Saturday, 10 October 2015

ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

(ساگرٹائمز)ساہتیہ اکادمی کے موجودہ صدر، شاعر، نقاد وشوناتھ پرساد تیواری کے مطابق اکزیکٹیو بورڈ کے فیصلے کے بغیر وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے معذور ہیں۔ یعنی ابھی تک ایوارڈ واپسی کیلئے صرف خطوط لکھے گئے ہیں۔ ایوارڈ یاس پیسے نہیں لوٹائے گئے۔ وشوناتھ تیواری نے یہ بھی کہا کہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے ذریعہ جو شہرت ملی، کیا اُسے بھی ادیب واپس کریں گے؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ دادری حادثہ، کلبرگی جیسے اہم ادیبوں کا قتل اور ملک کے موجودہ مسائل ایوارڈ واپسی کی بھیڑ میں کہیں کھو رہے ہیں؟ میں ادب کی نمائش کے خلاف ہوں۔ آزادی کے 68برسوں میں بابری مسجد اور گجرات سانحہ کو لے کر یہ پہل کیوں نہیں ہوئی؟ ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا نے جب خوفناک مستقبل کی پیشن گوئی کی تھی، اس وقت ہمارے ادیب کہاں چھپے بیٹھے تھے؟
 نمائش اورتماشہ کیوں؟
میں احتجاج کو ضروری سمجھتا ہوں۔ مگر احتجاج نہ نمائش ہے نہ تماشہ۔ ایوارڈ واپس کرنا ایک احتجاجی عمل ضرور ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی بڑا پیغام حکومت کو جائے گا۔ ہاں اگر ایک ساتھ ملک کے تمام ایوارڈ یافتہ ادیب ایسا کریں تو شاید بہری گونگی حکومت تک کوئی پیغام جائے۔ مگر ایسا لگتا نہیں ہے۔ مودی کی اب تک کی حکومت میں اگر کوئی سب سے زیادہ شکار ہوا ہے تو مسلمان۔ لیکن ابھی بھی وہ چیخ نہیں سنائی دے رہی ، جسے سننے کیلئے ہمارے کان ترس رہے ہیں۔ دادری ایک خوفناک علامت ہے۔ اس سے قبل مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہم بھولے نہیں ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کے خلاف جو ماحول بنایا گیا ہے، اس کیلئے ادے پرکاش، نین تارا، اشوک باجپائی کو کھل کر مسلمانوں کی حمایت میں بولنے کی ضرورت ہے۔ 
گائے کے بہانے:
آر ایس ایس آئیڈیالوجی کے لوگ گائے کے بہانے مذموم حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ مسجد میں ہڈی پھےنکتا ہوا نقاب میں ایک ہندو مرد نظر آیا۔ بےف کے ٹرک کو سڑکوں چوراہوں پر روکا جا رہا ہے۔ دادری کے مجرم سنگیت سوم ’گوشت کے کاروباری نکلے اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ آر ایس ایس آئیڈیا لوجی کے مقررین بے شرمی کی حد تک اتر آئے ہیں۔ میں سیکولر ذہنیت رکھتا ہوں۔ مگر سوچئے۔ یہ حملے کس پر ہو رہے ہیں؟ مسلمانوں پر۔ غم و غصہ، ضبط اور برداشت کی منزلوں سے کون گزر رہا ہے؟ جواب ہے مسلمان۔ خوفزدہ کون ہے؟ مسلمان۔ مقبوضہ ہندوستان، جسے آر ایس ایس نے اپنی گھناﺅنی آئیڈیا لوجی سے ہائی جیک کر لیا ہے۔ اس خوفناک اور سیاہ منظرنامہ پر غور کیجئے تو ایوارڈ واپسی کی رسم ایک معمولی احتجاج سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ 
کمزوری کے انجکشن:
میں نے ایک بات اپنی کتابوں میں بیس برس قبل اٹھائی تھی۔ آج پھر کہتا ہوں۔ کمزوری کے انجکشن ان 68برسوں میں اتنی بار دےئے گئے کہ مسلمان مجبور و بے بس ہوتے گئے۔ بار بار کانگریس کی طرف سے اقلیتوں کے ریزرویشن کی بات کہی گئی۔ کتنا ریزرویشن مل گےا مسلمانوں کو؟ معاشی اور اقتصادی صورت میں کتنی تبدیلی آئی؟ مسلمان اب ایک نیا انجکشن لیں۔ خود کو دوسری بڑی اکثریت کہنا شروع کریں۔ ہر منچ سے، ٹی وی کے پلیٹ فارم سے۔ ہر جگہ— مغرور اکثریت کے کانوں میں بار بار یہ بات جائے کہ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں۔ سوال ہے— اس سے کیا ہوگا؟ کیا فرق پڑے گا؟ نفسیاتی سطح پر لاچاری بے بسی کا بوجھ اٹھائے مسلمانوں کو اس نئی حکمت عملی سے فرق پڑے گا۔یہ تجربہ بھی کرکے دیکھتے ہیں۔
مسلمان کیسے لڑے گا؟
مودی صاحب نے بہار کی ریلی میں دادری حادثہ پر مذاق کیا کہ ہندو مسلمان آپس میں نہ لڑیں۔ غریبی سے لڑیں۔ مسلمان کیسے لڑے گا؟ جب آپ کی حکومت ہر محاذ پر مسلمانوں کا شکار کر رہی ہے۔ انہیں ہلاک کر رہی ہے۔ غریبی اور امیری کیسی؟ مسلمان ہی نہیں رہے گا— ایک فاسشٹ حکومت نے گجرات قتل عام کے تیر کا رخ اب پورے ہندوستان کی طرف کر دیا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں۔ کچھ الگ سوچنا ہوگا۔ کچھ بڑا سوچنا ہوگا۔ جو لوگ ہماری حمایت میں ہیں۔ ہم انہیں گھروں سے باہر لائیں۔ سڑکوں پر لائیں۔ احتجاج کو بغاوت میں تبدیل کریں۔ میڈیا فروخت ہو چکا ہے۔ میڈیا، ٹی وی چینلس مالکوں کی جیب میں ہے۔ اور مودی انہیں خرید چکے ہیں۔ یکّا دُکّا صحافیوں کی آواز سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اس خوفناک، پرآشوب فضا میں آر ایس ایس کی بھیانک آئیڈیا لوجی سے لڑنا اُس وقت آسان ہوگا، جب تحریروں کے ساتھ سیکولر فکر رکھنے والے تمام لوگ بغاوت کا بگل بن جائیں گے۔
 اجتماعی چیخ کی ضرورت:
آپ احتجاج کیجئے۔ ایوارڈ بھی لوٹائیے ۔ مگر محض ایوارڈ لوٹانے کو تماشہ نہ بنائیے۔ آپ کھل کر لکھئے۔ ڈرامہ، نکڑ ڈرامے اسٹےج، جلسے،جسے، جس طرح اپنی بات کہنی ہے، وہ اس طرح سے کہنے کی کوشش کرے۔ ےہ برا وقت اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت، اقلیتوں اور تمام جمہوری اور سیکولر فکر رکھنے والوں کیلئے ہے۔ اب آسمان پہ سوراخ کرنے والی اجتماعی چیخ کی ضرورت ہے۔

مشرف عالم ذوقی

No comments:

Post a Comment