Thursday, 22 October 2015

طہارت کی اہمیت

ارشاد باری تعالٰی ہے
فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُ وْ ا وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبہ: ۱۰۸)
(اس میں ایسے مرد ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ پاکیزہ رہیں اور اللہ پسند فرماتا ہے پاکیزہ رہنے والوں کو)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک عادت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکیزگی سے محبت رکھتے تھے اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی گئ کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ پس ہر مومن کے دل میں یہ تمنا ہونی چاہئے کہ وہ پاکیزہ رہے تاکہ رب کریم کے محبوب بندون میں شمولیت نصیب ہو۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ
(صفائی ایمان کا حصہ ہے)
صفائی اور پاکیزگی:
صفائی اور پاکیزگی میں فرق ہے۔ اگر کسی چیز پر میل کچیل نہ ہو تو اسےصاف کہتے ہیںمگر عین ممکن ہے کہ وہ شرع کے نقطہ نظر سے پاکیزہ نہ ہو۔ پاکیزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں سے پاک ہو۔
نجاست غلیظہ:
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں سخت اور زیادہ ہو مثلًا
انسان کا پیشاب، پاخانہ اور منی
جانوروں کا پاخانہ
حرام جانوروں کا پیشاب
انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون
شراب اور سور کا گوشت ، ہڈی ، بال وغیرہ
مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ
نجاست خفیفہ:
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں ہلکی اور کم ہو ۔مثلًا حلال جانوروں کا پیشاب اور حرام پرندوں (چیل ، گدھ) کی بیٹ۔
نجاست حقیقی:
نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں کو نجاست حقیقی کہتے ہیں۔
نجاست حکمی:
وہ نجاست جو دیکھنے میں نہ آئے مگر شریعت سے ثابت ہو مثلًا بے وضو ہونا، احتلام یا جماع وغیرہ کی وجہ سے غسل کا فرض ہو جانا۔ قرآن مجید میں ہے
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (التوبہ:۲۸)
(مشرک نجس ہوتے ہیں)
حدث اکبر:
جب مردو عورت پر احتلام یا جماع کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے یا عورت حیض و نفاس سے فارغ ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ اس کو حدث اکبر کہتے ہیں۔
حدث اصغر:
وضو ٹوٹ جانے کو حدث اصغر کہتے ہیں۔
طہارت کے چار درجات
اللہ رب العزت پاک ہیں۔ ان سے واصل ہونے کیلئے مومن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ مشائخ نے اس کے چار درجات متعین فرمائے ہیں۔
۱۔ طہارت بدن از نجاست
بدن کو نجاست حقیقی اور حکمی دونوں سے پاک رکھا جائے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
فرض غسل:
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ فرض غسل کے تین فرائض ہیں۔
غرغرہ یعنی کلی اس طرح کرنا کہ پانی اچھی طرح حلق کے اندر تک پہنچ جائے۔
ناک کے اندر نرم ہڈی تک پانی کو اچھی طرح پہنچانا۔
پورے جسم پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔
پورے جسم کو اچھی طرح مل مل کر دھونا اور ناف، کان ، بغل وغیرہ میں انگلی ڈالنا اور جگہ کو گیلا کرنا واجب ہے۔
اگر عورت نے بالوں کی چٹیا بنائی ہوئی ہے تو اسکے لئے سر پر اچھی طرح پانی بہانا فرض ہے۔ اگر لمبے بال گندھے ہونے کی وجہ سے خشک رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر بال کھلے ہوں تو سر کے ہر ہر بال کو گیلا کرنا ضروری ہے۔
