Saturday, 11 November 2017

مسواک کی برکت سے دشمن پر غلبہ

سوال: ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار مسلمانوں نے کافروں کے ایک قلعے کا کئی دن سے محاصرہ کر رکھا تھا، مگر قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا، چونکہ ان سے کوئی سنت چھوٹ رہی تھی۔ اس لئے جب غور کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ مسواک میں سستی کی جارہی ہے ۔ پس سارے لشکر نے اس سنت کو زندہ کیا تو قلعہ فورا فتح ہو گیا۔
کیا اس واقعہ کی کوئی اصل ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب:
اس واقعہ کی مختلف روایات اردو عربی کتب ورسائل میں ملتی ہیں، ان میں بعض قدیم مراجع ہیں ، اور بعض معاصر، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے، بے اصل اور باطل نہیں ہے۔
 تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:
واقعہ کی عربی قدیم روایات:
۱۔ ابو جعفر طبری (۳۱۰ ھ) کی روایت (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں، جنگ قادسیہ کے موقع پر):
لما نزل رُستم النَّجَفَ بعث عَينا إلى عسكر المسلمين، فانغَمس فيهم بالقادسية، فرآهم يستاكون عند كل صلاة ثم يصلُّون فيفترقون إلى موقِفهم، فرجع إليه فأخبره بخبرهم وسيرتهم حتى سأله: ما طعامُهم؟ فقال: مكثتُ فيهم ليلة، لا والله ما رأيتُ أحداً منهم يأكل شيئا إلا أن يمُصُّوا عِيداناً لهم حين يُمسون وحين ينامون وقبيل أن يُصبِحوا، وفي يوم أذَّن مؤذنُ سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - فرآهم يتهيَّأون للنُّهوض ، فنادى في أهل فارس أن يركبوا، فقيل له: ولم؟ قال: أما تَرَون إلى عدوّكم قد نُودي فيهم بالنهوض لكم، قال أحدهم: إنما نُهوضهم للصلاة، فقال رُستم: أكل عُمَر كَبِدي.
شعر الأعداء بالرُّعب من سُنة واحدة وهي السِّواك ، فكيف لو تمسك المسلمون بالسُّنَن كلها . [ موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق (2/90) ] وأصل القصة في " تاريخ الطبري " (3/ 532).
۲۔ ابن النحاس (814ھ )صاحب مشارع الاشواق الی مصارع العشاق، کی روایت:
ويحكى أن بعض عَساكر المسلمين حاصروا حصناً من حصون الكفار، فتوقف عليهم فتحه، فقال أميرهم: انظروا ما ذا ارتكبتموه من البدع أو تركتموه من السنن حتى عَسُر علينا فتح الحصن ؟ فنظروا فإذا هم قد أهملوا السواك ، فاستعملوا السواك ففتح الله عليهم الحصن .
فانظر هذا التأثير العظيم في ترك سُنة من السنن، وقِس عليه تأثير ارتكاب المحرمات وانتهاك الحُرُمات ، وتناول الحرام في المطعم والملبس ونحو ذلك ، تعلَمُ مِن أين أُتِيَ مَن خَذَلهم الشيطان وأوقعهم في الفِرار والعصيان .[ مشارع الأشواق 1/577] ۔
۳۔ احمد زینی دحلان (۱۳۰۴ ھ) کی روایت:
في إحدى مَعارك المسلمين في بلاد التُّرك ، طال الحصارُ حول حصن من حصون الترك ، كما أحسَّ المسلمون بالمَلل، فبحث قائدُ الجيش عن سِر تأخر هذا النصر ، وكانوا أولَ ما يفَتِّشون في أوراقهم عن إخلاصهم لله تعالى . ثم الفرائض. ثم عن السنن .
فوجدوا أنهم لا يَملِكون سِوَاكا ــ ولو واحدا ــ للتسوُّك به قبل الصلاة ، فاضطر المسلمون إلى استخدام لِحَاء الأشجار وفُروعها بدلا عن السواك ، ولم يكن أحد يدري أن جاسوسا للأعداء وسط الجيش، فرأى المسلمين للمرة الأولى يَستاكُون، فخَاف واضطربَ ، وسريعا مَّا اتجه إلى قومه يُخبرهم مَذعورا أن المسلين يَشحَذُون أسنانهم ليأكلونا . فخاف قومُه ، وألقى الله الرُّعب في قلوبهم ، وفُتح الحصن ، وارتفعت رايةُ : (لا إله إلا الله). [الفتوحات الاسلامية (1/425) لدحلان].
واقعہ کی عربی معاصر روایات
۱۔ أحد المعاصرين بدون سند:
في قصة فتح مصر أيام عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقولون: إن عمرو بن العاص أرسل في طلب المَدد من عمر عندما وصل قُربالفَرمة (بُورسَعيد حاليا) فبعث إليه المدد ومعهم الزبير رضي الله عنه .ولما استبطأ الزبير الفتحَ جمعهم وقال: إنهم ولا بُدَّ نسوا شيئا من سنة رسول الله، فتذكروا السواك ، ولما لم يجدوا شجرتَه بأرض مصرٍ استعملوا خَشَب الأشجار ، ولما رأتهم عيونُ الروم رجعوا لقادتهم وقالوا: إن جيش المسلمين يُسِن أسنانه لتقطيع الروم ! فدبَّ فيه الذُّعر وجاء النصر! 
قال بعضهم: قرأتها قديماً في كتاب "فقه السيرة" للغزالي، لكنه ليس بين يدي ، فانظره لعله ذكر المصدر؟ . أقول : راجعت كتاب محمد الغزالي ، فلم أقف عليها .
2-  معاصر آخر بدون سند:
هناك قصة شهيرة تقول: إنه قد استعصَىحصنُ بابِليُون بمصر علي جيش المسلمين بقيادة عمرو بن العاص رضي الله عنه ، فبحثوا في أمور قد فرَّطوا فيها فوجدوا سُنةَ الاستياك ، فاستاكوا لذلك جميعُهم ، ورأي النصاري ذلك وظنوا أن المسلمين يُحِدُّون أسنانهم لكي يأكلوهم ، فدبَّ الرُّعب في قلوب النصاري وكان الفتحُ.
أقول : راجعتُ كتبَ تاريخ مصر ، فوجدتُ أصل القصة ، ولكن ليس فيها ذكرٌ لموضوع الاستياك ، بل فيها أنهم ربما أحدثوا ذنبا ، فطلب عمر رضي الله عنه منهم التوبة والرجوع إلى الله وطلب النصر منه ، لاحظ ما يلي:
"لما أبطأ على عمر بن الخطّاب فتح مصر، كتب إلى عمرو بن العاص: أمّا بعد، فقد عجبت لإبطائكم عن فتح مصر؛ إنكم تقاتلونهم منذ سنتين؛ وما ذاك إلا لما أحدثتم وأحببتم من الدنيا ما أحبّ عدوّكم، وإن الله تبارك وتعالى لا ينصر قوما إلا بصدق نيّاتهم، وقد كنت وجهت إليك أربعة نفر، وأعلمتك أن الرجل منهم مقام ألف رجل على ما كنت أعرف، إلا أن يكونوا غيّرهم ما غيّر غيرهم؛ فإذا أتاك كتابى هذا، فاخطب الناس، وحُضَّهم على قتال عدوّهم، ورغّبهم فى الصبر والنيّة، وقدِّم أولئك الأربعة فى صُدور الناس، ومُر الناس جميعا أن يكون لهم صَدمةٌ كصدمة رجل واحد، وليكن ذلك عند الزَّوال يوم الجمعة، فإنها ساعة تنزّلُ الرحمة ووقت الإجابة، وليعُجّ الناس إلى الله، ويسألوه النصر على عّدوهم ...الخ [فتوح مصر والمغرب (ص: 102) ]
3-  درس للشيخ محمد الحسن الددو الشنقيطي [ الشاملة ]:
فهذا قُتيبة بن مُسلم الباهلي، وكان شاباً من شباب المسلمين خرج بالجيوش إلى خُراسان، فافتتح في غزوة واحدة اثنتين وسبعين مدينة، وكان من أشهر المسلمين في الفتوحات، حتى إنه لم تهزَم له رايةٌ قط في معاركه كلها، وكان شاباً حديث السِّن، لكنه كان ذكياً مؤمناً محباً للجهاد في سبيل الله، حاصر حصناً من الحصون فترة فلم يفتح عليه، فقال للمسلمين: لعلكم قصَّرتم في سُنة من سنن الدين؛ حَبَس الله عنكم الفتح لأجلها، فنظروا فإذا هُم قد تأخروا عن السواك، فقد كانوا في أرض ليس بها من الشجر ما يَستاكون به، فأمر بعضَ القوم فأتاهم بالمساويك، فلما صَفُّوا في أوجه العدو جعلوا يستاكون، فظن العدو أنهم يَشحَذون أسنانَهم ليأكلوهم ، ففتحوا لهم الحصن.
واقعہ کی اردو روایات 
۱۔  حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ مصر کے فاتح تھے۔ وہ جب مصر میں یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور شہر و قلعے فتح کرتے ہوئے بڑھتے جا رہے تھے کہ بویس نامی ایک قلعہ پر ان کے قدم رک گئے۔ آٹھ ہزار کا لشکر پاس تھا قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے مگر قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی قلعہ فتح ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں خط دے کر قاصد روانہ کیا اور صورتحال عرض کر کے ان سے رہنمائی چاہی، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں چار افراد پر مشتمل کمک بھیجی جن میں زبیر بن العوام، حضرت مقداد بن اسود، حضرت خارجہ بن حذافہ اور حضرت بسر بن ارطاہ رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جوابی خط میں لکھا کہ:
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھ ہزار کا صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا لشکر ہو اور قلعہ فتح نہ ہو، ضرور تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی سنت ترک ہو گئی ہے جس کی وجہ سے برکت نہیں رہی، اس لئے اس بات کی فکر کرو۔
 امیر المومنین کا خط ملنے کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لشکر کو خط سنایا اور کہا کہ امیر المومنین کی بات غلط نہیں ہو سکتی، ضرور ہم سے کوئی سنت نبویؐ ترک ہوگئی ہے جس کی وجہ ہم فتح کی برکت سے ابھی تک محروم ہیں۔ اس پر سارے لشکر نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے لشکر کے بہت سے لوگوں سے سے مسواک رہ جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سارے لشکر کو حکم دیا کہ مسواکیں پکڑو اور قریب ندی کے کنارے بیٹھ کر مسواک کرو۔ اب جو قلعہ کے اندر محصور لوگوں نے آٹھ ہزار کے لشکر کو اجتماعی طور پر مسواک کرتے یا دانت تیز کرتے دیکھا تو اسے کوئی نئی جنگی چال سمجھا اور خوف زدہ ہو کر لڑائی کے بغیر قلعہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کے لیے صلح کا پرچم بلند کر دیا۔
(ا: مولانا زاہد الراشدی صاحب)
۲۔   بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مبارک مروزی ؒنے اپنی زندگی کے تین حصے کئے تھے۔ ایک سال حج کو جاتے اور ایک سال غزوہ میں تشریف لے جاتے اور ایک سال علم کا درس دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، وہاں کفار کا قلعہ فتح نہیں ہوا تو آپ رات کو اسی فکر میں سوگئے کہ خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے ہیں:
اے عبداللہ! کس فکر میں ہے۔
عرض کیا یا رسول اللہ! کفار کے اس قلعہ پر قادر نہیں ہوتا ہوں اس فکر میں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وضو مسواک کے ساتھ کیا کر۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ خواب سے بیدار ہوئے۔ مسواک کے ساتھ وضو کیا اور غازیوں کو بھی حکم دیا، انھوں نے بھی مسواک کے ساتھ وضو کی۔ قلعہ کی نگہبانوں نے قلعہ کے اوپر سے غازیوں کو مسواک کرتے ہوئے دیکھا اور خدائے تعالیٰ نے ایک خوف ان کے دل میں ڈالا۔ وہ نیچے گئے اور قلعہ کے سرداروں سے کہا کہ یہ فوج جو آئی ہے یہ لوگ آدم خور معلوم ہوتے ہیں۔ دانتوں کو تیز کررہے ہیں تاکہ اگر ہم پر فتح پائیں تو ہمیں کھائیں۔ خدائے تعالیٰ نے یہ دہشت ان کے دل میں بٹھادی اور مسلمانوں کے پاس قاصد بھیجا کہ تم مال چاہتے ہو یا جان؟
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:
نہ مال چاہتے ہیں نہ جان، تم سب اسلام قبول کرلو تاکہ چھٹکارہ پاؤ۔ اس سنت کے ادا کرنے کی برکت سے وہ سب مسلمان ہوگئے۔
(از فضائل مسواک، افادات: حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب سہارنپوری)۔
خلاصہ: عربی اردو مراجع ومصادر میں اس واقعہ کا تذکرہ، اس کے صحیح الوقوع ہونے پر دلالت کرتا ہے، مگر صحیح سند اور صراحت کی کمی ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کی طرف نسبت کرنا بھی غلط نہیں ہے، طبری کی روایت سے تایید ملتی ہے، ان تمام روایتوں کے باوجود اس واقعہ کا سرے سے انکار کرنا، اور بے اصل قرار دینا جسارت ہے، تاریخ واخبار کی کتابیں بے شمار ہیں، اور واقعات کا حال احادیث کی طرح نہیں ہے کہ کسے نے تمام واقعات کے احاطہ کا ارادہ کیا ہو، اس لئے اس واقعہ کے بارے میں مصادر کی قلت ،اور صعوبتِ احاطہ کی بناء پر کوئی حتمی بات کہنا دشوار ہے کہ یہ کونسے زمانے کا ہے۔
جو حضرات محمد الشقیری کی بات کو حرف آخر قرار دیتے ہیں ، اور اس کو مستند جواب سمجھتے ہیں ، ان کے لئے لمحہء فکریہ ہے، غور وفکر فرماکر  جواب میں ترمیم فرمائیں تو بہتر ہے،کہیں تعالم ان پر صادق نہ آجائے۔
قال محمد عبد السلام خضر الشقيري في "السنن والمبتدعات المتعلقة بالأذكار والصلوات (ص23 – ط. دار الفكر ):
[والحكاية المشهورة على ألسنة الناس، ويتشدَّق بها كثيرٌ من المُتعالِمين في دروسهم، وهي أن الصحابة غزوا غزوة، فنال الكفارُ منهم، فتساءلوا عما هجروه من سنن المصطفى صلى الله عليه وسلم، فتذكروا السواك، فاستاكوا بالجريدة ، فرآهم العدو فولوا الأدبار خوفاً منهم ، وقالوا: إنهم يُسِنُّون أسنانهم -أي يُحدُّونها- ليأكلونا.
لا أصل لها، وإن تعجب فأعجب من ذكر المُتعالِمين لهذه التُّرَّهات ونشرها على الناس في المَحافل والدروس مع أنها باطلة ] . انتهى.
جمعه ورتبه العبد العاجز: 
محمد طلحة بلال أحمد منيار، كان الله له

No comments:

Post a Comment