Friday, 30 October 2015

एक मच्छर का एक्सक्लूजिव इंटरव्यु...ا ایک مچھر کا تازہ ترین انٹرویو

ایک مچھرسے انٹرویوکے دوران رپورٹر نے پوچھا کہ آپ کی جارحیت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے؟ کیوں؟
مچھر: صحیح لفظ استعمال کیجئے، اسے جارحیت نہیںبلکہ پھلنا پھولناکہتے ہیں۔لیکن تم بنی نوع انسان تو دوسروں کو پھلتے پھولتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتے نا؟ عادت سے مجبور جو ٹھہرے۔
رپورٹر: ہمیں آپ کے پھلنے پھولنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن آپ کے کاٹنے سے لوگ جان گنوا رہے ہیں، عوام میںدن بدن خوف وہراس پھیل رہا ہے؟
مچھر: ہم صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔ شری کرشن نے گیتا میں کہا ہے کہ’کرم ہی پوجا ہے‘اعمال ہی عبادت ہے۔ اب ودھاتا نے تو ہمیں کاٹنے کیلئے ہی پیدا کیا ہے،ہل میں جوتنے کیلئے نہیں! جہاں تک لوگوں کے جان گنوانے کا سوال ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ نفع و نقصان، زندگی و موت، عزت و ذلت کس کے ہاتھ میں ہے۔۔۔!
رپورٹر: لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ ہمیںفلاسفی کاسبق پڑھا رہے ہیں؟
مچھر: آپ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ رہے ہیں۔ ہماری وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے، یہ شاید آپ کو معلوم نہیں! جائیں ان دنوں کسی ڈاکٹر، کیمسٹ یا پیتھالوجی لیب والے کے پاس، آپ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوگی اسے۔ ارے بھیا، ان کے بیوی بچے ہمارا’سیزن‘ آنے کی راہ دیکھتے ہیں، تاکہ ان کی سال بھر سے پینڈنگ پڑے ہوئے مطالبات پورے ہو سکیں۔ کیا سمجھے آپ؟ یہ مت بھولئے گاکہ ہم ملک کی اقتصادیات کے فروغ میں اہم کردار ادا نہیںکر رہے ہیں!
رپورٹر: لیکن مر تو غریب رہا ہے نا، جو علاج کروانے کے قابل ہی نہیں ہے؟
مچھر: جی ہاں تو غریب جی کرکرے گا بھی کیا ؟جس غریب کو اپنا گھر تو چھوڑو، کالونی تک میں گھسنے نہیں دینا چاہتے، اس کیساتھ کسی طرح کا رابطہ نہیں رکھنا چاہتے، اس کے مرنے پر تکلیف ہونے کا ڈھونگ کرنا بند کیجئے آپ لوگ۔
رپورٹر: آپ نے دہلی میں کچھ زیادہ ہی قہر برپاکر رکھا ہے؟
مچھر: دیکھئے ہم سیاسی قائد نہیں ہیں جو امتیازی سلوک کریں ۔۔۔ ہم سب جگہ اپنا کام پوری محنت اور لگن سے کرتے ہیں۔ دہلی میں ہماری اچھی کارکردگی کی وجہ محض اتنی ہے کہ یہاں ہمارے کام کرنے کیلئے سازگار ماحول ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومت کی باہمی جنگ کا بھی ہمیں معقول فائدہ میسر ہے۔
رپورٹر: ٹھیک ہے، اب آخر میں آپ یہ بتائیے کہ آپ کے ان مظالم سے بچنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں؟
مچھر: اقدامات تو ہیں اگر کوئی کر سکے تو ۔۔۔ مسلسل سات ہفتہ تک سیاہ سفید دھبوں والے کتے کی دم کے بال لے کر ببول کے درخت کی جڑ میں بکری کے دودھ کیساتھ چڑھانے سے ہم خوش ہو جائیں گے اور اس شخص کو نہیں کاٹیں گے!
