Thursday 15 October 2015

جمعہ کے دن کثرت سے بھیجا کرو درود Send Salawat Ecessively on Friday

امت محمدیہ کوجن بے شمارخصوصیات سے نوازا گیا ہے، ان میں سے ایک جمعہ کامبارک دن بھی ہے، جواہل ایمان کے لیے ہفتے کی عید ہے، اورجس کوتمام ایام پر فضیلت حاصل ہے، کیوں کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن انہیں جنت میں داخل ہونے کا اعزاز بخشا گیا، اسی دن انہیں زمین پراتاراگیا،اسی دن فوت پائے ، اسی دن صورمیں پھونک ماراجائے گا، اور اسی دن قیامت قائم ہوگی ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو

کیونکہ جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کی جانب سے

میرے پاس ابھی یہ پیغام لے کر آئے تھے

کہ روئے زمین پر جو کوئی مسلمان آپ ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا

تو میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اور میرے فرشتے اس کے لئے دس مرتبہ دعائے مغفرت کریں گے۔

طبرانی، ترغیب

اسی سے ملتی جلتی روایت سنن ابو داؤد میں کچھ یوں ہے

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! 

تمھارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے 

اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کا انتقال ہوا اسی دن صور پھونکا جائے گا 

اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے 

اس لیے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمھارا دردو میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے 

نیز سنن ابو داؤد میں ہی 

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا 

تمہارے بہتر دنوں میں ایک دن جمعہ کا دن ہے 

لہذا اس دن میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو 

کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے 


اور سنن نسائی میں اسحق بن منصور، حسین جعفی، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، ابواشعث صنعانی، اوس بن اوس سے ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ 


حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا 

تمام دنوں میں تم لوگوں کے واسطے جمعہ کا دن ہے 

اس روز حضرت آدم کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس روز ان کی روح قبض ہوئی 

اور اس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ لوگ بے ہوش ہو جائیں گے 

تو اس روز تم لوگ بہت زیادہ درود شریف بھیجو اس لئے کہ تم لوگ جو درود بھیجو گے وہ میرے سامنے پیش ہوگا 

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، 
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خيرُ يومٍ طَلَعتْ فيه الشمسُ يومَ الجُمُعةِ ، فيه خُلِقَ آدَمُ ، وفيه أُهْبِطَ ، وفيه تِيبَ عليه ، وفيه قُبِضَ ، وفيه تقومُ الساعةُ ، ما عَلَى وجهِ الأرضِ من دابةٍ إِلَّا وهِيَ تُصْبِحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مُصِيخَةً ؛ حتى تَطْلُعَ الشمسُ شَفَقًا من الساعةِ ؛ إِلَّا ابنُ آدمَ ، وفيه ساعةٌ لا يُصادِفُها عبدٌ مُؤمِنٌ وهُو في الصلاةِ يَسألُ اللهَ شيئًا إِلَّا أعطاهُ إِيَّاهُ ( صحيح الجامع : 3334: صحيح)
”جمعہ کادن سارے ایام میں افضل ہے ،اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی ،اسی دن فوت پائے ،اسی دن صورمیں پھونک ماراجائے گا،اوراسی دن قیامت قائم ہوگی ،لہذا اس میں کثرت سے ہم درودپڑھو،کیوں کہ تمہارادرود ہم پرپیش کیاجاتاہے“۔(ابوداود)
روزانہ جہنم کوبھرکایاجاتاہے ،تاہم جمعہ کی عظمت کی خاطراس دن یہ سلسلہ موقوف کردیاجاتاہے،اس دن اللہ تعالی مومن بندوں کے لیے جلوہ فرماتے ہیں ،اس دن گناہ معاف کئے جاتے ہیں ،اورنیکیاں قبول کی جاتی ہے ،اس کی رات یادن میں موت کاآناحسن خاتمہ کی علامت ہے ، اوراس دن وفات پانے والاعذاب قبرسے محفوظ ہوتاہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ (سنن الترمذي 1074) علامہ البانی نے “أحكام الجنائز” (ص 49 ، 50) میں اسے صحیح کہا ہے .
”جوکوئی مسلمان جمعہ کی رات یادن میں وفات پاتاہے ،اللہ تعالی اس کوعذاب قبرسے بچاتاہے “ (احمد، ترمذی )
جمعہ کاحکم:
نمازجمعہ ہرآزاد ،عاقل وبالغ ،مقیم ،اورصحت مند مسلمان مردپرفرض ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورة الجمعہ 9)
ترجمعہ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو “ ۔
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لينتهيَنَّ أقوامٌ عن ودعِهم الجُمعاتِ . أو ليختِمَنَّ اللهُ على قلوبِهم . ثمَّ ليكونَنَّ من الغافلين (مسلم865)
”لوگ جمعہ ترک کرنے سے بازآجائیں ،یاپھراللہ ان کے دلوں پرمہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے “
البتہ عورت ،بچہ ،بیمار ،مملوک غلام ،اورمسافرپرنمازجمعہ واجب نہیں ،ہاں اگروہ لوگ امام کے ساتھ نمازجمعہ اداکرلے تے ہیں تووہ ان کے لیے کافی ہے، مزید نمازظہرپڑھنے کی ضرورت نہیں ،
نمازجمعہ کی مشروعیت کیوں ؟ :
نمازجمعہ کواللہ تعالی نے جن مقاصد کے تحت مشروع کرار دیاہے ،ان میں ایک یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بارسارے مسلمان مسجد میں اکٹھے ہوں ،اوردینی احکام ومسائل اورترغیب وترہیب پرمبنی ضروری باتیں سنکرپورے ہفتہ نئے جوش وخروش کے ساتھ اسلامی احکام پرعمل پیراہوتے رہیں ۔
اوراس تقاضاہے کہ پیش کئے جانے والے مواعظ مخاطب کی زبان میں ہوں ،تاکہ مخاطب ان سے خاطرخواہ فائدہ اٹھاسکے ،بنابریں جملہ انبیاءکرام کی بعثت،ان کی قومی زبان میں ہوئی ،ارشاد ربانی ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ (سورة ابراہیم آیت نمبر4)
ترجمہ : ”ہم نے ہرنبی کواس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے “
لہذا خطبہ مسنونہ کے بعد پند ونصیحت کا مخاطب کی زبان میں ہونا مناسب ہے، تاکہ خطبہ جمعہ کا بنیادی مقصد حاصل ہوسکے ۔
جمعہ کے آداب
جمعہ کے کچھ آداب ہیں، جن کا پاس ولحاظ رکھناایک مسلمان کے لیے نہایت مناسب ہے، لہذا ذیل کے سطور میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کچھ آداب پیش کئے جارہے ہیں ۔
(1) جمعہ کے دن فجرکی نمازکاجماعت سے خصوصی اہتمام: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں: أفضلُ الصلواتِ عند اللهِ صلاةُ الصبحِ يومَ الجمعةِ في جماعةٍ ”اللہ تعالی کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن صبح کی نمازباجماعت ہے“ (الأحادیث الصحیحة 1566 )
(2) جمعہ کے دن نمازفجرمیں سورہ سجدہ اورسورہ دہرکی تلاوت : امام کے لیے مستحب ہے کہ جمعہ کے دن فجرمیں سورہ سجدہ اورسورہ دہرکی تلاوت کرے ۔بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نمازصبح کی پہلی رکعت میں الم تَنْزِيلُ اور دوسری رکعت میں هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ کی تلاوت فرماتے تھے۔ ( بخاري 851 و مسلم 880 ) ان دو سورتوں کی بالخصوص تلاوت کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامت کے دن کے احوال کا ذکر ہے تاکہ اس دن کی مناسبت سے تخلیق آدم اور قیامت کی یاد دہانی کرائی جاسکےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور قیامت بھی اسی دن واقع ہونے والی ہے۔
(3) غسل کرنا: جمعہ کے دن غسل کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں :
غسلُ يومَ الجمعةِ واجبٌ على كلِّ محتلمٍ. (بخاری: 879، مسلم 846)
”جمعہ کے دن ہربالغ پرغسل واجب ہے “۔
( 4) صاف ستھرے اوراچھے کپڑے پہننا،خوشبواستعمال کرنا،مسواک کرنا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
غُسْلُ يومِ الجمعةِ على كلِّ مُحْتَلِمٍ . وسِوَاكٌ . ويَمَسُّ مِنَ الطِّيبِ ما قَدَرَ عليهِ ( مسلم 846)
”جمعہ کے دن ہربالغ پرضروری ہے کہ غسل کرے،اچھے کپڑے پہنے ، اوراگرخوشبوہے تواستعمال کرے “
(5) جمعہ کے دن اور رات میں کثرت سے درود کااہتمام : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أكثروا من الصلاة علي في يوم الجمعة وليلة الجمعة، فمن فعل ذلك كنت له شهيدا وشافعا يوم القيامة (الجامع الصغير 1405)
”جمعہ کے دن اوررات کثرت سے مجھ پردرودپڑھا کرجواس کی تعمیل کرے گامیں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اورسفارشی ہوں گا“
(6) نمازاورخطبہ کے وقت سے پہلے مسجد میں آنا: فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من اغْتَسَلَ يوم الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بدنه وَمَنْ رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ في السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ في السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فإذا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ( البخاري(832). ومسلم (1403)
”جوشخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرے اورپہلے وقت میں ہی (مسجد) چل پڑے توگویااس نے اللہ کے تقرب میںاونٹ دیا،اورجودوسرے وقت میں جائے گویااس نے گائے دیا، اورجوتیسرے وقت میں جائے گویااس نے سینگ والامیڈھادیا، اورجوچوتھے وقت میں جائے وہ ایساہے جیسے اس نے مرغی کی قربانی دی ، اورجوپانچوے وقت میں جائے گویاکہ اس نے اس نے مرغی کاایک انڈاقربانی میں دیا،اورجب امام خطبہ کے لئے آتاہے ،توفرشتے ذکر سننے کے لیے حاضرہوجاتے ہیں “۔
(7) مسجد میں آنے کے بعد نوفل کا اہتمام : مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے کے بجائے حسب استطاعت نوافل کااہتمام کرناچاہئے ، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يوم الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ ما اسْتَطَاعَ من طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ من دُهْنِهِ أو يَمَسُّ من طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فلا يُفَرِّقُ بين اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّي ما كُتِبَ له ثُمَّ يُنْصِتُ إذا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إلا غُفِرَ له ما بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى البخاري (834)
”جوشخص جمعہ کے دن غسل کرتاہے ،اوراستطاعت کے مطابق اچھی طرح وضوکرتاہے،اورتیل یاخوشبولگاتا ہے،اورپھرمسجد میں پہنچ جاتاہے ،اوردوآدمیوں میں تفریق نہیں کرتااورجواس کے لیے مقدرہے ،پڑھتاہے پھرامام کے خطبہ میں خاموش رہتا ہے ،تواگلے جمعہ تک کے اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ،بشرطیکہ بڑے گناہوں کاارتکاب نہ کرے “۔
(8) امام کے ممبرپربیٹھنے کے بعد گفتگوترک کرنا: جب امام خطبہ دینے کے لیے ممبرپربیٹھ جائے توخطبہ ختم ہونے تک بالکل خاموشی سے امام کاخطبہ سنناچاہئے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
إذا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يوم الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ (البخاري(882) ومسلم(1404)
”اگرجمعہ کے دن امام خطبہ دے رہاہواورتواپنے ساتھی سے کہے ”خاموش ہوجا“تو تونے لغوکام کیا“(مسلم)
(9) اثنائے خطبہ بھی مسجد میں آنے والے دوہلکی رکعت پڑھ کربیٹھیں: صحیح مسلم کی روایت ہے، سلیک الغطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن ایسے وقت مسجد آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، وہ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ” يا سليكُ ! قم فاركع ركعتينِ. وتجوَّزْ فيهما اے سلیک! اٹھو اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ لو، پھر فرمایا:
إذا جاء أحدكم ، يومَ الجمعةِ ، والإمامُ يخطبُ ، فليركع ركعتينِ ، وليتجوَّزْ فيهما (مسلم875)
”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اس وقت آئے جب کہ امام خطبہ دے رہاہو تووہ دو رکعت پڑھ لے پھربیٹھ جائے “
