Wednesday, 28 October 2015

کلمہ کی دعوت

ایس اے ساگر
’لا الٰہ إلا اللہ‘ وہ کلمہ توحید ہے جو صرف آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی ضمانت ہی نہیں بلکہ دنیا کی فلاح و سعادت کا بھی باعث ہے۔کلمہ طیبہ پر ایمان واسلام کا دارومدار ہے حقیقت میں مسلمان کے لئے پرور دگار عالم کے سامنے ایک قسم کا اقرار نامہ ہے ،جس کے ذریعہ سے مسلمان غیر مسلم سے ممتاز ہوجاتا ہے کلمہ طیبہ کو افضل الذکر بھی کہا گیا ہے۔
کلمہ طیبہ میں دوجملے ہیں۔ ایک اقرار توحید ہے ،دوسرااقرار رسالت ہے درمیان میں واؤ کا نہ لایا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمان کو رسالت پر اسی طرح ایمان رکھنا چاہیئے جس طرح توحید پر ،کیونکہ توحید کی نشرواشاعت دنیا میں اگر کی تو انبیاء کرام ؑ نے۔ حضور علیہ السلام کے عہد نبوت سے پہلے کلمہ اس طرح پڑھا جاتا تھا۔
لا الہ اللہ اٰدم صفی اللہ
لا الہ الااللہ نوح نجی اللہ
لا الہ الااللہ ابراہیم خلیل اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ موسٰی کلیم اللہ
لا الہ الااللہ عیسٰی روح اللہ
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کلمہ اس طرح پڑھا
لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ
حضور علیہ السلام کے اسم گرامی کے علاوہ باقی انبیاء علیہم السلام کے کلمات میں لفظ رسول کہیں بھی مذکور نہیں ،ورنہ پہلی جز میں سب انبیاء شریک ہیں

یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْاِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّااللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًاوَّلَایَتَّخِذَ بَعْضُنَابَعْضًااَرْبَابًامِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ (پ۳) 
رسول اللہﷺ نے کوہِ صفا پر دی گئی اپنی پہلی دعوت جو صرف توحید کے اپنانے پر مشتمل تھی میں پیش فرما دیا تھا۔ اس کلمے کا تقاضاہے کہ کوئی بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور اس کی وحدانیت ہی کو تسلیم کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دعوت ان الفاظ میں دی کہ
قولو لا الٰہ الا اللہ تفلحو
لا الٰہ الا اللہ کہہ دو تو تم کامیاب ھو جاؤ گے۔
اللہ رب العالمین کا اصول ھے کہ جو چیز جتنی اھم ھوتی ھے اتنی ھی عام کر دیتے ھیں، تاکہ عوام الناس اس سے مستفید ھو سکیں۔
حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ پاک سے فرمایٔش کی کہ مجھے کوئی خاص کلمات عطا فرمایٔیں جو پہاڑ جیسے گناھوں کو معاف کروانے کیلئے  ورد کیٔے جایٔیں، تو اللہ رب العالمین نے ان سے کہا کہ
لا الٰہ الا اللہ
کا ورد کیا کریں۔ تو موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ کوئی خاص کلمات عطا فرمایٔیں،
تو اللہ پاک نے کہا کہ ان کلمات کا ثواب اتنا ھے کہ زمین و آسماں کا خلاء اس سے بھر جاتا ھے۔
ایسا کیوں ھے کہ
لا الٰہ الا اللہ
انبیاء کرام علیہم السلام کی سب سے پہلی دعوت ھے، اس کو جاننے کے لیٔے پہلے اس کلمہ کے ترجمے پر غور کرنا چاھیٔے۔
کہ نہیں کوئی معبود مگرصرف اللہ۔
کلمہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہ پتہ چلتا ھے کہ پہلے اللہ پاک نے تمام ذاتوں کی نفی کی کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں پھر اللہ تعالی نے فرمایا لیکن صرف اللہ ھی واحد معبود ھے۔
شرک ھر امت میں سب سے بڑا گناہ رھا ھے، اس کلمہ میں شرک کی تردید کر دی گئی کہ جو خود کو مسلمان کہتا ھے تو اسے سب سے پہلے اس شرک کے بت کو توڑنا پڑے گا.
اکابرین تبلیغی جماعت کی نظر میں:
تبلیغی جماعت کے اکابرین و اراکین یہ بات بیان کرتے ہیں کہ:
ہماری دعوت کلمہ کی دعوت ہے۔ہم تو صرف لوگوں کا کلمہ درست کرانے اور مسلمانوں میں کلمہ والا یقین پیدا کرنے کے لئے نکلے ہیں ‘‘۔
پھر اس کلمہ کا مطلب یوں بیان کیا جاتا ہے کہ
’’سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین ‘‘
اکابر تبلیغی جماعت مولانا جمشید رائے ونڈ والے اس ضمن میں کہتے ہیں:
تو ’’غیر اللہ سے ہونے کا یقین‘‘دل سے نکالواور ’’اللہ ہی سے ہونے کا یقین ‘‘دل میں ڈالواور اس کا راستہ ہے’’ دعوت‘‘۔
اکابر تبلیغی جماعت مولانا محمد احمد صاحب بہاولپور والے کہتے ہیں:
’’یہ تو ہم مسلمان ہیں ، مسلمان ملک میں پیدا ہوئے تو مسلمان ہیں، مسلمان گھرانے میں پیدا ہوگئے تو مسلمان ہیں ،گائے کا گوشت کھانے لگے تو مسلمان ہیں ،نماز پڑھ لی تو مسلمان ہیں ۔وہاں تو راستہ ہی ایک تھا ۔جو آتا تھا وہ ’’دعوت‘‘کے راستے سے آتا تھا اور دعوت کے راستے سے آنے کے بعد اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔دس سال تک کوئی عبادت نہیں تھی(مکہ میں)سوائے ’’دعوت الی اللہ ‘‘کے ۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
’’یہ محنت (مکہ میں )دس سال تک کرائی ہے اس میں عبادت آپ نہیں دیکھیں گے ،ہمارا اور صحابہ کا فرق یہی ہے کہ انہوں نے دس سال تک کوئی چیز دیکھی نہیں،سوائے ’’دعوت‘‘کے ،اس لئے ان کو کوئی اشکال نہیں ہوا۔ہمارا قصہ کیا ہے ؟مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگئے تو مسلمان،نماز پڑھ لی تو مسلمان،گائے کا گوشت کھالیا تو مسلمان،ہمارے مسلمان ہونے کی کئی شکلیں ہیں ،وہاں مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ ’’صاحبِ دعوت‘‘نہ ہو‘‘۔
’’کلمہ کی دعوت‘‘کا شرعی مفہوم کیا ہے؟
چنانچہ ہم ’’کلمہ کی دعوت ‘‘…………’’کلمہ درست کرانے‘‘…………’’کلمہ والا یقین‘‘…………کے ضمن میں سمجھیں گے کہ :
کلمہ کی دعوت کا شرعی مفہوم کیاہے…………؟
کلمہ درست کرانے کا شرعی مطلب کیا ہے…………؟
اور کلمہ والا یقین کے شرعی معانی کیا ہیں…………؟
’’صاحبِ دعوت‘‘ہونے کا شرعی مفہوم کیا ہے…………؟
سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۱۹
قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَھَادةً 
کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے :
’’قال جاء النحام بی زید، و قردم بن کعب، و بحری بن عمرا، فقالو:یامحمد!ما تعلم مع اللّٰہ الھاً غیرہ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ،لاالہ الا اللّٰہ بذلک بعثت،والی ذلک ادعوا،فانزل اللّٰہ فی قولھم
قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَھَادةً
’’رسول اللہ ﷺکی خدمت میں تین کافر حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اے محمد!تم ا للہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں جانتے ؟(توان کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا ) لا الٰہ الا اللّٰہ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘‘(اور جان لو کہ )میں اسی کلمہ کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں اور اسی کلمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہوں۔پس اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ’’اے نبی!ان سے پوچھئے کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟‘‘۔
اسی طرح نبی کریمﷺکے اوصاف حمیدہ سے متعلق سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۴۶
وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ
کی تفسیرحضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت قتادہ یوں فرماتے ہیں :
’’وداعیاً الی شھادة لا الہ الا اللّٰہ‘‘
’’یعنی آپ ﷺاس بات کی طرف دعوت دینے والے تھے کہ گواہی دو اس با ت کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘
رسول اللہ ﷺنےحضرت معاذ بن جبل کودعوت دینے کا طریقہ سکھایا جبکہ آپﷺان کو یمن کی طر ف روانہ کررہے تھے:
فَادْعُھُمْ الی شھادة أن لا الہ الا اللّٰہ
’’سب سے پہلے ان کو’’ لاالٰہ الااﷲ‘‘کی طرف دعوت دو‘‘ ۔
پس ثابت ہواکہ شریعت اسلامی میں ’’کلمہ کی دعوت‘‘ایک اہم دینی و شرعی اصطلاح ہے ،جس کا سمجھنا ہر مسلمان کے اوپر لازم ہے۔چناچہ’’کلمہ کی دعوت ‘‘کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ جاناجائے کہ کلمہ طیبہ سے کیا مرادہے …………؟
کلمہ طیبہ سے مراد؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
’’پس علم حاصل کرو اس بات کا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
من مات وھو یعلم انہ لا الٰہ الا اﷲ دخل الجنة
’’جو مرجائے اور وہ’’لاالٰہ الااﷲ‘‘ کا علم رکھتا ہوتو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘
امام نووی﷫ نے صحیح مسلم میں اس کے لیے باب باندھا ہے :
’’من مات علی التوحید دخل الجنة‘‘
’’جس کو توحید پرموت آئی ہووہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
معلوم یہ ہوا کہ’’کلمہ طیبہ ‘‘کا مطلوب ومقصود توحید ہے، صرف زبان سے اس کی ادائیگی نہیں۔ چنانچہ کلمہ پورا نہیں ہوتا جب تک اس کے حقوق کو تسلیم نہ کرلیا جائے اور اس کے منافی امور سے اجتناب نہ کیا جائے۔چنانچہ ذیل میں ہم وہ احادیث مبارکہ نقل کردیتے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ زبان سے صرف کلمہ کی ادائیگی نجات کا باعث نہیں بلکہ یہ اس کے حقوق کی ادائیگی اور ایسے امور سے اجتناب سے مشروط ہے جن کی بناء پر ایک مسلمان کا کلمہ ٹوٹ جاتاہے اور وہ اسلام کی سرحد سے نکل کرکفر و نفاق کی صف میں جاکھڑا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
مفاتیح الجنة شھادة أن لا الہ الا اللّٰہ
’’جنت کی کنجیاں لا الہ الااللہ کی گواہی دینا ہے ‘‘۔
امام بخاری ﷫نے وہب بن منبہ﷫سے روایت کیا ہے :
”وقیل لوھب من منبہ ألیس لا الہ الا اللّٰہ مفتاح الجنة،قال بلی ولکن لیس مفتاح الا لہ اسنان۔فان جئت بمفتاح لہ أسنان فتح لک والا لم یفتح لک “
’’وہب بن منبہ﷫سے پوچھا گیا کہ کیاجنت کی کنجی’’لاالٰہ الااﷲنہیں ؟فرمایا:کیوں نہیں! لیکن ہرچابی کے دانت ہوتے ہیں۔ اگرتم ایسی چابی لاؤں گے جس کے دندانے ہوں(یعنی تمہار کلمہ کے موافق عمل بھی ہوگا)، توتمہارے لئے(جنت)کھول دی جائے گی ورنہ نہیں‘‘۔
’’الٰہ ‘‘ کا مفہوم:
کلمہ طیبہ کے ضمن ایک شرعی اصطلاح ’’الٰہ‘‘کو سمجھنا بھی انتہائی ضروی ہے تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ ’’اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ ماننے ‘‘کا مطلب کیا ہے؟
عام فہم انداز میں یوں سمجھئے کہ ’’الٰہ ‘‘اس ہستی کو کہتے ہیں جس کی عبادت کی جاتی ہوں ،یعنی اس کے آگے سر بسجود ہواجا تا ہواور اس کے لئے کچھ خاس مراسم عبودیت ادا کئے جاتے ہوں ۔جیسے ایک مسلمان اللہ کے آگے نماز میں سربسجود ہوتا ہے ۔
لیکن اللہ کے رسول ﷺنے کسی کے لئے مراسم عبودیت کی ادائیگی کے علاوہ اس کے بنائے ہوئے قوانین کو تسلیم کرنے کو بھی اس کی ’’عبادت‘‘کرنے اور اسی کو ’’الٰہ‘‘ماننے کے مترادف قرار دیا ہے۔چناچہ حضرت عدی بن حاتم اپنے ایمان لانے سے قبل کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اس حال میں نبی کریم ﷺکے پاس آیا کہ میرے گلے میں صلیب پڑی ہوئے تھی توا س موقع پر جب آپﷺسے سورۃ التوبہ کی آیت۳۱

اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ
’’یہود و نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء اورفقہاء کو رب بنالیا تھا ‘‘سنی تو عرض کیا :
”انھم لم یعبدوھم۔فقال بلی،انھم احلوا لھم الحرام وحرموا علیھم الحلال،فاتبعوھم ،فذلک عبادتھم ایاھم‘‘
