Monday, 12 October 2015

دس آدمیوں کودس باتیں زیب نہیں دیتیں

فقیہ ابولیث ثمرقندی رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور ترین کتاب تنبیہہ الغافلین مقبول ترین اور خلوص سے لبریز ہے جو شخص تھوڑی سی توجہ اور طلب سے اس کا مطالعہ کرے معرفت الٰہی اسے ضرور نصیب ہوتی ہے۔ حضرت ابوحفص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
ان دس آدمیوں کو دس باتیں زیب زیب نہیں دیتیں. 
(ان کے لئے مناسب نہئں ہے.)
① حکمران کو مزاج کی سختی(ظلم)
② دولتمند کے لئے بخل (کنجوسی)
③دین کے عالم کے لئے حرص ولالچ (طلب دنیا)
④ درویش کے لئے ضرورت سے زیادہ دنیا کمانے کی دوڑ دهوپ
⑤خاندانی شریف لوگوں کے لئے بے حیائ کے طریقے اپنانا
⑥بڑهاپے میں جوانوں کی سی حرکتیں کرنا
⑦مرد کے لئے عورت کی مشابہت اور عورت کے لئے مرد کی مشابہت اختیار کرنا.اس صورت میں یہ بهی ہے کہ عورت مردوں جیسا لباس پہن لے.اور مرد عورتوں جیسا لباس پہن لے
⑧متقی وپرہیز گار لوگوں کے لئے دنیا داروں کی خوشامد
⑨عابد کے لئے دین کے احکام سے ناواقف رہنا
⑩مومن کے لئے سخت دل ہونا

وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ سے ایک روایت نقل فرمائی گئی ہے ۔ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے شیطان سے پوچھا کہ اے ملعون تیرے کتنے دشمن ہیں؟ تو شیطان نے جواب دیا کہ پندرہ قسم کے لوگ میرے دشمن ہیں۔
۔۔۱۔۔ سب سے پہلے دشمن آپ ﷺ ہیں
۔۔۲۔۔ عادل بادشاہ اور عادل حکام
۔۔۳۔۔ تواضع کرنے والا مال دار
۔۔۴۔۔ سچا تاجر
۔۔۵۔۔ خشوع کرنے والاعالم
۔۔۶۔۔ خیر خواہی کرنے والا مومن
۔۔۷۔۔ رحم دل مومن
۔۔۸۔۔ توبہ کرکے ثابت قدم رہنے والا
۔۔۹۔۔ حرام سے پرہیز کرنے والا
۔۔۱۰۔۔ ہمیشہ طہارت پر رہنے والا مومن
۔۔۱۱۔۔ کثرت سے صدقہ کرنے والا مومن
۔۔۱۲۔۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا مومن
۔۔۱۳۔۔ لوگوں کو نفع پہنچانے والا مومن
۔۔۱۴۔۔ قرآن کریم کی ہمیشہ تلاوت کرنے والا عالم و حافظ
۔۔ ۱۵۔۔ رات میں ایسے وقت تہجد اور نفل پڑھنے والا جس وقت سب لوگ سوچکے ہوں
ص:۴۷۹
اہل اللہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ دنیا کی رغبت اور مال کی محبت دل سے نکالنے کیلئے وقتاً فوقتاً ”فضائل صدقات“ مولفہ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی‘ کا مطالعہ مفید تر ہے۔ فضائل صدقات میں جگہ جگہ تنبیہ الغافلین سے مضامین موجود ہیں۔ یوں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مجھے ایک لڑکی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ آزاد ماحول کی رسیا ہے اور آزاد ماحول کی اسیر ہے۔ میں نے اس کے بھائی کے ذریعہ تنبیہ الغافلین اس تک پہنچائی تقریباً دو ماہ کے اندر ہی اس نے اپنے غلط کاموں سے توبہ کی اور بہت جلد نکاح کرلیا۔
تنبیہہ الغافلین میں صدقہ کے باب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ درج ہے۔ نہایت اختصار سے عرض کرتا ہوں۔ ایک دھوبی جو لوگوں سے ناروا سلوک رکھتا تھا۔ لوگوں نے آکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اس کے حق میں بددعا کریں تاکہ لوگ اس سے خلاصی پائیں آپ نے بددعا فرمائی۔ دوسرے دن لوگوں نے آکر عرض کیا کہ وہ خدائی پکڑ میں نہیں آیا اور نہ ہی اس پر بددعا کا کوئی اثر ظاہر ہوا ہے آپ نے دوبارہ بددعا فرمائی‘ تیسرے دن لوگوں نے دوبارہ آکر عرض یا کہ کیا ماجرا ہے روح اللہ کی بددعا ہو اور دھوبی پر اس کا اثر نہ ہو‘ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی۔ بحکم خداوندی آپ لوگوں کے ہمراہ دھوبی کے ہاں گئے اس کا سامان کھلوایا سب لوگوں نے دیکھا ایک بہت بڑا اژدہا موجود ہے لیکن ایک فرشتہ لوہے کے گرز سے اسے روکے کھڑا ہے۔ تب آپ علیہ السلام کو اس کی حقیقت بتلائی گئی کہ جب آپ علیہ السلام نے اس کے متعلق بددعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب اس کی طرف بھیج دیا لیکن اس دوران اس نے ایک مسکین کوایک روٹی صدقہ دی اس صدقہ کی بدولت فرشتہ آیا جو اس عذاب کو اس سے روکے کھڑا ہے۔  صدقہ کی بدولت ایک جلیل القدر نبی علیہ السلام کی بددعا سے اللہ نے حفاظت فرمائی۔ حضرت مولانا رسول خان ہزاروی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک رشتہ دار جو کراچی میں خطیب ہیں وہ آئے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ کوئی ناممکن واقعہ سنائیں جس سے ایمان میں تازگی آجائے۔ انہوں نے مجھے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میری والدہ نے اپنے رشتہ داروں کے ہاں سے ایک بچہ لاکر اس کی پرورش کی۔ بچے کی عمر 13 سال کے قریب تھی کہ میں اور میری والدہ ہمراہ بچے کے مانسہرہ سے راولپنڈی جارہے تھے۔ رستہ میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ تمام سواریاں گاڑی سے اتر کر سڑک پر کھڑی ہوگئیں۔ اچانک پیچھے سے ایک تیز رفتار گاڑی گزری اس نے اس بچے کو بہت شدید ٹکر ماری بچہ 20 فٹ دور جاگرا۔ میں قریب گیا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوا کہ بچے کے دماغ کا بھیجہ سڑک پر پڑا ہے میں نے اس کو سر کے اندر رکھ کر زور سے کپڑا باندھ دیا اور فوراً ٹیکسی میں ڈال کر راولپنڈی روانہ ہوا دل میں میں نے ارادہ کرلیا کہ اے اللہ اگر تو اس بچے کو صحت دے تو میں ایک نہایت عمدہ صحت مند بیل تیرے رستہ میں صدقہ کروں گا‘
اللہ تعالیٰ کا کرنا ہوا کہ چند دنوں میں بچہ صحت یاب ہوگیا۔ اب وہ حافظ قاری اور عالم دین ہے۔ مولانا نے فرمایا یہ سب صدقہ کی بدولت ممکن ہوا ورنہ جس جاندار کے دماغ کا بھیجہ باہر نکل جائے اس کا بچنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟

No comments:

Post a Comment