Tuesday 14 November 2017

قدیم قبرستان کا بھراؤ کرکے برابر کرنا؟

قدیم وبوسیدہ قبرستان کا بھراؤ کرکے برابر کرنا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی شکیل صاحب کی خدمت اقدس میں ایک مسئلہ پیش کررہا ہوں کہ ہمارے یہاں کی قبرستان کی اکثر قبریں دھنس گئی ہیں اور قبرستان کی زمین فل ہوگئی ہے کیا ایسی صورت میں پوری قبرستان کو مٹی سے بھرا جاسکتا ہے یانہیں مدلل مسئلہ کی وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی
المستفتی احتشام الحق
نوادوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
شخصی اور مملوکہ قبرستان کی تازہ قبریں اگر کسی وجہ سے دھنس جائیں تو انہیں درست کرکے اس پہ نئی مٹی ڈالنادرست ہے تاکہ قبر ہونا معلوم ہوسکے اور لوگ اس پہ بول وبراز اور بے حرمتی سے اجتناب کرسکیں۔نیز پرانی قبروں پہ بھی مٹی ڈالنا درست ہے تاکہ صاحب قبر کے رشتہ دار ایصال ثواب اور زیارت قبور  کے لئے آسکیں ۔کیونکہ زیارت قبور مستحب ہے ۔اگر نشانات قبر بالکل ہی ناپید ہوجائیں تو قبر کی شناخت نہ ہو پائے گی ۔
تاہم عام قبرستانوں میں پرانی  بوسیدہ قبروں کو اس طرح مٹی ڈال کر درست کرتے رہنے سے تنگی جگہ یقینی ہے جس سے عام لوگوں کو پریشانی ہوگی۔اس لئے عمومی موقوفہ قبرستانوں میں ایسا نہ کیا جائے۔ہاں تازہ قبریں اس طرح متاثر ہوگئی ہوں تو عمومی مقبرے میں بھی قبروں میں مٹی ڈال کر قبر ظاہر کردینے میں کوئی حرج نہیں۔
قبروں کے احترام اور بے حرمتی سے اجتناب کا حکم اس وجہ سے ہے کہ مردوں کے اعضاء قابل تکریم ہوتے ہیں۔لہذا اگر قبریں اتنی پرانی ہوچکی ہوں کہ مردہ کے اعضا سڑ گل کر مٹی ہوچکے ہوں تو اب قبروں کے احترام کا یہ حکم باقی نہیں رہتا۔بنابریں  اس میں  دوسروں کو دفن کرنا یا شخصی مقبرہ ہونے کی صورت میں اسے برابر کرکے اس پہ گھر بنانا یا اس پہ کھیتی کرنا سب درست ہے ۔
اس اصول کے پیش نظر اگر عمومی قبرستان کی پرانی قبریں برسات  کے آبی جمائویا کسی اور وجہ سے زمیں بوس ہوگئی یا دھنس گئی ہوں تو پرانی قبروں کو برابر کرکے  پورے مقبرہ کو مٹی سے برابر کردینا شرعا درست ہے ۔اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔بلکہ کثیر آبادی والی آبادی میں کبھی ایساعمل ضروری ہوجاتا ہے تاکہ نئی قبروں کے لئے جگہ نکل سکے۔ہاں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس مٹی سے قبرستان برابر کیا جارہا ہو وہ مٹی شرعا جائز ، ماذون اور درست مصرف کی ہوں۔
سئل محمد بن سیرین ہل تطین القبور؟ فقال: لا أعلم بہ بأسًا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / في تطیین القبر وما ذکر فیہ ۷؍۳۶۲ رقم: ۱۱۹۲۳)
المختار التطیین غیر مکروہ وکان عصام بن یوسف یطوف حول المدینۃ ویعمر القبور الخربۃ کما في القہستاني۔ (مجمع الأنہر ۱؍۱۸۷، البحر الرائق ۲؍۱۹۴، حلبي کبیر ۵۹۹، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۶۶، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۷۰-۷۱ رقم: ۳۷۳۵ زکریا)
(ولا یطیین) لان عبارۃ السراجیۃ کما نقلہ الرحمتي ذکر في تجرید أبي الفضل أن تطیین القبور مکروہ والمختار أنہ لا یکرہ الخ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۱۴۴ زکریا)   (کفایت المفتی ۴؍۳۸، فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۳۷۵، امداد الفتاویٰ ۱؍۷۵۸)
عن أبي الہیاج الأسدي قال: قال لي علي رضي اللّٰہ عنہ: ألا أبعثک علی ما بعثني علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لاتدع تمثالاً إلا طمستہ ولا قبراً مشرفا إلا سویتہ۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۱۲)
ولو بلی المیت وصار تراباً جاز دفن غیرہ، ورزعہ والبناء علیہ الخ۔ ( ۱؍۱۶۷، طحطاوي علی مراقي الفلاح / فصل في حملہا ودفنہا ۵۰۵)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث والدراسات الإسلامية العالمي . 
سیدپور /بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment