حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3ص178،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنےہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میںرفع یدین نہ کرو)۔
مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔
ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:
اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔
جواب =
ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:
انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)
کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔
اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔
جواب =
الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)
ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً
1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)
2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)
3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)
4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)
5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(
7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)
9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)
10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)
12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)
13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی (نور الصباح: ج1 ص76)
د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2، ص 321"
تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:
”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے، جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)
اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔
جواب =
یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
· اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}
· امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252 ج 2}
· امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ نے یوں باب باندھا ہے: باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ ص 486 ج 2}
· نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}
· امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}
آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:
امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع
· پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں
· دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت: اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔
· تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا
پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔
اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔
جواب =
جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:
· پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔
· پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
· پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔
· پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔
· پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ
ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا، ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز رکرے
پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔
ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم یہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف ہو میں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدینا جب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔ ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔
ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے " فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر کا رفع یدین منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔
جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیم حدیث شریف میں آتا ہےتحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم {ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم {مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ، پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین کو رفع افتتاح الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی الصلوٰۃ کا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:
· امام بخاری ج 1 ص 99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔
· بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
· بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
· بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃفی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔
· مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔
· مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔
· مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔
· مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا
· مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
· مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
تلک عشرۃ کاملہ
ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔
جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔
باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ، بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔
اعتراض نمبر 5 = یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عمل خود نبی پاک نے پہلے کیا اور بعد میں اسی اپنے کیے ہوئے عمل کو مست گھوڑوں کی دمیں فرمایا۔ یہ ممکن نہیں۔ اس سے تو نبی علیہ صلوٰۃ والسلام کی تنقیص اور توہین ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ
جواب = اشارہ عند السلام کو تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ آخر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایسا کیا یا کرتے دیکھا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم سے کیا یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اور پہلے اپ دیکھتے رہے بعد میں فرمایا کانھا اذناب خیل ۔ گزارش یہ ہے کہ سلام کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس کو دیکھ کر شروع کیا تھا؟ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل یا حکم کے بغیر ایسا کیونکر کر رہے تھے؟ یقیناً اس پر آپ سلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عمل تھا یا حکم یا تقریر۔ ان تینوں صورتوں میں وہی اعتراض جو یہ غیر مقلدین کرتے ہیں وہ ان ان پر بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ فعل جو کیا ہے یا حکم دیا ہے یا کرنے پر خاموش رہ چکے ہیں، بعد میں اسے گھوڑوں کی دمیں کس طرح فرما سکتے ہیں؟ کیا جب یہ فعل دموں والا بوقت سلام ہوتا رہا، اس وقت آپ اس پر خوش تھے، اس لیے خاموش رہے؟
نیز حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دیگر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود ایک کام کیا اور پھر بعد میں اس کے منسوخ ہونے پر اس کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے۔
· نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اقعاء کرنا ثابت ہے [ترمذی ج 1، ص 38 ۔ ابوداوْد ج 1، ص 123] لیکن پھر خود اسے عقبۃ الشیطان کہا [مسلم ج 1، ص 195] = [اقعاء کا معنی دونوں پیروں کو کھڑا کر کے ان کے اوپر بیٹھ جانا ہے۔ دیکھیں اپنے کیے ہوئے فعل کو عقبۃ الشیطان کہا جا رہا ہے]
اعتراض نمبر 6 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔
جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:
· امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}
اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ " الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث " یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ ایسی غیر عالمانہ باتیں بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اعتراض نمبر 6 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔
جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔
· ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےبغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔
· دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
· تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تواللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبر انتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔
:دلیل نمبر1
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ
(سورۃ مومنون:1،2)
ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
تفسیر: قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّ لَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ…الخ
(تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما :ص212)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’خشوع کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جونماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُبْنُ شُعَیْبِ النَّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔
(سنن النسائی ج1ص158،سنن ابی دائود ج1ص116 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’کیامیں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے پہلی مرتبہ رفع یدین کیا(یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر(پوری نمازمیں)رفع یدین نہیں کیا۔‘‘
:دلیل نمبر3
اَ لْاِمَامُ الْحَافِظُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ یَقُوْلُ؛کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ مَنْکَبَیْہِ لَایَعُوْدُ بِرَفْعِھِمَا حَتّٰی یُسَلِّمَ مِنْ صَلَا تِہٖ۔
(مسند ابی حنیفہ بروا یۃ ابی نعیم رحمہ اللہ ص344،سنن ابی دائود؛ ج 1 ص 116 )
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے،(اس کے بعد پوری نماز میں) سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِالْحُمَیْدِیُّ ثَنَا الزُّھْرِیُّ قَالَ اَخْبَرَنِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) رَائیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَااَرَادَاَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَ مَا یَرْفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرَّکُوْعِ فَلَا یَرْفَعُ وَلَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ۔
(مسند حمیدی ج2ص277،مسند ابی عوانۃ ج 1 ص 334 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاجب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے ۔رکوع کی طرف جاتے ہوئے، رکوع سے سراٹھاتے ہوئے اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر5
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍعَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَالَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیٍل شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3 ص178 ،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کوشریرگھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایاہے تم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘(نماز میں رفع یدین نہ کرو)
:دلیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّ اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا۔
(صحیح بخاری؛ ج1ص114 ‘ صحیح ابن خزیمہ؛ ج1ص298)
ترجمہ : محمد بن عمر وبن عطاء رحمہ اللہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں :’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زکاذکر کیا ( کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نمازپڑھتے تھے؟) توحضرت ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایااور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کومضبوطی سے پکڑاپھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا توسیدھے کھڑے ہوگئے حتی کہ ہرہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اورجب سجدہ کیاتو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اورنہ ہی ملایا ۔‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجَعْفَرٍ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی قَالَ ثَنَا ابْنُ اَبِیْ لَیْلٰی عَنْ نَافِعٍ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ… وَعَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ؛ تُرْفَعُ الْاَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ: فِی افْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ وَ عِنْدَ الْبَیْتِ وَعَلَی الصَّفَائِ وَالْمَرْوَۃِ وَبِعَرْفَاتٍ وَ بِالْمُزْدَلْفَۃِ وَعِنْدَ الْجَمْرَ تَیْنِ۔
(سنن طحاوی ج1ص416 )
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات جگہوں پر ہاتھوں کو اٹھایا جاتاہے
٭…1 شروع نماز میں ٭…2 بیت اللہ کے پاس ٭…3 صفاء پر ٭…4 مروہ پر ٭…5 عرفات میں ٭…6 مزدلفہ میں ٭…7 جمرات کے پاس۔
:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرِ الاِسْمَاعِیْلِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَبُوْمُحَمَّدٍ صَاحِبُ الْبُخَارِیُّ صَدُوْقٌ ثَبْتٌ قَالَ حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرِ السَّھْمِیُّ عَنْ حَمَّادِ (ابْنِ اَبِیْ سُلَیْمَانَ ) عَنْ اِبْرَاہِیْمَ (النَّخْعِیِّ ) عَنْ عَلْقَمَۃِ (بْنِ قَیْسٍ) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ(بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَّ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَافَلَمْ یَرْفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ اِلَّاعِنْدَافْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ۔
(کتاب المعجم،امام اسماعیلی؛ ج2ص692،سنن کبریٰ امام بیہقی رحمہ اللہ ج2 ص79 )
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے پوری نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کی ۔‘‘
:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ ابْنُ قَاسِمٍ (حَدَّثَنَا)وَکِیْعٌ عَنْ اَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ قَطَّافِ النَّھْشَلِیِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ لَا یَعُوْدُ۔
(المدونۃ الکبریٰ؛ ج۱ص۷۱،مسند زید بن علی ص۱۰۰)
ترجمہ: ’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے تو رفع یدین کرتے پھر پوری نما زمیں رفع یدین نہیں کرتے تھے‘‘۔
:دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْ بَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ مَارَاَیْتُ اِبْنَ عُمَرَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِلَّافِیْ اَوَّلِ مَا یَفْتَتِحُ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص268 )
ترجمہ: معروف تابعی حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔
No comments:
Post a Comment