جن عورتوں نے زیور پہنا ہوا ہو انکے لئے ضروری ہے کہ زیور کے نیچے کی جگہ پر پانی پہنچائیں۔ خاص طور پر انگلیوں میں انگوٹھی کےنیچے، کان کی بالیوں کے سوراخ میں اور ناک میں لونگ کے سوراخ میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخنوں پر ناخن پالش لگی ہوئی ہو تو اسکو اتارنا ضروری ہے تاکہ اس کی تہہ کے نیچے پانی پہنچ سکے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انکے اندر کی میل کچیل نکالنا اور اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہونٹوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی ہو تو اسے سو فیصد صاف کرنا ضروری ہے تاکہ ہونٹوں تک پانی پہنچ سکے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بیرون ملک کی تیار شدہ لپ اسٹک میں حرام اشیاء شامل ہوتی ہیں۔
استنجاء کرنا:
جب انسان قضائے حاجت کیلئے بیت الخلاء میں جائے اور پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو تو اسے چاہئے کہ مٹی کے ڈھیلوں سے پیشاب کے قطروں کو خشک کر لے پھر تین ڈھیلوں سے پاخانہ صاف کرے، اگر مٹی کے ڈھیلے میسر نہ ہوں تو ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے بعد پانی کے ساتھ پیشاب پاخانے کی جگہ کو تین مرتبہ دھوئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے پھر ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر دوسری مرتبہ ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے، پھر دوبارہ ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر تیسری بار ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے حتٰی کہ نجاست دھلنے کا یقین ہو جائے پھر تیسری دفعہ ہاتھ کو پاک کرے۔ بعض لوگ استنجاء سے فراغت پر ہاتھوں کو مٹی یا صابن سے دھو لیتے ہیں۔ طمانیت قلب حاصل کرنے کیلئے یہ اچھی عادت ہے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں ایسے جوتے رکھے جاتے ہیں جو پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ ایسے جوتوں کا پاک رکھنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر اس پر پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو بھلا کیسے پاک کریں؟ جوتے ایسے میٹیریل کے بنے ہوں جو پانی جذب نہ کریں اور فقط پانی بہانے سے انکے ساتھ لگی ہوئی ناپاکی دھل جائے۔ مزید برآں جوتے کا تلوہ موٹا ہونا چاہئے تاکہ فرش کا پانی پاؤں کو نہ لگے۔ پتلے تلوے والی چپلیں پاؤں جلدی ناپاک کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تاہم اپنی تسلی کیلئے جوتوں کو وقتًا فوقتًا پاک کرتے رہنا ضروری ہے۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں قالین بچھا دیئے جاتے ہیں۔ ایسے قالین کے اوپر تولیے بچھا دینے چاہئیں تاکہ انہیں دوسرے تیسرے دن دھوتے رہیں۔
جن جگہوں پر بیت الخلاء میں نیچا کموڈ (پاؤں کے بل بیٹھنے والی سیٹ) لگا ہو وہاں پیشاب کرتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے کہ پاؤں کے اندرون ٹخنے والی سائڈ پر پیشاب کے قطرے کموڈ سے منعکس ہو کر نہ لگیں۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا یہود و نصارٰی کی عادت ہے۔ بعض غافل مسلمان بھی انکا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں ایک تو صالحین کے طریقے کی مخالفت ہے دوسرا کپڑوں کے ناپاک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان پیشاب کے قطروں کے بارے میں بے احتیاطی کرتےہیں۔ ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے دو آدمیوں کو قبر کا عذاب ہوتے دیکھا، ایک کو چغلخوری کی وجہ سے اور دوسرے کو پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے۔
اگر مرد کو پیشاپ کے قطرے گرنے کی بیماری ہو یا عورت کو سیلان الرحم کی بیماری ہو تو بار بار استنجاء کرنے سے تنگ نہیں ہونا چاہئے۔ جسم کی طہارت فرض ہے اور فرض کی ادائیگی میں تکلیف اٹھانا قرب الٰہی کا سبب ہوتا ہے۔
بعض لوگ بیت الخلاء میں ننگے پاؤں چلے جاتے ہیں اور گیلے پاؤں لیکر باہر فرش پر آ جاتے ہیں۔ ان بیچاروں کو پاکی اور ناپاکی کے فرق کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ پھر انہی پاؤں سے مصلےٰ پر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خود تو کیا پاک ہونا تھا الٹا مصلےٰ کو بھی ناپاک کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ وضو خانے کے گیلے جوتے استعمال کرتے ہیں۔ بہتر ہے ایسے جوتوں کو پاک کیا جائے ورنہ عمومًا ایسے جوتے ناپاک ہوتے ہیں۔
جب بیت الخلاء میں استنجاء سے یا غسل سے فراغت حاصل کریں تو جسم کے گیلے حصے کو تولئے وغیرہ سے اچھی طرح صاف کر لیں اگر گیلے ہاتھوں سے دروازے کا ہینڈل پکڑیں گے تو ہاتھ ناپاک ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ عمومًا دیکھا گیا ہے کہ گھر کی خادمائیں جب بیت الخلاء دھوتی ہیں تو گیلے ہاتھوں سے دروازے کے ہینڈل پکڑ لیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہینڈل ناپاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہینڈل کو خشک ہاتھ سے پکڑنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر گیلے ہاتھ سے پکڑ لیا جائےتو ہینڈل کی ناپاکی ہاتھ کو بھی ناپاک کر دے گی۔
ضروری نکتہ:
اگر کوئی چیز ناپاک ہے مگر خشک ہے تو اسے خشک ہاتھوں سے چھو لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ناپاکی منتقل نہیں ہوتی۔ البتہ اگر ناپاک چیز گیلی ہے یا ہاتھ گیلے ہیں یا دونوں گیلے ہیں تو ایسی صورتحال میں ناپاکی ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے۔ اول تو ہر وقت ہاتھ خشک رکھیں دوسر۱ اگر گیلا ہاتھ کسی چیز کو لگا ئیں یا گیلی چیز کو ہاتھ لگائیں تو خبردار رہیں ۔ ناپاکی منقتل ہونے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہو سکتے ہیں۔
طہارت لباس:
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ سے خطاب فرمایا
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ (مدثر: ۴)
(آپ اپنے کپڑے پاک رکھئے)
پس ایمان والوں کو چاہئے کہ اپنے کپڑوں کو پاک بھی رکھیں اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی و نجاست سے بھی صاف رکھیں۔
عمومًا کپڑے دھونے کا کام گھروں میں عورتیں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ کپڑوں کو تین مرتبہ دھوئیں۔ اچھی طرح پانی بہائیں اور ہر مرتبہ پانی خوب نچوڑیں۔ جو کپڑے دھل چکے ہوں انہیں علیحدہ صاف چیز میں رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے کپڑوں کو دھوتے وقت جو چھینٹے اڑتے ہیں وہ پاک کپڑوں کو ناپاک بنا دیں۔ جب دھلے ہوئے کپڑوں کو پاک کرنے لگیں تو اپنے مستعمل کپڑوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔
جن لوگوں کے گھروں میں واشنگ مشین ہوتی ہے انہیں چاہئے کہ ساتھ ڈرائر بھی لیا کریں۔ اس میں اگر ۳ مرتبہ کا تعین کر لیں تو مشین کپڑے کو خودبخود تین مرتبہ دھوتی اور نچوڑتی ہے۔ ایسے کپڑے بہت صاف اور پاک ہوتے ہیں۔ انسانی ہاتھوں سے اس قدر اچھی طرح نچوڑنا ممکن نہیں جس قدر مشین سے ممکن ہے۔
