مسئله نمبر (255)
سوال: محرم الحرام کے مہینے کو دوسرے مہینوں پر کس وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے؟
اور دس محرم کا روزہ رکھنے کا ثواب کیا ہے؟
جواب:
ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات
یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چند وجوہ سے اس ماہ کو فضیلت حاصل ہے:
(۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ:
"انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِا فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ" (ترمذی ۱/۱۵۷)
یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔
نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ" (ترمذی ۱/۱۵۷)
یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا" (الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴)
یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔
(۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: "شہر اللہ المحرم" کہ محرم الحرام اللہ کا مہینہ ہے،
لہذا اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔
(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے،
وہ چار مہینے یہ ہیں:
(۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ
(۳) محرم الحرام (۴) رجب
(حوالہ: بخاری شریف ۱/۲۳۴، مسلم ۲/۶۰)
(۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔
(٥) پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلے اسی مہینے میں روزہ فرض تھا، یعنی عاشورہ محرم کا روزہ، جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، "عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء فی الجاہلیۃ، وکان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یصومہ، فلما ھاجر الی المدینۃ صامہ و امر بصیامہ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہ، ومن شاء ترکہ"
(صحیح ملسم:۱۱۲۵)
اور اب اگر چہ فرض نہیں رہا لیکن دوسرے تمام مستحب روزوں سے اب بھی افضل ہے،
چناچہ حدیث پاک میں ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزوں میں افضل روزہ رمضان کے بعد اللہ کے مہینے محرم الحرام کا ہے اور فرض نمازوں کے بعد افضل نماز تہجد کی نماز ہے،
(صحیح مسلم، باب فضل صوم المحرم حدیث: ٢٠٢) (جمع الفوائد)
(٦) چھٹی وجہ اس مبارک مہینےکی یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل ہے کہ:
جس نے محرم کے تین دن جمعرات جمعہ ہفتہ روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائیگا، (جمع الفوائد)
دس محرم الحرام کا روزہ رکھنے کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:
(۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان "
(بخاری شریف۱/۲۶۸،)
(مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․
(رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب٢,/ ۱۱۵)
روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔
(۳) "عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ"
(مسلم شریف ۱,۳۶۷)(ابن ماجہ ۱۲۵)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں،
(کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)
👆ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے، لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
مسئلہ: صرف اور صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھنا چاہیے، بلکہ اسکے ساتھ ایک روزہ اور ملا لے، جیساکہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: عاشورہ کا تنہا روزہ نہ رکھو، بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لو،
حدیث: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خالفوا الیھود وصوم التاسع والعاشر"
یہودیوں کی مخالفت کرو، نو اور دس (محرم) کا روزہ رکھو۔
(مصنف عبدالرزاق ۴؍۲۸۷ح ۷۸۳۹ وسندہ صحیح ، والسنن الکبریٰ للبیہقی ۴؍۲۸۷)
(٢) ایسے ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
:فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم" (مسلم شریف۱/۳۵۹)
یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
اس لئے یا تو نو/9 اور دس/10 کا روزہ رکھیں، یا پھر دس/10 اور گیارہ/11 کا،
واللہ اعلم بالصواب
सवाल: मुहर्रम के महीने को दूसरे महीनों से किस कारण फ़ज़ीलतो-बर्तरी है?
और दस मुहर्रम के रोज़े का का इनाम (सवाब) क्या है?
.
जवाब: मुहर्रम के महीने को दूसरे महीनों से फ़ज़ीलतो-बर्तरी है, इसके कई कारण हैं:
(1) हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्ह से किसी शख्स ने सवाल किया कि रमजान के महीने बाद कौन से महीने में रोज़ा रखूं? तो हज़रत अली ने कहा कि यही सवाल एक बार एक शख्स ने नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम से भी किया था, तो आपने जवाब दिया था कि रमज़ान के बाद अगर तुम को रोज़ा रखना है तो मुहर्रम के महीने में रखो; क्योंकि वह अल्लाह की ख़ास रहमत का महीना है, जिसमें एक ऐसा दिन है कि उस दिन में अल्लाह ने एक क़ौम की तौबा क़बूल फरमाई थी और आगे भी एक क़ौम की तौबा उस दिन में क़बूल फरमाए गा। (तिर्मिज़ी 1/157)
(2) हज़रत अबू हुरैरा रज़ियल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया: रमजान के महीने के रोज़े के बाद सबसे बेहतर रोज़ा मुहर्रम के महीने का है।
(तिर्मिज़ी 1/157)
(3) हज़रत इब्ने अब्बास रज़ियल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फरमाया: जो शख्स मुहर्रम में एक रोज़ा रखे तो उसे हर रोज़े के बदले तीस दिन के रोज़े का इनाम मिलेगा। (तर्गीबो-तर्हीब 2/114)
(4) एक हदीस में है कि मुहर्रम अल्लाह का महीना है।
(5) ये महीना अश्हुरे हुरुम यानी उन चार महीनों में से है, जिनको दूसरे महीनों पर एक ख़ास फजीलत हासिल है, वह चार महीने यह हैं:
1- ज़ुल क़ादा, 2- ज़ुल हिज्जा, 3- मुहर्रम उल हराम, 4- रजब उल मुरज्जब।
(बुखारी 1/234, मुस्लिम 2/60)
(6) इस्लामी साल की शुरुआत इसी महीने से होती है, चुनांचे इमाम गजाली रह्मतुल्लाह अलैह लिखते हैं कि मुहर्रम के महीने में रोज़ों की फ़ज़ीलत की वजह यह है कि इस महीने से साल शुरू होता है, तो बस इसे नेकियों से स्टार्ट करना चाहिए, और अल्लाह से यह उम्मीद रखनी चाहिए कि वे इन रोज़ों की बरकत पूरे साल रखेगा।
(7) पहले इसी महीने में रोजा फर्ज था, यानी 10_मुहर्रम का रोज़ा।
हज़रत आईशा रज़ियल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि आशूरा का रोज़ा, अगर्चे अब फ़र्ज़ नहीं रहा लेकिन अन्य सभी मुस्तहब रोज़ों से अभी भी बेहतर है।
(8) हज़रत अबू हुरैरा से रिवायत है कि पैगम्बर सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने इरशाद फरमाया कि रोज़ों में बेहतर रोज़ा रमजान के बाद अल्लाह के महीने मुहर्रम का है और फ़र्ज़ नमाज़ों के बाद अफजल नमाज़, नमाज़े तहज्जुद है।
(जमऊल फ़वाइद)
(9) हज़रत अनस रज़ियल्लाहु अन्ह से हुज़ूर सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम का इरशाद नकल है कि जिसने मुहर्रम के तीन दिन (जुमेरात, जुमा, बार) के रोज़े रखे उसके लिए साठ साल की इबादत का सवाब लिख दिया जाएगा।
(जमऊल फ़वाइद)
.
दस मुहर्रम के रोज़े का का इनाम: (सवाब)
(1) हज़रत इब्ने अब्बास रज़ियल्लाहु अन्ह फ़रमाते हैं: मैंने नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को किसी फ़ज़ीलत वाले दिन के रोज़े का ऐहतमाम बहुत ज़्यादा करते नहीं देखा, सिवाय इस दिन यानी आशूरा के, और सिवाय रमज़ान के महीने के।
(बुखारी 1/268) (मुस्लिम 1/360,361)
(2) हज़रत इब्ने अब्बास ही से रिवायत है कि नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया कि रोज़ों के संबंध में किसी भी दिन को किसी भी दिन पर फ़ज़ीलत नहीं है मगर रमज़ान और आशूरा के दिन को। (तर्गीबो-तर्हीब 2/115)
(3) हज़रत अबू क़तादा रज़ियल्लाहु अन्ह कहते हैं कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया: मुझे उम्मीद है कि आशूरा के दिन का रोज़ा पिछले साल के पापों का प्रायश्चित हो जाएगा। (मुस्लिम 1/367) (इब्ने माजा 125)
.
नोट: सिर्फ और सिर्फ 10_मुहर्रम का रोज़ा न रखना चाहिए, बल्कि उसके साथ एक रोजा और मिला ले, जैसा किः
नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया कि आशूरा का अकेला रोज़ा न रखो, बल्कि उसके साथ एक रोज़ा और मिला लो,
हादसः हजरत अब्दुल्ला बिन अब्बास रज़ियल्लाहु अन्हुमा कहते हैं: कि हुजूर सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फरमायाः ''यहूदियों का विरोध (मुखालफत) करो और नौ और दस (मुहर्रम) का रोज़ा रखो।
(मुसन्नफ अब्दुल रज्जाक 4/287 हदीसः 7839)
(सुनन कुबरा लिलबयहकी 4/287)
इस लिए या तो 9 और 10 का रोज़ा रखें, या फिर 10 और 11 का।
دارالافتاء گروپ مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نانکوی 9997327761
No comments:
Post a Comment