’’یہود و نصاریٰ نے تو کبھی اپنے علماءکی عبادت نہیں کی !تو آپﷺنے فرمایا :کیوں نہیں ،انہوں نے کسی حرام کو حلال کیا اور کسی حلال کو حرام کیا توانہوں نے اس عمل کی پیروی نہیں کی ،پس یہی عمل ان کی عبادت کرنا ہے‘‘۔
یہ واقعہ دیگر احادیث صحیحہ میں مختلف الفاظ کے ساتھ بھی وار ہوا ہے۔
حضرت حذیفہ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’قال:اماانھم لم یکونوا یعبدونھم ولکنھم أطاعوھم فی معصیة اللّٰہ‘‘
’’یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی ،لیکن نافرمانیوں میں ان کی اطاعت کی (یہی تو عبادت کرنا ہے)‘‘۔
چنانچہ یہ بات واضح ہوئی انسان جس کے بنائے ہوئے قوانین کو تسلیم کرتاہے دراصل اسی کو اپنا معبود تسلیم کرتے ہوئے اسی کی پرستش اور عبادت کرتاہے۔
اللہ کی وحدانیت کا اقرار، طاغوت کے کفرکے بغیر مقبول نہیں:
یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ کلمہ کا پہلا حصہ یعنی’’لاالٰہ الا اللہ‘‘دو چیزوں پر مشتمل ہے اوّل نفی اوردوم اثبات ۔نفی ’’لاالٰہ‘‘ہے اور اس سے مراد’’ کفر بالطاغوت‘‘اوراثبات ’’الااﷲ‘‘یعنی ایک اﷲ کی عبادت ہے،
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی تفسیر کے مطابق اﷲتعالیٰ نے ’’کلمہ طیبہ ‘‘کی وضاحت خود اس طرح کی ہے :
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی
’’جس نے طاغوت کاانکار کیا اور اﷲپرایمان لایا تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا۔‘‘
اور امام ابن قیم﷫نے اس آیت کی تشریح یوں کی ہے کہ
’’وھذاھو معنیٰ لاالہ الااللّٰہ‘‘
’’اور یہی معنی ہے لا الٰہ الا اللہ کے‘‘۔
پس معلوم ہوا کہ اُس وقت تک اللہ کی وحدانیت کا اعلان بارگاہ ِالٰہی میں مقبول نہیں جب تک اس سے پہلے ’’طاغوت ‘‘کاکفر و انکار نہ کیا جائے ۔لہٰذا خود بخود سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’طاغوت‘‘سے کیا مراد ہے …………؟
طاغوت سے مراد؟
امام ابن القیم ﷫نے فرمایا:
’’طاغوت ہر اس معبود، یا پیشوا، یا واجب اطاعت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے بندہ اپنی حد سے تجاوز کرجائے۔ لہٰذا ہر قوم کا ’’طاغوت‘‘ وہ ہوا جس کے پاس وہ اللہ اور اس کے رسول کے سوا فیصلے کے لیے جاتے ہیں، یا اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہیں، یا اللہ کی جانب سے بلا بصیرت اس کی ابتاع کرتے ہیں، یا اس کی ہر اس بات میں اطاعت کرتے ہیں جس کے متعلق وہ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کی اطاعت ہے‘‘۔
اما م ابن قیم ﷫مزید فرماتے ہیں:
’’والطواغیت کثیرون،ورؤسھم خمسة:ابلیس لعنہ اللّٰہ،ومن عبد وھو راض،ومن دعاالناس الی عبادة نفسہ ،ومن ادعی شیئاً من علم الغیب،ومن حکم بغیر ما انزل اللّٰہ‘‘
’’طاغوت تو بے شمار ہیں مگر ان کے چوٹی کے سردار پانچ ہیں:
ابلیس لعین
ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر رضامند ہو۔
جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہواگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو۔
جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
جو شخص اﷲکی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے ‘‘۔
لہٰذا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ طاغوت وہ ہے جوکہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کو چھوڑ کراپنے قوانین کو تسلیم کروائے اور ظاہر ہے جس کے قوانین کو تسلیم کیا جاتا ہے دراصل اس کی ہی ’’عباد ت ‘‘اور اس کو ہی ’’الٰہ ‘‘تسلیم کیا جاتاہے ۔لہٰذ اکلمہ اس وقت تک ’’درست‘‘اور مکمل نہیں جب تک کہ اللہ وحدہ لاشریک کی واحدانیت کے اظہار سے پہلے طواغیت کا کفر نہ کرلیا جائے ۔اسی بات کو بالکل واضح الفاظ میں
رسول اللہ ﷺنے یوں ارشاد فرمایا:
ثم من قال لاالہ الا اللّٰہ وکفر بما یعبد من دون اللّٰہ حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی اللّٰہ
’’جس نے کہا ’لا الٰہ الا اللہ‘اور(یہ کہنے کے بعد)اللہ کی سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا (عملاً)کفر کیا تو اس نے اپنا مال و جان محفوظ کرلیا اورباقی اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔

دعوت ایک اہم فریضہ
از: محمد مونس قاسمی قصبہ محمدی ضلع لکھیم پور، یوپی
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امت دعوت بناکر بھیجا اوراس کا خاص وصف یہ قرار دیا کہ وہ انسانیت کو سیدھے راستہ کی طرف بلائے، چنانچہ ارشاد ہوا: ”کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر“ تم بہترین امت ہوجو لوگوں کے لیے برپا کی گئی ہو، تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔ نیز فرمایا: ”وَکذلک جعلناکم امة وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا“ اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی ومعیاری امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ (اور ان پر نظر رکھنے والے) ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہوں۔
چنانچہ یہ ایک معتدل اور معیاری اور لوگوں کی گواہ اور ان پرنظر رکھنے والی امت ہے، دیگر انسانی گروہوں پر نظر رکھنے اور ان کی غلط کاریوں کی نشاندہی کرنے والی امت ہے۔ جب اس کو یہ منصب دیا گیا ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اس منصب کا حق ادا کرے۔
دعوت کے تناظر میں اگر ہندوستان کا جائزہ لیں تو یہاں دعوت کے امکانات دوسرے خطوں کے مقابلہ میں زیادہ ہیں۔ اس کی چند وجوہ ہیں:
الف: ہندوستان کی مٹی میں حددرجہ جذبہ احسان مندی پایا جاتاہے۔ خصوصاً ہمارے برادرانِ وطن ہندوقوم کے اندر یہ جذبہٴ احسان مندی اس درجہ موجود ہے کہ یہ قوم اپنے محسن اور بہی خواہ کے سامنے ماتھا ٹھیک کر جذبہٴ منت شناسی کے غلو میں اس کی پوجا کرنے لگتی ہے۔
ب:   اسی ملک کی مٹی میں مذہب سے والہانہ تعلق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے اور مذہب پر قربان ہونے کا جذبہ حد درجہ اس ملک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ انسان مذہب کے تئیں قربانی خدا کی خوشنودی کے لیے دیتا ہے۔ اگراس قوم کے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ شرک اور بت پرستی کا یہ راستہ جس کے لیے آپ قربانی دے رہے ہیں، غلط بلکہ اللہ تعالیٰ کوانتہا درجہ ناراض کرنے والاہے، اللہ کو راضی کرنے کی راہ صرف اسلام ہے، تو یہ قوم اسلام کے لیے کہیں زیادہ قربانی دینے کو تیار ہوجاتی ہے۔
ج:     اس ملک کے خمیر میں روحانیت رچی بسی ہے اور اسلام کی حقانیت اور روحانیت کا تعارف اس قوم کے لیے بڑا پرکشش ہوتا ہے۔
د:      ایک بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ برادرانِ وطن ہندو قوم میں اکثر افراد محض رسمی ہندو ہیں اور شعوری ہندو اس ملک میں برائے نام ہیں۔ چنانچہ جناب مولانا کلیم صدیقی صاحب (مشہور داعی ومبلغ) بیان فرماتے ہیں کہ ”راقم سطور سے ہندوستان میں ہندو قوم کی مرکزی مذہبی کتابوں، ویدوں پر سند سمجھے جانے والی شخصیت جناب پنڈت راجندر پرشاد شرما نے بڑی ذمہ داری سے یہ بیان کیا کہ ہمارے ملک میں دسیوں ہزار میں سے کوئی ایک آدھ ہندو اپنی مرکزی مدہبی کتاب ویدوں کے درشن کرپاتا ہے اور لاکھوں میں ایک، دو ویدوں کا پاٹھ کرپاتے ہیں اور اخیر میں بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات بتائی کہ پورے ملک میں جہاں ایک ارب کی آبادی ہے ایک سو سے زیادہ ویدوں کو سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں، گویا ایک کروڑ میں ایک ویدوں کو سمجھنے والا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ شعوری طور پر کوئی ہندو رہ بھی نہیں سکتا۔ (اور کیوں نہ ہو جبکہ یجروید جیسی قدیم کتاب میں اس طرح کے منتر موجود ہیں کہ ”خدا کی مورت وشکل نہیں ہے۔“ یجروید۳-۳۲، بحوالہ ہندوازم) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قوم کا اپنے مذہب سے تعلق بہت رسمی ہے، اس لیے اس قوم میں دعوت کا کام بہت آسان ہے۔“ (افکار، اگست ۲۰۰۷/)
دعوتی عمل کا کوئی متعین طریقہ نہیں۔ یہ داعی کی اپنی صواب دید پر ہوتا ہے کہ حکمت و موعظت حسنہ کے ساتھ کس مزاج وماحول میں کیا طریقہٴ کار مفیدہوگا۔ تاہم بطور نمونہ چند امور پیش ہیں:
$ داعی کے لیے پہلا قدم مدعو سے تعارف اور دوستی ہے۔ تعارف حاصل کرنا آسان بھی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں جن برادرانِ وطن سے ملنا جلنا ہوتاہے ان میں سے دو تین افراد کا انتخاب کرلیا جائے، مثلاً پڑوس یا محلہ میں یا سفر کے دوران یا کسی تقریب اور پروگرام میں ملاقات ہوتی ہو وغیرہ۔

ابتدائی تعارف میں داعی اور مدعو کے درمیان نام ورہائش، تعلیم، پیشہ، گھر اور خاندان سے متعلق موٹی موٹی تفصیلات پر مشتمل معلومات کا تبادلہ خیال آپس میں ہوسکتاہے۔ داعی ملاقاتوں و روابط کے اس سلسلہ کو جاری رکھے۔ ابتداء میں اگراسلام پر راست گفتگو نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں ہے ایسی ملاقاتیں اور روابط بے کار ثابت نہ ہوں گے۔ دراصل مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان جو دوری اور خلیج پائی جاتی ہے اسے دور کرنے کے لیے اس طرح کے روابط ضروری ہیں۔
$ اس دوران دعوتی گفتگو یا مطالعہ کے لیے مختصر کتابچے وغیرہ دیے جاسکتے ہیں۔ گفتگو زیادہ تر اصولی باتوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔ قرآن نے مدعوئین سے گفتگو کے سلسلہ میں ایک اہم رہنمائی کلمہ مشترک کی تلاش اور اس پر گفتگو کرنے کے بارے میں دی ہے۔ مثلاً مدعو خدا کو مانتا ہے۔ داعی اس نکتہ پر گفتگو کرکے اسلام کے تصورتوحید، ایمان باللہ اوراس کے عملی تقاضوں کو حکمت کے ساتھ پیش کرے۔
$ دعوت پہنچانے کے بعد نتیجہ دیکھنے کے لیے داعی کو جلدبازی نہیں کرنی چاہیے۔ روابط کا سلسلہ برقرار اور اسلام پر گفتگو جاری رکھے۔ پیش کش اور برتاؤ میں نرمی اور محبت کا غلبہ ہونا چاہیے۔
$ مدعو جب اسلام کا کچھ مطالعہ کرلے تو عملی تعلیم و تجربہ کے طور پر دوچار دفعہ اپنے ساتھ مسجد لے کر جائیں، تاکہ عبادات کی عملی شکل وکیفیت اس کے سامنے آئے۔ علاوہ ازیں دعوتی پروگراموں مثلاً درس قرآن اور خطابات عام وغیرہ میں برادرانِ وطن کو بھی شریک کرایا جاسکتا ہے۔ ابتدائی دعوتی کتب کے مطالعہ کے بعد قرآن مجید کا ۳۰ واں پارہ مترجم دینا مناسب ہوگا۔ مدعوئین کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں تو ڈاک سے کتابچے وغیرہ روانہ کیے جاسکتے ہیں۔ خط وکتابت سے بھی دعوتی ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
دعوت کے اجتماعی طریقے:
انفرادی دعوت کے علاوہ اجتماعی طور پرچند مسلمان بھائی مل جل کر بھی دعوت کا کام کرسکتے ہیں۔ ذیل میں بعض اجتماعی دعوتی پروگراموں کو درج کیاگیا ہے جو دعوت پہنچانے کے لیے موٴثر ثابت ہوسکتے ہیں۔
$ ایک چھوٹا سا وفد بناکر بنیادی دعوتی کتب وغیرہ کے ساتھ اپنے علاقہ کی منتخب غیرمسلم شخصیتوں سے ملاقاتیں کی جاسکتی ہیں۔ ماہ ڈیڑھ ماہ بعد دوسری بار ان شخصیتوں سے ملنا چاہیے اور کتابوں پر ان کے تاثرات، سوالات اورالجھنوں کو معلوم کرنا چاہیے اورجواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
$ مظلوم اور پسماندہ طبقات پر آئے دن ظلم وستم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا وفد ان تک پہنچ کر اظہارِ ہمدردی کرے ان کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش اور تعاون کرنے کی سعی کرے۔
$ کسی آبادی یا بڑے شہر کے ایک ایریا میں مسلمان مل جل کر برادرانِ وطن کے لیے عید ملن کا پروگرام منعقد کریں، مختصراً قرآن مجید، رمضان، روزہ اور عید پر اظہار خیال کے بعد شرکاء کی ضیافت کریں اور تعارفی کتابچے وغیرہ انھیں دیں۔