(10) تاخیرسے آنے والے جہاں خالی جگہ دیکھیں بیٹھ جائیں : اگرکوئی شخص مسجد میں تاخیرسے پہنچے تواس کے لیے مناسب ہے کہ مسجد میں بیٹھنے والوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے نہ بڑھے بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے ،کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن ایک شخص کولوگوں کی گردنوں گزرتے ہوئے دیکھا جب کہ آپ خطبہ دے رہے تھے ،توآپ نے فرمایا:
اجلِسْ فقد آذَيْتَ وآنَيْتَ”بیٹھ جا ، تونے تاخیرکیاہے ،اورایذ دی ہے “ (صحیح ابن حبان 2790 )
(11) جمعہ کے دن اذان کے بعد خرید وفروخت کی حرمت : ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورة الجمعہ 9)
ترجمعہ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو “ ۔
واضح ہوکہ خریدوفروخت کی یہ حرمت جمعہ کی اس اذان سے متعلق ہے جوکہ امام کے ممبرپربیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ۔
(12) جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
من قرأ سورةَ الكهفِ في يومِ الجمعةِ ، أضاء له من النورِ ما بين الجمُعتَينِ (صحیح الجامع 6470)
”جوشخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتاہے ،تودوجمعہ کے درمیان اس کے لیے نورچمکتارہتا ہے “ ۔
(13 ) جمعہ کے دن صدقات وخیرات کااہتمام : عام دنوں کے صدقے سے جمعہ کے دن کاصدقہ بہترہیں ،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے :
«والصدقة فيه أعظم من الصدقة في سائر الأيام» (المصنف، 5558 وقال الأرناوؤط: رجاله ثقات، وإسناده صحيح)
ترجمہ ”اس دن کاصدقہ دوسرے دنوں کی بنسبت بہترہے “۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس دن کا صدقہ دوسرے دنوں کے صدقات پر اہمیت اور فضیلت رکھتا ہے، ایک ہفتہ میں اس دن صدقہ کرناایسا ہی ہے جیسے سارے مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں صدقہ کرنا۔ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو دیکھا کہ جب وہ جمعہ کے لیے نکلتے تو گھر میں روٹی یا کوئی چیز دستیاب ہوتی تو اسے لے کر نکلتے اور چھپ کر صدقہ کردیتے تھے۔( زاد المعاد ( 1 / 407 )
(14) جمعہ کے دن کثرت سے دعا کا اہتمام :
کیوں کہ اس دن قبولیت کی ایک ایسی ساعت آتی ہے، جس میں ایک بندہ جب اللہ سے مانگتاہے تواسے ضرورنوزاجاتاہے ،ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إنَّ في الجمعةِ لساعةٌ . لا يوافِقُها مسلمٌ يسألُ اللهَ فيها خيرًا ، إلَّا أعطاه إيَّاه (مسلم852)
”جمعہ کے دن ایک ایساوقت ہے ،جب کوئی مسلمان اللہ کابندہ اس میں اللہ عزوجل سے بھلائی کاسول کرے تووہ یقینااس کودیتاہے “ ۔
اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں حافظ ابن حجر نے علماء کے چالیس اقوال نقل کی ہے تاہم ان میں دواقوال زیادہ مشہورہیں ،
پہلا قول : یہ وقت امام کے خطبہ کے لیےمنبرپر بیٹھنے سے لے کرنماز سے فارغ ہونے تک کے درمیان میں ہے۔دوسرا قول: یہ وقت عصرکے بعد سے لے کرغروب آفتاب تک کے درمیان میں ہے ۔
جبکہ بعض لوگوں نے کہاہے ، کہ یہ گھڑی ان دونوں وقتوں میں باری باری منتقل ہوتی رہتی ہے ۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور یہی قول جمہور اہل علم کا ہے۔ (زاد المعاد في هدي خير العباد لابن قيم الجوزية 1/388-394 )
(15) نمازجمعہ کے بعد سنتیں: نمازجمعہ کے بعد سنتوں کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں ،ایک حدیث میں آیاہے:
إذا صلى أحدكم الْجُمُعَةَ فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًامسلم (1463)
”جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے تواس کے بعد چاررکعتیں پڑھے “ جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
أَنَّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم كان لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ حتى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ( مسلم 1457)
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن گھرجانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اس سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہاہے کہ گھرپرجمعہ کے بعد دو اورمسجد میں چار رکعتیں پڑھی جائیں


Sayyiduna Anas (RadhiAllaho anho) narrates 


that Rasulullah (Sallallahu Alaihi Wasallam) said: 


Send Salawat excessively upon me on Friday,

for Jibrail Alaihis salam has just come to me

with a message from my Rabb 'Azza wa Jall:

When any Muslim on the earth 

sends Salawat upon you once,

I bestow upon him ten blessings

and My angels seek forgiveness for him ten times.

{ Tabarani, Targhib }

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، 
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

No comments:

Post a Comment