اسلامی کلینڈر یعنی ہجری تقویم کی ابتدا کب کہاں اور کیسے شروع ہوئی، اس بارے میں مشہور محدث حضرت امام ابن حجر العسقلانی نے ’فتح الباری‘ میں لکھا ہے کہ ہجرت کے سترھویں سال بعد ایک دن حضرت ابو موسیٰ اشعری نے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم کو یاد دہانی کی کہ خلیفہ کے خطوط گورنر کو تو ملتے ہیں لیکن ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی۔خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس پر صحابہ کرام کو طلب کرکے ان کی رائے لی اور اس بات پر متفق ہوگئے کہ مسلمانوں کا بھی ایک کلینڈر لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ کئی مشورے موصول ہوئے، کسی نے رسول اللہ ﷺکی بعثت سے ابتدا کرنے کا مشورہ دیا اور کسی نے آپ ﷺ کی ولادت یا وفات کو اسلامی تاریخ کا پہلا دن ماننے کا مشورہ دیا لیکن مستدرک الحاکم کی روایت کے مطابق حضرت علی کے مشورہ پر امیر المومنین سمیت سب مجلس شوریٰ )صحابہ کرام کی جماعت(نے اتفاق کرلیا جس کی رو سے بانئ اسلام ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کو اسلامی کلینڈر کا پہلا سنہ یا پہلا سال مقرر کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی اور حضرت علی شیر خدا کا متفقہ مشورہ کہ پہلا مہینہ محرم الحرام کو مانا جائے تسلیم کیا گیا اور اس طرح اسلامی کلینڈر کو ہجری تقویم کا عنوان ملا۔امام ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں’’ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کی اجازت بیعت عقبہ کے بعد دیدی تھی۔ بیعت عقبہ ماہ ذوالحجہ میں ہوئی تھی جس کے بعد محرم کا مہینہ آتا ہے۔ اس لئے ہجرت کا آغاز گویا محرم کے مہینے سے ہوا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ محرم سے قبل ذی الحجہ کے مہینے میں مناسک حج کا اختتام ہوتا ہے، لہٰذا اس عظیم فریضے کے بعد آنے والے مہینے سے نئے اسلامی سال کے آغاز پر اتفاق کیا گیا۔ جمہور علما ء کی یہی رائے ہے اور اس طرح۱۶جولائی۶۲۲ (16-07-622) کی تاریخ کو یکم محرم الحرام سنہ ایک ہجری وجود میں آگیا۔اسلامی کلینڈر یعنی ہجری کلینڈر کے بھی بارہ مہینے ہیں ۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر۳۶میں اللہ فرماتا ہے کہ مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے۔ لیکن ایام کی تعداد تین سو ساٹھ ہی ہیں۔ ہفتے کے سات ہی دن ہیں اور ہر دن میں چوبیس گھنٹے ہی ہیں لیکن ان مہینوں کی ابتدا چاند کے نکل آنے پر ہوا کرتا ہے اور چاند۲۹یا۳۰دن کے بعد ہی طلوع ہوتا ہے ۔ اسلامی دن مغرب )اندھیرا شروع ہونے( سےشروع ہوتا ہے جبکہ عیسوی کلینڈر کے مطابق رات کے بارہ بجے سے اس کی ابتدا ء ہوتی ہے۔اسلامی سال کے مہینوں کے نام اس طرح ہیں 1محرم2۔صفر3۔ربیع الاول4۔ربیع الثانی5۔جمادی الاول6۔جمادی الثانی،7۔رج8۸۔شعبان9۔رمضان10۔شوال11۔ذی قعدہ، اور12۔ ذی الحجہ
اکثر ممالک میں عیسوی کلینڈر کا دور دورہ ہے لیکن ابھی بھی عرب ممالک میں ہجری کلینڈر کا طوطی بول رہا ہے۔ وہاں نہ کوئی پریشانی ہے اور نہ ہی تاریخ میں کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرز عمل اور طرز فکر کو عالم اسلام نے من و عن قبول بھی کرلیا اور اس کی ترویج و اشاعت کا بھر پور حق بھی ادا کردیا۔ بعض علمائے کرام نے اس حدیث مبارک ’’ تم پر میری اور میرے خلفا راشدین کی اتباع واجب ہے‘‘کو بنیاد بناکر ہجری کلینڈر کی پابندی کو واجب کردیا ہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ مذہبی تنظیمیں ہجری تقویم کے تعلق سے اپنی ذمہ داری نبھاتے اور محرم کے مہینے میں ایک ایسا کلینڈر تقسیم کرواتے جس پر ہجری تقویم بڑے ہندسوں اور حروف میں نظر آتا۔
مبارکباد دینے کاحکم
نیا سال صحابہ کرام کے زمانہ میں بھی بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانےمیں بھی اٰتاتھا! ھجرت کےبعد دس سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور پھرتیس سال خلفاءراشدین کا دور مبارک رھا مگر ان حضرات سےنئےسال کیمبارکبادی دینےکاکوئی ثبوت نہیں ملتا یہ کہا جاسکتا ھے کہ اسکی ممانعت بھی وارد نہین ھے اور بظاھر اسکے ناجائز ھونیکی کوئی وجہ سمجھ مین آرہی ھے اسلیئےجواز مین کوئی اشکال نہیں ھونا چاھیئے ....... لیکن یہ بات ذھن میں رھے کے بدعات اسی طرح سماج اور ماحول میں پیدا ھوتے اور پنپتے ھیں کہ جائز چیز کااتناشیوع ھوجاتا ھیکہ چند نسلوں کے بعد وھی جائزچیزلوگونکی نظروں مین لائق فضیلت اور پھر چندنسلون کے بعد ضروری خیال کیا جانے لگتا ھے اس لیئے جب خیرالقرون میں نئے سال کی مبارکبادی کا ثبوت نہین ملتا ھے توبطور حفظ ماتقدم اس سے پرھیز ھی کرنا چاھیئے
نیا سال صحابہ کرام کے زمانہ میں بھی بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانےمیں بھی اٰتاتھا! ھجرت کےبعد دس سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور پھرتیس سال خلفاءراشدین کا دور مبارک رھا مگر ان حضرات سےنئےسال کیمبارکبادی دینےکاکوئی ثبوت نہیں ملتا یہ کہا جاسکتا ھے کہ اسکی ممانعت بھی وارد نہین ھے اور بظاھر اسکے ناجائز ھونیکی کوئی وجہ سمجھ مین آرہی ھے اسلیئےجواز مین کوئی اشکال نہیں ھونا چاھیئے ....... لیکن یہ بات ذھن میں رھے کے بدعات اسی طرح سماج اور ماحول میں پیدا ھوتے اور پنپتے ھیں کہ جائز چیز کااتناشیوع ھوجاتا ھیکہ چند نسلوں کے بعد وھی جائزچیزلوگونکی نظروں مین لائق فضیلت اور پھر چندنسلون کے بعد ضروری خیال کیا جانے لگتا ھے اس لیئے جب خیرالقرون میں نئے سال کی مبارکبادی کا ثبوت نہین ملتا ھے توبطور حفظ ماتقدم اس سے پرھیز ھی کرنا چاھیئے
کیانئے ھجری سال پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے برکت کی دعا دینایا ہرسال تم خيریت سے رہو کہنا یا کوئي خط وغیرہ ارسال کرنا جس میں اسے نئے سال کی خير وبرکت کی دعا لکھنا جائز ہے ؟
الحمد للہ
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟
الحمد للہ
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ : اگرکوئي شخص آپ کومبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو ، مثلا اگر کوئي شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ :
ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں ، توآپ اسے جواب میں یہ کہیں : اللہ تعالی آپ کو خیروبھلائي دے اوراسے خيروبرکت کا سال بنائے ، لیکن آپ لوگوں کونئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں ، اس لیے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں ۔
بلکہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ سلف رحمہ اللہ تعالی نے تومحرم کے مہینہ کو نئے سال کی ابتداء نہیں بنایا بلکہ یہ تو عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں شروع ہوا ۔ انتھی ۔
مصدر : یہ جواب موسوعہ اللقاء الشھری والباب المفتوح سوال نمبر ( 853 ) اصدار اول ناشر مکتب الدعوۃ الارشاد عنیزہ القصیم سے لیا گیا ۔
اورشیخ عبدالکریم الخضير نے ھجری سال کے شروع ہونے کی مبارکباد دینے کے بارہ میں کہا ہے :
کسی مسلمان کوتہوار روں مثلا عید وغیرہ پردعاکےالفاظ کوعبادت نہ بتاتے ہوئے مطلقا دعا دینے میں کوئي حرج والی بات نہيں ، اورخاص کرایسا کرنے میں جب محبت ومودت اور خوشی وسرور مسلمان کے سے خوشدلی سے پیش آنا مقصود ہو ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا ، لیکن اگر مجھے کوئي مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا ، اس لیے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں نہ جس کا حکم دیا گيا ہو اورنہ ہی اس سے روکا ہی گيا ہے ۔
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment