قبرستان کی لکڑیوں کو ذاتی استعمال میں صرف کرنا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر قبرستان ذاتی زمین میں نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے لئے وقف ہو۔اور وہاں درخت اگ گئے ہوں۔ تو ضرورت سے زائد درختوں کو کاٹ کر کوئی شخص اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا۔ بلکہ اسے فروخت کرکے قبرستان کی ضروریات ہی میں اس کی رقم کا استعمال ضروری ہے۔ اگر قبرستان میں ضرورت نہ ہو تو قریب کے دوسرے قبرستان یا مدرسہ وغیرہ میں بھی باہمی مشاورت سے رقم صرف ہوسکتی ہے۔۔
ہاں اگر قبرستان مملوکہ ہو تو پھر اس کی لکڑیوں اور درختوں کو مالک زمین اپنے استعمال میں یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔
فإن کانت الأرض یعرف مالکہا فالأشجار بأصلہا للمالک یصنع بالأشجار وأصلہا ماشاء الخ۔ (قاضی خان ، الوقف ، فصل فی الأشجار ، زکریاجدید۳/۲۱۷، ۲۱۸، وعلی ہامش الہندیۃ ۳/۳۱۱) ۔
ہاں اگر قبرستان مملوکہ ہو تو پھر اس کی لکڑیوں اور درختوں کو مالک زمین اپنے استعمال میں یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔
فإن کانت الأرض یعرف مالکہا فالأشجار بأصلہا للمالک یصنع بالأشجار وأصلہا ماشاء الخ۔ (قاضی خان ، الوقف ، فصل فی الأشجار ، زکریاجدید۳/۲۱۷، ۲۱۸، وعلی ہامش الہندیۃ ۳/۳۱۱) ۔
سئل نجم الدین فی مقبرۃ فیہا أشجار ہل یجوز صرفہا إلیٰ عمارۃ المسجد قال نعم إن لم تکن وقفا علی وجہ آخر ،قیل لہ فإن تداعت حیطان المقبرۃ إلیٰ الخراب یصرف إلیہا أو إلیٰ المسجد قال إلی ماہی وقف علیہ إن عرف وإن لم یکن للمسجد متولی ولا للمقبرۃ فلیس للعامۃ التصرف فیہا بدون إذن القاضی ۔ ( ہندیہ الوقف ، الباب الثانی عشر فی الرباطات والمقابر … زکریا قدیم ۲/۴۷۶، جدید ۲/۴۱۸، المحیط البرہاني ، المجلس العلمی۹/۱۴۹، رقم: ۱۱۴۳۴، الفتاویٰ التاتار خانیۃ ،زکریا۸/۱۹۴، رقم: ۱۱۶۱۷، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۳۸/۳۴۹)
قال فی فقہ السنۃ: وما فضل من ربح الوقف واستغنی عنہ فإنہ یصرف فی نظیر تلک الجہۃ کالمسجد إذا فضلت غلۃ وقفہ عن مصالحہ صرف فی مسجد آخر لأن الواقف غرضہ فی الجنس والجنس واحد فإن ہذا الفاضل لاسبیل إلیٰ صرفہ إلیہ ولا إلیٰ تعطلہ فصرفہ فی جنس المقصود أولیٰ وہو أقرب الطرق إلیٰ مقصود الواقف ۔ (فقہ السنۃبیروت۶/۵۵۰)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment