Wednesday, 7 October 2015

عقیقہ: اولاد سے تکلیفیں دور کرنے کا نبوی طریقہ

جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ اولاد کی عظیم نعمت سے سرفراز فرماتا ہے تو اس کے شکرانے کے طور پر اس سے متعلق چند احکام متوجہ ہوتے ہیں، جن کا ذکراحادیثِ مبارکہ میں تفصیل سے آیا ہے۔اولاد کی ولادت کے وقت داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنا،اچھا نام رکھنا،تحنیک کروانا (یعنی کسی نیک آدمی سے کھجور یااس جیسی کوئی میٹھی چیز چبواکر نومولود کے منہ میںلگانا) ساتویں دن عقیقہ کرنا، اس کے سر کے بال منڈوانا اور بال کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا۔۔یہ تمام اعمال سنت و مستحب ہیں ،رسول اللہا نے حضرات حسنینؓ کی ولادت پر یہ امور انجام دیے ہیں اور ارشاد فرمایا: ہر بچّہ عقیقے کی وجہ سے گروی ہوتا ہے اس لیے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اوراس کے بال کاٹے جائیں۔ (بخاری)ایک حدیث میں فرمایا: ہر لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے، اس کی طرف سے خون بہاؤاور تکلیف ہٹاو۔ (ترمذی)
لغت میں ان بالوں کو عقیقہ کہتے ہیں جونو مولود کے سر پر ہوتے ہیں۔ (تہذیب الاسمائ) اصطلاحِ شرع میں لڑکا یا لڑکی کی ولادت کے ساتویں دن جانور ذبح کرنے کو عقیقہ کہا جاتا ہے۔(المصباح المنیر)دراصل عربی زبان میں ’عق‘کے معنیٰ کاٹنے کے ہیں، عقیقے میں ایک طرف تو جانور ذبح کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اس بچّیکے بال کاٹے جاتے ہیںجس کا عقیقہ ہوتا ہے، اس دو ہری مناسبت کی وجہ سے اہل عرب اس کو ’عقیقہ‘کہا کرتے تھے، اس طرح ماقبل اسلام سے اس پر عمل ہے اور اسلام نے بھی اسے باقی رکھا ہے۔ (حلال و حرام)
عقیقے کا حکم
اگر گنجائش ہو تو ہر ماں باپ کو اپنی اولاد کا عقیقہ ضرور کرنا چاہیے،اس سے متعلق عام طور پر تین طرح کی احادیث ملتی ہیں، ایک وہ جن میں رسول اللہ ا نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے، یا پھر جن میں آپ اکے حضرات حسنین ؓکا عقیقہ کرنے کا تذکرہ ہے اور اسی طرح کی احادیث کی تعداد زیادہ ہے، دوسری وہ احادیث ہیں، جن میں حضورا نے عقیقے کی اباحت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اس طرح کی حدیثیں کم ہیں، تیسری قسم وہ ، جن میں عقیقے کے منسوخ کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ احادیث کے ظاہری اختلاف کے سبب فقہا کے مسالک بھی متعدد ہوگئے، احناف کے یہاں اس سلسلے میں دو قول پائے جاتے ہیں، ایک استحباب کا اور دوسرا جواز کا۔(در مختار) 
عقیقہ کون کرے
جس پر بچّے کا نفقہ واجب ہے، اگر وہ صاحبِ مال ہو تو اس کو عقیقہ کرنا چاہیے، اس کے باوجود اگر والدین کو اس کی توفیق نہیں ہوئی اور دوسرے ( رشتے دار) کرنا چاہیں اور والدین رضا مند ہوجائیں، تو کافی ہو جائیگا۔ (فتاویٰ رحیمیہ) 
عقیقے کا وقت
 عقیقے میں مستحب یہ ہے کہ ساتویں روز کیا جائے، اگر ساتویں روز نہ ہو تو چودھویں روز یا اکیسویں روز کرے، بغیر کسی مجبوری کے اس سے زیادہ تاخیر نہ کرے۔(فتاویٰ رحیمیہ) یعنی پیدائش کا دن شامل کرکے ساتواں دن ، اس طرح کہ اگر جمعہ کے دن پیدائش ہوئی تو عقیقہ جمعرات کے دن ہوگا اور اگر جمعے کی رات میں پیدائش ہوئی ہے، تب بھی جمعرات کے دن ہی عقیقہ ہوگا، اس لیے کہ یہی دن ساتواں دن ہوتا ہے۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں یا اکیسویں دن کرلے، عقیقہ کے گوشت کی دعوت کرنا بھی درست ہے اور گوشت تقسیم کرنا بھی۔ (المغنی)
عقیقے کا جانور
جس جانور کی قربانی درست ہے، اس کا عقیقہ بھی درست ہے اور جس جانور کی قربانی جائز نہیں، اس کا عقیقہ بھی درست نہیں۔(بہشتی زیور) یعنی عقیقے کا جانور اسی عمر اور انہی خوبیوں کا مالک ہونا چاہیے جو قربانی کے لیے ہوا کرتا ہے اور عیوبات سے بھی اسی طرح پاک رہنا چاہیے جس طرح قربانی کا جانور ہواکرتا ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ)
بچّے اور بچی کے عقیقے میں فرق
حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں، رسول اللہ ا نے ہمیں حکم دیا کہ لڑکی کی طرف سے ایک اور لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں ذبح کریں۔ (ترمذی) لیکن اگر گنجائش نہ ہو تو لڑکے کے عقیقیمیں بھی دو جانوروںکے بدلے ایک جانور بھی چل سکتا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ)بلکہ اگر کوئی بالکل ہی عقیقہ نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں (یعنی وہ گنہگار نہیں ہوگا، انشاء اللہ)۔ (بہشتی زیور) 
عقیقے کی دعا
عقیقے کے لیے احادیث میں کوئی خاص دعا منقول نہیں، اگر اردو زبان میں کہہ لے یا صرف دل میں نیت کرلے کہ یہ فلاں کا عقیقہ ہے، اے اللہ!آپ اسے قبول فرما لیجیے، تو کافی ہے البتہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر کہنا چاہیے کیوں کہ جانور ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ بعض اہلِ علم نے عقیقے کے مقصد و منشا کو سامنے رکھتے ہوئے اس موقع پر یہ کلمات بتلائے ہیں: 
اَللَّھْمَّ ھٰذِہ عَقِیقِۃٌ،دَمْھَا بِدَمِہ وَعَظمْھَا بِعَظمِہٖ، وَ شَعرْھَا بِشَعرِہٖ، اَللّٰھْمَّ اجْعَلہٗ فِدئً لَّہٗ، اَللّٰھْمَّ مِنکَ وَلَکَ۔
 اس کے بعد بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر جانور ذبح کردے، یہ الفاظ لڑکے کے عقیقہ کے لیے ہیں، اگر عقیقہ لڑکی کا ہو تو بِدَمِہ، بِعَظمِہ، بِشَعرِہ کی جگہ بِدَمِھَا، بِعَظمِھَا، بِشعرِھَا کہنا چاہیے، دعا کے یہ الفاظ ذبح کرنے کے بعد بھی کہہ سکتے ہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ) 
