Monday, 20 November 2017

مغلیہ دور کی مسجد مبارک بیگم Mubarak Begum Masjid

ایس اے ساگر

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر مسجد مبارک بیگم کے حوالے سے ایک پوسٹ گردش کررہی ہے۔ فصیل بند شہر شاہجہاں آباد عرف پرانی دہلی کے حوض قاضی پر واقع بجلی کے تاروں سے ڈھکی ہوئی یہ مسجد نے صرف انثظامیہ بلکہ امت کی بے توجہی کی بھی شکار ہے جبکہ یہ مغلیہ دور کی یادگار ہے۔ موقع کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ حوض قاضی میٹرو اسٹیشن کا داخلی راستہ اصل میں کئی راستوں کو جوڑتا ہے۔ انہی راستوں میں تاریخی محقق گورو شرما نے پرانی دہلی پر ایک تحقیق کی جو کہ ان کی ڈیجیٹل ٹوور کمپنی کا حصّہ تھی۔
مسجد کا اصلی نام!
مسجد مبارک بیگم کا نام اصل میں دہلی کے پہلے برطانوی شہری ڈیوڈ آکٹر لونی David Ochterlony کی بیوی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ مبارک بیگم ایک ناچنے والی تھیں اور ان کے بیک گراونڈ ہی کی وجہ سے انیسویں صدی کی اس مسجد کانام ’رنڈی کی مسجد‘ پڑگیا۔ رنڈی کسے کہتے ہیں یہ تو بعد میں بتائیں گے جبکہ مسجد کے نگران نے بہت کوشش کی کہ لوگ مسجد کا اصل نام لیں اور اسی لئے اس نے مسجد کانام پڑے بڑے حروف میں مسجد کے دروازے پہ لکھوایا بھی، لیکن لوگ مسجد کو اس کے اصلی نام سے نہیں بلاتے۔ مسجد کا ایک پتھروں کا راستہ دہلی کے چاوڑی بازار میٹرو اسٹیشن سے متصل ہے. یہاں پر نصب بوسیدہ گرے ٹائلز ہمیں مغل دور کی یاد دلاتی ہیں۔ میٹرو سٹیشن کا داخلی راستہ اصل میں کئی راستوں کو جوڑتا ہے. گورو شرما نے دو گروپوں کو دو مختلف راستوں پر بھیجا، جن میں سے ایک نے چاوڑی بازار کی پرانی طوائفوں اور ایک نے Garstin Bastion روڈ کی آج کی طوائفوں پر تحقیق کی۔
پر اسرار اور پرکشش:
طوائف کو ہمیشہ ہی پر اسرار اور پرکشش تصور کیا جاتا ہے۔ 1970میں ایک تاریخ دان وینا تلوار نے اپنی تحقیق کے لئے ایک خود کو لکھنو کی طوائفوں کے ایک گروپ کا حصّہ بنایا۔ جن طوائفوں سے ان کی ملاقات ہوئی وہ آزاد خیال، امیر اور پڑھی لکھی تھیں اور ان کے سر پرستوں میں کئی امراءاور اعلیٰ حکومتی ارکان شامل تھے۔ اِن کے سب سے قریبی اور گہرے رومانوی تعلقات آپس میں ہوتے تھے جن کو وہ اپنی زبان میں ’چپت بازی‘ کہتی تھیں۔ آج کے لکھنو یا دہلی میں ہمیں وہ کوٹھے نظر نہیں آتے جن کے بارے میں وینا تلوار نے بات کی ہے۔انہوں نے اب یہ جائیدادیں چھوڑ دی ہیں۔ اب یہاں نا وہ رومانوی عطر کی دوکانیں ہیں جو ان طوائفوں کے زیرِ استعمال عطر بیچتی تھیں اور نا وہ حویلیاں ہیں جہاں وہ رہتی تھیں۔
بالکونیاں یا محرابیں ہوگئیں ختم:
ہماری تحقیق میں ہمیں چاوڑی بازار کے اند موجود جامع مسجد تک لے گئی ۔پرانے وقتوں میں ان گلیوں کو بازارِ حسن کہا جاتا تھا۔ اب یہاں صرف اکھڑی ٹائلیں اور شادی کارڈز کی دوکانیں ہیں۔ایسا ہمیشہ سے ہی تھا کہ ان علاقوں میں نیچے دوکانیں ہوتی تھیں اور اوپر کے حصّے میں حسن کی محفلیں سجتی تھیں۔ شرما صاحب نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے گلی کے مختلف حصّے مختلف اقسام کی عورتوں کو دئیے جاتے تھے۔ یہاں جنسی تعلقات اور ناچ گانے کے ساتھ ساتھ تہذیب سکھانے کا کا م بھی کیا جاتاتھا۔اب زیادہ تر بالکونیاں یا محرابیں تو ختم ہو گئی ہیں لیکن کچھ کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں۔
پہچان چھپانے کے لئے پرقع:
تصویر مین لچھمن داس اینڈ کو کی دوکان کو اوپر موجود بالکونی اس زمانے کی کچھ نشانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ چار چھوٹی یا تنگ محرابوں کے بیچ میں ایک چوڑی محراب موجود ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شائد یہی وہ جگہ ہے جہاں طوائفیں کھڑی ہو کر اپنے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہوںگی۔ مایانک آسٹن صوفی نے بھی اپنی کتاب ’ نو باڈی کین لو یو مور؛ لائف ان دہلی ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ‘ Nobody Can Love You More: Life in Delhi's Red Light District میں ابھی ایسی ہی محرابوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مایانک نے 1960کے ایک جرنلسٹ ووین اسمتھ کا انٹرویو کیا جنہوں نے طوائفوں کی چار اقسام کے بارے میں بتایا۔ ان میں ڈومنی، بیدنی، طوائف اور رنڈی شامل ہیں۔ رنڈی کا مرتبہ سب سے اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے جس کے امراء کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں اور وہ امراء کے بچوں کو مجلسی آداب بھی سکھاتی ہے۔ اسمتھ صاحب کا کہنا تھا کہ جب ایک رنڈی دریا گنج میں پالکی میں سوار ہو کر نکلتی تھی تو لوگ اپنا کام چھوڑ کر اس کو تکتے تھے۔طوائفوں کو ان کی دولت، رتبے اور انفرادی انداز کی وجہ سے مشہور اور نامور تصور کیا جاتا تھا۔جن طوائفوں سے تلوار ملتی تھیں وہ عوام میں اپنی پہچان چھپانے کے لئے پرقع پہنتی تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ہم آدمی کو تب تک کچھ نہیں دکھاتے جب تک ہمیں اس کی قیمت نا مل جائے۔
عورتوں کے لئے محفوظ نہیں:
انیسویں صدی میں مغل درباری اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ بھی ان طوائفوں کے گاہک ہوتے تھے.اپنی کتاب ’دی لاسٹ مغل‘ میں ولیم ڈیرمپل William Dalrymple نے ایک ایسی طوائف کا ذکر کیا ہے جو سوشل پارٹیز میں برہنہ شرکت کرتی تھی۔ اس نے اپنے جسم پر ایسے بیل بوٹے بنائے ہوتے تھے جو کپڑوں کا یا زیور کا تاثر دیتے تھے۔چاوڑی بازار سے ہو کر، اجمیری دروازے کے پار نکلیں تو وہ نئے دہلی کا آج کا ریڈ لائٹ ایریا ہے جو جی بی روڈ پر واقع ہے۔مغل شاہجہان آباد تو1857 کی جنگِ آزادی ے بعد ہی ختم ہو گیا تھا۔مرزا غالب نے اپنی آنکھوں سے حکومتوں کے ادل بدل اور پرانی دہلی کے امراءکو غریب ہوتے دیکھا تھا۔اسی طرح طوائفوں کو بھی نئی جگہ دی گئی۔جب ہم جی بی روڈ پر جا رہے تھے تو ہمارے گروپ کو دو دفعہ پولیس نے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جگہ عورتوں کے لئے محفوظ نہیں۔
احمقانہ فلمیں:
جی بی روڈ پر کوٹھے موجود ہیں جہاں ناچنے گانے کا کام ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک مایا دیوی جیسی بڑی طوائف جنہوں نے اچھن مہاراج سے کتھک اورکِرانہ گھرانے سے رقص کرنا سیکھا تھا، وہ بھی جی بی روڈ پر ہی رہتی تھی۔ 1983میں بننے والے ایک برطانوی دیکو ڈرامہ میں انہوں نے پون پال نامی بمبئی کا ایک ایسا بڑا کمرہ دکھایا جس کی زمین پر بڑا سا ترازہ بنا تھا اور جہاں طوائفیں رہتی تھیں اور رقص سیکھتی تھیں۔ لیکن ہمیں جی بی روڈ پر کو ئی پون پال جیسا کمرہ نہیں ملا۔پاکیزہ اور امراوجان جیسی فلمیں ہمیں آج یہ بتاتی ہیں کہ ان وقتوں کی طوائفیں یا ان کا رہن سہن کیسا تھا۔ اگر ہم 1983 کے مایا دیوی کے ایک انٹرویو پر نظر ڈالیں تو ان کا اپنے انٹرویو لینے والے سے کہنا تھا کہ: 
” تمھارے بچے کبھی بھی اصل طوائف نہیں دیکھیں گے، ان کو ان امراوجان جیسی احمقانہ فلموں سے ہی کام چلانا پڑے گا۔“ 
کیا عجب پے کہ محققین ایک دن مسجد مبارک بیگم کے متعلق بھی تفصیلات فراہم کریں.
http://www.dunyapakistan.com/198525/#.WhUtGtKWa1s


