رواہ ابن ابی الدنیاکے مطابق حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ” ام المؤمنین ہمیں زلزلہ کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے ؟ “ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا” جب لوگ زنا کو حلال کر لیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو الله تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اورزمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کر لیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ “
اس شخص نے عرض کیا ”کیا یہ زلزلہ عذاب ہوتا ہے ؟ “
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے فرمایا ”اہل ایمان کے لیے عبرت ونصیحت ہوتی ہے اور جو صالحین اس میں جاں بحق ہو جائیں ان کے لیے رحمت ہے ( یعنی شہادت کا مرتبہ ہے)، البتہ کافروں کے لیے تو زلزلہ قہر اور عذاب الہٰی بن کر آتا ہے۔“
کے مطابق
یہاں سنن ترمذی کی ایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہُ عنہ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں
جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں
تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )
1- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔
2- امانت دبالی جائے۔
3- زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔
4- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔
5- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔
6- دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔
7- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔
8- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔
9- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔
10- گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔
11- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔
12- بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
(سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)
انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی نے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے
سائنس نے یہ تو بتادیا کہ زمین کی پلیٹیں ہلتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے؛ لیکن اِس کا حل اور ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے، یہ نہیں بتایا؛ لیکن اِسلام نے جہاں ایک طرف زلزلے کے اسباب بتائے، وہیں دوسری طرف اُس کا معقول اور مطمئن حل بھی بتایا ہے، اور دنیا کی تاریخ؛ بالخصوص تباہ شدہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے جو کچھ بتایا ہے اُس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو یہ زلزلے ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تم نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالیں، اڑنے کے سامان بنالیے، کمپیوٹر ایجاد کرلیے، چاند پرکمندیں ڈال آئے، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلیے اور ترقی کے سارے رکارڈتوڑ ڈالے؛ لیکن تم اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاوٴ، اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے؛ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے اندر زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاوٴں کی معافی مانگو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۸۳۳۴ فی الصلاة فی الزلزلہ)
دوسری بات یہ کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا، جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے، اسلامی زبان میں اسے قیامت کہتے ہیں،یہ زلزلے انسان کواُسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلادی گئی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو؛چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری، رقم:۱۰۳۶) کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟
لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہرضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔
(الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷)
ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز رحمہ اللہ کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہٰذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:۴۷)
اِس موقع پر نماز بھی پڑھ سکتے ہیں
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے یہ اصول قائم کیا ہے کہ ہر گھبراہٹ کے موقع پر نماز پڑھنی چاہیے، زلزلہ بھی ان مواقع میں سے ہے؛ لہٰذا تنہا تنہا مسلمانوں کو نماز ادا کرنی چاہیے اور تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیے اور یہ نماز دو رکعت عام نمازوں کی طرح ہوگی؛ البتہ مکروہ وقت میں نہ پڑھی جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے بصرہ میں زلزلہ کی بنا پر نماز پڑھی ہے۔ (بدائع الصنائع ۱/۲۸۲)
یہ دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں
زلزلے کے موقع پر مذکورہ دعاوٴں کا ورد رکھنا چاہیے، حضرت عمر بن عبد العزیز نے اِس موقع پر لوگوں کو تین دعاوٴں کے اہتمام کی تاکید کی تھی، یہ تینوں دعائیں، قرآنی دعائیں ہیں؛ اِس لیے اِن کی اہمیت اور تاثیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا:
۱- حضرت آدم علیہ السلام کی دعا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن (الاعراف:۲۳)
