Wednesday, 8 November 2017

حادثات سے بچنے کی دعاء

واقعہ مشہور ہے کہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ کے محلہ میں آگ لگ گئی، مکانات جلنے لگے، کسی نے آکر حضرت کو اطلاع دی کہ:
آپ کا گھر بھی نذرِ آتش ہوچکا ہے اور شعلے بلند ہو رہے ہیں،
آپ نے بہت اطمینان سے جواب دیا:
میرا گھر محفوظ ہے، پھر لگاتار کئی لوگوں نے آکر یہی اطلاع دی، لیکن آپ نے یہی جواب دیا:
میرا گھر نہیں جلا۔
چنانچہ آگ کے بجھنے کے بعد معلوم ہوا کے واقعی حضرت ابو الدرداء کا مکان محفوظ رہا ۔ کسی نے وجہ دریافت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد سنایا کہ:
جو شخص صبح ان کلمات کو پڑھ لے، شام تک اس کو کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوگی، اور میں نے صبح یہ کلمات پڑھ لئے تھے، وہ یہ ہیں:
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ عَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ ، أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي وَمِنْ شَرِّ كُلِّ دَابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاط مُسْتَقِيم.
واقعہ کی تخریج:
عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 54) حدیث 57 ، الدعاء للطبراني (ص: 128) حدیث 343 ، دلائل النبوة للبيهقي (7/ 121) ، الأسماء والصفات للبيهقي (1/ 423) حدیث 344 ، مكارم الأخلاق للخرائطي (ص: 283) حدیث 868 ، الترغيب والترهيب لقوام السنة (1/ 233) حدیث  340، العلل المتناهية في الأحاديث الواهية (2/ 351) حدیث 1400۔
حدیث کا حال: شدید الضعف
مذکورہ بالا کتبِ احادیث میں اس واقعہ کی اسانید کا مدار یہ ہے:
هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عن أَغْلَب بْن تَمِيمٍ الشَّعْوَذِيّ ، عن الْحَجَّاج بْن فُرَافِصَةَ ، عَنْ طَلْق بْن حَبِيبٍ
اس حدیث کی علت (أَغْلَب بْن تَمِيمٍ الشَّعْوَذِی) ہے، جو بہت زیادہ مجروح راوی ہے، امام بخاری نے کہا:
منكر الحديث، ابن معين کہتے ہیں:
ليس بشیء، اور ابن عدی کی رائے ہے: أحاديثہ غير محفوظہ، ابن الجوزی نے لکھا ہے: هَذَا حديث لا يثبت وآفتہ من الأغلب ، والله أعلم"۔
دیکھئے: ميزان الاعتدال (1/ 273)
لہذا یہ حدیث شدید الضعف ٹھہری، مگر بعض  حضرات جو اس روایت کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دے ر ہے ہیں، اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ دعاء اگر معتبر ہوتی تو ادعیہ واذکار کی کتابوں میں اسےجگہ دی جاتی، ان کی یہ بات درست نہیں ہے ۔
مجمل جواب کی تفصیل یہ ہے کہ:
مختلف کتب ومراجع کی طرف رجوع کرنے سے مجھے اس روایت کی ایک متابعت اور تین شواہد مل گئے، جس کی تفصیل یہ ہے:
۞ اغلب بن تمیم کی متابعت:
ابن عساکر نے تاریخ دمشق (64/ 118) میں اس حدیث کی سند اس طرح ذکر کی ہے:
... القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي ، حدثنا هدبة بن خالد القيسي ، حدثنا ديلم بن غزوان ، حدثنا الحجاج بن فرافصة ، عن طلق بن حبيب قال : جاء رجل إلى أبي الدرداء وقال : يا أبا الدرداء احترق بيتك ... فذكر الحديث
ابن عساکر فرماتے ہیں: كذا قال: (عن ديلم بن غزوان) وإنما يرويه هُدبة عن الأغلب بن تميم عن الحجاج ۔
ابن عساکر نے سندمیں (دیلم بن غزوان) کے ذکر  کی غرابت محسوس کرتے ہوئے مشہور سند نقل کی ہے، لیکن غلط قرار نہیں دیا ہے۔ تو دیلم کی متابعت سے اغلب کا تفرد دور ہوگیا ، اور سند کو تقویت مل گئی ۔دیلم بن غزوان کی علماء حدیث نے توثیق کی ہے ۔
۞ روایت کے شواہد :
پہلا شاہد: حسن بصری کی روایت
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا مُعَاذٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : حَدَّثَنِي رَجُلٌ  عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ : أَدْرِكْ فَقَدِ احْتَرَقَتْ دَارُكَ ، فَقَالَ: مَا احْتَرَقَتْ دَارِي ، فَذَهَبَ ثُمَّ جَاءَ فَقِيلَ لَهُ : أَدْرِكْ دَارَكَ فَقَدِ احْتَرَقَتْ ، فَقَالَ : لَا وَاللَّهِ مَا احْتَرَقَتْ ... الحديث
تخریج :
بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث (2/ 953) عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 55)
سند کا حال:
یہ سند ضعیف ہے ، معان مجہول الحال ہے ، اس کے شیخ بھی رجل مبہم لا یعرف ، صحابی کا نام بھی مذکور نہیں ہے ۔لیکن حافظ نے  (لسان الميزان 8/ 98) میں کہا : وأظنه مُعان بن رِفاعة الذي أخرجوا له. معان بن رفاعہ کی توثیق ابن المدینی ، دحیم، احمد وغیرہ نے کی ہے ۔
اور ابن حجر "نتائج الأفكار" (2/ 304) میں فرماتے ہیں:
"وهذا السند ضعيف؛ من أجل الرجل المُبهم ، ويبعُد تفسير الصحابي المذكور بأبي الدرداء ؛ لأن الحسن البصري لم يلقَه ؛ قال أبو زُرعة الرازي: "الحسنُ عن أبي الدرداء مُرسل"۔
دوسرا شاہد: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت
635- حدثنا أبو القاسم جبريل بن محمد بهمذان، حدثنا محمد بن إسحاق المكتب ، وأبو حفص عمر بن حفص المستملي قالا ، حدثنا محمد بن إدريس، حدثنا عبد الرحمن بن يحيى بن إسماعيل بن عبيد الله المخزومي، حدثنا يزيد أبو خالد، سمعت مكحولاً يقول:
جاء رجل إلى أبي هريرة رضي الله عنه، فقال: يا أبا هريرة قد وقعت النار في منزلك ، قال : لا والله ما وقعت النار في منزلي، ثم جاءه آخر فقال : يا أبا هريرة قد التهب منزلك ، قال: لا والله ما التهب منزلي ، ثم جاء آخر فقال : يا أبا هريرة قد دُفِع عن منزلك، قال: قد علمتُ أو عرفتُ ، فقال له قائل : والله ما ندري أيَّ قولك أعجب الأول أم الثاني، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:
(من قال: اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت ، عليك توكلت وأنت رب العرش العظيم ،لا إله إلا الله والله أكبر وسبحان الله ولاحول ولا قوة إلا بالله، ما شاء الله كان، وما لم يشأ لا يكون، أشهد أن الله على كل شيء قدير، وأن الله قد أحاط بكل شيء علماً، لم يُصِبه في يومه ذلك شيء يسوءُه لا في بدنه ولا ولده ولا أهله ولا ماله) ۔
مصدرہا: المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسی (ص: 320)۔ یہ مضبوط شاہد ہے زیر بحث روایت کے لئے۔
تیسرا شاہد: بنات النبی ﷺ  کی روایت
... عن عبد الله بن وهب ، قال: أخبرني عمرو بن الحارث ، أن سالما الفراء حدثه ، أن عبد الحميد مولى بني هاشم حدثه ، أن أمه حدَّثته - وكانت تخدُم بعض بناتِ النبي صلى الله عليه وسلم - أن ابنة النبي، صلى الله عليه وسلم حدثتها:
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعلمها فيقول : «قولي حين تُصبِحين : سبحان الله وبحمده ، لا قوة إلا بالله ، ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن ، أعلم أن الله على كل شيء قدير، وأن الله قد أحاط بكل شيء علما ، وأنه مَن قالها حين يُصبح حُفِظ حتى يُمسِي ، ومن قالها حين يُمسِي حُفظ حتى يُصبح » ۔
تخریج:
أخرجه أبو داود فی السنن (5075) ومن طريقه البيهقي في الأسماء والصفات (1/ 420 - 421/ 342) والنسائي في عمل اليوم والليلة (ص 140) ومن طريقه ابن السني فی عمل اليوم والليلة (ص: 46).
سند کا حال:
قال الحافظ المنذري : أم عبد الحميد لا أعرفها ۔ وقال الحافظ ابن حجر: لم أقف على اسمها ، وكأنها صحابية ۔
وفي "تخريج الاذکار" له: أم عبد الحميد لم أعرف اسمها ولا حالها ، لكن يغلب على الظن أنها صحابية ، فإن بنات النبي صلى الله عليه وسلم مِتن في حياته، إلا فاطمة، فعاشت بعده ستة أشهر أو أقل ، وقد وُصِفت بأنها كانت تخدُم التي رَوَت عنها، لكنها لم تُسَمّها، فإن كانت غير فاطمة، قوي الاحتمال، وإلا احتمل أنها جاءت بعد موت النبي صلى الله عليه وسلم، والعلم عند الله.
رد دعوی:
اور معترضین کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ: حضرت ابو الدرداء کی روایت ادعیہ واذکار کی کتابوں میں وارد نہیں ہے، اس دعاء کو امام نووی نے (الاذکار ت الأرنؤوط ص : 84) میں ، اور شیخ ابن تیمیہ نے (الكلم الطيب ص : 25) میں ذکر کیا ہے ۔شاید (الحزب الاعظم ) میں بھی ہوگی۔
خلاصہ یہ ہے کہ: یہ تینوں شواہد مل کر زیر بحث روایت  کو تقویت پہنچاتے ہیں ، اور متابعت وشواہد کے ہوتے ہوئے روایت کو ساقط الاعتبار قرار دینا بہت مشکل ہے، بلکہ غلو غیر محمود ہے۔
جمعہ ورتبہ العبد الفقیر: محمد طلحہ بلال احمد منیار ، کان اللہ لہ

No comments:

Post a Comment