امت
میں پستی
اور انحطاط کیوں؟
حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ علیہ نے جب دعوت کا کام شروع کیا تو آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ کام تو عربوں کا ہے، لھٰذا آپ ۳۰ علماء کرام کی ایک جماعت لیکر حجازِمقدس پہنچے .اس جماعت میں مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن رحمہ اللہ علیہم بھی تھے .اس موقع پر آپ نے وہاں چاروں مسلک ( حنفی شافعی مالکی حنبلی) کے علماء کرام کو مدرسہ صولتیہ میں جمع فرماکر خطاب فرمایا.
بیان کے دوران آپ نے سب علماء سے خطاب کیا: میرا ایک سوال ہے؟ آپ حضرات اس کا جواب دیں -
آپ لوگ بتلائیں کہ پوری دنیا کے اندر مسلمان پستی میں کیوں جارہے ہیں؟ اور انحطاط کیوں ہورہا ہے؟
ایک نے جواب دیا: علم کی کمی کی وجہ سے،
آپ نے پوچھا کون سا علم؟
اس نے کہا: دنیا کا علم تو ہے لیکن دین کا علم کم ہے -
آپ نے جواب دیا: خدا کی قسم بتاؤ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کتنے تھے؟
جواب دیا: ڈیڑھ دو لاکھ -
اس میں سے حافظ کتنے تھے،؟
جواب دیا: بہت تھوڑے-
آپ نے کہا : آج پوری دنیا میں حفظاظ دس لاکھ سے کم نہی ہوں گے -
پھر آپ نے کہا: بخاری ومسلم کے حافظ کتنے تھے؟
جواب دیا: کوئی نہیں -
آپ نے کہا : آج صحاحِ ستّہ پڑھنے پڑھانے والے ہزاروں سے ہوں گے—
پھر ایک دوسرے عالم نے کہا: مال کی کمی -
آپ نے سوال کیا، بتاؤ صحابہ کے پاس کتنا مال تھا؟
صحابہ کے پاس تو اتنا بھی مال نہیں تھا کہ دو وقت کا کھانا کھالیں -
ایک دوسرے عالم نے کہا کہ تنظیم نہیں ہے -
آپ نے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ نظم نہیں ہے - آج ایک ایک مسلمانوں کی جماعت ملکر لاکھوں تک ہے اور ان کا امیر بھی ہے، اور سارے صحابہ دو لاکھ بھی نہیں تھے -
پھر سب نے ملکر کہا: ائے شیخ الیاس اب آپ ہی بتلائیں کہ وجہ کیا ہے کہ مسلمان ذلت وپستی میں گرتے جارہے ہیں اور انحطاط کے شکار ہو رہے ہیں؟
آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس کا ایک سبب یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اندر ایمان ویقین کی کمزوری ہے اور یہی اصل سبب اور وجہ ہے -
حضرت کا اتنا کہنا تھا کہ سارے علماء کا مجمع دھاڑیں مار کر رونے لگا ' کہ سچ کہا تو نے ائے الیاس! ہم میں واقعی ایمان ویقین کی کمزوری ہے - اس لئے ہم لوگ فتوے بدلتے رہتے ہیں - روپیہ ملا تو فتوی بدل دیا؛ ہم ڈر کے مارے بولتے نہیں ہمارے سامنے بے دینی اور بے ایمانی پھیل رہی ہے ؛ آپ نے سچ فرمایا -
اس کے بعد آپ نے مزید وضاحت فرمائی: اگر ہم لوگوں کا یقین اللہ پر آجائے اور اس کے ساتھ صفاتِ ایمانیہ زندہ ہوجائیں، امید صرف خدا پر رہے، بھروسہ اور آسرا صرف خدا پر ہی آجائے، ڈر اور خوف صرف خدا کا ہی رہے، عشق وشوق صرف خدا کا ہی رہے، اور آج ہم ایمان کی جڑیں لگا کر اسے مضبوط کرکے ایمانی صفات پر آجائیے اور ان ہی ایمانی صفات کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنالیں تو آج بھی خدا ہمیں کامیاب کرےگا، جیسے صحابہ کرام کو کامیاب کیا تھا -
سب نے روتے ہوئے کہا: کہ آپ نے حق فرمایا: اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہی ہے -
آپ نے فرمایا واقعی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہی ہے
کیونکہ صحابہ کامل ایمان رکھتے تھے ، ہر ایک کا ایمان قوی تھا کسی کا ایمان کمزور نہی تھا، علم ان کے پاس ایک سورت کا ہو یا پورے قرآن کا، دین کاعلم تھوڑا جانتے ہو یا زیادہ مگر ایمان ان کا کامل تھا -پھر آپ نے کہا: آپ حضرات سے مشورہ یہ ہے کہ ایمانی طاقت کس طرح بنے گی؟
سب نےکہا: یہ زمانہ بہت سخت ہے، قربِ قیامت کا دور ہے -اب ایمان کی طاقت واپس آنے کا دور ختم ہو چکا اب تو قیامت آئے گی اور ہم سب کو مٹا کر ختم کر دے گی—
آپ نے فرمایا: لَا تَقنَطُوا من رحمة اللہ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو. جس اللہ نے پہیلے دور میں ایمان کی طاقت بنائی تھی وہی اللہ آج کےدور میں بھی مسلمانوں میں ایمان کی طاقت پیدا کرسکتا ہے -
ان لوگوں نے پوچھا وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا وہ دعوت الی اللہ کے ذریعہ ہوگا -
ان میں سے ایک عالم نے کہا: دعوت الی اللہ تو کفار کو دی جاتی ہے -ہم اور آپ مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط بنانے کیلئے کون سا کام کریں گے؟
کیا ان کو دعوت دیں گے؟
اس پر آپ نے روتے ہوئے فرمایا: کہ پہیلے غیر مسلموں کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ دعوت کے لائق ہیں، کیونکہ ایمان ان سے نکلا ہوا ہے، اور آج ہم مسلمان اندر سے خراب ہو چکے ہیں -
ہمارا ایمان لا ایمان ہو رہا ہے، ہمارا اسلام لا اسلام ہو رہا ہے،
ہمارا دین لا دین ہورہا ہے، ہماری اسلامی زندگی ساری کی ساری غیر اسلامی ہو رہی ہے،
ہم لاکھ ایمان واسلام کا نام لیں اور پکاریں اور اپنے آپ کو مسلمان کہے لیکن ہمارے اندر ایمان نہی رہا کیونکہ وہ اندر سے غائب ہے -
جس دعوت سے ایمان غیر کے اندر جاسکتا ہے اسی دعوت سے ایمان اپنے اندر کیوں نہی آسکتا اور جودعوت غیروں کو ایماندار بناسکتی ہے وہ اپنوں کو کیوں نہی بناسکتی؟
فرق صرف اتنا ہے ہم دوسروں کو غیر سمجھ کر دعوت دیتے تھے اور انہیں اپنا سمجھ کر دعوت دیں گے—
خطباتِ سلف ج ۲ ص ۱۳۳
------------------------------------
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﺍﺭﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﻬﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺩﺍﺭﻟﻌﻠﻮﻡ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﭘﻬﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻮﺍﺗﯽ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻬﺎ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮩﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﯽ-
ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ
" ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺮﻧﯽ ﺁﺗﯽ ﻧﺎ'ﺣﺠﺮﺕ (ﺣﻀﺮﺕ) ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻣﯿﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ،ﺍﺳﻠﯿﮯ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ -ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ........ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭼﻬﻮﺭﮮ ﮨﻮﮞ،ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮐﻮ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺟﺎ ﯾﮧ ﻣﭩﮑﯽ ﻣﮑﻬﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ،ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﺻﺖ ﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮮ ﺑﻬﯽ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺳﮯ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﭩﮑﯽ ﮐﺎ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﺴﮑﻞ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﻭﮦ ﺍﭨﻬﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﻬﻮﭦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﺘﺎﻭ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﮐﺲ ﭘﺮ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮔﺎ؟ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﭘﺮ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻬﺎ' ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﻣﭩﮑﯽ ﺗﻢ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻧﺎ ..........