جانور کی کھال اور گوشت کا حکم
 جو حکم قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت کا ہے، وہی حکم عقیقے کے گوشت اور کھال وغیرہ کا بھی ہے۔ 
بعض غلطیوں کی اصلاح
٭یہ جو دستور ہو گیا ہے کہ جس وقت بچّے کے سر پر استرا رکھا جائے اور نائی سر مونڈنا شروع کرے، فوراً اسی وقت بکرا ذبح ہو، یہ محض مہمل رسم ہے، شریعت میں [یہ] سب جائز ہے؛ چاہے سر مونڈنے کے بعد ذبح کرے یا ذبح کرنے کے بعد سر مونڈے، بے وجہ ایسی باتیں تراش لینا بُرا ہے۔(اغلاط العوام)
٭بہت مشہور ہے کہ عقیقے کا گوشت بچّے کے ماں، باپ، نانا، نانی، دادا، دادی کو کھانا درست نہیں، سو اس کی کوئی اصل نہیں، اس کا قربانی جیسا حکم ہے[جس طرح قربانی کا گوشت سب اہلِ خانہ کھا سکتے ہیں، اسی طرح عقیقے کا بھی کھا سکتے ہیں]۔(اغلاط العوام)
مولانا ندیم احمد انصاری (ممبئی)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈائیریکٹر ہیں)
alfalahislamicfoundation@gmail.com


عقیقہ کے مسائل
عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ/بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتا ہے۔ اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:
 زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولد بچہ / بچی کے نام سے خون بہا کر اللہ تعالی سے اُس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ اسلامی ویکسی نیشن ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالی کے حکم سے بعض پریشانیوں ، آفتوں ، بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ہمیں دنیاوی ویکسی نیشن کے ساتھ اس ویکسی نیشن کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
بچہ / بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہو جاتا ہے۔
بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث نمبر ۲ میں ہے۔
عقیقہ کی دعوت سے رشتہ دار، دوست احباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے جس سے ان کے درمیان محبت و الفت پیدا ہوتی ہے
عقیقہ کے متعلق چند احادیث:
۱-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچہ/بچی کے لئے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاو اور اُس سے گندگی ےیعنی سر کے بال کو دور کرو بخاری۔
۲-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ/بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سر منڈوایا جائے۔ترمذی ، ابن ماجہ ، نسائی ، مسند احمد۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: کل غلام مرتھن بعقیقۃ کی شرح علماء نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ/بچی کو باپ کے لئے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ/بچی کا عقیقہ نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ حتی الامکان بچہ/بچی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔
۳-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے ترمذی ، مسند احمد
۴-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا مئونث، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی بکرا یا بکری جا چاہیں ذبح کر دیں۔ ترمذی ، مسند احم
۵-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کا نام رکھا ، اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈھ دیئے جائیں، ابو داود۔
ان مذکورہ اور دیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچہ/بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا ، بال منڈوانا ، نام رکھنا اور ختنہ کروانا سنت ہے۔ لہذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ/بچی کا عقیقہ کر سکتا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو ضرور زندہ کرےتاکہ عنداللہ اجر عظیم کا مستحق بنے، نومولود بچہ/بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے ، نیز کل قیامت کے دن بچہ/بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔
کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟
عقیقہ کرنے کے لئے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتویں دن بچہ/بچی پر گزر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ساتویں دن ممکن نا ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکسویں دن کرنا چاہیے، جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کی بجائے آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقینا عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی ، اس کے فوائد ان شاء اللہ حاصل ہو جائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔
کیا بچہ/بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟
بچہ/بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے ، وہ یہ ہےکہ بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک بکرا/بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے دو بکرے ذبحہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتا ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ابو داود میں موجود ہے۔
بچہ/بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا؟
