صوفی بزرگ ، عالم دین ، نانوتہ ضلع سہارن پوراتر پردیش میں 1818ء میں پیداہوئے ۔ نسب کے لحاظ سے فاروقی تھے۔ سات برس کی عمر میں یتیم ہوگئے ۔ ذاتی شوق سے فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ دہلی جا کر اس وقت کے فضلاء اجل سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کا درس لیا۔ بعد ازاں حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانوی (میانجو) کی توجہ خاص سے سلوک کی منازل طے کیں اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ 1844ء میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ وطن واپس آکر رُشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔
آپ کے متبعین میں عوام مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا محمد یعقوب نانوتوی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا فیض الحسن سہارن پوری ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے بلند پایہ علماء دین بھی شامل تھے۔ 1859ء میںآپ ہندوستان سے ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں بسر کی۔ اس لیے مہاجر مکی کے لقب سے مشہور ہیں۔ وفات کے بعد جنت اللعلی میں دفن ہوئے۔ علم دین اور تصوف پر تقریباً دس کتب ، جہاد اکبر ، گلزار معرفت، مرقومات امدایہ ، مکتوبات امدادیہ ، درنامہ غضب ناک ، ضیاء القلوب، تصنیف کیں۔ حضرت حاجی صاحب نسباً فاروقی تھے، آپ کا سلسلہ نسب پچیس واسطوں سے سلسلہ تصوف کے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والدماجد کا اسم گرامی محمد امین تھا۔حضرت حاجی صاحب1233ھ میں تھانہ بھون میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد حجاز مقدس چلے گئے ۔ حجاز سے واپس تشریف لائے تو ارشادو تلقین سے ہندوستان کو منور کر دیا۔ الله تعالٰیٰ نے انہیں دل ودماغ کی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا، آپ انیسویں صدی کی تین عظیم الشان تحریکوں کا منبع تھے:
مسلمانوں کی دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جو تحریک انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بالآخر دیوبند کی شکل اختیار کی ، انہی کے خلفا ومریدین کی پُرخلوص جدوجہد کا نتیجہ تھی۔
باطنی اصلاح وتربیت کے لیے انیسویں صدی کے آخر اوربیسویں صدی کے شروع میں حضرت حاجی امداد الله صاحب کے خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی او رحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ کے مرید حضرت مولانا محمد الیاس رحمة الله علیہ کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ الله تعالٰیٰ نے انہیں جو دینی بصیرت اور جذبہ عنایت فرمایا تھا ، اس کی مثال اس عہد میں مشکل سے ملے گی۔
انیسویں صدی کی تیسری اہم تحریک آزادیٴ وطن کی تھی ، اس سلسلہ میں خود حضرت صاحب او ران کے متعلقین نے جوکارہائے نمایاں سر انجام دیے، وہ ہندوستان کی تاریخ میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب کی والدہ ماجدہ شیخ علی محمد صدیقی نانوتوی کی صاحبزادی اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله علیہ بانی چمنستان ( دارالعلوم دیوبند) کے خاندان سے تھیں ۔ آپ جب پیدا ہوئے تو والد ماجد نے امداد حسین نام رکھا، تاریخی نام ” ظفر احمد‘ ‘ ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی نے آپ کا نام بجائے امداد حسین کے امدادالله کر دیا، پہلا نام پسند نہ آیا کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے ، چناں چہ اس نام کو حاجی صاحب نے بھی ترک کر دیا اور کتابوں نیز خطوط میں ہمیشہ امدادلله ہی لکھا کرتے تھے۔
بیعت
دہلی اس زمانہ میں علماء ومشائخ کا مرکز تھا۔ مولانا نصیر الدین دہلوی طریقہ نقشبندیہ، مجددیہ کے مسند نشین تھے۔ دہلی کے زمانہ قیام میں آپ کو ان سے عقیدت ہو گئی اور آپ ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگئے ، اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی ، چند دن تک پیرومرشد کی خدمت میں رہ کر اجازت وخرقہ سے مشرف ہوئے اور اذکار طریقہ نقشبندیہ اخذ فرمائے، کچھ عرصہ بعد آپ نے خواب دیکھا کہ سرکار دو عالم، فخر موجودات ،حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی مجلس آراستہ ہے، آپ مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہونا چاہتے تھے، لیکن ادب کی وجہ سے قدم آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اچانک آپ کے جدا مجد حافظ بلاقی تشریف لائے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں پہنچا دیا۔ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے دست مبارک میں آپ کا ہاتھ لے کر حضرت نور محمد جھنجھانوی کے حوالے فرما دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں جب بیدار ہوا تو پریشانی کا عجیب عالم تھا، میں اس وقت جھنجھانہ سے واقف نہ تھا ،کئی سال اسی طرح گزر گئے ، آخر کا رمولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی کی رہنمائی سے حضرت میاں جیو نور محمد جھنجھانوی کی خدمت میں حاضری کا موقع نصیب ہوا۔ دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی صورت ہے جو خواب میں دکھائی گئی تھی ۔ حضرت میاں جیو نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا تمہیں اپنے خواب پر کامل یقین ہے ؟ یہ پہلی کرامت تھی جو مشاہدہ میں آئی۔
میرا دل بکمال استحکام حضرت جیو کی جانب مائل ہو گیا۔ ایک مدت پیرومرشد کی خدمت میں حاضر رہ کر ریاضت ومجاہدہ کے بعد سلوک کی تکمیل فرمائی اور خلافت سے مشرف ہوئے۔
تعلیم
والدہ ماجدہ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی ، اگرچہ آپ کے تین بھائی او رایک بہن بھی تھی، مگر والدہ کا خصوصی تعلق آپ سے تھا، اسی لاڈپیار کی وجہ سے آپ ابتدائی تعلیم سے بھی محروم رہے ۔ابھی عمر کی ساتویں منزل ہی میں قدم رکھا تھا کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے انتقال کے وقت خاص طور پر وصیت کی کہ کوئی میرے بعد اس بچے کو ہاتھ نہ لگائے ۔اس وصیت کی تعمیل میں یہاں تک مبالغہ کیا گیا کہ آپ کی تعلیم کی جانب توجہ نہ ہوئی ۔ بالآخر آپ خود ہی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے او راپنے شوق سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا ، مگر ہر مرتبہ کچھ ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ اس وقت حفظ کی تکمیل نہ ہو سکی ، اس زمانہ میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمة الله علیہ، جن سے آپ کاننھیالی تعلق تھا، دہلی کے عربک کالج میں مدرس تھے، آپ ان کے ہمراہ علوم کے لیے دہلی تشریف لے گئے ، اس وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی ، اسی زمانے میں چند مختصرات فارسی تحصیل فرمائے اور کچھ صرف ونحو کی تعلیم اساتذہ عصر کی خدمت میں حاصل کی اور مولانا رحمت علی تھانوی سے شیخ عبدالحق دہلوی کی تکمیل الایمان اخذ فرمائی ۔ مثنوی مولانا روم رحمة الله علیہ آپ نے حضرت شیخ عبدالرزاق سے پڑھی، جو مفتی الہٰی بخش کاندھلوی کے شاگرد تھے ۔ حضرت مفتی صاحب حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی کے شاگرد تھے، مثنوی مولانا روم سے آپ کو تمام عمر بڑا شغف رہاـ
وفات: 1899ء
وفات: 1899ء
No comments:
Post a Comment