Saturday 11 November 2017

ہم جنس کی شادی یا ہم جنس پرستی؟

ہم جنس کی شادی یا ہم جنس پرستی؟
اسلامی نقطہ نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ بخیر ہونگے
عرض اینکہ کسی مرد کا مرد سے، کسی عورت کا عورت سے اور کسی مرد کا مخنث  سے نکاح نہیں ہوسکتا،
اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں، عین نوازش ہوگی
محمد مدثر غفرلہ
مدرسہ حسینیہ چلمل۔ بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:49) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے، اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔
اسلام میں شادی اور نکاح کا مقصد صرف شہوت رانی، جنسی خواہشات کی تسکین نہیں، بلکہ وقوع فی الحرام سے حفاظت، نسل انسانی کا حصول، بقاء، تحفظ وتکثر، زوجین کے خاندانوں میں مودت ومحبت اور تعاون وتناصر  مشروعیت نکاح کے اہم ترین مقاصد ہیں۔
جس قانون ازدواجی کو اسلام میں "نکاح" کہتے ہیں اس کے مفہوم حقیقی ہی میں
"حل ملک المتعة بالأنثى قصدا" 
عورت سے ملک استمتاع کا حصول داخل ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النساء الآیہ۔
سورة النساء / 3

لفظ "النساء" کی تصریح نے جنسی لطف اندوزی کے نام پہ روا رکھے گئے ہم جنس کی شادی یا ہم جنس پرستی کی تمام شکلوں کو ممنوع کردیا۔
یعنی نکاح صحیح کی منجملہ شرائط میں  سے یہ بھی اہم شرط ہے کہ زوجین میں نکاح کی اہلیت ہو یعنی کوئی مانع شرعی نہ ہو اور  کوئی ایک طرف عورت ہو۔
لہذا محرمات، کافرہ، خنثی مشکل اور مرد کا نکاح نکاح مرد سے صحیح نہیں ہوگا۔
فَقَال الْحَنَفِيَّةُ: النِكَاحٌ عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ بِالأُْنْثَى قَصْدًا، أَيْ يُفِيدُ حِل اسْتِمْتَاعِ الرَّجُل مِنَ امْرَأَةٍ لَمْ يَمْنَعْ مِنْ نِكَاحٌهَا مَانِعٌ شَرْعِيٌّ (الدر المختار  ورد المحتار 2 / 258 - 260 ط دار إحياء التراث العربي، وفتح القدير 3 / 99 - ط دار إحياء التراث العربي)
 
قضاء شہوت کے تمام غیر فطری راستے کو اسلام سمیت تمام آسمانی کتابوں نے سختی سے بند کردیا ہے۔
ہم جنس پرستی کی تمام شکلیں تمام آسمانی مذاہب میں حرام وناجائز ہیں۔
مرد کا مرد کے ساتھ تکمیل خواہشات کو
"لواطت" (homosexual)
اور عورت کا عورت کے ساتھ تکمیل خواہشات کو "سحاق" یا مساحقہ (lesbian)  کہتے ہیں۔
قرآن وحدیث میں اس مکروہ اور خسیس ترین عمل کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ علماء امت کا اس پہ اجماع ہے۔
أ‌. قال تعالى: {ولوطا إذ قال لقومه أتأتون الفاحشة ما سبقكم بها من أحد من العالمين . إنكم لتأتون الرجال شهوة من دون النساء بل أنتم قوم مسرفون} الأعراف/80 ، 81 .
ب‌. {إنا أرسلنا عليهم حاصباً إلا آل لوط نجيناهم بسحر} القمر/34. الحاصب: الريح ترمي بالحجارة.
ت‌. { ولوطا إذ قال لقومه أتأتون الفاحشة ما سبقكم بها من أحد من العالمين} الأعراف/80 .
وقال تعالى: {ولوطا إذ قال لقومه إنكم لتأتون الفاحشة ما سبقكم بها من أحد من العالمين} العنكبوت/28 .
ث‌. {ولوطا آتيناه حكما وعلما ونجيناه من القرية التي كانت تعمل الخبائث إنهم كانوا قوم سوء فاسقين}  الأنبياء/74 .
ج‌. {ولوطا إذ قال لقومه أتأتون الفاحشة وأنتم تبصرون. أئنكم لتأتون الرجال شهوة من دون النساء بل أنتم قوم تجهلون . فما كان جواب قومه إلا أن قالوا أخرجوا آل لوط من قريتكم إنهم أناس يتطهرون. فأنجيناه وأهله إلا امرأته قدرناها من الغابرين. وأمطرنا عليهم مطرا فساء مطر المنذرين} النمل/ 54 – 58.
ح‌. قال تعالى: {واللذان يأتيانها منكم فآذوهما فإن تابا وأصلحا فأعرضوا عنهما إن الله كان تواباً رحيماً} النساء / 16.
خ‌.  عن جابر رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم "إن أخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط" . ‌
رواه الترمذي (1457) وابن ماجه (2563) .
"صحيح الجامع" رقم: (1552).‌
د‌.  عن ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "... ملعون من وقع على بهيمة ، ملعون من عمل بعمل قوم لوط". ‌رواه أحمد (1878) .
("صحيح الجامع" رقم: 5891) .‌
ذ‌.  عن ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل و المفعول به" .
رواه الترمذي (1456) وأبو داود (4462) وابن ماجه (2561) .
(صحيح الجامع  6589).‌