$ برادرانِ وطن کے کسی منتخب علاقہ (بالخصوص دلت طبقہ) میں اسلامی کتابوں اور رسالوں پر مشتمل لائبریری کا نظم کیا جانا چاہیے۔
$ کسی مقام پر منتخب برادرانِ وطن کے لیے اجتماعی محفل منعقد کی جاسکتی ہے۔ ۵ تا دس۱۰ افراد کے اس پروگرام میں قرآن اور پیغمبراسلام کا تعارف اوراسلام کی دعوت مختصراً پیش کی جاسکتی ہے۔ سوالات کے جوابات دیے جائیں۔ شرکاء کو دعوتی لٹریچر بھی دیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ پروگراموں کو ایک مرتبہ کرکے چھوڑ نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ سلسلہ مستقل طور پر چلتا رہے۔ داعی کو جزئیات اور طویل گفتگو سے بچتے ہوئے اصولی باتوں تک اپنی گفتگو کو مرکوز رکھنا چاہیے۔
$ داعی اپنے مدعو کی ذاتی زندگی،اس کے مسائل اور پریشانیوں میں لچسپی لے کر مشورہ دے۔ تعاون کرے اور ہمدردی وغم گساری کا رویہ اختیار کرے تو اس کے بہت گہرے اثرات پڑتے ہیں۔
داعی کی تیاری:
دعوتی کام کے لیے سب سے پہلے خود اپنی علمی، فکری اور عملی تیاری ناگزیر ہے۔ داعی اپنے مدعو کے سامنے بہتر سے بہتر عملی کردار پیش کرے۔ علمی تیاری کے لیے قرآن و تفسیر میں غور و تدبر کے ساتھ منتخب احادیث، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کا مطالعہ کرے اور سیرت کے بعض اہم واقعات کو نوٹ کرے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی، انسانوں سے محبت، سادہ زندگی، عفو ودرگذر (فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کو معاف کردینا) ان واقعات سے برادرانِ وطن بے حد متاثر ہوتے ہیں۔
چندامور سے اجتناب:
$ دعوت اور داعی کے وقار کو نقصان پہنچانے والا رویہ اختیار نہ کرے۔
$ مناظرانہ انداز اور بحث و تکرار سے ہر حال میں گریز کرے۔
$ غیرحکیمانہ انداز اور مدعو پر کسی بات کو مسلط کرنے کا انداز نہیں ہونا چاہیے۔ مدعو کے اندر ہٹ دھرمی، ضد اور نفرت نہ پیداہونے دے۔
$ جلدبازی اور فوری نتیجہ پانے کے لیے مدعو پر اصرار نہ کرے۔ گفتگو اصولی باتوں پر پہلے کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اختلافی باتوں کو بنیاد بناکر دعوت پیش نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی روشنی میں کلمہ سواء یعنی مشترک بنیادیں مثلاً ایک اللہ کا تصور وغیرہ پر گفتگو کرنا چاہیے۔ وجود الٰہ سے آگے بڑھ کر عملی تقاضے اور زندگی پر اثرات و نتائج سمجھانا چاہیے۔
آج زمینی صورت حال یہ ہے کہ اس اہم شعبہ کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل دین وعلم حضرات اس عظیم الشان امر دین کو اپنی توجہات کا مرکز بنائیں اور اس کو معمولی یا ناقابل عمل کام نہ سمجھیں۔ اس سلسلہ میں اَکابر و اسلاف رحمہم اللہ کا موقف و رائے کیا ہے؟ ذیل میں پیش خدمت ہے تاکہ مزید فکر وعمل کو مہمیز ملے۔ اوراس کار عظیم کی نزاکت و اہمیت معلوم ہوسکے۔
مولانا اشرف علی تھانوی:
حضرت تھانوی علیہ الرحمہ دعوت دین کو بالخصوص غیرمسلموں کے لیے خاص کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جب اسلام ہی دین کامل ہے تو جن لوگوں کے پاس یہ نعمت نہیں ہے ان کے پاس بھی اس کو پہنچانا چاہیے کیونکہ اوّل تو یہ بات مروت و ہمدردی کے خلاف ہے کہ ایک نافع چیز سے خود ہی نفع اٹھایا جائے اور دوسروں کو محروم رکھا جائے۔ دوسرے ہم کو شرعاً بھی اس کا حکم ہے کہ جن لوگوں کواسلام کی خوبیاں معلوم نہیں ہیں ان کے سامنے اس کے محاسن بیان کریں․․․“
ہماری یہ حالت ہے کہ بہت سے لوگ تو اس کام کو معمولی کام سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس کی ضرورت ومرتبہ کو سمجھتے ہیں وہ بھی ایسی جگہ جاکر تبلیغ کرتے ہیں جہاں ان کی خاطر ومدارات ہوتی ہے، کفار میں جاکر کوئی تبلیغ نہیں کرتا کیونکہ خاطرومدارات کہاں؛ بلکہ بعض دفعہ تو برابھلا سننا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ کفار کو تبلیغ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ (الاتمام لنعمة الاسلام،ص:۲۸۷)
