Monday, 13 November 2017

حضرت اسلم سوئے جنت چل دئیے

عالم شہرت یافتہ معروف بزرگ عالم دین، متکلم اسلام اور خانوادہ قاسمی کے اہم چشم و چراغ مولانا محمد اسلم قاسمی کی آج یہاں طویل علالت کے باعث انتقال ہوگیا،
انا للہ و انا الیہ راجعون،
ان کے سانحہ وفات نے علمی حلقوں کی فضا کو پوری طرح مغموم کردی،وہ تقریباً 80 برس کے تھے۔ مولانا مرحوم کے انتقال کی خبر سے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند سمیت طلباءمدارس، اساتذہ، علماء کرام کے ساتھ ملک و بیرون ملک میں پھیلے فکر قاسمی سے وابستہ افراد اور عوام میں غم کی لہر دوڑ ی اور آخری زیارت کے لئے آستانہ قاسمی پر لوگوں کاتانتا لگ گیا۔ہزاروں کی تعداد میں لوگوںنے دیوبند پہنچ کر نماز جنازہ میں شرکت کی۔ مرحوم کے انتقال پر خطیب الاسلام مولانامحمد سالم قاسمی اور مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیة علماءہند نے آخری زیارت کرکے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے مرحوم کے انتقال کو عظیم علمی خسارہ قار دیا۔ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند سمیت متعدد مدارس ومکاتب میں قرآن خوانی کرکے مرحوم کے لئے دعاو¿ ایصال ثواب کاہتمام کیاگیا۔ موصول اطلاع کے مطابق مولانا محمد اسلم قاسمی کا آج دیوبند میں دوپہر تقریباً بارہ بجے انتقال ہوگیا ہے، مولانا کافی دنوں سے صاحب فراش تھے، دہلی و ممبئی سمیت ملک کے مختلف اسپتالوں میں علاج کے معالجہ کے بعد فی الحال گھر پر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ یہیں علاج جاری تھا، 3 جون 1937ءکو پیدائے ہوئے مولانا محمد اسلم قاسمی کا علمی دنیا میں ایک بڑا اور تاریخی نام تھا، آپ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم ناناتوی کے پرپوتے اور دارالعلوم دیوبند کی عالمگیر شہرت دلانے والے سابق مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے دوسرے صاحبزادے تھے، آپ دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مدرسین اور ناظم تعلیمات ہونے کے ساتھ وہاں کے مقبول استاذ اور بخاری شریف کی تدریس کا بھی فریضہ انجام دے رہے تھے، علمی دنیا میں آپ کی شخصیت بیحد مقبول رہی ہے اور آپ کے ہزاروں شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپنے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی،،آپ انگریزی زبان میں زبردست مہارت رکھتے تھے، 1960 میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ہوا تھا، صد سالہ کے موقع پر اجلاس سے متعلقہ اہم ذمہ داریاں آپ ہی کے سپرد تھیں۔ آپ متعدد کتابوں کے منصف ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر اور بلند پایہ شاعر تھے۔ سیکڑوں غزلیں اور نظمیں آپنے تخلیق کی ہیں،آپ کی کئی نعتیں اور حمد مقبول عام کا درجہ رکھتی ہیں۔ ’اصحاب کہف‘، ’مجموعہ سیرت رسول (25جلدیں)‘ سیرت حلبیہ کا اردو ترجمہ کے علاوہ ’قرآن اور سائنس‘ کے حوالہ سے تحریر کردہ آپ کا مضمون پوری دنیا میں زبردست مقبول ہوا ہے۔ 1983ء سے آپ مسلسل دارالعلوم وقف دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ زبان و بیان کی ششتگی کے سبب آپ طلباءو عوام میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹے مولوی فاروق قاسمی اور مولوی ہشام قاسمی کے علاوہ ایک بیٹی ہے۔ نماز جنازہ میں بعد نماز عشاءاحاطہ مولسری میں مولانا محمد سفیان قاسمی نے ادائی کروائی بعد ازیں ہزاروں سوگواروں کے ذریعہ نم آنکھوں کے ساتھ قاسمی قبرستان میں اکابرین دیوبند کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا کے انتقال پر ان کے برادر اکبر و خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محمد اسلم قاسمی کے انتقال سے علم کا ایک باب بند ہوگیا ہے، ان کا انتقال علمی حلقوں کاعظیم خسارہ ہے اللہ پاک مرحوم کی علمی خدمات کو قبول فرماکر درجات بلند فرمائے۔ علاوہ ازیں دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی، جمعیة علماءہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی، جمعیة علماءہند کے صدر قاری عثمان منصور پوری، نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی، جمعیة علماءہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی، شیخ الحدیث مولانا احمد خضر شاہ مسعودی، ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر اعلیٰ مولانا ندیم الواجدی، حجة الاسلا اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا شکیب قاسمی، رابطہ مساجد کے قومی سکریٹری مولانا عبداللہ ابن القمر، آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا عبداللہ مغیثی، دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی، جامعة الشیخ حسین احمدمدنی کے مہتمم مولانا مزمل علی قاسمی، دارالعلوم اشرفیہ کے مہتمم مولانا سالم اشرف قاسمی، ادارہ خدمت خلق کے صدر مولانا حسن الہاشمی، دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث مولانانسیم اختر شاہ قیصر، معروف روحانی معالج حافظ فہیم عثمانی، جامعہ رحمت گھگرولی کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی، جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ کے مہتمم مولانا ابراہیم قاسمی، جامع مسجد کلاں سہارنپور کے منیجر مولانافرید مظاہری، سابق چیئرمین انعام قریشی، سابق رکن اسمبلی معاویہ علی اور سماجی کارکن جمال ناصر عثمانی وغیرہ سمیت کثیر تعداد میں علماءنے و طلباءنے مرحوم کا آخری دیدار کرکے تعزیت مسنونہ پیش کی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد علماء،طلباء اور عوام الناس نے شرکت کی۔
...............
آج مورخه 13نومبر بروز پیر خانواده قاسمیہ کے مایه ناز سپوت، مولانا قاسم صاحب نانوتوی ، بانی دارالعلوم دیوبند کے پرپوتے، حافظ احمد صاحب سابق مہتمم دارالعلومدیوبند کے پوتے اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے صاحبزاده خطیب الاسلام مولانا سالم صاحب قاسمی کے چهوٹے بهائی  دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث و صدالمدرسین حضرت مولانا
محمد اسلم صاحب
بن قاری محمد طیب صاحب
بن حافظ احمد صاحب 
بن مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمهم الله اس دار فانی سے کوچ کرگئے
انا لله انا الیه راجعون،
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزه نورستہ اس گهر کی نگہبانی کرے
حضرت مولانا کیا رخصت ہوئے کہ دارالعلوم وقف کا ایک عہد رخصت ہوا  
مبدا فیاض سے  آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا گیا
دینی و دنیوی دونوں علوم سے وافر حصه آپ کو ملا تها آپ بیک وقت ایک بے نظیر خطیب حاضر باش مدرس کامیاب متکلم اور بلند پایہ محدث تهے
دارالعلوم وقف کی آپ شان تهے جب آپ درس کیلئے آتے تو شاید ہی کوئ محروم القسمت طالب علم ہوتا جو جان بوجه کر بغیر کسی عذر کے آپ کا درس چهوڑتا
مجهے کئ بار آپ کےدرس میں حاضری کی سعادت ملی ہے
بخاری شریف کے احادیث کی تشریح
فقه بخاری
تعلیقات بخاری
ترجمہ الباب سے حدیث کا انطباق اتنی سہل انداز سے بیان کردیتے کہ بڑے بڑے جبال علم بهی اتنی آسانی سے نہیں کرسکتے
دوران درس ایک محدثانہ وقار آپ میں صاف نظر آتا تھا 
ایک متکلم اسلام اور ایک متبحر عالم دین کے ضروری اوصاف میں سے یه بات ہے که وه منقولات کو معقولاتی انداز کے ساتھ محسوسات کی شکل میں بیان کرسکے
حضرت کے اندر یہ خوبی بدرجہ اتم تهی
جب آپ درس میں ہوتے تو اپنے پیشرو شیخ الحدیث کی طرح باتوں میں ٹههرائو ، دلائل کی قوت، اسلوب ساده ہوتا تها جس سے معمولی استعداد والاطالب علم بهی بخوبی سبق سمجه لیتا
جب وعظ و خطاب کے مسند پر جلوه افروز ہوتے تو حضرت حکیم الاسلام کی یاد تازه ہو جاتی تهی
مجهے یاد آتا ہے کہ دارالعلوم وقف میں حضرت قاری طیب صاحب نورالله مرقده پر عالمی سمینار، بعنوان حکیم الاسلام سمینار منعقد ہوا گرچه اس سیمینار کے روح رواں آپ کے بڑے بهائی خطیب الاسلام حضرت مولانا سالم صاحب دامت برکاتہم تهے
لیکن اجلاس عام میں سب سے موثر اور دل پذیر خطاب آپ کا ہی ہوا تها.
جب آپ تقریر کیلئے اسٹیج پر آئے اور تقریر شروع کی تو لاکهوں کا مجمع لمحوں میں اس طرح خاموش ہوکر ہمه تن گوش ہوگیا که گویا یوں معلوم ہورہاتها که انکے سروں پر پرنده بیٹھ گیا ہو
لوگوں کی آنکهیں اشکبار ہورہی تهی
دوران خطاب ہی لالو یادو جو اس وقت وزیر ریل تهے اسٹیج پر آگئے تهوڑی دیر کیلئے لوگ اٹهکر لالو کا دیکهنا چاه رہے تهے لیکن حضرت کی تقریر نے اتنا موقع ہی نہیں دیا کہ  لوگ لالویادو کی طرف متوجہ ہوں آپ بغیر رکے برابر تقریر کرتے رہے اور مجمع سر دهنتا رہا
اسی  دن میں نے انکی پہلی اور اپنے اعتبار سے آخری عوامی تقریر سنی تهی  جو واقعی ازدل خیزد بردل ریزد کی مصداق تهی
انقلاب دارالعلوم تک انکی حیثیت ایک صاحبزادے یا ایک شعبه کے منتظم سے زیاده نہیں تهی
لیکن انقلاب دارالعلوم کے بعد جس طرح ان میں علمی عملی فکری خطابی اور تدریسی صلاحیت پروان چڑهی که اچهے اچهے تجزیه نگار بهی قدرت کی اس کاریگری کا تحلیل و تجزیہ نہیں کرسکتے
تدریسی اور تنظیمی  ذمہ داریوں اور دارالعلوم وقف کی طفولیت اور اسکی بے سروسامانی نے انکو ایسا گوہر آبدار بنادیا که رہتی دنیا تک علمی حلقوں میں انکا نام گونجتا رہے گا 
سچ کہا کسی نے که
موجوں کی تپش کیاہے؟ فقط ذوق طلب ہے
پنہاں جو صدف میں ہے وه دولت ہے خداداد
https://ehtishamqasmi.blogspot.in/2017/11/blog-post_13.html?m=1
......
اے فرشتہ اجل!  
ذرا رحم کھالیا ہوتا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ خانوادہ قاسمی کے پاکیزگی و لطافت سے معمور ،عطر بیز و مشک ریز، جس گل سر سبد سے تونے نہایت ہی پاک اور مقدس روح کو کشید کیا ہے، کس عظمت اور علومرتبت کا حامل    تھا وہ،
ان کی جامع شخصیت کو کس طرح سے بلند اخلاق،عالی المرتبی، سعی جمیل، کمالات فروزاں، گفتار دلبرانہ اور کرادر قاہرانہ نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا، اس پر ذرا غور کیا کہ سیرت نبوی کے معطر ومعنبر رموز  ممبر خطابت سے کس حسین پیرائے میں ان کی زبان گہربار سے ضیاء بار ہوتے  تھے، اسوہ نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام  ان کے بے پناہ عشق محمود و مطلوب اور قابل رشک وارفتگی میں مجسم بن کر کس طرح سے اشاعت پزیر ہو رہا تھا،اور خلق خدا پیغام نبوت سے فیضیاب ہو رہی تھی،
فرشتہ اجل۔!
یقینا تو نے حکم ربی کو انجام دیا اور تیرا کام ہی ہے رب کریم کے حکم کو بجا لانا ، اس سے سر مو انحراف بھی تیری اطاعت و امتثال سے معمور فطرت کے منافی ہے،
ایک مومن کو اس کا ایمان ،تیرے اس المناک سانحہ کو انجام دینے پر ردائے صبر و شکیب تارتار کر نے کی بالکل ہی اجازت نہیں دیتا ۔ورنہ تو آج "حضرت اسلم ،،کے اس فراق جانگداز پر دل حزیں اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے چینخ پڑتا، حلقہ قاسميت کی آہ و زاری سے شاید جماعت ملائکہ میں بھی کہرام مچ جاتا، اور حضرت اسلم کو مژدہ ۔نم کنومة العروس،
سنانے والے بارگاہ خداوند متعال کے مقرب فرشتے منکر نکیر بھی حیرت زدہ رہ جاتے کہ کس کا نزول اجلال ہے مرقد میں، کہ بنی آدم میں اس قدر ہنگامہ ریزی ہے،
لیکن نہیں ،ایسا نہیں ہوا ۔اس لئے کہ اس طرح کا عمل خالق الموت و الحیات کو ناپسند ہے، نبی طاہر مطہر نے اسے امر جاہلیت قرار دیاہے، قرآن مقدس نے اہل ایمان کی علامت صبر وتحمل بتایا ہے ۔اور اس طرح کے دلفگار موقع سے ۔انالله وانا اليه راجعون  کو زبان قلب سے ادا کرنے کی تلقین کی ہے ۔
بایں وجہ خانوادہ قاسمی کے اس خاور درخشان کی کی جدائیگی پر باوجود کہ ہجوم غم سے قلب و جگر پاش پاش ہوا چاہتا ہے ،ان کی گل افشان زبان و بیان کے شیدائی ان کی تاابد خاموشی پر بحر یاس و الم میں سراپا غرق ہیں، دارالعلوم وقف دیوبند کا ہر در و دیوار اداس اداس ہے، طلبہ حدیث شریف مضطر و مضطرب ہیں ۔خانوادہ قاسمی کا ہر ہر فرد حزن و ملال سے نڈھال ہے، لیکن کیا مجال ہے کسی کی زبان شکوہ رنج و الم سے ذرا بھی آلود ہو ۔بس سب کی زبان پر یہی پاکیزہ کلمات ہیں،
اناللہ واناالیہ راجعون، ماشاء كان ومالايشاء لا يكون غفرالله له واسكنه جنة الفردوس،
 آئی حیات، لائی قضا، لے چلی چلے،
 اپنی خوشی آئے، اپنی خوشی چلے،
بلا شبہ حضرت اقدس مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی کی عظیم المرتبت اور کمالات و خوبیوں کی جامع شخصیت کی مفارقت ملت اسلامیہ کے لئے بہت بڑا داغ جگر ہے، جس کا صدمہ عرصہ تک ملت اسلامیہ کے قلب و جگر کو رنجور  کرتا رہے گا ۔
خصوصا ایسے وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ بہت ہی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے، ظلمت و طغیانی کی تیزوتند لہریں ملی تشخص کو پائمال کرنے پر تلی ہوئی ہیں، ملت اسلامیہ کا اپنے بے لوث اور مخلص رہنما سے محروم ہو جانا عظیم خسارے کا موجب ہے،
ہم بارگاہ حکیم و خبیر میں اس التجا کے ساتھ کہ،
 بفردوس اعلی جائے او بود
 بہشت بریں ماوائے او بود

دست بدعا ہیں، اے رب کریم، ہم بے بس و لاچار مسلمانوں کی حالت زار پر رحم فرما،
اور علم و عمل کے پیکر، سراپا صدق و صفا اور خلوص و للہیت سے عبارت، عاشق رسول، سیرت نبوی کے رمز شناس، اسوہ نبوی کے شیدائی، ،سنجیدگی و متانت اور وقار و خود داری کی سچی تصویر، ،حجة الاسلام حضرت نانوتوی کے خوب کی حسین تعبیر، محترم حافظ احمد کا نامور اور گرامیقدرحفید اور حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب کا قابل فخر فرزند ارجمند،عالم کبیر،محدث جلیل ،خطیب بے نظیر  حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی اور ان کے جیسے صفات کے حامل علماء و صلحاء جوایک بعد دیگرے لذت وصال حق سے ہمکنار ہوتے چلے جارہے ہیں،ملت کو پردہ غیب سے ان کا مبارک بدل عنایت کرکے  پریشان حال قوم مسلم کے لئے سکون قلب و نظر کا سامان مہیا فرما ۔نیز خانوادہ قاسمی سے قاسمی علوم و معارف اورقاسمی افکار و نظریات  کے ایسےماہرین پیدا فرما جن کی شخصیتیں قاسميت کے شیدائیوں کے لئے تبرید النواظر کی باعث ہوں،
 ش ح ق ۔۲۳۔صفر المظفر ۳۹ھ
              
بروز دوشنبہ ۔بعد نماز عشاء 
نالہ قلب     
شمشیر حیدر قاسمی
........       