ﺍﺏ ﺣﺠﺮﺕ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﮨﻢ ﮐﻤﺰﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﭨﻬﺎ ﻟﯽ ﮨﮯ، ﮔﺮﮮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮑﮍ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯽ' ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﺍﺯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﻣﻔﺘﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺣﺴﻦ ﮔﻨﮕﻮﮨﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ
" ان تمام لو گوں کے لئے جو دین کا ذوق اور فہم رکھتے ہیں ،اور اس زمانہ کی ہنگامہ آرائیوں سے اکتا چکے ہیں ،اور جن کے نزدیک طریقِ نبوت ہی عمل کا راستہ ہے ، نیز اُن لوگوں کے لئے جو اپنے زمانہ کی دینی ویرانی پر حسرت کرتے ہیں ، مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ دہلی بستی نظام لدین میں مولانا محمد الیاس صاحب کی خدمت حاضر ہوں اور ان کے ساتھ کچھ وقت صرف کریں اور میوت میں جاکر تبلیغ کا کام اور اس کا نظام دیکھیں اور اس کے اثرات ملاحظہ فر مائیں ۔
تعجب ہے کہ لوگ تاریخ کے آثار قدیمہ ، بادشاہوں کی منہدم عمارتیں اور شکستہ مقبرے دیکھنے دور دور جاتے ہیں ، لیکن قرون اول کے زندہ نمونے اور اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں دیکھنے کا شوق نہیں ہوتا اور اس کے لئے سفر کی زحمت گوارا کرنے والے بہت کم ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصرت بڑا حجاب ہے ۔
( اقتباس تاریخ ندوۃ العلما لکھنؤ)
تبلیغ کا مقصد
بیان کے دوران آپ نے سب علماء سے خطاب کیا: میرا ایک سوال ہے؟ آپ حضرات اس کا جواب دیں -
آپ لوگ بتلائیں کہ پوری دنیا کے اندر مسلمان پستی میں کیوں جارہے ہیں؟ اور انحطاط کیوں ہورہا ہے؟
ایک نے جواب دیا: علم کی کمی کی وجہ سے،
آپ نے پوچھا کون سا علم؟
اس نے کہا: دنیا کا علم تو ہے لیکن دین کا علم کم ہے -
آپ نے جواب دیا: خدا کی قسم بتاؤ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کتنے تھے؟
جواب دیا: ڈیڑھ دو لاکھ -
اس میں سے حافظ کتنے تھے،؟
جواب دیا: بہت تھوڑے-
آپ نے کہا : آج پوری دنیا میں حفظاظ دس لاکھ سے کم نہی ہوں گے -
پھر آپ نے کہا: بخاری ومسلم کے حافظ کتنے تھے؟
جواب دیا: کوئی نہیں -
آپ نے کہا : آج صحاحِ ستّہ پڑھنے پڑھانے والے ہزاروں سے ہوں گے—
پھر ایک دوسرے عالم نے کہا: مال کی کمی -
آپ نے سوال کیا، بتاؤ صحابہ کے پاس کتنا مال تھا؟
صحابہ کے پاس تو اتنا بھی مال نہیں تھا کہ دو وقت کا کھانا کھالیں -
ایک دوسرے عالم نے کہا کہ تنظیم نہیں ہے -
آپ نے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ نظم نہیں ہے - آج ایک ایک مسلمانوں کی جماعت ملکر لاکھوں تک ہے اور ان کا امیر بھی ہے، اور سارے صحابہ دو لاکھ بھی نہیں تھے -
پھر سب نے ملکر کہا: ائے شیخ الیاس اب آپ ہی بتلائیں کہ وجہ کیا ہے کہ مسلمان ذلت وپستی میں گرتے جارہے ہیں اور انحطاط کے شکار ہو رہے ہیں؟
آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس کا ایک سبب یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اندر ایمان ویقین کی کمزوری ہے اور یہی اصل سبب اور وجہ ہے -
حضرت کا اتنا کہنا تھا کہ سارے علماء کا مجمع دھاڑیں مار کر رونے لگا ' کہ سچ کہا تو نے ائے الیاس! ہم میں واقعی ایمان ویقین کی کمزوری ہے - اس لئے ہم لوگ فتوے بدلتے رہتے ہیں - روپیہ ملا تو فتوی بدل دیا؛ ہم ڈر کے مارے بولتے نہیں ہمارے سامنے بے دینی اور بے ایمانی پھیل رہی ہے ؛ آپ نے سچ فرمایا -
اس کے بعد آپ نے مزید وضاحت فرمائی: اگر ہم لوگوں کا یقین اللہ پر آجائے اور اس کے ساتھ صفاتِ ایمانیہ زندہ ہوجائیں، امید صرف خدا پر رہے، بھروسہ اور آسرا صرف خدا پر ہی آجائے، ڈر اور خوف صرف خدا کا ہی رہے، عشق وشوق صرف خدا کا ہی رہے، اور آج ہم ایمان کی جڑیں لگا کر اسے مضبوط کرکے ایمانی صفات پر آجائیے اور ان ہی ایمانی صفات کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنالیں تو آج بھی خدا ہمیں کامیاب کرےگا، جیسے صحابہ کرام کو کامیاب کیا تھا -
سب نے روتے ہوئے کہا: کہ آپ نے حق فرمایا: اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہی ہے -
آپ نے فرمایا واقعی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہی ہے
کیونکہ صحابہ کامل ایمان رکھتے تھے ، ہر ایک کا ایمان قوی تھا کسی کا ایمان کمزور نہی تھا، علم ان کے پاس ایک سورت کا ہو یا پورے قرآن کا، دین کاعلم تھوڑا جانتے ہو یا زیادہ مگر ایمان ان کا کامل تھا -پھر آپ نے کہا: آپ حضرات سے مشورہ یہ ہے کہ ایمانی طاقت کس طرح بنے گی؟
سب نےکہا: یہ زمانہ بہت سخت ہے، قربِ قیامت کا دور ہے -اب ایمان کی طاقت واپس آنے کا دور ختم ہو چکا اب تو قیامت آئے گی اور ہم سب کو مٹا کر ختم کر دے گی—
آپ نے فرمایا: لَا تَقنَطُوا من رحمة اللہ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو. جس اللہ نے پہیلے دور میں ایمان کی طاقت بنائی تھی وہی اللہ آج کےدور میں بھی مسلمانوں میں ایمان کی طاقت پیدا کرسکتا ہے -
ان لوگوں نے پوچھا وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا وہ دعوت الی اللہ کے ذریعہ ہوگا -
ان میں سے ایک عالم نے کہا: دعوت الی اللہ تو کفار کو دی جاتی ہے -ہم اور آپ مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط بنانے کیلئے کون سا کام کریں گے؟
کیا ان کو دعوت دیں گے؟
اس پر آپ نے روتے ہوئے فرمایا: کہ پہیلے غیر مسلموں کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ دعوت کے لائق ہیں، کیونکہ ایمان ان سے نکلا ہوا ہے، اور آج ہم مسلمان اندر سے خراب ہو چکے ہیں -
ہمارا ایمان لا ایمان ہو رہا ہے، ہمارا اسلام لا اسلام ہو رہا ہے،
ہمارا دین لا دین ہورہا ہے، ہماری اسلامی زندگی ساری کی ساری غیر اسلامی ہو رہی ہے،
ہم لاکھ ایمان واسلام کا نام لیں اور پکاریں اور اپنے آپ کو مسلمان کہے لیکن ہمارے اندر ایمان نہی رہا کیونکہ وہ اندر سے غائب ہے -
جس دعوت سے ایمان غیر کے اندر جاسکتا ہے اسی دعوت سے ایمان اپنے اندر کیوں نہی آسکتا اور جودعوت غیروں کو ایماندار بناسکتی ہے وہ اپنوں کو کیوں نہی بناسکتی؟
فرق صرف اتنا ہے ہم دوسروں کو غیر سمجھ کر دعوت دیتے تھے اور انہیں اپنا سمجھ کر دعوت دیں گے—
خطباتِ سلف ج ۲ ص ۱۳۳
------------------------------------
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﺍﺭﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﻬﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺩﺍﺭﻟﻌﻠﻮﻡ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﭘﻬﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻮﺍﺗﯽ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻬﺎ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮩﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﯽ-
ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ
" ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺮﻧﯽ ﺁﺗﯽ ﻧﺎ'ﺣﺠﺮﺕ (ﺣﻀﺮﺕ) ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻣﯿﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ،ﺍﺳﻠﯿﮯ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ -ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ........ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭼﻬﻮﺭﮮ ﮨﻮﮞ،ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮐﻮ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺟﺎ ﯾﮧ ﻣﭩﮑﯽ ﻣﮑﻬﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ،ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﺻﺖ ﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮮ ﺑﻬﯽ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﺳﮯ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﭩﮑﯽ ﮐﺎ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﺴﮑﻞ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﻭﮦ ﺍﭨﻬﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﻬﻮﭦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﺘﺎﻭ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺍﺭ ﮐﺲ ﭘﺮ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮔﺎ؟ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﭘﺮ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻬﺎ' ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺑﮍﮮ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﺭﻭ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﻣﭩﮑﯽ ﺗﻢ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻧﺎ ..........
ﺍﺏ ﺣﺠﺮﺕ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﮨﻢ ﮐﻤﺰﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﭨﻬﺎ ﻟﯽ ﮨﮯ، ﮔﺮﮮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮑﮍ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯽ' ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﺍﺯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﻣﻔﺘﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺣﺴﻦ ﮔﻨﮕﻮﮨﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ
تبلیغی تحریک
مولانا (سید عبد العلی صاحب ؒ ) آگے لکھتے ہیں "اس سفر میں ہم نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی اور جس سے ہم کو لازوال مسرت اور روحانی شادمانی حاصل ہوئی وہ میوات کے علاقہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کا تبلیغی کام اور نظام ہے ، ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ وہ بیسویں صدی عیسوی کا منظر نہ تھا ، بلکہ پہلی صدی ہجری کا نقشہ معلوم ہوتا تھا ، عہد بعثت کی اصلاح اور انقلاب حال اور قرون اول کے نو مسلموں کے جوش وجذبہ اور تبلیغ کے ذوق وشوق کے جو قصے ہم نے سیرت اور تاریخ اسلام میں پڑھے تھے ، گوڑ گانوہ کی جامع مسجد اور قصبہ نوح اور شاہ پو ر کی گلیوں میں اس کا نمونہ دیکھا ، واقعہ یہ ہے کہ یہ چشتی درویش اور مجددی عالم ، قدیم غیاث پور ( حال بستی نظام الدین ) میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پہلو میں بیٹھ کر حضرت معین الدین چشتی ؒ کی اشاعت اسلام اور حضرت مجدد سر ہندیؒ اور حضرت شہید رائے بریلوی کی حفاطتِ اسلام کی سنت زندہ کر رہا ہے "۔
مولانا نے تبلیغ میں مسلمانوں کو عملی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے ایک اور شمارے ( الندوہ ،مارچ ۱۹۴۰ءمیں تحریر فر مایا:۔مولانا (سید عبد العلی صاحب ؒ ) آگے لکھتے ہیں "اس سفر میں ہم نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی اور جس سے ہم کو لازوال مسرت اور روحانی شادمانی حاصل ہوئی وہ میوات کے علاقہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کا تبلیغی کام اور نظام ہے ، ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ وہ بیسویں صدی عیسوی کا منظر نہ تھا ، بلکہ پہلی صدی ہجری کا نقشہ معلوم ہوتا تھا ، عہد بعثت کی اصلاح اور انقلاب حال اور قرون اول کے نو مسلموں کے جوش وجذبہ اور تبلیغ کے ذوق وشوق کے جو قصے ہم نے سیرت اور تاریخ اسلام میں پڑھے تھے ، گوڑ گانوہ کی جامع مسجد اور قصبہ نوح اور شاہ پو ر کی گلیوں میں اس کا نمونہ دیکھا ، واقعہ یہ ہے کہ یہ چشتی درویش اور مجددی عالم ، قدیم غیاث پور ( حال بستی نظام الدین ) میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پہلو میں بیٹھ کر حضرت معین الدین چشتی ؒ کی اشاعت اسلام اور حضرت مجدد سر ہندیؒ اور حضرت شہید رائے بریلوی کی حفاطتِ اسلام کی سنت زندہ کر رہا ہے "۔
" ان تمام لو گوں کے لئے جو دین کا ذوق اور فہم رکھتے ہیں ،اور اس زمانہ کی ہنگامہ آرائیوں سے اکتا چکے ہیں ،اور جن کے نزدیک طریقِ نبوت ہی عمل کا راستہ ہے ، نیز اُن لوگوں کے لئے جو اپنے زمانہ کی دینی ویرانی پر حسرت کرتے ہیں ، مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ دہلی بستی نظام لدین میں مولانا محمد الیاس صاحب کی خدمت حاضر ہوں اور ان کے ساتھ کچھ وقت صرف کریں اور میوت میں جاکر تبلیغ کا کام اور اس کا نظام دیکھیں اور اس کے اثرات ملاحظہ فر مائیں ۔
تعجب ہے کہ لوگ تاریخ کے آثار قدیمہ ، بادشاہوں کی منہدم عمارتیں اور شکستہ مقبرے دیکھنے دور دور جاتے ہیں ، لیکن قرون اول کے زندہ نمونے اور اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں دیکھنے کا شوق نہیں ہوتا اور اس کے لئے سفر کی زحمت گوارا کرنے والے بہت کم ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصرت بڑا حجاب ہے ۔
( اقتباس تاریخ ندوۃ العلما لکھنؤ)
تبلیغ کا مقصد
دعوت و تبلیغ دین کی محنت کا ایک وسیع میدان ہے اور اس میدان میں تبلیغی جماعت کا کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ جماعت کی محنت کے اثرات کا مشاہدہ ہر ذی شعور انسان کھلی آنکھوں سے کر سکتا ہے۔یہ ایمانی تحریک پوری دنیا کے ہر اس علاقہ تک پہنچ گئی جہاں مسلمان بستے ہوں۔ ان دین کے خادموں کا مقصد اور بنیادی دعوت یہ ہے کہ تمام امت ِ دعوت اسلام قبول کر کے اللہ جلّ شانہ کے سایہ رحمت میں آ جائے اور تمام امت اجابت یعنی امت مسلمہ میں وہ ایمان اور ایمان والی زندگی عام ہو جائے جس کی دعوت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ اور قرآن مجید میں جس کا مطالبہ اس آیت میں کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا ادخُلُوا فِی السِّلمِ کَآفَّةً
(البقرہ۸۰۲)
”اے لوگو جوایمان لائے ہو ....داخل ہو جا ؤ اسلا م میں پورے کے پو رے.“
اس سلسلے میں وہ حضرت مولاناالیاس دہلوی رحمہ اللہ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ان کی دعوت کا محور دو باتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ تمام مسلمان چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق پورا کرنے والے بن جائیں۔اور دوسری یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے نبیوں والا کام اب ساری امت کے ذمہ ہے۔پھر اس کے ذیل میں وہ دین کی چھ مخصوص صفات کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چھ چیزیں اگرچہ پورا دین ہرگز نہیں لیکن اگر ان کو سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے گا تو پورے دین پر چلنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی۔
ان چھ صفات میںسب سے پہلے کلمہ طیبہ اور اس کے مفہوم و یقین کی دعوت ہے۔ یعنی اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلمے کا دوسرا جز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے۔ اس بنیادی محنت کے بعدبالترتیب نماز، علم و ذکر، اکرامِ مسلم، اخلاص اور دعوت و تبلیغ کی دعوت دی جاتی ہے۔ جماعت کے ساتھی ان صفات کے علاوہ کوئی او ربات مثلاً کسی ”شیخ“ سے بیعت ہونے یا کسی حلقہ سے وابستہ ہونے یا کسی جماعت اور انجمن کاممبر بننے کی نہ دعوت دیتے ہیں اور نہ منع کرتے ہیں، بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جس سلسلے سے چاہیں اصلاحی تعلق قائم کریں۔ خود تبلیغی جماعت کے بانی اور اکابر کی جوعلمائے دیوبندکی طرف نسبت ہے ، اس نسبت کی بھی دعوت نہیں دی جاتی کیوں کہ مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ”جہاں تک ہو سکے یہ کوشش کرو کہ دین کی اس دعوت میں میری ذات اور میرے نام کا ذکر نہ آئے۔“
غرض تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں ، وہ تو صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشورنہیں، کوئی دفتر یا رجسٹر نہیں اور نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے، یہاں تک کہ اس کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ نام تبلیغی جماعت ہم نے نہیں رکھا۔ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے، اس کاکوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی کہنے لگے۔“
اسی طرح جماعت والے اپنی کارگزاریوں کی بھی بالکل شہرت نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام کے لیے اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار و پمفلٹ کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کے وہ بالکل قائل نہیں!....مگر اس کے باوجودکام کاثمر جونکلاوہ سب کے سامنے ہے۔
یورپ اور افریقہ کے وہ علاقے جہاں پورے ملک میںچندمسجدیں ہوا کرتی تھیں، وہاں جماعت کی محنت کو اللہ نے قبول فرمایا اور آج سینکڑوں مساجد ہیں اور کافی ساتھی ایسے ہیں جن کے ہاتھ پر آسٹریلیا اور افریقہ میں ہزاروں ایسے لوگ دوبارہ دائرہ اسلا م میں داخل ہوئے، جو عیسائی اور قادیانی جماعتوں کے دجل و فریب کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئے تھے، لیکن آپ نے کبھی ان کارناموں کے اشتہار نہیں دیکھے ہوں گے، کیوں کہ حضرت مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے کام کا ڈھانچا اخلاص کی بنیاد پر اٹھایا تھا اور یہاں تک دعافرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس کام کو کرامات کی بنیاد پر نہ چلائیے گا۔
اس جماعت میں ہر شخص اپنا خرچہ خود اٹھاتا ہے، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جولاکھوں خرچ کر سکتے ہیں اور آخرت کے اجرو ثواب کی امید پر خرچ بھی کرتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ سامان سر پر رکھ کر مہینوں کے لیے پیدل نکل پڑتے ہیں۔
اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو جماعت کی روز افزوں کامیابی اور ساری دنیا میں پھیلاؤ اسی حکمت عملی کی وجہ سے ہے کہ یہ کام انبیا کرام علیہم السلام کے طریقہ دعوت کے بے حد مشابہ ہونے کی وجہ سے بے حد سادہ ، آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہے۔اس کے علاوہ انبیا کرام علیہم السلام کی سنت میںتبلیغی کام کسی خاص طبقہ کی ہی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ تمام دین کے احیائ، تمام مسلمانوں کی اصلاح اور دائرہ اسلام میں بیش از بیش وسعت کا ذریعہ ہے۔جماعت نے اپنے کام کو کسی ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں کیا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بے دھڑک دین کی دعوت کے لیے محنت کی ۔ انتہائی معمولی شعبہ زندگی کے افراد سے لے کر اخص الخواص تک یکساں ایمان و اعمال کی آواز لگائی۔
جماعت والے ان لوگوں کے پاس بھی گئے جنہیں کبھی کسی نے اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ بھی اللہ کے بندے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ خواجہ سرا اور ناچنے گانے والوں کو بھی دعوت دی گئی !اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان گنت سعید روحوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور یوں تبلیغی جماعت کو ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے داعی مل گئے جو مختلف صلاحیتوں اور استعداد کے مالک تھے۔یہ جماعتیں گویا چلتی پھرتی تربیت گاہیں و خانقاہیں ہیں۔ اس کے ذریعے کچھ بھی نہ ہو تو کم ازکم دین کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور اپنا مال دین کے لیے خرچ کرنے کی عادت پڑتی ہے اور دوسروں کی اصلاح ہو یا نہ ہو اپنی اصلاح کی فکر ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔غرض تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی طلب کو عام کرنا ہے، جس سے مدارس کو طلبہ کثرت سے ملتے رہیں اور خانقاہوں کو ذاکرین ملیں اور ہر عام مسلمان کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے۔
اس ضمن میں ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ چوں کہ یہ تبلیغی کام اپنی اصل میںبہت عمومی حیثیت رکھتا ہے اور ہر قسم کے آدمی اس میں آتے اور کام کرتے ہیں اور ہر ایک کی اصلاح، اس کی استعداد اور حوصلہ کے موافق ہوتی ہے۔اس لیے کسی فرد یا جماعت سے کوتاہی اور غلو ظاہر ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے، جسے جماعت کا اصول یا اس کے اکابر کی طرف منسوب کردینا مناسب نہیں۔ دراصل ہدایات کو غور سے نہ سننے،اصول کی پابندی نہ کرنے اور چھ نمبر سے بڑھ کر بیان کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
جماعت پر غیروں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ تو اکثر نرے الزامات ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے حلقوں میں جو خیر خواہی سے تبلیغی جماعت پر اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یاتو ناواقفیت کا نتیجہ ہوتے ہیںیا پھر عام تبلیغی افراد کے کسی انفرادی عمل کو دیکھ کر اس کو پوری جماعت کی طرف منطبق کر دیا جاتا ہے جو ظاہری بات ہے کہ اصولاً غلط ہے۔ اگرچہ فی نفسہ فکروعمل کی کمی کوتاہی یاغلطی کاامکان بھی رہتاہے مگر دیکھاگیاہے کہ اکابراورجیدعلماءکی طرف سے جب کوئی اصلاح کی کوشش کی گئی تو اسے سنجیدگی سے لیاگیا اوراپنی اصلاح کی گئی۔
اس لیے علم والوں اور بے علموں کو، نئے اور پرانوں کو، متقی اور غیر متقی کو، ذاکر ین اور غافلوں کو سب کو تنقید کرتے وقت ایک معیار پر جانچنا اور ایک وزن سے تولنا صحیح نہیں۔ کسی فرد سے اگر کوتاہی ہو جائے تو اس کو جماعت کا اصول نہیں قرار دینا چاہیے بلکہ نرمی سے اصلاح کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔
ایک عام اعتراض تبلیغی جماعت پر یہ کیا جاتا ہے کہ تبلیغی جماعت کو مسلمانوں کو درپیش کسی بھی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ سے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہیہ لکھتے ہیں کہ: ”اس کام کی بنیاد قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والے اس یقین پر ہے کہ اس زمانہ میں امت مسلمہ کو سارے عالم میں جو اجتماعی یا انفرادی مشکلات و مسائل درپیش ہیں، ان کا سببِ اصلی اور علة العلل یہ ہے کہ امت کی غالب اکثریت اس حقیقی ایمان بالغیب اور اس ایمانی زندگی سے دور ہو گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت کے لیے شرط ہے اور اس میں وہ خدافراموشی اور آخرت سے بے فکری آ گئی ہے جو پچھلے انبیا کرام علیہم السلام کی امتوں کے لیے سراسر تباہی کا باعث بنی۔اور امت کی یہی حالت دوسری قوموں کے اسلام کی طرف آنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ نیز یہ یقین بھی اس تبلیغی کام کی بنیادہے کہ آخرت کا مسئلہ اس دنیوی زندگی کے سارے مسائل سے لاکھوں درجہ زیادہ قابل فکر ہے مگر حالت یہ ہے کہ (امت مسلمہ کے) دنیوی مسائل کی فکر کرنے والوں کی تو کمی نہیں ہے لیکن آخرت کی فکر میں دوڑ دھوپ کرنے والوں کو دیکھنے کے لیے آسمان کی آنکھیں ترستی ہیں۔“
”اے لوگو جوایمان لائے ہو ....داخل ہو جا ؤ اسلا م میں پورے کے پو رے.“
اس سلسلے میں وہ حضرت مولاناالیاس دہلوی رحمہ اللہ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ان کی دعوت کا محور دو باتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ تمام مسلمان چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق پورا کرنے والے بن جائیں۔اور دوسری یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے نبیوں والا کام اب ساری امت کے ذمہ ہے۔پھر اس کے ذیل میں وہ دین کی چھ مخصوص صفات کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چھ چیزیں اگرچہ پورا دین ہرگز نہیں لیکن اگر ان کو سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے گا تو پورے دین پر چلنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی۔
ان چھ صفات میںسب سے پہلے کلمہ طیبہ اور اس کے مفہوم و یقین کی دعوت ہے۔ یعنی اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلمے کا دوسرا جز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے۔ اس بنیادی محنت کے بعدبالترتیب نماز، علم و ذکر، اکرامِ مسلم، اخلاص اور دعوت و تبلیغ کی دعوت دی جاتی ہے۔ جماعت کے ساتھی ان صفات کے علاوہ کوئی او ربات مثلاً کسی ”شیخ“ سے بیعت ہونے یا کسی حلقہ سے وابستہ ہونے یا کسی جماعت اور انجمن کاممبر بننے کی نہ دعوت دیتے ہیں اور نہ منع کرتے ہیں، بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جس سلسلے سے چاہیں اصلاحی تعلق قائم کریں۔ خود تبلیغی جماعت کے بانی اور اکابر کی جوعلمائے دیوبندکی طرف نسبت ہے ، اس نسبت کی بھی دعوت نہیں دی جاتی کیوں کہ مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ”جہاں تک ہو سکے یہ کوشش کرو کہ دین کی اس دعوت میں میری ذات اور میرے نام کا ذکر نہ آئے۔“
غرض تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں ، وہ تو صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشورنہیں، کوئی دفتر یا رجسٹر نہیں اور نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے، یہاں تک کہ اس کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ نام تبلیغی جماعت ہم نے نہیں رکھا۔ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے، اس کاکوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی کہنے لگے۔“
اسی طرح جماعت والے اپنی کارگزاریوں کی بھی بالکل شہرت نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام کے لیے اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار و پمفلٹ کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کے وہ بالکل قائل نہیں!....مگر اس کے باوجودکام کاثمر جونکلاوہ سب کے سامنے ہے۔
یورپ اور افریقہ کے وہ علاقے جہاں پورے ملک میںچندمسجدیں ہوا کرتی تھیں، وہاں جماعت کی محنت کو اللہ نے قبول فرمایا اور آج سینکڑوں مساجد ہیں اور کافی ساتھی ایسے ہیں جن کے ہاتھ پر آسٹریلیا اور افریقہ میں ہزاروں ایسے لوگ دوبارہ دائرہ اسلا م میں داخل ہوئے، جو عیسائی اور قادیانی جماعتوں کے دجل و فریب کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئے تھے، لیکن آپ نے کبھی ان کارناموں کے اشتہار نہیں دیکھے ہوں گے، کیوں کہ حضرت مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے کام کا ڈھانچا اخلاص کی بنیاد پر اٹھایا تھا اور یہاں تک دعافرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس کام کو کرامات کی بنیاد پر نہ چلائیے گا۔
اس جماعت میں ہر شخص اپنا خرچہ خود اٹھاتا ہے، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جولاکھوں خرچ کر سکتے ہیں اور آخرت کے اجرو ثواب کی امید پر خرچ بھی کرتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ سامان سر پر رکھ کر مہینوں کے لیے پیدل نکل پڑتے ہیں۔
اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو جماعت کی روز افزوں کامیابی اور ساری دنیا میں پھیلاؤ اسی حکمت عملی کی وجہ سے ہے کہ یہ کام انبیا کرام علیہم السلام کے طریقہ دعوت کے بے حد مشابہ ہونے کی وجہ سے بے حد سادہ ، آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہے۔اس کے علاوہ انبیا کرام علیہم السلام کی سنت میںتبلیغی کام کسی خاص طبقہ کی ہی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ تمام دین کے احیائ، تمام مسلمانوں کی اصلاح اور دائرہ اسلام میں بیش از بیش وسعت کا ذریعہ ہے۔جماعت نے اپنے کام کو کسی ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں کیا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بے دھڑک دین کی دعوت کے لیے محنت کی ۔ انتہائی معمولی شعبہ زندگی کے افراد سے لے کر اخص الخواص تک یکساں ایمان و اعمال کی آواز لگائی۔
جماعت والے ان لوگوں کے پاس بھی گئے جنہیں کبھی کسی نے اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ بھی اللہ کے بندے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ خواجہ سرا اور ناچنے گانے والوں کو بھی دعوت دی گئی !اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان گنت سعید روحوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور یوں تبلیغی جماعت کو ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے داعی مل گئے جو مختلف صلاحیتوں اور استعداد کے مالک تھے۔یہ جماعتیں گویا چلتی پھرتی تربیت گاہیں و خانقاہیں ہیں۔ اس کے ذریعے کچھ بھی نہ ہو تو کم ازکم دین کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور اپنا مال دین کے لیے خرچ کرنے کی عادت پڑتی ہے اور دوسروں کی اصلاح ہو یا نہ ہو اپنی اصلاح کی فکر ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔غرض تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی طلب کو عام کرنا ہے، جس سے مدارس کو طلبہ کثرت سے ملتے رہیں اور خانقاہوں کو ذاکرین ملیں اور ہر عام مسلمان کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے۔
اس ضمن میں ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ چوں کہ یہ تبلیغی کام اپنی اصل میںبہت عمومی حیثیت رکھتا ہے اور ہر قسم کے آدمی اس میں آتے اور کام کرتے ہیں اور ہر ایک کی اصلاح، اس کی استعداد اور حوصلہ کے موافق ہوتی ہے۔اس لیے کسی فرد یا جماعت سے کوتاہی اور غلو ظاہر ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے، جسے جماعت کا اصول یا اس کے اکابر کی طرف منسوب کردینا مناسب نہیں۔ دراصل ہدایات کو غور سے نہ سننے،اصول کی پابندی نہ کرنے اور چھ نمبر سے بڑھ کر بیان کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
جماعت پر غیروں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ تو اکثر نرے الزامات ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے حلقوں میں جو خیر خواہی سے تبلیغی جماعت پر اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یاتو ناواقفیت کا نتیجہ ہوتے ہیںیا پھر عام تبلیغی افراد کے کسی انفرادی عمل کو دیکھ کر اس کو پوری جماعت کی طرف منطبق کر دیا جاتا ہے جو ظاہری بات ہے کہ اصولاً غلط ہے۔ اگرچہ فی نفسہ فکروعمل کی کمی کوتاہی یاغلطی کاامکان بھی رہتاہے مگر دیکھاگیاہے کہ اکابراورجیدعلماءکی طرف سے جب کوئی اصلاح کی کوشش کی گئی تو اسے سنجیدگی سے لیاگیا اوراپنی اصلاح کی گئی۔
اس لیے علم والوں اور بے علموں کو، نئے اور پرانوں کو، متقی اور غیر متقی کو، ذاکر ین اور غافلوں کو سب کو تنقید کرتے وقت ایک معیار پر جانچنا اور ایک وزن سے تولنا صحیح نہیں۔ کسی فرد سے اگر کوتاہی ہو جائے تو اس کو جماعت کا اصول نہیں قرار دینا چاہیے بلکہ نرمی سے اصلاح کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔
ایک عام اعتراض تبلیغی جماعت پر یہ کیا جاتا ہے کہ تبلیغی جماعت کو مسلمانوں کو درپیش کسی بھی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ سے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہیہ لکھتے ہیں کہ: ”اس کام کی بنیاد قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والے اس یقین پر ہے کہ اس زمانہ میں امت مسلمہ کو سارے عالم میں جو اجتماعی یا انفرادی مشکلات و مسائل درپیش ہیں، ان کا سببِ اصلی اور علة العلل یہ ہے کہ امت کی غالب اکثریت اس حقیقی ایمان بالغیب اور اس ایمانی زندگی سے دور ہو گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت کے لیے شرط ہے اور اس میں وہ خدافراموشی اور آخرت سے بے فکری آ گئی ہے جو پچھلے انبیا کرام علیہم السلام کی امتوں کے لیے سراسر تباہی کا باعث بنی۔اور امت کی یہی حالت دوسری قوموں کے اسلام کی طرف آنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ نیز یہ یقین بھی اس تبلیغی کام کی بنیادہے کہ آخرت کا مسئلہ اس دنیوی زندگی کے سارے مسائل سے لاکھوں درجہ زیادہ قابل فکر ہے مگر حالت یہ ہے کہ (امت مسلمہ کے) دنیوی مسائل کی فکر کرنے والوں کی تو کمی نہیں ہے لیکن آخرت کی فکر میں دوڑ دھوپ کرنے والوں کو دیکھنے کے لیے آسمان کی آنکھیں ترستی ہیں۔“
[تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی از مولانا منظور نعمانی]
اس لیے تبلیغی جماعت سے یہ توقع رکھنا ہرگز مناسب نہیں کہ جماعت دعوت الیٰ اللہ کے میدان میں بھی کام کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کے دوسرے شعبوں میں بھی بھرپور کردار ادا کرے۔ہاں دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دراصل یہ تبلیغی کام اپنی اصل میں، دین کے تمام شعبوں کا خادم ہے۔ دین کے تمام شعبوں کے لیے رجال کار مہیا کرنا تبلیغی جماعت کا کام ہے۔ بے طلبوں اور دنیاداری کی دلدل میں گلے گلے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور ان کے دل میں دین کی طلب پیدا کر کے، دین کے مختلف شعبوں سے وابستہ کرنے کی محنت کرنا اپنی نوعیت کا بڑا زبردست کام ہے۔
بہرحال افراط و تفریط سے بچنے کے لیے حضرات کی یہ خواہش ہے کہ علماءکرام کی سرپرستی میں کام ہو، کیوں کہ جتنا علماءکرام اس مبارک کام کی سرپرستی اور نگرانی کریں گے اتنا ہی کمی بیشی دور ہو کر اعتدال قائم ہو گا اور شکایات کم ہو ں گی ۔یوں تو الحمدللہ کام اس مخصوص ڈھنگ میں شروع بھی ایک جیّد عالم مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ سے ہوااور شروع ہی سے اکابر علماءکرام کی تائید و نصرت بھی اس تبلیغی کام کے ساتھ رہی۔ مثلاًحضرت مولانااشرف علی تھانوی ، حضرت رائے پوری ،حضرت حسین احمد مدنی، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ، حضرت مولاناقاری طیب ،حضرت مولانا علی میاں اور حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور پھر ان اکابر کے خلفاءکرام غرض سب کی پشت پناہی اس جماعت کے ساتھ رہی۔
اس لیے علماءکرام سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ اپنے درس و تدریس اور دوسری علمی مشغولیت کے ساتھ اپنے محلوں کی جماعتوں میں جڑتے رہیں۔ اور سال میں تھوڑا بہت وقت فارغ کر کے جماعت کے ساتھ چلے جائیں تو ان شاءاللہ جماعتوں میں جو ہر قسم کے عامی مسلمان ہوتے ہیں، ان کی نگرانی، اصلاح اور تربیت ہو تی چلی جائے گی۔ اب جماعتیں توبے شمار ہیں مگرکام کی نگرانی کرنے والے یعنی علماءکرام کم ہیں۔ اس وقت بھی صرف اندرون ملک میں کم و بیش پندرہ بیس ہزار جماعتیں ایمان و اعمال سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوں گی اور میری معلومات کے مطابق ساڑھے چھ ہزار علماءکرام اس وقت اندرون ملک سال لگا رہے ہیں۔ یوں اگر ایک عالم ایک جماعت میں ہو تو باقی تین چوتھائی جماعتیں علماءکرام کی صحبت سے محروم ہیں۔
آخر میں دین کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے محترم ساتھیوں سے التجا ہے کہ بے شک اپنے متعین شعبے میں خوب جم کر کام کریں، مگراپنا محاسبہ کرتے رہیں اور دوسرے شعبوں کی کمی ہرگز دل میں نہ لائیں۔کیوں کہ شیطان ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ بس ہمارا کام ہی اصل ہے دین کے دوسرے کام معاذ اللہ کم تر ہیں۔ ایسا سمجھنا بہت خطرے کی بات اور فتنہ کی چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ ربّ العزت کی منشا ہے کہ جس سے اپنے دین کا جو چاہے کام لے۔اس لیے تقابل کی بجائے تعاون کی راہ اپنائیں اور اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کے ممنون ہوں کہ دین کے دوسرے کام جو ہم اپنے شعبہ کی مشغولیت کی وجہ سے نہیں کر پارہے ، ہمارے بھائی اس کام کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔اس نقطہ نظر سے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا، بقدرِ استطاعت ان کے ساتھ تعاون کرنا اور دعاؤں میں ان کو یاد رکھنا ان شاءاللہ آپ کو دین کے سارے شعبوںمیں کام کرنے کا اجر دلوائے گا اور اس کے ساتھ امت میں جوڑکی شکل پیدا ہو کر اجتماعیت پیدا ہو گی جو امت مسلمہ کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس لیے تبلیغی جماعت سے یہ توقع رکھنا ہرگز مناسب نہیں کہ جماعت دعوت الیٰ اللہ کے میدان میں بھی کام کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کے دوسرے شعبوں میں بھی بھرپور کردار ادا کرے۔ہاں دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دراصل یہ تبلیغی کام اپنی اصل میں، دین کے تمام شعبوں کا خادم ہے۔ دین کے تمام شعبوں کے لیے رجال کار مہیا کرنا تبلیغی جماعت کا کام ہے۔ بے طلبوں اور دنیاداری کی دلدل میں گلے گلے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور ان کے دل میں دین کی طلب پیدا کر کے، دین کے مختلف شعبوں سے وابستہ کرنے کی محنت کرنا اپنی نوعیت کا بڑا زبردست کام ہے۔
بہرحال افراط و تفریط سے بچنے کے لیے حضرات کی یہ خواہش ہے کہ علماءکرام کی سرپرستی میں کام ہو، کیوں کہ جتنا علماءکرام اس مبارک کام کی سرپرستی اور نگرانی کریں گے اتنا ہی کمی بیشی دور ہو کر اعتدال قائم ہو گا اور شکایات کم ہو ں گی ۔یوں تو الحمدللہ کام اس مخصوص ڈھنگ میں شروع بھی ایک جیّد عالم مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ سے ہوااور شروع ہی سے اکابر علماءکرام کی تائید و نصرت بھی اس تبلیغی کام کے ساتھ رہی۔ مثلاًحضرت مولانااشرف علی تھانوی ، حضرت رائے پوری ،حضرت حسین احمد مدنی، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ، حضرت مولاناقاری طیب ،حضرت مولانا علی میاں اور حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور پھر ان اکابر کے خلفاءکرام غرض سب کی پشت پناہی اس جماعت کے ساتھ رہی۔
اس لیے علماءکرام سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ اپنے درس و تدریس اور دوسری علمی مشغولیت کے ساتھ اپنے محلوں کی جماعتوں میں جڑتے رہیں۔ اور سال میں تھوڑا بہت وقت فارغ کر کے جماعت کے ساتھ چلے جائیں تو ان شاءاللہ جماعتوں میں جو ہر قسم کے عامی مسلمان ہوتے ہیں، ان کی نگرانی، اصلاح اور تربیت ہو تی چلی جائے گی۔ اب جماعتیں توبے شمار ہیں مگرکام کی نگرانی کرنے والے یعنی علماءکرام کم ہیں۔ اس وقت بھی صرف اندرون ملک میں کم و بیش پندرہ بیس ہزار جماعتیں ایمان و اعمال سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوں گی اور میری معلومات کے مطابق ساڑھے چھ ہزار علماءکرام اس وقت اندرون ملک سال لگا رہے ہیں۔ یوں اگر ایک عالم ایک جماعت میں ہو تو باقی تین چوتھائی جماعتیں علماءکرام کی صحبت سے محروم ہیں۔
آخر میں دین کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے محترم ساتھیوں سے التجا ہے کہ بے شک اپنے متعین شعبے میں خوب جم کر کام کریں، مگراپنا محاسبہ کرتے رہیں اور دوسرے شعبوں کی کمی ہرگز دل میں نہ لائیں۔کیوں کہ شیطان ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ بس ہمارا کام ہی اصل ہے دین کے دوسرے کام معاذ اللہ کم تر ہیں۔ ایسا سمجھنا بہت خطرے کی بات اور فتنہ کی چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ ربّ العزت کی منشا ہے کہ جس سے اپنے دین کا جو چاہے کام لے۔اس لیے تقابل کی بجائے تعاون کی راہ اپنائیں اور اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کے ممنون ہوں کہ دین کے دوسرے کام جو ہم اپنے شعبہ کی مشغولیت کی وجہ سے نہیں کر پارہے ، ہمارے بھائی اس کام کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔اس نقطہ نظر سے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا، بقدرِ استطاعت ان کے ساتھ تعاون کرنا اور دعاؤں میں ان کو یاد رکھنا ان شاءاللہ آپ کو دین کے سارے شعبوںمیں کام کرنے کا اجر دلوائے گا اور اس کے ساتھ امت میں جوڑکی شکل پیدا ہو کر اجتماعیت پیدا ہو گی جو امت مسلمہ کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
مولانا سعد امیر ہے اب اور شوریٰ امیر کے تابع ھے
ReplyDeleteThis comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteاللہ جل شانہ کا کرم ہے کہ اس نے دعوت وتبلیغ والا کام امت میں چالو فرمایا، اور ہم جیسے نالائقوں کو بھی اس عظیم کام میں قبول فرمایا۔
ReplyDelete