Monday, 12 October 2015

گلشن نبوت کا مہکتا پھول حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما

ہجرت کے کٹھن سفر کو طے کیے چا ربرس کا عرصہ بِیت چکا تھا ،شعبان المعظم  کے پانچویں روز خانوادۂِنبوت میں جگر گوشئہ ِرسول حضرت فاطمہ بتول  رضی اللہ عنہا کی گودمیں ایسے لَعل نے جنم لیاجو صبر واستقلال ،عزیمت وشجاعت ،ہمت وجوانمردی ،بصیر ت وفراست کااستعارہ بن گیا۔ جیسے دنیانواسہ ِرسول حضرت حسین  رضی اللہ عنہ کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے ۔
ولادت باسعادت کے بعدجب آپ کو اپنے نانا ) رسول اللہ ﷺ( کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توآپ ﷺ بہت  مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا،دہن مبارک سے کجھور چباکر تحنیک فرمائی اور برکت کے لیے اپنے لعاب ِدہن کو نو اسےکے منہ  میں ڈالا ۔ حضرت حسین کے جسم مبارک میں نبی وعلی کا لہو پہلے سے گردش کر رہا تھا اب گٹھی بھی نبی اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب مبارک  کی مل گئی ۔
نام مبارک  ” حسین “بھی آپ ﷺ کاتجویزکردہ ہے ، آپ  رضی اللہ  عنہ کے کانوں میں توحید ورسالت ،فلاح وکامیابی،اطاعت وعبادت کاپہلادرس ) یعنی اذان واقامت ( بھی اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ساتویں دن سر کے بال بھی آپ علیہ السلام نے اتر وائے ،بالوں کی تعداد کے برابرچاندی بھی آپ ہی نے خیرات کی ،عقیقہ بھی آپ  نے ہی کیا اور آپ رضی اللہ عنہ  کا ختنہ کیاگیا۔
سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے محدثین کی تحقیق کو مدار بناکر آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کا یوں نقشہ کھینچاہے :آپ انتہائی خوبصورت ،ذہانت وذکاوت آپ کے چہرے پر جھلکتی ہو ئی ،قوت وشجاعت کے پیکراور غیر معمولی خوبیوں کےمالک تھے ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان جسد الحسین یشبہ جسد رسول اللہ ﷺ:حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک رسول اللہ ﷺکے جسم  مبارک سے بہت مشابہت رکھتاہے۔
بلکہ جامع ترمذی میں خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے:حضرت  حسن رضی اللہ عنہ کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے ملتاجلتا تھا جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم اقدس سے مشابہ تھی ۔
اس مشابہت ِرسول اللہ کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک  ہی محدود نہ تھابلکہ  روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے آپ کاچال  چلن ، گفتار رفتار ،جلو ت خلوت ، قول وعمل ،ایثاروہمدردی ، عادات واطوار ،خوش خلقی ،حسن سلوک ،مروت رواداری ،شجاعت وعزیمت ،دوراندیشی وفر است ،حکمت ودانائی ،علم وتقوی ٰ، زہدوورع ،خشیت وللٰہیت ، محبت ومعرفت ِخداوندی الغرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے ۔
ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے دربارمیں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا :”حسن وحسین جنت کے نوجوانوں  کے سردار بنائے جائیں گے۔“
فرشتے کی یہ بات  خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہےاللہ کر یم اپنے  ان دو اولیاءکو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے ۔ رسول اللہ  کوبھی آپ سے بے پناہ  محبت تھی جس کاآپ نے مختلف مقامات پر اظہاربھی فرمایا۔
:1صحیح مسلم میں ام المومنین زوجۂ رسول سیدہ  عائشہ صدیقہ  بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز صبح تڑکے تڑکے نبی کریم ﷺ اونی منقش چادر اوڑھےہوئے تشریف لائے۔ اتفاق  سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی وہاں آ نکلے آپ نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا پھر یکے بعد دیگرے حضرت حسین،  حضرت فاطمہ اورحضرت  علی المرتضی ٰرضی اللہ عنھم بھی تشریف لائے  آپ علیہ السلام نے ان سب کو اپنی چادرمیں جمع فرمالیا اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم  الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا ۔۔۔الخ ۔تلاوت فرمائی ۔اللہ تعالی  کو یہ منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم  کو معصیت ونافرمانی کی گندگی سے  دور کھے اور تم کو ظاہر اًوباطناًعقیدۃًوعملاًوخلقاً پاک صاف رکھے ۔ )بیان القرآن تحت آیت انما یرید اللہ(
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانو ی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لفظ اہل بیت کے دو مفہوم ہیں ایک ازواج دوسرے عترت ۔خصوصیت قرائن سے کسی  مقا م پر ایک مفہوم مراد  ہو تا ہے کہیں  دوسر ااور کہیں عام بھی ہو سکتا ہے ۔
:2  صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ  عنھما سے مروی ہے کہ ایک عراقی نے ان سے پوچھاکہ کیا حالتِ احرام میں مکھی مارنا جائز ہے ؟تو حضرت ابن عمر رضی اللہ  عنھما  نے فرمایا: عراقیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو توشہید  کر ڈالا  اب مکھی  مارنے  کے احکام پو چھنے  لگ گئے ہیں؟یاد رکھو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن وحسین دنیا میں میرے مہکتے ہو ئے پھول ہیں ۔
جیسے  پھول قلب ونظر کو سرور اور دماغ کو فرحت بخشتاہے ۔ایسے ہی ان پھولو ں سے نبی کے قلب و نظر کو سرور اور دماغ کو فرحت وتازگی ملتی ہے ۔
:3جامع التر مذی میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی لاڈلی صاحبزادی  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سےاکثر فرمایاکرتے تھے  :حسین  کو میرےپاس بھیجو تاکہ  میں ان کواپنے سینے سے لگاؤ ں اور پیارکروں ۔
4 : جامع الترمذی میں حضرت اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتاہے ۔
5 : جامع الترمذی میں حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:حسین میری اولاد ہے اور میراحسین سے خصوصی تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرماتے ہیں  جوحسین  سے دعویٰ محبت میں عملاً سچاہو۔
6 : جامع الترمذی میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے: حسن وحسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔
نوٹ : جلیل القدر محدث  ملاعلی قاری فرماتے ہیں: حدیث پاک کی مراد یہ ہے کہ حسنین کریمین ان تمام لوگوں میں افضل ہیں جوعالم شباب ) جوانی (میں  انتقال کر گئے اس  سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ حسنین کریمین  بھی جوانی میں  دنیا سے کو چ فرماگئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جیسے نوجوان مروت اور جو انی والے کام سرانجام  دیتے ہیں ایسے ہی حسنین کریمین نے کارنامے سر انجام دیے ہیں ۔
اسلام کی تعلیم  میں  نہ افرا ط نہ تفریط بلکہ اعتدال  ہی اعتدال ہے ،بعض لوگو ں کو حدیث مذکورہ بالاسے یہ غلط فہمی ہوئی ہے  کہ شاید حسنین کریمین کامقام ،مرتبہ اوردرجہ خلفاء راشدین ) ابوبکر،عمر ،عثمان اور علی رضی اللہ عنھم (سے زیادہ ہے حالانکہ ایسا ہرگزنہیں ۔
جامع الترمذی میں حضرت انس رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:انبیاء ورسل کے علاوہ ابوبکراورعمر  رضی اللہ عنہما ان تمام اولین وآخرین جنتی  لوگوں کے سردار ہیں جوبڑی عمر میں انتقال کرگئے اور حضرات حسنین کریمین بھی بڑی عمر میں  دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اس لحاظ سے حضرات شیخین ) ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما( حسنین کریمین کے بھی سردارہوئے۔
مرقاۃ المفاتیح  شرح مشکاۃالمصابیح  میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرنبی کاجنت میں خاص دوست ہو گااور میرا مخصوص  دوست حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ  عنہ ہوں گے ۔
آپ علیہ السلام کے اس  فرمان ِمبارک کاصحیح مطلب یہ ہے کہ دیگر مخصوص  رفقاءکی صف میں عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ بھی شامل ہوں گے  ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں حضرت بریدہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنھما کی  حدیث نقل  فرمائی ہے کہ حسنین کریمین جنتی  نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بھی زیادہ فضیلت والے ہیں ۔
ان تمام روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ خلفاءراشدین کامقام و مرتبہ حضرات حسنین کریمین سے بھی بلند  ہے۔ دین ِاسلام میں فرق  مراتب رسولو ں کے مابین بھی ملحوظ ہے اور حضرات صحابہ واہل بیت کےدرمیان بھی مسلمہ حقیقت ہے ۔
از قلم : متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
امیر عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت

No comments:

Post a Comment