تیرے جانےسے نہ جانے کیا غضب ہوگیا
میرے محترم استاذ حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ کے فرزندار جمند علم وعمل کے کوہ گراں درس وتدریس کے بے لوث مجاہد میدان خطابت کے عظیم خطیب ادب وانشاء اور سیرت وسوانح کے بےمثل مصنف وادیب ایک مؤمن کامل ایک مرشد عالی ایک متبحر عالم ایک مستند منتظم حضرت مولانااسلم قاسمی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات کی اطلاع نے فکروخیال اور ذہن ومزاج کو شل کرکے رکھدیا
آعندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو پکارے ہائے گل میں پکاروں ہائے دل
ابھی دوتین دن قبل ہی جب مدینتہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حرم مکی کی طرف بس میں رواں دواں تھا تو اچانک حضرت مولانا سالم قاسمی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا اسلم قاسمی رحمہ اللہ کی یادیں آنے لگی تھیں. مسلسل عوارض وامراض کے شکار ہونے کی وجہ سے دھچکا سا لگا رہتا ہے. پھر خیال آیا کہ مولانا اسلم قاسمی صاحب زیادہ علیل اور صحت سے کمزور ہیں وقت موعود کا خطرہ زیادہ ان کو لیکر ہے اور خیال یہ بھی آیا کہ پہلے فرشتہ اجل ان کی ہی خدمت میں حضور باشی کرے گا اور یہی ہوا
موت سے کس کو رستگاری ہے
البتہ بعض شخصیات کی وفات کا قلق اور صدمہ رنج وغم اور حزن وملال بہتوں کو متاثر کردیتاہے مولانااسلم قاسمی رحمہ اللہ کی ذات والاصفات ان ہی بخت آور شخصیات میں سے جنکی عظمت ورفعت کو سلام کیا جاتارہاجو دوسرں کے جیتے رہے جنکی خاک ساری ضرب المثل تھی جنکی مسکنت ان کے بودوباش اور رہن سہن سے محسوس ہوتا تھا جو شریف النفس تھے متواضع اور حلم وبردباری میں طاق تھے جن ہیں ملت کی تعمیر کی فکر ہمیشہ تھیں جو مسند درس کو آراستہ محض دنیوی متاع کے حصول کی غرض سے نہیں کرتے بلکہ سنت رسول سمجھکر کر اس کو رونق بخشاکرتے تھے ان کی زبان میں بلاکی سلاست تھی جب گویاہوتے تو ایسا محسوس ہوتاکہ آبشار میں ٹھراؤ آگیا ہے اور چاروں طرف پھولیں اور ہریالیاں اٹھکیلیاں بھررہی ہیں جب چلتے تو رفتار کی دہماپن ایسی ہوتی کہ محسوس ہوتازمین کی سلامی کا جواب دے رہے ہیں اور فرش کو مرحبا اور آفرین کہنے کا موقع دے رہے ہیں
مولانا کے دولت کدہ پہ حاضری کے کئے مواقع آئے ہر مرتبہ ملاقات کے بعد فرحت و شادمانی محسوس کیا مولانا رحمہ اللہ کی مجلس بہت علمی اور نکتہ آفرینی کا گل سرسبد ہواکرتی
اس وقت میں خود پریشان ہوں احساس وجذبات میں غم کا تلاطم ہے افکار وخیالات زخم خوردہ ہیں سینہ درد سے کراہ رہا ہے آنکھیں ہیں کہ رکتی نہیں حزن ہے کہ ہر سمت سے فغاں فغاں کا نظارہ دیکھا رہا ہے
یے کیف وبےسرور ہے منظر
ہرطرف حزن ہی حزن ہے
انشاءاللہ آئندہ کچھ ہمت کروں گا خامہ فرسائی کی
ایک ناتواں شاگرد کے قلم سے
محمد انس عباد صدیقی
............

خاندانِ قاسمی کا چراغِ شب تاب  
کل رات ہزاروں کی بھیڑ نے ایک نحیف ونزار اور بے جان جسم کو جو بیماریوں سے لڑ لڑ کر مشت استخواں بن چکا تھااپنے کاندھوں پر اٹھا کر اس کی آخری منزل تک پہنچا دیا، نگاہوں کے سامنے سے وہ منظر نہیں ہٹتا جب ہر شخص اس جنازے کو کندھا دینا چاہتا تھا، کندھا نہ دے پانے کی صورت میں وہ صرف اس چارپائی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کررہا تھا جس پر یہ بے جان جسم رکھا ہوا تھا، اُن کے گھر سے دار العلوم کا فاصلہ اتنا مختصر ہے کہ اسے فاصلہ بھی نہیں کہہ سکتے مگر جنازے کو وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا، نماز جنازہ سے کافی پہلے احاطۂ مولسری، باب قاسم کا اندرونی حصہ، باب قاسم سے باہر محلہ دیوان تک؛ سرہی سر تھے، اندرون دار العلوم دونوں طرف کی درسگاہیں اور ان کی چھتیں بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، ہزاروں افراد دار العلوم کے صحن چمن میں دورویہ قطاریں بناکر کھرے ہوئے تھے، جو جگہ نہ ہونے کے باعث نماز سے محروم رہ گئے، یا اللہ! یہ کس عاشق کا جنازہ ہے جو اس قدر دھوم سے نکل رہا ہے، سڑکیں، راستے اور گلیاں اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کررہی ہیں، یہ جنازہ تھا خاندان قاسمی کی چوتھی نسل کے ایک ممتاز عالم مولانا محمد اسلم قاسمی کا جنہوں نے طویل علالت کے بعد کل دن میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، جنازے میں امڈی ہوئی بھیڑ کو دیکھ کر ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا، واقعی آج بھی ہمارے یہاں نسبتوں کا بڑا احترام ہے، مولانا محمد اسلم قاسمی جن بلند پایہ نسبتوں کے امین تھے ان میں ایک نسبت تو علم دین کی نسبت تھی جس کا اظہار کبھی درس وتدریس کبھی وعظ وتقریر اور کبھی تحریر وتصنیف کے ذریعے ہوتا رہتا تھا، اس کے علاوہ بھی ان کو کئی بلند پایہ نسبتیں حاصل تھیں، وہ قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دار العلوم دیوبند کے پڑپوتے تھے، اور ان کے علوم ومعارف کے شارح وترجمان بھی، وہ دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم اور نظام حیدر آباد کے سابق چیف جسٹس مولانا حافظ محمد احمدؒ کے پوتے تھے، وہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے بیٹے تھے جنھوں نے ساٹھ سال تک دار العلوم دیوبند کا انتظام سنبھالے رکھا، مولانا اسلم قاسمی کو جن لوگوں نے دیکھا ہے اور جن لوگوں نے سنا ہے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ اپنے والد بزرگوار کا عکسِ جمیل تھے، نہ صرف ظاہری رکھ رکھاؤ میں بل کہ اپنے باطنی اوصاف میں بھی وہ اپنے والد محترم کے اوصاف کا حسین پرتو نظر آتے تھے، جب تقریر کرتے تو آواز کے نشیب وفراز، الفاظ کے درو بست اور علوم ومعارف کے بہاؤ سے صاف محسوس ہوتا کہ مولانا اسلم کے قالب بدن میں حکیم الاسلام کی روح حلول کرگئی ہے اور ان کی زبان حکیم الاسلام کی ترجمان بن گئی ہے، ظاہر وباطن کی اتنی مشابہت کم ہی دیکھی گئی ہوگی۔
مولانا محمد اسلم قاسمی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمارے دور کا ایک علمی معجزہ تھے، اس جملے کی وضاحت کے لئے مجھے کافی پیچھے لوٹنا ہوگا، اپنے دورِ طالب علمی کی طرف، ہم دیکھتے تھے کہ ایک صاحب جن کی عمر چالیس پینتالیس کے آس پاس ہوگی دار العلوم دیوبند کے ایک دفتر میں آتے جاتے ہیں، یہ دفتر دار العلوم دیوبند کے شعبۂ برقیات کا تھا، یہ خالص انتظامی شعبہ تھا، علم سے اس کا صرف اس قدر واسطہ تھا کہ وہ اہل علم کو روشنی بہم پہنچاتا تھا، دار العلوم میں داخل ہونے کے بعد دائیں طرف شعبۂ برقیات کا دفتر ہوا کرتا تھا، اجلاس صد سالہ کے موقع پر اس دفتر کو خالی کراکے راستہ بنا دیا گیا تھا، جو آنے جانے والوں کو دار العلوم دیوبند کی لائبریری، تنظیم وترقی کے دفتر اور دار الصنائع کے احاطے تک پہنچاتا ہے، میں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے ان کا نام تھا مولانا محمد اسلم قاسمی، شعبۂ برقیات ان ہی کی نظامت میں کام کرتا تھا، طلبہ میں عام تأثر یہ تھا کہ بس یہ ایک صاحبزادے ہیں، علمی قابلیت ان میں کچھ خاص نہیں، ورنہ وہ بھی اپنے برادر معظم حضرت مولانا محمد سالم قاسمی کی طرح دار العلوم دیوبند کی کسی درسگاہ میں پڑھاتے ہوئے نظر آتے، دار العلوم سے نکل کر وہ اپنے تجارتی مکتبے کتب خانہ قاسمی میں جا بیٹھتے، ان کے حال احوال دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ عالم بھی ہیں، اللہ معاف کرے اوروں کی طرح ہم بھی اسی گمانِ فاسد میں مبتلا تھے، آہستہ آہستہ ان کے جوہر کُھلے اور کُھلتے چلے گئے، بیس پچیس سال تک غیر علمی مصروفیتوں سے نکل کر وہ ایک علمی معجزے کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوئے، اس وقت اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی خصوصیتوں سے نواز رکھا تھا، بس وہ ان کے اندر کہیں چھپی ہوئی تھیں، مناسب وقت آیا تو اللہ نے ان کو ظاہر بھی کردیا۔
۱۹۷۷ء کی بات ہوگی جب دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے دار العلوم دیوبند کا اجلاس صد سالہ (سوسالہ جشن) منانے کا فیصلہ کیا، وہ بھی چھوٹے موٹے پیمانے پر نہیں بل کہ عالمی پیمانے پر، جشن کی تیاریوں کے لئے ایک دفتر بنایا گیا، اوّلاً اس کے ذمہ دار مولانا حامد الانصاری غازیؒ بنائے گئے، موصوف اپنی پیرانہ سالی کے باعث اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ انجام نہ دے سکے، دو سال بعد اس دفتر کا انچارج مولانا اسلم قاسمی کو بنا دیا گیا، کام بڑا تھا، وقت کم تھا، لگتا نہیں تھا کہ اجلاس صد سالہ مقررہ وقت پر ہو بھی پائے گا یا نہیں، مگر دیکھتے ہی دیکھتے دفترِ صد سالہ پر جمی برف کی تہیںپگھلنے لگیں اور کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی کارگزاریوں کے اثرات صاف نظر آنے لگے، مولانا اسلم صاحب قاسمیؒ نے سب سے پہلے مختلف کاموں کے لئے مناسب اور موزوں افراد کار کا انتخاب کیا، اور ان کی مدد سے سال ڈیڑھ سال کے عرصے میںوہ کر دکھایا جو کبھی خواب لگتا تھا، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دیوبند کی عیدگاہ کے عقب میں واقع قاسم پورہ روڈ کے دونوں جانب کی زمینوں پر حد نظر تک پنڈالوں اور خیموں کا شہر آباد ہوچکا ہے، ابھی ۲۱،۲۲،۲۳ مارچ ۱۹۸۰ء کی آمد میں کچھ وقت ہے مگر خیموں کا یہ شہر مہمانوں کے استقبال کے لئے دولہن کی طرح سجا دیا گیا ہے، اسٹیج بھی اس قدر وسیع وعریض کہ شاید ہی اس سے پہلے کبھی بنا ہوا ہو بل کہ بعد میں بھی کبھی نہیں بنا، مہمان بھی ہر طرح کے، عالمی شخصیات بھی بڑی تعداد میں آنے والی تھیں، تین دن کے اجلاس کا پروگرام، طعام وقیام کا نظم، میٹنگیں، سمینار، مشورے، ہر کام اس طرح ہورہا تھا اور اس طرح ہوا کہ آج بھی تصور کرکے حیرت ہوتی ہے، یہ سب کام مولانا اسلم قاسمیؒ کی قیادت میں، ان کی نگرانی میں، اور ان کی فعال شخصیت کے زیر سایہ انجام دئے جارہے تھے، دار العلوم دیوبند کا جشن صد سالہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ منایا گیا، بلاشبہ ان رعنائیوں میں مولانا اسلم قاسمیؒ کی انتظامی صلاحیت اور بصیرت کا جلوہ نمایا ں طور پر نظر آتا تھا۔
جشن صد سالہ تو ہوگیا، مگر اس کے بعد دار العلوم دیوبند کو جن ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا پڑا وہ اگرچہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مگر دل سے محو نہیں ہوسکے ہیں، تفصیل کی نہ ضرورت نہ موقع، مختصرًا اتنا عرض ہے کہ حالات اتنے بگڑے کہ دار العلوم بند کرنا پڑا، کیمپ کی شکل میں متوازی دار العلوم قائم ہوگیا، قاری محمد طیب صاحبؒ کو منصب اہتمام سے ہٹا دیا گیا، کیمپ ختم ہوگیا، دار العلوم کھل گیا، حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ پچاسی ملازمین دار العلوم سے باہر آگئے، مولانا اسلم قاسمی بھی ان پچاسی لوگوں میں شامل تھے، اجلاس صد سالہ کی مصروفیات کے دوران مولانا اسلم صاحب کا تجارتی مکتبہ روبہ زوال ہوچکا تھا، ملازمت ختم ہوگئی تھی، اقتصادی طور پر اوروں کی طرح مولانا بھی پریشان ہوگئے تھے، ان کا ارادہ تھا کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں، یا علی گڑھ جاکر کسی مناسب ملازمت کے لئے انٹرویو دیں، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، دار العلوم وقف کی بنیاد پڑی داخلے ہوئے، اسباق کا آغاز ہوا، پڑھانے والوں میں مولانا اسلم قاسمی بھی شامل تھے، حیرت سب کو ہوئی، مگر یہ حیرت جلدی ہی دور بھی ہوگئی، لوگوں نے دیکھا کہ بیس پچیس سال قبل جو کتابیں انھوں نے طاق نسیان پر رکھ دی تھیں وہ ابھی تک ان کو ازبر ہیں، وہ ایک کامیاب مدرس بن کر ابھرے، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے والد بزرگوار کے نقشِ قدم پر چل کر ملک وبیرون ملک میں وعظ وتقریر کا سلسلہ بھی شروع کیا، اس میدان میں بھی وہ کامیاب رہے، عصر بعد کی مجلسیں بھی شروع ہوئیں، یہ مجلسیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے زمانے میں بھی ہوا کرتی تھیں، یہاں بھی انھوں نے دل نشیں نقش چھوڑا، اس طرح ہم ایک نئی شخصیت سے متعارف ہوئے، جو ۸۰ء سے پہلے کی شخصیت سے یکسر مختلف تھی، میں اس تبدیلی کو علمی معجزے سے تعبیر نہ کروں تو اس کو کیا نام دوں؟
مولانا اسلم قاسمیؒ بہترین شاعر بھی تھے، مگر اپنے آباء کی طرح انھوں نے اس کو کبھی پیشہ یا مشغلہ نہیں بنایا، سیرت حلبیہ کا اردو ترجمہ کیا، بچوں کے لئے سیرت کی ایک عربی کتاب کا ترجمہ بھی کیا، جو سیرت پاک کے نام سے چھپ چکی ہے، اسلوب نگارش بڑا عمدہ اور متأثر کن تھا، اشعار میں بھی بڑی پختگی تھی، ان سب سے بڑھ کر اہم بات یہ تھی کہ وہ گوناگوں اخلاق عالیہ سے بھی متصف تھے، تواضع، انکساری، خوش خلقی، ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جس سے ملتے اس پر اپنے تعلق خاطر کا گہرا نقش قائم کردیتے، راقم السطور بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن سے مولانا کی ملاقات دید وشنید تک محدود نہ تھی، طالب علمی کے دور میں احقر نے ان کی فرمائش پر کئی عربی کتابوں کے ترجمے لکھ کر ان کو دئے، جو ان کے مکتبے سے شائع بھی ہوئے، دفتر رسالہ دار العلوم میں بہت سے لوگ مدیر رسالہ مولانا سید ازہر شاہ قیصر کی باغ وبہار شخصیت کی نرم گرم گفتگو سے لطف اندوز ہونے کے لئے تقریبًا ہر روز جمع ہوتے تھے ان میں ایک اہم شخصیت مولانا اسلم صاحبؒ کی بھی تھی، احقر بھی اس مجلس کے دریوزہ گروں میں شامل تھا، اس مجلس میں بھی مولانا کا وقار قابل دید ہوا کرتا تھا، جب وہ بات کرتے تو زبان سے پھول جھڑتے ان کی گفتگو سننے کے لئے حاضرینِ مجلس ہمہ تن گوش ہوجاتے، یہ مختصر مضمون زیادہ تفصیل کا متحمل نہیں، لوگ لکھیں گے، اور ان کی زندگی کے کچھ اور گوشے تفصیل واختصار کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں گے، صحیح معنی میں اسی وقت ان کی شخصیت کے کمالات کا صحیح اعتراف و اظہار ہوگا، اخبار کے مختصر کالم میں اس قدر گنجائش کہاں؟ بس ان دو مصرعوں کے ذریعے اپنے دلی رنج والم کا اظہار کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں
ع      آں قدح بہ شکست وآں ساقی نہ ماند
        اور
ع مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے 
مولانا ندیم الواجدی
nadimulwajidi@gmail.com
.....
مولانا محمد اسلم قاسمی؛ 
ایک ہمہ جہت شخصیت
رواں ماہ کی 13 ویں تاریخ تھی، میں بہار میں ایک اجلاس کے لئے سفر پر نکل پڑا تھا، غازی آباد کے قریب پہونچا ہوں گا کہ اچانگ واٹس ایپ کے مختلف حلقوں میں متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی صاحب کی خبرِ وفات گردش کرنے لگی، خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا، استرجاع کیا، دعاے مغفرت کی اور ساری راہ انہی کی شخصیت ذہن میں گھومتی رہی، سفر میں لکھنا پڑھنا میرے لئے مشکل ہے، میں لیپ ٹاپ کا آدمی نہیں ہوں، مجھے ان کے بارے میں معلومات بھی زیادہ نہیں تھیں، موبائل پر لکھتا بھی تو کیا لکھتا اور کیسے لکھتا، سرسری سا مضمون خود مجھے اذیت میں مبتلا کرتا ہے، سفر چار دن تک چلتا رہا، اس دوران متعدد مضامین نظر سے گزرے، مگر میری تشنگی قلم اٹھانے سے مانع رہی، میں نے سوچا کہ واپسی پر حضرت کے فرزند سے تعزیت بھی کر لوں گا اور ضروری معلومات بھی، چناں چہ یہی ہوا، آج بتاریخ 21 نومبر ان کے فرزندِ اکبر مولانا فاروق صاحب استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کے درِ دولت پر حاضری ہوئی، مکان وہی حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ والا۔ اینٹ کا فرش، بوسیدہ عمارت، سادگی کا مجسمہ۔ دروازہ کھٹکھٹایا، آواز دی، وہ تشریف لائے اور اس کمرے میں بیٹھے جو میری طالب علمی کے دور میں دارالعلوم وقف کا دفترِ تعلیمات رہ چکا تھا۔ بیٹھے، تعزیت کی، باتیں ہوئیں، اگلی سطور میں جو کچھ عرض کروں گا، بیش تر کا ماخذ وہی صاحب زادے ہوں گے۔۔
مولانا کی پہلی زیارت:
مولانا سے میری ملاقات اور زیارتوں کی داستان تو بڑی طویل ہے، مگر زیارت کی پہلی سعادت اس وقت حاصل ہوئی جب میں دیوبند بصیغہ متعلم آیا۔۔ میرا داخلہ گرچہ دونوں دارالعلوموں میں ہوا، تاہم تعلیم کے بقیہ مراحل قدیم دارالعلوم میں گزرے۔ دارالعلوم وقف اس وقت تعلیم کے معاملے میں دارالعلوم کے ٹکر کا تھا، یہی معنویت کبھی کبھار وقف دارالعلوم کھینچ لاتی۔ یہاں آتا تو دورہ حدیث میں جس استاذ کا گھنٹہ پڑتا، ان سے استفادے کے لئے بیٹھ جاتا۔ حضرت مولانا کی پہلی زیارت یہیں ہوئی۔ گورا رنگ، کشادہ پیشانی، خمیدہ نگاہیں، دراز قامت، سروقد، مناسب جسم، عصا بدست، کرتا پاجامے میں ملبوس، آنکھوں پر عینک۔ یہ ان کا سراپا تھا۔ آے، عبارت پڑھی گئی، تقریر ہوئی، مختصر تشریح، ضروری توضیح۔ زائد گفتگو سے اجتنابِ کلی۔ گھنٹہ ختم ہوا اور وہ خراماں خراماں درس گاہ سے نکل کر یہ جا، وہ جا۔۔۔
پھر زیارتوں کا سلسلہ رہا، درس گاہ سے لے کر جلسہ گاہ تک ہر جگہ ان کا تعاقب۔ ان کی تقریر کا بڑا شہرہ تھا۔ دیوبند کے بعض جلسوں میں ان کی خطابت کے جوہر دیکھنے کو ملے۔ دل نشیں طرزِ اظہار، خوب صورت اسلوبِ بیان، خاندانی روایات کا اعادہ، الفاظ کا مناسب استعمال۔ دیکھا کہ سامعین گوش بر آواز ہیں۔ میں ان کی تقریر پر ٹکٹکی لگاے رکھتا۔ مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا یہ شعر پہلی بار انہیں سے سنا تھا:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے، نقشِ روے محمد بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
دارالعلوم سے نکلا تو پھر ان کے جلووں سے محرومی رہ گئی۔ پھر دیکھا، نہ سنا، تاہم احوال آتے رہے۔ سن 2008 میں بصیغہ مدرس دیوبند آیا تو ان کی زیارتوں کا موقوف سلسلہ پھر شروع ہوا اور وفات سے چند ماہ پیش تر تک جاری رہا۔ زیارتوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی رہیں، استفادے کی راہیں بھی پے در پے کھلتی رہیں۔۔۔
سوانحی خدوخال:
مرحوم کی ولادت 1937 میں ہوئی، والدِ ماجد سے تو ایک عالم واقف ہے، دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ۔ دادا بھی کسی عہد میں مشہورِ زمانہ رہے، یعنی شمس العلما حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ۔ رہے پڑدادا، تو دارالعلوم کے اول آخر سب، یعنی حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتو ی رحمة اللہ علیہ۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ مولانا کی نانیہال رام پور منیہاران سہارن پور ہے، نانا کا نام حکیم محمود، جو اپنے وقت کے بے حد نباض طبیب تھے، دستِ شفا سے سرفراز، سب کے لئے مرجعِ خلائق۔
تعلیمی مراحل:
جب پورا گھر ہی علم و عرفان کا سرچشمہ تھا، اس سے گھر کا فرد کیوں چوک جاتا، چناں چہ کم عمری میں ہی تعلیم شروع کردی گئی۔ ابجد سے لے کر بخاری شریف تک پوری تعلیم دارالعلوم میں ہوئی۔ پڑھتے گئے، چڑھتے گئے۔ فراغت 1958 میں ہوئی۔ بخاری شریف ابتداءشیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے پڑھی، جب ان کا وصال ہوا تو حضرت مولانا فخرالدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ سے بقیہ حصے پڑھے۔ دورہ حدیث کے سارے اساتذہ نامور ہیں: علامہ ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا اعزاز امروہوی رحمہم اللہ وغیرہم۔
فراغت کے بعد:
فراغت کے بعد دو سال تک فارغ بیٹھے رہے، اس دوران حکیم الاسلام قاری طیب رحمة اللہ علیہ نے ری یونین اور افریقہ کے دورے کئے تو رفاقت کی ذمے داریاں انہوں نے ہی انجام دیں۔ خالی اوقات میں مطالعات کو اپنا مشغلہ بنایا۔ حضرت قاری صاحب کے اسفار میں زیادہ تر حقِ رفاقت یہی ادا کرتے۔
دارالعلوم سے وابستگی:
دوسالہ مطالعاتی دور کے بعد 1960 میں بحیثیت ناظمِ برقیات دارالعلوم میں تقرر ہوا، بڑے فرض شناس نکلے۔ حسنِ انتظام کے خوگر اور سلیقہ مندی کے پاسبان۔ ان کا دورِ نظامت حسنِ انتظام کے لئے یاد رکھا جاتا ہے۔
مضمون نگاری کا آغاز:
سبھی جانتے ہیں برقیات کا شعبہ خالص غیر علمی ہے، مگر طبیعت میں علم پرستی ہو تو آدمی اپنی تشنگی کے سامان کہیں سے بھی نکال سکتا ہے۔ درس و تدریس سے نہ جڑے تو کیا ہوا، بقول کسے:
مجھے سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
قلم سنبھال لیا اور تحریروں کی بسم اللہ کردی۔ مضمون نگاری میں انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی، ان کی تحریر کا آغاز ’انسان العیون فی سیرة الامین المامون‘کے ترجمے سے ہوا۔ یہ ترجمہ سیرتِ حلبیہ کے نام سے چودہ برسوں میں مکمل ہوا اور 45 قسطوں میں چھپا۔ اب اس کی جلدیں سمیٹ کر چھ تک کر دی گئی ہیں۔ اس کارنامے سے علمی دنیا میں ہلچل سی مچ گئی اور سبھوں نے اسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا۔ پھر تو ان کے قدم بڑھتے گئے۔ اس کے بعد کچھ اور کتابیں ان کے خامہ عنبر شمامہ سے نکلیں، جن میں ضخیم کتاب سیرت پاک نمایاں ہے، تفسیرِ رازی کے ترجمے بھی ان کے قلم سے نکلے جو دو جلدوں میں شائع ہوے۔ حکیم الاسلام حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کا مجموعہ کلام ’عرفانِ عارف‘انہیں کی ترتیب سے منظرِ عام پر آیا۔
کتب خانہ قاسمی کا آغاز:
ادھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا اور ادھر’کتب خانہ قاسمی‘کے نام سے ایک مکتبہ کی بنیاد رکھ دی، ان کی ساری کتابیں اور حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی تصنیفات یہیں سے شائع ہونے لگیں۔ سیرت کے موضوع پر حکیم الاسلام حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کے چند رسائل کو انہوں نے مرتب فرما کر یہیں سے شائع کیا، جسے ’مقاماتِ سیرت‘ کا نام دیا گیا۔