..........

مساجد کهن  و از یاد رفته در دهلی
دوشنبه, 18 ارديبهشت 1396  
 نسیم کمپانی نسیم کمپانی
مقدمه:
با ورود مسلمانان از ایران ,افغانستان و آسیای میانه  در حدود قرن 10 میلادی به هند سنت ساخت مساجد برای ادای فرایض مذهبی و دینی بشدت گسترش یافته و بیشتربه صورت  مسابقه ای برای نشان دادن قدرت مالی , شدت دینداری و درنهایت درجه اخلاص او به پیامبر و اولیای دین  در آمد بطوری که تخمین زده میشود  در اوایل قرن20 میلادی بیشتر از 300 مسجد  با وسعت و محدوده آن زمان در  شهر دهلی  وجود داشته است,با نگاهی به این مساله می توان دریافت که نه تنها پادشاهان ,ملکه ها و درباریان به ساخت مساجد توجه خاص داشته  بلکه ثروتمندان ,بازرگانان و دیگر طبقات بالا نیز به این امر اهتمام جدی مبذول داشته اند و آن را یکی از فرایض دنیا و آخرت خود به حساب می آورده اند.از برخی از این مساجد در دهلی فقط نام یا ویرانه ای ولی برخی از آنها هنوز زنده و پابرجا بوده و مورد استفاده قرار می گیرند,تاریخ بعضی از آنها با افسانه ها و داستان های جالب و آموزنده همراه بوده و نشانگر اهمیت ایشان برای مردم کوچه و بازار می باشد.

فهرست برخی مساجد و مکان کنونی آنها در شهر  دهلی  :

1 مسجد امرود والی Amrudwali Masjid  (امرود والی مسجید):این مسجد در بین سال های 1736-35 م ساخته شده ومنطقه دهلی کهنه یا Old Delhi  در خیابانBulbulikhana Bazaar Sita Ram  (بلبلی خانا بازار سیتا رام) و نزدیک Turkman Gate واقع شده است .

2- مسجد مبارک بیگمMubarak Begum Masjid  (مبارک بیگم مسجید):این مسجد به نام مسجد رندی نیز مشهور می باشد.


3- مسجد حاجی لنگا Haji Langa Masjid (حاجی لنگا مسجید):این مسجد متعلق به دوره سلسله تقلقیان در دهلی است و گنبدی نیز دارد و به معنی مسجد حاجی لنگ می باشد.

4- مسجد فخرالمسجدFakrul Masjid (فخر المسجید):این مسجد در منطقه Kashmeri gate  یا دروازه کشمیر  قرار دارد و به نام سیکندرا صاحب مسجید نیز معروف می باشد.  فخر النساء همسر فرمانده و سر لشگر قلعه آگرا در زمان اورنگ زیب ششمین پادشاه گورکانی هند ان را بنا نهاد.او در  قندهار در جنگ با ایرانیان کشته شد .این مسجد را کلنل اسکینر Col.Skinner مرمت کرد .


5- مسجد درویش(درویش مسجید)Darvesh Masjid :این مسجد نزدیک India Gate  و در واقع در مکانی که غلام قادر خان بهادر روییلا رییس قبیله افغان (روییلا) در دهلی به سال 1789 م اعدام شد ,می باشد.

6- مسجد اکبر آبادیAkbar Abadi Masjid (اکبر آبادی مسجید):این مسجد را یکی از زنان شاه جهان به نام اکبر آبادی بیگم در سال 1650 م در دهلی کهنه ساخت و در سال 1857 م در نخستین طغیان هند یان بر ضد انگلیسی تخریب شد ,محل کنونی آن در Netaji Subhash Park  قرار دارد.


7- مسجد بابریBabari Masjid (بابری مسجید):این مسجد را غضنفر یکی از امرای دربار بابر اولین پادشاه سلسله گورکانیان هند در سال 1528 ساخت ,مسجد بابری در دهکده پالم Palam قرار دارد.

8- مسجد زینت   Zeenat Masjid (زینت مسجید):این مسجد را دختر اورنگ زیب ششمین پادشاه سلسله گورکانی هند بنا نهاد,زینت مسجید در منطقه دریا گنج Daryaganj قرار دارد و در سال 1857 انگلیسی ها آن را تبدیل به نانوایی برای خویش کردند.
9- مسجد دیل والیDilwali Masjid (دیل والی مسجید):این مسجد در بین سال های 1654-53 در دهلی ساخته شد و به معنی مسجد معشوقه می باشد.مکان این مسجد در منطقه تهرا بایرام خان بوده است.

1 مسجد قلعه کهنه Qila-E-Kuhna (قلعه کهنه مسجید ):این مسجد در قلعه کهنه یا پورانا کیلا Purana Qila  قرار دارد .

1 مسجد پنکا والی Pankhawali Masjid (پنکاوالی مسجید):این مسجد به دوره پادشاهان افغان لودی تعلق دارد و در منطقه DDA Park  در بخش مهرولی Mehruli قرار دارد و به معنی مسجد بادبزن می باشد.

1 مسجد کالی Kali Masjid –(کالی مسجید): در واقع دو کالی مسجد در دهلی وجود دارد که یکی از آن ها متعلق به زمان فیروز شاه تقلق (دهلی سلطنت)و به کلان مسجد نیز مشهور  می باشد.کالی مسجد به معنی مسجد سیاه است.


1 مسجد هری Hari Masjid –(هری مسجید): درواقع دو هری مسجد یا مسجد سبز در دهلی وجود دارد که یکی از آن ها  در قرن 19 م در محله  پاهارگنج Paharhang  در خیابان Chuna Mandi  واقع شده است.

1 مسجد گولار والی Gularwali Masjid (گولار والی مسجید):این مسجد در منطقه دهلی کهنه یا Old Delhi  در خیابان S.P.Mukherji Marg  واقع شده و در سال 1940 میلادی ساخته شد ,  گولار در واقع درختی است کوچک که میوه هایی سرخ رنگ و شیرین دارد که در زمان ساخت این مسجد این منطقه پر از درختان گولار بوده است.


1 مسجد لالLal Masjid –(لال مسجید): در واقع دو لال مسجد در دهلی وجود دارد که یکی از آن ها  در خیابان Faiz Road  در منطقه Karol Bagh  قرار دارد و در سال 1930 م ساخته شده است.لال مسجد به معنی مسجد سرخ می باشد زیرا لال یا لعل در زبان هندی و اردو به معنی سرخ بوده وهندی ها ع را تبدیل به الف کرده زیرا تلفظ آن برای ایشان سخت بوده است .

1 مسجد جامعJama Masjid –(جاما مسجید ): این مسجد را شاه جهان پنجمین پادشاه سلسله گورکانی هند در منطقه  دهلی کهنه Old Delhi  نزدیک Chandani Chowk   فعلی ساخت و به مسجد جهان نما نیز معروف می باشد .

1 مسجد حوض والی Huzawali Masjid –(حوض والی مسجید) :این مسجد در سال 1550 یعنی در زمان شیر شاه سوری پادشاه افغان دهلی ساخته شد و اکنون در Gali Batashah /Naisarak   در دهلی قرار دارد.

1 مسجد سرهندی Sarhindi Masjid (سرهندی مسجید):این را یکی از زنان شاه جهان به نام سرهندی بیگم در سال 1650 ساخت.اکنون این مسجد در   Lahori Gate  یا دروزاه لاهوری واقع شده است.
2 مسجد بنگل والی  Banglewali Masjid (بنگل والی مسجید):این مسجد به نام نظام الدین مرکزی مسجد نیز معورف می باشد و در جنوب دهلی قرار گرفته .

20- مسجد کلانKalan Masjid –کلان مسجید یا همان  کالی مسجید 


21- مسجد بوریا  Burhiya –Ki-Masjid (بوریا کی مسجید):این کلمه به معنی پیر زن می باشد و در اواخر دوره سلطنت گورکانیان هند ساخته شده است ,مکان آن در    Mori Gate   یا دروازه موری قرار دارد.
22- مسجد باغ والی Baghwali Masjid (باغ والی مسجید):در اواخر دوره سلطنت گورکانیان هند ساخته و در Pandara Raod  پشت Golf Club  قرار دارد.

23- مسجد تحفه والی Tofhewali Masjid (تحفه والی مسجید):این مسجد به دوره سلسله خلجی ها تعلق دارد و در دهکده Shahpur Jat  واقع شده ,البته لازم به ذکر است که ویرانه ای بیش از آن باقی نمانده است.


24- مسجد کوچ تیهار Kutcha Tihar (کوچ تیهار مسجید):این مسجد دوباره تجدید بنا شده ولی به دفعات مهاجمان آن را ویران کرده بودند.

25- مسجد اونچی Unchhi Masjid (اونچی مسجید):چندین مسجد به همین نام در دهلی وجود داشته است و در ساختمان آن برای نماز گذاران چندین غرفه مهیا شده بوده است.
26- مسجد جینونJinnon-Ki-Masjid  (جینون کی مسجید):این مسجد در منطقه Kotla Ferozeshah  قرار دارد .

27- مسجد رکاب گنجRakabganj Masjid  یا (مسجد جنگل شاهJungle Shan Masjid ):قدمت این مسجد به  اواخر دوره گورکانیان هند برمی گردد و مقبره فخرالدین علی احمد رییس جمهور هند در آن قرار دارد ,در همین مسجد حسرت موهینی شاعر معروف دوره استقلال هند نیز چندی اقامت داشته ,این مسجد در دروه قبل از استقلال هند در واقع در بیابانی واقع شده بوده و تپه های ریزینا آن را احاطه کرده بوده است.و جنگلی شاه یکی از صوفیانی بوده که در دهلی زندگی می کرده است.


28- مسجد سونهری Sunheri Masjid (سونهری مسجید):در واقع باید گفت که پنج مسجد مختلف در دهلی به این نام وجود داشته است که یکی از آن ها در منطقه چاندنی چوک Chandni Chowk  در دهلی کهنه Old Delhi قرار گرفته و روشن الدوله در سال 1821 برای پیر و مراد خویش آن را بنا نهاد,سونهری در زبان هندی و اردو به معنای طلایی می باشد.از همین مسجد بود که نادرشاه افشار فرمان قتل عام معروف دهلی را در سال 1739 صادر کرد.یکی از دیگر از این مساجد در نزدیک قلعه سرخ یا Red Fort  قرار دارد که فدسیه بیگم همسر محمد شاه یکی از پادشاهان سلسله گورکانی آن را بنا نهاد, دومین سونهری مسجید  در قلعه سرخ قرار دارد.
29- مسجد رمضان شاه Ramezhan Shah Masjid (رمضان شاه مسجید):این مسجد را انیس النساء بیگم مادر زن نواب منصور خان یکی از امرای دربار شاه عالم   درسال 1802 ساخت ,بیشتر محققین بر این نظرند که او  ساخت این مسجد برای پیر و مراد خویش  یا یکی از رهبران روحانی منصب به ایشان بوده است.

