Tuesday 28 November 2017

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے


شیخ محمد ابراہیم ذوق
سارہ الیاسی 
جب کسی فردبشر پر سرد گرم حالات حد سے تجاوز کرتے ہیں تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
شعر تو زبان زد عام ہے لیکن عام طور لوگوں کو علم نہیں ہے کہ یہ شعرآخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے استادشیخ ابراہیم ذوق کا ہے۔دبستان دہلی میں ذوق کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔آپ کا محمد ابراہیم نام جبکہ ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے بیٹے تھے۔ 1789کے دوران دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہوگیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہوگئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراءخاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپے تک جا پہنچی۔ 
بقول شخصے احساسات کے تنوع اور جذبہ کا فقدان کو ان کی غزل کی اساسی صفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے محض الفاظ کے سہارے شاعری کی۔ جہاں تک ایسی شاعری کا تعلق ہے، خوب کی۔ اس آخری ہچکی تمدن کے افراد میں ذوق کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہی اشعار کا فکر سے پاک ہونا ہے۔ بس چلتی باتیں ہیں جنہیں محاورات کی چاشنی اور زور بیان سے ذود ہضم بنانے کی سعی ملتی ہے۔ ذوق پر گو تھے اور اردو زبان میں محاورات کی کمی نہیں۔ چنانچہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ذوق نے تمام محاورات منظوم کرنے کی شرط باندھ رکھی ہے۔ فکر اورجذبہ کی کمی محاورات سے پوری کرنے کی کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض اشعار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ صرف محاورہ بندی ہی کے لئے لکھے گئے۔ ویسے حسن و عشق کی واردات بھی ہیں اور تصوف اور اخلاقی پند بھی لیکن سب روایتی معلوم ہوتے ہیں۔ الغرض ان کے یہاں تاثیر کے علاوہ باقی سب کچھ مل سکتا ہے۔ حالانکہ غزلیں کافی سے زیادہ طویل ہیں۔ 
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے 
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

ہوعمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سناں کو 
چڑھ سر کے بل سے زینے پہ تا بام محبتی
................
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے

قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے 

صف مثرگان تری خدا کی پناہ
اک بلا ایک بلا سے لڑتی ہے 

شور و غل قل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی آشنا سے لڑتی ہے 

نگہ ناز اس کی عاشق سے 
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے 

تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے

آج کہتے ہو کیا طبعیت کو
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے

تیری شمشیر خوں کے چھنٹوں سے 
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے 

دیکھو اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے 

ذوق دنیا ہے مکر کا میداں
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
............
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تم نے ٹہرائی اگر غیر کے گہر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹہر جائیں گے

خالی اے چارہ گر ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے

پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم 
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائیں گے

شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاﺅں
پرمجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے

ہم ہیں وہ جو کریں خون کا دعوی تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے

نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمار ہر گز
ہم جہاں سے روشن تیر نظر جائیں گے

ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آﺅ سنور جائیں گے
................
جان کے جی میں سدا جینے کا ارمان ہی رہا
دل کو بھی دیکھ کیے ھہ بھی پریشان ہی رہا

بعد مرون بھی خیال چشم فتاں ہی رہا
سبزھ تربت مرا وقف گلستان ہی رہا

میں ہمیشہ عاشق پیچیدہ موباں ہی رہا
خاک پر روئیدہ میرے عشق پیچاں ہی رہا

پستہ قدمی ہے کام غیر میں وہ لعل لب
پر مرے حق میں تو سنگ زیر دنداں ہی رہا

بندہ سکا مضمون نہ ہم سے اس دھان تنگ کا
ہاتھ اپنا فکر میں زیر زخنداں ہی رہا

جاہل منکر نہ آئے راہ پررمعجز سے بھی
جہل سے ابو جہل اپنی نا مسلمان ہی رہا

پاﺅں کب نکلے رکاب حلقہ زنجیر سے
تو سن وحشت ہمارا گرم جولاں ہی رہا

کب لباس دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمیر
خانہ فانوس میں بھی شعلہ عریاں ہی رہا

