پینتیس سال لاپتہ رہ کر مرنےوالے مرد کی بیوی عدت وفات گزارے گی یا نہیں؟
سوال
حضرت مفتی صاحب خیریت یہ معلوم کرنا ھے کہ ایک عورت کاشوھر گھر سے چلاگیا 35 سال بعد معلوم ہوا کہ وہ زندہ ھے اسکے بچے اسے ملنے گئے اس کے دوچار دن بعد اس کا انتقال ھوگیا۔ تو کیا بیوی پر عدت ھے جبکہ وہ 35 سال سے شوھر سے نہیں ملی۔ وضاحت فرما ئیں جزاکم اللہ
مسعود عزیزی ندوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
حنفیہ کے اصل مذہب کے مطابق تادم زیست ایسی خاتون شوہر مفقود ہی کی بیوی رہے گی اور اس کے آنے کی منتظر رہے گی دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، چاہے جتنی مدت گزر جائے!
لیکن مالکیہ اور شافعیہ کا مسلک ہے کہ چار سال انتظار کرکے عدت وفات گزار کر وہ دوسرے مرد کے لئے حلال ہوسکتی ہے
اگر نفقہ کا کوئی نظم نہ ہو اور عورت کے لئے با عصمت زندگی گزارنا بھی مشکل ہو تو ایسی خاتون کے لئے حکم یہ ہے کہ شرعی پنچایت یا دارالقضاء میں اپنا مقدمہ دائر کرے
وہ عورت کے احوال کی تحقیق کریں گے اور ایک سال سے چار سال تک تلاش و انتظار کی مدت طے کریں گے اگر اس دوران شوہر آگیا تو ٹھیک، ورنہ وہ مفقود الخبر ہونے کی وجہ سے تفریق کردیں گے اور عورت چار ماہ دس دن عدت وفات گزارکر دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے
متاخرین حنفیہ خصوصا ہمارے اکابر دیوبند نے عورتوں کی پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے میں مالکیہ کے مذہب پہ فتوی دیا ہے، دیکھئے: (الحیلۃ الناجزۃ، مطبوعہ دار الاشاعت دیوبند ۹۵)
وقال مالکؒ والشافعيؒ في القدیم: تتربص (امرأۃ المفقود) أربع سنین وتعتد للوفاۃ أربعۃ أشہر وعشرا، وتحل للأزواج لأنہ إذا جاز الفسخ لتعذر الوطء بالعنۃ وتعذر النفقۃ بالإعسار فلأن یجوز ہہنا لتعذر الجمیع أولیٰ (إلی قولہ) قلت: ولمالکؒ أن یقول: إن ابتلاء المرأۃ بالزنا ضیاعہا فإن خیف علی امرأۃ المفقود ابتلاء ہا بالزنا کان حکمہا حکم ضالۃ الغنم، ومذہب الحنفیۃ في الباب وإن کان قویا روایۃ ودرایۃ؛ ولکن المتأخرون منا قد أجازوا الإفتاء بمذہب مالک عند الضرورۃ نظرا إلی فساد الزمان۔ (إعلاء السنن، کتاب المفقود، مکتبہ أشرفیۃ دیوبند ۱۳/۴۴-۵۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۳/۴۹-۶۷)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کا خیال بھی یہی ہے کہ زوجہ، مفقود الخبر کی چار برس انتظار کرے بعد ازاں نکاح کرلے اور بعضوں نے اس پر اجماع صحابہ نقل کیا امام مالک رحمہ اللہ موطا میں روایت کرتے ہیں:
إن عمر بن الخطاب قال: أیما امرأۃ فقدت زوجھا فلم تدر أین ھو فإنھا تنتظر أربع سنین، ثم تعتدأربعۃ أشھر و عشرًا ثم تحل للأزواج۔ (المؤطا للإمام مالک، کتاب الطلاق، باب ما جاء في عدۃ التي تفقد زوجہا، النسخۃ الہندیۃ ص:۲۰۹۔)
اور محمد بن عبدالباقی زرقانی شرح موطا میں لکھتے ہیں:
روي نحوہ عن عثمان وعلي قیل وأجمع الصحابۃ علیہ ولم یعلم لھم مخالف في عصرھم وعلیہ جماعۃ من التابعین۔ انتھیٰ (شرح الزرقاني علی مؤطا إمام مالک، کتاب الطلاق، باب عدۃ التي تفقد زوجہا، دارالفکر بیروت ۳/۱۹۹۔)
اور بعض صحابہ کرام مثل ابن مسعود و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رجحان یہ ہے کہ زوجہ مفقود الخبر شوہر کی تادم ظہور موت شوہر کا انتظار کرے اور یہ ہی مذہب شعبی و نخعی کا ہے جیسا کہ فتح القدیر میں ہے۔
(فتح القدیر، کتاب المفقود، مکتبہ زکریا دیوبند ۶/۱۳۷- ۱۳۸، کوئٹہ ۵/۳۷۲۔)
چار سال انتظار کے بعد شوہر کو وفات یافتہ قرار دے کر عورت سے عدت وفات گزر واکر دوسرے مرد کے لئے حلال قرار دینا اس صورت میں ہے جبکہ عورت نے شرعی عدالت یا عوامی محکمے میں اپنا مقدمہ دائر کرکے تفریق کا مطالبہ کی ہو، اگر عورت نے اس طرح کا کوئی مدعی کہیں پیش نہ کیا ہو تو چونکہ وہ خود اکیلی تفریق وتنسیخ نکاح وغیرہ کی مجاز قطعی نہیں ہے اس لئے مذہب حنفی کی اصلیت پہ اس کا نکاح زوج مفقود سے باقی رہے گا
آپ کی پوچھی گئی صورت کا تعلق اسی شکل سے ہے اس لئے اس کا حکم یہ ہے کہ جب شوہر کا پتہ چل جائے پھر اس کی موت واقع ہوئی ہو تو شرعی تفریق نہ ہونے کے باعث یہ بدستور بیوی تھی اس لئے شوہر کی موت پہ عدت وفات گزارے گی۔
اگر شرعی عدالت یا محکمے سے چار سال بعد تفریق کرکے دوسرے شوہر سے نکاح کروادیا جاتا پھر اس مفقود شوہر کا انکشاف ورجوع ہوتا تب بھی وہ اسی کی بیوی قرار پاتی!
قاضی کی تفریق وتنسیخ نکاح کے ساتھ زوج ثانی کے ساتھ منعقدہ نکاح از خود باطل ہوجائے گا.
زوج اوّل کی یافت و رجوع کے بعد جب اس کا انتقال ہوجائے تو بیوی پہ پہر سے عدت وفات واجب ہوگی.
ثم بعد رقمہ رأیت المرحوم أبا السعود نقلہ عن الشیخ شاہین ونقل أن زوجتہ لہ والأولاد للثاني۔ (شامي، کتاب المفقود، مطلب في الإفتاء بمذہب مالک الخ، مکتبہ زکریا دیوبند ۶/۴۶۳، کراچي ۴/۲۹۷)
وقد صح رجوعہ عنہ إلی قول علي رضي اﷲ عنہ فإنہ کان یقول: ترد وإلي زوجہا الأول، ویفرق بینہا وبین الآخر ولہا المہر بما استحل من فرجہا ولا یقربہا الأول حتی تنقضي عدتہا من الآخر وبہذا کان یأخذ إبراہیم فیقول: قول علي رضي اﷲ عنہ أحب إلي من قول عمر وبہ نأخذ أیضًا۔الخ (کتاب المبسوط للسرخسي، کتاب المفقود، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۱/۳۷)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
18 شوال
1439 ہجری
No comments:
Post a Comment