کوئی شخص مذہب اسلام کو چھوڑکر دوسرے مذہب کو اختیار کرلے یا توحید و رسالت کا انکار کر بیٹھے یا ضروریات دین سے منکر ہوجائے یا ایسے عقائد وافعال کو اختیار کرے کہ جو انکار قرآن اور انکار رسالت کے ہم معنی ہوں، ایسا شخص مرتد کہلاتا ہے۔ جو شخص اپنے عقیدہٴ کفریہ کو دجل وتلبیس نیز ملمع سازی کرتے ہوئے اس خباثتِ باطنیہ کو اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے، وہ زندیق ہے، شرح مقاصد للتفتازانی رحمہ اللہ:۲/۲۶۸ اور دیگر کتب میں تصریح ہے، فتاویٰ شامی باب المرتد کی بعض عبارات سے بھی یہی ثابت ہے ۔
اور فرق دونوں میں ظاہر ہے کہ مرتد مذہب اسلام سے پھر جانے والے کو کہا جاتا ہے اور زندیق کفریہ عقائد پر ملمع کرنے والا ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی اشربہٴ محرمہ میں سے کسی شراب محرم کی بوتل پر شربت روح افزاء کا لیبل لگاکر لوگوں کو دھوکہ دے یہ زندیق ہے۔
زِنْدِیق {زِن + دِیق} (عربی)
اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1810ء کو کلیات میر میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی (واحد)
جمع غیر ندائی: زِنْدِیقوں {زِن + دی + قوں (و مجہول)}
معانی
1. بے دین، ملحد، کافر۔
کیا تم نے کچھ زندیقوں کو دیکھا ہے ہم ان کا پیچھا کر رہے ہیں،
( 1983ء، دشت سوس، 37 ) 2. دو خداؤں یعنی خدائے خیر (یزداں) اور خدائے شر (اہرمن) کا قائل، زردشتی عقیدے کا پیرو۔
ایرانی زندیقوں کے ظہور نے مذہبی حلقوں پر تشویش کی لہر دوڑا دی۔،
( 1967ء، ادو دائرہ معارف اسلامیہ، 640:3 )
مترادفات
پارْسی، مُلْحِد، کافِر، مُشْرِک
الحاد کا لغوی معنی:
”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ ( المنجد)
تفسیر روح البیان میں ہے:
”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد؛ لانہ فی جانب القبر“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ: ۴۰)
ترجمہ:۔”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لئے بغلی قبر کو بھی لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے“۔
اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔
(تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔ اصطلاحی معنی:
اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ہو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“۔ (تفسیر سورہٴ حم سجدہ:۴۰)ترجمہ:۔””ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:
”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ صراحةً کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”فالملحد اوسع فرق الکفر حدا: ای ہو اعم من الکل۔“ (۴/۳۴۱)
ترجمہ:۔”لفظ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سے کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے“۔
اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اگر دین حق کا مخالف سرے سے حق کا اقرار ہی نہیں کرتا، نہ ظاہراً حق کو قبول کرتا ہے اور نہ باطناً تو وہ ”کافر “ ہے۔ اور اگر زبان سے تو اقرار کرتا ہے، مگر دل سے منکر ہے تو وہ ”منافق“ ہے۔ اور اگر بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین، نیز اجماع امت کے خلاف ہے تو وہ ملحد ہے، مثلاً :ایک شخص قرآن کے حق ہونے کا تو اقرار کرتا ہے اور اس میں جنت ودوزخ کا جو ذکر آیا ہے، اس کو بھی مانتا ہے، مگر کہتا ہے کہ جنت سے مراد وہ فرحت ومسرت ہے جو مؤمنین کو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور نار جہنم سے مراد وہ ندامت واذیت ہے جو کافروں کو اعمال شنیعہ اور اخلاق ذمیمہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ ملحد وزندیق ہے۔
”فان الزندیق یموّہ کفرہ ویروّج عقیدتہ الفاسدة ویخرجہا فی الصورة الصحیحة وہذا معنی ابطال الکفر“۔ (فتاوی شامی ۴/۲۴۲،ط:ایچ ایم سعید)
ترجمہ:۔”زندیق اپنے کفر کی ملمع سازی کرتا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظاہر کرتا ہے، یہی معنی ہے کفر کو چھپانے کا“۔
یعنی اصطلاح میں عام طور سے ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس: ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔
تفسیر روح البیان میں ہے:
”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد؛ لانہ فی جانب القبر“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ: ۴۰)
ترجمہ:۔”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لئے بغلی قبر کو بھی لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے“۔
اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔
(تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔ اصطلاحی معنی:
اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ہو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“۔ (تفسیر سورہٴ حم سجدہ:۴۰)ترجمہ:۔””ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:
”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ صراحةً کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”فالملحد اوسع فرق الکفر حدا: ای ہو اعم من الکل۔“ (۴/۳۴۱)
ترجمہ:۔”لفظ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سے کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے“۔
اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اگر دین حق کا مخالف سرے سے حق کا اقرار ہی نہیں کرتا، نہ ظاہراً حق کو قبول کرتا ہے اور نہ باطناً تو وہ ”کافر “ ہے۔ اور اگر زبان سے تو اقرار کرتا ہے، مگر دل سے منکر ہے تو وہ ”منافق“ ہے۔ اور اگر بظاہر تو دین حق کا اقرار کرتا ہے، لیکن ضروریات دین میں سے کسی امر کی ایسی تعبیر وتشریح کرتا ہے جو صحابہ وتابعین، نیز اجماع امت کے خلاف ہے تو وہ ملحد ہے، مثلاً :ایک شخص قرآن کے حق ہونے کا تو اقرار کرتا ہے اور اس میں جنت ودوزخ کا جو ذکر آیا ہے، اس کو بھی مانتا ہے، مگر کہتا ہے کہ جنت سے مراد وہ فرحت ومسرت ہے جو مؤمنین کو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور نار جہنم سے مراد وہ ندامت واذیت ہے جو کافروں کو اعمال شنیعہ اور اخلاق ذمیمہ کی وجہ سے حاصل ہوگی اور کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ ملحد وزندیق ہے۔
”فان الزندیق یموّہ کفرہ ویروّج عقیدتہ الفاسدة ویخرجہا فی الصورة الصحیحة وہذا معنی ابطال الکفر“۔ (فتاوی شامی ۴/۲۴۲،ط:ایچ ایم سعید)
ترجمہ:۔”زندیق اپنے کفر کی ملمع سازی کرتا ہے اور اس کو صحیح صورت میں ظاہر کرتا ہے، یہی معنی ہے کفر کو چھپانے کا“۔
یعنی اصطلاح میں عام طور سے ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس: ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔
روح المعانی میں مذکور ہے:
”إِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَاتِنَا: یتحدفون فی تاویل آیات القرآن عن جہة الصحة والاستقامة فیحملونہا علی المحامل الباطلة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات میں کجروی اختیار کرتے ہیں، یعنی قرآن کی آیات کو صحیح ودرست جہت سے پھیر کر تاویل کے ذریعے غلط معانی پر محمول کرتے ہیں“۔
اور مذکورہ آیت خود بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ” الحاد“ کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: یہ ہم سے اپنا کفر چھپا نہیں سکتے۔
دنیا کے تمام کافر اپنے کفر کی تاویل کرتے ہیں، ہرتاویل معتبر مان لی جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی بھی کافر نہ رہے گا، کیونکہ مشرکین مکہ کی تاویل تو خود قرآن میں مذکور ہے کہ ”ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کا مقرب بنادیں“۔اس لئے فقہاء کرام نے فرمایا: جو تاویل کفر سے مانع ہوتی ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ضروریاتِ دین سے انکار لازم نہ آتا ہو۔
ضروریاتِ دین سے مراد وہ عقائدواحکام ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے مشہور ہوں کہ عوام میں بھی ان کی واقفیت ہو، جیسے: نمازوں کی فرضیت، رکعتوں کی تعداد، سود، شراب اور خنزیر کی حرمت وغیرہ ، لہذا ہر وہ قطعی اور یقینی امرِ شرعی جو اس قدر واضح ہو کہ اس کے تعبیر کرنے والے الفاظ اور ان کے معانی کو ہر اعلیٰ، ادنیٰ اور متوسط درجے کا آدمی بآسانی جانتا ہو اور ان کی مراد بھی اتنی واضح ہو کہ اس کے متعیّن کرنے کے لئے دلائل وبراہین کی ضرورت نہ ہو تو ایسا امر شرعی جب صاحبِ شریعت سے بطورِ تواتر ثابت ہو تو اس پر بعینہ اور ہو بہو اسی ظاہری صورت میں بغیر کسی تاویل وتصرف کے ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار یا اس میں تاویل وتصرف کرنا کفر ہے۔ (اکفار الملحدین)
جیساکہ اس زمانے کے بعض بے دین اور ملحد ”صلوٰة“ کے لفظ کو عربی کے لفظ ”مُصَلِّی“ (بمعنی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے) سے مشتق مان کر ”صلوٰة“ کو ایک جسمانی ورزش قرار دیتے ہیں اور اسی قبیل سے قادیانیوں کی ”ختم نبوت“ کے مفہوم میں تاویل بھی ہے، یہ سب کفرِ محض ہے۔
ملحد کے کفر کی وجہ
ملحد کے کفر میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس پر مؤمن کی تعریف صادق ہی نہیں آتی، بلکہ کافر کی تعریف صادق آتی ہے:
”والایمان التصدیق بجمیع ما جاء بہ محمد ا عن الله تبارک وتعالیٰ مما علم مجیئہ بہ ضرورة… والکفر لغة الستر وشرعا تکذیب محمدا فی شئ مما یثبت عنہ ادعاؤہ ضرورة “۔ (البحر الرائق ۵/۱۱۹،ط:سعید)
ترجمہ:۔”ایمان ان تمام احکامات کی تصدیق کا نام ہے، جن کو نبی کریم ا اللہ تبارک وتعالیٰ سے لے کر آئے اور ان کا آنا بداہةً ثابت ہے… اور کفر کا لغوی معنی ”چھپانا“ ہے اور شرعاً کسی بھی ایسے امر کے انکار کو کہا جاتا ہے، جس کا دعویٰ کرنا آپ ا سے بداہةً ثابت ہے“۔
اور ملحد دین سے انحراف اور آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”الملحد:وہو من مال عن الشرع القویم الی جہة من جہات الکفر“ (۴/۲۴۱)
ترجمہ:۔”ملحد وہ ہے جو دین مستقیم سے کفر کی جہات میں سے کسی جہت کی طرف مائل ہوجائے“
ملحد کا حکم
ملحد مرتد سے بھی بدترین درجے کا کافر ہے، کیونکہ مرتد نے جب کفر اختیار کیا تو اس کا اظہار کردیا، جس کی وجہ سے اس کا کفر لوگوں پر واضح ہوگیا۔ وہ خود تو کافر ہوا، لیکن باقی لوگوں کے کفر کا سبب نہ بنا، اس لئے مرتد کوقتل کرنے سے پہلے اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے گا، اگر وہ مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر وہ کفر پر مصر رہے تو اس کو سزا دی جائے گی، جیساکہ البحر الرائق (۵/۱۲۵،ط:سعید)میں ہے:
”یعرض الاسلام علی المرتد وتکشف شبہتہ ویحبس ثلاثة ایام، فان اسلم والا قتل“۔
ترجمہ:۔”مرتد پر اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے شبہات کو دور کیا جائے گا اور اس کو تین دن تک قید میں رکھا جائے، اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا“۔
ملحد اپنے کفریہ عقائد کو ملمع سازی کرکے ایمان کی شکل میں پیش کرتا ہے، جو لوگوں کی گمراہی اور کفر کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے اس کا حکم مرتد کے حکم سے سخت ہے۔ اگر حکومت تک اس معاملے کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس نے توبہ کرلی تو اس کی توبہ معتبر ہے اور اگر معاملہ حکومت وعدالت تک پہنچ جائے، تو نہ ہی اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور نہ ہی اس کی توبہ کا اعتبار کیا جائے گا، بلکہ کسی مہلت کے بغیر فوراً ہی اس کو قتل کردیا جائے گا۔
”ان الزندیق لو تاب قبل اخذہ: ای قبل ان یرفع الی الحاکم تقبل عندنا وبعدہ لا،اتفاقا… ولاشک ان حکم المرتد غیر حکم الزندیق“۔
(فتاویٰ شامی ۴/۲۳۶،ط:سعید)
ترجمہ:۔”اگر زندیق نے پکڑے جانے سے پہلے پہلے، یعنی حاکم تک معاملہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے توبہ کی تو ہمارے نزدیک قبول کی جائے گی اور اس کے بعد بالاتفاق قبول نہیں کی جائے گی… اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتد کا حکم زندیق کے حکم سے مختلف ہے“۔
اور احکام القرآن للجصاص میں مذکور ہے:
”وقولہم فی ترک قبول توبة الزندیق، یوجب ان لایستتاب الاسماعیلیة وسائر الملحدین الذین قد علم منہم اعتقاد الکفر کسائر الزنادقة وان یقتلوا مع اظہار ہم التوبة“۔ (۱/۷۶،ط:قدیمی)
ترجمہ:۔”زندیق کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں ائمہٴ دین کے فیصلہ کا تقاضا یہ ہے کہ باقی تمام زندیقوں کی طرح فرقہ اسماعیلیہ اور ان تمام ملحد فرقوں سے بھی توبہ نہ کرائی جائے، جن کا اعتقاد کفر سب کو معلوم ہے اور یہ کہ اظہار توبہ کے باوجود ان کو قتل کردیا جائے“۔
اور اکفار الملحدین میں ہے؛
”قال ابو حنیفة:اقتلوا الزندیق، فان توبتہ لاتعرف“۔ (ص:۳۷،ط:مجلس علمی)
ترجمہ:۔”امام ابوحنیفہ نے فرمایا: زندیق کو قتل کرو، اس لئے کہ اس کی توبہ کا پتہ نہیں چل سکتا (کیونکہ اس کی زبان کا کوئی اعتبار نہیں)
”إِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَاتِنَا: یتحدفون فی تاویل آیات القرآن عن جہة الصحة والاستقامة فیحملونہا علی المحامل الباطلة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات میں کجروی اختیار کرتے ہیں، یعنی قرآن کی آیات کو صحیح ودرست جہت سے پھیر کر تاویل کے ذریعے غلط معانی پر محمول کرتے ہیں“۔
اور مذکورہ آیت خود بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ” الحاد“ کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: یہ ہم سے اپنا کفر چھپا نہیں سکتے۔
دنیا کے تمام کافر اپنے کفر کی تاویل کرتے ہیں، ہرتاویل معتبر مان لی جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی بھی کافر نہ رہے گا، کیونکہ مشرکین مکہ کی تاویل تو خود قرآن میں مذکور ہے کہ ”ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کا مقرب بنادیں“۔اس لئے فقہاء کرام نے فرمایا: جو تاویل کفر سے مانع ہوتی ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ضروریاتِ دین سے انکار لازم نہ آتا ہو۔
ضروریاتِ دین سے مراد وہ عقائدواحکام ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے مشہور ہوں کہ عوام میں بھی ان کی واقفیت ہو، جیسے: نمازوں کی فرضیت، رکعتوں کی تعداد، سود، شراب اور خنزیر کی حرمت وغیرہ ، لہذا ہر وہ قطعی اور یقینی امرِ شرعی جو اس قدر واضح ہو کہ اس کے تعبیر کرنے والے الفاظ اور ان کے معانی کو ہر اعلیٰ، ادنیٰ اور متوسط درجے کا آدمی بآسانی جانتا ہو اور ان کی مراد بھی اتنی واضح ہو کہ اس کے متعیّن کرنے کے لئے دلائل وبراہین کی ضرورت نہ ہو تو ایسا امر شرعی جب صاحبِ شریعت سے بطورِ تواتر ثابت ہو تو اس پر بعینہ اور ہو بہو اسی ظاہری صورت میں بغیر کسی تاویل وتصرف کے ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار یا اس میں تاویل وتصرف کرنا کفر ہے۔ (اکفار الملحدین)
جیساکہ اس زمانے کے بعض بے دین اور ملحد ”صلوٰة“ کے لفظ کو عربی کے لفظ ”مُصَلِّی“ (بمعنی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے) سے مشتق مان کر ”صلوٰة“ کو ایک جسمانی ورزش قرار دیتے ہیں اور اسی قبیل سے قادیانیوں کی ”ختم نبوت“ کے مفہوم میں تاویل بھی ہے، یہ سب کفرِ محض ہے۔
ملحد کے کفر کی وجہ
ملحد کے کفر میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس پر مؤمن کی تعریف صادق ہی نہیں آتی، بلکہ کافر کی تعریف صادق آتی ہے:
”والایمان التصدیق بجمیع ما جاء بہ محمد ا عن الله تبارک وتعالیٰ مما علم مجیئہ بہ ضرورة… والکفر لغة الستر وشرعا تکذیب محمدا فی شئ مما یثبت عنہ ادعاؤہ ضرورة “۔ (البحر الرائق ۵/۱۱۹،ط:سعید)
ترجمہ:۔”ایمان ان تمام احکامات کی تصدیق کا نام ہے، جن کو نبی کریم ا اللہ تبارک وتعالیٰ سے لے کر آئے اور ان کا آنا بداہةً ثابت ہے… اور کفر کا لغوی معنی ”چھپانا“ ہے اور شرعاً کسی بھی ایسے امر کے انکار کو کہا جاتا ہے، جس کا دعویٰ کرنا آپ ا سے بداہةً ثابت ہے“۔
اور ملحد دین سے انحراف اور آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے، جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”الملحد:وہو من مال عن الشرع القویم الی جہة من جہات الکفر“ (۴/۲۴۱)
ترجمہ:۔”ملحد وہ ہے جو دین مستقیم سے کفر کی جہات میں سے کسی جہت کی طرف مائل ہوجائے“
ملحد کا حکم
ملحد مرتد سے بھی بدترین درجے کا کافر ہے، کیونکہ مرتد نے جب کفر اختیار کیا تو اس کا اظہار کردیا، جس کی وجہ سے اس کا کفر لوگوں پر واضح ہوگیا۔ وہ خود تو کافر ہوا، لیکن باقی لوگوں کے کفر کا سبب نہ بنا، اس لئے مرتد کوقتل کرنے سے پہلے اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے گا، اگر وہ مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر وہ کفر پر مصر رہے تو اس کو سزا دی جائے گی، جیساکہ البحر الرائق (۵/۱۲۵،ط:سعید)میں ہے:
”یعرض الاسلام علی المرتد وتکشف شبہتہ ویحبس ثلاثة ایام، فان اسلم والا قتل“۔
ترجمہ:۔”مرتد پر اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے شبہات کو دور کیا جائے گا اور اس کو تین دن تک قید میں رکھا جائے، اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا“۔
ملحد اپنے کفریہ عقائد کو ملمع سازی کرکے ایمان کی شکل میں پیش کرتا ہے، جو لوگوں کی گمراہی اور کفر کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے اس کا حکم مرتد کے حکم سے سخت ہے۔ اگر حکومت تک اس معاملے کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس نے توبہ کرلی تو اس کی توبہ معتبر ہے اور اگر معاملہ حکومت وعدالت تک پہنچ جائے، تو نہ ہی اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور نہ ہی اس کی توبہ کا اعتبار کیا جائے گا، بلکہ کسی مہلت کے بغیر فوراً ہی اس کو قتل کردیا جائے گا۔
”ان الزندیق لو تاب قبل اخذہ: ای قبل ان یرفع الی الحاکم تقبل عندنا وبعدہ لا،اتفاقا… ولاشک ان حکم المرتد غیر حکم الزندیق“۔
(فتاویٰ شامی ۴/۲۳۶،ط:سعید)
ترجمہ:۔”اگر زندیق نے پکڑے جانے سے پہلے پہلے، یعنی حاکم تک معاملہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے توبہ کی تو ہمارے نزدیک قبول کی جائے گی اور اس کے بعد بالاتفاق قبول نہیں کی جائے گی… اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتد کا حکم زندیق کے حکم سے مختلف ہے“۔
اور احکام القرآن للجصاص میں مذکور ہے:
”وقولہم فی ترک قبول توبة الزندیق، یوجب ان لایستتاب الاسماعیلیة وسائر الملحدین الذین قد علم منہم اعتقاد الکفر کسائر الزنادقة وان یقتلوا مع اظہار ہم التوبة“۔ (۱/۷۶،ط:قدیمی)
ترجمہ:۔”زندیق کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں ائمہٴ دین کے فیصلہ کا تقاضا یہ ہے کہ باقی تمام زندیقوں کی طرح فرقہ اسماعیلیہ اور ان تمام ملحد فرقوں سے بھی توبہ نہ کرائی جائے، جن کا اعتقاد کفر سب کو معلوم ہے اور یہ کہ اظہار توبہ کے باوجود ان کو قتل کردیا جائے“۔
اور اکفار الملحدین میں ہے؛
”قال ابو حنیفة:اقتلوا الزندیق، فان توبتہ لاتعرف“۔ (ص:۳۷،ط:مجلس علمی)
ترجمہ:۔”امام ابوحنیفہ نے فرمایا: زندیق کو قتل کرو، اس لئے کہ اس کی توبہ کا پتہ نہیں چل سکتا (کیونکہ اس کی زبان کا کوئی اعتبار نہیں)
ضروری تنبیہ
دین اور اسلام کے خلاف ملحد وبے دین لوگ اور اہل حق کے خلاف باطل پرست فرقے اور افراد ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں اورگرم یا سردجنگ، یعنی تیغ وتفنگ یا قلم وقرطاس کے معرکے ہمیشہ جاری رہے ہیں اور جب بھی اہل حق اور اہل ایمان کے آفتاب نصف النہار سے بھی زیادہ روشن دلائل اور تیغِ تیز سے بھی زیادہ قاطع اور دوٹوک فیصلہ کردینے والے براہین نے باطل پرستوں کے شکوک وشبہات، تاویلات وتحریفات، تلبیسات وتشویہات کا قلع قمع کیا ہے اور ان پر کفر وارتداد کا حکم لگایاہے، تو ان باطل پرستوں نے علماء حق کی تکفیر سے بچنے کے لئے مختلف ومتنوع حربے بطورِ سَپَر استعمال کئے ہیں اور اپنے جاہلانہ نعروں کی ترویج کرتے رہے: کبھی عوام میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ فقہاء ومفتیان کے یہ کفر وارتداد کے فتوے تو محض ڈرانے دھمکانے کے لئے ہوتے ہیں، ان سے کوئی مسلمان فی الحقیقت کافر یا مرتد نہیں بنتا۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم تو ”مؤوِّل“ ہیں اور مؤوِّل کی تکفیر جائز نہیں ہے، اس لئے تاویل کرنے والوں کی تکفیر نہ کرنی چاہئے۔ پھر ہمارے زمانے میں چونکہ بدقسمتی سے ان ملحدوں اور زندیقوں کو تحریر وتقریر کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس لئے وہ زیادہ بے باکی اور دریدہ دہنی کے ساتھ اہل حق کے ان تکفیر کے فتووں کو ”دشنام طرازی“ سے اور کافر، مرتد، ملحد، زندیق، جاہل،اوربے دین وغیرہ احکام شرعیہ کو ”گالیوں“ سے تعبیر کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:علماء کو کافر قرار دینے اور گالیاں دینے کے سوا اور آتا ہی کیا ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰة اور حج اسلام کے اساسی احکامات وعبادات ہیں اور دین اسلام میں ان کے مخصوص ومتعیّن معنی اور مصداق ہیں، ٹھیک اسی طرح کفر، نفاق ، الحاد، ارتداد اور فسق بھی اسلام کے بنیادی احکام ہیں، دین اسلام میں ان کے بھی مخصوص ومتعیّن معنی اور مصداق ہیں۔ قرآن کریم نے اور نبی کریم ا نے قطعی طور پر ان کی تعیین وتحدید فرمائی ہے۔
ایمان کا تعلق قلب کے یقین سے ہے، اللہ کی وحدانیت، رسول ا کی رسالت اور رسول ا کے لائے ہوئے دین وشریعت کو دل سے ماننا اور زبان سے اقرار کرنا، ایمان کے معتبر ہونے کے لئے ضروری ہے۔ جو کوئی ان کو نہ مانے، قرآن کریم کی اصطلاح میں اور اسلام کی زبان میں وہ ”کافر“ ہے اور اس نہ ماننے کا نام ”کفر“ ہے۔ جس طرح ترک نماز، ترک زکوٰة ، ترک روزہ اور ترک حج کا نام ”فسق“ ہے اور ترک کرنے والے کا نام ”فاسق“ ہے ،بشرطیکہ ان کے فرض ہونے کو مانتا ہو، صرف عمل نہ کرتا ہو، اسی طرح انہی تعبیرات (صلوٰة، زکوٰة صوم اور حج) کو تسلیم واختیار کرنے کے بعد ان کو معروف ومتواتر شرعی معنی سے نکال کر غیر شرعی معنی میں استعمال کرے اور ایسی تاویلیں کرے جو نہ صرف قرآن وحدیث کے خلاف ہوں، بلکہ چودہ سو سال کے عرصہ میں کسی بھی عالم دین نے نہ کی ہوں، تو اس کا نام اصطلاح اور اسلام کی زبان میں ”الحاد“ ہے اور اس شخص کا نام ”ملحد“ ہے ۔ قرآن کریم نے ان الفاظ (یعنی کفر، نفاق، الحاد اور ارتداد) کو انسانوں کے خاص خاص عقائد، اقوال، افعال واخلاق کے اعتبار سے افراد اور جماعتوں کے لئے استعمال فرمایا ہے اور جب تک روئے زمین پر قرآن کریم موجود رہے گا، یہ الفاظ، ان کے یہ معنی اور مصداق بھی باقی رہیں گے۔
اب یہ علماء امت کا فریضہ ہے کہ وہ امت کو بتلائیں کہ ان کا استعمال کہاں کہاں اور کن کن لوگوں کے حق میں صحیح ہے اور کہاں کہاں غلط ہے؟ یعنی یہ بتلائیں کہ جس طرح ایک شخص یا فرقہ ایمان کے مقررہ تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد مومن ہوتا اور مسلمان کہلاتا ہے، اسی طرح ان کو نہ کرنے والا شخص یا فرقہ کافر بنتا اور اسلام سے خارج ہوتا ہے۔ نیز علماء امت کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ ایمان کے مقتضیات اور موجبات کفر کی تحدید وتعیین کریں، تاکہ نہ کسی مومن کو کافر اور اسلام سے خارج کہا جاسکے اور نہ کسی کافر کو مومن اور مسلمان کہا جاسکے، ورنہ اگر ایمان وکفر کی حدود اس طرح مشخص ومتعین نہ ہوتیں تو ایمان وکفر کا امتیاز مٹ جاتا اور دین اسلام بازیچہٴ اطفال بن کررہ جاتا اور جنت وجہنم محفل افسانے۔
اس لئے علماء امت پر کچھ بھی ہو اور کیسے ہی طعنے کیوں نہ دیئے جائیں، رہتی دنیا تک یہ فریضہ عائد ہے اور رہے گا کہ وہ خوف وخطر اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر جو شرعاً کافر ہے، اس پر کفر کا حکم او رفتویٰ لگائیں اور شرعاً جو ملحد وفاسق ہے، اس پر الحاد وفسق کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور جو بھی فرد یا فرقہ قرآن وحدیث کی نصوص کی رو سے اسلام سے خارج ہو، اس پر اسلام سے خارج اور دین سے بے تعلق ہونے کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور کسی بھی قیمت پر ان کو مسلمان تسلیم نہ کریں۔
بہرحال کافر، فاسق، ملحد اورمرتد وغیرہ شرعی احکام واوصاف ہیں، جوکہ فرد یا جماعت کے عقائد یا افعال واعمال پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں پر، اس کے برعکس ”گالیاں“ جن کو دی جاتی ہیں وہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں کو دی جاتی ہیں، لہذا اگر یہ الفاظ صحیح محمل میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ شرعی احکام ہیں، ان کو سب وشتم اور ان احکام کے لگانے کو دشنام طرازی کہنا، جہالت یا بے دینی ہے۔نیز علماء حق جب کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں، تو وہ اس کو کافر بناتے نہیں، کافر تو وہ خود اپنے اختیار سے کفر یہ عقائد اختیار کرنے سے بنتا ہے، علماء تو صرف اس کے کفر کو ظاہر کرتے ہیں۔ کسوٹی سونے کو کھوٹا نہیں بناتی، وہ تو اس کے کھوٹا ہونے کو ظاہر کردیتی ہے، کھوٹا تو وہ خود ہوتا ہے، اس حقیقت کے باوجود یہ کہنا کہ ”علماء کو کافر بنانے کے سوا کیا آتا ہے؟“ شرمناک جہالت ہے۔
امید ہے کہ اس ضروری تنبیہ کے بعد قارئین ا ن ملحدوں اور بے دینوں کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف اور ہوشیار ہوجائیں گے اور جس قسم کی جماعت یا فرد کو اس قسم کا پروپیگنڈہ کرتے پائیں گے، باور کرلیں گے کہ یہ صرف شریعت کا حکم اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج بد اور الحاد زندقہ کی سزا سے بچنے کے لئے علماء کے خلاف یہ بداعتمادی پھیلا کر دو گونہ جرم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔
دین اور اسلام کے خلاف ملحد وبے دین لوگ اور اہل حق کے خلاف باطل پرست فرقے اور افراد ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں اورگرم یا سردجنگ، یعنی تیغ وتفنگ یا قلم وقرطاس کے معرکے ہمیشہ جاری رہے ہیں اور جب بھی اہل حق اور اہل ایمان کے آفتاب نصف النہار سے بھی زیادہ روشن دلائل اور تیغِ تیز سے بھی زیادہ قاطع اور دوٹوک فیصلہ کردینے والے براہین نے باطل پرستوں کے شکوک وشبہات، تاویلات وتحریفات، تلبیسات وتشویہات کا قلع قمع کیا ہے اور ان پر کفر وارتداد کا حکم لگایاہے، تو ان باطل پرستوں نے علماء حق کی تکفیر سے بچنے کے لئے مختلف ومتنوع حربے بطورِ سَپَر استعمال کئے ہیں اور اپنے جاہلانہ نعروں کی ترویج کرتے رہے: کبھی عوام میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ فقہاء ومفتیان کے یہ کفر وارتداد کے فتوے تو محض ڈرانے دھمکانے کے لئے ہوتے ہیں، ان سے کوئی مسلمان فی الحقیقت کافر یا مرتد نہیں بنتا۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم تو ”مؤوِّل“ ہیں اور مؤوِّل کی تکفیر جائز نہیں ہے، اس لئے تاویل کرنے والوں کی تکفیر نہ کرنی چاہئے۔ پھر ہمارے زمانے میں چونکہ بدقسمتی سے ان ملحدوں اور زندیقوں کو تحریر وتقریر کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس لئے وہ زیادہ بے باکی اور دریدہ دہنی کے ساتھ اہل حق کے ان تکفیر کے فتووں کو ”دشنام طرازی“ سے اور کافر، مرتد، ملحد، زندیق، جاہل،اوربے دین وغیرہ احکام شرعیہ کو ”گالیوں“ سے تعبیر کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:علماء کو کافر قرار دینے اور گالیاں دینے کے سوا اور آتا ہی کیا ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰة اور حج اسلام کے اساسی احکامات وعبادات ہیں اور دین اسلام میں ان کے مخصوص ومتعیّن معنی اور مصداق ہیں، ٹھیک اسی طرح کفر، نفاق ، الحاد، ارتداد اور فسق بھی اسلام کے بنیادی احکام ہیں، دین اسلام میں ان کے بھی مخصوص ومتعیّن معنی اور مصداق ہیں۔ قرآن کریم نے اور نبی کریم ا نے قطعی طور پر ان کی تعیین وتحدید فرمائی ہے۔
