ایس اے ساگر
صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر یہ یقین کرلیاجائے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کیسے ہوسکتا ہے،اسی نیت کیساتھ مختصر سا جملہ ’ان شاءاللہ‘ کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثناکو اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کیلئے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کیلئے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاءاللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذرپیش کر دیتا ہے۔ ایسے بدنیت لوگوں نے اس کلمہ استثناءکواس قدر بدنام کر دیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کیساتھ ان شاءاللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے جبکہ یہ اللہ کی آیات سے بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا کوئی صاحب ایمان شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔
قریش مکہ کے تین تاریخی سوال:
دراصل کفار مکہ نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہیں یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تونعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا، اور اگر درست جواب دے دیںگے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجودہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان لینا تھا۔ چنانچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ و خضرعلیہم السلام اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اصحاب کہف کون تھے؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ مگر اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورتحال پر چسپاں بھی کردیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی۔
ان شاءاللہ کہنے کی ہدایت:
مختصر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناجبرئیل علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع فرمادیں گے۔لیکن متعینہ وقت تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی، پھر چند دن بعد جبرئیل علیہ السلام وحی کے ذریعہ اس سورہ کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ کیلئے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاءاللہ ضرور کہا کریں ۔یعنی کہ اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ یہ ہدایت اس لئے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں، یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے، لہذا کوئی شخص خواہ پوری صدق دلی اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے’ ان شاءاللہ‘ ضرور کہہ لینا چاہئے۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس قدر مہتمم بالشان جملہ کو آج امت نے نہ صرف تقریری بلکہ تحریر طور پر بھی بدذوقی کا شکار بنا لیا ہے جبکہ قرآن مجید کی یہ18 ویں سورت مکہ میں نازل ہوئی۔
اللہ کے بھروسہ پر نکلنا:
اصحابِ کہف کے متعلق بتایاگیا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کررہا ہے، اور ان کا حال مکہ کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصہ سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جارہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہئے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدہ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح اس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کررہے ہو۔اصحاب کہف کے قصہ سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکہ کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کیساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلہ میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔
چار بڑے بڑے ا دوار:
اس سورت کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اذ اوی الفتیة الی الکھف سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے مضمون میں مذکور ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً 5 نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب 10 نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے ادوار سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور جماعت کو دبانے کیلئے زیادہ تر تضحیک، استہزا، اعتراضات، الزامات، تخویف، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتمادد کر رکھا تھا مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباو ¿ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کئے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبشہ کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کیساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان کو شِعب ابی طالب میں محصور کرکے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کردیا گیا تاہم اس دور میں دو شخصیتیں؛ابو طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پناہی کررہے تھے۔ 10 نبوی میں دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہوگیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکہ کی زندگی تنگ کردی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے حجرت کرنی پڑی۔سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کرلی تھی مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جارہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کیلئے اس سے پہلے کیا کچھ کرچکے ہیں۔
کفر کا باعث:
آج امت کی نہ صرف عام بول چال میں بلکہ تحریر ی اظہار خیال میں بھی اس جملہ کیساتھ ایسی عدم توجہی پائی جاتی ہے کہ اگر کسی غیر کے ہاتھوں سرزد ہوتی تو غضب ہوجاتا۔ حتی کہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جنھیں’ان شاءاللہ‘ اور ’انشاءاللہ‘کے فرق کا بھی علم نہیں کہ ان میں سے کونسا لفظ درست ہے۔جبکہ انشاءکا مطلب ہے تخلیق کیا گیا جبکہ اگر انشاءاللہ کا مطلب دیکھا جائے تونعوذبا اللہ اس کا مطلب ہوا کہ اللہ تخلیق کیا گیا۔اس طرح’ انشائ‘ کو لفظ’ اللہ‘ کیساتھ لکھنانہ صرف قطعی طور پر غلط ہے بلکہ کفر کا باعث بھی ہے۔۔کسی کو شک ہو تو وہ قرآن مجید سے رجوع کرسکتا ہے جس میں متعدد مقامات پرمحض انشاءاستعمال ہوا ہے۔
صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر یہ یقین کرلیاجائے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کیسے ہوسکتا ہے،اسی نیت کیساتھ مختصر سا جملہ ’ان شاءاللہ‘ کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثناکو اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کیلئے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کیلئے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاءاللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذرپیش کر دیتا ہے۔ ایسے بدنیت لوگوں نے اس کلمہ استثناءکواس قدر بدنام کر دیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کیساتھ ان شاءاللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے جبکہ یہ اللہ کی آیات سے بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا کوئی صاحب ایمان شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔
قریش مکہ کے تین تاریخی سوال:
دراصل کفار مکہ نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہیں یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تونعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا، اور اگر درست جواب دے دیںگے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجودہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان لینا تھا۔ چنانچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ و خضرعلیہم السلام اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اصحاب کہف کون تھے؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ مگر اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورتحال پر چسپاں بھی کردیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی۔
ان شاءاللہ کہنے کی ہدایت:
مختصر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناجبرئیل علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع فرمادیں گے۔لیکن متعینہ وقت تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی، پھر چند دن بعد جبرئیل علیہ السلام وحی کے ذریعہ اس سورہ کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ کیلئے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاءاللہ ضرور کہا کریں ۔یعنی کہ اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ یہ ہدایت اس لئے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں، یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے، لہذا کوئی شخص خواہ پوری صدق دلی اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے’ ان شاءاللہ‘ ضرور کہہ لینا چاہئے۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس قدر مہتمم بالشان جملہ کو آج امت نے نہ صرف تقریری بلکہ تحریر طور پر بھی بدذوقی کا شکار بنا لیا ہے جبکہ قرآن مجید کی یہ18 ویں سورت مکہ میں نازل ہوئی۔
اللہ کے بھروسہ پر نکلنا:
اصحابِ کہف کے متعلق بتایاگیا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کررہا ہے، اور ان کا حال مکہ کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصہ سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جارہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہئے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدہ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح اس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کررہے ہو۔اصحاب کہف کے قصہ سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکہ کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کیساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلہ میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔
چار بڑے بڑے ا دوار:
اس سورت کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اذ اوی الفتیة الی الکھف سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے مضمون میں مذکور ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً 5 نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب 10 نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے ادوار سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور جماعت کو دبانے کیلئے زیادہ تر تضحیک، استہزا، اعتراضات، الزامات، تخویف، اطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتمادد کر رکھا تھا مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباو ¿ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کئے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبشہ کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کیساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان کو شِعب ابی طالب میں محصور کرکے ان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کردیا گیا تاہم اس دور میں دو شخصیتیں؛ابو طالب اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پناہی کررہے تھے۔ 10 نبوی میں دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہوگیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکہ کی زندگی تنگ کردی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے حجرت کرنی پڑی۔سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کرلی تھی مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جارہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کیلئے اس سے پہلے کیا کچھ کرچکے ہیں۔
کفر کا باعث:
آج امت کی نہ صرف عام بول چال میں بلکہ تحریر ی اظہار خیال میں بھی اس جملہ کیساتھ ایسی عدم توجہی پائی جاتی ہے کہ اگر کسی غیر کے ہاتھوں سرزد ہوتی تو غضب ہوجاتا۔ حتی کہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جنھیں’ان شاءاللہ‘ اور ’انشاءاللہ‘کے فرق کا بھی علم نہیں کہ ان میں سے کونسا لفظ درست ہے۔جبکہ انشاءکا مطلب ہے تخلیق کیا گیا جبکہ اگر انشاءاللہ کا مطلب دیکھا جائے تونعوذبا اللہ اس کا مطلب ہوا کہ اللہ تخلیق کیا گیا۔اس طرح’ انشائ‘ کو لفظ’ اللہ‘ کیساتھ لکھنانہ صرف قطعی طور پر غلط ہے بلکہ کفر کا باعث بھی ہے۔۔کسی کو شک ہو تو وہ قرآن مجید سے رجوع کرسکتا ہے جس میں متعدد مقامات پرمحض انشاءاستعمال ہوا ہے۔
1. وَهوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ –
(المومن), 78
2. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّه یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیر, ـ
(العنکبوت) 20
3. إِنَّا أَنْشَأْنَاهنَّ إِنْشَاء ً –
(الواقعہ) , 35
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ انشاءکے ساتھ کہیںاللہ نہیں لکھا گیا کیونکہ یہ لفظ الگ معنی رکھتا ہے۔ان شاءاللہ کا مطلب ہے کہ’ اگر اللہ نے چاہا‘جبکہ عربی میں’ان‘ کے معنی ہیں’اگر‘،’شاء‘کے معنی ہیں’چاہا‘جبکہ اللہ اسم ذات ہے جس کا مطلب اللہ ہی ہے نیز’ نے‘ اس میں مخفی ہے۔
لہذا’ ان شاءاللہ ‘لکھنا درست ہے جیساکہ کچھ آیات میں بھی واضح ہے
1. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّه لَمُہْتَدُونَ – (البقرہ) 70
2. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّه آَمِنِینَ –(یوسف) 99
3. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا – (الکہف) 69
4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه مِنَ الصَّالِحِینَ – (القصاص) 27
ان آیات سے ثابت ہے کہ ان شاءاللہ کا مطلب ہے اگر اللہ نے چاہا تو ایسے لکھنا پالکل درست ہے ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے کچھ احادیث بھی ہیں جن سے ثابت ہے کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ اکرام بھی ان شاءاللہ لکھتے آئے ہیں
1. فَقَالَ لَه رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ اللہ (صحیح بخاری) #407
2. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّه أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ – (صحیح مسلم) #295
3. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّه – (سنن ابی داؤد) #421
4. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّه فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ – (ترمذی) #1451
عربی اور عجمیوں کا فرق:
عرب ممالک میں یہ لفظ درست لکھا جاتا ہے لیکن عجم ممالک میں جہاں عربی نہیں بولی جاتی جن میںبر صغیرہند، پاک اور بنگلہ دیش وغیرہ ممالک کے مسلمان لوگ کم علمی میں انشاءاللہ لکھتے ہیں جبکہ یہ قطعی طور پر غلط ہے۔اس خطہ کے لوگ اپنے پیغامات میں’انشاءاللہ‘ لکھ دیتے ہیں جبکہ انھیں’ان شاءاللہ ‘لکھنا چاہئے۔اللہ پاک کی رحیم و کریم ذات سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ انجانے میںمرتکب اس غلطی کو معاف فرمادے کہ وہ بڑا بخشش فرمانے والا ہے۔
ان شاءاللہ کہنے کی خیر:
مفتی صاحب سے زید نے رجوع کیا کہ دوسری شادی کرنے کیلئے میں اپنی بیوی کو ایک سال تک راضی کرتا رہا اور اس کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ میری خواہش تھی کہ وہ مجھے دوسری شادی کی اجازت دے، لیکن وہ اس بات کیلئے تیار نہ ہوئی۔ دوسری شادی کی صورت میں اس نے مجھے چھوڑ کر جانے کی دھمکی دی اور مجھ سے قرآن کی قسم لی کہ میں دوسری شادی نہیں کروں گا۔ میں نے مجبوراً قسم کھائی کہ میں نے دوسری شادی نہ کی ہے اور ان شاءاللہ کروں گا بھی نہیں۔ میری ہرقسم کی کوشش کے باوجود جب وہ راضی نہ ہوئی تو میں نے چھپ کر دوسری شادی کرلی۔ دوسری شادی کے بعد میں نے پہلی بیوی سے کہا کہ میرا دوست کچھ دن میرے پاس رہنے آرہا ہے تم کچھ دنوں کیلئے اپنی اماں کے گھر چلی جاو۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دوسری بیوی کو اسی کے کمرے میں ٹھہرایا۔ بات چھپ نہ سکی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ہفتہ بھر بعد میں نے دونوں بیویوں کو الگ الگ گھر میں رکھنا شروع کر دیا اور مقدور بھر برابری اور انصاف کا برتاو کرتا ہوں۔اب میری پہلی بیوی کے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے پہلے بتانا چاہئے تھا کہ میں مستقبل میں دوسری شادی کروں گا۔ ان کے مطابق میں نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ میں نے قرآن کی قسم بھی توڑی ہے۔ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرا کر میں نے پہلی پر ظلم کیا ہے۔براہ مہربانی راہنمائی کیجئے کہ کیا دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرانا ظلم ہے؟ جس مجبوری میں نے قسم اٹھائی تھی کیا وہ قسم ہوئی؟ اور کیا مجھے اس کے توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے؟
کیا ملا جواب؟
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے میں چند دن ٹھہرانے سے پہلی پر کوئی ظلم نہیں ہوا۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ ایک بیوی کے کہنے پر یا ایک کی وجہ سے دوسری بیوی کو گھر سے نکال دیں یا طلاق دے دیں تو یہ ظلم ہوگا اور عنداللہ آپ کی پکڑ ہوگی۔ اس لئے دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے دوسری سے زیادتی نہ کیجئے۔قسم دیتے وقت آپ نے ’ان شاءاللہ‘ کہا جس کی وجہ سے قسم لغو ہوگئی۔ ایسی قسموں کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہوتا۔ حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
عرب ممالک میں یہ لفظ درست لکھا جاتا ہے لیکن عجم ممالک میں جہاں عربی نہیں بولی جاتی جن میںبر صغیرہند، پاک اور بنگلہ دیش وغیرہ ممالک کے مسلمان لوگ کم علمی میں انشاءاللہ لکھتے ہیں جبکہ یہ قطعی طور پر غلط ہے۔اس خطہ کے لوگ اپنے پیغامات میں’انشاءاللہ‘ لکھ دیتے ہیں جبکہ انھیں’ان شاءاللہ ‘لکھنا چاہئے۔اللہ پاک کی رحیم و کریم ذات سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ انجانے میںمرتکب اس غلطی کو معاف فرمادے کہ وہ بڑا بخشش فرمانے والا ہے۔
ان شاءاللہ کہنے کی خیر:
مفتی صاحب سے زید نے رجوع کیا کہ دوسری شادی کرنے کیلئے میں اپنی بیوی کو ایک سال تک راضی کرتا رہا اور اس کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ میری خواہش تھی کہ وہ مجھے دوسری شادی کی اجازت دے، لیکن وہ اس بات کیلئے تیار نہ ہوئی۔ دوسری شادی کی صورت میں اس نے مجھے چھوڑ کر جانے کی دھمکی دی اور مجھ سے قرآن کی قسم لی کہ میں دوسری شادی نہیں کروں گا۔ میں نے مجبوراً قسم کھائی کہ میں نے دوسری شادی نہ کی ہے اور ان شاءاللہ کروں گا بھی نہیں۔ میری ہرقسم کی کوشش کے باوجود جب وہ راضی نہ ہوئی تو میں نے چھپ کر دوسری شادی کرلی۔ دوسری شادی کے بعد میں نے پہلی بیوی سے کہا کہ میرا دوست کچھ دن میرے پاس رہنے آرہا ہے تم کچھ دنوں کیلئے اپنی اماں کے گھر چلی جاو۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دوسری بیوی کو اسی کے کمرے میں ٹھہرایا۔ بات چھپ نہ سکی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ہفتہ بھر بعد میں نے دونوں بیویوں کو الگ الگ گھر میں رکھنا شروع کر دیا اور مقدور بھر برابری اور انصاف کا برتاو کرتا ہوں۔اب میری پہلی بیوی کے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے پہلے بتانا چاہئے تھا کہ میں مستقبل میں دوسری شادی کروں گا۔ ان کے مطابق میں نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ میں نے قرآن کی قسم بھی توڑی ہے۔ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرا کر میں نے پہلی پر ظلم کیا ہے۔براہ مہربانی راہنمائی کیجئے کہ کیا دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرانا ظلم ہے؟ جس مجبوری میں نے قسم اٹھائی تھی کیا وہ قسم ہوئی؟ اور کیا مجھے اس کے توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے؟
کیا ملا جواب؟
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے میں چند دن ٹھہرانے سے پہلی پر کوئی ظلم نہیں ہوا۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ ایک بیوی کے کہنے پر یا ایک کی وجہ سے دوسری بیوی کو گھر سے نکال دیں یا طلاق دے دیں تو یہ ظلم ہوگا اور عنداللہ آپ کی پکڑ ہوگی۔ اس لئے دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے دوسری سے زیادتی نہ کیجئے۔قسم دیتے وقت آپ نے ’ان شاءاللہ‘ کہا جس کی وجہ سے قسم لغو ہوگئی۔ ایسی قسموں کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہوتا۔ حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اﷲُ فَقَدْ اسْتَثْنَی
’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہوئے فرمایا: جو کسی بات پر قسم کھائے اور ان شاءاللہ کہے تو اس نے استثناء کرلیا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2: 10، رقم: 4581، موسسة قرطبة، مصر
ابي داؤد، السنن، 3: 225، رقم: 3261، دار الفکر
ترمذي، السنن، 4: 108، رقم: 1531، دار احياء التراث العربي بيروت
تیسری بات آپ نے پوچھی کہ مذکورہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے؟ اس کے لئے پہلے اس حوالہ سے چند احکام شرعی کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید فرقان حمید میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے لئے عدل وانصاف شرط ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً
’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔‘‘
النساء، 4: 3
بلکہ حدیث مبارکہ میں تو ایک شادی بھی استطاعت کے ساتھ مشروط ہے، اگر کوئی شخص ایک بیوی کی بھی رہائش، کھانا پینا اور دیگر اخراجات پورے نہیں کر سکتا تو اسے روزے رکھنے کا کہا گیا ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ اَبِي حَمْزَةَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا اَنَا اَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ
نکاح کی فضیلت:
نکاح کی فضیلت:
’’حضرات عبدان، ابو حمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 2: 673، رقم: 1806، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 2: 1019، رقم: 1400، دار احياء التراث العربي بيروت
احمد بن حنبل، المسند، 1: 378، رقم: 3592
ابي داؤد، السنن، 2: 219، رقم: 2046
ابن ماجه، السنن، 1: 592، رقم: 1845، دار الفکر بيروت
اگر آپ دونوں بیویوں کے حقوق پورے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو رہائش، کھانے پینے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور دیگر معاملات میں عدل وانصاف قائم رکھیں۔ کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے کی بجائے دونوں میں برابری کا برتاؤ کریں، ورنہ اس کے بارے میں وعید سنائی گئی ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ مَنْ کَانَتْ لَهُ إِمْرَاَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْاُخْرَی جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2: 347، رقم: 8549
ابن ماجه، السنن، 1: 633، رقم: 1969
ابن حبان، الصحيح، 10: 7، رقم: 4207، موسسة الرسالة بيروت
ابن ابي شيبة، المصنف، 4: 37، رقم: 17548، مکتبة الرشد الرياض
بيهقي، السنن الکبری، 7: 297، رقم: 14515، مکتبة دار الباز مکة المکرمة
سلیمان بن داؤد، اسحاق بن راہویہ، عبداﷲ بن علی بن الجارود، علی بن علی بن ابو بکر اور دیگر محدثین نے بھی اس حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے۔
لہٰذا آپ کا فریضہ ہے کہ دونوں بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کریں۔ ان شاءاللہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ان شاءاللہ کہنا بھول جائے تو ؟
22243: ان شاءاللہ کہنے میں تاخیرکرنا...اگر ان شاءاللہ کہنا بھول جاۓ تو کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ طویل وقت کے بعد کہہ لے ؟
الحمد للہ
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کہنے ہیں :
اللہ تعالی کا فرمان :
واذکرربک اذانسیت
جب آپ بھول جائيں تواپنے رب کویادکریں ۔
الکھف ( 24 ) ۔
اس آیت میں علماء تفسیر کے دوقول معروف ہیں :
اول :
یہ آیت اپنے سے پہلی والی آيت سے متعلق ہے ، اورمعنی یہ ہے :
اگر آپ نے کوئ کام کرنے کا کہا لیکن ان شاء اللہ کہنا بھول گۓ پھر آپ کویاد آیا توآپ اس وقت ان شاء اللہ کہہ لیں ، یعنی آّپ کوئ بھی کام کرنے کا کہیں تواسے اللہ تعالی کی مشیئت کے ساتھ معلق کرنے کے لیے ان شاءاللہ کہنابھول جائيں توجب یاد آۓ کہ لیں ۔
یہی قول ظاہرہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا اس سے پہلے والافرمان اسی پر دلالت کررہا ہے :
ولاتقولن لشئ انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ
اور کسی چيز کے بارہ میں ہرگز ہرگز یہ کہنا کہ میں یہ کام کل کروں گا، مگر ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ لینا ۔
جمہور علماء کا قول بھی یہی ہے ، اس قول کے قائلین میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور حسن بصری اور ابوالعالیۃ رحمہما اللہ تعالی وغیرہ ہیں ۔
اصحاب کہف کا قصہ:
سورہ الکہف میںیوں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غار والوںاور کتبہ و الوں کا معاملہ ہماری نشانیوں میں سے کوئی بڑی عجیب نشانی تھا؟جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے! اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔ تو ہم نے انھیں اس غار میں تھپکی دے کر کئی سال تک کیلئے سلا دیا۔۔ پھر ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ ہر دو فریق میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک حساب رکھتا ہے۔ ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتاتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید رہنمائی بخشی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا جب انہوں نے کھڑا ہو کر اعلان کیا کہ:
ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ ایک بعید از عقل بات ہوگی۔“ (پھر آپس میں کہنے لگے) ”یہ ہماری قوم کے لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھا ہے تو پھر یہ ان کے الٰہ ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر تہمت لگائے۔ اور اب جبکہ تم لوگوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے جنہیں یہ لوگ پوجتے ہیں، کنارہ کر ہی لیا ہے تو آو ¿ اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت وسیع کردے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی پیدا کردے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ جب سورج نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف سے ہٹا رہتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف کترا کر غروب ہوتا ہے اور وہ نوجوان اس غار کی وسیع جگہ میں لیٹے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاسکتا ہے اور جسے وہ بھٹکا دے تو آپ اس کیلئے ایسا کوئی مددگار نہ پائیں گے جو اسے راہ راست پر لاسکے۔ (اے مخاطب تو انھیں دیکھے تو ) سمجھے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا اس غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو انھیں جھانک کر دیکھے تو دہشت کے مارے بھاگ نکلے۔ اسی طرح ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں کچھ سوال جواب کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا :
”بھلا تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟“
ان میں سے کچھ نوجوانوں نے کہاکہ: ”یہی کوئی ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“
اور بعض نے کہاکہ ”یہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے۔ اب یوں کرو کہ اپنا چاندی کا روپیہ (سکہ) دے کر کسی ایک کو شہر بھیجو کہ وہ دیکھے کہ صاف سھترا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ آپ کیلئے کچھ کھانے کو لائے اور اسے نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو آپ لوگوں کا پتہ چل جائے۔ کیونکہ اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے۔ اندریں صورت تم کبھی فلاح نہ پاسکو گے۔ اس طرح ہم نے لوگوں کوان نوجوانوں پر مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت بپا ہونے میں کوئی شک نہیں جبکہ وہ آپس میں ان نوجوانوں کے معاملہ میں جھگڑا کر رہے تھے۔ آخر ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہاں ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا معاملہ ان کا پروردگار ہی خوب جانتا ہے۔ مگر جو لوگ اس جھگڑے میں غالب رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں ان پر مسجد بنائیں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ ان سے کہئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی ٹھیک تعداد جانتا ہے جسے چند لوگوں کے سوا دوسرے نہیں جانتے۔ لہذا آپ سرسری سی بات کے علاوہ ان سے بحث میں نہ پڑئیے اور ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھئے نہیں۔ نیز کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہئے کہ میں کل یہ ضرور کردوں گا۔اِلا یہ کہ اللہ چاہے۔ اور اگر آپ بھول کر ایسی بات کہہ دیں تو فوراً اپنے پروردگار کو یاد کیجئے اور کہئے کہ: امید ہے کہ میرا پروردگار اس معاملہ میں صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔ وہ نوجوان اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے رہے اور (کچھ لوگوں نے) نوسال زیادہ شمار کئے۔ آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جتنی مدت وہ ٹھہرے رہے، اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں۔ وہ کیا ہی خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ ان چیزوں کا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور منتظم نہیں اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
قریش مکہ کے حالات سے مطابقت:
اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کر دی ہے جو انسانی ہدایت کیلئے نہایت ضروری ہیں جیساکہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔
اصحاب کہف کاغار میں پناہ لینا:
عام روایات، کتب سیر اور قرآن کریم کے اشارہ کے مطابق یہ نوجوان سات تھے توحید پرست تھے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس وقت کا رومی بادشاہ دقیانوس Decius خود بت پرست اور مشرک تھا عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث تاہنوز وضع نہیں ہوا تھا یہ عقیدہ مدتوں بعد چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا لہذا ان ایام میں عیسائی توحیدپرست ہی ہوتے تھے ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کس طرح سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبور کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے مناسب یہی سمجھا کہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوجائیں چنانچہ انہوں نے ایک پہاڑ کی ایک کھلی غار میں روپوش ہوجانے پر اتفاق کر لیا اور اپنے گھر بار چھوڑ کر منتخب کردہ غار میں جا پناہ لی اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی سن آئے اور موجودہ صورتحال سے باقی ساتھیوں کو بھی مطلع کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہماری صحیح رہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما۔
دعا کی قبولیت اور طویل مدت کیلئے نیند یہ لوگ غار میں داخل تو اس نیت سے ہوئے تھے کہ گاہے گاہے ان میں سے ایک شخص بھیس بدل کر اشیائے خوردنی لایا کرے گا اور یہ معلوم کرے گا کہ اب ان کے متعلق لوگوں میں کیا چرچا ہو رہا ہے اور حالات کس رخ پر جارہے ہیں مگر ہوا یہ کہ جب یہ لوگ اللہ سے دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے تو آرام کرنے کی خاطر وہاں لیٹ گئے تو اللہ نے ان پر ایک طویل مدت کیلئے نیند طاری کردی اور ان کے کانوں پر یوں تھپکی دی جیسے ماں بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے چنانچہ وہ سالہا سال تک اسی طرح پڑے سوئے رہے اور یہ ان کی دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انھیں طویل مدت تک سلا کر حکومت کے ظلم و تشدد سے انھیں نجات دلائی۔
ایمان پر ڈٹ جانا :
اسی حالت میں سوئے ہوئے انھیں صدیاں گزر گئیں پھر جب اللہ نے چاہا انھیں بیدار کر دیا۔ بیدار کرنے کے بعد ان کا آپس میں پہلا سوال یہ تھا کہ ہم کو اس حالت میں سوئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہوگا؟ اس مدت کے تعین میں ان میں اختلاف واقع ہوگیا اس لئے کہ ان کے پاس یہ مدت معلوم کرنے یا اس کی تعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوا اس کے کہ وہ دھوپ سے وقت کے متعلق کچھ اندازہ کرسکیں۔مزید رہنمائی سے مراد اپنے ایمان پر ڈٹ جانا ہے جیساکہ اگلی آیت میں ان کے اعلان سے معلوم ہو رہا ہے انھیں زبان سے کفر و شرک کا کلمہ کہنا اس قدر دشوار تھا کہ انہوں نے ایسی بات کہنے پر اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑنے کو ترجیح دی اور سوسائٹی کی نظروں سے روپوش ہوگئے۔
شرکیہ رسوم ورواج :
جس زمانہ میں ان توحید پرست نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اس وقت شہر اِفس ±س جس کے یہ لوگ باشندے تھے، ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا پاٹ کیلئے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر، عامل، فال گیر اور تعویذ لکھنے والے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کوحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں توحید پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے رکوع میں آرہا ہے کہ اگر انھیں ہم پر اختیار مل گیا تو وہ لوگ یا تو ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے یا پھر ہمیں اسی بت پرستی اور شرک والے مذہب میں واپس چلے جانے پر مجبور کردیں گے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اپنے دامن رحمت میں لے کر صدیوں تک ان پر نیند طاری کردی اور جب جاگے تو یہ توحید اور توحید پرستوں کا دشمن بادشاہ دقیانوس مرکھپ چکا تھا اور جو موجودہ بادشاہ تھا اس نے عیسائیت کا مذہب قبول کر لیا تھا اس بادشاہ کا نام قیصر تھیوڈوسیس Theodosius ثانی بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت کا مذہب قبول کر لیا تھا لہذا اب توحید پرستوں پر کوئی ایسی سختی نہ رہی تھی جو دقیانوس کے زمانہ میں تھی۔
غار کا محل وقوع اور ہوا کی آمد ورفت:
اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اور دوسری طرف کچھ چھوٹے موٹے سوراخ تھے لیکن وہ اتنے تنگ تھے کہ ان میں سے آدمی گزر نہیں سکتا تھا اس طرح غار میں ہوا کی آمدورفت بھی رہتی تھی اور گاہے گاہے سورج کی روشنی اور دھوپ بھی اندر پہنچ جاتی تھی لیکن چونکہ اس کا دہانہ شمال کی جانب تھا لہذا دھوپ کی شدت اور تمازت سے یہ لوگ بالکل محفوظ تھے۔ سانس لینے کیلئے جس قدر تازہ ہوا یا آکسیجن کی ضرورت تھی وہ بھی انھیں مہیا ہو رہی تھی اور صحت کیلئے جتنی دھوپ ضروری تھی وہ بھی چھوٹے موٹے سوراخ سے اندر پہنچ جاتی تھی۔یعنی اللہ تعالیٰ کا ان توحید پرستوں کو ایسی غار کی جانب رہنمائی کر دینا پھر انھیں صدیوں تک سلائے رکھنا یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں راہ ہدایت پر ثابت قدم رکھا بلا شبہ جو شخص راہ ہدایت پر ڈٹ جانے کا عزم کر لیتا ہے تو اللہ اس کیلئے کوئی راہ پیدا فرما دیتا ہے جس سے اس کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔
پہرہ دار کتا:
اگرچہ ان لوگوں پر گہری نیند کا غلبہ تھا تاہم ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہ پڑتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں سوئے ہوئے نہیں ہیں پھر غار کے دہانے پر ان کا محافظ کتا بھی ایسے بیٹھا تھا جیسے جاگنے کی حالت میں کتے بیٹھتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھی کھلی تھیں اور ادھر سے کسی کا گزر ہوتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غار کے اندر کوئی ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں اور یہ کتا ان کی رکھوالی کر رہا ہے اگر کوئی ان کے نزدیک گیا تو یہ کتا پھاڑنے اور کاٹنے کو آئے گا اور اس کی آواز سے اس کا مالک خبردار ہو کر ممکن ہے حملہ کر دے گویا یہ ایسا وحشت ناک منظر اور تصور تھا کہ وہاں کوئی نزدیک جانے کی جرات بھی نہ کرتا تھا اور نیند کے اس طویل عرصہ کے دوران ان کی کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے ایک عام حالت میں سونے والے کی ہوتی ہے اور وہ حسب ضرورت اور بہ تقاضائے جسم نیند کی حالت میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اپنی کروٹ بدلتا رہتا ہے۔
طویل نیند کے بعد بیداری:
جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کیلئے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے۔ انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا جبکہ عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہذا کھانا لانے کیلئے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دوکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لئے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کر دیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔
سازگارحالات:
جب کھانا لانے والا شخص شہر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے تہذیب و تمدن ‘لباس اور وضع قطع میں نمایاں فرق واقع ہوچکا تھا۔ زبان میں خاصا فرق پڑ گیا تھا اور جب لوگوں نے اس نوجوان کو دیکھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن وہ ان سے گریز کرتا رہا پھر جب اس نے کھانا خریدنے کے وقت کئی صدیاں پہلے کا سکہ پیش کیا تو دوکاندار اور آس پاس والے سب آدمی اس نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔انھیں یہ شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفینہ مل گیا ہے، چنانچہ اسی شک و شبہ کی بنا پر لوگوں نے اسے پکڑ کر حکام بالا کے سامنے پیش کردیا اور جب اس نوجوان نے بھی اپنا بیان دیا تو یہ معاملہ کھلا کہ یہ تو وہی پیروان مسیح ہیں جو کئی صدیاں پیشتر یکدم روپوش ہوگئے تھے اور جن کا ریکارڈ اب تک سرکاری دفتروں میں منتقل ہوتا چلا آرہا تھا۔ یہ خبر آناً فاناً ساری عیسائی آبادی میں پھیل گئی جس بات سے وہ لوگ بچنا چاہتے تھے اللہ نے سب لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا۔ فرق یہ تھا کہ جب وہ مفرور اور روپوش ہوئے تھے اس وقت وہ معاشرہ اور حکومت کے مجرم تھے لیکن اس وقت وہ سب کی نظروں میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اور محترم تھے۔ راجح قول ہے کہ کھانا لانے والا بھی واپس غار میں چلا گیا وہ پھر پہلے کی طرح لیٹ گئے۔
اللہ اسباب کے پابند نہیں:
اس واقعہ کا پہلا سبق یہ ہے کہ اگر خارج میں بدترین ماحول ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں وہ اسباب کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ ماورائے اسباب بھی اپنے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے یہ دنیا اسباب کے اصول پر بنائی تو ضرور ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں۔ اسی طرح اسباب کی وجہ سے خدا کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ تو اسباب سے بلند تر ہے اور بار بار مداخلت کرکے یہ بتاتا رہتا ہے کہ یہاں اسباب سے بلند تر ایک ہستی موجود ہے۔
آخرت کو نہ بھولیں:
یہ دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل زندگی نہیں بلکہ وہ زندگی موت کے بعد شروع ہوگی جب سارے مردے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اصحاب کہف کا واقعہ اس بات پر یقین کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ چنانچہ تہذیب جدید کے اسباب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر خدا اور آخرت کوبھول جانے کا رویہ قطعاً درست نہیں۔ بلکہ ہر مشکل کو جھیل کر خدا پر بھروسہ کرکے اس کی پسند کی زندگی گزارنا ہی اصل مقصود ہے۔
فضول بحث سے اجتناب کا حکم:
اصحاب کہف سے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیاکہ یہ بات کسی اور سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بحث اس لحاظ سے بالکل بے کار ہے کہ اس پر کسی عمل کی بنیاد نہیں اٹھتی۔اسی سلسلہ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ علیہم السلام کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کیلئے سامان تسلی بھی۔ اس قصہ میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لئے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک ہورہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کیلئے ہوتی ہے۔
بھروسہ کے لائق صرف اللہ :
اس کے بعد قصہ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سرِ تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور باغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرف الٹ دینے کے بعد خاتمہ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔اس تحریر کے ذریعہ اگر ’انشا ءاللہ ‘کی وہ عظمت نصیب ہوگئی جو اللہ کو مطلوب ہے تو نہ صرف مطالعہ کی بلکہ لکھنے والی کی بھی گویا محنت وصول ہوگئی!
سورہ الکہف میںیوں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غار والوںاور کتبہ و الوں کا معاملہ ہماری نشانیوں میں سے کوئی بڑی عجیب نشانی تھا؟جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے! اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔ تو ہم نے انھیں اس غار میں تھپکی دے کر کئی سال تک کیلئے سلا دیا۔۔ پھر ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ ہر دو فریق میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک حساب رکھتا ہے۔ ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتاتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید رہنمائی بخشی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا جب انہوں نے کھڑا ہو کر اعلان کیا کہ:
ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ ایک بعید از عقل بات ہوگی۔“ (پھر آپس میں کہنے لگے) ”یہ ہماری قوم کے لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھا ہے تو پھر یہ ان کے الٰہ ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر تہمت لگائے۔ اور اب جبکہ تم لوگوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے اور ان کے معبودوں سے جنہیں یہ لوگ پوجتے ہیں، کنارہ کر ہی لیا ہے تو آو ¿ اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت وسیع کردے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی پیدا کردے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ جب سورج نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف سے ہٹا رہتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف کترا کر غروب ہوتا ہے اور وہ نوجوان اس غار کی وسیع جگہ میں لیٹے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاسکتا ہے اور جسے وہ بھٹکا دے تو آپ اس کیلئے ایسا کوئی مددگار نہ پائیں گے جو اسے راہ راست پر لاسکے۔ (اے مخاطب تو انھیں دیکھے تو ) سمجھے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا اس غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو انھیں جھانک کر دیکھے تو دہشت کے مارے بھاگ نکلے۔ اسی طرح ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں کچھ سوال جواب کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا :
”بھلا تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟“
ان میں سے کچھ نوجوانوں نے کہاکہ: ”یہی کوئی ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“
اور بعض نے کہاکہ ”یہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے۔ اب یوں کرو کہ اپنا چاندی کا روپیہ (سکہ) دے کر کسی ایک کو شہر بھیجو کہ وہ دیکھے کہ صاف سھترا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ آپ کیلئے کچھ کھانے کو لائے اور اسے نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو آپ لوگوں کا پتہ چل جائے۔ کیونکہ اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے۔ اندریں صورت تم کبھی فلاح نہ پاسکو گے۔ اس طرح ہم نے لوگوں کوان نوجوانوں پر مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت بپا ہونے میں کوئی شک نہیں جبکہ وہ آپس میں ان نوجوانوں کے معاملہ میں جھگڑا کر رہے تھے۔ آخر ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہاں ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا معاملہ ان کا پروردگار ہی خوب جانتا ہے۔ مگر جو لوگ اس جھگڑے میں غالب رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں ان پر مسجد بنائیں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ ان سے کہئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی ٹھیک تعداد جانتا ہے جسے چند لوگوں کے سوا دوسرے نہیں جانتے۔ لہذا آپ سرسری سی بات کے علاوہ ان سے بحث میں نہ پڑئیے اور ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھئے نہیں۔ نیز کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہئے کہ میں کل یہ ضرور کردوں گا۔اِلا یہ کہ اللہ چاہے۔ اور اگر آپ بھول کر ایسی بات کہہ دیں تو فوراً اپنے پروردگار کو یاد کیجئے اور کہئے کہ: امید ہے کہ میرا پروردگار اس معاملہ میں صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔ وہ نوجوان اپنے غار میں تین سو سال ٹھہرے رہے اور (کچھ لوگوں نے) نوسال زیادہ شمار کئے۔ آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جتنی مدت وہ ٹھہرے رہے، اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں۔ وہ کیا ہی خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ ان چیزوں کا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور منتظم نہیں اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
قریش مکہ کے حالات سے مطابقت:
اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کر دی ہے جو انسانی ہدایت کیلئے نہایت ضروری ہیں جیساکہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔
اصحاب کہف کاغار میں پناہ لینا:
عام روایات، کتب سیر اور قرآن کریم کے اشارہ کے مطابق یہ نوجوان سات تھے توحید پرست تھے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس وقت کا رومی بادشاہ دقیانوس Decius خود بت پرست اور مشرک تھا عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث تاہنوز وضع نہیں ہوا تھا یہ عقیدہ مدتوں بعد چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا لہذا ان ایام میں عیسائی توحیدپرست ہی ہوتے تھے ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کس طرح سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبور کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے مناسب یہی سمجھا کہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوجائیں چنانچہ انہوں نے ایک پہاڑ کی ایک کھلی غار میں روپوش ہوجانے پر اتفاق کر لیا اور اپنے گھر بار چھوڑ کر منتخب کردہ غار میں جا پناہ لی اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی سن آئے اور موجودہ صورتحال سے باقی ساتھیوں کو بھی مطلع کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہماری صحیح رہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما۔
دعا کی قبولیت اور طویل مدت کیلئے نیند یہ لوگ غار میں داخل تو اس نیت سے ہوئے تھے کہ گاہے گاہے ان میں سے ایک شخص بھیس بدل کر اشیائے خوردنی لایا کرے گا اور یہ معلوم کرے گا کہ اب ان کے متعلق لوگوں میں کیا چرچا ہو رہا ہے اور حالات کس رخ پر جارہے ہیں مگر ہوا یہ کہ جب یہ لوگ اللہ سے دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے تو آرام کرنے کی خاطر وہاں لیٹ گئے تو اللہ نے ان پر ایک طویل مدت کیلئے نیند طاری کردی اور ان کے کانوں پر یوں تھپکی دی جیسے ماں بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے چنانچہ وہ سالہا سال تک اسی طرح پڑے سوئے رہے اور یہ ان کی دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انھیں طویل مدت تک سلا کر حکومت کے ظلم و تشدد سے انھیں نجات دلائی۔
ایمان پر ڈٹ جانا :
اسی حالت میں سوئے ہوئے انھیں صدیاں گزر گئیں پھر جب اللہ نے چاہا انھیں بیدار کر دیا۔ بیدار کرنے کے بعد ان کا آپس میں پہلا سوال یہ تھا کہ ہم کو اس حالت میں سوئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہوگا؟ اس مدت کے تعین میں ان میں اختلاف واقع ہوگیا اس لئے کہ ان کے پاس یہ مدت معلوم کرنے یا اس کی تعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوا اس کے کہ وہ دھوپ سے وقت کے متعلق کچھ اندازہ کرسکیں۔مزید رہنمائی سے مراد اپنے ایمان پر ڈٹ جانا ہے جیساکہ اگلی آیت میں ان کے اعلان سے معلوم ہو رہا ہے انھیں زبان سے کفر و شرک کا کلمہ کہنا اس قدر دشوار تھا کہ انہوں نے ایسی بات کہنے پر اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑنے کو ترجیح دی اور سوسائٹی کی نظروں سے روپوش ہوگئے۔
شرکیہ رسوم ورواج :
جس زمانہ میں ان توحید پرست نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اس وقت شہر اِفس ±س جس کے یہ لوگ باشندے تھے، ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا پاٹ کیلئے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر، عامل، فال گیر اور تعویذ لکھنے والے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کوحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں توحید پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے رکوع میں آرہا ہے کہ اگر انھیں ہم پر اختیار مل گیا تو وہ لوگ یا تو ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے یا پھر ہمیں اسی بت پرستی اور شرک والے مذہب میں واپس چلے جانے پر مجبور کردیں گے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اپنے دامن رحمت میں لے کر صدیوں تک ان پر نیند طاری کردی اور جب جاگے تو یہ توحید اور توحید پرستوں کا دشمن بادشاہ دقیانوس مرکھپ چکا تھا اور جو موجودہ بادشاہ تھا اس نے عیسائیت کا مذہب قبول کر لیا تھا اس بادشاہ کا نام قیصر تھیوڈوسیس Theodosius ثانی بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت کا مذہب قبول کر لیا تھا لہذا اب توحید پرستوں پر کوئی ایسی سختی نہ رہی تھی جو دقیانوس کے زمانہ میں تھی۔
غار کا محل وقوع اور ہوا کی آمد ورفت:
اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اور دوسری طرف کچھ چھوٹے موٹے سوراخ تھے لیکن وہ اتنے تنگ تھے کہ ان میں سے آدمی گزر نہیں سکتا تھا اس طرح غار میں ہوا کی آمدورفت بھی رہتی تھی اور گاہے گاہے سورج کی روشنی اور دھوپ بھی اندر پہنچ جاتی تھی لیکن چونکہ اس کا دہانہ شمال کی جانب تھا لہذا دھوپ کی شدت اور تمازت سے یہ لوگ بالکل محفوظ تھے۔ سانس لینے کیلئے جس قدر تازہ ہوا یا آکسیجن کی ضرورت تھی وہ بھی انھیں مہیا ہو رہی تھی اور صحت کیلئے جتنی دھوپ ضروری تھی وہ بھی چھوٹے موٹے سوراخ سے اندر پہنچ جاتی تھی۔یعنی اللہ تعالیٰ کا ان توحید پرستوں کو ایسی غار کی جانب رہنمائی کر دینا پھر انھیں صدیوں تک سلائے رکھنا یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں راہ ہدایت پر ثابت قدم رکھا بلا شبہ جو شخص راہ ہدایت پر ڈٹ جانے کا عزم کر لیتا ہے تو اللہ اس کیلئے کوئی راہ پیدا فرما دیتا ہے جس سے اس کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔
پہرہ دار کتا:
اگرچہ ان لوگوں پر گہری نیند کا غلبہ تھا تاہم ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہ پڑتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں سوئے ہوئے نہیں ہیں پھر غار کے دہانے پر ان کا محافظ کتا بھی ایسے بیٹھا تھا جیسے جاگنے کی حالت میں کتے بیٹھتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھی کھلی تھیں اور ادھر سے کسی کا گزر ہوتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غار کے اندر کوئی ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں اور یہ کتا ان کی رکھوالی کر رہا ہے اگر کوئی ان کے نزدیک گیا تو یہ کتا پھاڑنے اور کاٹنے کو آئے گا اور اس کی آواز سے اس کا مالک خبردار ہو کر ممکن ہے حملہ کر دے گویا یہ ایسا وحشت ناک منظر اور تصور تھا کہ وہاں کوئی نزدیک جانے کی جرات بھی نہ کرتا تھا اور نیند کے اس طویل عرصہ کے دوران ان کی کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے ایک عام حالت میں سونے والے کی ہوتی ہے اور وہ حسب ضرورت اور بہ تقاضائے جسم نیند کی حالت میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اپنی کروٹ بدلتا رہتا ہے۔
طویل نیند کے بعد بیداری:
جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کیلئے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے۔ انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا جبکہ عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہذا کھانا لانے کیلئے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دوکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لئے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کر دیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔
سازگارحالات:
جب کھانا لانے والا شخص شہر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے تہذیب و تمدن ‘لباس اور وضع قطع میں نمایاں فرق واقع ہوچکا تھا۔ زبان میں خاصا فرق پڑ گیا تھا اور جب لوگوں نے اس نوجوان کو دیکھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن وہ ان سے گریز کرتا رہا پھر جب اس نے کھانا خریدنے کے وقت کئی صدیاں پہلے کا سکہ پیش کیا تو دوکاندار اور آس پاس والے سب آدمی اس نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔انھیں یہ شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفینہ مل گیا ہے، چنانچہ اسی شک و شبہ کی بنا پر لوگوں نے اسے پکڑ کر حکام بالا کے سامنے پیش کردیا اور جب اس نوجوان نے بھی اپنا بیان دیا تو یہ معاملہ کھلا کہ یہ تو وہی پیروان مسیح ہیں جو کئی صدیاں پیشتر یکدم روپوش ہوگئے تھے اور جن کا ریکارڈ اب تک سرکاری دفتروں میں منتقل ہوتا چلا آرہا تھا۔ یہ خبر آناً فاناً ساری عیسائی آبادی میں پھیل گئی جس بات سے وہ لوگ بچنا چاہتے تھے اللہ نے سب لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا۔ فرق یہ تھا کہ جب وہ مفرور اور روپوش ہوئے تھے اس وقت وہ معاشرہ اور حکومت کے مجرم تھے لیکن اس وقت وہ سب کی نظروں میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اور محترم تھے۔ راجح قول ہے کہ کھانا لانے والا بھی واپس غار میں چلا گیا وہ پھر پہلے کی طرح لیٹ گئے۔
اللہ اسباب کے پابند نہیں:
اس واقعہ کا پہلا سبق یہ ہے کہ اگر خارج میں بدترین ماحول ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں وہ اسباب کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ ماورائے اسباب بھی اپنے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے یہ دنیا اسباب کے اصول پر بنائی تو ضرور ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں۔ اسی طرح اسباب کی وجہ سے خدا کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ تو اسباب سے بلند تر ہے اور بار بار مداخلت کرکے یہ بتاتا رہتا ہے کہ یہاں اسباب سے بلند تر ایک ہستی موجود ہے۔
آخرت کو نہ بھولیں:
یہ دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل زندگی نہیں بلکہ وہ زندگی موت کے بعد شروع ہوگی جب سارے مردے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اصحاب کہف کا واقعہ اس بات پر یقین کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ چنانچہ تہذیب جدید کے اسباب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر خدا اور آخرت کوبھول جانے کا رویہ قطعاً درست نہیں۔ بلکہ ہر مشکل کو جھیل کر خدا پر بھروسہ کرکے اس کی پسند کی زندگی گزارنا ہی اصل مقصود ہے۔
فضول بحث سے اجتناب کا حکم:
اصحاب کہف سے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیاکہ یہ بات کسی اور سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بحث اس لحاظ سے بالکل بے کار ہے کہ اس پر کسی عمل کی بنیاد نہیں اٹھتی۔اسی سلسلہ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ علیہم السلام کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کیلئے سامان تسلی بھی۔ اس قصہ میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لئے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک ہورہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کیلئے ہوتی ہے۔
بھروسہ کے لائق صرف اللہ :
اس کے بعد قصہ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سرِ تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور باغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرف الٹ دینے کے بعد خاتمہ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔اس تحریر کے ذریعہ اگر ’انشا ءاللہ ‘کی وہ عظمت نصیب ہوگئی جو اللہ کو مطلوب ہے تو نہ صرف مطالعہ کی بلکہ لکھنے والی کی بھی گویا محنت وصول ہوگئی!
No comments:
Post a Comment