قاری محمد طیب صاحب:
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولاناقاری محمد طیب صاحب دعوت دین کے مفہوم کے تعلق سے پائی جانے والی عمومی غلط فہمی کو دور کرنے کی خاطر اپنی کتاب دعوت دین کے قرآنی اصول کے ایک مخصوص عنوان ”ایک غلط فہمی کا ازالہ“ کے تحت لکھتے ہیں: ”تبلیغ اسلام کے معنی مسلمانوں کو عباداتی رنگ کے کچھ احکام پہنچادینے اورانہیں وابستہ کرلینے کے نہیں ہیں کہ جس کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ فریضہ تبلیغ ادا ہوگیا یا ارباب تبلیغ فرائض دعوت سے سبکدوش ہوگئے مجھے اس انداز کی کسی دعوت خاص کی ضرورت وافادیت سے اگرچہ انکار نہیں لیکن اسے فریضہ تبلیغ سے سبکدوشی سمجھ لیا جانا قرآن کے اصول تبلیغ کی روشنی میں یقینا صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جزوی تبلیغ، تذکیر واصلاح کے عنوانات سے یاد کی جاسکتی ہے مگر عرف شریعت کے لحاظ سے اسے تبلیغ نہیں کہا جاسکتا․․․“

اپنی اسی تصنیف میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”اس لیے میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اگر سب نہیں تو کم از کم ارباب علم وبصیرت کی ایک جماعت سارے موہوم منصوبوں کو چھوڑ کر دعوت الی اللہ کے لیے کمربستہ ہوجائے اوراپنوں سے گزرکر دوسری اقوام کے ساتھ انتہائی خیرخواہی سے انہیں دین حق کی طرف مائل کرنے پر لگ جائے اوراس کی زندگی کا واحدنصب العین غیروں کے سامنے اسلام پیش کرنا اور انہیں دعوت حق دینا ٹھہرجائے۔“
شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب:
مولانا محمدزکریا صاحب (جو تبلیغ کے حوالہ سے محتاج تعارف نہیں) مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلموں میں بھی ین کی تبلیغ کی آرزو اور تڑپ رکھتے تھے۔ چنانچہ شیخ الحدیث کے خلیفہ مولانا یوسف متالا (مہتمم دارالعلوم - برطانیہ) ایک مضمون میں عام انسانوں میں دعوت دین کے لیے شیخ الحدیث کی بے چینی کے تعلق سے رقم طراز ہیں: ” غالباً ۱۹۷۹/ کی مدینہ طیبہ حاضری کے دوران ایک روز احقرحضرت کی قیام گاہ کے برابر خدام والے حجرے میں تھا کہ حضرت کے خادم محمد اعجاز چمپارنی آئے اور فرمایا حضرت یاد فرمارہے ہیں تو حضرت نے زاروقطار روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سن یہ کیا کہہ رہا ہے۔ بھائی اعجاز صاحب نے کہا کہ میں نے حضرت سے پوچھا کہ وہ عوام الناس جنھوں نے اسلام کا نام بھی نہیں سنا ہے اور جنھیں اسلام کی کوئی تبلیغ نہیں کی گئی کیا انہیں عذاب ہوگا۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا اس پر ضرور کام ہونا چاہیے اور اس موضوع پر اسلام کے محاسن پر کتابیں ہونی چاہئیں۔ (بحوالہ اقراء ڈائجسٹ، کراچی، نومبر ۱۹۷۶/)
مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی:
دعوت کی ترجیح کے حوالہ سے مولانا فرماتے ہیں: ”انبیاء کرام علیہم السلام کے طرز عوت و تبلیغ میں اصل مخاطب غیرمسلموں ہی کو بنایا جاتا ہے اور ان کے سخت دلوں کو ایمان و یقین، سوز دروں، اخلاص اور اسوئہ حسنہ کی روشنی و گرمی سے موم بناکر ایمان وعمل کے سانچہ میں ڈھالا جاتا ہے اور جب اس طرح مومنوں کی امت دعوت، تیار ہوجاتی ہے تو اسے نبوی تعلیمات سے آراستہ کر غیرمسلموں ”امت اجابت“ کو اللہ کے دین کی طرف مدعو کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور یہ کار نبوت پوری امت کے اہل افراد پر فرض قرار یا جاتا ہے اور امت مسلمہ کو تو اسی دعوت کے لیے خیرامت قرار دیاگیا ہے۔“
(ماخوذ- دعوت اسلام ایک اہم فریضہ)

No comments:

Post a Comment