ریڈیائی تقریریں:
ان کے قلم کی دھوم مچی تو آل انڈیا ریڈیو نے بھی اپنی تقریروں کے لئے انہیں یاد کیا، خوش آواز تو تھے ہی، پھر تحریر کا جادو بھی چلا ہی چکے تھے، ان کے مشاغل میں ایک اور نیا مشغلہ شروع ہو گیا۔ ریڈیو پر ان کی تقریریں ہونے لگیں اور چار پانچ برسوں تک متواتر ہوتی رہیں۔ مولانا یہ تقریریں اپنے قلم سے تیار کرتے اور ریڈیو کے ذریعے امت سے مخاطب ہوتے۔ ان کے یہ خطبات بعد میں ’قاسمی تقریریں‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ 
اجلاسِ صد سالہ میں کار کردگی:
اجلاسِ صد سالہ دارالعلوم دیوبند کا وہ عظیم علمی و روحانی اجتماع ہے، جس کی نظیر حجاجِ کرام کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھی۔ مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ نے اس زبردست ہجوم کو’عرفاتی بھیڑ‘سے تعبیر کیا تھا۔ اسی اجلاس میں قدیم و جدید فضلاے دارالعلوم کی دستاربندی عمل میں آئی تھی۔ اس میں عالمِ اسلام کی چوٹی کی شخصیات شہ نشیں اور سامعین کی صفوں میں جلوہ فرما تھیں۔ میرے دادا حضرت مولانا محمود احمد ناصری رحمة اللہ علیہ اور عمِ مکرم مولانا عقیل احمد ناصری زیدمجدہم کی دستاربندی بھی اسی اجتماعِ عظیم میں ہوئی تھی۔ مصر کے مشہور مجود قاری عبدالباسط رحمة اللہ علیہ بھی اس میں تشریف لائے تھے۔ یہ اجتماع اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا۔ چشمِ فلک نے کائنات میں ایسا نظارہ پیش تر بھی نہ دیکھا تھا اور اب تصور بھی نہیں۔ جانتے ہیں کہ اس کا روحِ رواں کون تھا؟ جی ہاں! یہی مولانا محمد اسلم قاسمی، جن کا ذکرِ خیر چل رہا ہے۔ یہ اجلاس تین روزہ تھا۔ 21،22،23 مارچ 1980 میں علم و عرفان کا یہ عظیم اجتماع منعقد ہوا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ بوریہ نشین علما ایسی بھیڑ اکٹھی کر لیں گے، مگر تاریخ نے یہ سارا ریکارڈ درج کر لیا ہے۔ اجلاس کی نظامت وقت کے مقبول ادیب و مصنف مولانا حامد الانصاری غازی رحمة اللہ علیہ صاحب کے سپرد کی گئی تھی۔ یہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کے داماد تھے۔ ان کی رہائش بیشتر ممبئی میں ہوا کرتی۔ عمر بھی اچھی ہو چکی تھی۔ ضعف و نقاہت اپنا رنگ جما چکی تھی۔ ان کے لئے دیوبند میں طویل قیام مشکل تھا، تاہم اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کام کی بسم اللہ تو کر ہی دی تھی۔ اجلاس کی تاریخیں ابھی مقرر نہیں ہوئی تھیں۔ انہوں نے فضلاے کرام کے نام اور تفصیلات قلم بند کر لئے تھے۔ تیاریوں کی تمہید بطریقِ احسن جاری تھی، مگر دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ نے دیکھا کہ کام اہم اور نقاہت غالب ہے۔ اگلے مراحل مزید دشوار گزار ہیں۔ِ شوریٰ نے نظامتِ اجلاس کے لئے مولانا مرحوم کے نام کی تجویز پیش کر دی۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور جو شخصیت نرم دمِ گفتگو نظر آ رہی تھی، وہ گرم دمِ جستجو کا نمونہ بن کر سامنے آئی۔ ان کی تقرری اجلاس سے دس ماہ پیش تر عمل میں آئی۔ ان کی نظامت کیا آئی، مہم نے رفتار پکڑی۔ مرحوم نے اپنے ساتھ مظاہرِ حق جدید کے مصنف مولانا عبداللہ جاوید زید مجدہم کو ساتھ لگایا۔ ان کے علاوہ دوسرے گرم خونوں کو عملہ میں شامل کیا۔ اس طرح مولانا کی نظامت میں اجلاس کی تیاریاں پروان چڑھتی رہیں۔ شہر تو دولہن کی طرح پہلے ہی سجا تھا۔ بیابان بھی خیابان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ خیمے ہی خیمے۔ انتظامات ہی انتظامات۔ اجلاس کی تاریخوں کا اعلان ہنوز نہیں ہوا تھا، عوام اس تعیین کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ اصرار حد سے بڑھا تو مرحوم کی نظامت کے دوسرے تیسرے ہفتے ہی تاریخوں کی تعیین عمل میں آئی۔ اجلاس کی کامیابی کا پورا سہرا یقیناً حضرت مرحوم اور ان کے عملہ کے سر سجتا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس کوہ کنی اور خارا شگافی میں جوے خوں کتنی بار سر سے گزری۔ جزاہم اللہ احسن الجزائ۔
مسندِ درس پر جلوہ ریزی:
ادھر اجلاسِ صد سالہ ختم ہوا اور ادھر دارالعلوم ایک دیوہیکل حادثے کے آہنی چنگل میں پھنس گیا۔ داستان بڑی دل خراش ہے۔ اس کے تصور سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اساتذہ دارالعلوم دو خیموں میں بٹ گئے۔ نتیجتاً حکیم الاسلام قاری طیب صاحب کو معزول ہونا پڑا۔ اس طرح ان کے کم و بیش ساٹھ سالہ دورِ اہتمام کا ناخوشگوار اختتام ہوا۔ شر کے اس پہلو سے دارالعلوم وقف کے نام سے ایک دوسرے عالمی ادارے نے آنکھیں کھولیں۔ اس کے قیام اور عروج و شباب میں فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کا کردار بے حد نمایاں ہے۔ مرحوم مولانا اسلم صاحب ہنگامے کے بعد خالی بیٹھے تھے۔ حضرت شاہ صاحب سیرتِ حلبیہ کے ترجمے کے دوران ان کی قابلیت دیکھ چکے تھے، انہیں بطور استاذ اس ادارے میں لے آے۔ اب وہ دارالعلوم کے ناظمِ برقیات نہیں، دارالعلوم وقف کے مو ¿قر استاذ ہو گئے۔ تدریس چلی اور خوب چلی۔ لگا ہی نہیں کہ 45 سال کا ایک نیا مدرس اسباق پڑھا رہا ہے، بلکہ اپنی وسعتِ مطالعہ، قوتِ تفہیم اور زورِ بیان سے ایک کامل مدرس کے روپ میں ڈھل گئے۔ طلبہ بھی مستفید۔ انتظامیہ بھی مطمئن۔ یہ 1982 تھا۔ اس کے بعد سے تدریس نے انہیں ایسا پکڑا کہ ایک عظیم و عبقری استاذ کی شکل میں دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوے۔ وہ عام مدرس سے لے کر شیخ الحدیث تک بنے۔ جس جماعت کی جونسی کتابیں انہیں ملیں، انہوں نے اپنی ذمے داریوں کا حق ادا کیا۔ اپنے 34 سالہ دورِ تدریس میں انہیں ہدایہ اولین، مشکوة ، ترمذی شریف اور اخیر میں بخاری شریف پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔
دارالعلوم وقف میں دیگر ذمہ داریاں:
مولانا نے صرف مسندِ تدریس کو ہی زینت نہیں بخشی، بلکہ انتظامی امور بھی بحسن و خوبی انجام دیے۔ فخرالمحدثین حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ 2008 میں رہ گزاے آخرت ہوے تو صدرالمدرسین اور ناظمِ تعلیمات انہیں ہی نامزد کیا گیا۔ یہ مولانا کا کمال ہے کہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود ان مناصب کا حق ادا کرنے کے لئے نہایت چاق و چوبند رہے۔
آسمانِ خطابت کے نیّرِ اعظم:
مولانا نے تدریس سے وابستگی کی تو اس سے وابستہ کئی صلاحیتیں اجاگر ہونا شروع ہو گئیں۔ ان کی خطابت کی عمر بھی وہی ہے جو عمر ان کی تدریس کی ہے۔ تقریر پر آے تو سامعین کو حیران کر دیا۔ علوم و افکار کا بہتا دریا، بہترین لب و لہجہ، فصاحت سے بھرپور زبان، بلاغت سے معمور بیان۔ وہ حافظِ قرآن نہیں تھے، مگر موقع بہ موقع قرآن سے استدلال ان کا مثالی تھا۔ پھر تو وہ اہم اجلاس کی زینت بن گئے۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں ان کی کئی تقریریں سنیں۔ آخری بار سننے کا اتفاق محمود ہال دیوبند میں ہوا۔ یہ ابھی دو سال پہلے کی ہی بات ہے۔ خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم کو حیدرآباد کی ایک علمی تنظیم نے ’حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ‘ دیا تھا۔ اسی سلسلے میں ایوارڈ دہندہ تنظیم کے اظہارِ تشکر اور صاحبِ اعزاز حضرت خطیب الاسلام کے استقبال کے لئے دیوبند کا یہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس میں دیوبند کی مو ¿قر شخصیات نے شرکت کی تھی۔ حفید الانور حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری اور نبیرہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی دام ظلہما بھی شریکِ اجلاس تھے۔ اس جلسے میں مجھے بطور مقرر مدعو کیا گیا تھا، اجلاس کے کرتا دھرتا معروف عالمِ دین محترم مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی زیدمجدہم تھے۔ حضرت خطیب الاسلام تو بڑھتی نقاہت کے سبب تشریف نہ لا سکے، مگر متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب رحمة اللہ علیہ کی تشریف آوری ہوئی۔ دیکھا تو بخار سے پورا جسم لرز رہا تھا۔ چلنا بھی دشوار، بولنا مشکل، تاہم کپکپاتے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی زبان سے تقریر ہوئی۔ وہی شستہ زبان، وہی گھلاوٹ، وہی جاذبیت۔ سلسلہ کلام زیادہ دیر نہیں چلا، مگر جتنا چلا، شاندار تھا۔
شعروسخن کے شہ سوار:
مولانا صرف بہترین منتظم، بابصیرت مدرس، باکمال خطیب اور قابلِ رشک مصنف ہی نہیں تھے، وہ بلندپایہ شاعر بھی تھے۔ ان کا تخلص رمزی تھا۔ جس طرح رمز سے ہر کوئی آشنا نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی شاعری بھی عالم آشکار نہیں تھی۔ مجھے اجمالاً اتنی تو خبر تھی کہ انہوں نے کبھی شاعری کی ہے، مگر ان کی پائیگاہ کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کا کوئی کلام بھی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ مخدومِ گرامی رئیس الجامعہ حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری دامت برکاتہم نے جب اس طرف توجہ دلائی تو میں حیران رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ جب ایسا ہے تو کیوں نہ ان کے فرزند سے کچھ نمونے لے لئے جائیں۔ چناں چہ صاحب زادہ محترم مولانا فاروق صاحب زیدمجدہم سے رابطہ کیا اور ڈائری منگائی تو مرحوم کا اور ہی رنگ سامنے آیا۔ خوب صورت اشعار سے پوری ڈائری بھری ہوئی۔ 100 کے قریب نعتوں، نظموں، تہنیت ناموں اور غزلوں کا حسین گل دستہ میرے سامنے تھا۔ خوش خطی کے ساتھ۔ اس بیاض سے مولانا کے دو راز سے پردے ہٹے۔ ایک تو یہ کہ وہ خوش نویس بھی تھے۔ پوری بیاض سلیقے اور صفائی سے لکھی ہوئی۔ آرائش و تزئین کا بھی مکمل لحاظ۔ دوسرے ان کا ذوقِ سخن اور حیرت انگیز قدرتِ کلام۔ تقریبا ہر کلام پر عنوان چڑھا ہوا۔ ایک ایک کلام بیس بیس پچیس اشعار پر مشتمل۔ بعض کلام تو پچاس پچاس اشعار کو محیط۔ مثنیٰ، مربع ہر نوع کی تخلیقات۔ اللہ جانے کہ ان کا کلام اب تک کیوں شائع نہیں ہوا۔ حالاں کہ وہ اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اگر وہ چھپے تو ڈیڑھ دو سو صفحات سے کم میں نہیں آے گا۔ میں نے چاہا کہ اچھے اشعار کا زیادہ سے زیادہ انتخاب ہو، مگر قلتِ وقت دامن گیر تھی اور صاحب زادہ محترم کی مصروفیت عناں گیر۔ تاہم جو بھی حاصل ہو سکا، آپ کی خدمت میں پیش ہے، اجڑی بہاریں کے عنوان سے ایک طویل نظم کا مطلع یوں عرض کیا ہے:
چمن کی اجڑی بہاروں کو یاد کرتے ہیں
تری نگہ کے شراروں کو یاد کرتے ہیں
اور آگے لکھتے ہیں:
خوشا کہ وہ جو مجسّم بہار و نغمہ تھے
ہم ایسے سینہ فگاروں کو یاد کرتے ہیں
ملا ہے عشق سے یہ درسِ ناگوار کہ ہم
گلوں کو بھول کے خاروں کو یاد کرتے ہیں
ایک نظم کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:
سمجھا تھا جسے ہم نے اک گنجِ گراں مایہ
بے مول ہوئی آخر اس دل کی خریداری
اخیر میں ایک اور طویل نظم کے یہ اشعار بھی دیکھتے جائیں:
قطرہ ہر اشک بحرِ بے کراں بنتا گیا
حسن پابستہ رہا، عشق آسماں بنتا گیا
میں تو تنہا ہی اٹھا تھا بارگاہِ ناز سے
راہ میں بربادیوں کا کارواں بنتا گیا
رہ گزارِ شوق میں اہلِ جنوں کے واسطے
ان کا ہر نقشِ قدم اک آستاں بنتا گیا
ہم نے یوں دیکھیں شبِ غم کی کرشمہ سازیاں
جو بھی ٹوٹا وہ ستارہ آسماں بنتا گیا
دیکھ اعجازِ جنوں رمزی کے راہِ شوق میں
ہر قدم پر زخمِ دل سے گل ستاں بنتا گیا
مولانا رحمة اللہ علیہ کی شاعری کی پختگی اور فنی گرفت پر میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ علمائے دیوبند میں ایسی شاعری بس برائے نام ہی ہے۔ ان کی اس بیاض کا آغاز’ہجومِ شوق‘ کے عنوان سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عقیدت و محبت کا حسین نذرانہ پیش کیا ہے۔ بیاض کی پہلی تخلیق پر 23.01.1960 درج ہے۔ پوری ڈائری میں ہر کلام کے ساتھ تاریخ لگی ہوئی ہے۔ مطالعے سے اندازہ ہوا کہ پرورشِ شعر و سخن کا یہ سلسلہ تین چار دہائیاں چلا ہے۔
بیعت و خلافت:
مولانا نے اپنی سادگی کی بنا پر کبھی یہ نہیں بتایا کہ سلوک و تصوف سے بھی ان کی دعا سلام رہی ہے، مگر کل ہی پتہ چلا کہ وہ اس راہ کے بھی مردِ راہ داں تھے۔ بیعت بھی اور خلافت بھی۔ پہلی بیعت تو اپنے والدِ گرامی حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمة اللہ علیہ سے تھی، خلافت بھی پائی۔ 1983 میں جب والدِ گرامی دنیا سے گزرے تو مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادی رحمة اللہ علیہ سے وابستگی اختیار کی۔ اس سے اصلاحِ نفس کے تئیں مولانا کی فکرمندی واضح ہے۔ یہ دونوں اکابر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کے خلفا رہے ہیں۔
اولاد و احفاد:
مولانا مرحوم کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ بڑے بیٹے محترم مولانا فاروق صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ یہ تقریبا دو دہائیوں سے دارالعلوم وقف کے استاذ ہیں۔ پاک سیرت اور فکرِ دنیا سے آزاد، گم سم، کم گو، سر جھکا کے چلتے اور سر جھکا کے ملتے ہیں۔ بے نفسی اور سادگی کا حیرت انگیز نمونہ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں۔ دوسرے حافظ ہشام صاحب ہیں۔ ان کے پاس ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔
علالت اور وفات:
مولانا کی کل عمر 80 ہوئی۔ بڑھاپا تو تھا ہی، کمزوری حاوی ہوتی گئی۔ سالِ گزشتہ شوال 1438 میں بیمار پڑے۔ سانس میں دقت اور جسمانی نقاہت بڑھتی گئی۔ دہلی کے اڈیبا اسپتال میں ایک ہفتہ علاج معالجہ ہوا۔ کچھ افاقہ ہوا، پھر دیوبند آگئے۔ تکلیف میں اتار چڑھاو ہوتا رہا۔ چلنا پھرنا اسی وقت سے موقوف ہو گیا تھا۔ تاہم قدرے ٹھیک ٹھاک رہے، مگر ادھر چند ماہ سے ان کی حالت بگڑتی گئی اور پھر سنبھل نہ سکی۔ اس طرح ایک علمی و عبقری شخصیت نے موت کے سامنے خود سپردگی کردی۔ نمازِ جنازہ دارالعلوم وقف کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی دام مجدہ نے پڑھائی۔ علم و عمل کا یہ سنگم اب قبرستانِ قاسمی میں ابدی نیند سوتا ہے۔
علامہ فضیل احمد ناصری
fuzailahmadnasiri@gmail.com
8881347125
..................
مولانا اسلم قاسمی صدیقی مرحوم کا سلسہ نسب:

محمد اسلم بن محمد طیب بن محمد احمد بن مولانا محمد قاسم نانوتوی  بن شیخ اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین بن ابوالفتح بن محمد مفتی بن عبد السَّمیع بن مولوی محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طٰحہ بن مفتی مبارک بن شیخ امان اللہ بن شیخ جمال الدین بن قاضی میراں بڑے، بن قاضی مظہرالدین بن نجم الدین ثانی بن نورالدین رابع بن قیام الدین بن ضیاء الدین بن نورالدین ثالث بن نجم الدین بن نورلدین ثانی بن رکن الدین بن رفیع الدین بن بہاء الدین بن شہاب الدین بن خواجہ یوسف بن خلیل بن صدر الدین بن رکن الدین السمر قندی بن صدرالدین الحاج بن اسمٰعیل شہید بن نورالدین القتال بن محمود بن بہاء الدین بن عبد اللہ بن زکریا بن نورالدین سراج بن شادی الصدیقی بن وحید الدین بن مسعود بن عبدالرَّزاق بن قاسم بن محمد بن سیّد نا ابوبکر صدیقؓ۔
ابوالکلام آزاد ساحر قاسمی دربھنگوی خادم آل انڈیا اصلاحی مجلس
......
أين نجد مثلك يا خطيبنا...
        وصي ميان خان
.هيهات لا يأتي الزمان بمثله
وإن الزمان بمثله لبخيل ..
إن فضيلة الشيخ مولانا أسلم  القاسمي قد انتقل إلى ذمة الله ، والله هذه خسارة عظيمة للأمة الإسلامية بأسرها ، وكلنا نحتاج إلى أشد ما يكون من العزاء حيال هذا النعي الصاعق ، قد ترك الراحل الفقيد فجوة عميقة في الأوساط العلمية الدينية لا يرجى سدها في المستقبل المنظور ، لا سيما جماعة الخطباء أصبحت في آن كأنها يتيمة .
إنني بدوري قد فتحت عيني -منذ أن رزقني الله الوجود في هذه الدنيا - على رؤية وجهه المملوء بالعواطف الجياشة ، والأحاسيس التي تنبئ عن استنفاد جهده لقاء إبلاغ رسالته ، وهو يخاطب حشدا من الناس بالمذياع في حفلة سنوية يعقدها أبي  في مدرسة القرية ، والكلمات تتقطر كمطر متواصل، في مزارع القلوب فتغرس بذور الإيمان وتؤصل جذور المحبة تجاه الله ورسوله ، والناس لا يدركون ماذا أصابهم خلال تلك الفترة الزمنية كأن على رؤوسهم الطير ، وعند انتهاء الكلمة يخرجون من مكان الحفلة  كأنما استيقظوا من سباتهم .
فكانت الآذان لا تعرف أي صوت لعالم ديني سواه ، حتى شببنا مستمعين إلى كلماته ونصائحه ، وما أكثر ما قص علينا أبونا من حكايات  الشيخ المقرئ الخطيب الأريب محمد طيب العظيم قدس الله سره ، وكم حاولنا المقارنة بين الشيخ أسلم رحمه الله وبين أبيه العظيم ، ظنا من عندنا أننا لو لم نسعد بلقاء الأب فعلى الأقل لا نحرم من حظنا في الابن ..
وعندما أكملت حفظ القرآن الكريم في 1998بتوفيق الله تعالى ، والذي شكل نقطة تحول في حياتي ، مما مهد لي الطريق إلى بدء حياة مدرسية ( وإلا من يدري كنت أتردد في رحابات الكليات الرسمية سعيا وراء الحصول على لقمة العيش)  فغمرني البهجة إذ سمعت أن فضيلة الشيخ مولانا أسلم القاسمي هو الذي يربط العمامة برؤس الحفاظ من الطلاب ( آنذاك فقط أثنان في ذلك العام أنا ، وطالب آخر ، والعجب أن كلا منا قد استمر في الدراسة العربية وأكمل سلسلة الدرس النظامي ، ولم يوجد طالب من هذه المدرسة بعدنا أكمل تعليمه المدرسي ، هذا أيضا يبدومن ثمرات دعاء الشيخ الفقيد )  .
فالشيخ حينئذ كان قويا ، ذا عضلات ، نهض من كرسيه وربط العمامتين بسرعة، ورفع يديه داعيا الله للخير والبركة في علمنا، وعملنا، وتوفيقنا للحفاظ على نعمة القرآن العظمى القيمة، وعلومه، وجعلنا خادما لكتاب الله وسنة نبيه ..وما كان من الحفل الحاشد أن يلبي نداءه ويؤمن على كل دعائه ..
ذلك المشهد لا يزال يرتسم دائما  في صفحات الذهن، لا يمحو من الذاكرة أبدا ، والشيخ بعد ذلك كان يفيضنا بكلماته الرائعة وخطبه المتميزة بغزارة العلم، وسعة الاطلاع ، ودقة النظر ، وعمق المطالعة ، وحدة الذكاوة ، وشحذ الذهن، وندرة الذاكرة ، واتساق الكلام ، وارتباط المضمون طوال سنوات قادمة في كل حفلة تعقدها المدرسة ، لم يكد يتصور أي اجتماع بدونه ، شرفنا بحضوره لمدة تمتد على خمسة وثلاثين عاما في أعقاب رحلة أبيه الشيخ المقرئ  مولانا طيب رحمه الله رئيس دارالعلوم  ..
قلما نجد بين العلماء اليوم من يتحلى بالخلق الحسن والأدب الجميل ، والسلوك الصافي الرائق مثل ما وهبه الله تعالى الشيخ الراحل ، والله كم ذهبنا إلى بيته لتوجيه الدعوة للحفلة السنوية للمدرسة ، وكان لا يعرفني بوجه ، حتى خرج من بيته وألقى نظرة عابرة حول التقويم ليتأكد من فراغه لذلك الموعد ، ثم لم يلبث إلا صرح بموافقته إذا كان اليوم شاغرا أو اعتذاره حال شغله ..والأمر لا يختلف بالنسبة لي أو أحد موظفي المدرسة ، فكان السلوك يبقى مماثلا ، وهذا على عكس ما يقوم به عامة العلماء في أمثال هذه المواعيد ، إنهم  -في الأغلب -  يماطلون ، ولا يصرحون بمواقفهم ، يعطون انطباعات كأن ساورتهم الأسفار وكثرة الأشغال ، لمجرد زيادة الإلحاح والإصرار من جانب آخر ، ولا يختلف الموقف مهما ظن الداعي من العلاقات الوثيقة تربطه بهؤلاء "الشيوخ " ، إنهم لا يجترؤن على التصريح ، ويعتبرون فيه الحط من مكانتهم الرفيعة - أصلح الله حالهم- إنني جربت هذه الأشياء مرات عديدة ، ولا أزال ، فلم أجد مثل الشيخ الراحل الغالي ..
فكان الشيخ لم يتمكن من تكريمنا بزيارته الميمونة وكلمته القيمة منذ سنتين بحكم علالته ، مما يسبب دائما قلقا واضطرابا في قلوب القرية وما جاورها ، وكنا ندعو لصحته وشفائه حتى أتاه اليقين ، والتحق بالرفيق الكريم الذي يغفره - إن شاء الله- لخدماته الجليلة ..
.......
دیوبند کی زمیں پہ اندھیرا سا چھا گیا
جس نے سنی خبر تو وہ سکتے میں آ گیا
غمگین ہو گئے سبھی، دل بیٹھ سا گیا
سردی کی ان رتوں  میں پسینہ سا آگیا
اک شیخ باکمال یہاں سے چلا گیا
عشق و وفا کا دیپ دلوں میں جلا گیا
دیوانوں کا وہ چاک گریبان کر گیا
اک پھول سارے باغ کو ویران کر گیا
اے شیخ تم سا اب کوئی دنیا میں ہے کہاں
ہم بے کسوں کو چھوڑ کے تم  چل دیے کہاں
دنیائے فکر و فن میں کوئی تم سا ہے کہاں
علم و ہنر کی پیاس بجھائیں ہم اب کہاں
دنیا کو تم  سا شیخ دکھائیں کہاں سے ہم
کردار تم سا کوئی بھی لائیں کہاں سے ہم
تم سا مربی ڈھونڈھنے سے بھی نہ پائیں ہم
دنیا میں کوئی تم سی ادا بھی نہ پائیں ہم
موسم بدل گیا ہے، فضا بھی اداس ہے
مغموم ہو گئے ہیں سبھی دل اداس ہے
اک بے کلی ہے چار سو خوف و ہراس ہے
غمخوار ہے کوئی، نہ کوئی آس پاس ہے
بس ختم کر ضیاؔ تو یہ لفظوں کا سلسلہ
کیوں کہ بہت بلند ہے حضرت کا مرتبہ
کرتا رہے خدا سے ہمیشہ تو یہ دعا
سایہ فگن ہو ان پہ سدا رحمتِ خدا
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              

No comments:

Post a Comment