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اعمال بد میں اس قبیح فعل کا ذکر کیا ہے اور اس کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بدعملی کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب آیا اور سدوم اور عمورہ کی بستیوں پر آسمان سے پتھروں کی اس قدر بارش ہوئی کہ وہ بستیاں زمین میں دھنس گئیں۔ چنانچہ آج بھی بحیرۂ مردار قوم لوط پر نازل ہونے والے اس خدائی قہر کی زندہ شہادت کے طور پر موجود ہے۔
سابقہ کتب سماویہ میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اور تورات و انجیل دونوں میں اس فعل بد کو حرام کاری قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔
قوم لوط کے مرد مردوں سے اور ان کی عورتیں عورتوں سے خواہشات پوری کرتی تھیں؛
وقد حكى بعض المفسرين أن من أسباب هلاك نساء قوم لوط أنهن كن يفعلن هذه الفعلة الشنيعة، لأنه لما استغنى رجالهم بالرجال عن النساء، ولم تجد النساء من يقضي وطرهن من الرجال استغنى بعضهن ببعض عن الرجال.
جاء في تفسير الألوسي رحمه الله: وبدأ أيضاً السحاق في قوم لوط عليه السلام فكانت المرأة تأتي المرأة، فعن حذيفة رضي الله تعالى عنه: إنما حق القول على قوم لوط عليه السلام حين استغنى النساء بالنساء والرجال بالرجال. وعن أبي حمزة رضي الله تعالى عنه: قلت لمحمد بن علي: عذب الله تعالى نساء قوم لوط بعمل رجالهم؟ فقال: الله تعالى أعدل من ذلك استغنى الرجال بالرجال والنساء بالنساء. انتهى. (روح المعانی)
قربِ قیامت میں احادیث کے مطابق اِس امّت میں یہ روگ عام ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہلاکت کا فیصلہ آجائے گا۔
جب میری اُمّت پانچ چیزوں کو حلال سمجھ لے تو اُن کے اوپر ہلاکت آجائے گی :ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں، شرابیں پینے لگیں، ریشم پہننے لگیں، گانے والیاں رکھنے لگیں، (شہوتوں کو پورا کرنے کے لئے) مرد مردوں پر اور عورتیں عورتوں پراکتفاء کرنے لگیں۔
إِِذَا اسْتَحَلَّتْ أُمَّتِي خَمْسًا فَعَلَيْهِمُ الدَّمَارُ، إِِذَا ظَهَرَ التَّلَاعُنُ، وَشَرِبُوا الْخُمُورَ، وَلَبِسُوا الْحَرِيرَ، وَاتَّخِذُوا الْقِيَانَ، وَاكْتَفَى الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ۔ (شعب الایمان:5086)(تحریم الفروج)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد ہے: دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ عورتیں عورتوں کے ذریعہ اور مرد مردوں کے ذریعہ (شہوتوں سے) مستغنی ہوجائیں گے ،اور ”سحاق“ عورتوں کے مابین زنا ہے۔
لا تذهب الدنيا حتى يستغني النساء بالنساء والرجال بالرجال والسحاق زنا النساء فيما بينهن۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر :10/119)(کنز العمال :38500)
حضرت واثلہ بن اسقع مرفوعاً نقل فرماتے ہیں کہ عورتوں کا باہمی سحاق(شہوت پوری کرنا) زنا ہے ۔سِحَاقُ النِّسَاءِ زِنًا بَيْنَهُنَّ۔ (شعب الایمان: 5082)
سحاقُ النساءِ بينَهن زنًا.
الراوي: واثلة بن الأسقع الليثي أبو فسيلة المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 6/259
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
السُّحاقُ زنا النساءِ .
الراوي: واثلة بن الأسقع الليثي أبو فسيلة المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: لسان الميزان - الصفحة أو الرقم: 2/304

نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد ہے: 
جب مرد مرد کے پاس اور عورت عورت کے پاس (شہوت پوری کرنے لئے) آئے تو وہ دونوں زانی ہیں؛
إِذَا أَتَى الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَهُمَا زَانِيَانِ، وَإِذَا أَتَتِ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَهُمَا زَانِيَانِ۔(شعب الایمان: 5075)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد ہے: 
وہ شخص ملعون ملعون ملعون ہے جو قومِ لوط کا عمل (لواطت) کرے۔ 
مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۔(شعب الایمان:5089)
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
قسم اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، یہ دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگوں میں دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا اور پتھروں کی بارش کا ہونا پایا جائے گا، 
لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا کب ہوگا ؟
 آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
جب تم عورتوں کو دیکھو کہ وہ زینوں (سواریوں پر) سوار ہورہی ہیں، گانے والیاں زیادہ ہوگئیں اور جھوٹی گواہی دی جانے لگے، مسلمان مشرکین کے برتن یعنی سونے چاندی کے برتن میں پینے لگیں، اور مرد مردوں کے ذریعہ اور عورتیں عورتوں کے ذریعہ (شہوت سے) مستغنی ہوجائیں، تو بس اُس وقت تیار ہوجاؤ:
وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَا تَنْقَضِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَتَّى يَقَعَ بِهُمُ الْخَسْفُ وَالْمَسْخُ وَالْقَذْفُ، قَالُوا: وَمَتَى ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ النِّسَاءَ قَدْ رَكِبْنَ السُّرُوجَ، وَكَثُرَتِ الْقَيْنَاتُ، وَشُهِدَ شَهَادَاتُ الزُّورِ، وَشَرِبَ الْمُسْلِمُونَ فِي آنِيَةِ أَهْلِ الشِّرْكِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَاسْتَغْنَى الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ فَاسْتَدْفِرُوا وَاسْتَعِدُّوا۔ (مستدرکِ حاکم: 8349)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ جانوروں کی طرح سے راستوں میں بدکاری کریں گے، مرد مردوں کے ذریعہ اور عورتیں عورتوں کے ذریعہ (شہوتوں سے) مستغنی ہوجائیں گے، 
اُس کے بعد اُنھوں نے سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہوکہ ”تساحق“ کیا ہے؟ 
لوگوں نے کہا: نہیں، 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: 
یہ کہ عورت عورت پر سوار ہوجائے اور اُس کے ساتھ ”سحاق“ یعنی شہوت پوری کرے:
۔لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَسَافَدَ النَّاسُ فِي الطُّرُقِ كَمَا يَتَسَافَدُ الدَّوَابُّ، يَسْتَغْنِي الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ، أَتَدْرُونَ مَا التَّسَاحُقُ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: تَرْكَبُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ تَسْحَقُهَا۔(الفتن لنعیم :1794)
اسلام کی طرح بدکاری کی سزا سابقہ آسمانی مذاہب میں بھی یہی تھی کہ بدکاری کے مرتکب شادی شدہ افراد کو سنگسار کردیا جاتا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جہاں زنا کی سزا بیان کی ہے وہاں لواطت کے اس عمل قبیح کی سزا یہ بیان فرمائی ہے کہ، 
’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دیا جائے‘‘۔ 
امت کے تمام فقہی مکاتب فکر میں یہ فعل حرام سمجھا گیا ہے اور اس کی سزا موت بیان کی گئی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ احناف کے نزدیک موت کی یہ سزا شرعی حد کے طور پر نہیں بلکہ تعزیر کے طور پر ہے، جبکہ باقی فقہاء نے اسے حد شرعی قرار دیا ہے۔ لیکن اس فعل کے حرام اور قبیح ہونے اور اس کے مرتکب افراد کو سخت سزا دینے پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
لواطت شرعی طور پر انتہائی غلط اور شرمناک فعل ہونے کے ساتھ ساتھ طبی طور پر انسان کے لئے سخت نقصان دہ ہے اور عام انسانی اخلاق کے حوالہ سے بھی اسے کبھی اچھا کام نہیں سمجھا گیا۔ انسانیت وشرافت سے گری ہوئی بات ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور /بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment