Wednesday, 21 October 2015

قیامت میں وقت کا بھی لیا جائے گا حساب ؟

وقت دراصل زندگی ہے،
اور یہی انسان کی حقیقی عمر ہے،
جس کی حفاظت ہر خیر کا سرچشمہ ہےاورجس کا ضیاع ہر شر کا پیش خیمہ ہے
کیونکہ انسان اس دنیا میں ایک ذمہ دار ہستی ہے، اسے اپنے خالق و مالک کے پاس حاضر ہونا ہے اوراپنے کئے کا حساب و کتاب چکانا ہے

سنن ترمذی کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تزول قدما عبدٍ حتى يُسألَ عن عمُرهِ فيما أفناهُ، وعن علمِه فيما فعل، وعن مالِه من أين اكتسَبه وفيما أنفقَه، وعن جسمِه فيما أبلاهُ
(سنن الترمذی 2417)

قیامت کے دن ایک بندے کا قدم اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیا جائے کہ عمر کہاں گذاری،
اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنا جسم کس چیز میں لگایا،
وقت کی اہمیت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالی نے متعدد سورتوں کے آغاز میں اس کے بعض اجزاء مثلاً رات ، دن، فجر، چاشت کا وقت اور زمانے کی قسمیں کھائی ہیں،

جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ
(سورۃ اللیل1-2 )
قسم ہے رات کی جب کہ وہ چھا جائے اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو
’’وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ
(سورۃ الفجر1-2)
‘‘قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی
’’وَالضُّحَىٰ وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ (سورہ الضحی 1-2)
‘‘قسم ہے روز روشن کی اور رات کی جب وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے
’’وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
(سورۃ العصر1-2)
‘‘زمانے کی قسم انسان در حقیقت خسارے میں ہے

قر آن کریم نے دو موقعوں پر انسان کی حسرت و نادانی کا ذکر کیا ہے جب کہ وہ وقت کی ضیاع پر پچھتائے گا:
پہلا موقع : موت کے وقت

اللہ تعالی نے فرمایا:رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ (سورہ المنافقون آیت نمبر10 )
اے میرے پرور دگار ! کیوں نہ تو نے ذرا سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا
لیکن پھر کاہے کو پچھتاوا جب چڑیا چگ گئی کھیت

وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ
(سورہ المنافقون آیت نمبر 11)
حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا
دوسرا موقع جس میں ضیاع وقت پر پچھتائیں گے وہ حساب و کتاب کے بعد جہنم میں داخلے کے بعد کا موقع ہے
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَل
ُ (سورہ فاطر آیت 37)
وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ “اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے
لیکن گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ، اللہ تعالی جھنجھوڑنے والا سوال کریں گے جس سے ان کی ساری آرزوئیں خاک میں مل جائیں گی،
اللہ تعالی فرمائیں گے:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ (سورہ فاطر آیت 37)
(انہیں جواب دیا جائے گا) “کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتاتھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا ،
اب مزا چکھو، ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے۔
”جب وقت اس قدر نفیس اور قیمتی ٹھہرا کہ وقت ہی کو زندگی سے تعبیر کیا گیا حتی کہ لوگ آخرت میں ضیاع وقت پر ہی پچھتائیں گے تو ضرورت تھی کہ ایک مسلمان وقت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور ان سے فائدہ اٹھاکر اپنے لیے زاد آخرت اکٹھا کرلے
لہذا وقت کے تئیں ایک مسلمان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وقت سے فائدہ اٹھانے کا حریص ہو ،
اپنے وقت کی حفاظت کرے جس طرح وہ اپنے مال و اسباب کی حفاظت کرتاہے، جب آپ بڑوں کی کامیابی کا راز معلوم کرنا چاہیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے اپنے اوقات کی بے پناہ حفاظت کی اور انہیں نفع بخش کاموں میں استعمال کیا، وہ اپنے اوقات سے استفادہ کے معاملے میں سب سے زیادہ حریص رہے

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أدركت أقواماً كانوا على أوقاتهم أشد منكم حرصاً على دراهمكم ودنانيركم
"میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے، جو تمہارے درہم و دینار کے حرص سے زیادہ وہ اپنے اوقات کے حریص تھے،
وقت کےتئیں ایک مسلمان کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں اور ذمہ داریوں کو منضبط کرلے چاہے وہ کام دینی ہوں یا دنیوی،
ایک مومن کے پاس اپنے کاموں کی انجام دہی کا ایک مکمل چارٹ اور ٹھوس لائحہ عمل ہوتا ہے چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ ہر کام کو اپنے وقت پر انجام دیتا ہے،
نہ واجب کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے اور نہ ہی مستحب کی
اور نہ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ اس پر اللہ کا حق ہے ،
اس کے جسم کا حق ہے ،اس کے اہل وعیال کا حق ہے، وہ دن بھر میں اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق بحسن وخوبی اپنے جملہ حقوق کی ادائیگی کرتا ہے
اس تنظیم اور ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ مختلف کاموں کے درمیان تصادم کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے، اور ہر کام اپنے وقت پر بحسن و خوبی انجام پاجاتا ہے،
اس طرح ایک مومن کے شب وروز کی زندگی بندھے ٹکے اصول کے تحت گزرتی ہے
وقت کے تئیں ایک مسلم کی تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے خالی وقت کو غنیمت جانے کیوں کہ فرصت وفراغت کی نعمت بھی ان نعمتوں میں سے ایک ہے جن سے اکثر لوگ غافل ہیں،
صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
نِعمَتانِ من نعمِ اللهِ مَغبونٌ فيهما كثيرٌ منَ الناسِ الصحةُ والفراغُ
(صحيح البخاري 3364)
اللہ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان میں اکثر لوگ دھوکہ کھاجاتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فرصت
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اغتنِمْ خمسًا قبلَ خمسٍ : حَياتَك قبلَ موتِك ، و صِحَّتَك قبلَ سَقَمِك ، و فراغَك قبلَ شُغْلِك ، و شبابَك قبلَ هَرَمِك ، و غِناك قبلَ فقرِكَ
(صحیح الجامع 1077)
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو،
زندگی کو موت سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
اور مالداری کو فقروفاقہ سے پہلے
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں
فراغت ہمیشہ فراغت نہیں رہتی ہے بلکہ اس کا خیر وشر سے پُر ہونا ناگزیر ہے، جوشخص اپنے آپ کو حق کے کاموں میں مشغول نہیں رکھتا ہے وہ باطل کے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے اس لیے قابل ستائش ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی فرصت کے اوقات کو خیر وصلاح کے کاموں میں استعمال کیا
اور ہلاکت وبربادی ہو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنی فراغت کو شر وفساد سے بھر دیا،
لہذا ایک عقل مند کے لیے ضروری ہے کہ اپنے فرصت کے اوقات کو خیر کے کاموں میں استعمال کرے ور نہ فرصت مصیبت بن سکتی ہے،
اسی لیے کہتے ہیں :
فراغت مردوں کے لیے غفلت کا باعث ہے اور عورتوں کے لیے بے حیائی