رپورٹر: آپ مسئلہ کا حل بتا رہے ہیں یاتواہم پرستی پھیلا رہے ہیں؟
مچھر: دراصل عام ہندوستانی لوگ ایسے ہی اقدامات کیساتھ سکون محسوس کرتے ہیں! انہیںسائنس سے زیادہ ٹونے ٹوٹکے میںیقین ہوتا ہے .... ویسے صحیح اقدامات تو صاف صفائی رکھنا ہے، جو روز ہی ٹی وی چینل اور اخبارات کے ذریعے بتائے جاتے ہیں، لیکن اسے مانتا کون ہے؟اگر اسے مان لیا ہوتا تو آج آپ کو میرا انٹرویولینے نہیں آنا پڑتا .... !اب دیکھئے میری نسل کے ذریعہ پھیلنے والی تباہی کی ایک جھلک....
کہاں سے ہوئی شروعات؟
1775کی دہائی میں جب ایشیا،افریقہ اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو گئی۔یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر گئے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی۔جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔
کیا ہے اس کی شناخت؟
1979کی دہائی میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخارکا نام دیا گیاجبکہ پڑوس کے ملک میں ڈینگی کہا جاتا ہے۔دراصل ڈینگو dengue ہسپانوی یااسپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔1950میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاکے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے۔1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔2002کے دوران برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست ریوڈی جینی رو Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات دیکھنے میںآئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیں جبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ جوشخص ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے ، وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو تا ہے۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے۔ اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تاہم2003سےPediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔2002 میں سوئس فارما کمپنی اورسنگا پور اکنامک ڈیولپمنٹ بورڈنے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں ، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو جائے۔جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں میں مچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔
وبا کی صورت:
حال ہی میں یہ بیماری ایک مرتبہ پھر وبا کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اگست سے اکتوبر 2006میں Dominican Republic میں ڈینگو بخار پھیلا جس سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر 2006میں کیوبا میں اس بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ جنوب مغربی ایشیامیں بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض کے13468مریض پائے گئے جن میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 7200افراد بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو گئے۔2004میں انڈونیشیا میں 80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں ملیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔سنگا پور میں 2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔ 2005میںکوسٹا ریکا میں19000افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005کے دوران ہندوستان کے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے جبکہ15افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس بخار میں مبتلا ہوئے جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا میں32950افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں Martinique میں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں سری لنکا میں 3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔2005میں تھائی لینڈ میں 31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000سے زائد افراد پائے گئے جن میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
سستا اور آسان علاج1:
سری لنکا کی ایک میڈیکل یونیورسٹی نے ڈینگی بخار کا سستا اور آسان علاج ریافت کیا ہے. ان کے مطابق گنے کے خالص رس کے ایک گلاس میں ایک چمچ چقندر اور ایک ہی چمچ لیموں کا جوس شامل کر کے دن میں دو دفعہ اور مسلسل تین روز تک پلانے سے بخار اتر جاتا ہے۔
سستا اور آسان علاج2:
عبقری میںڈاکٹر شاہین رشیداسسٹنٹ پروفیسرکینسرسپیشلسٹ گنگا رام اسپتال لاہورکہتی ہیں کہ قدرت کا ایک ایسا ہی راز شفاپپیتے کے درخت کے پتوں میں پنہاں ہے۔ پپیتے کا درخت ایک عجیب احساس تفاخر لئے بنا کسی خم کے آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے تو اس کے پتے بھی نشوونما کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ خوبصورت کٹاﺅوالے یہ پتے اپنے اندر عجیب شفائی خصوصیات رکھتے ہیں ان میں سے ایک تحریر آپ کی نظر ہے۔ شکیل صاحب ایک مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں گزشتہ برس انہیں بھی ڈینگو نے گھیرلیا، وہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان تھے ۔جب پروفیسر ڈاکٹر عابد علی صاحب سے ذکر کیاگیا تو انہوں نے فرمایا کہ انہیں پپیتے کے پتے پلائیں۔ پروفیسرصاحب سے اگرچہ تفصیلات میسر نہیں تاہم مریض کو پپیتے کے پتے کا قہوہ پلانے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ اس سے پلٹ لیٹس زیادہ ہوجاتی ہیں۔ کچھ دن کے استعمال کے بعد ان کی پلٹ لیٹس زیادہ ہونے لگیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک سال پہلے ان کے خاندان میں بہت سے افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوگئے تھے اور پلٹ لیٹس کی کمی کی وجہ سے زیادہ خون بہنے سے دو لوگ تو اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن خداکا شکر کہ قدرت کے اس تحفے نے انہیں ایک نئی زندگی عطا فرمائی ۔ اس کے چند دن کے بعد میرے خاوند بھی ڈینگی بخار میں مبتلا ہوگئے کیونکہ وہ خود بھی ڈاکٹر ہیں پہلے ہی دن (تیز بخار اور جسم کی شدید دردوں کی وجہ سے) خون کا نمونہ ٹیسٹ کروانے کیلئے بھیج دیا۔ رپورٹ میںپلٹ لیٹس اور خون کے سفید ذرات دونوں کم ہوچکے تھے۔ اسی دن پپیتے کے پتے منگوا کر ان کو قہوہ شروع کروایا۔ پیراسیٹامول اور معدے کی سوزش کی حفاظتی دوا کے ساتھ چھ دن کے اندر نہ صرف بخار اتر گیا بلکہ خون کے تمام ذرات بھی نارمل ہوگئے۔ اکتوبر کے مہینے میں میرے بیٹے کو تیز بخار ہوگیا۔ جسم کی شدید دردوں اور دوسری علامات نے ڈینگی بخار کا اشارہ دیا۔ پہلے ہی دن خون کے نمونے میں پلیٹ لٹس ایک لاکھ تک گرگئے جبکہ ایک صحت مند انسان کے خون میں پلیٹ لٹس کی تعداد ڈیڑھ سے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔نیز سفید ذرات بھی 2000/cmm تک ہوگئے جبکہ نارمل تعداد چار ہزار سے گیارہ ہزار تک ہوتی ہے۔ پلیٹ لٹس جسم سے چوٹ، زخم و آپریشن وغیرہ کی صورت میں خون کے زیادہ بہاﺅ کو روکتی ہیں جبکہ اگر ایک خاص حد تک کمی واقع ہوجائے تو معمولی زخم بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خون کے سفید ذرات جنہیں خون کی رپورٹ میں W.B.C3یا TLC کے ساتھ لکھا جاتا ہے کی کمی بھی مختلف قسم کے انفیکشن کو جنم دیتی ہے۔میں شفائے مدینہ کی خصوصیات اور افادیت سے بخوبی واقف ہوں۔ اسی دن شفائے مدینہ کا قہوہ اور پپیتے کے پتے استعمال کروانے شروع کیے۔ اس مرتبہ تجربے کی روشنی میں پپیتے کے پتے کا قہوہ بنانے کی بجائے کچھ پتے اچھی طرح دھو کر تھوڑے سے پانی میں Blend کرکے اس کا خالص عرق نکالا اور بیٹے کو دیا۔ ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ دینے سے نتیجہ انتہائی حیرت انگیز اور خوشگوار ہوا اور چوتھے ہی دن بیٹے کانہ صرف بخار اتر گیا بلکہ پلیٹ لٹس بھی 175,000/cmm ہوگئے اور الحمدللہ پانچویں دن امتحان دینے کے بھی قابل ہوگیا۔
اللہ شافی:
آپ بھی قہوہ بھی پلاسکتے ہیں ہر 2 گھنٹے کے بعد ایک کپ۔ اب اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتی ہوں۔ بیٹے کے بخار کے چند دن بعد مجھے بھی تیز بخار ہوگیا۔ دس گھنٹے کی شدید دردوں کے ساتھ ہونے والے 103 ڈگری نے پہلے ہی دن ڈینگی بخار کا پتہ دے دیا چوبیس گھنٹوں کے اندر خون کے سفید ذرات آدھے سے کم رہ گئے اور پلیٹ لٹس 102,000/Cmm تک کم ہوگئے ہر چھ گھنٹے کے بعد دو پیرا سیٹامول کھانے سے بخار 104,103 سے 100 تک کم ہوجاتا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بخار کم کرنے کی کوئی بھی دوا 102 سے زیادہ بخار کی صورت میں بے اثر ہوتی ہے۔ 102 سے زیادہ بخار کیلئے ضروری ہے کہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرکے بخار 102 یا اس سے کم پرلایا جائے اور پھر کوئی دوا استعمال کی جائے۔ کیونکہ میں الحمدللہ دوا کا استعمال بہت کم کرتی ہوں۔ پیراسیٹامول نے اگلے ہی دن معدے میں اتنی سوزش کردی کہ پانی یا کوئی دوا اندر نہیں ٹھہرتی تھی اور قے ہوجاتی تھی۔ اس لئے پپیتے کے پتے کا عرق بہت کم لیا گیا۔ نتیجتاً میرے پلیٹ لٹس چوتھے دن صرف 12000/Cmm رہ گئیں جبکہ بخار کے پانچویں دن پلیٹ لٹس کی کمی کی وجہ سے ناک سے بلیڈنگ شروع ہوگئی۔اسپتال سے پتہ چلا کہ پلیٹ لٹس کیلئے بیگز وغیرہ کہیں دستیاب نہیں ہیں اور خون سے پلیٹ لٹس الگ کرنے کی مشین بھی خراب ہے۔پرائیوٹ لیبز میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی وہاں تو حالات یہ تھے کہ مریضوں کے ناموں کی لٹس آویزاں تھیں اور باری آنے پر بھی پلیٹ لٹس کیلئے ٹائم دیا جارہا تھا۔پریشانی تو ہوئی لیکن قے روکنے کی دوائیوں اور معدے کی سوزش کیلئے مختلف ٹیکے لگانے کے بعد پپیتے کے پتے کا عرق جیسے ہی معدے میں ٹھہرنے لگا تو 2 دن کے بعد پلیٹ لٹس بڑھنا شروع ہوگئے۔ قدرت کے اس انمول تحفے پر احساس ہوا کہ اللہ کی اس دنیا میں کوئی بھی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انہی دنوں میرے ایک مریض جو گزشتہ2 سال سے ایک قسم کے کینسرMultiple Myeleriaمیں مبتلا تھے۔ جہلم کے اسپتال میں خون کی الٹیوں اور کالے پاخانوں کے ساتھ داخل ہوئے بہت تشخیص کے باوجود وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ ان کی ہیموگلوبن 5.0 جی ایم تک گرگئی۔ خون کی سات بوتلیں لگانے کے باوجود Hb-7.0 gm سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ جب جہلم اسپتال کی میڈیکل وارڈ کی نرس نے فون پر میرے استفسار پر بتایا کہ مریض کے پلیٹ لٹس 40,000/cmm تک کم ہوگئے اور سفید ذرات بھی 2000/Cmm ہیں تو میں نے انہیں پپیتے کے پتوں کا مشورہ دیا۔ اگرچہ ان کا ڈینگو بخار کا ٹیسٹ بھی نگٹیو آیا تھا۔ چند دن انہوں نے اس مشورہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ شاید ایک وجہ وہاںسے پپیتے کے پتے نہ ملنا بھی تھی۔ اب حالت زیادہ خراب ہونے پر وہ مریض کو لاہور لے آئے اور الحمدللہ پپیتے کے پتوں کا عرق پلانے سے صرف چار دن کے اندر پلیٹ لٹس 75000/Cmm تک بڑھ گئے اور وہ تندرست ہونے لگا اور مزید خون لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ طریقہ استعمال:پپیتے کے چند پتے لے کر اچھی طرح دھو لیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے Blenderکے جگ میں ڈالیں تھوڑا سا پانی شامل کرکے ململ کے باریک کپڑے یا باریک سوراخ والی چھلنی سے چھان لیں ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ استعمال کریں۔ کوشش کریں کہ صبح وشام تازہ عرق نکالیں۔ تھوڑی کڑواہٹ کی وجہ سے قے آنیکی صورت بن سکتی ہے۔واضح رہے کہ سیب کے تازہ جوس میں لیمو ں کا رس ملا کر پینے سے بھی پلیٹ لٹس بہتر ہوجاتی ہیں۔
http://www.ubqari.org/index.php?r=article/details&id=1971

Why Dengue Spreading?
By: S. A. Sagar
Dengue fever, also known as breakbone fever, is a mosquito-borne tropical disease caused by the dengue virus. According to reports, October 2, 2015, as the number of dengue cases rise alarmingly in Delhi, hospitals are also witnessing an increasing number of other viral and bacterial diseases this season. Analysis of several suspected cases of dengue have revealed that many are, in fact, other diseases, especially bacterial infections, according to doctors.
“Bacterial diseases are increasing this year. Besides dengue, there are several other diseases with symptoms similar to dengue. For instance, all sepsis or blood infections cause a fall in platelets, and these might be confused with dengue till further tests and examinations are conducted. Also, several patients with complaints of dengue turn out to be suffering from bacterial diseases like typhoid or B.coli,” said Dr Chand Vattal, chairperson of the microbiology department at Sir Ganga Ram Hospital.
Respiratory diseases with symptoms including fever, nasal discharge and cough are common this season, said doctors.
Lalit Dar, professor of microbiology at AIIMS.
He added, “There has been a conspicuous increase in dengue cases this year. However, there are patients with common seasonal diseases like malaria and typhoid…which occur every year during the monsoons.”
A few cases of co-infections — when a patient suffers from dengue as well as another disease — have also been reported this year, said doctors.
“Co-infections are reported by 8-10 per cent of patients. This is a common phenomenon. This year, because of the dengue outbreak, we are following the first line of testing and treatment for all patients with suspected dengue and treating them accordingly,” said Dr S Chatterjee of Apollo hospital. “But if the test results don’t match, we begin other tests. When other diseases like typhoid or malaria are diagnosed, we treat patients accordingly,” he added.
What is Dengue fever?
Symptoms include fever, headache, muscle and joint pains, and a characteristic skin rash that is similar to measles. In a small proportion of cases, the disease develops into the life-threatening dengue hemorrhagic fever, resulting in bleeding, low levels of blood platelets and blood plasma leakage, or into dengue shock syndrome, where dangerously low blood pressure occurs.
Dengue is transmitted by several species of mosquito within the genus Aedes, principally A. aegypti. The virus has five different types; infection with one type usually gives lifelong immunity to that type, but only short-term immunity to the others. Subsequent infection with a different type increases the risk of severe complications. As there is no commercially available vaccine, prevention is sought by reducing the habitat and the number of mosquitoes and limiting exposure to bites.
Treatment of acute dengue is supportive, using either oral or intravenous rehydration for mild or moderate disease, and intravenous fluids and blood transfusion for more severe cases. The number of cases of dengue fever has increased dramatically since the 1960s, with between 50 and 528 million people infected yearly. Early descriptions of the condition date from 1779, and its viral cause and transmission were understood by the early 20th century. Dengue has become a global problem since the Second World War and is endemic in more than 110 countries. Apart from eliminating the mosquitoes, work is ongoing on a dengue vaccine, as well as medication targeted directly at the virus.

एक मच्छर का एक्सक्लूजिव इंटरव्यु...
रिपोर्टर :  आपका प्रकोप दिनोंदिन बढ़ता ही जा रहा है ? क्यों ?
मच्छर : सही शब्द इस्तेमाल कीजिये, इसे प्रकोप नहीं फलना-फूलना कहते हैं. पर तुम इंसान लोग तो दूसरों को फलते-फूलते देख ही नहीं सकते न ? आदत से मजबूर जो ठहरे.
