Saturday 24 October 2015

عظیم سازش!

پہلی خلیج جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور کویت آزاد کروا لیا گیا تھا کہ نیویارک ٹائمز نے پہلی بش گورنمنٹ میں موجود ایک اعلی امریکی عہدیدار ڈک چینی سے پوچھا کہ کہ صدام حسین کو اقتدار سے اتارا کیوں نہیں جاتا صرف کویت کے قبضے پر کیوں اکتفا کرلیا گیا ہے
تو ڈک چینی نے ایک بڑا ذھانت بھرا جواب دیا 
" اگر ہمیں صدام کو ہٹانے کی کوشش کرنی ہے تو ہمیں ایکبار بغداد تک پہنچنا ہوگا اور اگر ہم ایکبار بغداد تک پہنچ گئے تو ہمیں بالکل واضح نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا کریں ! ہمیں بالکل علم نہیں ہے کہ کس طرح کی حکومت وہاں پر اس طرح کا امن برقرار رکھ پائے گی جو اسوقت وہاں ہے کیا یہ ایک سنی حکومت ہو ؟ ایک شیعہ حکومت ہو ؟ یا ایک کرد حکومت؟ یا ایک ایسی حکومت جس کا رحجان بعث کی طرف ہو یا ایسی جسکا جھکاو اسلامی بنیاد پرستی کی طرف ہو ؟ اور ایسی حکومت جو کے امریکی فوج کی مدد سے قائم کی گئی ہو عوام کا کتنا اعتبار حاصل کرپائے گی ؟ امریکن فوج کو کتنا عرصہ اس حکومت میں شامل لوگوں کی حفاظت کرنی ہوگی؟ اور اس بات کا کیا جواب ہے کہ جب ہم ملک چھوڑ دیں گئیں تو اس حکومت کے ساتھ کیا ہوگا ؟
نیویارک ٹائمز 13 اپریل 1991
ڈک چینی اسوقت پینٹا گان کا اہم ترین عہدے دار تھا لیکن سن 2001 تک صورتحال بدل چکی تھی اور امریکہ کے خیال میں ان سوالات کا جواب ڈھونڈ لیا گیا تھا اور صدام کو اقتدار سے ہٹانے میں اب کوئی رکاوٹ نہ تھی اور امریکہ کا میدان میں موجود پینٹاگان کا زمہ دار جے گارنر باربار دعوی کررہا تھا کہ " ہم عراق کی حکومت عراقی عوام کے حوالے کرکے جلد ازجلد اس خطے کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں "
لیکن صدام کا بھوت انکی جان نہیں چھوڑنے والا تھا عرب حکمران سوال کررہے تھے کہ عراق کو چھوڑنے سے پہلے حکومت کس کے حوالے کرو گئے ؟ کیا ایران کے ؟ سوال اہم تھا اور امریکہ کو اسکا جواب دینا تھا ۔ جے گارنر نے فورا اپنے عرب دوستوں کو یقین دہانی کروائی
"ایران جو کردار ادا کررہا ہے اسکے متعلق خبریں مجھے تشویش میں مبتلا کررہی ہیں میں خبردار ہوں میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی فوجی اتحاد کو علاقے سے باہر کسی بھی قسم کی دخل اندازی قبول ہوگی "
لیکن عرب مطمئن نہ تھے چنانچہ ڈونلڈ رمز فیلڈ کو مداخلت کرنا پڑی اور اس نے ببانگ دہل کہا
"اگر تمہارا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایرانی طرز کی حکومت جسمیں چند ملا پورے ملک کا نظام چلاتے ہیں وہ قائم ہونے جارہی ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا "
لیکن پھر کیسا ہوگا ؟

اس سوال کا جواب امریکیوں کو خود بھی معلوم نہ تھا انہیں ایک ایساحکمران چننا تھا جو کے بیک وقت عربوں ، ایرانیوں ، کردوں ، سنیوں اور عراق کے شیعوں سب کو راضی کرسکے یا قابل قبول ہو اور یہ امر اتنا آسان نہ تھا ڈک چینی کے 1991 میں کیے گئے سوالات انکے سامنے ایک خوفناک حقیقت کا روپ دھار چکے تھے اسکے چند ذہین ترین بندوں نے حقیقت کا اعتراف یوں کیا
" سنی ، عراقی اور خطے کی دوسری تمام طاقتوں نے ہمیں فورا مطلع کردیا تھا کہ ہم عربوں اور ایرانیوں اور عراقی شیعہ کے درمیان چل رہی ایک پرانی دشمنی کے اندر پھنس چکے ہیں اور عراقی شیعہ اور انکی بے بس قیادت بھی اسمیں پھنس چکی ہے اور ہم اسی وجہ سے آج اس مصبیت میں ہیں "
امریکن سینٹر مسٹر گراہم ۔صدر اوبامہ کی موجودگی میں امریکن کانگرس سے خطاب ۔فروری 7 ۔ امریکن کانگرس کا ریکارڈ
لیکن انکے ذھن میں اسکا حل وہی پرانا امریکن طرز کا تھا مسٹر گراہم نے کہا کہ
"ہم جیتنے کے لیے تمام دہشت گردوں کو نہیں مارسکتے لیکن ہم اعتدال پسندوں کو طاقتور ضرور بنا سکتے ہیں تاکہ وہ جیت سکیں "
اور یہ خیال کوئی نیا نہ تھا عراق میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل جو کے اعتدال پسند ہو اور مذہبی رواداری کو قائم رکھ سکے اور ایران کے اثر سے بھی پاک ہو تاکہ عرب ممالک کے ساتھ بھی اسکے خوشگوار تعلقات ہوں
لیکن دورایران میں القدس فورس کا سربراہ قاسم سلیمانی ان تمام اقدامات کا کڑی نظر سے مشاہدہ کررہا تھا اس نے ہنس کر اپنے ایک دوست سے کہا "امریکن پاگل ہیں " مشرق وسطی کا فوجی لحاظ سے سب سے طاقتور آدمی عراق کو ولایت فقہیہ کے کنٹرول میں لانے کا فیصلہ کرچکا تھا

قسط1

No comments:

Post a Comment