( اللّهم اَلهِمنا مَرَاشِدَ اُمورنا واَعِذنا مِن شُرور انفُسنا ومن سَيئاتِ اعمالنا)
اس کا جواب مجھے مطلوب ہے
اس کا جواب مجھے مطلوب ہے
الجواب: اس دعا کے الفاظ ترمذی شریف کی ایک طویل حدیثمیں اس طرح سےوارد ہوئےہیں:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَبِي: يَا حُصَيْنُ كَمْ تَعْبُدُ اليَوْمَ إِلَهًا؟ قَالَ أَبِي: سَبْعَةً سِتَّةً فِي الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِي السَّمَاءِ. قَالَ: فَأَيُّهُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِكَ وَرَهْبَتِكَ؟ قَالَ: الَّذِي فِي السَّمَاءِ. قَالَ: يَا حُصَيْنُ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُكَ كَلِمَتَيْنِ تَنْفَعَانِكَ. قَالَ: فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَيْنٌ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِيَ الكَلِمَتَيْنِ اللَّتَيْنِ وَعَدْتَنِي، فَقَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي . رواه الترمذی (3483).
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے باپ ( حضرت حصین ) سے جو اس وقت تک ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ مند نہیں تھے فرمایا : اے حصین آج کل تم کتنے معبودوں کی بندگی کرتے ہو؟ میرے باپ نے عرض کیا کہ : سات معبودوں کی جن میں سے چھ تو زمین پر ہیں ، اور ایک آسمان میں ہے (جو سب کا خالق ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر ان میں سے کون سا معبود تمہاری امید اور تمہارے خوف کا مرجع ہے؟ یعنی ان میں سے کس معبود سے تم ڈرتے ہو اور اس سے بھلائی کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:
جو آسمان میں ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حصین! جان لو اگر تم مسلمان ہوجاتے تو میں تمہیں دو کلمے سکھاتا جو تمہیں دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچاتے ،حضرت عمران کہتے ہیں کہ : چنانچہ جب میرے باپ حضرت حصین مسلمان ہو گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ:
یا رسول اللہ! مجھے اب وہ دو کلمے بتائیے جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ پڑھو (اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي) اے اللہ، میرے دل میں میری ہدایت ڈال دے ، اور میرے نفس کی برائی سے مجھے پناہ دے۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے باپ ( حضرت حصین ) سے جو اس وقت تک ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ مند نہیں تھے فرمایا : اے حصین آج کل تم کتنے معبودوں کی بندگی کرتے ہو؟ میرے باپ نے عرض کیا کہ : سات معبودوں کی جن میں سے چھ تو زمین پر ہیں ، اور ایک آسمان میں ہے (جو سب کا خالق ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر ان میں سے کون سا معبود تمہاری امید اور تمہارے خوف کا مرجع ہے؟ یعنی ان میں سے کس معبود سے تم ڈرتے ہو اور اس سے بھلائی کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:
جو آسمان میں ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حصین! جان لو اگر تم مسلمان ہوجاتے تو میں تمہیں دو کلمے سکھاتا جو تمہیں دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچاتے ،حضرت عمران کہتے ہیں کہ : چنانچہ جب میرے باپ حضرت حصین مسلمان ہو گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ:
