Saturday, 17 October 2015

امیرشریعت کی وفات ملتِ اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ:مولانا اسرارالحق قاسمی

(ساگر ٹائمز)

طویل علالت کے بعد آج۷۱اکتوبر امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈکے امیر شریعت،مسلم پرسنل


لابورڈکے جنرل سکریٹری اور ملک کے موقر و ممتاز عالمِ دین مولانا نظام الدین صاحب کا انتقال ہوگیا۔اس اندوہ ناک حادثے پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے معروف عالم دین و ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہاکہ حضرت امیر شریعت کی وفات ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک عظیم خسارہ ہے،جس کی بھرپائی مشکل ہے۔ انھوں نے کہاکہ مولانانظام الدین صاحب ایک ممتاز اور جید عالم دین ہونے کے ساتھ انتظامی امور کوبحسن و خوبی چلانے والے انسان تھے،انھوںنے اپنی زندگی کا بیشترحصہ مسلمانوںکی قابلِ قدرتنظیم امارتِ شرعیہ کے ناظم ، امیرِ شریعت اورمسلم پرسنل لابورڈکے جنرل سکریٹری کے طورپر گزارا اور اس عرصے میں ان کے ذریعے سے امارت اور بورڈکو گوناگوں ترقیات حاصل ہوئیں۔وہ ایک نہایت ہی شریف،بااخلاق اور اصول پسند انسان تھے اور ان کی ذات سے امارتِ شرعیہ اور مسلم پرسنل لابورڈکوبے شمار فوائد حاصل ہوئے۔مولانانے امیر شریعت سے اپنے گہرے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ میرے ان کے ساتھ تاعمرنہایت ہی مخلصانہ روابط رہے اورانھوں نے ہمیشہ خلوص ومحبت کامظاہرہ کیا۔مولانانے اس موقع پرامیر شریعت کے صاحبزادے مولانا عبدالواحد ندوی اور امارت شرعیہ کے ناظم مولانا انیس الرحمن قاسمی سے اظہار تعزیت 
کیااورپسماندگان کیلئے صبرجمیل کی دعاکی ۔

مولانا سید نظام الد

آج امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطے میں تدفین ْ مولانا سید نظام الدین کی رحلت ملک وملت کا عظیم خسارہ ْ حضرت امیرشریعت کی وفات پرمولانامحمدولی رحمانی کااظہارتعزیتْ مولاناکی رحلت سے جوخلاپیداہواہے ملت اس کی کسک کومحسوس کرتی رہے گی:مولاناسیدارشدمدنی ْ ملک بھر سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری
پٹنہ؍ پھلواری شریف، ۱۷؍ اکتوبر: (بصیرت نیوز سروس) امیر شریعت بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ و جنرل سکریٹر ی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒکا انتقال آج مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء؁ روز سنیچر کو مغرب کی نماز کے کچھ ہی دیر بعدانتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ آپ کی عمر تقریبا نوے سال تھی ۔ حضرت کا انتقال نہ صرف بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے لیے بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک حادثہ جانکاہ اور ایک زریں عہد کا خاتمہ ہے ۔ آپ نصف صدی کے عرصہ سے زیادہ سے ملک کے مسلمانوں کے دینی و ملی قائد و رہنما اور مرجع رہے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے پلیٹ فارم سے انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں ، آپ امارت شرعیہ کے امیر ہی نہیں بلکہ امارت کے پیغام کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔آپ کی پیدائش ۱۳؍ مارچ ۱۹۲۷ء؁کو ہوئی ۔ ۱۹۶۵ء؁ میںآپ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے اور یکم نومبر ۱۹۹۹ء؁ سے تادم مرگ وہ امیر شریعت کے عہدے کو زینت بخشتے رہے۔ آپ کی طبیعت پچھلے کچھ مہینوں سے مسلسل علیل تھی مختلف اسپتالوں میں علاج و معالجہ کے بعد بالآخر آپ المعہد العالی کے مہمان خانہ میں ماہر ڈاکٹروںکی نگرانی میں تھے ۔چند دنوں پہلے آپ پر فالج کا بھی حملہ ہوا تھا ۔آپ کے نماز جنازہ کل ۱۸؍ اکتوبر روز اتوار کو بعد نماز ظہر امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطہ میں ادا کی جائے گی ۔امیرِ شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 13مارچ1927ء کو محلہ پرانی جیل، گیا (بہار) میںہوئی تھی اورآپ کے والد قاضی سید حسینؒ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔مرحوم نے ابتدائی تعلیم دربھنگہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے1942ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں سے1946ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی اور1947ء میں تخصص فی الادب کیا اور13مارچ1950ء کو رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔حضرت موصوف ریاض العلوم، ساٹھی میں1948تا1962ء صدر مدرس بھی رہے اور دیگر مقامات پر بھی خدمات انجام دیں۔2سمتبر1998ء کو امیر شریعت خامس کے انتقال کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ 1نومبر1998ء میں امیر شریعت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔بر صغیرمیں عموماً کسی بڑی شخصیت کے گزر جانے کے بعد عوام کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہ وہ کو ن تھا اور کیا تھا؟ خدا کا کرم رہا کہ عارف اقبال ‘ایک نوجوان صحافی نے حضرت مولانا نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات سے عوام کو رو شناس کرانے کے لیے ان کی زندگی ہی میں ایک کتاب بنام ’’باتیں میرِ کارواں کی‘‘ لکھ کر اس روایت کو ختم کیا اور عوام کو حضرت رحمہ اللہ کی ذاتِ والا صفات سے آگاہ کرایا، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔واقعی وہ ملتِ اسلامیہ کے عظیم سپوت اور مشعلِ راہ تھے، جس کی بنا پر ہر ایک دانا و بینا ان کے تقویٰ و قیادت پر بھروسہ کرتا تھا، جیسا کہ مختلف مکتبۂ فکر کے لوگوں نے مولانا کے اس سوانحی خاکے پر مسرت کا اظہار کرکے ثابت کیا ہے، جو کہ کل بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔یہاں حضرت رحمہ اللہ کا ایک ملفوظ نقل کرنے کو جی چاہتا ہے، حضرتؒ نے فرمایا:’’انسان جب شعور و ادراک کی آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے دل کی نگاہ سے نیکی و خیر کے راستے کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے اچھے طور طریقے اپناتا ہے اور جب حضرت نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور آسمانی ہدایت بھی اس کو مہیا ہو جاتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ خیر و شر کے درمیان تمیز کرنے کی اس کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ اسے ہدایت کا ایک راستہ مل جاتا ہے، جس کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں‘‘۔معروف عالم دین و ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے حضرت امیر شریعت کی وفات کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خسارہ قرار دیا ہے جس کی بھرپائی مشکل ہے۔ انھوں نے کہاکہ مولانانظام الدین صاحب ایک ممتاز اور جید عالم دین ہونے کے ساتھ انتظامی امور کوبحسن و خوبی چلانے والے انسان تھے،انھوںنے اپنی زندگی کا بیشترحصہ مسلمانوںکی قابلِ قدرتنظیم امارتِ شرعیہ کے ناظم ، امیرِ شریعت اورمسلم پرسنل لابورڈکے جنرل سکریٹری کے طورپر گزارا اور اس عرصے میں ان کے ذریعے سے امارت اور بورڈکو گوناگوں ترقیات حاصل ہوئیں۔وہ ایک نہایت ہی شریف،بااخلاق اور اصول پسند انسان تھے اور ان کی ذات سے امارتِ شرعیہ اور مسلم پرسنل لابورڈکوبے شمار فوائد حاصل ہوئے۔مولانانے امیر شریعت سے اپنے گہرے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ میرے ان کے ساتھ تاعمرنہایت ہی مخلصانہ روابط رہے اورانھوں نے ہمیشہ خلوص ومحبت کامظاہرہ کیا۔مولانانے اس موقع پرامیر شریعت کے صاحبزادے مولانا عبدالواحد ندوی اور امارت شرعیہ کے ناظم مولانا انیس الرحمن قاسمی سے اظہار تعزیت کیااورپسماندگان کے لیے صبرِ جمیل کی دعاکی ۔خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار فرمایا ہے، انہوںنے کہا کہ حضرت مولانا نظام الدین صاحب جیدعالم دین، ملت کے بڑے قائداور دین وشریعت کی حفاظت کے بڑے علمبردار تھے، انہوںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دین وشریعت کی حفاظت میں لگایا، خدا نے انہیں متعدد صفات وکمالات کا مجموعہ بنایا تھا، اور بڑی صلاحیتوںسے نوازا تھا، جن سبھوں کو انہوںنے دین کی خدمت میں صرف کردیا، وہ ایک اچھے منتظم اور بڑے مدبر تھے،ایک لانبے عرصہ تک امارت شرعیہ کے ناظم رہے، پھرنائب امیر شریعت اور پھر امیر شریعت منتخب ہو کر امارت شرعیہ کو وسیع ومضبوط کرتے رہے، حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد بورڈ نے انہیں اپنا جنرل سکریٹری نامزدکیا، بانی بورڈ حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کے چونکہ وہ تربیت یافتہ تھے، اس لیے انہوں نے بورڈ کو بہتر طریقہ پر چلایا۔ حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں مضافاتی مدرسہ سے امارت شرعیہ لاکر وہاں کا ناظم بنایا، اور پھر ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت کے امیربنے، وہ جامعہ رحمانی، خانقاہ رحمانی اور خود مجھ سے بھی بڑی محبت رکھتے تھے، اور اس عقیدت کا اظہار جامعہ رحمانی کے اجلاس میں آکرہزاروں مخلصین ومحبین جامعہ رحمانی وخانقاہ رحمانی کے مجمع کے سامنے برملا کرتے تھے، صحیح بات یہ ہے کہ ان کے انتقال سے ناقابل تلافی نقصان ہؤا ہے، اور ملت اسلامیہ عظیم خسارہ میں مبتلا ہوئی ہے۔امیر شریعت کے انتقال کی خبر جیسے ہی جامعہ رحمانی آئی ،پورا ماحول سوگوار ہوگیا، تعلیم بند کردی گئی اور ختم قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو اگلے دن بھی جاری رہے گا،انشاء اللہ ۔صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے امیر شریعت بہار واریسہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لابورڈ کے سانحہ ارتحال پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر ملی ودینی حلقوں میں انتہائی دکھ درد کے ساتھ سنی جائے گی کہ امیر شریعت بہار واریسہ طویل علالت کے بعد آج بعد نماز مغرب دارفانی کو چھوڑکر رب حقیقی سے جاملے ۔مولاناکے رحلت سے جو خلاپید ہوا ہے اس کی کسک ہندوستانی مسلمان مدتوں محسوس کریںگے ، اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل سے نوازے اوران کی نگہبانی فرمائے ،دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان اداروںکی حفاظت فرمائے اور ان کی خدمت کے لئے مولاناکانعم البدل عطافرمائے ۔صدرجمعیۃعلماء ہندمولاناسیدارشدمدنی نے تمام مسلمانوں خصوصاجماعتی رفقااور ارباب مدارس سے امیر شریعت کے لئے دعامغفرت اورترقی درجات کی اپیل کی ہے ۔ مولانا مرحوم کی نمازجنازہ کل ۱۸؍اکتوبر کو دوبجے دن پھلواری شریف میں اداکی جائے گی اور وہیں تدفین عمل میں آئے گی مولانا مرحوم دارالعلوم دیوبند کے ہونہارفضلاء میں شمار کئے جاتے تھے ، بخاری شریف شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ سے پڑھی ، طویل عرصہ سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین تھے اورہندوستان کے مشہورادارہ امارت شریعہ بہارواریسہ کے امیر اور مسلم پرسنل لابورڈ کے سکریڑی جنرل تھے ،مولانا مرحوم نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے دونوں اداروںکی ناقابل فراموش خدمات انجام دیکر ان اداروں کے وقارکو باقی وقائم رکھا۔پیام انسانیت ایجو کیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ کے صدر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی اور جنرل سکریٹری مولانا مظفر رحمانی نے موصوف کے سانحہ ارتحال پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے قوم و ملت کا عظیم و ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے ،حضرت امیر شریعت کے انتقال کی خبر ملنے کے فورا بعد مولانا فیضی قاسمی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ حضرت امیر شریعت کی شخصیت ان لوگوں میں سے ایک تھی جو صدیوں کے بعد جنم لیتی ہیں ،انہوں نے کہا میں بلا کسی شک کہ گنجائش کے کہ سکتا ہوںکہ حضرت موصوف ملت کی آبرو اور اس کا قیمتی سر مایہ و اثاثہ تھے جن کے خلا کو پر کر نا آسان نہیں ہوگا۔پیام انسانیت کے جنرل سکریٹری مولانا مظفر رحمانی نے کہا کہ حضرت امیر شریعت اس صدی کی ان بطل جلیل میں سے ایک تھے جن کی ذات پر اسلامی تاریخ اور بہار کے ساتھ پورا ملک ناز کرتا رہے گا ،کیونکہ وہ نہ صرف ایک ساتھ کئ متضاد خوبیوں کے مالک بلکہ گونا گوں صفات کا حسین سنگم تھے ،مولانا مظفر نے کہا کہ مولانا نظام الدین علیہ الرحمہ کی زندگی جامعت و توازن کا ایسا نمونہ تھی جس کی مثال اس عہد میں بہت مشکل سے مل سکے گی ،انہوں نے کہا کہ موصوف کے اندر للہیت کے ساتھ عشق خداوندی ،کمال اتباع سنت ،امت مسلمہ کی فکر ،فراست ایمانی اور حقیقت پسندی یہ تمام خوبیاں ایک ساتھ یکجا تھیں جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھیں ،انہوں نے کہاکہ حضرت امیر شریعت نہ صرف ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل تھے بلکہ انہوں امیر شریعت کہ حیثیت سے اپنے جو نقوش چھوڑے وہ آنے والی زندگی میں ہر فرد و جماعت کے لئے مشعل راہ بنے رہیں گے ۔ان کے علاوہ بصیرت میڈیا گروپ اور بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر مولانا غفران ساجد قاسمی ،ایڈیٹر مولانا مظفر رحمانی ،نیشنل بیورو چیف نازش ہماقاسمی، شارب ضیا رحمانی ،مولانا افتخار رحمانی ،مولانا عباس قاسمی ،مولانا عامر مظہری ،مولانا نقی الزماں سلفی ،حافظ قمر ،مولانا عرفان قاسمی وغیرہ سمیت سینکڑوں علماء نے حضرت امیر شریعت کی رحلت کو ملی خسارہ قرار دیاہے ۔





No comments:

Post a Comment