پر عام لشکر کشی کی گئی اور بہت سے علاقے فتح ہوئے۔ انہی دنوں خبر ملی کے کہ ہمدان میں بغاوت ہو گئی ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نعیم بن مقرن کو بھیجا اور کچھ ہی عرصہ بعد ہمدان بھی فتح ہو گیا پھر اس کے ساتھ ساتھ اصفحان، آذربائجان ،طبرستان، آرمینیہ، فارس،کرمان، سیستان، مکران، خراسان وغیرہ بھی فتح ہوگئے اور ایران کی باقی ماندہ مدافعت مکمل طور پر دم توڑ گئی۔
دیگر فتوحات:
فتح مصر اور اسکندریہ کی فتح بھی دورِ فاروقی میں اہمیت کی حامل ہیں۔ مصر کی فتح بلا شبہ دورِ فاروقی میں ہوئی لیکن اس موضوع کو اٹھانے والے حضرت عمر نہیں تھے بلکہ عمرو بن العاص تھے۔چار ہزار کی فوج کے ساتھ انہوں نے مصر کی جانب پیش قدمی کی اور عریش پہنچے یہاں حضرت عمر کا خط موصول ہوا کہ مصر نہ پہنچے ہو تو رک جاؤ لیکن چونکہ مصر کی حدود میں داخل ہو گئے تھے اس لئے پیش قدمی جاری رکھی۔عریش سے ہو کر فرما پہنچے اور شہر فتح کیا۔یہاں سے نکلے، بلبیس اور ام دنین کو فتح کرتے ہوئےقسطاط پہنچے۔ یہاں پہنچ کر حضرت عمر کو اعانت کی درخواست بھیجی۔ حضرت عمر نے دس ہزار کا لشکر مدد کو بھیجا ۔ قلع فتح ہوا اور وہاں کے فرمانروا مقوقس نے صلح نامہ اور معاہدہ کر لیا۔ہرقل کو خبر ہوئی تو سخت غصہ ہوا اور ایک عظیم الشان لشکر بھیجا جس نے اسکندریہ جا کر ڈیرے ڈالے۔عمرو بن العاص نے حضرت عمر کو لکھ بھیجا کہ فسطاط فتح ہو چکا ہے اجازت ہو تو اسکندریہ کا رخ کیا جائے؟ حضرت عمر کی اجازت ملنے پر 21 ہجری کو اسکندریہ کا رخ کیا۔بڑی زور کا معرکہ ہوا اور مسلمان رومیوں کو دھکیلتے ہوئے قلعے کے صحن تک لے آئے لیکن رومی قلع بند ہو گئے۔ محاصرہ طول کھینچتا گیا اور حضرت عمر کو فکر لاحق ہونا شروع ہوئی۔ ایک خط لکھ بھیجا اور کہا کہ مسلمانوں کو جہاد پر خطبہ دو ایسا لگتا ہے کہ عیسائیوں میں رہ کر تم بھی عیش پسند ہو گئے۔ عمرو بن العاص نے ایک خطبہ دیا کہ مرجھائے ہوئے دل پھر سے تازہ ہوگئے۔ صفیں درست کی گئیں اور مسلمانوں نے اس زور سے حملہ کیا کہ پہلے ہی حملے میں قلع فتح کر لیا۔اسکندریہ اور مصر کی فتح کے بعد مسلمانوں کا کوئی قابلِ ذکر حریف باقی نہ رہا حضرت عمر نے آس پاس کے علاقوں میں اسلامی لشکر بھیجے۔ اس کے بعد عمرو بن العاص نے قیدیوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ کیا کرنا ہے؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہلا بھیجا کہ جو مسلمان ہونا چاہیں ان کو وہ تمام حقوق دے دئیے جائیں اور جو عیسائی رہنا چاہیں ان کو جزیہ دینا ہوگا تو تمام ذمی ادا کرتے ہیں۔ اسکندریہ میں فرمانِ خلافت پڑھ کر سنایا گیا بہت سے عیسائی مسلمان ہوئے اور جب جب کوئی عیسائی اسلام قبول کرتا تو مسلمان بچھے جاتے اور جو کوئی عیسائی رہنا پسند کرتا تو عیسائیوں سے مبارکباد کا شور اٹھتا اور مسلمان غمزدہ ہو جاتے یہاں تک کے بہت سے رونے لگتے۔
آپ کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزاراورتیس(2251030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزاراورتیس(2251030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
احادیث میں فضائل:
مندرجہ بالہ حصہ میں صحیح بخاری اردو ترجمعہ از مولانا محمد داؤد راز سے آحادیث نقل کی جا رہی ہیں باب ہے فضائلِ اصحاب النبی ، بیان حضرت ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان صفحہ 140 سے اور آگے۔


 جنت اور شہادت کی بشا رتیں:

حدیث 3679:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں نے (خواب میں) دیکھا کہ میں جنت میں گیا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء (ام سلیم سیدنا انس کی والدہ) موجود ہیں اور میں نے پاؤں کی آہٹ سنی تو پوچھا کہ کون ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ بلال ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اور اس کے ایک طرف ایک لڑکی وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ کس کا محل ہے؟ کسی نے کہا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا۔ میں نے چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوں اور اسے دیکھوں لیکن (اے عمر!) تمہاری غیرت مجھے یاد آ گئی۔” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
حدیث 3686:
انس بن مالک نے بیان کیا کہ نبی کریم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا احد! ٹھہر رہ کہ تجھ پر  ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔(مراد عمر اور عثمان)
حدیث 3693:
حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بیاں کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ میں رسول اللہ کے ساتھ تھاایک صاحب نے آکر دروازہ کھلوایا۔آنحضرت نے ان کے آنے پہ فرمایا کہ ان کے لئیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابو بکر تھے۔میں نے انہیں نبی کریم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پہ اللہ کی حمد کی بھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔حضور نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لئیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو میں نے دروازہ کھولا تو عمر تھے انہیں بھی جب حضور کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لئیے بھی حضور اکرم نے  فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان تھے۔ جب میں نے انکو حضور کے ارشاد کی اطلاع دی تو آپ نے حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔
تقویٰ، زہد، علم اور نبی پاک کے خواب:

حدیث 3681:
عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پہ بہ رہی ہے۔پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا' صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ نے فرمایا اسکی تعبیر علم ہے۔ (مطلب عمر کا علم کا بیان جو اللہ نے نبی پاک کی بدولت انہیں عطا کیا)

حدیث 3682:

 ‏
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے  فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں سے ایک اچھا بڑا ڈول کھینچ رہا ہوں ، جس پر ” لکڑی کا چرخ “ لگا ہوا ہے ، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچے مگر کمزوری کے ساتھ اور اللہ ان کی مغفرت کرے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہاتھ میں وہ ڈول ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرگیا ۔ میں نے ان جیسا مضبوط اور باعظمت شخص نہیں دیکھا جو اتنی مضبوطی کے ساتھ کام کرسکتاہو ۔ انہوں نے اتنا کھینچا کہ لوگ سیراب ہوگئے اور اپنے اونٹوں کو پلاکر ان کے ٹھکانوں پر لے گئے ۔ ابن جبیر نے کہا کہ عبقری کا معنی عمدہ اور زرابی اور عبقری سردار کو بھی کہتے ہیں ( حدیث میں عبقری سے یہی مراد ہے ) یحییٰ بن زیاد فری نے کہا ، زرابی ان بچھونوں کوکہتے ہیں جن کے حاشیے باریک ، پھیلے ہوئے بہت کثرت سے ہوتے ہیں ۔

(یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب حدیث میں لفظ ” بکرۃ “ بفتح با اور کاف ہو یعنی وہ گول لکڑی جس سے ڈول لٹکادیتے ہیں ، اگر ” بکرۃ “ سکون کاف کے ساتھ ہوتو ترجمہ یوں ہوگا، وہ ڈول جس سے جو ان اونٹنی کو پانی پلاتے ہیں۔)
حدیث 3683:
محمد بن سعدبن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المومین میں سے ) بیٹھی باتیں کررہی تھیں اور آپ کی آوازپر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان ونفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کررہی تھیں ، جوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہوکر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اوروہ داخل ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرارہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پرہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ڈرناتو انہیں آپ سے چاہیے تھا ۔ پھرانہوں نے ( عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں ، عورتوں نے کہاکہ ہاں ، آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔
حدیث 3687:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے ، جو میں نے انہیں بتادیئے تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کودین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل حضرت عمر بن خطاب پر ختم ہوگئے ۔
حدیث 3689:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔
حدیث 3691:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی ، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی تعبیر کیالی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے ۔

(معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دین وایمان بہت قوی تھا۔ اس سے ان کی فضیلت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پرلازم نہیں آتی کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں ہے۔)

فاروقی دور کی خدمات اور فتوحات:
حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات اور خلافت میں آنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے دو سال کہ عرصے میں ہی اپنی قابلیت کا سکہ جمادیا حالانکہ پہلے آپ ایک انتہائی رعب و دبدبا اور عضے کے تیز شخص مانے جاتے  تھے ۔ابو بکر نے اپنی وفات سے پہلے ہی انکے ہاتھ پہ بیعت لے لی تھی عمر پہ محمد حسین ہیکل کی کتاب عم فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ میں نقل کرتے ہیں باب چہارم صفحہ 112-113:
اسکی (عمر) سختی میری نرمی کی بدولت تھی جب خلافت کا بوجھ ان کے کندھوں پہ پڑے گا وہ سخت نہیں رہیں گے۔اگر اللہ پاک مجھ سے پوچھتے کہ میں کس کو اپنا جانشین مقرر کیا، تو میں انہیں بتاتا کہ آپ میں سے بہترین آدمی کو مقرر کیا۔
اور یارِ نبی رضی اللہ عنہ کا اندازہ بلکل درست رہا۔ عمر رضی اللہ عنہ خلافت میں آتے ہی وہ نرم رویہ اختیار کیا کہ جسکی بدولت نا صرف مسلمان بلکہ کافر آج تک داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔
آپ کہ عہد فاروقی نے دین و دنیا میں جو جو خدمات پیش کی اسکی مثال آج تک نہیں مل پائے چند ایک کا تذکرہ مندرجہ بالا نقات میں لکھ دیتا کیوں کہ بیان کرنے پے تو ہر ایک پہ کتب کی کتب بھی کم پڑیں گی۔

  • بیت المال کا قیام
  • مالی تجاویز و ایجاد
  • معاشرتی نظام کی تجاویز
  • سیاسی کابینہ کا قیام
  • سنہ ہجری کا قیام
  • امیرالمومنین کا لقب
  • فوج کے اور مختلف حکومتی شعبہ جات کے با قاعدہ دفاتر کا قیام
  • رضا کاروں کی تنخواؤں کا تقرر
  • ملک کی حدود کا قاعدہ۔
  • مردم شماری
  • نہریں کھدوانا
  • راستے میں مسافروں کے لئیے کنوئیں اور سرائے کا انتظام
  • راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا
  • رات کو  رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام
  • شہر آباد کروانا مثلا کوفہ، بصرہ، جزیرہ فساط (قاہرہ)،رصا مشررک
  • خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع
  • صوبہ داری کا نظام اور اسکے حکام کا تقرر
  • جیل خانہ کا قیام
  • پولیس کا باقاعدہ محکمہ
  • مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودئیوں کے روزینے کا تقرر
  • نماز تراویح با جماعت پڑھانے کا اہتمام
  • تجارت کے گھوڑوں پہ زکواۃ کا تقرر
  • نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا اجماع
  • بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپوٹ کہتے آجکل)
  • پرچہ اور قانونی دستاویزات کے نویس مقرر کرنا
  • درہ کا استعمال

یہ چند ایک خصوصیات بتائیں ساروں کا آحاطہ کرنا بہت مشکل ہے یہی نہیں آپ ک دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ 22 لاکھ اور کچھ کے مطابق 25 لاکھ مربع میل تک اسلام کی دعوت اور آپ کی خلافت پہنچی۔ ان میں فارس و عراق جزیرہ خراسان و بلوچستان و شام و فلسطین و مصر و آرمینیا۔ پھر آپ نے 220 ہجری میں اسلامی سلطنت کے جو صوبے بنائے تھے و کچھ یوں تھے، مکہ ،مدینہ،شام ،مصر(بالائی مصر ،زیریں مصر)،فلسطین(ایلیا و رملا)،خراسان،آذربئجان،فارس،عراق(،بصرہ،کوفہ)،دجلہ کا بالائی حصہ (جزیرہ ،فرات)۔ ان میں بعض ایسے صوبے تھے جو دو دو صوبوں کے برابر سمجھے جاتے اور دو دو صدرمقام تھے ۔ ہر صوبے میں ایک کاتب، منشی،صاحب الخراج یا کلیکٹر،ایک پولیس کا افسر،افسر خزانہ اور ایک قاضی ضرور ہوتا۔

طرزِ زندگی:
جب اس عظیم سلطنت اور جاہ و جلال کا تذکرہ آتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ آتی انسانی فطرت میں کے ایسے بندے کی تو زندگی انتہائی شاہانہ ہوگی۔ جسکو دین میں بھی ذہد حاصل، جنت کی بشارت، محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت اور خدا کا راضی نامہ بھی ملا ہو تو وہ شخص تو شاید خوابوں کی شاہانہ زندگی کا نمونہ ہو۔۔۔ایسی ہی سوچ لے کے دوسری سلطنتوں کے ایلچی بھی آیا کرتے تھے کے شاید وہ عالیشان دربار میں بٹھائے جائیں گے لیکن سب کا سب دھرا رہ جاتا جب وہ اس جاہ و جلال کے پیکر کو درخت کے نیچے بلا خوف و خطر کسی حفاظتی انتظامات کے بغیر پتھر پہ سر رکھے پھٹے پرانے اور پیوندوں سے بھرے ہوئے کپڑوں میں دیکھتے۔ اور اعلیٰ درجہ کی خوراک کا تصور بھی خاک میں مل جاتا جب انہیں انتہائی سادہ خوراک یا کئی دنوں کے فاقوں کے مارے دیکھتے۔ وہ حیران ہی نہیں مبہوت ہو کے رہ جاتے کے یہی وہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ  ہے ؟ جو اتنی وسیع سلطنت کا مالک؟۔۔۔۔اور یقینا پکار اٹھتے ہوں گے کہ جس نبی ﷺ نے ایسے جانشین چھوڑے وہ خود نبی ﷺ کی عظمت کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔ایسے خلیفہ جو راتوں کو محلوں اور گلیوں میں رعایا کی خیروخبر گیری کے لئیے گھوما کرتے اور حتیٰ امکاں مدد کرتے۔
انساں تو انساں آپ تو جانوروں کے معاملے میں بھی خدا سے ڈرا کرتے ایک دن اپنے ایک زخمی اونٹ کا وزن دھو رہے تھے اور کہتے جاتے کہ مجھے خدا کا خوف کہ کہیں قیامت کے دن اس بابت بھی سوال نا ہو جائے۔

غرضیکہ انہوں نے خلیفہ ہونے کی وہ زندہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک آباد رہے گی انشااللہ اور حکمرانوں کے لئیے ایک مشعلِ راہ رہے گی انشااللہ۔
شہادت:

مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی علام فیروز تھا جو کے ابو لولو کی کنیت سے مشہور تھا۔ ایک دن وہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کے آیا کہ میرا مالک مجھے سے زیادہ محصول لیتا ہے آپ کم کرائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رقم دریافت کی تو اس نے جواب دیا دو درم روزانہ۔ آپنے اسکا پیشہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آہنگری اور نقاشی کا کام کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو یہ رقم زیادہ نہیں۔ ابو لولو یہ سن کے بہت غصے میں آیا اور وہاں سے چل دیا۔
دوسرے دن جب فجر کی نماز کی امامت شروع کی آپ نے تو اس ملعون نے آگے بڑھ کے خنجر سے تابڑ توڑ 6 وار کئیے۔ جس میں سے ایک وار ناف کو چیرتا ہوا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فورا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کھینچ کے آگے امامت میں کردیا اور خود زخموں کی شدت سے بے ہوش ہو کے گر پڑے۔
ملعون ابو لولو مسجدِ نبوی سے بھاگا لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس میں بہت صحابی زخمی اور ایک صحابی کلیب بن ابی بکیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ اس سے پہلے کے گرفتار ہوتا اس نے خود کشی کر لی اور یوں نامراد ٹھرا۔

فورا نماز ختم ہوتے ہی طبیب کو بلایا آپ رضی اللہ عنہ جیسے ہی ہوش میں آئے تھوڑے تو عظمت دیکھیں کہ یہ پوچھا کی کسی مسلمان نے تو حملہ نہیں کیا۔ بتلایا گیا نہیں ملعون مجوسی ابو لولو نے کیا تو فورا کہا الحمد اللہ مجھے کسی مسلمان نے نہیں مارا۔
زخموں کی شدت کچھ ایسی تھی کے جب کچھ کھلایا پلایا جاتا تو ناف والے زخم سے خوراک انتڑیوں سے باہر نکل جاتی اس طرح کی حالت دیکھ کے لوگ غمزدہ ہو گئے اور ساتھ ہی آپ سے اپنا جانشین مقرر کرنے کو بھی کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو طلب کر کے یہ ذمہ داری ان پہ سونپی اور اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پیغام بھجوایا کہ ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرو۔کیا مقام کیا عزت تھی انکی نبی پاک ﷺ کے گھرانے کے لئیے کہ اجازت مانگ رہے دفن کے لئیے بھی۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئیے رکھی تھی لیکن میں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پہ ترجیح دیتی ہوں ۔یہ خبر سن کے آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کے ان کی خواہش پوری ہوئی اور آخر یکم محرم الحرام اور بعض کے مطابق دوم محرم کو آپ شہادت کا جام نوش کرتے ہوے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور ہمیشہ کے لئے حیات ہو گئے۔ آپکی نمازِ جنازہ صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے قبرِ مبارک میں اتارا۔

No comments:

Post a Comment