Thursday, 9 November 2017

رخصتی سے قبل طلاق پر عدت ہے یا نہیں؟

رخصتی سے قبل طلاق پر عدت ہے یا نہیں؟
--------------------------------------
مفتی شکیل صاحب سے مودبانہ درخواست ھے کے اس مسئلہ کو پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ لیکھ کر بھیج دیجئے بھت سخت ضرورت ھے؛        
مسئلہ طلاق کے بارے میں ھے  کے قبل الدخول جو طلاق واقع ھوتی ھہ وہ طلاق بائنہ ھوتی ھے جسمیں عدت نہیں لیکن مسئلہ یہ پوچھنا ھے  آج کل ھمارے معاشرہ مے نکاح کے بعد رخصتی عام  طور پر ایک سال کے بعد ھوتی ھے، اب نکاح اور طلاق کے بیچ میں جو فاصلہ رھا اسمیں لڑکا شادی کے موقع پر لڑکی کے گھر اور لڑکی لڑکے کے گھر اور عید کے موقع پر اور بھی بہت سی باتیں ہے جس میں خلوت ھوتی ھے، اب اگر رخصتی سے پہلے طلاق ہوگئی تو اب عدت آئے گی کہ نہیں آئے گی؟ پوری تفصیل کے ساتھ جواب مطلوب ہے.
--------------------------------------
الجواب وباللہ التوفيق:
ہمارے عرف میں "رخصتی" سے مراد خلوت صحیحہ ہوتی ہے۔
ورنہ شریعت میں رخصتی پہ وجوب عدت کا مدار نہیں ہے بلکہ خلوت صحیحہ پہ وجوب عدت کا مدار ہے۔
قرآن کریم میں "من قبل ان تمسوھن" کے ذریعہ احکام بتائے گئے ہیں۔
جس کا مفہوم یہ ہے کہ عقد نکاح کے بعد اگر خلوت صحیحہ کا تحقق ہوجائے۔ خواہ رخصتی سے قبل ہو یا بعد میں۔ تو مہر مسمی موکد ہوجاتا ہے اور اب طلاق کی صورت میں استبراء رحم یعنی عدت بھی واجب ہوگی۔
اگر رخصتی ہوجائے لیکن کسی وجہ سے خلوت صحیحہ وتسلیم نفس نہ ہو طلاق کے بعد عدت بھی واجب نہیں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ:
{ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا}
[الاحزاب، جزء آیت: ۴۹]
وسبب وجوبہا عقد النکاح المتأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۵؍۱۸۰ زکریا، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۵؍۲۲۶ زکریا)
لا یجب علیہا العدۃ، وکذا لو طلّقہا قبل الخلوۃ۔ (خانیۃ علی الہندیۃ ۱؍۵۴۹)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment