Friday 16 October 2015

‏تقویٰ کی نشانیاں

پاکیزگی اور طہارت ایک ایسی صفت ہے جو ہر مہذب اور شائستہ قوم کے ہاں پسندیدہ خصائل میں شمار کی جاتی ہے اور اس کے برعکس ناپاکی، گندگی اور نجاست وخباثت ایسی بری خصلتیں ہیں جنہیں ہر قوم وملت کے ہاں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ طہارت اور پاکیزگی کاایک تعلق انسان کے ظاہر کے ساتھ ہے اور ایک تعلق انسان کے باطن کے ساتھ ہے۔ یہ دو ایسے تعلق ہیں جو دوقوموں کو الگ الگ کردیتے ہیں: وہ قوم جو نورِوحی سے محروم ہو،اس کے ہاں ظاہری صفائی کااہتمام تو ملتا ہے لیکن باطنی پاکیزگی کا اس کے ہاں کوئی تصور نہیں پایاجاتا،جب کہ وہ قوم جو نورِالٰہی کی روشن کرنوں سے مستفیدہو اس کے ہاں جس طرح ظاہر ی پاکیزگی اہم ہے، اس سے کہیں بڑھ کران کے ہاں باطنی پاکیزگی کی اہمیت ہے۔انسان ظاہری نجاست سے بچنے کااہتمام کرے تو یہ طہارت ہے اور اگر باطنی نجاستوں اور خباثتوں سے خود کو بچائے تو یہ قویٰ ہے۔ 
‏تقویٰ کی نشانی یہ ہے کہ تم لوگ اپنے اوپر ۱۰ چیزوں کو لازمی قرار دے لو۔
‏۱ } سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ زبان کو غیبت سے پاک و صاف رکھو۔
ارشادِ باری ہے: ولا يغتب بعضكم بعضا (49:12)
تم لوگ ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو
‏۲ } دوسری بات یہ ہے کہ بدگمانی سے ہمیشہ بچتے رہو۔
اجتنبوا كثيرا من الظن (49:12)
زیادہ گمان کرنے سے بچتے رہو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں
‏فرمانِ نبویؐ ہے: تم لوگ بدگمانی سے بہت زیادہ بچتے رہو کہ یہ بہت زیادہ جھوٹی بات ہے۔
‏۳ } یہ کہ تم لوگ مذاق کرنے اور دل لگی کرنے سے بچتے رہو،
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: لا يسخر قوم من قوم عسى أن يكونوا خيرا منهم (49:11)
‏کوئی جماعت دوسری جماعت سے مذاق نہ کرے، کیا عجب ہے کہ وہ لوگ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔
(سورۃ الحجرات49 آیۃ نمبر 11)
4 )‏چوتھی یہ کہ نگاہ کو حرام جگہ اور موقع سے بچاوَ۔
لہذٰا ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم (24:30)
‏آپﷺ مسلمان مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ (24:30)
یعنی بدنظری سے بچیں
‏۵ } پانچویں یہ کہ زبان میں صداقت ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إذا قلتم فاعدلوا (6:152)
اور جب تم کوئی بات کہو تو انصاف کی کہو (حق کی کہو)
6 }‏چھٹی یہ کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا استحضار (پوری توجہ) رکھے، تاکہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔۔۔
‏بل الله يمن عليكم أن هداكم للإيمان إن كنتم صادقين (49:17)
بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے ایمان کی جانب تمہاری رہنمائی فرمائی ہے۔
7 }‏ساتویں یہ کہ اپنا مال صحیح مصرف پر لگاوَ، ناجائز جگہ پر نہ لگاوَ۔
والذين إذا أنفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا وكان بين ذلك قواما(25:67)
‏اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں (*) اور ان کا خرچ کرنا اعتدال پر ہوتا ہے۔ 25:67
‏*یعنی معصیت (نافرمانی، حکم عدولی) میں خرچ نہیں کرتے اور اطاعت میں لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔
‏۸ }آٹھویں یہ کہ اپنے لیے تکبر اور لڑائی کو پسند نہ کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرماتے ہیں:
‏تلك الدار الآخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض ولا فسادا (28:83)
‏یہ عالم آخرت ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں (28:83)
‏۹ } نویں یہ کہ پنچ وقت نماز، رکوع وسجود کی پوری رعایت کے ساتھ بروقت ادا کرو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‏على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين (2:238)
حفاظت کرو سب نمازوں کی اور درمیان والی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے سامنے عاجزی کرتےہوئے
‏۱۰ } دسویں چیز یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سُنت اور صحابہ کرامؓ کی جماعت کے طریقہ پر مضبوطی سے گامزن رہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‏وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصاكم به لعلكم تتقون (6:153)
‏اور یہ کہہ دیجئے کہ یہ دین میرا سیدھا راستہ ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ تم کو اس کی راہ سے جدا کردیں گی۔
‏اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم احتیاط رکھو۔
حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”بعض علمائے ربانی فرماتے ہیں کہ نجات کامدار دواجزا پر ہے: اوامرکابجالانا اور نواہی سے رُک جانا۔اور ان دونوں اجزا میں سے آخری جز زیادہ عظمت والا ہے، جس کو ورع وتقویٰ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کاذکر عبادت واجتہاد کے ساتھ اور دوسرے شخص کاذکرورع کے ساتھ کیاگیاتو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ ورع یعنی پرہیزگاری کے برابر کوئی چیز نہیں اور نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ملاک دینکم الورع ․(تمہارے دین کامقصود پرہیز گاری ہے۔) اور فرشتوں پر انسان کی فضیلت اسی جز سے ثابت ہے اور قرب کے درجوں پرترقی بھی اسی جز سے ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ فرشتے جزوِ اول میں شریک ہیں اور ترقی ان میں مفقود ہے۔ پس ورع وتقویٰ کے جز کامد نظر رکھنا اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد اور دین کی اشد ضروریات میں سے ہے۔“ (مکتوب76، جلداول)

درج بالاعبارت سے تقوی کے بارے میں درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:
انسان کی نجات کامداردواجزا پر ہے:اللہ تعالیٰ کے احکام کو پوراکرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع کردہ باتوں سے رک جانا۔

اللہ تعالیٰ کی منع کردہ باتوں سے رک جانا زیادہ عظمت اور اہمیت رکھتا ہے۔

اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کے سبب انسان کو فرشتوں پربرتری حاصل ہے، کیوں کہ اوامر کو پوراکرنے میں تو فرشتے بھی انسان کے شریک کار ہیں۔

قرب الٰہی کے اعلیٰ درجات کاملنا اس تقویٰ کی بدولت ہے۔

تقویٰ کو مدّ نظر رکھنا اسلام کے اعلی مقاصد میں سے ہے۔

قرآن کریم نے تقویٰ کے موضوع کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، تقویٰ کی حقیقت اور ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس تقوی پرملنے والے عظیم انعامات بھی کافی تفصیل کے ساتھ گنوائے ہیں۔ قبل اس کے کہ ہم قارئین کی خدمت میں ان ثمرات اور فوائد کو بیان کریں، جو تقوی اختیار کرنے پرانسان کوملتے ہیں اور ان انعامات کو بیان بھی قرآن نے کیا ہے، یہ جانتے ہیں کہ تقویٰ حاصل کیسے ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کن چیزوں سے بچنا لازمی اور ضروری ہے؟ کیوں کہ تقویٰ کا لغوی معنیٰ ”بچنا“ ہے اور اس ضمن میں علمائے کرام نے مختلف اقوال نقل فرمائے، جن کاخلاصہ یوں ہے:

تقویٰ ،یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا۔

تقویٰ ،یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا۔

تقویٰ ،یعنی اللہ تعالی کے عذاب سے بچنا۔

حصول تقویٰ کے دس اسباب
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے حصول تقویٰ کے لیے دس چیزوں کو لازمی قراردیا ہے، جس شخص کو وہ دس باتیں حاصل ہوجائیں تو اسے تقویٰ حاصل ہوگیا اور جو ان سے محروم ہے تو وہ تقویٰ کی عظیم نعمت سے بھی محروم ہے۔ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
”جب تک انسان اِن دس چیزوں کو اپنے اوپر فرض نہ کرلے تب تک کامل ورع(تقویٰ) حاصل نہیں ہوتا:زبان کوغیبت سے بچائے۔ بدظنی سے بچے۔ مسخرہ پن یعنی ہنسی ٹھٹھے سے پرہیز کرے۔ حرام سے آنکھ بند رکھے۔ سچ بولے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی کااحسان جانے تاکہ اس کانفس مغرور نہ ہو۔ اپنا مال راہِ حق میں خرچ کرے اور راہ باطل میں خرچ کرنے سے بچے۔ اپنے نفس کے لئے بلندی اور بڑائی طلب نہ کرے۔ نمازوں کی محافظت کرے۔ اہل سنت وجماعت (عقائد) پراستقامت اختیار کرے“۔ (مکتوب66، جلددوم)