ایمان کا تعلق قلب کے یقین سے ہے، اللہ کی وحدانیت، رسول ا کی رسالت اور رسول ا کے لائے ہوئے دین وشریعت کو دل سے ماننا اور زبان سے اقرار کرنا، ایمان کے معتبر ہونے کے لئے ضروری ہے۔ جو کوئی ان کو نہ مانے، قرآن کریم کی اصطلاح میں اور اسلام کی زبان میں وہ ”کافر“ ہے اور اس نہ ماننے کا نام ”کفر“ ہے۔ جس طرح ترک نماز، ترک زکوٰة ، ترک روزہ اور ترک حج کا نام ”فسق“ ہے اور ترک کرنے والے کا نام ”فاسق“ ہے ،بشرطیکہ ان کے فرض ہونے کو مانتا ہو، صرف عمل نہ کرتا ہو، اسی طرح انہی تعبیرات (صلوٰة، زکوٰة صوم اور حج) کو تسلیم واختیار کرنے کے بعد ان کو معروف ومتواتر شرعی معنی سے نکال کر غیر شرعی معنی میں استعمال کرے اور ایسی تاویلیں کرے جو نہ صرف قرآن وحدیث کے خلاف ہوں، بلکہ چودہ سو سال کے عرصہ میں کسی بھی عالم دین نے نہ کی ہوں، تو اس کا نام اصطلاح اور اسلام کی زبان میں ”الحاد“ ہے اور اس شخص کا نام ”ملحد“ ہے ۔ قرآن کریم نے ان الفاظ (یعنی کفر، نفاق، الحاد اور ارتداد) کو انسانوں کے خاص خاص عقائد، اقوال، افعال واخلاق کے اعتبار سے افراد اور جماعتوں کے لئے استعمال فرمایا ہے اور جب تک روئے زمین پر قرآن کریم موجود رہے گا، یہ الفاظ، ان کے یہ معنی اور مصداق بھی باقی رہیں گے۔
اب یہ علماء امت کا فریضہ ہے کہ وہ امت کو بتلائیں کہ ان کا استعمال کہاں کہاں اور کن کن لوگوں کے حق میں صحیح ہے اور کہاں کہاں غلط ہے؟ یعنی یہ بتلائیں کہ جس طرح ایک شخص یا فرقہ ایمان کے مقررہ تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد مومن ہوتا اور مسلمان کہلاتا ہے، اسی طرح ان کو نہ کرنے والا شخص یا فرقہ کافر بنتا اور اسلام سے خارج ہوتا ہے۔ نیز علماء امت کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ ایمان کے مقتضیات اور موجبات کفر کی تحدید وتعیین کریں، تاکہ نہ کسی مومن کو کافر اور اسلام سے خارج کہا جاسکے اور نہ کسی کافر کو مومن اور مسلمان کہا جاسکے، ورنہ اگر ایمان وکفر کی حدود اس طرح مشخص ومتعین نہ ہوتیں تو ایمان وکفر کا امتیاز مٹ جاتا اور دین اسلام بازیچہٴ اطفال بن کررہ جاتا اور جنت وجہنم محفل افسانے۔
اس لئے علماء امت پر کچھ بھی ہو اور کیسے ہی طعنے کیوں نہ دیئے جائیں، رہتی دنیا تک یہ فریضہ عائد ہے اور رہے گا کہ وہ خوف وخطر اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر جو شرعاً کافر ہے، اس پر کفر کا حکم او رفتویٰ لگائیں اور شرعاً جو ملحد وفاسق ہے، اس پر الحاد وفسق کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور جو بھی فرد یا فرقہ قرآن وحدیث کی نصوص کی رو سے اسلام سے خارج ہو، اس پر اسلام سے خارج اور دین سے بے تعلق ہونے کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور کسی بھی قیمت پر ان کو مسلمان تسلیم نہ کریں۔
بہرحال کافر، فاسق، ملحد اورمرتد وغیرہ شرعی احکام واوصاف ہیں، جوکہ فرد یا جماعت کے عقائد یا افعال واعمال پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں پر، اس کے برعکس ”گالیاں“ جن کو دی جاتی ہیں وہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں کو دی جاتی ہیں، لہذا اگر یہ الفاظ صحیح محمل میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ شرعی احکام ہیں، ان کو سب وشتم اور ان احکام کے لگانے کو دشنام طرازی کہنا، جہالت یا بے دینی ہے۔نیز علماء حق جب کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں، تو وہ اس کو کافر بناتے نہیں، کافر تو وہ خود اپنے اختیار سے کفر یہ عقائد اختیار کرنے سے بنتا ہے، علماء تو صرف اس کے کفر کو ظاہر کرتے ہیں۔ کسوٹی سونے کو کھوٹا نہیں بناتی، وہ تو اس کے کھوٹا ہونے کو ظاہر کردیتی ہے، کھوٹا تو وہ خود ہوتا ہے، اس حقیقت کے باوجود یہ کہنا کہ ”علماء کو کافر بنانے کے سوا کیا آتا ہے؟“ شرمناک جہالت ہے۔
امید ہے کہ اس ضروری تنبیہ کے بعد قارئین ا ن ملحدوں اور بے دینوں کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف اور ہوشیار ہوجائیں گے اور جس قسم کی جماعت یا فرد کو اس قسم کا پروپیگنڈہ کرتے پائیں گے، باور کرلیں گے کہ یہ صرف شریعت کا حکم اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج بد اور الحاد زندقہ کی سزا سے بچنے کے لئے علماء کے خلاف یہ بداعتمادی پھیلا کر دو گونہ جرم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔
العیاذ بالله
No comments:
Post a Comment