Wednesday 21 October 2015

قصہ گائے کے گوشت کا Red Meat


ایس اے ساگر
کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے.جہاں تک گوشت یا لحم البقر کا تعلق ہے، اس کی تجارت سے برادران وطن کے کارپوریٹ کے وارے نیارے ہورہے ہیں لیکن جمن شبراتی کیلئے یہ موت کا پیغام ہے. ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ پیغام گردش کررہا ہے:
غليظ بارد يابس يهيج أمراضا سودائية ولا يصلح أكله إلا لمن كثر كده.
٨٥٨- أخبرنا أحمد في كتابه قال:، حَدَّثَنا ابن زهير قال:، حَدَّثَنا عُمَر بن الخطاب قال:، حَدَّثَنا سيف الجرمي قال، حَدَّثَنا المسعودي، عَن الحسن بن سعد، عَن عَبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، عَن عَبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: عليكم بألبان البقر فإنها دواء [ص: ٧٣٩] وأسمانها فإنها شفاء وإياكم ولحومها فإن لحومها داء.
حدیث کے صحت و ضعف کا تو علم نہیں البتہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ...
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ھے انہون نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تم گائے کے دودھ کولازم پکڑلواس لئے کہ یہ دوا ھے اور گائے کاگھی بھی کیونکہ اس میں شفا ھےاور گائے کے گوشت سے پرھیزکروکیونکہ گائے کےگوشت میں بیماری ھے..ا
یسی صورت میں علمائے کرام کی کیا یہ ذمہ داری نہیں ہے  کہ تحقیق کی جائے کہ اس حدیث کے سندومتن کی کیا حیثیت ھے ....ھل صح عن النبي صلى الله علیہ و سلم وصف لحوم البقر أنها داء ؟
السؤال: ما صحة هذا الحديث : ( لحوم البقر داء ، وسمنها ولبنها دواء )
الجواب : الحمد لله
أولا :
لحم البقر من اللحوم الحلال ، امتن الله على عباده بها في سورة الأنعام ، فقال عز وجل : (وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ) الأنعام/144، وعن عائشة رضي الله عنها قالت : ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ . رواه البخاري (294) ومسلم (1211)، وهي من الأنعام والبُدن التي أجمع العلماء على حلها وطيب لحمها ، وقد قال الله عز وجل فيها : ( وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) الحج/36.
ثانيا :
أما الحديث المقصود في السؤال ، فهو حديث منكر لا يصح ، ولا تجوز نسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، وقد جاء من روايات عدة كلها منكرة :
أولا : عن مليكة بنت عمرو الجعفية أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
( ألبانها شفاء – يعني البقر - ، وسمنها دواء ، ولحمها داء )  
رواه علي بن الجعد في " مسنده " (ص/393)، وأبو داود في " المراسيل " (ص/316)، والطبراني في " المعجم الكبير " (25/42)، ومن طريقه أبو نعيم في " معجم الصحابة " (رقم/7850)، ورواه البيهقي في " السنن الكبرى " (9/345) وفي " شعب الإيمان " (5/103)
جميعهم من طريق زهير بن معاوية أبي خيثمة ، عن امرأته وذكر أنها صدوقة ، وأنها سمعت مليكة بنت عمرو ، وذكرت الحديث .
هذا لفظ علي بن الجعد ، وهو أعلى مَن أسند الحديث ، وأما غيره فقالوا : عن امرأة من أهله – يعني زهير بن معاوية -.
وهذا إسناد ضعيف ، ومليكة بنت عمرو الزيدية السعدية مختلف في صحبتها ، ورواية أبي داود لحديثها في كتابه " المراسيل " دليل على أنه لا يرى صحبتها ، وإن كان جزم بصحبتها آخرون ، ولكن التحقيق يقتضي أنه لا سبيل إلى الجزم بذلك ، ولذلك قال الحافظ ابن حجر في " تقريب التهذيب " (753): يقال لها صحبة ، ويقال : تابعية . ولم يجزم فيها بشيء ، فيبقى في الأمر احتمال قائم ، ومع الاحتمال يسقط الاستدلال . وانظر ترجمتها في " الإصابة " (8/122)
لذلك ضعف هذا السند السخاوي في " الأجوبة المرضية " (1/21) ، والمناوي في "فيض القدير" (2/196) ، والعجلوني في " كشف الخفاء " (2/182) .
ثانيا : عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
( عليكم بألبان البقر وسمنانها ، وإياكم ولحومها ، فإن ألبانها وسمنانها دواء وشفاء ، ولحومها داء)
رواه الحاكم في " المستدرك " (4/448) ، وعزاه السيوطي (5557) أيضا لابن السني وأبي نعيم كلاهما في " الطب ".
قال الحاكم : حدثني أبو بكر بن محمد بن أحمد بن بالويه ، ثنا معاذ بن المثنى العنبري ، ثنا سيف بن مسكين ، ثنا عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي ، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن أبيه : عن النبي صلى الله عليه وسلم .
قلنا : وهذا إسناد ضعيف جدا ، فيه عدة علل :
1- سيف بن مسكين : قال ابن حبان رحمه الله : " يأتي بالمقلوبات والأشياء الموضوعات ، لا يحل الاحتجاج به لمخالفته الأثبات في الروايات على قلتها " انتهى. " المجروحين " (1/347)
2- الاختلاف في سماع عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه . انظر " تهذيب التهذيب " (6/216) 
3- اختلاط عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة بن مسعود المسعودي . انظر " تهذيب التهذيب " (6/211)
ولذلك كله حكم العلماء بتساهل الحاكم حين قال في الحديث :
" هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه " انتهى.
والصواب مع تعقب الذهبي له بقوله :
" سيف : وهَّاه ابن حبان " انتهى.
وقال الزركشي :
" هو منقطع ، وفي صحته نظر ، فإن في الصحيح أن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى عن نسائه بالبقر ، وهو لا يتقرب بالداء " انتهى.
" التذكرة في الأحاديث المشتهرة " (ص/148)
وقال السخاوي :
" ضعيف منقطع " انتهى.
" الأجوبة المرضية " (1/23)
وقال الحافظ ابن حجر :
" روي بأسانيد ضعيفة " انتهى.
" أسئلة وأجوبة " (ص/61) .
ثالثا : روى ابن عدي في " الكامل " (7/298) وغيره الحديث من مسند ابن عباس رضي الله عنهما ، وفي سنده محمد بن زياد الطحان متهم بالكذب ، فلا يستشهد به .
رابعا : روى ابن السني ، وأبو نعيم ، الحديثَ عن صهيب الرومي رضي الله عنه ، عزاه السيوطي إليهما .
وقال ابن القيم رحمه الله :
" روى محمد بن جرير الطبرى بإسناده ، من حديث صُهيب يرفعُه : ( عليكم بألبان البقَرِ ، فإنها شفاءٌ ، وسَمْنُها دَواءٌ ، ولُحومُها داء )، رواه عن أحمد بن الحسن الترمذى ، حدَّثنا محمد ابن موسى النسائى ، حدَّثنا دَفَّاع ابن دَغْفَلٍ السَّدوسى ، عن عبد الحميد بن صَيفى بن صُهيب ، عن أبيه ، عن جده ، ولا يثبت ما في هذا الإسناد " انتهى.
" زاد المعاد " (4/324-325)
قال العلامة الشيخ سليمان العلوان حفظه الله :
" هذا الخبر جاء بأسانيد منكرة عند الطبراني في المعجم الكبير ، والحاكم في المستدرك . ورواه أبو داود في المراسيل من طريق زهير بن معاوية حدثتني امرأة من أهلي عن مليكة بنت عمرو عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ، وهذا مرسل ضعيف .
ولم يثبت في النهي عن لحم البقر شيء ... فالذي يجب القطع به أن هذا الأثر باطل ، وليس لتصحيحه وجه معتبر ، وقد أجاد ابن الجوزي في قوله : فكل حديث رأيته يخالف المعقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع فلا تتكلف اعتباره " انتهى.
وعلى كل حال : فجميع العلماء متفقون على حل أكل لحوم البقر ، ولكن بعض أهل العلم يحذرون من المبالغة في أكله ، خاصة إذا لم ينضج على النار إلى حد الاستواء الكافي ، وهذا هو أيضا تفسير الداء الناجم عنه ، عند من حسّن الحديث السابق من العلماء .
قال ابن القيم رحمه الله :
" لحم البقر عسير الانهضام ، بطيء الانحدار ، ويورث إدمانه الأمراض السوداوية ، ولحم العجل ولا سيما السمين من أعدل الأغذية ، وأطيبها ، وألذها ، وأحمدها ، وإذا انهضم غذى غذاءً قوياً " انتهى.
" زاد المعاد " (4/374) .
وقال الشيخ الألباني رحمه الله ، وهو ممن يحسن الحديث :
" كل لحم البقر ، وفيه العافية ، لأن آل النبي وأهله أكلوا لحم البقر ، وضحى الرسول صلى الله عليه وسلم عن أهله في حجة الوداع بالبقر ، لكن أنصحك بأن لا تكثر منه ؛ لأن هذا الإكثار هو مراد الحديث " انتهى. 
" سلسلة الهدى والنور " (رقم/236 (7:20-8)
والله أعلم .
یکجہتی کی مصلحت :
حالانکہ اہل علم کی وضاحت کے بعد کوئی تردد باقی نہیں رہ جاتا جبکہ اس سلسلہ میں محمد نجیب قاسمی سنبھلی کا کہنا کہ امت مسلمہ قرآن وحدیث کی روشنی میں گائے کے گوشت کے حلال ہونے پر متفق ہے۔ یقینا مسلمانوں کے لئے عید الضحیٰ کے موقع پر گائے ہی ذبح کرنا یا عام حالات میں گائے کا گوشت کھانا فرض یا واجب نہیں ہے۔لیکن یہ کہنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گائے ذبح کرنے کے خلاف تھے قرآن وحدیث سے کم واقفیت کی علامت ہے۔ موصوف نے جس قول کا سہارا لیا ہے وہ جمہور محدثین کے مطابق منکر ہے اور قابل عمل نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی متعدد آیات اور حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات میں واضح طور پر موجود ہے کہ گائے کا گوشت نہ صرف حلال ہے بلکہ قیامت تک آنے والے بنی نوع انسان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس نہ صرف تناول فرمایا ہے بلکہ دوسروں کو کھلایا بھی ہے۔ ہاں اگر مسلمان برادران وطن کے ساتھ یکجہتی اور رواداری کیلئے گائے ذبح نہ کریں تو اس کی گنجائش ضرور ہے مگر گائے ذبح کرنے کو شریعت کے خلاف قرار دینا غلط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گائے  کے نام سے سب سے بڑی سورت بقرہ نازل فرمائی جس کی تلاوت  قیامت تک ہوتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ۹ جگہ گائے کا اور۱۰ جگہ بچھڑے کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآ ن کریم کی سورہ ہود آیت نمبر ۶۹ اور ۷۰ میں ہے کہ جب دو فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ان کو یہ خوشخبری دینے کیلئے آئے کہ ان کے یہاں ایک بیٹا یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہو گا، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان نوازی میں ان کے سامنے  بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔ سورہ الذاریات میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۱۴ میں وضاحت کیساتھ ذکر فرمایا ہے کہ گائے اور بچھڑے دونوں حلال ہیں۔