تقویٰ اور محبت الٰہی
قرآن مجید نے تقوی کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ یہ بیان کیا ہے کہ اس سے انسان کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿بَلَی مَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْن﴾․ (آل عمران:76)
ہاں! جوشخص (اللہ تعالی کے ساتھ کیے ہوئے) اپنے اقرار کو پورا کرے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرے توبے شک اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

دنیاوآخرت میں رحمت کاسبب
انسان قدم قدم پر اپنے رب کی رحمت کامحتاج ہے اور وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جنہیں اپنے رب کی رحمت سے کچھ حصہ نصیب ہو جائے ۔ البتہ ایک بات یہاں یاد رکھی جائے کہ ایک رحمت تووہ ہے جو دنیا میں ہر انسان کو حاصل ہے، خواہ کافر ہو یامسلمان اور اسی رحمت کاثمرہ ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو دنیا میں دنیوی نعمتیں ملتی ہیں، اسی طرح کافروں کو بھی دنیوی نعمتیں ملتی رہتی ہیں ،مگر آخرت میں انعامات اور رحمت صرف اہل ایمان کو ملے گی اور کافر اس دن سوائے افسوس کچھ نہ کر پائیں گے۔ یہ دنیوی اور اخروی رحمت جن خوش نصیبوں کو ملتی ہے ان کی ایک صفت تقویٰ ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے:

﴿وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْء ٍ فَسَأَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالَّذِیْنَ ہُم بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُون﴾․(الاعراف:156)
ترجمہ:اورمیری رحمت ہرچیز پر چھائی ہوئی ہے۔ چناں چہ میں یہ رحمت(مکمل طورپر) اُن لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقوی اختیار کریں اور زکوة اداکریں اور جو ہماری آیتوں پرایمان رکھیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو میری رحمت سے سب کو رزق وغیرہ مل رہا ہے، لیکن جن لوگوں کودنیا اور آخرت دونوں میں میری رحمت حاصل ہوگی وہ صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات کے حامل ہوں اور جنہیں مال کی محبت زکوة جیسے فریضے کی ادائیگی سے نہ روکے۔“ (آسان ترجمہ قرآن)

معیت اور نصرت الٰہی کاسبب
تقوی اختیار کرنے سے ایک اہم فائدہ یہ ملتا ہے کہ اہل ایمان کو شیطان، نفس اور دیگر دشمن، مثلاکفارومنافقین کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی معیت ، نصرت اور تائید حاصل ہوجاتی ہے، جس سے وہ ان دشمنوں کی کارستانیوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللّہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ وَّالَّذِیْنَ ہُم مُّحْسِنُون﴾․ (النحل:128)
ترجمہ: یقین رکھو کہ اللہ ان کاساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں۔

خطرات سے حفاظت وامان کاسبب
دنیامیں کتنے شریروفتنہ پرور انسان اور جنات ہیں جو اہل ایمان کے جان ومال اور ایمان واعمال صالحہ کو تباہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس صورت میں ضرورت ہے کہ کوئی ایسا محفوظ قلعہ ہو جہاں انسان کو ان خطرات سے پناہ ملے اور آخرت میں ناکامی سے حفاظت ہوجائے تو ایسا محفوظ قلعہ تقویٰ ہے۔ قرآن کریم بتلاتا ہے:﴿وَیُنَجِّیْ اللَّہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوا بِمَفَازَتِہِمْ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوء ُ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ ﴾․ (الزمر:61)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، اللہ ان کو نجات دے کر ان کی مراد کو پہنچا دے گا، انہیں کوئی تکلیف چھوئے گی بھی نہیں اور نہ انہیں کسی بات کا غم ہوگا۔

نوربصیرت اور تقویٰ
مومن کو اللہ تعالی ایسا نور بصیرت عطا فرماتے ہیں جس سے وہ اپنے نفع ونقصان کو اچھی طرح پہچان لیتا ہے اور پھر اسے نفع بخش امور کی توفیق مرحمت کر دی جاتی ہے اوراس کے دل میں نقصان دہ امور کی نفرت ڈال دی جاتی ہے۔ یہ نورِ بصیرت خاص اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ خاص اہل ایمان وہ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ بیان ملاحظہ کریں:
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پرایمان لاوٴ، تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دوحصے عطا فرمائے اور تمہارے لیے وہ نور پیدا کرے جس کے ذریعے تم چل سکو اور تمہاری بخشش فرمادے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔ (الحدید:28)

اس آیت میں جس نور کے ملنے کاتذکرہ ہے اس سے دو قسم کانور مراد ہے:
دنیا میں نور،یعنی ایمان اور اعمال صالحہ اور بصیرت قرآنی کانور، جو انسان کو حق پر قائم رکھتا ہے، خواہ ایسا شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، یہ نور اس کے ساتھ رہتا ہے۔

آخرت میں نور، یعنی جب انسان پل صراط سے گزرنے لگے گا تو یہ نور اس کے لیے روشنی پیدا کرے گاتاکہ اس کے لیے چلنا آسان ہوجائے۔

تقویٰ سے گناہوں کی خطرناکی کا ادراک
انسان کے لیے گناہ اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر گناہ کی ہول ناکی اور نقصانات سے غفلت خطرناک ہے، کیوں کہ اس طرح انسان گناہوں میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور اس کے دل میں ان کے نقصانات کاوسوسہ تک نہیں آتا اور یوں وہ توبہ اور استغفار سے یکسر غافل ہوجاتا ہے اور اس طرح ایسا انسان نافرمانیوں کا بوجھ لیے اس دنیا سے چلاجاتا ہے اورتوبہ کے بغیر مر جاتا ہے اور یہ کسی انسان کے لیے بڑی سخت بدبختی ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے محروم رہ کر اس دنیا سے گیا ہو۔ ہاں! جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں وہ بے شک معصوم تو نہیں بن جاتے لیکن اس تقوے کی برکت سے انہیں گناہوں کی خطرناکی کا ادراک ہوجاتا ہے اور یہ احساس ہوتے ہی وہ فوراً توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، جس سے اللہ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی ناراضی سے بچ جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے یوں سمجھایا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُون﴾․ (الاعراف:201)
ترجمہ: جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو (اللہ کو) یاد کرلیتے ہیں، چنان چہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
”گناہ کی خواہش نفس اور شیطان کے اثرات سے بڑے بڑے پرہیز گاروں کو بھی ہوتی ہے، لیکن وہ اس کا علاج اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کاذکر کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کادھیان کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، یعنی ان کو گناہ کی حقیقت نظر آجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ گناہ سے بچ جاتے ہیں اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔“ (آسان ترجمہ قرآن)

گناہوں کی بخشش اور اجرعظیم کاحصول
سورة الطلاق میں اللہ تعالی ارشاد ہے: ﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہِ وَیُعْظِمْ لَہُ أَجْراً﴾․ (الطلاق:5)
ترجمہ: اور جوکوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا اور اس کوزبردست ثواب دے گا۔

رزق اور دیگر بھلائیوں میں وسعت کاسبب
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ 
ترجمہ:اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔(الاعراف:96)

مشکلات سے نجات اور تمام خزانوں کی کنجی 
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِب﴾ ․(سورة الطلاق:2)
ترجمہ: اور جوکوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گااور ایسی جگہ سے روزی دے گا جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یعنی اللہ سے ڈر کر اس کے احکام کی بہر حال تعمیل کرو، خواہ کتنی ہی مشکلات وشدائدکا سامنا کرنا پڑے، حق تعالیٰ تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور سختیوں میں بھی گزارہ کا سامان کردے گا۔ اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کام یابیوں کا ذریعہ ہے۔ اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بے قیاس وگمان روزی ملتی ہے ،گناہ معاف ہوتے ہیں، جنت ہاتھ آتی ہے، اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون واطمینان نصیب ہوتا ہے، جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہوجاتی ہیں۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو اِن کو کافی ہوجائے۔“ (تفسیر عثمانی)

اچھے انجام کاسبب
دنیا اور آخرت میں انسان کو اچھا نتیجہ اور اچھابدلہ مل جائے تو اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ قرآن بتلاتا ہے کہ یہ نعمت بھی تقویٰ سے ملتی ہے:﴿فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْن﴾․ (ھود:49)
ترجمہ: صبر سے کام لو اور آخری انجام متقیوں ہی کے حق میں ہوگا۔

اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ راہ حق میں آنے والی تکالیف، شدائد ومصائب اور مخالفتوں سے گھبرانا نہ چاہیے کہ یہ سب آزمائش کا ذریعہ ہیں، جو لوگ ان آزمائشوں میں پورا اترتے ہیں تو آخر کار فیصلہ انہی کی کامیابی کا ہوتا ہے اور انجام کار وہی سرخ رو ٹھہرتے ہیں۔ 

قرآن سے استفادے کا سبب تقویٰ ہے
قرآن کلام الہی ہے، اس میں نور، ہدایت، شفا، علم، رشد وارشاداور حقائق ومعارف کاایک انمٹ جہاں ہے، مگر یہ سب فوائد اسی کو حاصل ہوتے ہیں جو اپنے دل میں اللہ کا ڈر اور تقوی پیدا کرلے۔ قرآن نے صاف بیان کیا ہے:﴿ہَذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْن﴾․ (آل عمران:138)
ترجمہ: یہ(قرآن) تمام لوگوں کے لیے واضح اعلان ہے اور پرہیز گاروں کے لیے ہدایت اور نصیحت!

انبیائے کرام اور ان کے سچے پیروکاروں کی صفت
تقوی ایک ایساوصف ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی تصدیق کرنے والے سچے پیروکاروں کی صفت ہے، چناں چہ جو مسلمان اس صفت کو اپناتا ہے وہ ان کے ساتھ شمار ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون﴾․ (الزمر:33)
ترجمہ: اور جولے کرآیا سچی بات اور سچ ماناجس نے اُس کو، وہی لوگ متقی ہیں۔ 

اعمال کی اصلاح اور مغفرت کاسبب
قرآن کریم نے اہل ایمان کوخطاب کرتے ہوئے کہا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہاکرو، اللہ تمہارے فائدے کے لیے تمہارے کام سنوار دے گا اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کردے گا۔ (الاحزاب:70،71)

متقین کاٹھکانہ جنت ہے
قرآن کریم نے تقویٰ کا ایک فائدہ یہ بیان کیا ہے: ﴿إِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِندَ رَبِّہِمْ جَنَّاتِ النَّعِیْم﴾․ (القلم:34)
ترجمہ: بے شک متقیوں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں بھرے باغات ہیں۔ 

ممکن ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں یہ خیال گزرے کہ اس فتنہ پرور ماحول میں ایسا تقوی اختیار کرنا کیسے ممکن ہے؟ جہاں ہرچہارجانب گناہوں کے اسباب ووسائل انسان کے دین وایمان اور اعمال صالحہ کو گھائل کیے جارہے ہیں؟ توآخر میں اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے وہ عبارت پیش کرتاہوں جس میں اس وسوسے کا بہترین جواب حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ اپنے مکتوبات (مکتوب 66،دفتردوم) میں یوں بیان فرمایا ہے:

”اے میرے مخدوم ومکرم! اور اے شفقت ومکرمت کی نشانیوں والے! اگرتمام گناہوں سے توبہ میسر ہوجائے اور تمام محرمات اور مشتبہات سے ورع وتقوی حاصل ہوجائے تو بڑی اعلیٰ دولت اور نعمت ہے، ورنہ بعض گناہوں سے توبہ کرنا اور بعض محرمات سے بچنا بھی غنیمت ہے۔ شاید ان بعض کی برکات وانوار بعض دوسروں میں بھی اثر کرجائیں اور تمام گناہوں سے توبہ وورع کی توفیق نصیب ہوجائے۔ مالایدرک کلہ لایترک کلہ (جو چیز ساری حاصل نہ ہواس کو بالکل ہی ترک نہ کرنا چاہیے)۔ 

اللہم وفقنا لمرضاتک، وثبتنا علی دینک وعلی طاعتک، بصدقة سیدالمرسلین، وقائد الغرالمحجلین، علیہ وعلیہم وعلی آل کل من الصلوات افضلھا، و من التسلیمات اکملھا“.

No comments:

Post a Comment