30- مسجد رندیRandi –Ki-Masjid  )رندی کی مسجید):این مسجد در منطقه حوض خاصHuza Khas  و در خیابان Kaccha Pandi Main Bazar  و در بازار Lal Kuan Bazaar (لعل خون بازار) واقع شده و به مسجد مبارک بیگم نیز مشهور می باشد,ساخت این مسجد در قرن 19 م و سال 1823 انجام گرفته و در واقع همسر دیوید اوچترلونی به نام بی بی مهرالتون مبارک النساء بیگم  یکی از انگلیسی های مقیم دهلی که زنی هندی بود و پس از مرگ او با یکی از امرای درباراکبر شاه دوم گورکانی  به نام ولایت خان ازدواج کرد و این مسجد را ساخت .


31- مسجد قبر والی Qabarwali Masjid (قبروالی مسجید):این مسجد در منطقه Kutcha Shah Tara  یا Kucha Tarkhana  واقع شده و مقبره پریندا خان Parinda   Khan   یکی از امرای دربار سلسله گورکانیان هند در آن می باشد ,این مسجد را همسر پریندا خان به نام ربیعه بیگم در بین سال های 1786-87  برای او ساخته است.

32- مسجد موت والی Mothwali Masjid (موت والی مسجید):این مسجد در منطقه South Extension قرار دارد و متعلق به دوره سلسله افغان لودی ها Lodhi  در دهلی می باشد.


33- مسجد بری والا Beriwala Masjid (بری والا مسجید):این کلمه به معنی آلو می باشد و در منطقه نیتاجی مارگ Nitaji Marg  قرار دارد و در سال 1635 م ساخته شده است. 
34-مسجد قاسی والا Qasaiwala Masjid (قاسی والا مسجید):این مسجد در منطقه وسنت ویهار Vasant Vihar  واقع شده و متعلق به دوره تقلقیان می باشد و درواقع قاسی به معنی قصاب است و این مسجد به نام قاسی والا گنبد نیز معروف می باشد .
35-مسجد تکیه کاملی شاه Kamli Shah Takiya Masjid  :این مسجد متعلق به زمان بهادر شاه ظفر آخرین پادشاه سلسله گورکانی هند است و در واقع مقبره یکی از زنان صوفی و یادگار او می باشد.این مسجد در Lado Sarai  در منطقه مهرولی Mehrauli  واقع شده است.
36- مسجد حیجرون کا خانقاه Hijron –Ka –Khankah (ححیجرون کا خانقاه مسجید) در منطقه مهرولی Mehruli  در بازار اصلی یا Main Market  در بخش R.K.Puram  واقع شده ,در واقع در این مکان چندین مقبره از صوفی های بزرگ قرار دارد و متعلق به دوره سلسله افغان  لودیان در دهلی می باشد.
37-مسجد برج چینی Chini-Ka-Burj Masjid (چینی کا برج مسجید):این مسجد در بین سال های 1560-50 و در زمان شیر شاه سوری پادشاه افغان دهلی ساخته شده ,مکان این مسجد در Nizamuddin Basti  قرار دارد.
38-مسجد شاهی Shahi Masjid (شاهی مسجید)این مسجد در باغی به نام قدسیه باغ که در زمان احمد شاه بهادر یکی از  پادشاهان سلسله گورکانیان هند ساخته شده بود واقع شده است و در سال 1857 م در اولین طغیان هندی ها بر ضد انگلیسی ها بیشتر بخش های آن تخریب شد.
39-مسجد نگینا Nagina Masjid (نگینا مسجید):به معنی مسجد جواهر زیرا نگینا(نگین)در زبان هندی و اردو به معنی جواهر می باشد.
40-مسجد موتی Moti Masjid (موتی مسجید):یا مسجد مروارید که در داخل قلعه سرخ قرار دارد و متعلق به دوره گورکانیان هند می باشد.
41-مسجد کیرکی Khirki Masjid (کیرکی مسجید):این مسجد را خان جهان جونان شاه وزیر فیروز شاه تقلق در قلعه کیرکی ساخت.کیرکی در زبان هندی و اردو به معنی پنجره می باشد علت نام گذاری آن این بوده که  این مسجد دارای پنجره های زیادی بوده است.
42-مسجد قوت الاسلام Quwwatu Islam Masjid  (قوت الاسلام مسجید ):این مسجد یکی از اولین مساجد در دهلی است که آن را قطب الدین ایبک متعلق به دهلی سلطنت  در سال 1192 م بنا نهاد و در شمال مجموعه تاریخی منار قطب (قطب منار)قرار گرفته است.محل اکنون در منطقه مهرولی Mehruli   می باشد.

43-مسجد خالو سرایی Kalusarai Masjid (خالوسرایی مسجید):این مسجد در قلعه جهان پناه قرار دارد و آن را وزیر فیروز شاه تقلق یعنی خان جهان مقبول تیلانگانی در بین سال های 1327-26 بنا نهاد.در واقع قلعه جهان پناه در بین منطقه Siri Fort  و قلعه Qila Raj Pithora   و تپه های عادل آباد قرار گرفته و شامل چندین اثر تاریخی زمان حکومت  دهلی سلطنت می باشد .

44-برا گنبد Bara Gumbad :این گنبد و مسجد چسبیده به آن را سکندر لودی یکی از پادشاهان سلسله لودی در سال 1490 در دهکده ای به نام خیرپور بنا نهاد ,اکنون محل این گنبد در خیابان Max Muller Marg  واقع شده است و در سال 1936 م همسر لرد ویلینگتون باغی زیبا در اطراف و جلوی این گنبد و مسجد بنا نهاد و این باغ به نام The Lady Willingdon  مشهور شد اما در سال 1947 م پس از استقلال هند نام آن به لودی باغ یا Lodhi Garden  تغییر نام یافت. ارتفاع این گنبد در حدود 400 متر می باشد.

45-مسجد بیگم پور Begumpur Masjid (بیگم پورمسجید):این مسجد کهن نیز در قلعه جهان پناه واقع شده و مکان فعلی آن در  خیابان Geetanjali Marg   و در منطقه Malviya Nagar  قرار دارد .این مسجد را نیز خان جهان مقبول تیلانگانی وزیر فیروز شاه تقلق از سلسله دهلی سلطنت در سال 1351 م بنا نهاد ,معماری و تزیینات آن به سبک ایرانی و دارای یک مدرسه بوده ,ساخت آن را به زهیرالدین الجیوش معماری ایرانی نسبت می دهند.  هم چنین این مسجد در جایی واقع شده که اطراف آن را بازاری محلی تشکیل می داده است و مکان آن در دهکده بیگم پور بوده.

46-مسجد و مقبره  جمالی کمالی Jamali Kamali Masjid (جمالی کمالی مسجید):این مسجد و مقبره اکنون در منطقه مهرولی قرار گرفته است و در واقع آرامگاه شیخ فضل الله مشهور به جلال خان یا شیخ جمالی کومب می باشد ,این شاعر و صوفی مشهور اواخر سلطنت سلسله لودی و اوایل سلطنت گورکانیان هند متعلق به خانواده ای سنی بود که شیخ سماءالدین اورا به فرقه صوفیه دعوت و تعلیم داد,این شیخ دوران حکومت بابر و همایون دو تن از اولین پادشاهان سلسله گورکانیان هند را نیز درک کرد ,این مقبره و مسجد دارای باغی زیباست که در سال 1529-28 م بنا نهاده شد .شیخ جمالی در سال 1535 م چشم از جهان فرو بست.
منابع:
1-Delhi :Unknown tales of a city /r.v.smith .roli books 2015 

2-Delhi Past And Present /H.C.Fanchawe /Asian Education Service  New delhi 1998 

3-Rajasthan ,Delhi,Agra /Lindsay Brown  .Amelia Thomas /Lonely Planet 2012 

  
  
  دوست و همکار گرامی
چنانکه از فعالیت های داوطلبانه کانون «انسان شناسی و فرهنگ» و مطالب منتشر شده در سایت آن بهره می برید و انتشار آزاد این اطلاعات و استمرار این فعالیت ها را مفید می دانید، لطفا در نظر داشته باشید که در کنار همکاری علمی، نیاز به کمک مالی همه همکاران و علاقمندان نیز وجود دارد. کمک های مالی شما حتی در مبالغ بسیار اندک، می توانند کمک موثری برای ما باشند.
لطفا کمک های خود را به حساب زیر واریز کنید و در صورت دلخواه با ایمیل به ما اطلاع دهید.
شماره حساب بانک ملت: 117360766
شماره شبا: IR98 0120 0000 0000 0117 3607 66
شماره کارت: 7329-6247-3377-6104

به نام آقای رضا رجبی
.....................

CITY MONUMENT – 
MUBARAK BEGUM MASJID, 
HAUZ QAZI

Electrical cables. Machine-part shops. The Hauz Qazi police station compound. And the tender and infinitely graceful Mubarak Begum mosque. It makes for a daydream view, with no connection to its uncivilized surroundings.

Situated in a congested bazaar of Old Delhi, the mosque’s feet don’t touch the ground. The pale green entrance door is tucked between two shops selling nuts, bolts, cables, and welding rod electrodes. A flight of steep stairs leads to a courtyard, the sudden openness of which comes as a pleasant surprise.

The courtyard has an ablution tank and two large pots planted with vines. The centerpiece is the mosque, in red sandstone. Renovated in 2011, it is painted in a shade of brick dust. Its three entrance arches correspond to its three domes; they increase in size towards the center. Two rotating fans are mounted on both sides of the central doorway; a clock hangs on its top. Cats prowl the parapet.

Built in 1823, the mosque was named after one of the 13 wives of Sir David Ochterlony, Delhi’s first British resident, who was known for his passion for nautch girls, hukkas (hubble-bubble) and Indian costumes. Mubarak Begum, a Brahmin dancing girl from Pune, was a convert to Islam. Besides being the favourite wife (some say she was just a mistress) of Sir Ochterlony, she was a principal player in Delhi’s cultural life. Dilli ki Aakhiri Shama, Delhi’s last great mushaira, or poetry soiree, was hosted in her haveli just before the Mughal Empire dissolved in 1857. Forty poets were present that night, including the great Mirza Ghalib.

It is not clear if the mosque was commissioned by Mubarak Begum or was built in her honour. It’s crudely nicknamed Randi ki Masjid; randi is Urdu slang for prostitute.

The dark prayer chamber inside the mosque can accommodate about 10 men. Its homely smallness emphasizes the theatricality of the domes. The floor is of marble, the walls are painted pale yellow and the Mecca-facing mihrab (recess) is in glossy green. The noise from outside—the cries of the vendors, the tinkling of rickshaw bells, the honking of the scooters—is muffled.

Watching the mosque from across the street gives a fairy-tale feel. Perhaps because the bazaar is so banal, the domes get infused with a special rounded sweetness. Stare longer and the ugly aesthetics of the modern world dampen the mosque’s delicate beauty. It’s like looking at something that is already gone. That’s why it is one of Delhi’s most poignant monuments.

Where Next to Chawri Bazaar Metro station entrance, on the Hauz Kazi side Time sunrise to sunset.
........










On a walk, discover the lost 
histories of the courtesans of 
Chawri Bazaar

Among the stories that are passed on through generations of Purani Dilliwallahs are those of Chawri Bazaar’s tawaifs or courtesans. The market around Jama Masjid, popular for its designer wedding cards and hardware goods, was once the stylish promenade for the Shahjahanabad elite. It is said that almost every staircase on the street would lead to a bordello.

‘Tawaifs of Chawri Bazaar, From Bordello to Brothel,’ an experiential walk by a local organisation, GointheCity. Don’t go for the walk with the hope of actually seeing any bordellos. Barring a couple of examples, it is hard to find any surviving structures of that era. But the walk is an opportunity to find out the history of the courtesans, how they settled in the Walled City, the way they were perceived by their patrons and why they had to leave Chawri Bazaar.

http://www.hindustantimes.com/art-and-culture/on-a-walk-discover-the-lost-histories-of-the-courtesans-of-chawri-bazaar/story-M8v838HcgjokWv3ugMWYdJ.html

No comments:

Post a Comment