متعدد احادیث سے تائید:
حدیث کی سب سے مستند کتاب صحیح بخاری کی کتاب المناسک باب ذبح الرجل البقر عن نساء ہ من غیر امرہن میں وارد ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ قربانی کے دن ہمارے یہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیسا ہے؟ تو لانے والے نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ازواج یعنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ اس حدیث میں وضاحت کیساتھ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی اور ان کو کھانے کیلئے گائے کا گوشت بھیجا۔ اسی طرح حدیث کی دوسری مستند کتاب صحیح مسلم کی کتاب الزکاۃ۔ باب اباحۃ الہدیہ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گائے کا گوشت لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا گیا کہ یہ گوشت حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ان کیلئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ لہذا تم سب کھاؤ۔
بنفس نفیس تناول فرمانا :
یہی نہیں بلکہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گائے کا گوشت کھایا ہے جیساکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ذکر ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام صرار پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گائے ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ وہ ذبح کی گئی اور سب لوگوں نے اس کے گوشت میں سے کھایا۔ تصدیق کیلئے صحیح مسلم۔ کتاب المساقاۃ ۔ باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے. اسی طرح صحیح مسلم ، کتاب الحج ،باب جواز الاشتراک فی الہدی میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ حج کا تلبیہ کہتے ہوئے چل دئے، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ اونٹ اور گائے کی قربانی میں باہم شریک ہوجائیں، سات سات آدمی ایک اونٹ یا ایک گائے کی مل کر قربانی کریں۔
اب شک و شبہ کیسا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے گائے کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے جیسا کہ سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۴ میں وضاحت کیساتھ مذکور ہے۔ نیز ساری انسانیت میں سب سے افضل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے گائے کا گوشت کھانے کا ثبوت احادیث نبویہ میں موجود ہے۔ عید الاضحی اور حج کے موقع پر گائے کی قربانی کرنے کا واضح ثبوت احادیث میں موجود ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر گائے کے گوشت کے حلال ہونے کے قائل ہیں۔ تو ہمیں یا کسی کو کیا حق حاصل ہے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب کریں کہ جس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اور جو قول ذکر کیا گیا وہ کسی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے جیسا کہ محدثین نے وضاحت کیساتھ ذکر کردیا ہے۔ اور اگر تسلیم کربھی لیا جائے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں یہی کہا جائے گا کہ اس سے مراد بے جا استعمال ہے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی بھی چیز کی کثرت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
غلط قول کو ترجیح کیوں؟
قرآن وحدیث کے واضح حکم کے برخلاف کسی ایسے قول، گائے کے دودھ کو پیو کہ اس میں شفاء ہے اور گائے کے گوشت سے بچو کہ اس میں بیماری ہے، کو دلیل کے طور پر پیش کرنا جس کے متعلق جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے، قطعی غلط ہے۔ نیز یہ قول دیگر سندوں سے بھی کتابوں میں مذکور ہے جس میں گائے کے دودھ کو پیو کہ اس میں شفاء ہے تو مذکور ہے لیکن دوسرا جملہ مذکور نہیں ہے۔ جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ دوسرا جملہ بعد میں کسی نے بڑھایا ہے .
فتنہ و فساد سے اجتناب :
یہ الگ بات ہے کہ فتنہ و فساد سے بچنے کیلئے  گائے ذبح نہیں کی جاتی جبکہ کائنات کے مالک، خالق اور رازق کے کلام اور ساری انسانیت کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال کی روشنی میں گائے ذبح کرنے کی اجازت حاصل ہے .بقر عید کے موقع پر اگر مسلمان گائے ذبح نہیں کرتے ہیں تو وہ برادران وطن کیساتھ یکجہتی اور رواداری کیلئے ایسا کرتے ہیں. اہل علم کے نزدیک  گائے ذبح نہ کریں تو اس کی گنجائش ضرور موجود ہے ۔

خواتین میں اسٹروک کا باعث :
اس سے قطع نظر محققین کا کہنا ہے کہ گائےکا گوشت کھانے والی خواتین میں ممکنہ طور پراسٹروک کے خدشات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں تیس ہزار سے زائد سویڈش خواتین کی غذائی عدات کا مطالعہ کیا گیا۔ریڈ میٹ ڈیلی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق گائے کے گوشت کا زیادہ استعمال کرنے والی خواتین کی دماغ تک خون مہیا کرنے والی شریانوں کی بندش کا خدشہ زیادہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں مصروف ٹیم کے مطابق تیس ہزار خواتین کا معائنہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ روزانہ 102 گرام یا تین اعشاریہ چھ اونس گوشت استعمال کرنے والی خواتین میں ایسی خواتین کے مقابلے میں، جو 25 گرام یا اس سے کم یومیہ کے حساب سے گوشت کا استعمال کرتی ہیں، سٹروک کے امکانات تقریبا 42 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
لوکی سے اجتناب کی نحوست :
عین ممکن ہے کہ یہ گوشت کیساتھ لوکی سے اجتناب کی نحوست ہو کہ محققین کے سرخ گوشت کا زیادہ استعمال کرنے والی خواتین میں دیگر بیماریوں کے اندیشوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں کینسر، دل کا دورہ اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہیں۔ تاہم محققین کا خیال ہے کہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے اور اس حوالے سے حتمی طور پر کوئی بات بعد ہی میں کہی جا سکے گی۔ سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ جب دودھ کی اصلاح چھوٹی الائچی، آم کی اصلاح دودھ میں اور تربوز کی اصلاح کالی مرچ میں ہے تو پھر سرخ گوشت کی اصلاح کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ اکثر مواقع پر سرخ  گوشت کیساتھ لوکی کو شامل کرنا تو درکنار دیگر سبزیوں  کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا. برصغیر ہند، پاک میں قورمہ کے رواج نے پیٹوں کو سڑایا پے. 
سنت میں ہے نجات :
آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ  اسٹاک ہولم کے کیرولینسکا انسٹیٹیوٹ سے وابستہ طبی ماہرین نے تصدیق کی جبکہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر سوزانے لارسن تھیں۔ ڈاکٹر لارسن کے مطابق اس سلسلے میں 39 سے 73 برس کی عمر کی 34 ہزار چھ سو 70 خواتین کا معائنہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں تحقیق کا آغاز 1997 میں کیا گیا تھا، جبکہ تحقیق کے آغاز میں ان خواتین میں سے کسی کو بھی عارضہ قلب یا کینسر کا مرض لاحق نہیں تھا۔ ڈاکٹر سوزانے کے مطابق اس عرصے میں 16 سو 80 خواتین کو اسٹروک کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں کیا پتہ کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے !
ری ایکشن کی مار :
گوشت کا زیادہ استعمال کرنے والی خواتین میں جس خاص طرح کے اسٹروک کی نشاندہی ہوئی ہے، اس کی وجہ دماغ تک خون کی ترسیل کرنے والی شریانوں کی بندش کو قرار دیا جاتا ہے اور اسے طبی زبان میں cerebral infarction کہا جاتا ہے۔ اسٹروک کی یہ خاص قسم سب سے زیادہ عام قرار دی جاتی ہے جبکہ اسٹروک کے واقعات میں سے 78 فیصد اسی وجہ سے منسلک ہوتے ہیں۔ دیگر مختلف اسٹروک کی وجہ دماغ میں خون کا رساؤ اور مختلف دوسرے عوامل کو قرار دیا جاتا ہے۔
کون سمجھائے حق بات؟ 
اس تحقیق میں محققین نے خواتین کو گائے کے گوشت کے استعمال کے لحاظ سے پانچ مختلف گروپس میں تقسیم کیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ ایسی خواتین، جو 86 گرام یا اس سے زائد مقدار میں گوشت کا استعمال کرتی ہیں، ان میں 36 اعشاریہ پانچ گرام گوشت کا استعمال کرنے والی خواتین کے مقابلے میں اسٹروک کے 22 فیصد زائد واقعات سامنے آئے۔ کیا امت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرے !

Red Meat Is Just As Likely To Give You
International health experts are set to list processed meat among the most cancer-causing substances in the world, including arsenic and asbestos. The World Health Organization (WHO) will also be listing fresh red meat in the “encyclopedia of carcinogens,” ranked as only slightly less dangerous than preserved products such as bacon, sausages, and burgers.

The report is set to release Monday and will be a shock to the meat industry — everyone, from farmers to fast food chains, will be affected by the news. The WHO issued a warning about sugar overconsumption last year, resulting in a fall in sugar sales, which could be an indicator of what’s to come for the meat industry. The ruling could lead to warning labels and altered dietary guidelines to signal the issue.

The Department of Health’s advisers said both processed and fresh red meat “probably” cause cancer, but the WHO will be placing processed meat in the “carcinogenic to humans” category, along with cigarettes and alcohol. The decision was made after scientists from around the world met up to review evidence on the matter.

The North American Meat Institute claimed the report was neither logical nor necessary.

“Red and processed meat are among 940 substances reviewed by International Agency for Research (IARC) and found to pose some level of theoretical ‘hazard,’” Barry Carpenter, president of the North American Meat Institute, told the Daily Mail. “IARC says you can enjoy your yoga class, but don’t breathe air, sit near a sun-filled window, drink wine or coffee, eat grilled food, or apply aloe vera.”

Barry said that the risks and benefits of a food or behavior must be weighed together before telling everyone what to do.

Current guidelines include the recommendation that adults eat no more than 70g of red meat a day, and the World Cancer Research Fund said that processed meat should be avoided altogether.

No comments:

Post a Comment