۲- حضرت نوح علیہ السلام کی دعا وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (ہود:۴۷)
۳- حضرت یونس علیہ السلام کی دعا لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن (انبیاء:۸۷)
(الجواب الکافی،ص:۴۷)
الغرض زلزلوں کے تعلق سے اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے؛ بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛ لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں
لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛ لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں؛ بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔
اِس موقع پرایک مسلمان کا شیوہ
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
اگر ایک شخص صاحبِ ایمان ہے تو اُس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اِس واقعہ کے پیچھے کیا مصلحتیں کام کررہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کیا بھلائیاں پیدا کرے گا اور کائنات کے مجموعی نظام کے اعتبار سے اِس کے اندر کیا خیر کا پہلو ہے؟ میں نہیں جانتا؛ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اِس کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی پتہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہلتا اور کوئی حرکت اِس کائنات میں اللہ کی حکمت کے بغیر نہیں ہوتی؛ لہٰذا سرِ تسلیم خم ہے، جو کچھ ہوا، وہ اُن کی حکمت کے عین مطابق ہوا، چاہے ہماری سمجھ میں وہ حکمت آئے یا نہ آئے، ہم اِس پر کوئی رائے زنی نہیں کرتے۔(اصلاحی خطبات۱۶/۱۳۸)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہم جزم اور وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ (زلزلہ) عذاب تھا یا نہیں، اِس بحث میں پڑنے کے بجائے ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سے متاثرین کی جتنی مدد ہوسکتی ہے ہم وہ مدد کریں، جو لوگ دنیا سے چلے گئے اُن کے لیے دعاءِ مغفرت کریں، جو موجود ہیں اُن کے لیے دعائے صحت کریں اور ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید مصائب اور تکلیفوں سے محفوظ فرمادے (اصلاحی خطبات۱۶/۱۴۱)
بہر حال ان زلزلوں سے ا یک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
1- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔
2- امانت دبالی جائے۔
3- زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔
4- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔
5- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔
6- دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔
7- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔
8- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔
9- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔
10- گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔
11- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔
12- بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
(سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)
انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی نے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے
سائنس نے یہ تو بتادیا کہ زمین کی پلیٹیں ہلتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے؛ لیکن اِس کا حل اور ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے، یہ نہیں بتایا؛ لیکن اِسلام نے جہاں ایک طرف زلزلے کے اسباب بتائے، وہیں دوسری طرف اُس کا معقول اور مطمئن حل بھی بتایا ہے، اور دنیا کی تاریخ؛ بالخصوص تباہ شدہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے جو کچھ بتایا ہے اُس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تو یہ زلزلے ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تم نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالیں، اڑنے کے سامان بنالیے، کمپیوٹر ایجاد کرلیے، چاند پرکمندیں ڈال آئے، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنادیا، سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلیے اور ترقی کے سارے رکارڈتوڑ ڈالے؛ لیکن تم اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاوٴ، اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے؛ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے اندر زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاوٴں کی معافی مانگو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۸۳۳۴ فی الصلاة فی الزلزلہ)
دوسری بات یہ کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا، جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے، اسلامی زبان میں اسے قیامت کہتے ہیں،یہ زلزلے انسان کواُسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلادی گئی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو؛چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری، رقم:۱۰۳۶) کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟
لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہرضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔
(الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷)
ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز رحمہ اللہ کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہٰذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:۴۷)
اِس موقع پر نماز بھی پڑھ سکتے ہیں
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے یہ اصول قائم کیا ہے کہ ہر گھبراہٹ کے موقع پر نماز پڑھنی چاہیے، زلزلہ بھی ان مواقع میں سے ہے؛ لہٰذا تنہا تنہا مسلمانوں کو نماز ادا کرنی چاہیے اور تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیے اور یہ نماز دو رکعت عام نمازوں کی طرح ہوگی؛ البتہ مکروہ وقت میں نہ پڑھی جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے بصرہ میں زلزلہ کی بنا پر نماز پڑھی ہے۔ (بدائع الصنائع ۱/۲۸۲)
یہ دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں
زلزلے کے موقع پر مذکورہ دعاوٴں کا ورد رکھنا چاہیے، حضرت عمر بن عبد العزیز نے اِس موقع پر لوگوں کو تین دعاوٴں کے اہتمام کی تاکید کی تھی، یہ تینوں دعائیں، قرآنی دعائیں ہیں؛ اِس لیے اِن کی اہمیت اور تاثیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا:
۱- حضرت آدم علیہ السلام کی دعا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن (الاعراف:۲۳)
۲- حضرت نوح علیہ السلام کی دعا وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (ہود:۴۷)
۳- حضرت یونس علیہ السلام کی دعا لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن (انبیاء:۸۷)
(الجواب الکافی،ص:۴۷)
الغرض زلزلوں کے تعلق سے اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے؛ بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛ لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں
لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛ لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں؛ بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔
اِس موقع پرایک مسلمان کا شیوہ
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
اگر ایک شخص صاحبِ ایمان ہے تو اُس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اِس واقعہ کے پیچھے کیا مصلحتیں کام کررہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کیا بھلائیاں پیدا کرے گا اور کائنات کے مجموعی نظام کے اعتبار سے اِس کے اندر کیا خیر کا پہلو ہے؟ میں نہیں جانتا؛ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اِس کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی پتہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہلتا اور کوئی حرکت اِس کائنات میں اللہ کی حکمت کے بغیر نہیں ہوتی؛ لہٰذا سرِ تسلیم خم ہے، جو کچھ ہوا، وہ اُن کی حکمت کے عین مطابق ہوا، چاہے ہماری سمجھ میں وہ حکمت آئے یا نہ آئے، ہم اِس پر کوئی رائے زنی نہیں کرتے۔(اصلاحی خطبات۱۶/۱۳۸)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہم جزم اور وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ (زلزلہ) عذاب تھا یا نہیں، اِس بحث میں پڑنے کے بجائے ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سے متاثرین کی جتنی مدد ہوسکتی ہے ہم وہ مدد کریں، جو لوگ دنیا سے چلے گئے اُن کے لیے دعاءِ مغفرت کریں، جو موجود ہیں اُن کے لیے دعائے صحت کریں اور ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید مصائب اور تکلیفوں سے محفوظ فرمادے (اصلاحی خطبات۱۶/۱۴۱)
بہر حال ان زلزلوں سے ا یک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
تحریر بقلم حضرت مولانا ففتی فہیم
اشرف صاحب حیدرآبادی دامت برکاتہم
اشرف صاحب حیدرآبادی دامت برکاتہم
{بزم_احباب_اشرف حیدرآباد}
Is it a Coincidence?
China Earthquake
26th July 1976
26th July 1976
Gujrat Earthquake
26 January 2001.
26 January 2001.
Tsunami in Indian Ocean
26th Dec 2004
26th Dec 2004
Mumbai attack 26/11
26th November 2008
26th November 2008
Taiwan earthquake
26th July 2010
26th July 2010
Japan Earthquake
26th February 2010
26th February 2010
Now Nepal earthquake
26th April 2015.
26th April 2015.
Why is it Always "26" ?
Is it a mere Coincidence or A Timely Reminder From God..Need to Think on it Seriously!!!
Is it a mere Coincidence or A Timely Reminder From God..Need to Think on it Seriously!!!
The Rhodes earthquake 26 June 1926
North America earthquake 26 Jan 1700
Yugoslavia earthquake 26 July 1963
Merapi volcanic eruption 26 Oct 2010
Bam , Iran earthquake 26
Dec 2003 ( 60,000 dead )
Dec 2003 ( 60,000 dead )
Sabah Tidal waves 26 Dec
1996 ( 1,000 dead )
1996 ( 1,000 dead )
Turkey earthquke 26 Dec
1939 ( 41,000 dead )
1939 ( 41,000 dead )
Kansu , China earthquake 26 Dec 1932 ( 70,000 dead )
Portugal earthquake 26 Jan 1951 ( 30,000 dead )
Krakatau volcanic eruption 26 Aug 1883 ( 36,000 dead )
Aceh Tsunami 26 Dec 2004
Tasik earthquake 26
June 2010
June 2010
China Earthquake 26 July 1976
Taiwan earthquake 26 July 2010
Japan Earthquake 26 feb 2010
Mentawai Tsunami 26 October 2010
Gujarat Earthquake 26 Jan 2001.
China Earthquake 26 July 1976
Taiwan earthquake 26 July 2010
Japan Earthquake 26 feb 2010
Mumbai attack 26/11
Mumbai floods 26 July 2005
Now Nepal earthquake 26 April 2015.
Today is also 26th Oct
Why is it Always "26" ?
Is it just a Coincidence?
Is it just a Coincidence?
This news is Amazing! And scary too!
No comments:
Post a Comment