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیوان ہی رہا

جلوہ اے قاتل اگر تیرا نہیں حیرت فزا
دیدہ بسمل نے کیا دیکھا کہ حیران ہی رہا

حلقہ گیسو بے دیکھی کس کے رخسار کی تاب
شب مہ ہالہ نشین سرور گربیاں ہی رہا

مدتوں دل اور پیکاں دونوں سینے میں رہے
آخرش دل بہہ گیا خوں ہو کے پیکاں ہی رہا

اب کو دیکھا اس سے اور اس کو نہ دیکھا جوں نظر
وہ رہا آنکھوں میں اور آنکھوں مے پہناں ہی رہا

آگے زلفیں دل میں بستی تھیں اور اب آنکھیں تری
ملک دل اپنا ہمیشہ کافرستاں ہی رہا

مجھ میں اس میں ربط ہے گویا برنگ بوئے گل
وہ رہا آغوش میں لیکن گریزاں ہی رہا

دین و ایمان ڈھونڈتا ہے ذوق کیا اس وقت
اب نہ کچھ دیں ہی رہا باقی نہ ایمان ہی رہا 
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے 
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

ہوعمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سناں کو 
چڑھ سر کے بل سے زینے پہ تا بام محبتی
................
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے

قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے 

صف مثرگان تری خدا کی پناہ
اک بلا ایک بلا سے لڑتی ہے 

شور و غل قل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی آشنا سے لڑتی ہے 

نگہ ناز اس کی عاشق سے 
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے 

تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے

آج کہتے ہو کیا طبعیت کو
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے

تیری شمشیر خوں کے چھنٹوں سے 
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے 

دیکھو اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے 

ذوق دنیا ہے مکر کا میداں
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
............
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تم نے ٹہرائی اگر غیر کے گہر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹہر جائیں گے

خالی اے چارہ گر ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے

پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم 
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائیں گے

شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاﺅں
پرمجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے

ہم ہیں وہ جو کریں خون کا دعوی تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے

نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمار ہر گز
ہم جہاں سے روشن تیر نظر جائیں گے

ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آﺅ سنور جائیں گے
................
جان کے جی میں سدا جینے کا ارمان ہی رہا
دل کو بھی دیکھ کیے ھہ بھی پریشان ہی رہا

بعد مرون بھی خیال چشم فتاں ہی رہا
سبزھ تربت مرا وقف گلستان ہی رہا

میں ہمیشہ عاشق پیچیدہ موباں ہی رہا
خاک پر روئیدہ میرے عشق پیچاں ہی رہا

پستہ قدمی ہے کام غیر میں وہ لعل لب
پر مرے حق میں تو سنگ زیر دنداں ہی رہا

بندہ سکا مضمون نہ ہم سے اس دھان تنگ کا
ہاتھ اپنا فکر میں زیر زخنداں ہی رہا

جاہل منکر نہ آئے راہ پررمعجز سے بھی
جہل سے ابو جہل اپنی نا مسلمان ہی رہا

پاﺅں کب نکلے رکاب حلقہ زنجیر سے
تو سن وحشت ہمارا گرم جولاں ہی رہا

کب لباس دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمیر
خانہ فانوس میں بھی شعلہ عریاں ہی رہا

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیوان ہی رہا

جلوہ اے قاتل اگر تیرا نہیں حیرت فزا
دیدہ بسمل نے کیا دیکھا کہ حیران ہی رہا

حلقہ گیسو بے دیکھی کس کے رخسار کی تاب
شب مہ ہالہ نشین سرور گربیاں ہی رہا

مدتوں دل اور پیکاں دونوں سینے میں رہے
آخرش دل بہہ گیا خوں ہو کے پیکاں ہی رہا

اب کو دیکھا اس سے اور اس کو نہ دیکھا جوں نظر
وہ رہا آنکھوں میں اور آنکھوں مے پہناں ہی رہا

آگے زلفیں دل میں بستی تھیں اور اب آنکھیں تری
ملک دل اپنا ہمیشہ کافرستاں ہی رہا

مجھ میں اس میں ربط ہے گویا برنگ بوئے گل
وہ رہا آغوش میں لیکن گریزاں ہی رہا

دین و ایمان ڈھونڈتا ہے ذوق کیا اس وقت
اب نہ کچھ دیں ہی رہا باقی نہ ایمان ہی رہا 

مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854کو دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم ، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔ پہاڑ گنج، شمالی دہلی میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔
 ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی

No comments:

Post a Comment