یا رسول اللہ! مجھے اب وہ دو کلمے بتائیے جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ پڑھو (اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي) اے اللہ، میرے دل میں میری ہدایت ڈال دے ، اور میرے نفس کی برائی سے مجھے پناہ دے۔
يہ دعا احاديث ميں اسی طرح مذکورہے،اور حديث سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ يہ دعا کسی مخصوص وقت اور کام کے لئے نہيں ، عام ہے، بلکہ مشورہ کی کوئی خاص دعا بعينہ الفاظ کےساتھ یا دیگر الفاظ سے مجھے نہيں ملی،بہت ممکن ہے کہ اسی حديث سے اخذ کی گئی ہو...کچھ صيغے اور ضمائر کی زيادتی وتبدیلی کے ساتھ۔
مشورہ کے وقت مذکورہ دعا پڑھنے کی اگرچہ کوئی ممانعت معلوم نہیں ہوتی ہے، ليکن اسےمشورہ کی مسنون دعا سمجھ کر نہ پڑھا جائے۔
نوٹ : مذکورہ بالا دعا،
حدیث کی کتابوں میں متعدد الفاظ سے وارد ہوئی ہے، چند دیگر الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
حدیث کی کتابوں میں متعدد الفاظ سے وارد ہوئی ہے، چند دیگر الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
اللهُمَّ قِنِي شَرَّ نَفْسِي ، وَاعْزِمْ لِي عَلَى أَرْشَدِ أَمْرِي . مسند احمد
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَهْدِيكَ لِأَرْشَدِ أَمْرِي ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي . طبرانى
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَهْدِيكَ لِأَرْشَدِ أُمُورِي ، وَأَسْتَجِيرُكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي . طبرانى
اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَعْزِمَ لِي عَلَى رُشْدِ أَمْرِي . مشكل الآثار
اللهم ألهمني رُشدي، وقني شرَّ نفسي .جامع المسانيد لابن كثير
اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي وَعَافِنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي . الاسماء والصفات للبيهقى
اللَّهُمَّ قِنِي شَرَّ نَفْسِي، وَاعْزِمْ لِي عَلى رُشْد أَمْرِي ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أعْلَنْتُ، وَمَا أَخْطَأتُ، ؤمَا عَمَدْتُ، وَما جَهِلْت . ابن حبان وغيره
.................
مشورے کے آداب
حضرت مولانا محمد سعد صاحب
جس طرح دین امانت ہے اسی طرح مشورہ امانت ہے جس طرح دین کا اہم رکن نماز ہے اسی طرح دعوت کا اہم رکن مشورہ ہے جس کی نماز نہیں اُس کا دین نہیں ہے جس کا مشورہ نہیں اس کی کوئی دعوت نہیں۔ کام کی کمزوری مشورہ کی کمزوری ہے مشورہ کا مقصد تقاضہ پورا کرنا نہیں ہے بلکہ مشورہ کا مقصد ساتھیوں کو لیکر چلنا ہے۔ تقاضہ وہ پورا کرے گا جو ساتھی قربانی دے گا۔ جس مشورہ سے تقاضہ پورا نہیں ہوا وہ مشورہ کمزور نہیں ہے بلکہ جس مشورہ سے ساتھی کٹ گیا وہ مشورہ کمزور ہے۔ ساتھی کاساتھی سے مشورہ کرنا مشورہ کی کمزوری ہے ساتھی کا کسی جماعت سے مشورہ کرنا یہ مشورے کی کمزوری ہے۔ جماعت کا کسی ایک ساتھی سے مشورہ کرنا یہ مشورے کی کمزوری ہے۔ کسی ذمہ دار ساتھی کو چھوڑ کر مشورہ کرنا یہ مشورہ کی کمزوری ہے جس طرح مشورہ امانت ہے اسی طرح رائے امانت ہے۔ جو اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتا ہے وہ اپنی رائے کو بنابنا کر پیش کرے گا جو اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتاہے مشورے سے پہلے اپنی رائے کا ماحول تیار کرے گا۔ مشورے کے باہر اپنی رائے نہ دیں۔ اگر کوئی رائے پوچھے تو اُس سے یوں کہہ دے کہ ہم اپنی رائے مشورے میں دیں گے۔ مشورے کے بغیر فیصلہ نہیں اور فیصلہ کے بغیر مشورہ نہیں۔ جس طرح امیر کے بغیر جماعت نہیں اسی طرح جماعت کے بغیر امیر نہیں۔ مشورے میں رائے پہلے پرانوں کی ہوگی پھر اُن کی رائے ہوگی جو قربانی میں آگے ہیں۔ نئے کو رائے پوچھنے پر دینا چاہئے۔ مشورہ میں جو خاموش بیٹھتا ہے پہلے اُس کی رائے لی جائے ورنہ باہر جاکر یوں کہے گا مشورے والوں نے تو ہماری رائے لی نہیں اور فیصلہ کردیا۔ مشورے کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ مشورہ کس نے لیا اور فیصلہ کس نے کیا تو اس سے بڑھ کو کوئی فتنہ نہیں۔ اس لئے کسی اہم تقاضے پر اگر کوئی ذمہ دار ساتھی نہیں ہے تو اسی وقت طے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ مشورے کو آگے کیا جائے۔ مشورے کے بعد اگر کوئی نقصان ہوگیا تو اس طرح کہنا کہ مشورے والوں نے ہماری رائے لی نہیں دیکھو نقصان ہوگیا اس طرح کہنا منافقوں کامزاج ہے اور اس طرح کہناکہ جو اللہ نے چاہا اُس پر ہمارا ایمان ہے یہ ایمان والوں کا مزاج ہے۔
ایک ہے عذر اور ایک شرعی عذر۔ اگر شرعی عذر ہے تو کوئی بات نہیں لیکن بلا شرعی عذر کے اپنی جان بچانے کی نیت سے عذر پیش کررہا ہے یا تقاضے دوسروں پر ڈال رہا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صاف انکار کررہا ہے۔ جو تقاضے دوسروں پر ڈالے گا اللہ اُسے ہٹاکر دوسروں کوکھڑا کرے گا۔ جو فکر زیادہ کرے گا رائے اُس کے حصہ میں آئے گی۔ تقاضے اُسی کے حصہ میں آئیں گے جو زیادہ قربانی دے گا۔ رائے کی کثرت اختلاف نہیں ہے بلکہ رائے کی کثرت رائے کو نکھارتی ہے۔ہر رائے میں کوئی نہ کوئی نقص ہوتا ہے جب لاکر اُس کو مشورے میں رکھ دیں گے پھر اُس پر رائے کی کثرت ہوگی تو اُس رائے میں نکھار پیدا ہوگا۔ کوئی ذمہ دار ساتھی اپنی ذاتی تعلقات کی وجہ سے کسی ساتھی کو کوئی کام دے جو اُس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو تو اُس ذمہ دار پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ مشورہ میں فیصلہ رائے کی کثرت پر نہ ہوگا بلکہ مشورہ قوت رائے بصیرت پر ہوگا۔ مشورے کے بعد اگر کوئی پوچھے کہ تمہاری کیارائے تھی تو اس سے یوں کہے جو مشورے میں طے ہوگیا وہ ہماری رائے ہے۔ اُس کے باوجود بھی یہ پوچھے کہ تمہاری کیا رائے تھی تو اُس سے یوں کہے وہ تو مشورے میں طے ہوچکی۔ ساتھی ساتھی سے مشورہ نہ کرے ساتھی کسی جماعت سے مشورہ نہ کرے جماعت کسی ایک ساتھی سے مشورہ نہ کرے بلکہ جماعت، جماعت سے مشورہ کرے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کو مکمل فرمادیا اور ایک ضابطہ بنادیا کہ جس کی زندگی میں دین ہوگا وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوگا۔جس کی زندگی میں دین نہ ہوگا وہ دونوں جہاں میں ناکام ہے۔ یہ قیمتی دین ہمارے زندگی میں آجائے اس لئے چند صفات پر عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ یہ صفات پورا کا پورا دین نہیں ہے مگر اس پر محنت کرنے سے انشاءاللہ پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ اُس میں پہلی صفت ایمان ہے اُس کے بول ہیں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ یہ ایمان کے بول ہیں۔ اُس کے اقرار کی جگہ زبان ہے۔ اصرار یعنی تصدیق کی جگہ دل ہے۔ اُس کو یاد کرنا، درست کرنا اور اصل اُس کو دل میں اُتارنا ہے۔ ایک ایمان والا ایمان پر محنت کرے گا تو اُس کا یہ بڑھتا ہوا ایمان اُس کی زندگی میں اللہ کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے زندگی میں لائے گا اور اگر ایمان کی محنت کو چھوڑدے گا تو ایمان گھٹے گا جس کی وجہ سے اُس کی زندگی سے اللہ کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے غیر محسوس طریقے سے نکلتے چلے جائیں گے۔ اُس کی پاداش میں اُس کو اتنا نقصان ہو گا جس کا انداز ہم دنیا میں نہیں لگاسکتے ۔موت کے وقت سارے سہارے چھوٹ جائیں گے۔ اُس وقت ایک ایمان کام آئے گا۔ قبر میں، میدان محشر میں، بچا کر جنت میں لے جائے گا۔ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرائے گا۔ ایک ایمان والا اپنی آخری سانس تک بھی ایمان کی محنت کرتا رہے تو وہ ایمان کے آخری درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے شفیق استاد سکھانے والے اور سیکھنے والے صحابہؓ جیسے ہونہار شاگرد مگر پھر بھی مکی زندگی میں گیارہ سے تیرہ سال کم وبیش ایمان کو سیکھنے کی محنت ہوئی یہ صفت ایمان ہمارے زندگی کے اندر آجائے چار لائنوں کی محنت کرنی پڑے گی۔ سب سے پہلے دعوت۔ مخلوق میں اللہ کی کبریائی اور بڑائی طاقت وقدرت کے خوب بول بولیں کہ اُمت اللہ کی بڑائی وکبریائی کو تسلیم کرنے والی بن جائے۔ دوسری بات ہم مخلوق میں رہتے ہیں اور مخلوق سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ دل کی زبان سے مخلوق سے ہونے کی نفی کرے اور ایک اللہ سے ہونے کا اقرار کرے۔ تیسری بات فضائل کی کتابوں کے ذریعہ ایمان کی فضیلت کو خوب سنیں۔ چوتھے دعاﺅں کے ذریعہ اللہ سے ایمان کی بقا وسلامتی اور ایمان پر خاتمہ کومانگیں کیونکہ اعتبارخاتمہ کا ہے اپنے لئے بھی اور گھر والوں کے لئے اور ساری امت کے لئے دعا کریں۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَهْدِيكَ لِأَرْشَدِ أَمْرِي ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي . طبرانى
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَهْدِيكَ لِأَرْشَدِ أُمُورِي ، وَأَسْتَجِيرُكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي . طبرانى
اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَعْزِمَ لِي عَلَى رُشْدِ أَمْرِي . مشكل الآثار
اللهم ألهمني رُشدي، وقني شرَّ نفسي .جامع المسانيد لابن كثير
اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي وَعَافِنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي . الاسماء والصفات للبيهقى
اللَّهُمَّ قِنِي شَرَّ نَفْسِي، وَاعْزِمْ لِي عَلى رُشْد أَمْرِي ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أعْلَنْتُ، وَمَا أَخْطَأتُ، ؤمَا عَمَدْتُ، وَما جَهِلْت . ابن حبان وغيره
.................
مشورے کے آداب
حضرت مولانا محمد سعد صاحب
جس طرح دین امانت ہے اسی طرح مشورہ امانت ہے جس طرح دین کا اہم رکن نماز ہے اسی طرح دعوت کا اہم رکن مشورہ ہے جس کی نماز نہیں اُس کا دین نہیں ہے جس کا مشورہ نہیں اس کی کوئی دعوت نہیں۔ کام کی کمزوری مشورہ کی کمزوری ہے مشورہ کا مقصد تقاضہ پورا کرنا نہیں ہے بلکہ مشورہ کا مقصد ساتھیوں کو لیکر چلنا ہے۔ تقاضہ وہ پورا کرے گا جو ساتھی قربانی دے گا۔ جس مشورہ سے تقاضہ پورا نہیں ہوا وہ مشورہ کمزور نہیں ہے بلکہ جس مشورہ سے ساتھی کٹ گیا وہ مشورہ کمزور ہے۔ ساتھی کاساتھی سے مشورہ کرنا مشورہ کی کمزوری ہے ساتھی کا کسی جماعت سے مشورہ کرنا یہ مشورے کی کمزوری ہے۔ جماعت کا کسی ایک ساتھی سے مشورہ کرنا یہ مشورے کی کمزوری ہے۔ کسی ذمہ دار ساتھی کو چھوڑ کر مشورہ کرنا یہ مشورہ کی کمزوری ہے جس طرح مشورہ امانت ہے اسی طرح رائے امانت ہے۔ جو اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتا ہے وہ اپنی رائے کو بنابنا کر پیش کرے گا جو اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتاہے مشورے سے پہلے اپنی رائے کا ماحول تیار کرے گا۔ مشورے کے باہر اپنی رائے نہ دیں۔ اگر کوئی رائے پوچھے تو اُس سے یوں کہہ دے کہ ہم اپنی رائے مشورے میں دیں گے۔ مشورے کے بغیر فیصلہ نہیں اور فیصلہ کے بغیر مشورہ نہیں۔ جس طرح امیر کے بغیر جماعت نہیں اسی طرح جماعت کے بغیر امیر نہیں۔ مشورے میں رائے پہلے پرانوں کی ہوگی پھر اُن کی رائے ہوگی جو قربانی میں آگے ہیں۔ نئے کو رائے پوچھنے پر دینا چاہئے۔ مشورہ میں جو خاموش بیٹھتا ہے پہلے اُس کی رائے لی جائے ورنہ باہر جاکر یوں کہے گا مشورے والوں نے تو ہماری رائے لی نہیں اور فیصلہ کردیا۔ مشورے کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ مشورہ کس نے لیا اور فیصلہ کس نے کیا تو اس سے بڑھ کو کوئی فتنہ نہیں۔ اس لئے کسی اہم تقاضے پر اگر کوئی ذمہ دار ساتھی نہیں ہے تو اسی وقت طے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ مشورے کو آگے کیا جائے۔ مشورے کے بعد اگر کوئی نقصان ہوگیا تو اس طرح کہنا کہ مشورے والوں نے ہماری رائے لی نہیں دیکھو نقصان ہوگیا اس طرح کہنا منافقوں کامزاج ہے اور اس طرح کہناکہ جو اللہ نے چاہا اُس پر ہمارا ایمان ہے یہ ایمان والوں کا مزاج ہے۔
ایک ہے عذر اور ایک شرعی عذر۔ اگر شرعی عذر ہے تو کوئی بات نہیں لیکن بلا شرعی عذر کے اپنی جان بچانے کی نیت سے عذر پیش کررہا ہے یا تقاضے دوسروں پر ڈال رہا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صاف انکار کررہا ہے۔ جو تقاضے دوسروں پر ڈالے گا اللہ اُسے ہٹاکر دوسروں کوکھڑا کرے گا۔ جو فکر زیادہ کرے گا رائے اُس کے حصہ میں آئے گی۔ تقاضے اُسی کے حصہ میں آئیں گے جو زیادہ قربانی دے گا۔ رائے کی کثرت اختلاف نہیں ہے بلکہ رائے کی کثرت رائے کو نکھارتی ہے۔ہر رائے میں کوئی نہ کوئی نقص ہوتا ہے جب لاکر اُس کو مشورے میں رکھ دیں گے پھر اُس پر رائے کی کثرت ہوگی تو اُس رائے میں نکھار پیدا ہوگا۔ کوئی ذمہ دار ساتھی اپنی ذاتی تعلقات کی وجہ سے کسی ساتھی کو کوئی کام دے جو اُس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو تو اُس ذمہ دار پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ مشورہ میں فیصلہ رائے کی کثرت پر نہ ہوگا بلکہ مشورہ قوت رائے بصیرت پر ہوگا۔ مشورے کے بعد اگر کوئی پوچھے کہ تمہاری کیارائے تھی تو اس سے یوں کہے جو مشورے میں طے ہوگیا وہ ہماری رائے ہے۔ اُس کے باوجود بھی یہ پوچھے کہ تمہاری کیا رائے تھی تو اُس سے یوں کہے وہ تو مشورے میں طے ہوچکی۔ ساتھی ساتھی سے مشورہ نہ کرے ساتھی کسی جماعت سے مشورہ نہ کرے جماعت کسی ایک ساتھی سے مشورہ نہ کرے بلکہ جماعت، جماعت سے مشورہ کرے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کو مکمل فرمادیا اور ایک ضابطہ بنادیا کہ جس کی زندگی میں دین ہوگا وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوگا۔جس کی زندگی میں دین نہ ہوگا وہ دونوں جہاں میں ناکام ہے۔ یہ قیمتی دین ہمارے زندگی میں آجائے اس لئے چند صفات پر عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ یہ صفات پورا کا پورا دین نہیں ہے مگر اس پر محنت کرنے سے انشاءاللہ پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ اُس میں پہلی صفت ایمان ہے اُس کے بول ہیں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ یہ ایمان کے بول ہیں۔ اُس کے اقرار کی جگہ زبان ہے۔ اصرار یعنی تصدیق کی جگہ دل ہے۔ اُس کو یاد کرنا، درست کرنا اور اصل اُس کو دل میں اُتارنا ہے۔ ایک ایمان والا ایمان پر محنت کرے گا تو اُس کا یہ بڑھتا ہوا ایمان اُس کی زندگی میں اللہ کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے زندگی میں لائے گا اور اگر ایمان کی محنت کو چھوڑدے گا تو ایمان گھٹے گا جس کی وجہ سے اُس کی زندگی سے اللہ کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے غیر محسوس طریقے سے نکلتے چلے جائیں گے۔ اُس کی پاداش میں اُس کو اتنا نقصان ہو گا جس کا انداز ہم دنیا میں نہیں لگاسکتے ۔موت کے وقت سارے سہارے چھوٹ جائیں گے۔ اُس وقت ایک ایمان کام آئے گا۔ قبر میں، میدان محشر میں، بچا کر جنت میں لے جائے گا۔ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرائے گا۔ ایک ایمان والا اپنی آخری سانس تک بھی ایمان کی محنت کرتا رہے تو وہ ایمان کے آخری درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے شفیق استاد سکھانے والے اور سیکھنے والے صحابہؓ جیسے ہونہار شاگرد مگر پھر بھی مکی زندگی میں گیارہ سے تیرہ سال کم وبیش ایمان کو سیکھنے کی محنت ہوئی یہ صفت ایمان ہمارے زندگی کے اندر آجائے چار لائنوں کی محنت کرنی پڑے گی۔ سب سے پہلے دعوت۔ مخلوق میں اللہ کی کبریائی اور بڑائی طاقت وقدرت کے خوب بول بولیں کہ اُمت اللہ کی بڑائی وکبریائی کو تسلیم کرنے والی بن جائے۔ دوسری بات ہم مخلوق میں رہتے ہیں اور مخلوق سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ دل کی زبان سے مخلوق سے ہونے کی نفی کرے اور ایک اللہ سے ہونے کا اقرار کرے۔ تیسری بات فضائل کی کتابوں کے ذریعہ ایمان کی فضیلت کو خوب سنیں۔ چوتھے دعاﺅں کے ذریعہ اللہ سے ایمان کی بقا وسلامتی اور ایمان پر خاتمہ کومانگیں کیونکہ اعتبارخاتمہ کا ہے اپنے لئے بھی اور گھر والوں کے لئے اور ساری امت کے لئے دعا کریں۔
No comments:
Post a Comment