اسلام نے عورتوں کو معاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیاہے، جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا ، لیکن پھر بھی قرآن کی آیات و احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے، جیساکہ دنیا کے وجود سے لیکر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا حمل و ولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہذا شریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے 
  عقیقہ میں بکرا/بکری کے علاوہ دیگر جانور مثلا اونٹ گائے وغیرہ کو ذبیح کیا جا سکتا ہے؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے، مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث نمبر ۱ اور ۲ کی روشنی میں بکرا/بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کر سکتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکرا/بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی ، لہذا اونٹ گائے کی قربانی دے کر بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لئے تمام علماء نے عید الاضحی کی قربانی کے جانور کے شرائط تسلیم کئے ہیں۔
کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے ۲ لڑکوں اور ۲ لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہیے، تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے علماء نے قربانی پر قیاس کر کے اس کی اجازت دی ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس طریقہ پر عقیقہ نہ کیا جائے بلکہ ہر بچی/بچہ کی طرف سے کم از کم ایک خون بہا جائے۔
کیا عقیقہ کے گوشت کی ھڈیاں توڑ کر کھا سکتے ہیں ؟
بعض احادیث اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے احترام کے لئے جانور کی ہڈیاں جوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ کرنی چاہیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول و ضابطہ نہیں بنایا ہے کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ احادیث اور تابعین کے اقوال بہتر و افضل عمل کو ذکر کرنے کےمتعلق ہیں۔ لہذا اگر آپ ہڈیاں توڑ کر بھی گوشت بنا کر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں عموما گوشت چھوٹا چھوٹا کر کے یعنی ہڈیاں توڑ کر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا بالغ مرد و عورت کا بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیساکہ عموما ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑ کر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہو رہا ہے، تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کر سکتا ہے، کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا اخرجہ ابن حزم فی "الحلی" ، والطحاوی فی "المشکل"، نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سر کے بال منڈوانا جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں، کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی۔
دیگر مسائل:
قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء و مساکین کو دے دیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے لیں۔
کھال یا کھال کو فروخت کر کے اسکی قیمت قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ہے۔
8قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھا سکتے ہیں اور رشتہ داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔ اگر قربانی کے گوشت کے ۳ حصے کر لئے جائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لئے ، ایک رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غریبوں کے لئے ، لیکن یہ تین حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔
8عقیقہ کے گوشت کو پکا کر رشتے داروں کو بلا کر بھی کھلا سکتے ہیں، اور کچا گوشت بھی تقسیم کر سکتےہیں۔
اگر بچہ/بچی کی پیدائش جمعہ کے روز ہوئی ہے تو ساتواں دن جمعرات ہو گا۔
 http://www.ahnafmedia.com/articles-in-roman/item/3586-2013-07-20-20-41-20
عقیقے کی اہمیت
س… اسلام میں عقیقے کی کیا اہمیت ہے؟ اور اگر کوئی شخص بغیر عقیقہ کئے مرگیا تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج… عقیقہ سنت ہے، اگر گنجائش ہو تو ضرور کردینا چاہئے، نہ کرے تو گناہ نہیں، صرف عقیقے کے ثواب سے محرومی ہے۔
عقیقے کا عمل سنت ہے یا واجب
س… بچہ پیدا ہونے کے بعد جو عقیقہ کیا جاتا ہے اور بکرا صدقہ کیا جاتا ہے، یہ عمل سنت ہے یا واجب؟
ج… عقیقہ سنت ہے، لیکن اس کی میعاد ہے ساتویں دن یا چودھویں دن یا اکیسویں دن، اس کے بعد اس کی حیثیت نفل کی ہوگی۔
بالغ لڑکی لڑکے کا عقیقہ ضروری نہیں اور نہ بال منڈانا ضروری ہے
س… عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ بالغ مرد و عورت خود اپنا عقیقہ اپنی رقم سے کرسکتے ہیں یا والدین ہی کرسکتے ہیں؟ بڑی لڑکیوں یا بالغ عورت کا عقیقے میں سر منڈانا چاہئے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کتنے بال کاٹے جائیں اور کس طریقے پر؟
ج… عقیقہ سنت ہے، اس سے بچے کی اَلابلا دُور ہوتی ہے۔ سنت یہ ہے کہ ساتویں دن بچے کے سر کے بال اُتارے جائیں، ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کردی جائے اور لڑکے کے لئے دو بکرے اور لڑکی کے لئے ایک بکرا کیا جائے۔ اسی دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ اگر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو بعد میں کردے، مگر ساتویں دن کے بعد بعض فقہاء کے قول کے مطابق اس کی وہ حیثیت نہیں رہ جاتی۔ بڑی عمر کے لڑکوں لڑکیوں کا عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں، نہ عقیقے کے لئے ان کے بال اُتارنے چاہئیں۔


عقیقے کے جانور کی رقم صدقہ کرنے سے عقیقے کی سنت ادا نہیں ہوگی
س… کیا بچی کے عقیقے کے لئے خریدی جانے والی بکری کی رقم اگر کسی ضرورت مند اور غریب رشتہ دار کو دے دی جائے تو عقیقے کی سنت پوری ہوجائے گی؟
ج… اس سے سنت ادا نہیں ہوگی، البتہ صدقہ اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب مل جائے گا۔


بچوں کا عقیقہ ماں اپنی تنخواہ سے کرسکتی ہے
س… ماں اور باپ دونوں کماتے ہیں، باپ کی تنخواہ گھر کی ضروریات کے لئے کافی ہوتی ہے اور ماں کی تنخواہ پوری بچتی ہے، جو کہ سال بھر جمع ہوتی ہے، تو کیا ماں اپنے بچوں کا عقیقہ اپنی تنخواہ میں سے کرسکتی ہے؟ دُوسرے الفاظ میں یہ کہ کیا بچوں کا عقیقہ ماں کی کمائی میں سے ہوسکتا ہے؟ جبکہ والد زندہ ہیں اور کماتے ہیں اور گھر کا خرچہ بھی چلاتے ہیں۔ اُمید کرتی ہوں کہ دونوں سوالوں کے جواب کتب و سنت کی روشنی میں دے کر ممنون فرمائیں گے۔
ج… بچوں کا عقیقہ اور دُوسرے اخراجات باپ کے ذمہ ہیں، اگر ماں ادا کردے تو اس کی خوشی ہے، اور شرعاً عقیقہ بھی صحیح ہوگا۔
اپنے عقیقے سے پہلے بچی کا عقیقہ کرنا
س… میرا خود کا عقیقہ نہیں ہوا، تو کیا پہلے مجھے اپنا عقیقہ کرنے کے بعد بچی کا کرنا چاہئے؟
ج… آپ اپنی بچی کا عقیقہ کرسکتے ہیں، آپ کا عقیقہ اگر نہیں ہوا تو کوئی مضائقہ نہیں۔
قرض لے کر عقیقہ اور قربانی کرنا
س… میری مالی حالت اتنی نہیں ہے کہ میں اپنی تنخواہ میں سے اپنے بچوں کا عقیقہ یا قربانی کرسکوں، جبکہ دونوں فرض ہیں۔ کیا میں بینک سے قرضہ لے کر ان دونوں فرضوں کو پورا کرسکتا ہوں؟ یہ قرض میری تنخواہ سے برابر کٹتا رہے گا جب تک کہ قرضہ پورا نہ اُتر جائے۔
ج… صاحبِ استطاعت پر قربانی واجب ہے، اور عقیقہ سنت ہے۔ جس کے پاس گنجائش نہ ہو اس پر نہ قربانی واجب ہے، نہ عقیقہ۔ آپ سودی قرض لے کر قربانی یا عقیقہ کریں گے تو سخت گناہ گار ہوں گے۔
عقیقہ امیر کے ذمہ ہے یا غریب کے بھی؟
س… عقیقہ سنت ہے یا فرض؟ اور ہر غریب پر ہے یا امیروں پر ہی ہے؟ اور اگر غریب پر ضروری ہے تو پھر غریب طاقت نہیں رکھتا تو غریب کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… عقیقہ سنت ہے، اگر ہمت ہو تو کردے، ورنہ کوئی گناہ نہیں۔
غریب کے بچے بغیر عقیقے کے مرگئے تو کیا کرے؟
س… اگر غریب کے بچے دو دو چار چار سال کے ہوکر فوت ہوگئے ہوں تو ان کا عقیقہ بھی ضروری ہے؟
ج… نہیں۔
دس کلو قیمہ منگواکر دعوتِ عقیقہ کرنا
س… کیا دس کلو قیمہ منگواکر رشتہ داروں کی دعوت عقیقے یا صدقے (کیونکہ ساتویں دن کے بعد ہے) کی نیت سے کردی جائے تو اس طرح عقیقہ ہوجاتا ہے یا نہیں؟
ج… نہیں۔
رشتہ دار کی خبرگیری پر خرچ کو عقیقے پر ترجیح دی جائے
س… میرے آٹھ بچے ہیں، جن میں سے تین بچوں کا عقیقہ کرچکا ہوں، بقیہ پانچ بچے (۳ لڑکے، ۲ لڑکیاں) ہیں، مالی مجبوری کی وجہ سے ان کا عقیقہ نہیں کرسکا۔ ارادہ تھا کہ کسی سے کچھ رقم مل جائے تو اس کا عقیقہ کردوں۔ اسی فکر میں تھا کہ میرے ایک قریبی عزیز تپِ دق کے عارضے میں مبتلا ہوگئے، وہ بھی غریب تو پہلے ہی تھے، مگر بیماری کی وجہ سے آمدنی بالکل بند ہوگئی، اب ان کے تین بچے اور ایک بیوی اور ان کی بیماری کے جملہ مصارف میں برداشت کر رہا ہوں۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر درج ذیل اُمور کی وضاحت چاہتا ہوں۔ ۱:-عقیقے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ۲:-کیا عقیقے پر خرچ ہونے والی رقم کسی قریبی رشتہ دار پر خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ ان دونوں ذمہ داریوں میں اوّلیت کس کو دی جائے، رشتہ دار کی خبرگیری اور اس پر خرچہ وغیرہ کی ذمہ داری کو یا عقیقے سے عہدہ برآ ہونے کی ذمہ داری کو؟ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ قربانی کا ذبیحہ لازم ہے، اس کی رقم کسی کو نہیں دی جاسکتی ہے، کیا عقیقے کا بھی یہی حکم ہے؟ ۳:-کیا میرے لئے لازم ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح پانچ بچوں کے عقیقے سے فارغ ہوجاوٴں؟
ج… ۱:- عقیقہ شرعاً مستحب ہے، ضروری یا واجب نہیں۔ ۲:-اس لئے عقیقے میں خرچ ہونے والی رقم اپنے رشتہ دار محتاج کو دے دیں، کیونکہ ایسی حالت میں اس کی اعانت کرنا ضروری ہے، لہٰذا اس کو اوّلیت دی جائے گی۔ ۳:-عقیقہ کرنا واجب یا لازم نہیں، البتہ استطاعت ہونے پر عقیقہ کردینا مستحب ہے، کارِ ثواب ہے، نہ کرنا گناہ نہیں ہے۔
کن جانوروں سے عقیقہ جائز ہے؟
س… جن جانوروں میں سات حصے قربانی ہوسکتی ہے ان میں سات عقیقے بھی ہوسکتے ہیں، کیا لڑکے کے عقیقے میں گائے ہوسکتی ہے؟ اور کن جانوروں سے عقیقہ ہوسکتا ہے؟ کیا بھینس بھی ان میں شامل ہے؟
ج… جن جانوروں کی قربانی جائز ہے ان سے عقیقہ بھی جائز ہے۔ بھینس بھی ان جانوروں میں شامل ہے۔ اسی طرح جن جانوروں میں سات حصے قربانی کے ہوسکتے ہیں ان میں سات حصے عقیقے کے بھی ہوسکتے ہیں، اور ایک لڑکے کے عقیقے میں پوری گائے بھی ذبح کی جاسکتی ہے۔
لڑکے کے عقیقے میں دو بکروں کی جگہ ایک بکرا دینا
س… کوئی شخص اگر لڑکے کے لئے دو بکروں کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا وہ لڑکے کے عقیقے میں ایک بکرا کراسکتا ہے؟
ج… لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے یا دو حصے دینا مستحب ہے، لیکن اگر دو کی وسعت نہ ہو تو ایک بھی کافی ہے۔
لڑکے اور لڑکی کے لئے کتنے بکرے عقیقے میں دیں؟
س… لڑکے اور لڑکے کے لئے کتنے بکرے ہونے چاہئیں؟
ج… لڑکے کے لئے دو، لڑکی کے لئے ایک۔
تحفے کے جانور سے عقیقہ جائز ہے
س… کیا تحفے میں ملی ہوئی بکری کا عقیقہ میں استعمال کرنا جائز ہے؟
ج… تحفے میں ملی ہوئی بکری کا عقیقہ جائز ہے۔
قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا
س… کیا عیدِ قربان پر قربانی کے ساتھ عقیقہ بچوں کا بھی کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً ایک گائے لے کر ایک حصہ قربانی اور چھ حصے چار بچوں (دو لڑکے، دو لڑکیاں) کا عقیقہ ہوسکتا ہے؟
ج… قربانی کے جانور میں عقیقے کے حصے رکھے جاسکتے ہیں۔
عقیقے کے متعلق ائمہ اربعہ کا مسلک
س… عقیقے کے سلسلے میں آپ کے جواب کا یہ جملہ ”جن جانوروں میں سات حصے قربانی کے ہوسکتے ہیں، ان میں سات حصے عقیقے کے بھی ہوسکتے ہیں“ اختلافی مسئلہ چھیڑتا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ اس کی تائید میں قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں شرعی دلائل پیش فرماکر مشکور ہونے کا موقع دیں۔ بعض علماء کے نزدیک سات بچوں کے عقیقے پر ایک گائے یا بھینس ذبح کرنا دُرست نہیں ہے، ذیل میں کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
          ”گائے، بھینس کی قربانی (ذبیحہ) دُرست نہیں ہے، تاوقتیکہ وہ دو سال کی عمر مکمل کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو، اسی طرح اُونٹ ذبح کرنا بھی دُرست نہیں ہے تاوقتیکہ وہ پانچ سال کی عمر مکمل کرکے چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ عقیقے میں اشتراک صحیح نہیں ہے، جیسا کہ سات لوگ اُونٹ میں شراکت کرتے ہیں، کیونکہ اگر اس میں اشتراک صحیح ہو تو مولود پر ”اراقة الدم“ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جبکہ یہ ذبیحہ مولود کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بھیڑ یا بکری کے بدلے اُونٹ یا گائے کو ذبح کیا جائے بشرطیکہ یہ ذبیحہ یعنی ایک جانور ایک مولود کے لئے ہو۔ امام ابنِ قیم نے انس بن مالکسے روایت کی ہے کہ: ”انہوں نے اپنے بچے کا ذبیحہ (عقیقہ) ایک جانور سے کیا۔“ اور ابی بکرة سے مروی ہے کہ: ”انہوں نے اپنے بچے عبدالرحمن کے عقیقے پر ایک جانور ذبح کیا اور اہلِ بصرہ کی دعوت کی۔“ اور جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ: ”فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لئے ایک ایک بھیڑ ذبح کی۔“ امام مالک کا قول ہے کہ: ”عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے دونوں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے عقیقہ کیا، ہر بچے کے لئے ایک ایک بکری۔“ امام ابوداوٴد نے اپنی سنن میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک بھیڑ سے کیا۔“ امام احمد اور امام ترمذی نے اُمّ کرز کعبیہ سے روایت کی ہے کہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”لڑکے پر دو بکریاں اور لڑکی پر ایک بکری۔“ ابنِ ابی شیبہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی ہے کہ: ”ہم کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے حکم دیا ہے کہ ہم لڑکے پر دو بکریوں سے عقیقہ کریں اور لڑکی پر ایک بکری سے۔“ ان سب احادیث کی روشنی میں جمہور علمائے سلف و خلف کا عمل اور فتویٰ یہی ہے کہ بھیڑ یا بکری کے علاوہ کسی دُوسرے جانور سے عقیقہ کرنا سنتِ مطہرہ سے ثابت و صحیح نہیں ہے۔ لیکن جن بعض علمائے خلف نے اُونٹ یا گائے یا بھینس سے عقیقہ کرنے کی اجازت دی ہے، ان کی دلیل ابنِ منذر کی وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ہر بچے پر عقیقہ ہے، چنانچہ اس پر سے خون بہاوٴ (مع الغلام عقیقة فاہریقوا عنہ دمًا)۔“ چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظِ ”دَم“ نہیں ”دَمًا“ فرمایا ہے، پس اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مولود پر بھیڑ، بکری، اُونٹ اور گائے ذبح کرنے کی اجازت و رُخصت ہے۔ لیکن افضل یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی اتباع میں صرف بھیڑ یا بکری سے ہی عقیقہ کیا جائے، واللہ اعلم بالصواب۔“
          یہ تمام تفصیل کتاب ”تحفة المودود فی أحکام المولود“ لابن القیم الجوزیة اور ”تربیة الأولاد فی الاسلام“ الجزء الاوّل، مصنفہ الاستاذ الشیخ عبداللہ ناصح علوان طبع ۱۹۸۱ء ص:۹۸، مطبع دار السلام للطابعة والنشر والتوزیع، حلب و بیروت۔ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ج… آپ کے طویل گرامی نامے کے ضمن میں چند گزارشات ہیں:
          اوّل:… آپ نے لکھا ہے کہ:
          ”عقیقے کے سلسلے میں یہ جملہ ․․․․․ اختلافی مسئلہ چھیڑتا ہے ․․․․․ “
          یہ تو ظاہر ہے کہ فروعی مسائل میں ائمہ فقہاء کے اختلافات ہیں، اور کوئی فروعی مسئلہ مشکل ہی سے ایسا ہوگا جس کی تفصیلات میں کچھ نہ کچھ اختلاف نہ ہو۔ اس لئے جو مسئلہ بھی لکھا جائے اس کے بارے میں یہی اِشکال ہوگا کہ یہ تو اختلافی مسئلہ ہے۔ آنجناب کو معلوم ہوگا کہ یہ ناکارہ فقہِ حنفی کے مطابق مسائل لکھتا ہے، البتہ اگر سائل کی طرف سے یہ اشارہ ہو کہ وہ کسی دُوسرے فقہی مسلک سے وابستہ ہے تو اس کے فقہی مذہب کے مطابق جواب دیتا ہوں۔
          دوم:… آنجناب نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں آئندہ شمارے میں اس کی تائید میں قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل پیش کروں۔ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے دلائل سے بحث قصداً نہیں کرتا، کیونکہ عوام کی ضرورت یہ ہے کہ انہیں منقح مسئلہ بتادیا جائے، دلائل کی بحث اہلِ علم کے دائرے کی چیز ہے۔
          سوم:… آنجناب نے حافظ ابنِ قیم کی کتاب سے جو اقتباسات نقل کئے ہیں ان میں مسئلے زیرِ بحث آئے، ایک یہ کہ کیا بھیڑ یا بکری کے علاوہ کسی دُوسرے جانور کا عقیقہ دُرست ہے یا نہیں؟ آپ نے لکھا ہے کہ:
          ”ان سب احادیث کی روشنی میں جمہور علمائے سلف و خلف کا معمول اور فتویٰ یہی ہے کہ بھیڑ یا بکری کے علاوہ کسی دُوسرے جانور سے عقیقہ کرنا سنتِ مطہرہ سے ثابت و صحیح نہیں۔“
          جہاں تک اس ناکارہ کی معلومات کا تعلق ہے، مذاہبِ اربعہ اس پر متفق ہیں کہ اُونٹ اور گائے سے عقیقہ دُرست ہے، حنفیہ کا فتویٰ تو میں پہلے لکھ چکا ہوں، دیگر مذاہب کی تصریحات حسبِ ذیل ہیں۔

          فقہِ شافعی:
          امام نووی ”شرح مہذب“ میں لکھتے ہیں:
          ”المجزیٴ فی العقیقة ھو المجزیٴ فی الأضحیة، فلا تجزیٴ دون الجذعة من الضأن، أو الثنیة من المعز والابل والبقر، ھٰذا ھو الصحیح المشھور، وبہ قطع الجمھور، وفیہ وجہ حکاہ الماوردی وغیرہ أنہ یجزیٴ دون جزعة الضأن، وثنیة المعز، والمذھب الأوّل۔“                       (شرح مہذب ج:۸ ص:۴۲۹)
          ترجمہ:… ”عقیقے میں بھی وہی جانور کفایت کرے گا جو قربانی میں کفایت کرتا ہے، اس لئے جذعہ سے کم عمر کا دُنبہ، اور ثنی (دو دانت) سے کم عمر کی بکری، اُونٹ اور گائے جائز نہیں، یہی صحیح اور مشہور روایت ہے اور جمہور نے اس کو قطعیت کے ساتھ لیا ہے۔ اس میں ایک دُوسری روایت ، جسے ماوردی وغیرہ نے نقل کیا ہے یہ ہے کہ اس میں جذعہ سے کم عمر کی بھیڑ اور دُنبہ اور ثنی سے کم عمر کی بکری بھی جائز ہے، لیکن مذہب پہلے روایت ہے۔“


          فقہِ مالکی:
          ”شرح مختصر الخلیل“ میں ہے:
          ”ابن رشد: ظاھر سماع أشھب أن البقر تجزیٴ أیضًا فی ذٰلک، وھو الأظھر قیاسًا علی الضحایا۔“               (مواہب الخلیل ج:۳ ص:۲۵۵)
          ترجمہ:… ”ابنِ رشد کہتے ہیں کہ: اشہب کا ظاہر سماع یہ ہے کہ عقیقے میں گائے بھی کفایت کرتی ہے اور یہی ظاہر تر ہے، قربانیوں پر قیاس کرتے ہوئے۔“

          فقہِ حنبلی:
          ”الروض المربع“ میں ہے:
          ”وحکمھا فیھا یجزیٴ ویستحب ویکرہ کالأضحیة الا أنہ لا یجزیٴ فیھا شرک فی دم، فلا تجزیٴ بدنة ولا بقرة الا کاملة۔“
(بحوالہ اوجز المسالک ج:۹ ص:۲۱۸، شائع کردہ مکتبہ امدادیہ مکہ مکرّمہ)

          ترجمہ:… ”عقیقے میں کون کون سے جانور جائز ہیں؟ اور کیا کیا اُمور مستحب ہیں؟ اور کیا کیا مکروہ ہیں ان تمام اُمور میں عقیقے کا حکم مثل قربانی کے ہے، اِلَّا یہ کہ اس میں جانور میں شرکت جائز نہیں، اس لئے اگر عقیقے میں بڑا جانور ذبح کیا جائے تو پورا ایک ہی کی طرف سے ذبح کرنا ہوگا۔“

          ان فقہی حوالوں سے معلوم ہوا کہ مذاہبِ اربعہ اس پر متفق ہیں کہ بھیڑ بکری کی طرح اُونٹ اور گائے کا عقیقہ بھی جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اکثر اَحکام میں اس کا حکم قربانی کا ہے، اور جمہور علماء کا یہی قول ہے، چنانچہ ابنِ رشد ”بدایة المجتہد“ میں لکھتے ہیں:
          ”جمہور العلماء علٰی أنہ لا یجوز فی العقیقة الا ما یجوز فی الضحایا من الأزواج الثمانیة۔“
           (بدایة المجتھد ج:۱ ص:۳۳۹، مکتبہ علمیہ لاہور)
          ترجمہ:… ”جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ عقیقے میں صرف وہی آٹھ نر و مادہ جائز ہیں جو قربانیوں میں جائز ہیں۔“
          حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
          ”والجمھور علٰی أجزاء الابل والبقر أیضًا، وفیہ حدیث عند الطبرانی وأبی الشیخ عن أنس رفعہ ”یعق عنہ من الابل والبقر والغنم“ ونص أحمد علٰی اشتراط کاملة، وذکر الرافعی بحثًا أنھا تتأدی بالسبع کما فی الأضحیة والله أعلم۔“
           (فتح الباری ج:۹ ص:۵۹۳، دار نشر الکتب الاسلامیة لاہور)
          ترجمہ:… ”جمہور اس کے قائل ہیں کہ عقیقے میں اُونٹ اور گائے بھی جائز ہے، اور اس میں طبرانی اور ابوالشیخ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کی تخریج کی ہے کہ: ”بچے کی طرف سے اُونٹ، گائے اور بکری کا عقیقہ کیا جائے گا“ اور امام احمد نے تصریح کی ہے کہ پورا جانور ہونا شرط ہے، اور رافعی نے بطور بحث ذکر کیا ہے کہ عقیقہ بڑے جانور کے ساتویں حصے سے بھی ہوجائے گا، جیسا کہ قربانی، واللہ اعلم۔“
          دُوسرا مسئلہ یہ کہ آیا بڑے جانور میں عقیقے کے سات حصے ہوسکتے ہیں؟ اس میں امام احمد کا اختلاف ہے، جیسا کہ اُوپر کے حوالوں سے معلوم ہوا، وہ فرماتے ہیں کہ اگر اُونٹ یا گائے کا عقیقہ کرنا ہو تو پورا جانور کرنا چاہئے، اس میں اشتراک صحیح نہیں، شافعیہ کے نزدیک اشتراک صحیح ہے۔
          چنانچہ ”شرح مہذب“ میں ہے:
          ”ولو ذبح بقرة أو بدنة عن سبعة أولاد أو اشترک فیھا جماعة جائز۔“        (ج:۸ ص:۴۲۹)
          ترجمہ:… ”اور اگر ذبح کی گائے یا اُونٹ سات بچوں کی جانب سے، یا شریک ہوئی اس میں ایک جماعت تو جائز ہے۔“