احباب!
اب آئیے ہم چند ایسے وسائل کی جانکاری حاصل کرتے ہیں، جو وقت کی حفاظت میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں:
اس کے لیے سب سے بنیادی وسیلہ نفس کا محاسبہ ہے لہذا اپنے نفس کاجائزہ لیں کہ آپ نے دن بھر کیا کیا؟
اپناوقت کہاں گنوایا؟
اپنے دن کے لمحات کس چیز میں صرف کیا ِ؟
نیکیاں کمائی یا برائیوں کے رسیا بنے رہے؟
پھر اپنے نفس کے اندر اولوالعزمی پیدا کریں،
کیوں کہ جن کی ہمتیں بلند ہوتی ہیں ،
وہ اپنے اوقات سے فائدہ اٹھانے کے زیادہ حریص ہوتے ہیں ، اسی طرح ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو اپنے اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیوں کہ ان کی صحبت آپ کے اندر وقت سے فائدہ اٹھانے کا داعیہ پیدا کرے گی،
اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ والوں کی زندگی کامطالعہ کریں کہ کس طرح انہوں نے وقت سے فائدہ اٹھایا،
انہوں نے زندگی کے لمحات کو جس خیر وخوبی سے گزارا وہ واقعی ہر شخص کے لیے نشان راہ ہے

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ میں اپنے اس دن پر نادم ہوتا ہوں جس کا سورج ڈوب جاتا ہے اور میری عمر کا ایک دن کم ہوجاتا ہے مگر اس میں میرے عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے
اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقت کا ضیا ع موت سے زیادہ سخت ہے کیوں کہ ضیاع وقت تجھے اللہ اور دارآخرت سے کاٹ دے گا جب کہ موت تجھے فقط دنیا واہل دنیا سے منقطع کرتی ہے
صد حیف!
آج اکثر لوگوں کے قیمتی اوقات بے فائدہ رد و قدح یا ٹیلیویژن کے فلمی نغموں کے سننے میں ضائع ہو رہے ہیں ، اگر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس کی بنیادی وجہ ہدف سے لاپرواہی اور غفلت ہے، ظاہر ہے کہ جس کے سامنے کوئی مقصد اور نصب العین ہی نہ ہو وہ آخر کیسے اپنے اوقات کی اہمیت کو سمجھے گا
قرآن کریم ہمیں غفلت ولاپرواہی سے سختی کے ساتھ روکتا ہے ،
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (سورہ الأعراف 179)
اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں
ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں،
ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں
وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو ئے گئے ہیں
اسی طرح لیت ولعل اور ٹال مٹول بھی وقت کی بربادی کا بنیادی سبب ہے
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ٹال مٹول سے بچو کیوں کہ تیرا وجود آج کے دن سے ہے کل کے دن سے نہیں

کل نہ کر کل کا کوئی بھروسہ نہیں،

ایک عربی شاعر کہتا ہے:
تزود من التقوى فانك لا تدري اذا جن ليل هل تعيشُ الى الفجركم من سليم مات من غير علة وكم من سقيم عاش حيناً من الدهرِوكم من فتى يمسى ويصبح لاهياً وقد نُسجت أكفانه وهو لا يدرى

تقوی کا زاد راہ اختیا ر کرو کیوں کہ تجھے پتہ نہیں کہ جب شب تجھ پر چھا جائے تو تو فجر تک زندہ رہ سکے گا؟
کتنے ایسے تندرست ہیں جو بغیر بیماری کے مرگئے اور کتنے ایسے بیمار ہیں جو ایک مدت تک زندہ رہے، اور کتنے ایسے نوجوان ہیں جو امن وامان کی حالت میں صبح وشام کرتے ہیں حالانکہ اس کے کفن بنے جارہے ہیں اور اسے پتہ نہیں

اللہ تعالی ہمیں وقت سے فائدہ اٹھاکر دنیا وآخرت کو سنوارنے کی توفیق بخشے ،آمین یا رب العالمین

منقول........

No comments:

Post a Comment