بعض لوگوں کو دھوبی سے کپڑے دھلوانے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر دھوبی نیک دین دار ہو اور پاکیزگی کا لحاظ رکھنے والا ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تو پاک ناپاک کپڑوں کو اس طرح اکٹھا کر دیتے ہیں کہ سب کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں۔ پاکیزہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں کپڑے دھونے کا انتظام رکھیں۔
بعض لوگ اپنے کپڑوں کو ڈرائی کلین کروا لیتے ہیں۔ اس طرح کپڑے صاف تو ہو جاتے ہیں مگر پاک نہیں ہوتے۔
بعض لوگ کپڑے استری کرتے وقت کپڑے پر پانی اسپرے کرتے ہیں۔ اگر پانی پاک نہیں تو کپڑے کو بھی ناپاک بنا دے گا۔
بعض لوگ وضو کرتے وقت یا عورتیں فرش وغیرہ دھوتے وقت اپنے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنے کا خیال نہیں کرتیں۔ اس سے کپڑے کی پاکیزگی و طہارت میں فرق آ جاتا ہے۔
بعض عورتیں پرفیوم لگانے کی شوقین ہوتی ہیں مگر الکحل والی پرفیوم لگا لیتی ہیں۔ الکحل حرام بھی ہے اور ناپاک بھی ہے۔ نمازی لوگ اول تو عطر استعمال کیا کریں اور اگر پرفیوم ہی استعمال کرنی ہو تو بغیر الکحل والی پرفیوم استعمال کریں۔
طہارت طعام:
ارشاد باری تعالٰی ہے
کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَات، وَاعْمَلُوْا صَالِحًا (مومنون: ۵۱)
(پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو انسان غیر پاکیزہ چیزیں کھائے گا وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جائے گا۔ غذا میں اول قدم پر اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ رزق حلال سے حاصل کی گئ ہو۔ دوسرے قدم پر وہ چیز شرعًا حلال ہو۔ مثلًا ایک آدمی حلال مال سے ایسی آئس کریم خریدتا ہے جس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ ہے تو اسکے کھانے سے دل میں ظلمت پیدا ہو گی۔ تیسرے قدم پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس غذا کو بناتے وقت طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھا گیا ہو۔ بعض جگہوں پر لوگ سموسے وغیرہ بناتے ہیں مگر ایک ہی پانی میں ساری پلیٹیں جمع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک ہی کپڑے سے انہیں صاف کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پلیٹ دیکھنے میں صاف تو ہو جاتی ہے مگر پاک نہیں ہوتی۔ اسی لئے ہمارےمشائخ بازار کی بنی ہوئی کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نماز ادا کرنے مسجد سے باہر نکلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ نمازیوں کے جوتے کچھ دائیں طرف پڑےہیں بقیہ بائیںطرف پڑے ہیں۔ جب آپ اسکی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کو کشف ہوا کہ دائیںطرف والے اصحاب الیمین ہیں اور بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جوتوں کو الگ الگ کس نے رکھا؟ بتایا گیا کہ آپ کے صاحبزادہ خواجہ محمد معصومؒ اور خواجہ محمد سعیدؒ کھیل رہے تھے۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں خط لکھ کر اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے بچوں کو اپنے پاس دہلی بلوایا اور انہیں بازار سے منگوا کر کھانا کھلایا۔ اس کھانے کی ظلمت کی وجہ سے صاحبزادگان کا کشف ختم ہو گیا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کا بازار کا پکا کھانا اتنی کثافت رکھتا تھا تو آج کل کے کھانوں کا کیا حال ہو گا۔ لوگ چکن تکہ، چکن کباب تو مزے لے لے کر کھاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ مرغ کو صحیح طریقہ سے حلال بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔ دہی بھلے اور چاٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے جس سے دل میں ظلمت آتی ہے۔ اگر بازار میں کسی ایسے آدمی کی دکان ہو یا ہوٹل ہو جو نمازی ہو ، طہارت اور حرام و حلال کا خیال رکھنے والا ہو تو ایسی جگہ کے پکے ہوئے کھانے کو کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر عام مشاہدہ یہی ہے کہ کام کرنے والے بے نمازی بھی ہوتے ہیں۔ طہارت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ بے نمازی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ عبدالمالک صدیقیؒ چکوال تشریف لائے۔ حضرت مرشد عالمؒ تبلیغی دورے پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت قاسمیؒ نے انکی مہمان نوازی کی۔ جب حضرت صدیقیؒ کے سامنے دستر خوان پر کھانا رکھا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار فرما دیا اور حضرت قاسمیؒ سے پوچھا کہ آپ کے گھر میں سؤر کہاں سے آیا؟ حضرت قاسمیؒ نے والدہ ماجدہ کو آ کر صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ فرمانےلگیں، مجھ سے غلطی سرزد ہوئی۔ میری ہمسائی مدت سے اس بات کی تمنا رکھتی تھی کہ حضرت صدیقیؒ کا کھانا پکائے۔ میں نے اسکے اصرار کی وجہ سے اسے کھانا پکانے کی اجازت دے دی۔ یہ کھانا ہمارے گھر کا نہیں ہمسائے کے گھر سے آیا ہوا ہے۔ والدہ ماجدہ نے اپنے گھر کا کھانا پکا کر دیا تو حضرت صدیقیؒ نے تناول فرمایا۔
کئ لوگ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ حضرت صدیقیؒ مشتبہ مال والا کھانا ہر گز نہیں کھاتے تھے۔ انہوں نے دعوت کےدوران مشتبہ مال سے بہترین کھانے پکا کر سامنے رکھے جب کہ حلال مال سے خشک روٹی اور دال پکوائی۔ حضرت صدیقیؒ نے بغیر کسی کے بتائے دال روٹی کھائی، مرغے چرغے کی طرف دھیان ہی نہ دیا۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ آم، سیب اور امرود وغیرہ کے پھل اسی لئے نہیں کھاتے تھے کہ پنجاب کے باغوں میں درختوں پر پھل آنے سے پہلے ان کا سودا کر لیا جاتا ہے۔ اس کو بیع باطل کہتے ہیں۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے پاس ایک شخص انگور لایا۔ آپ کھانے لگے تو فرمایا کہ ان انگوروں سے مردے کی بو آتی ہے۔ وہ شخص بڑا حیران ہوا۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ باغ کے مال نے قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے وہاں انگور کی بیلیں اگائی ہوئی تھیں۔
حضرت خواجہ عبداللہ دہلویؒ کو ایک شخص نے مشتبہ لقمہ کھلا دیا جس سے انکے لطائف بندہو گئے۔ انہوں نے حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ سے اپنے حالات کا تذکرہ کیا۔ حضرت مرزا صاحب نے انہیں مراقبہ میں روزانہ توجہات دینی شروع کیں تو چالیس دن کے بعد دل سےظلمت صاف ہوئی اور لطائف جاری ہوئے۔
آج کل کے بعض مالدار لوگوں نے کچن میں کام کرنے کیلئے غیر مسلم عورتوں کو رکھا ہوا ہوتا ہے۔ پھر شکوہ کرتے ہیں کہ بچے نافرمان بن گئے، گھر سے پریشانی ختم نہیں ہوتی۔ غیر مسلم کا پاکی اور ناپاکی سے کیا واسطہ۔
بعض لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے پیسے بینک میں سود پر جمع کروا دیتے ہیں پھر ہر مہینے سود کے پیسے لے کر گھر کے اخراجات چلاتےہیں۔ یہ سب شرعًا حرام ہے۔ ایسی غذا کھانے والا عبادات کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔
بیرون ملک کی بنی ہو ئی غذائی اشیاء خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں کسی حرام چیز مثلًا حرام جانور کی چربی (جیلئین) وغیرہ کا استعمال تو نہیں کیا گیا، ورنہ تو پیسے لگا کر گھر تباہ کرنے والا معاملہ ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں کے ایف سی ، میکڈونلڈ وغیرہ کے نام سے فاسٹ فوڈ کی کئ دکانیں کھل گئ ہیں۔ لوگ ان جگہوں پر جا کر کھانا اعلٰی معیار زندگی کی علامت سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ہمارے بیرون ملک کے ایک مدرسے میں ایک لڑکا قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کیلئے داخل ہوا۔ اسکے متعلق عام تاثر یہی تھا کہ وہ اپنے سکول میں اول انعام حاصل کرنے والا طالبعلم ہے۔ مدرسہ میں ایک سال پڑھنے کے بعد اس کا ایک پارہ بھی ختم نہ ہوا۔ نگران حضرات نے استاد کو سمجھایا کہ اس طالبعلم کی مقدار خواندگی بہت کم ہے۔ استاد نے کہا کہ میں نے محنت تو بہت کی ہے۔ خود بچے نے بھی خوب دل لگا کرپڑھا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ طالبعلم جب چند صفحے آگے پڑھ لیتا ہے تو پیچھے سے بھول جاتا ہے۔ ہم تو مغز کھپائی کر کے تنگ آ گئے ہیں۔ طالبعلم سے پوچھنے پر تصدیق ہوئی کہ استاد کے پڑھانے میں کوئی کمی نہیں تھی او رخود طالبعلم کی محنت میں بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ جب طالبعلم سے پوچھا گیا کہ آپ کیا چیزیں کھانے کے عادی ہو تو اس نے پانچ سات غیر ملکی ریسٹورانٹ کے نام گنوا دیئے۔ جہاں وہ اپنے والدین کے ہمراہ جا کر شام کا کھانا کھایا کرتا تھا۔ نگران حضرات نے اسکے والدین کو بلا کر سمجھایا کہ آپ کو اللہ تعالٰی نے رزق حلال دیا ہے مگر آپ کفار کے ہاتھوں سے تیار شدہ حرام اور مشتبہ غذا بچے کو کھلاتےہیں جسکی وجہ سے بچہ قرآن مجید کی برکات سے محروم ہو گیا ہے۔ آپ وعدہ کریں کہ آئندہ بچے کو گھر کی بنی ہوئی غذا کھلائیں گے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو بچے کو اپنے ہمراہ واپس لے جائیں اور تعلیم کاکوئی اور بندوبست کر لیں والدین بات کی حقیقت سمجھ گئے۔ انہوں نے طالبعلم کوگھر کی بنی ہوئی حلال او ر پاکیزہ غذا کھلانے کا معمول بنا لیا۔ آنے والے ایک ہی سال میں بچےنے پورا قرآن مجید مکمل پڑھ لیا۔
اس مثال سے یہ بات با آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ طعام کی پاکیزگی کا عبادات میں دلجمعی اور خشوع و خضوع کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
۲۔ طہارت حواس از گناہ
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ (الانعام: ۱۲۰)
(چھوڑ دو گناہ جو ظاہر میں کرتے ہو یا پوشیدہ کرتے ہو)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا
یٰاَ ایُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ (یونس: ۲۳)
(اے انسانو! تمہاری بغاوتیں تمہاری اپنی جانوں پر)
یہ بات روزمرہ کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو انسان اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا وہ نیک اعمال کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص غیر محرم عورت سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے عبادت میں لذت عطا فرماتے ہیں۔ پس جو شخص اپنی نگاہوں کو غیر محرم سے نہیں بچائے گا وہ عبادت کی لذت سے محروم ہو جائے گا۔ غیر محرم پر ہوس بھری نگاہیں ڈالنے والا گناہ آج کل عام ہو گیا ہے۔ حدیث پاک میں وارد ہے
اَلنَّاظِرُ وَ الْمَنْظُوْ رُ کِلاَ ھُمَا فِیْ النَّارِ
(غیر محرم کا جسم دیکھنے والا مرد اور غیر محرم کو جسم دکھانے والی عورت دونوں جہنم میں جائیں گے)
ایک روایت میں آیا ہے کہ جو عورت اس لئے زیب و زینت اختیار کرے کہ اسے غیر محرم دیکھے۔اس عورت کی طرف اللہ تعالٰی محبت کی نظر نہیں ڈالتے۔
آج کل ٹی وی، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے عریانی و فحاشی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ٹی وی درحقیقت ایمان کیلئے ٹی بی بن چکا ہے۔ بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں اور وہ مختلف جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھتے ہیں۔یوں سمجھ لینا چاہئے کہ جس گھر میں ٹی وی موجود ہے اس گھر میں شیطان کی ایک بریگیڈ فوج موجود ہے۔
بعض بے پردہ پھرنے والی عورتیں یہ سوال کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں چہرے کا پردہ نہیں ہے؟ ان بھولی عورتوں سے کوئی پوچھے کہ جب حجاب سے متعلقہ آیات اتریں تو اس وقت امہات المومنین کو کیا چھپانےکا حکم ہوا تھا۔ ٹھنڈے دل و دماغ سےسوچ کر بتائیں کہ چہرہ چھپانے کا حکم ہوا یا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ وہ ننگے سر یا ننگے سینہ پھرتی تھیں اور انہیں سر اور سینہ چھپانے کا حکم ہوا۔ صاف ظاہر ہےکہ انہیں چہرہ چھپانے کاحکم ہوا۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ
ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْن (الاحزاب: ۵۹)
(اس میں قریب ہے کہ پہچانی جائیں تو نہ ستائی جائیں)
اگر کسی کا چہرہ کھلا ہو تو اس کو پہچاننے میں ایک منٹ نہیں لگتا۔
بعض عورتیں پردے سے متعلق بحث و مباحثہ کرتےہوئے کہتی ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ ہماری نگاہیں پاک ہوتی ہیں۔ انہیں پوچھنا چاہئے کہ آپ کی نگالیں پاک سہی اگر آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہیں پاک نہ ہوئیں تو آپ مصیبت میں پڑیں گی یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ پردہ آنکھ کا ہوتا ہے تو عقل کا پردہ بھی تو ہوتا ہے۔ عام طور پر جب عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو آنکھ کا پردہ کافی نظر آتا ہے، ایسی عورتیں چہرے کا پردہ کرنے سے گھبراتی ہیں۔
ہمارے مشائخ نظر کی اس قدر حفاظت کرتے تھے کہ اگر نماز کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے نظر غیر محرم پر پڑ جاتی تو دوبارہ وضو کی تجدید کرتے اور پھر نماز ادا کرتے تھے۔
زبان کو جھوٹ، غیبت، چخلخوری او ربہتان وغیرہ سے بچانا چاہئے۔ اللہ تعالٰی کے ہاں مومن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بڑی وقعت ہے۔ انسان کلمہ شہادت کےچند الفاظ بولتا ہے تو مومن بن جاتا ہے، نکاح کےوقت ایجاب و قبول کے چند الفاظ بولتا ہے تو پرائی لڑکی اپنوں سے بھی زیادہ اپنی بن جاتی ہے۔ بعض لوگ وقتی شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں اور آخرت کی شرمندگی سے نہیں ڈرتے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
اپنے کانوں کو غیبت اور موسیقی وغیرہ سننے سے بچانا چاہئے۔ بعض لوگوں کو فلمی گانے سننے کاشوق ہوتا ہے۔ وہ لوگ بعض اوقات نماز میں کھڑے ہوتے ہیں اور انکے کانوں میں شہنائیاں بج رہی ہوتی ہیں۔
آج کل قوالی کے نام سے موسیقی کی دھنوں پر عشقیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں جو گانے کواسلامی رنگ دینے کی ایک مکروہ کوشش ہے۔ یہ سو فیصد حرام ہے۔ نبی علیہ السلام نےفرمایا کہ موسیقی کا سننا کان کا زنا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ موسیقی سننے والے کے دل میں زنا کی خوہش ایسے پیدا ہوتی ہے جیسے بارش کے برسنے سے زمین میں کھیتی پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مزامیر (آلات موسیقی) کو توڑنے کیلئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔
بعض نوجوان ٹیلیفون پر غیر محرم لڑکیوں سے گپیں لگانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ زنا کا دروازہ کھلنے کی کنجی ہے۔ پہلے انسان گفتگو کرتا ہے اور پھر ایکدوسے کو دیکھنے کیلئے دل بیتاب ہوتا ہے۔ اسکی دلیل قرآن مجید سے ملتی ہے۔ حضرت موسٰیؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہوا۔تمام انبیاء میں سے صرف حضرت موسٰیٰ نے تمنا ظاہر کی
رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْکَ (الاعراف: ۱۴۳)
(میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں)
شرمگاہ کو گناہ سے بچانا عبادات کی حضوری نصیب ہونے کیلئے ضروری شرط ہے حدیث پاک میں ہے کہ انسان جتنی دیر زنا کرتا ہے۔ اتنی دیر ایمان اسکے جسم سے نکل جاتا ہے۔ اکثر چند لمحوں کی غلطی کئ کئ سالوں کی عبادات پر پانی پھیر دیتی ہے۔
۳۔ طہارت دماغ از تخیلات
اپنے دماغ کو شیطانی، نفسانی، اور شہوانی خیالات سے بچانا ضروری ہے۔جب تک سوچ پاک نہ ہو اس وقت تک دل پاک نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں کہ فکر کی گندگی ذکر سے دور ہوتی ہے۔ برے خیالات کا دماغ میں آنا برا نہیں ہے انکو خود دماغ میں لانا اور جمانا برا ہے۔ جب بھی کوئی برا خیال دماغ میں آئے تو اسے جھٹک دینا چاہئے اور لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِا للہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ پڑھنا چاہئے۔ جو شخص یہ چاہے کہ مجھے نماز میں یکسوئی نصیب ہو اسے چاہئے کہ نماز کے علاوہ اوقات میں یکسوئی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
۴۔ طہارت قلب از مذمومات و محمودات
قلب کو مذمومات سے پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں غیر شرعی آرزوئیں اور تمنائیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ایسی آرزوؤں کا بدلنا ضروری ہوتا ہے۔
تیری    دعا     سے    قضا     تو      بدل     نہیں    سکتی
مگر   ہے   اس   سے   یہ   ممکن   کہ   تو   بدل    جائے
تر ی     دعا   ہے    کہ     ہو     تیر ی     آر ز و      پو ر ی
مر  ی   د عا ہے     کہ   تیری    آ ر ز و    بد  ل      جا ئے
محمودات سے قلب کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اچھائیوں اور نیکیوں پر بھی انسان کی نظر نہ ہو۔ یعنی اپنی اچھی باتوں کا دل میں مان نہ ہو کہ میں بڑا نیک ہوں، یہ خود پسندی بھی بندے کے گرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ مشائخ کرام نے فرمایا ہے کہ متواضع گنہگار متکبر عابد سے افضل ہوتا ہے۔ اخلاقی برائیوں میں سے سب سے آخر پر عجب انسان کے دل سے نکلتا ہے۔ اس لئے حدیث پاک میں انسان کو ہلاک کر دینے والی باتوں کا تذکرہ ہوا تو اس میں سے ایک چیز کی نشاندہی کی گئ۔ فرمایا و اعجاب المرء بنفسہ کا آدمی کا اپنے نفس کو اچھا سمجھنا۔ تو یہ عجب بھی انسانوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔
طہارت دل از مذمومات و محمودات کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو دل میں برائیوں کے منصوبے ہوں اور نہ ہی بندہ اپنی نیکیوں پر فریفتہ ہو۔ طہارت کے یہ چار مراتب ہیں، اگر نماز کو بنانے کیلئے یہ چاروں مراتب حاصل کر لیں گے تو اللہ تعالٰی مقام احسان والی نماز عطا فرما دیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں طہارت کے یہ سب مقامات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔
نماز کے اسرار و رموز
حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد

No comments:

Post a Comment