          حنفیہ کے نزدیک بھی اشتراک جائز ہے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحبلکھتے ہیں:
          ”ایک گائے میں عقیقے کے سات حصے ہوسکتے ہیں، جس طرح قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیں۔“
                              (کفایة المفتی ج:۸ ص:۲۶۳)
          اور آپ کا یہ ارشاد کہ:
          ”عقیقے میں اشتراک صحیح نہیں ہے، جیسا کہ سات لوگ اُونٹ میں شرکت کرتے ہیں، کیونکہ اگر اس میں اشتراک صحیح ہو تو مولود پر ”اراقة الدم“ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔“
          یہ استدلال محلِ نظر ہے، اس لئے کہ قربانی میں بھی ”اراقة الدم“ ہی مقصود ہوتا ہے، جیسا کہ حدیثِ نبوی میں اس کی تصریح ہے:
          ”عن عائشة رضی الله عنہا قالت: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما عمل ابن اٰدم من عمل یوم النحر أحب الی الله من اھراق الدم۔“ الحدیث۔
                    (رواہ الترمذی وابن ماجة، مشکوٰة ص:۱۲۸)
          ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے دن ابنِ آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔“
          ”وعن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی یوم الأضحی: ما عمل اٰدمی فی ھٰذا الیوم أفضل من دم یھراق الا أن یکون رحمًا توصل۔“ (رواہ الطبرانی فی الکبیر، وفیہ یحیٰی بن الحسن الخشنی وھو ضعیف، وقد وثقہ جماعة، مجمع الزوائد ج:۴ ص:۱۸)
          ترجمہ:… ”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن کے بارے میں فرمایا کہ: اس دن میں آدمی کا کوئی عمل خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے افضل نہیں اِلَّا یہ کہ کوئی صلہ رحمی کی جائے۔“
          چونکہ قربانی سے اصل مقصود ”اراقة الدم“ ہے، اس لئے قربانی کے گوشت کا صدقہ کرنا کسی کے نزدیک بھی ضروری نہیں، اگر خود کھائے یا دوست احباب کو کھلادے تب بھی قربانی صحیح ہے۔
          پس جبکہ قربانی سے مقصود بھی ”اراقة الدم“ اور اس میں شرکت کو جائز رکھا گیا ہے تو عقیقے میں شرکت سے بھی اراقہ دَم کا مضمون فوت نہیں ہوتا، اور جب قربانی میں شرکت جائز ہے، تو عقیقے میں بدرجہٴ اَوْلیٰ جائز ہونی چاہئے، کیونکہ عقیقے کی حیثیت قربانی سے فروتر ہے، پس اعلیٰ چیز میں شریعت نے شرکت کو جائز رکھا ہے تو اس سے ادنیٰ میں بدرجہٴ اَوْلیٰ شرکت جائز ہوگی، یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ فقہاء عقیقے میں قربانی ہی کے اَحکام جاری کرتے ہیں۔
          چنانچہ شیخ الموفق ابن قدامہ حنبلی ”المغنی“ میں لکھتے ہیں:
          ”والأشبہ قیاسھا علی الأضحیة، لأنھا نسیکة مشروعة غیر واجبة فأشبھت الأضحیة، ولأنھا أشبھت فی صفاتھا وسنھا وقدرھا وشروطھا فأشبھتھا فی مصرفھا۔“           (المغنی مع الشرح الکبیر ج:۱۱ ص:۱۲۴)
          ترجمہ:… ”اور اشبہ یہ ہے کہ اس کو قربانی پر قیاس کیا جائے، اس لئے کہ یہ ایک قربانی ہے جو مشروع ہے، مگر واجب نہیں، پس قربانی کے مشابہ ہوئی، اور اس لئے بھی کہ یہ قربانی کے مشابہ ہے اس کی صفات میں، اس کی عمر میں، اس کی مقدار میں، اس کی شروط میں، پس مشابہ ہوئی اس کے مصرف میں بھی۔“


بڑی عمر میں اپنا عقیقہ خود کرسکتے ہیں، عقیقہ نہ کیا ہو تو بھی قربانی جائز ہے
س… کیا کوئی بڑی عمر میں اپنا عقیقہ خود کرسکتا ہے؟ اگر عورت اپنا عقیقہ کرے تو کتنے بال کٹوائے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کی قربانی جائز نہیں، پہلے اپنا عقیقہ کرے، اس کے بعد قربانی کرے۔ کیا یہ اَز رُوئے شرع دُرست ہے؟
ج… عقیقہ ساتویں دن سنت ہے، بعد میں اگر کرنا ہو تو ساتویں دن کی رعایت مناسب ہے، یعنی پیدائش والے دن سے پہلے دن عقیقہ کیا جائے، مثلاً: پیدائش کا دن جمعہ تھا تو عقیقہ جمعرات کو ہوگا۔ بڑی عمر میں عقیقہ کیا جائے تو بال کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ جس کا عقیقہ نہ ہوا ہو وہ قربانی کرسکتا ہے، اور اگر اس کے ذمہ قربانی واجب ہو تو قربانی کرنا ضروری ہے، عقیقہ خواہ ہوا ہو کہ نہ ہوا ہو۔
شوہر کا بیوی کی طرف سے عقیقہ کرنا
س… یہ بتائیں کہ شوہر اپنی بیوی کا عقیقہ کرسکتا ہے یا یہ بھی شادی کے بعد والدین پر فرض ہے کہ بیٹی کا عقیقہ خود کریں جبکہ وہ دس بچوں کی ماں بھی ہے؟
ج… عقیقہ فرض ہی نہیں، بلکہ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت ہے، بشرطیکہ والدین کے پاس گنجائش ہو۔ اگر والدین نے عقیقہ نہیں کیا تو بعد میں کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور شوہر کا بیوی کی طرف سے عقیقہ کرنا جبکہ وہ دس بچوں کی ماں بھی ہو لغو حرکت ہے۔
ساتویں دن عقیقہ دُوسری جگہ بھی کرنا جائز ہے
س… عقیقہ کرنا کیا سات دن کے اندر ضروری ہے؟ اور کیونکہ یہاں قطر میں رشتہ دار وغیرہ نہیں ہیں، تو کیا ہم یہاں رہتے ہوئے اپنے والدین کو پاکستان میں لکھ سکتے ہیں کہ وہ وہاں عقیقہ کردیں؟
ج… عقیقہ ساتویں دن سنت ہے، اگر ساتویں دن نہ کیا جائے تو ایک قول کے مطابق بعد میں سنت کا درجہ باقی نہیں رہتا۔ اگر بعد میں کرنا ہو تو ساتویں دن کی رعایت رکھنی چاہئے، یعنی بچے کی پیدائش کے دن سے پہلے دن عقیقہ کیا جائے، مثلاً: بچے کی پیدائش جمعہ کی ہو تو عقیقہ جمعرات کو ہوگا، پاکستان میں بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔
کئی بچوں کا ایک ساتھ عقیقہ کرنا
س… اکثر لوگ کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرتے ہیں، جبکہ بچوں کے پیدائش کے دن مختلف ہوتے ہیں، قرآن اور سنت کی روشنی میں یہ فرمائیں کیا عقیقہ ہوجاتا ہے؟
ج… عقیقہ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن سنت ہے، اگر گنجائش نہ ہو تو نہ کرے، کوئی گناہ نہیں، دن کی رعایت کے بغیر سب بچوں کا اکٹھا عقیقہ جائز ہے، مگر سنت کے خلاف ہے۔
مختلف دنوں میں پیداشدہ بچوں کا ایک ہی دن عقیقہ جائز ہے
س… اگر گائے کا عقیقہ کریں تو اس میں سات حصے ہونے چاہئیں؟ اور بچوں کی پیدائش مختلف ایام میں ہو تو ایک دن میں گائے کرنا چاہئے یا نہیں؟
ج… ایک دن تمام بچوں کا عقیقہ کرنا چاہے تو مختلف تاریخوں میں پیدا ہونے والوں کا ایک دن عقیقہ کیا جاسکتا ہے، اور تمام جانور یا گائے ایک ساتھ ذبح کرسکتا ہے، یعنی جائز ہے، البتہ مسنون عقیقہ ساتویں دن کا ہے۔
اگر کسی کو پیدائش کا دن معلوم نہ ہو تو وہ عقیقہ کیسے کرے؟
س… کہتے ہیں کہ عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن ہونا چاہئے، اگر کوئی اپنا عقیقہ کرنا چاہے اور اس کو اپنی پیدائش کا دن معلوم نہ ہو تو وہ کیا کرے؟
ج… ساتویں دن عقیقہ کرنا بالاتفاق مستحب ہے، اسی طرح دارقطنی کی ایک روایت کے مطابق چودھویں دن بھی مستحب ہے۔ جبکہ امام ترمذی کے نقل کردہ ایک قول کے مطابق اگر کسی نے ان دو دنوں میں عقیقہ نہیں کیا تو اکیسویں دن بھی کرلینا مستحب ہے۔ بہرحال اگر کوئی شخص ساتویں دن، چودھویں دن اور اکیسویں دن کے علاوہ کسی اور دن عقیقہ کرے تو نفسِ عقیقہ ہوجائے گا البتہ اس کا وہ استحباب اور ثواب جو کہ ساتویں دن، چودھویں دن اور اکیسویں دن کرنے میں تھا وہ حاصل نہ ہوگا، اگر بعد میں کرے تو ساتویں دن کی رعایت رکھنا بہتر ہے، یاد نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
عقیقے کے وقت بچے کے سر کے بال اُتارنا
س… کیا عقیقے کے وقت بچے کے سر کے بال اُتارنا ضروری ہے جبکہ دو چار ماہ بعد عقیقہ کیا جارہا ہو؟
ج… ساتویں دن بال اُتارنا اور عقیقہ کرنا سنت ہے، اگر نہ کیا تو بال اُتاردیں، بعد میں جانور ذبح کرتے وقت پھر بال اُتارنے کی ضرورت نہیں۔
عقیقے کا گوشت والدین کو استعمال کرنا جائز ہے
س… اپنی اولاد کے عقیقے کا گوشت والدین کو کھانا چاہئے یا نہیں؟ اور اگر اس گوشت میں ملاکر کھایا جائے یا اگر بالکل ہی عقیقے کا گوشت استعمال نہ کیا جائے تو والدین کے لئے کیوں منع ہے؟ کیا والدین اپنی اولاد کے عقیقے میں ذبح ہونے والے جانور کا گوشت نہیں کھاسکتے؟ اگرایسا ہے تو کیوں؟
ج… عقیقے کا گوشت جیسے دُوسروں کے لئے جائز ہے، اسی طرح بغیر کسی فرق کے والدین کے لئے بھی جائز ہے۔
عقیقے کے گوشت میں ماں، باپ، دادا، دادی کا حصہ
س… عقیقے کے گوشت میں ماں، باپ، دادا، دادی کا حصہ ہے؟
ج… عقیقے کے گوشت کا ایک تہائی حصہ مساکین کو تقسیم کردینا افضل ہے، اور باقی دو تہائی حصے سے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی، بہن اور سب رشتہ دار کھاسکتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص تمام گوشت رشتہ داروں کو تقسیم کردے یا اس کو پکاکر ان کی ضیافت کردے تو یہ بھی جائز ہے، بہرحال عقیقے کا گوشت سب رشتہ دار کھاسکتے ہیں۔
سات دن کے بعد عقیقہ کیا تو اس کے گوشت کا حکم
س… پچھلے دنوں آپ نے عقیقے کے متعلق لکھا تھا کہ اگر سات یوم کے اندر عقیقہ کیا جائے تو عقیقہ ہوگا ورنہ صدقہ تصوّر ہوگا (جبکہ عقیقے کا مقصد پورا ہوجائے گا)۔ اس ضمن میں تھوڑی سی وضاحت آپ سے چاہوں گا، وہ یہ کہ اگر سات یوم کے بعد عقیقے کے طور پر بکرا ذبح کرتے ہیں جبکہ یہ صدقہ ہے تو اس پر صرف غریبوں کا حق ہوگا، آیا پورا گوشت غریبوں کے لئے ہوگا یا کچھ حصہ استعمال کیا جاسکتا ہے، جس طرح عقیقے میں ہوتا ہے؟
ج… سات دن کے بعد جو عقیقہ کیا جائے اس کے گوشت کی حیثیت عقیقے کے گوشت ہی کی ہوگی، میرے ذکر کردہ مسئلے کا مقصد یہ ہے کہ سات دن کے بعد جو عقیقہ کیا جائے، بعض فقہاء کے قول کے مطابق اس کی فضیلت عقیقے کی نہیں رہتی، بلکہ عام صدقہ خیرات کی سی ہوجاتی ہے، یہ مطلب نہیں کہ اس کا گوشت پورے کا پورا صدقہ کرنا ضروری ہے۔
عقیقے کے سلسلے میں بعض ہندوانہ رُسوم کفر و شرک تک پہنچاسکتی ہیں
س… ہمارے علاقے میں عورتیں یہ کہتی ہیں کہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو وہ اس کے سر کے بال مخصوص جگہ پر اُتروائیں گی، اور بکرے کی قربانی بھی وہاں جاکر دیں گے، اور لڑکا پیدا ہونے کے بعد کئی ماہ تک اس کے بال اُتروانے سے پہلے اپنے اُوپر گوشت کھانا حرام سمجھتی ہیں، اور پھر کسی دن مرد اور عورتیں ڈھول کے ساتھ اس جگہ پر جاکر لڑکے کے سر کے بال اُترواتے ہیں اور بکرے کا ذبیحہ کرکے وہاں ہی گوشت پکاکر کھاتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
ج… یہ ایک ہندوانہ رسم ہے، جو مسلمانوں میں در آئی ہے، اور چونکہ اس میں فسادِ عقیدہ شامل ہے اس لئے اعتقادی بدعت ہے۔ جو بعض صورتوں میں کفر و شرک تک پہنچاسکتی ہے۔ چنانچہ بعض لوگ کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ نے دیا ہے، اس لئے وہ اس بزرگ کے مزار پر نیاز چڑھانے کی منّت مانتے ہیں اور منّت پوری کرنے کے لئے اس مزار پر جاکر بچے کے بال اُتارتے ہیں، وہاں قربانی کرتے ہیں اور دُوسری بہت سی خرافات کرتے ہیں، مسلمانوں کو ایسی خرافات سے پرہیز کرنا چاہئے۔

http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-4/1378-aqeeqa

No comments:

Post a Comment