ایس اے ساگر
دور حاضر میں خنزیر کے جسم کے مختلف حصوں بالخصوص چربی نے بازار پر زبردست گرفت قائم کی پے. ایسی اشیا کی فہرست دن بدن طویل ہوتی جارہی ہے جن کے نجس ہونے کی تصدیق اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مصنوعات کا کیا کریں جن میں سور کی چربی کی ہو آمیزش ؟
فتوى نمبر:( 3153 )
س: میں نے انڈونیشی زبان میں روزنامہ (فلیتا) مورخہ 21 فروری 1980 ء پڑھا؛ جو (عالم اسلامی) کا بہت بڑا اخبار شمار کیا جاتا ہے: مورخہ 12 جمادی الاولی 1399 ھ، مکہ سے شائع ہوا، مجھے اگہی ہوئی کہ صفائى كى بعض چیزوں میں خنزیر کی چربی ڈالی جاتی ہے، مثال کے طور پر کیمی صابن، پالمیو صابن، ٹوتھـ پیسٹ کالگیٹ، اور یہ مسئلہ انڈونیشیا کے شہروں اور دیہاتوں میں پھیلا ہوا ہے، اورمحفلوں میں اس پر بات چیت ہوتی رہتی ہے، لوگوں میں اس خبر کی سچائی کے بارے میں بہت زیادہ سوال اٹھـ رہے ہیں، اس مسئلہ کا حکم کیا ہے، اس موقع پر میں آپ سے یہ مسائل پوچھنا چاہتا ہوں:
1 - کیا یہ خبر مضبوط اصل سے منسوب کی جاتی ہے؟
2 - کیا ہم پر واجب ہے کہ صرف سننے کے بعد بغیر تحقیق کے ان چیزوں سے اجتناب کریں؟ اور اپنے برتن سات مرتبہ دھوئیں ایک مرتبہ پاک مٹی سے، جیساکہ شافعی کے نزدیک مغلظ ناپاکی کے ازالے کے بارے میں ہے، کیونکہ اہل انڈونیشیا کی اکثریت کا یہی مذہب ہے، ان چیزوں کو استعمال كرنے کے بعد کی تمام نمازوں کو دوباره لوٹانا ہے؟
( جلد کا نمبر 5، صفحہ 423)
ج: الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه ۔۔۔ وبعد:
اول: ہم کسی باوثوق طریقوں سے اطلاع نہیں پہنچتے ہيں کہ صفائى کیلئے بعض چیزوں میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے، مثال طور پر کیمی صابن، پالمیو صابن، کولگیٹ ٹوتھـ پیسٹ، اور ہم سے یہى بات پہنجتے ہيں کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔
دوم: اصل ایسی چیزوں میں طہارت اور ان کا استعمال حلال ہےحتی کہ کسی باوثوق طریقوں سے یہ معلوم ہو جائے کہ ان میں سور کی چربی کی آمیزش یا نجاست ميں کوئی اور وجہ ہے اور ان سے فائدہ اٹھانا حرام ہے، تو پھر ایسی صورت میں ان کا استعمال حرام ہوگا۔ ورنہ خبر کی سوائے پروپیگنڈہ کے کوئی زیادہ حیثیت نہ ہوگی، اور یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی اس لئے اس کے استعمال سے اجتناب كرنے كو واجب نہیں۔
سوم: اور جس کے پاس یہ بات ثابت ہے کہ صفائى کی چیزوں میں سور کی چربی کی آمیزش ہے تو اسے چاہئے کہ ان کے استعمال سے اجتناب کرے، اور ان سے جو چیز آلودہ ہوئی اس کو دھوئے، اور جہاں تک ان کے استعمال کے دنوں میں اس کی نمازوں کی ادائے گی کا تعلق ہے تو علما کے صحیح قول کے مطابق اس پر ان کا دوباره لوٹانا نہیں ہے۔
وباللہ التوفیق
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبرممبرنائب صدرصدر
عبد اللہ بن قعودعبد اللہ بن غدیانعبدالرزاق عفیفیعبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
No comments:
Post a Comment