रिपोर्टर : हमें आपके फलने-फूलने से कोई ऐतराज़ नहीं है पर आपके काटने से लोग जान गँवा रहे हैं, जनता में भय व्याप्त हो गया है ?
मच्छर : हम  सिर्फ अपना काम कर रहे हैं. श्रीकृष्ण ने गीता में कहा है कि ‘कर्म ही पूजा है’. अब विधाता ने तो हमें काटने के लिए ही बनाया है, हल में जोतने के लिए नहीं ! जहाँ तक लोगों के जान गँवाने का प्रश्न है तो आपको मालूम होना चाहिए कि “हानि-लाभ, जीवन-मरण, यश-अपयश विधि हाथ’ …!
रिपोर्टर : लोगों की जान पर बनी हुई है और आप हमें दार्शनिकता का पाठ पढ़ा रहे हैं ?
मच्छर : आप तस्वीर का सिर्फ एक पहलू देख रहे हैं. हमारी वजह से कई लोगों को लाभ भी होता है, ये शायद आपको पता नहीं ! जाइये इन दिनों किसी डॉक्टर, केमिस्ट या पैथोलॉजी लैब वाले के पास, उसे आपसे बात करने की फ़ुर्सत नहीं होगी. अरे भैया, उनके बीवी-बच्चे हमारा ‘सीजन’ आने की राह देखते हैं, ताकि उनकी साल भर से पेंडिंग पड़ी माँगे पूरी हो सकें. क्या समझे आप ? हम देश की इकॉनोमी बढाने में महत्त्वपूर्ण योगदान कर रहे हैं, ये मत भूलिएगा !
रिपोर्टर : परन्तु मर तो गरीब रहा है न, जो इलाज करवाने में सक्षम ही नहीं है ?
मच्छर : हाँ तो गरीब जी कर भी क्या करेगा ?
जिस गरीब को आप अपना घर तो छोडो, कॉलोनी तक में घुसने नहीं देना चाहते, उसके साथ किसी तरह का संपर्क नहीं रखना चाहते, उसके मरने पर तकलीफ होने का ढोंग करना बंद कीजिये आप लोग.
रिपोर्टर : आपने दिल्ली में कुछ ज्यादा ही कहर बरपा रखा है ?
मच्छर : देखिये हम पॉलिटिशियन नहीं हैं जो भेदभाव करें … हम सभी जगह अपना काम पूरी मेहनत और लगन से करते हैं. दिल्ली में हमारी अच्छी परफॉरमेंस की वजह सिर्फ इतनी है कि यहाँ हमारे काम करने के लिए अनुकूल  माहौल है. केंद्र और राज्य सरकार की आपसी जंग का भी हमें भरपूर फायदा मिला है.
रिपोर्टर : खैर, अब आखिर में आप ये बताइये कि आपके इस प्रकोप से बचने का उपाय क्या है ?
मच्छर : उपाय तो है अगर कोई कर सके तो … लगातार सात शनिवार तक काले-सफ़ेद धब्बों वाले कुत्ते की पूँछ का बाल लेकर बबूल के पेड़ की जड़ में बकरी के दूध के साथ चढाने से हम प्रसन्न हो जायेंगे और उस व्यक्ति को नहीं काटेंगे !
रिपोर्टर : आप उपाय बता रहे हैं या अंधविश्वास फैला रहे हैं ?
मच्छर : दरअसल आम हिन्दुस्तानी लोग ऐसे ही उपायों के साथ comfortable फील करते हैं ! उन्हें विज्ञानं से ज्यादा किरपा में यकीन होता है…. वैसे सही उपाय तो साफ़-सफाई रखना है, जो रोज ही टीवी चैनलों और अखबारों के जरिये बताया जाता है, पर उसे मानता कौन है ?
अगर उसे मान लिया होता तो आज आपको मेरा interview लेने नहीं आना पड़ता … !!!

311015 aik machchhar ka taza tareen interview by s a saga

No comments:

Post a Comment