سوال: السلام علیکم
میں ایک سوال پو چھنا چاہتا ہوں. میری بہن نقاب والی ہے، چہرہ کا پردہ کرنے والی ہے. اس کو نکاح کے پیغام بہت آتے ہیں لیکن اس پردہ کی وجہ سے وہ پیغام ٹوٹ جاتے ہیں. برقعہ سے تو کوئی مضائقہ نہی ہے لیکن چہرہ کے پردہ کی وجہ سے نکاح نہیں، کرے. مجھے واضح کے ساتھ بتلا ئیے نکاح اور نقاب میں کونسی چیز ضروری ہے؟ اگر نقاب چھوڑکر نکاح کیا تو گناہ ہوگا یا نہیں؟
محمد اسماعیل برما
میں ایک سوال پو چھنا چاہتا ہوں. میری بہن نقاب والی ہے، چہرہ کا پردہ کرنے والی ہے. اس کو نکاح کے پیغام بہت آتے ہیں لیکن اس پردہ کی وجہ سے وہ پیغام ٹوٹ جاتے ہیں. برقعہ سے تو کوئی مضائقہ نہی ہے لیکن چہرہ کے پردہ کی وجہ سے نکاح نہیں، کرے. مجھے واضح کے ساتھ بتلا ئیے نکاح اور نقاب میں کونسی چیز ضروری ہے؟ اگر نقاب چھوڑکر نکاح کیا تو گناہ ہوگا یا نہیں؟
محمد اسماعیل برما
جواب: گناہ تو ہوگا ہے. پردہ کرنا فرض ہے
فتاوی محمودیہ
فتاوی محمودیہ
سوال: چہرہ کا پردہ کس درجے میں ہے مہر بان کرکے جواب دے.
جواب: آج کے ماحول میں فرض کے درجے میں ہے.
جواب: آج کے ماحول میں فرض کے درجے میں ہے.
.....................
سوال: کیا عورتوں کے لئے چہرے کا پردہ کرنا فرض ہے یا واجب ہے یا مستحب ہے؟ اور جو عورت صرف چہرے کا پردہ نہ کرے اس کے لئے کیا حکم ہے؟
Published on: Feb 4, 2009
جواب # 10573
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 219=161/ ھ
فرض ہے،
Published on: Feb 4, 2009
جواب # 10573
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 219=161/ ھ
فرض ہے،
کذا فی تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۵۱۸،
جو عورت کوتاہی کرتی ہے وہ گنہ گار ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
..........
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
..........
قرآن کریم کی سات آیات اور حدیث کی ستر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کا اصل مطلوب ایسا حجاب ہے جس میں عورت کا وجود ان کی نقل وحرکت اور ظاہر ومخفی زینت کا کوئی حصہ کسی اجنبی مرد کو نظر نہ آئے، یہ حجاب (پردے) کا پہلا درجہ ہے، جس کا حکم آیات ذیل میں دیا گیا ہے:
(۱) وَقَرْنَ فِي بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی
(احزاب: ۳۳)
قرار رکھو اپنے گھروں میں اور زمانہ جاہلیت کی طرح بے حجابانہ مت پھرو۔
(۲) وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ (احزاب: ۵۳)
(۱) وَقَرْنَ فِي بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی
(احزاب: ۳۳)
قرار رکھو اپنے گھروں میں اور زمانہ جاہلیت کی طرح بے حجابانہ مت پھرو۔
(۲) وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ (احزاب: ۵۳)
اور جب تم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگا کرو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ ان آیات کا صریح مدلول یہی ہے کہ عورتوں کا کوئی حصہٴ بدن کسی اجنبی کے سامنے ظاہر نہ ہو،
ففي أحکام القرآن للتھانوی: وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعي ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شيء من أبدانہن وزینتہن․ (۳/۴۰۸ ط: ادارة القرآن کراچی)
ففي أحکام القرآن للتھانوی: وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعي ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شيء من أبدانہن وزینتہن․ (۳/۴۰۸ ط: ادارة القرآن کراچی)
البتہ بسا اوقات کسی دینی یا دنیوی ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر نکلنا ناگزیر ہوتا ہے تو ایسے موقع پر فقہائے کرام نے حجاب کا دوسرا درجہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے جو یہ ہے کہ عورتیں سر سے پاوٴں تک برقع یا لمبی چادر سے پورے بدن کو چھپاکر نکلیں جس سے چہرہ ہتھیلیاں اور بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو، راستہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھ کھولیں یا برقع میں آنکھ کی جگہ جالی لگالیں، حجاب کا یہ دوسرا درجہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ (احزاب: ۵۹)
”اے پیغمبر کہہ دیجئے اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے کہ سر سے نیچی کرلیا کریں اپنے چہرے کے اوپر اپنی چادریں“۔
اس آیت کریمہ میں گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی تعلیم ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أمر اللہ نساء الموٴمنین إذا خرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة (احکام القرآن: ۳/۱۴۳، ط: ادارة القرآن کراچی)
جہاں تک بات ہے اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے چہرہ کھولنے کی تو اگرچہ بعض روایات میں اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن محققین علماء نے دیگر نصوص کی روشنی میں اسے ”امن فتنہ“ کے ساتھ مقید کیا ہے، اسی لیے جوان عورتوں کو علی الاطلاق اجنبیوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے منع فرمایا ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ (احزاب: ۵۹)
”اے پیغمبر کہہ دیجئے اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے کہ سر سے نیچی کرلیا کریں اپنے چہرے کے اوپر اپنی چادریں“۔
اس آیت کریمہ میں گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی تعلیم ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أمر اللہ نساء الموٴمنین إذا خرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة (احکام القرآن: ۳/۱۴۳، ط: ادارة القرآن کراچی)
جہاں تک بات ہے اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے چہرہ کھولنے کی تو اگرچہ بعض روایات میں اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن محققین علماء نے دیگر نصوص کی روشنی میں اسے ”امن فتنہ“ کے ساتھ مقید کیا ہے، اسی لیے جوان عورتوں کو علی الاطلاق اجنبیوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے منع فرمایا ہے:
ففي الدر المختار مع رد المحتار: وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورة بل لخوف الفتنة
(۲/۷۹ ط: زکریا دیوبند)
لہٰذا اس پرفتن دور میں پردے کی فرضیت کو پورا کرنے کے لئے برقع یا اس جیسا کوئی کپڑا جو حجاب کے تقاضے کو پورا کرنے والا ہو، پہننا ضروری ہے، ورنہ گنہگار ہوگی۔
http://googleweblight.com/i?u=http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Womens-Issues/57186&grqid=BGFe0-oy&hl=en-IN
(۲/۷۹ ط: زکریا دیوبند)
لہٰذا اس پرفتن دور میں پردے کی فرضیت کو پورا کرنے کے لئے برقع یا اس جیسا کوئی کپڑا جو حجاب کے تقاضے کو پورا کرنے والا ہو، پہننا ضروری ہے، ورنہ گنہگار ہوگی۔
http://googleweblight.com/i?u=http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Womens-Issues/57186&grqid=BGFe0-oy&hl=en-IN
.....
چہرے کا پردہ
۱…پردے کا حکم بلاشبہ ایک دینی اور شرعی امر ہے، لیکن پردے کا حکم خود شریعت کا مقصود نہیں، بلکہ ایک مہلک اور خطرناک فتنے یعنی بے حیائی عریانی، سیاہ کاری اور فحاشی کے سدباب اور اس کی روک تھام کے لئے پردے کا حکم دیا گیا ہے، یہ فتنہ انسانیت اور انسانی سوسائٹی کے لئے سم قاتل اور اقوام کی بربادی کا پیش خیمہ ہے، اس لئے شریعت مطہرہ نے بے حیائی اور فحاشی کے تمام ذرائع سے اسلامی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے پردے کا حکم دیا۔
اسلام نے حجاب فطری کا ایک ایسا حیا آموز اور خوش انجام پروگرام پیش کیا ہے جس کی پیروی ایک طرف شریفانہ اخلاق اور خواتین کی آبرو کی کفیل ہے، اور دوسری طرف عام مادی فلاح وبہبود اور تحفظ انسانیت وقومیت کی ضمانت دار ہے، جس کے دائرے میں نہ زنا قدم رکھ سکتا ہے اور نہ ہی دواعی واسباب زنا کی چل سکتی ہے۔
۲…پردے کے اہتمام کے لئے قرآن کریم میں سات آیات اور ذخیرہ ٴ احادیث میں ستر سے زائد احادیث موجود ہیں جو عورتوں کے لئے پردے کے سلسلے میں رہنمائی کا کام دیتی ہیں ، چنانچہ ان آیات اور روایات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت کے لئے اصل پردہ اس کے گھر کی چار دیواری ہے، کیونکہ عورت کی مثال ایک مخفی خزانے کی ہے جس کو صرف وہی شخص کام میں لانے کا حقدار ہے جو اس خزانے کا شرعاً مالک ہو، اس سے عفت اور پاکدامنی کی فضا قائم ہوتی ہے، لیکن اگر یہ مخفی دولت اپنے مقرر کردہ مقام سے بغیر ضرورت شرعی باہر نکل کر غیر محرموں کی نگاہوں میں آجائے، آزادانہ چلت پھرت اختیار کرے، اجنبیوں سے بے حجاب اختلاط اور میل جول رکھے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول اور محو گفتگو ہو تو اس سے بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے، جس سے اسلامی معاشرے کی معاشرتی اور اخلاقی حدود پامال ہونا یقینی تھا، اس لئے شریعت مطہرہ میں سب سے پہلے عورت کو اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وقرن فی بیوتکن“ (احزاب:۳۳):…
اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من وراء حجاب “ (الاحزاب:۵۳) :…
اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر (کھڑے ہوکر وہاں سے) مانگا کرو۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ عورت کا اصل شرعی پردہ گھروں میں بیٹھنا ہے‘ تاکہ ان کا کوئی بھی حصہ مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہو اور پردے کا اہتمام اتنا شدید ہے کہ عورت کو اپنے زیورات کی آواز تک چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور غیر محرموں کو وہ آواز تک سنانے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱) :…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زورسے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔
حدیث شریف میں رسول اللہ اکا ارشاد گرامی منقول ہے:
”المرأة عورة، فاذا خرجت استشرفہا الشیطان “ رواہ الترمذی۔“
(مشکوٰة کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة وبیان العورات الفصل الثانی،ص:۲)
ترجمہ:… عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، چنانچہ جب کوئی عورت (اپنے پردے سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے۔ (مظاہر حق ۳/۲۶۸)
ایک صحابیہ حضرت ام حمید ساعدیہ رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ:
یارسول اللہ! میری پسند خاطر یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
” قد علمت انک تحبین الصلوٰة معی وصلوٰتک فی بیتک خیر لک من صلوتک فی حجرتک، وصلوتک فی حجرتک خیر لک من صلوتک فی دارک، وصلوتک فی دارک خیر لک من صلوتک فی مسجد قومک، وصلوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلوتک فی مسجدی“۔ (رسالة تفصیل الخطاب فی تفسیر آیات الحجاب، جزء من احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن علی مسائل النعمان ۵/۲۸۴ طبع انٹرنیشنل پریس میکلو روڈ کراچی)
ترجمہ:…”میں نے سمجھ لیا، پس بات (مختصر) یہ ہے کہ تیری نماز تیرے گھر کی کوٹھری میں افضل ہے گھر کے دالان سے، اور دالان میں تیری نماز افضل ہے عام صحن کی نماز سے اور عام صحن کی نماز افضل ہے، مسجد محلہ میں نماز پڑھنے سے، اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے میری مسجد میں نماز پڑھنے سے“۔ (شرعی پردہ از مولانا قاری محمد طیب)
غور کیجئے! کہ نماز جیسی اہم عبادت اور وہ بھی مسجد نبوی ا میں، سرکار دوعالم ا کی اقتداء میں، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایسی جماعت کے ہمراہ کہ جن کی عفت مآب زندگی امت محمدیہ کے لئے تحفظ عفت وعصمت کا اعلیٰ نمونہ اور مثال ہے، اس کے باوجود آپ اکا ان صحابیہ کو اپنے گھر ہی میں چھپ کر پڑھنے کو افضل قرار دینے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عورت کے لئے فطری ما حول اس کی چار دیواری ہے۔
انہی نصوص کو بنیاد بناکر امت مسلمہ کے فکر سلیم رکھنے والے دانشوروں اور داناؤں نے جنہیں دنیا فقہاء کرام کے نام سے جانتی ہے، یہ فتویٰ جاری کیا کہ عورت کا بلاضرورت شرعی گھر سے نکلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، علامہ آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں:
”وقد یحرم علیہن الخروج بل قد یکون کبیرة کخروجہن لزیارة القبور اذا عظمت مفسدتہ وخروجہن ولو الی المسجد وقد استعطرن وتزین اذا تحققت الفتنة واما اذا ظنت فہو حرام غیر کبیرة، وما یجوز من الخروج کالخروج للحج وزیارة الوالدین وعیادة المرضیٰ وتعزیة الاموات من الاقارب ونحو ذلک فانما یجوز بشروط مذکورة فی محلہا“۔ (روح المعانی ج:۸، جزء ۱۱ ص:۱۸۸دار الکتب العلمیہ)
۳…اسلام ایک متشدد مذہب نہیں جس میں حکم کا صرف ایک ہی پہلو ہو کہ عورتیں گھروں ہی میں بیٹھی رہیں، بلکہ اسلام نے ان کی شرعی ضرورتوں کی بناء پر ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، البتہ اس فتنہ بے حیائی کے پیش نظر عورت پر گھر سے باہر نکلتے وقت کچھ پابند یاں لگائی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن“۔ (الاحزاب:۵۹)
ترجمہ:…اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچی کرلیا کریں اپنے (چہرے) کے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں“۔
اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس پردے کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عورت جب کسی ضرورت شرعی کی وجہ سے باہر نکلے تو ایک بڑی چادر کے ذریعے سر اور چہرہ ڈھانپ کر نکلے اور صرف راستہ دیکھنے کے لئے ایک آنکھ کھلی رہے“۔
”امر الله نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطیہن وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة“۔ (تفسیر ابن کثیر ۵/۲۳۱)
اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ولاتبرجن تبرج الجاہلیة الالیٰ“ (الاحزاب:۳۳) … اور قدیم زمانہ ٴ جہالت کے دستور کے مطابق مت پھرو، (جس میں بے پردگی رائج تھی، گوبلافحش ہی کیوں نہ ہو)
تبرج کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے محاسن مردوں کے سامنے ظاہر کرے کہ جس سے مردوں میں اس کی طرف میلان پیدا ہوجائے، تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی زیب وزینت کو اسلام آنے کے بعداس طرح ظاہر نہ کرتی پھرو جس طرح اسلام سے پہلے کفر کے زمانے میں عورتیں کرتی تھیں۔ اسی طرح عورت نے اگر بوجہ امر شرعی باہر نکلنا ہی ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی لازمی ہے۔
۱…زیب وزینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال نہ کرے۔
۲…بجنے والا زیور استعمال نہ کرے،
۳…اس کی چال ناز ونخرے والی نہ ہو،
۴…راستے کے درمیان میں چلنے سے بچتے ہوئے ایک طرف کو ہوکر چلے،
۵…یہ باہر نکلنا سرپرست کی اجازت سے ہو،
۱…پردے کا حکم بلاشبہ ایک دینی اور شرعی امر ہے، لیکن پردے کا حکم خود شریعت کا مقصود نہیں، بلکہ ایک مہلک اور خطرناک فتنے یعنی بے حیائی عریانی، سیاہ کاری اور فحاشی کے سدباب اور اس کی روک تھام کے لئے پردے کا حکم دیا گیا ہے، یہ فتنہ انسانیت اور انسانی سوسائٹی کے لئے سم قاتل اور اقوام کی بربادی کا پیش خیمہ ہے، اس لئے شریعت مطہرہ نے بے حیائی اور فحاشی کے تمام ذرائع سے اسلامی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے پردے کا حکم دیا۔
اسلام نے حجاب فطری کا ایک ایسا حیا آموز اور خوش انجام پروگرام پیش کیا ہے جس کی پیروی ایک طرف شریفانہ اخلاق اور خواتین کی آبرو کی کفیل ہے، اور دوسری طرف عام مادی فلاح وبہبود اور تحفظ انسانیت وقومیت کی ضمانت دار ہے، جس کے دائرے میں نہ زنا قدم رکھ سکتا ہے اور نہ ہی دواعی واسباب زنا کی چل سکتی ہے۔
۲…پردے کے اہتمام کے لئے قرآن کریم میں سات آیات اور ذخیرہ ٴ احادیث میں ستر سے زائد احادیث موجود ہیں جو عورتوں کے لئے پردے کے سلسلے میں رہنمائی کا کام دیتی ہیں ، چنانچہ ان آیات اور روایات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت کے لئے اصل پردہ اس کے گھر کی چار دیواری ہے، کیونکہ عورت کی مثال ایک مخفی خزانے کی ہے جس کو صرف وہی شخص کام میں لانے کا حقدار ہے جو اس خزانے کا شرعاً مالک ہو، اس سے عفت اور پاکدامنی کی فضا قائم ہوتی ہے، لیکن اگر یہ مخفی دولت اپنے مقرر کردہ مقام سے بغیر ضرورت شرعی باہر نکل کر غیر محرموں کی نگاہوں میں آجائے، آزادانہ چلت پھرت اختیار کرے، اجنبیوں سے بے حجاب اختلاط اور میل جول رکھے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول اور محو گفتگو ہو تو اس سے بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے، جس سے اسلامی معاشرے کی معاشرتی اور اخلاقی حدود پامال ہونا یقینی تھا، اس لئے شریعت مطہرہ میں سب سے پہلے عورت کو اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وقرن فی بیوتکن“ (احزاب:۳۳):…
اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من وراء حجاب “ (الاحزاب:۵۳) :…
اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر (کھڑے ہوکر وہاں سے) مانگا کرو۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ عورت کا اصل شرعی پردہ گھروں میں بیٹھنا ہے‘ تاکہ ان کا کوئی بھی حصہ مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہو اور پردے کا اہتمام اتنا شدید ہے کہ عورت کو اپنے زیورات کی آواز تک چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور غیر محرموں کو وہ آواز تک سنانے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱) :…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زورسے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔
حدیث شریف میں رسول اللہ اکا ارشاد گرامی منقول ہے:
”المرأة عورة، فاذا خرجت استشرفہا الشیطان “ رواہ الترمذی۔“
(مشکوٰة کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة وبیان العورات الفصل الثانی،ص:۲)
ترجمہ:… عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، چنانچہ جب کوئی عورت (اپنے پردے سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے۔ (مظاہر حق ۳/۲۶۸)
ایک صحابیہ حضرت ام حمید ساعدیہ رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ:
یارسول اللہ! میری پسند خاطر یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
” قد علمت انک تحبین الصلوٰة معی وصلوٰتک فی بیتک خیر لک من صلوتک فی حجرتک، وصلوتک فی حجرتک خیر لک من صلوتک فی دارک، وصلوتک فی دارک خیر لک من صلوتک فی مسجد قومک، وصلوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلوتک فی مسجدی“۔ (رسالة تفصیل الخطاب فی تفسیر آیات الحجاب، جزء من احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن علی مسائل النعمان ۵/۲۸۴ طبع انٹرنیشنل پریس میکلو روڈ کراچی)
ترجمہ:…”میں نے سمجھ لیا، پس بات (مختصر) یہ ہے کہ تیری نماز تیرے گھر کی کوٹھری میں افضل ہے گھر کے دالان سے، اور دالان میں تیری نماز افضل ہے عام صحن کی نماز سے اور عام صحن کی نماز افضل ہے، مسجد محلہ میں نماز پڑھنے سے، اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے میری مسجد میں نماز پڑھنے سے“۔ (شرعی پردہ از مولانا قاری محمد طیب)
غور کیجئے! کہ نماز جیسی اہم عبادت اور وہ بھی مسجد نبوی ا میں، سرکار دوعالم ا کی اقتداء میں، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایسی جماعت کے ہمراہ کہ جن کی عفت مآب زندگی امت محمدیہ کے لئے تحفظ عفت وعصمت کا اعلیٰ نمونہ اور مثال ہے، اس کے باوجود آپ اکا ان صحابیہ کو اپنے گھر ہی میں چھپ کر پڑھنے کو افضل قرار دینے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عورت کے لئے فطری ما حول اس کی چار دیواری ہے۔
انہی نصوص کو بنیاد بناکر امت مسلمہ کے فکر سلیم رکھنے والے دانشوروں اور داناؤں نے جنہیں دنیا فقہاء کرام کے نام سے جانتی ہے، یہ فتویٰ جاری کیا کہ عورت کا بلاضرورت شرعی گھر سے نکلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، علامہ آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں:
”وقد یحرم علیہن الخروج بل قد یکون کبیرة کخروجہن لزیارة القبور اذا عظمت مفسدتہ وخروجہن ولو الی المسجد وقد استعطرن وتزین اذا تحققت الفتنة واما اذا ظنت فہو حرام غیر کبیرة، وما یجوز من الخروج کالخروج للحج وزیارة الوالدین وعیادة المرضیٰ وتعزیة الاموات من الاقارب ونحو ذلک فانما یجوز بشروط مذکورة فی محلہا“۔ (روح المعانی ج:۸، جزء ۱۱ ص:۱۸۸دار الکتب العلمیہ)
۳…اسلام ایک متشدد مذہب نہیں جس میں حکم کا صرف ایک ہی پہلو ہو کہ عورتیں گھروں ہی میں بیٹھی رہیں، بلکہ اسلام نے ان کی شرعی ضرورتوں کی بناء پر ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، البتہ اس فتنہ بے حیائی کے پیش نظر عورت پر گھر سے باہر نکلتے وقت کچھ پابند یاں لگائی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن“۔ (الاحزاب:۵۹)
ترجمہ:…اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچی کرلیا کریں اپنے (چہرے) کے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں“۔
اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس پردے کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عورت جب کسی ضرورت شرعی کی وجہ سے باہر نکلے تو ایک بڑی چادر کے ذریعے سر اور چہرہ ڈھانپ کر نکلے اور صرف راستہ دیکھنے کے لئے ایک آنکھ کھلی رہے“۔
”امر الله نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطیہن وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة“۔ (تفسیر ابن کثیر ۵/۲۳۱)
اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ولاتبرجن تبرج الجاہلیة الالیٰ“ (الاحزاب:۳۳) … اور قدیم زمانہ ٴ جہالت کے دستور کے مطابق مت پھرو، (جس میں بے پردگی رائج تھی، گوبلافحش ہی کیوں نہ ہو)
تبرج کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے محاسن مردوں کے سامنے ظاہر کرے کہ جس سے مردوں میں اس کی طرف میلان پیدا ہوجائے، تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی زیب وزینت کو اسلام آنے کے بعداس طرح ظاہر نہ کرتی پھرو جس طرح اسلام سے پہلے کفر کے زمانے میں عورتیں کرتی تھیں۔ اسی طرح عورت نے اگر بوجہ امر شرعی باہر نکلنا ہی ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی لازمی ہے۔
۱…زیب وزینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال نہ کرے۔
۲…بجنے والا زیور استعمال نہ کرے،
۳…اس کی چال ناز ونخرے والی نہ ہو،
۴…راستے کے درمیان میں چلنے سے بچتے ہوئے ایک طرف کو ہوکر چلے،
۵…یہ باہر نکلنا سرپرست کی اجازت سے ہو،
۶…راستے میں اس کی نگاہیں آزادانہ نہ ہوں بلکہ نگاہ نیچے کی ہوئی ہو،
۷…چلتے ہوئے مردوں کی بھیڑ میں اور رش میں نہ گھسے۔
ان تفصیلات سے بخوبی معلوم ہوا کہ اسلام کا مقصود اصلی صرف عورت کی عفت وپاکدامنی نہیں، بلکہ اسلامی سوسائٹی اور اس کے افراد کے درمیان بے حیائی، فحاشی وعریانی کی روک تھام مقصود ہے، جس کا سبب اصلی عورت کی بے حجابی اور بے پردگی ہے،اس لئے اسلام نے پردے کا اصل حکم عورت کو دے کر اس بات کا پابند بنایا کہ وہ گھر میں چھپی رہے اور بلاضرورت شرعی گھر سے نہ نکلے۔
۴…اب رہ گئی یہ بات کہ چہرے کا پردہ اسلام میں ہے یا نہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایک ہے بدن کافی نفسہ چھپانا جس کو ستر عورت کہتے ہیں اور دوسری چیز ہے اجنبی اور غیر محرموں سے پردہ۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ دو مختلف چیزیں ہیں اور ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے:
۱…ستر عورت یعنی بدن کا چھپانا ان بنیادی فطری امور سے ہے جس کے فرض ہونے پر تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں متفق رہی ہیں، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے سے پہلے بھی اس کا وجود تھا، چنانچہ جب حضرت آدم وحواء علیہما السلام سے ممنوعہ درخت سے پھل کھالینے کی وجہ سے جنتی لباس اترنے لگا تو انہوں نے اپنا بدن ظاہر ہونا گوارا نہ کیا، بلکہ فوراً اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے، تاکہ ستر عورت کا انتظام ہوجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”طفقا یخصفان علیہما من ورق الجنة“ (طہ:۱۲۱) … اور (اپنا بدن ڈھانکنے کو) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے“۔
شاہ ولی اللہ ”حجة الله البالغة“ میں لکھتے ہیں کہ ستر عورت یعنی بدن چھپانے کا اہتمام کرنا اتفاقی امور میں سے ہے:
”فاتفقوا مثلاً علی ازالة نتن الموتیٰ وستر سواٰتہم ثم اختلفوا فی الصور“
(جز ۱/۱۱۴ باب اتفاق الناس علی اصول الارتفاقات)
جبکہ اجنبی اور غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم ہجرت کے پانچویں سال نازل ہوا ۔
۲…ستر عورت فی نفسہ فرض ہے چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، اسی لئے فقہاء کرام نے تنہائی ویکجائی میں بھی ننگے بدن نماز پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے، کیونکہ ستر عورت کی شرط نہیں پائی گئی، لیکن حجاب اور پردہ اس وقت فرض ہوجاتا ہے جب اجنبی لوگوں کی نگاہوں میں آنے کا اندیشہ ہو۔
۳…ستر عورت کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے جبکہ حجاب اور پردے کا حکم عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔
ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد اب جاننا چاہئے کہ عورت کے لئے اپنے تمام بدن کا فی نفسہ چھپانا ضروری اور فرض ہے، اس لئے اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی،ستر عورت کے اس حکم میں عورت کا چہرہ اور ہاتھ بھی شامل ہیں، لیکن امور خانہ داری انجام دیتے وقت چہرہ اور ہاتھ چھپانے میں عورت کے لئے تنگی اور مشقت تھی، اس لئے شریعت میں ان کو ستر عورت کے فرض شدہ حکم سے مشتثنی قرار دے کر ہر وقت چہرہ چھپائے رکھنے کو لازم نہیں رکھا، البتہ اس کے اجنبی مردوں کے سامنے بھی کھلا رکھنے سے بے حیائی پھیلنے کے پیش نظر اس کے لئے پردے کا حکم دیا۔
ستر عورت اور حجاب (پردے) کے درمیان یہ فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ شبہ لگ جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ عورت چہرہ کھولے اجنبی مردوں کے سامنے آجاسکتی ہے، جیسے کہ سوال نمبر (۴) میں مذکور ہے اور اس کے لئے بنیادی آیت جو پیش کی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
”ولایبدین زینتہن الا ما ظہر منہا“ (النور:۳۱) :…اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (مواقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے“۔
لیکن اس آیت سے چہرے کے اجنبی مردوں سے پردہ نہ ہونے پراستدلال کرنا کئی وجوہ سے درست نہیں:
۱…”الاماظہر“ سے چہرہ ہی مراد لینا اور اس کی تفسیر چہرہ سے کرنا واضح اور متعین نہیں، کیونکہ اس کی تفسیر عہد صحابہ ہی میں مختلف رہی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ”زینة“ (سر جس کے چھپانے کا عورتوں کو حکم دیا گیا ہے) کی تفسیر عورت کی زیب وزینت کی اشیاء مثلاً: لباس ، زیورات وغیرہ سے کی ہے، یعنی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت اتنی شدت کے ساتھ پردے کی پابند ہو کہ اس کی زیب وزینت کی اشیاء بھی اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہوں، البتہ اس زینت کو چھپانے کے لئے جو بڑی چادر یا برقع استعمال کیا جاتا ہے اگر وہ اجنبی مردوں کی نگاہوں میں آجائے، اسی طرح اگر اس چادر یا برقع کے نیچے سے لباس کے کنارے ظاہر ہوں تو اس میں مضائقہ نہیں، کیونکہ ان کو چھپانے میں بھی حرج اور تنگی ہے۔ البتہ حضرت عبد اللہ بن عباس ا سکی تفسیر چہرہ سے کرتے ہیں ،لیکن اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام میں اجنبی مردوں سے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ صرف ستر عورت سے چہرے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، حرج اور تنگی کی بناء پر۔ اور اجنبی مردوں سے پردے کے حکم میں عورت کا باقی بدن اور چہرہ برابر ہیں کہ ان سب کو چھپانا ضروری ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے:
”وقال ابن مسعود کالرداء والثیاب یعنی علی ما کان یتعاطاہ نساء العرب من المقنعة التی تجلل ثیابہا، ومایبدو من اسافل الثیاب فلاحرج علیہا فیہ، لان ہذا لایمکن اخفاؤہ… عن عبد اللہ قال فی قولہ: ”ولایبدین زینتہن“ الزینة القرط والدملوج والخلخال والقلادة… قال: الزینة زینتان، فزینة لایراہا الا الزوج، الخاتم والسوار، وزینة یراہا الاجانب وہی الظاہر من الثیاب “ (ابن کثیر ۴/۵۳۸)
تفسیر احمدی میں ہے:
”ولذلک تری صاحب البیضاوی لم یجوز النظر الی الوجہ والکف مع انہ تیقن بجواز اظہار الوجہ والکف لالانہما لیست بعورة، والاظہر ان ہذا فی الصلوٰة لا فی النظر، فان کل بدن الحرة عورة لایحل لغیر الزوج والمحرم النظر الی شیئ منہاالا لضرورة کالمعالجة وتحمل الشہادة وہذا کلامہ ولایخفی حسنہ انتہی“۔ (ص:۵۶۲)
ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ”الاماظہر“ سے اول تو چہرہ مراد ہے ہی نہیں اور اگر اس سے چہرہ ظاہر کرنے کو مراد لیا جائے تب بھی اس کا تعلق صرف عورت کی ذات کی حد تک ہے اور بغیر ضرورت شرعی اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ ظاہر کرنا ناجائز ہے۔
۲…عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت اس تنگی اور حرج کو دور کرنے کے لئے تھی جو چہرہ ڈھانپ کر گھریلو کام کاج کرنے میں لازم آرہا تھا، جبکہ اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہیں کہ عورت کو ان کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔
۳…اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱)
ترجمہ…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے“۔
زیورات سے نکلنے والی آواز کو بھی غیر محرموں کو نہ سنانے سے بآسانی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ غیر محرموں کے سامنے چہرہ کھولنے کی ممانعت کتنی شدید ہوگی۔ احکام القرآن میں امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:
”قد عقل من معنی اللفظ النہی عن ابداء الزینة واظہارہا لورود النص فی النہی عن اسماع صوتہا، اذ کان اظہار الزینة اولیٰ بالنہی مما یعلم بہ الزینة، فاذا لم یجز باخفی الوجہین لم یجز باظہرہما“۔ (۳/۴۶۵)
۴…عورت کا چہرہ تمام محاسن کا مجموعہ اور تمام زینتوں کا منبع ہے، اگر باقی بدن مستور ہو اور صرف چہرہ ہی کھلا ہوا ہو تو اسلامی سوسائٹی میں بے حیائی اور فحاشی پھیلنے سے کیا چیز مانع ہوسکتی ہے، خصوصاً اس موجودہ دور میں اس فتنے سے حفاظت کس طرح ممکن ہے جبکہ نیکی اور بدی کے درمیان تمیز اٹھ چکی ہے، دل پلٹ چکے ہیں، بے حیائی قابل فخر ہے اور بے پردگی قابل ستائش۔
اور اگر بالفرض عورت کا چہرہ اس کی طرف سے پردے کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے کھلا ہوا ہو اور اس کی طرف سے غفلت پائی جارہی ہو تب بھی اسلام نے اس کی طرف دیکھنے کی مردوں کو اجازت نہیں دی، بلکہ ان کو نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے اور فقہاء کرام نے اجبنی عورتوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے، اگرچہ بے حیائی اور فحاشی کا شک بھی نہ ہو، چنانچہ اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم“۔ (النور:۳۰)
ترجمہ:…آپ مسلمان مردوں سے کہدیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اپنے رسالے تفصیل الخطاب میں لکھتے ہیں:
”والحاصل ان النظر الی وجہ الاجنبیة وکفیہا حرام عند المالکیة والشافعیة والحنابلة، سواء خیفت الفتنة اولا… ومشائخ الحنفیة کالجصاص والقہستانی لما رأوا ان ہذہ المواضع الشاذة ایضاً کادت تنعدم فی عصرہم فساد الزمان، حکموا بمنع الشابة عن کشف وجہہا بین الاجانب کما مر من الدر المختار ورد المحتار او من الجصاص فی احکام القرآن“۔ (احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن ۵/۲۹۹)
الغرض شریعت مطہرہ میں جس طرح عورت کے لئے باقی بدن چھپانے کا حکم ہے اسی طرح اس کے لئے اجنبی اور غیر محرموں سے چہرے کو چھپانے کا بھی حکم ہے اور ان کے سامنے بلاضرورت شرعی چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (۳/۵۴۶) میں لکھتے ہیں:
”یدنین علیہن من جلابیبہن“ … قال ابوبکر فی ہذہ الایة دلالة علی ان المرأة الشابة مامورة بستر وجہہا عن الاجنبین واظہار الستر والعفاف عند الخروج“۔
اب مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال میں ذکر کردہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:
۱… قرآن کریم کی آیت جو غض بصر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے سے متعلق ہے اس سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے ان کی طرف اگر اچانک بلاقصد نظر پڑ جائے تو فوراً نگاہیں جھکادی جائیں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا کہ عورت بے محابا اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھول کر گھومتی پھرے، کیونکہ چہرے کا پردہ جدا اور مستقل حکم ہے، جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے اور غض بصر جدا حکم ہے، غض بصر کے حکم سے چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
۲…حضرت ام شریک کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان کے پاس صحابہ کرام کا مجمع لگارہتا تھا تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ آنے والے صحابہ کرام اجنبی نہ تھے اور نہ ہی ان کے بارے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور تنہائی رکھیں گے جبکہ وہ رسول اللہ ا کا یہ ارشاد گرامی بھی سن چکے ہوں:
”ایاکم والدخول علی النساء“ ۔ (مشکوٰة: ص:۲۶۸)
ترجمہ:…(اجنبی) عورتوں کے نزدیک جانے سے اجتناب کرو۔
اور آپ اکا یہ ارشاد بھی ان کے سامنے ہو:
”لایخلون رجل بامرأة الا کان ثالثہما الشیطان رواہ الترمذی۔ (ص:۲۶۹)
ترجمہ:…جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یکجا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
بلکہ ان کے پاس آنے والے صحابہ کرام ان کے اپنے محرم رشتہ دار اور ان کی اولاد تھی، چنانچہ ملاعلی قاری مرقاة میں لکھا ہے:
”ای من اقاربہا واولادہا فلایصلح بیتہا للمعتدة“ (۶/۴۸۶)
لہذا اس حدیث سے محرم مردوں کے عورتوں کے پاس آنے جانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
۳…شریعت مطہرہ میں پردے کا حکم عورت کو دیا گیا ہے، مرد کو نہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے اجنبی مرد کو دیکھنے کا حکم اتنا شدید نہیں جتنا مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنے کا حکم شدید ہے لیکن عورت کے لئے اجنبی مرد کو دیکھنا صرف اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ یہ دیکھنا بنظر شہوت نہ ہو، البتہ اس کے حق میں بہتر اور فضیلت کی بات یہی ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھے، علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
”نعم غضہا بصرہا من الاجانب اصلا اولیٰ بہا واحسن“ (۹/۳۳۵)
لہذا عورتوں کے لئے ایسا نقاب تجویز کرنا صحیح ہے کہ جس سے ان کی اجنبی مردوں پر نظر نہ پڑ سکے تاکہ دلوں کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ بے حیائی اور فحاشی کی آلودگیوں سے پاک وصاف رہے۔
۴…ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق ماقبل میں گذر چکا ہے، چنانچہ فی نفسہ چہرہ اگرچہ ستر عورت میں داخل نہیں، لیکن اجنبی مردوں سے اس کا پردہ بہرحال ضروری اور لازمی ہے۔
۵…قرآن کریم کی اس آیت
ان تفصیلات سے بخوبی معلوم ہوا کہ اسلام کا مقصود اصلی صرف عورت کی عفت وپاکدامنی نہیں، بلکہ اسلامی سوسائٹی اور اس کے افراد کے درمیان بے حیائی، فحاشی وعریانی کی روک تھام مقصود ہے، جس کا سبب اصلی عورت کی بے حجابی اور بے پردگی ہے،اس لئے اسلام نے پردے کا اصل حکم عورت کو دے کر اس بات کا پابند بنایا کہ وہ گھر میں چھپی رہے اور بلاضرورت شرعی گھر سے نہ نکلے۔
۴…اب رہ گئی یہ بات کہ چہرے کا پردہ اسلام میں ہے یا نہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایک ہے بدن کافی نفسہ چھپانا جس کو ستر عورت کہتے ہیں اور دوسری چیز ہے اجنبی اور غیر محرموں سے پردہ۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ دو مختلف چیزیں ہیں اور ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے:
۱…ستر عورت یعنی بدن کا چھپانا ان بنیادی فطری امور سے ہے جس کے فرض ہونے پر تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں متفق رہی ہیں، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے سے پہلے بھی اس کا وجود تھا، چنانچہ جب حضرت آدم وحواء علیہما السلام سے ممنوعہ درخت سے پھل کھالینے کی وجہ سے جنتی لباس اترنے لگا تو انہوں نے اپنا بدن ظاہر ہونا گوارا نہ کیا، بلکہ فوراً اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے، تاکہ ستر عورت کا انتظام ہوجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”طفقا یخصفان علیہما من ورق الجنة“ (طہ:۱۲۱) … اور (اپنا بدن ڈھانکنے کو) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے“۔
شاہ ولی اللہ ”حجة الله البالغة“ میں لکھتے ہیں کہ ستر عورت یعنی بدن چھپانے کا اہتمام کرنا اتفاقی امور میں سے ہے:
”فاتفقوا مثلاً علی ازالة نتن الموتیٰ وستر سواٰتہم ثم اختلفوا فی الصور“
(جز ۱/۱۱۴ باب اتفاق الناس علی اصول الارتفاقات)
جبکہ اجنبی اور غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم ہجرت کے پانچویں سال نازل ہوا ۔
۲…ستر عورت فی نفسہ فرض ہے چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، اسی لئے فقہاء کرام نے تنہائی ویکجائی میں بھی ننگے بدن نماز پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے، کیونکہ ستر عورت کی شرط نہیں پائی گئی، لیکن حجاب اور پردہ اس وقت فرض ہوجاتا ہے جب اجنبی لوگوں کی نگاہوں میں آنے کا اندیشہ ہو۔
۳…ستر عورت کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے جبکہ حجاب اور پردے کا حکم عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔
ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد اب جاننا چاہئے کہ عورت کے لئے اپنے تمام بدن کا فی نفسہ چھپانا ضروری اور فرض ہے، اس لئے اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی،ستر عورت کے اس حکم میں عورت کا چہرہ اور ہاتھ بھی شامل ہیں، لیکن امور خانہ داری انجام دیتے وقت چہرہ اور ہاتھ چھپانے میں عورت کے لئے تنگی اور مشقت تھی، اس لئے شریعت میں ان کو ستر عورت کے فرض شدہ حکم سے مشتثنی قرار دے کر ہر وقت چہرہ چھپائے رکھنے کو لازم نہیں رکھا، البتہ اس کے اجنبی مردوں کے سامنے بھی کھلا رکھنے سے بے حیائی پھیلنے کے پیش نظر اس کے لئے پردے کا حکم دیا۔
ستر عورت اور حجاب (پردے) کے درمیان یہ فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ شبہ لگ جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ عورت چہرہ کھولے اجنبی مردوں کے سامنے آجاسکتی ہے، جیسے کہ سوال نمبر (۴) میں مذکور ہے اور اس کے لئے بنیادی آیت جو پیش کی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
”ولایبدین زینتہن الا ما ظہر منہا“ (النور:۳۱) :…اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (مواقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے“۔
لیکن اس آیت سے چہرے کے اجنبی مردوں سے پردہ نہ ہونے پراستدلال کرنا کئی وجوہ سے درست نہیں:
۱…”الاماظہر“ سے چہرہ ہی مراد لینا اور اس کی تفسیر چہرہ سے کرنا واضح اور متعین نہیں، کیونکہ اس کی تفسیر عہد صحابہ ہی میں مختلف رہی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ”زینة“ (سر جس کے چھپانے کا عورتوں کو حکم دیا گیا ہے) کی تفسیر عورت کی زیب وزینت کی اشیاء مثلاً: لباس ، زیورات وغیرہ سے کی ہے، یعنی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت اتنی شدت کے ساتھ پردے کی پابند ہو کہ اس کی زیب وزینت کی اشیاء بھی اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہوں، البتہ اس زینت کو چھپانے کے لئے جو بڑی چادر یا برقع استعمال کیا جاتا ہے اگر وہ اجنبی مردوں کی نگاہوں میں آجائے، اسی طرح اگر اس چادر یا برقع کے نیچے سے لباس کے کنارے ظاہر ہوں تو اس میں مضائقہ نہیں، کیونکہ ان کو چھپانے میں بھی حرج اور تنگی ہے۔ البتہ حضرت عبد اللہ بن عباس ا سکی تفسیر چہرہ سے کرتے ہیں ،لیکن اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام میں اجنبی مردوں سے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ صرف ستر عورت سے چہرے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، حرج اور تنگی کی بناء پر۔ اور اجنبی مردوں سے پردے کے حکم میں عورت کا باقی بدن اور چہرہ برابر ہیں کہ ان سب کو چھپانا ضروری ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے:
”وقال ابن مسعود کالرداء والثیاب یعنی علی ما کان یتعاطاہ نساء العرب من المقنعة التی تجلل ثیابہا، ومایبدو من اسافل الثیاب فلاحرج علیہا فیہ، لان ہذا لایمکن اخفاؤہ… عن عبد اللہ قال فی قولہ: ”ولایبدین زینتہن“ الزینة القرط والدملوج والخلخال والقلادة… قال: الزینة زینتان، فزینة لایراہا الا الزوج، الخاتم والسوار، وزینة یراہا الاجانب وہی الظاہر من الثیاب “ (ابن کثیر ۴/۵۳۸)
تفسیر احمدی میں ہے:
”ولذلک تری صاحب البیضاوی لم یجوز النظر الی الوجہ والکف مع انہ تیقن بجواز اظہار الوجہ والکف لالانہما لیست بعورة، والاظہر ان ہذا فی الصلوٰة لا فی النظر، فان کل بدن الحرة عورة لایحل لغیر الزوج والمحرم النظر الی شیئ منہاالا لضرورة کالمعالجة وتحمل الشہادة وہذا کلامہ ولایخفی حسنہ انتہی“۔ (ص:۵۶۲)
ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ”الاماظہر“ سے اول تو چہرہ مراد ہے ہی نہیں اور اگر اس سے چہرہ ظاہر کرنے کو مراد لیا جائے تب بھی اس کا تعلق صرف عورت کی ذات کی حد تک ہے اور بغیر ضرورت شرعی اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ ظاہر کرنا ناجائز ہے۔
۲…عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت اس تنگی اور حرج کو دور کرنے کے لئے تھی جو چہرہ ڈھانپ کر گھریلو کام کاج کرنے میں لازم آرہا تھا، جبکہ اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہیں کہ عورت کو ان کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔
۳…اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱)
ترجمہ…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے“۔
زیورات سے نکلنے والی آواز کو بھی غیر محرموں کو نہ سنانے سے بآسانی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ غیر محرموں کے سامنے چہرہ کھولنے کی ممانعت کتنی شدید ہوگی۔ احکام القرآن میں امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:
”قد عقل من معنی اللفظ النہی عن ابداء الزینة واظہارہا لورود النص فی النہی عن اسماع صوتہا، اذ کان اظہار الزینة اولیٰ بالنہی مما یعلم بہ الزینة، فاذا لم یجز باخفی الوجہین لم یجز باظہرہما“۔ (۳/۴۶۵)
۴…عورت کا چہرہ تمام محاسن کا مجموعہ اور تمام زینتوں کا منبع ہے، اگر باقی بدن مستور ہو اور صرف چہرہ ہی کھلا ہوا ہو تو اسلامی سوسائٹی میں بے حیائی اور فحاشی پھیلنے سے کیا چیز مانع ہوسکتی ہے، خصوصاً اس موجودہ دور میں اس فتنے سے حفاظت کس طرح ممکن ہے جبکہ نیکی اور بدی کے درمیان تمیز اٹھ چکی ہے، دل پلٹ چکے ہیں، بے حیائی قابل فخر ہے اور بے پردگی قابل ستائش۔
اور اگر بالفرض عورت کا چہرہ اس کی طرف سے پردے کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے کھلا ہوا ہو اور اس کی طرف سے غفلت پائی جارہی ہو تب بھی اسلام نے اس کی طرف دیکھنے کی مردوں کو اجازت نہیں دی، بلکہ ان کو نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے اور فقہاء کرام نے اجبنی عورتوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے، اگرچہ بے حیائی اور فحاشی کا شک بھی نہ ہو، چنانچہ اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم“۔ (النور:۳۰)
ترجمہ:…آپ مسلمان مردوں سے کہدیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اپنے رسالے تفصیل الخطاب میں لکھتے ہیں:
”والحاصل ان النظر الی وجہ الاجنبیة وکفیہا حرام عند المالکیة والشافعیة والحنابلة، سواء خیفت الفتنة اولا… ومشائخ الحنفیة کالجصاص والقہستانی لما رأوا ان ہذہ المواضع الشاذة ایضاً کادت تنعدم فی عصرہم فساد الزمان، حکموا بمنع الشابة عن کشف وجہہا بین الاجانب کما مر من الدر المختار ورد المحتار او من الجصاص فی احکام القرآن“۔ (احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن ۵/۲۹۹)
الغرض شریعت مطہرہ میں جس طرح عورت کے لئے باقی بدن چھپانے کا حکم ہے اسی طرح اس کے لئے اجنبی اور غیر محرموں سے چہرے کو چھپانے کا بھی حکم ہے اور ان کے سامنے بلاضرورت شرعی چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (۳/۵۴۶) میں لکھتے ہیں:
”یدنین علیہن من جلابیبہن“ … قال ابوبکر فی ہذہ الایة دلالة علی ان المرأة الشابة مامورة بستر وجہہا عن الاجنبین واظہار الستر والعفاف عند الخروج“۔
اب مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال میں ذکر کردہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:
۱… قرآن کریم کی آیت جو غض بصر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے سے متعلق ہے اس سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے ان کی طرف اگر اچانک بلاقصد نظر پڑ جائے تو فوراً نگاہیں جھکادی جائیں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا کہ عورت بے محابا اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھول کر گھومتی پھرے، کیونکہ چہرے کا پردہ جدا اور مستقل حکم ہے، جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے اور غض بصر جدا حکم ہے، غض بصر کے حکم سے چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
۲…حضرت ام شریک کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان کے پاس صحابہ کرام کا مجمع لگارہتا تھا تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ آنے والے صحابہ کرام اجنبی نہ تھے اور نہ ہی ان کے بارے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور تنہائی رکھیں گے جبکہ وہ رسول اللہ ا کا یہ ارشاد گرامی بھی سن چکے ہوں:
”ایاکم والدخول علی النساء“ ۔ (مشکوٰة: ص:۲۶۸)
ترجمہ:…(اجنبی) عورتوں کے نزدیک جانے سے اجتناب کرو۔
اور آپ اکا یہ ارشاد بھی ان کے سامنے ہو:
”لایخلون رجل بامرأة الا کان ثالثہما الشیطان رواہ الترمذی۔ (ص:۲۶۹)
ترجمہ:…جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یکجا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
بلکہ ان کے پاس آنے والے صحابہ کرام ان کے اپنے محرم رشتہ دار اور ان کی اولاد تھی، چنانچہ ملاعلی قاری مرقاة میں لکھا ہے:
”ای من اقاربہا واولادہا فلایصلح بیتہا للمعتدة“ (۶/۴۸۶)
لہذا اس حدیث سے محرم مردوں کے عورتوں کے پاس آنے جانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
۳…شریعت مطہرہ میں پردے کا حکم عورت کو دیا گیا ہے، مرد کو نہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے اجنبی مرد کو دیکھنے کا حکم اتنا شدید نہیں جتنا مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنے کا حکم شدید ہے لیکن عورت کے لئے اجنبی مرد کو دیکھنا صرف اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ یہ دیکھنا بنظر شہوت نہ ہو، البتہ اس کے حق میں بہتر اور فضیلت کی بات یہی ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھے، علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
”نعم غضہا بصرہا من الاجانب اصلا اولیٰ بہا واحسن“ (۹/۳۳۵)
لہذا عورتوں کے لئے ایسا نقاب تجویز کرنا صحیح ہے کہ جس سے ان کی اجنبی مردوں پر نظر نہ پڑ سکے تاکہ دلوں کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ بے حیائی اور فحاشی کی آلودگیوں سے پاک وصاف رہے۔
۴…ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق ماقبل میں گذر چکا ہے، چنانچہ فی نفسہ چہرہ اگرچہ ستر عورت میں داخل نہیں، لیکن اجنبی مردوں سے اس کا پردہ بہرحال ضروری اور لازمی ہے۔
۵…قرآن کریم کی اس آیت
”ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن“
میں ”وجوہہن“ کی بجائے ”جیوبہن“ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ جاہلیت کی رسم بدکو مٹانا مقصود تھا ، کیونکہ اس زمانے میں عورتیں جب چادر وغیرہ اوڑھتی تھیں تو صرف سر پر اوڑھنی اوڑھ کر اس کے دونوں پلو کندھوں پر لٹکالیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ اور گردن کھلے رہ کر بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بنتے تھے، اس کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ سر پر اوڑھنی اوڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو سینے پر بھی گھمالیں، تاکہ سینہ اور گردن وغیرہ بھی مستور ہوجائیں۔ (تفسیر قرطبی ۱۲/۲۰۹)
اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھے او رنہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ نہیں۔
۶… اس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔
۷… اس آیت ”ولایضربن…الخ“ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت والی اشیاء مثلاً زیوارات وغیرہ کی آواز جھنکار کو بھی غیر محرموں کو سنانے سے منع کیا ہے، چاہے وہ درون خانہ ہوں یا بیرون خانہ ، لہذا اس حکم کو صرف بیرون خانہ زندگی کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔
۸…یہ بات صحیح ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ،لیکن آیت ”فلاتخضعن بالقول“ کو صرف موجب فتنہ آواز کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس میں اجنبی مردوں سے بلاضرورت شرعی گفتگو کرنا اور ہنسی مذاق کی بھی ممانعت داخل ہے۔
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
”والدلالة علی ان الاحسن بالمرأة ان لاترفع صوتہا بحیث یسمعہا الرجال،،۔ (۳/۵۲۹ طبع قدیمی)
اس آیت ”ولو اعجبک حسنہن“ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت میں یہ ہے کہ اگرچہ عورتوں کا حسن اچھا معلوم ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ امر غیر اختیاری ہے لیکن اس کے لئے مذموم طریقے پر شرعی اجازت کے بغیر قصدو ارادے سے اجنبی عورتوں کو بنظر شہوت دیکھنا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا اور صرف اسی آیت کو لے کر چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں، دیگر ان تمام آیات وروایات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ جن میں حجاب اور پردے کا حکم دیا گیا ہے، صرف اس آیت سے اپنی خواہش اور پسند کا مطلب نکال لینا اور بقیہ تمام کی تمام صریح نصوص سے آنکھیں بند کرلینا الحاد اور بے دینی کا راستہ ہے۔
۹،۱۰،۱۱،…یہ آیت ہی پردے کی اصل بنیاد ہے، اسی میں عورتوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے حکم دیاگیا ہے، کیونکہ عورت کا تمام بدن قابل پردہ ہے، البتہ اگر گھریلو اثاثوں اور سازوسامان سے متعلق کوئی اجنبی ان سے سوال کرے تو حکم یہ ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرے، تاکہ ان عورتوں کا کوئی بھی حصہ ان کے سامنے ظاہر نہ ہو اور یہی اسلام کا مطلوب اصلی ہے، اس میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے، اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں کہ اس آیت کا تعلق نامحرموں سے ہے، عورتوں سے نہیں، لہذا وہ اپنا چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے کھلا رکھیں، یہ محض رائے زنی اور قرآنی آیات میں من چاہی تاویلات کرنا ہے۔
۱۲…عورت کا اصل مقام گھروں میں بیٹھنا ہے، اس کی خلقت ایسی نہیں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار زندگی میں مردوں کے ساتھ تعاون کریں، جیساکہ سابق میں آیات وروایات سے اس پر حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔ البتہ ضرورت شرعی کے پیش نظر اسلام نے اگرچہ عورت کو گھرسے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہی پردے کی مکمل پاسداری کے ساتھ جس کی تفصیل گذرچکی ہے، لہذا اگر دیندار لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکے عطاء کردہ احکامات پر عمل کرتے ہیں تو یہ قابل عیب نہیں، البتہ اس کو قابل عیب بتانے والے خود اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
۱۳…اس آیت ”فامسکوہن فی البیوت“ کا تعلق عام زندگی سے نہیں، بلکہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ اگر عورت سے کسی فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہوجائے تو چونکہ اس بارے میں کوڑوں اور رجم کے احکامات ابھی تک نازل نہیں ہوئے تھے، اس لئے اس عورت کی سزا یہ مقرر کی گئی کہ اس کو سزا گھر میں قیدی بناکر رکھو، یہاں تک کہ اس کے لئے دوسرا حکم نازل ہوجائے، بعد میں جب سورة النور میں زنا کرنے پر حد جاری کرنے کا حکم آگیا تو گھر میں عورت کو قیدی بنانے کی سزا ختم کردی گئی۔ اس سے ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اگر باکردار ہو تو اس کو باہر گھومنے پھرنے کی مکمل آازادی ہے۔ جبکہ عورتوں کے لئے دوسری صریح آیات اور احادیث موجود ہیں جن میں ان کو گھروں میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو بلاضرورت شرعی ان کے گھر سے باہر نکلنے پر صراحةً ممانعت پردلالت کرتی ہیں۔
پس یہ ملحداور بے دین لوگوں کا شعار رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور احادیث کے واضح اور صریح احکامات کو چھوڑ کر متشابہات اور محتملات والی آیات وروایات کو لے کر اپنا من چاہا مطلب نکالتے ہیں اور الحاد اور بے دینی کی راہ ہموار کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے متعلق ہی باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
”ان الذین یلحدون فی آیاتنا لایخفون علینا“ ۔ (حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:… جو لوگ ٹیڑھے چلتے ہیں ہماری باتوں میں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں یعنی سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شبہات پیدا کرکے ٹیڑھے بناتے ہیں یا خوامخواہ توڑ موڑ کر غلط مطلب لیتے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)
۱۴…عورت کا بوجہ شرعی مکمل پردے کے ساتھ چہرہ چھپاکر گھر سے باہر نکلنا ہی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور تمام آیات اور روایات پر عمل اور ان کی بجاآوری ہے، جس سے پردے سے متعلق اسلامی احکامات اپنی اصل شکل وصورت میں زندہ رہتے ہیں اور حیاء، عفت اور عصمت کے تحفظ کی جو ذمہ داری اسلام نے لی ہے وہ حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آتی ہے۔
۱۵․․․․بخلاف چہرہ کھول کر اجنبی مردوں کو دعوت نظارہ دینے سے اسلام کی حیاء سے متعلق تعلیم اور فلسفے پر زد پڑتی ہے اور اسلام کی روح متاثر ہوتی ہے، یہ اصل اسلام نہیں، بلکہ جاہلیت اولیٰ کی دوبارہ آبیاری ہے، جیساکہ مشاہدے سے ہرعاقل وبالغ اور فکر سلیم کا حامل انسان بخوبی جان سکتا ہے۔
الغرض جس شخص کے یہ نظریات ذکر کئے گئے ہیں، بالکل غلط اور تعلیمات اسلام کے خلاف ہیں، ان نظریات کی پر چار کرنے والا شخص اگر جان بوجھ کر تمام آیات قرآنیہ اور احادیث رسول ا سے صرف نظر کرکے، فقہا ،اکابر اور سلف صالحین کی تشریحات کے خلاف اپنی من چاہی تاویلات اور ترشیحات کرتا ہے تو ایسا شخص سراسر گمراہ ہے ،جس سے تعلیم وتعلم کا سلسلہ قائم رکھنے سے نہ صرف فکری ارتداد کا خدشہ ہے، بلکہ اسلام کی ٹھوس تعلیمات میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے نظریاتی سرحدوں کے تباہ ہونے کا بھی خدشہ ہے، لہذا ایسے شخص سے مکمل اجتناب ضروری ہے، تاکہ دین اسلام کی تعلیمات پر درست طریقے سے عمل کیا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین پردہ کی مکلف کیوں نہیں؟ یا یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ کیوں خاص ہے؟ اگر دوسری مسلمان خواتین اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو کیوں؟ ان کو کب؟ اور کس آیت یا حدیث کی رو سے مستثنیٰ قرار دیا گیا؟ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی قرآنی آیت، حدیث، فقہی جزئیہ، ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تصریح، مسلمہ ائمہ تفسیر، حدیث، اور اہلِ تحقیق میں سے ایسے کسی کے قول، فعل یاعمل کی نشاندہی فرماسکتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہوکہ حجاب اور پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا؟ کیا حضرات صحابہ کرام نے بھی اس سے یہی سمجھا تھا؟ کیا حضرات صحابیات بھی اس حکم سے مستثنیٰ تھیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ کون کون سے صحابہ کرام اس کے قائل تھے؟ اور کن کن صحابیات نے اس حکم الٰہی سے …نعوذباللہ… بغاوت کی تھی؟ تُف ہے اس عقل و دانش پر اور لعنت ہے اس جہالت و سفاہت پر کہ اپنی خواہش پرستی اور انکار دین کو قرآن و سنت اور دین و شریعت کے سرمنڈھ دیا جائے اور نہایت ڈھٹائی، بے حیائی، بے باکی اور بے شرمی سے اسے اچھا لا جائے۔ افسوس !صد افسوس !کہ موصوف نے ایسی کسی آیت، حدیث، تفسیر، تحقیق، کسی صحابی، تابعی یا ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تصریح کی نشاندہی نہیں فرمائی، جس سے ہم جیسے کوتاہ علموں کی راہ نمائی ہوتی، اگر وہ اس قسم کی کوئی نشاندہی فرمادیتے تو ہمیں ان کے دلائل و براہین پر غوروفکر میں سہولت ہوجاتی، نیز ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ انہیں کہاں سے ٹھوکر لگی ہے؟ اور وہ کس بناء پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں؟ یا وہ کس وجہ سے سیدھے سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ تاہم ہمارا حساس و وجدان ہے کہ وہ کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں، بلکہ وہ دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے پر مامور ہیں۔ کیونکہ وہ جاہل و اَن پڑھ نہیں، ”لکھے پڑھے اسکالر “اور ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد و مرتد کے شاگرد و خوشہ چیں، بلکہ ان کے جانشین اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی و مناد ہیں۔ نظر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آیت حجاب میں… جس کا انہوں نے اپنے انٹرویو میں حوالہ بھی دیا ہے… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے متعلق خطاب ہے اور صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، اس لئے غالباً موصوف نے اس سے یہی سمجھا کہ اس آیت میں مذکور احکام و آداب بھی حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں، لیجئے! آیت حجاب پڑھیئے اور موصوف کی فکر رسا کی داد دیجئے! ملاحظہ ہو آیتِ حجاب:
”یا یہا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الٰی طعام غیر ناظرین اناہ، ولکن اذا دعیتم فادخلوا، فاذا طعمتم فانتشروا ولامستأنسین لحدیث، ان ذٰلکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم واللّٰہ لایستحی من الحق واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من ورآء حجاب، ذٰلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن، وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللّٰہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً، ان ذٰلکم کان عنداللّٰہ عظیما۔‘ (احزاب:۵۳)
ترجمہ:… ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو، مگر جس وقت تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جاوے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، لیکن جب تم کو بلایا جاوے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھے رہا کرو ، اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے، سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو، یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو کلفت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ کے بعد آپ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو، یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔“
یہ طے شدہ امر ہے، بلکہ تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم سب سے پہلے سورئہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت میں نازل ہوا تھا، اسی لئے اس آیت کو آیت حجاب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس آیت میں امت مسلمہ کو حجاب کے علاوہ چند دوسرے احکام و آداب کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے مثلاً: دعوت طعام کے آداب، کسی کے گھر میں جانے کے آداب، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم، ازواج مطہرات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنے کا حکم وغیرہ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، اور اس میں ازواج مطہرات کے پردے سے متعلق حکم بھی ہے، لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے، بلکہ یہ حکم عام ہے اور اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سورئہ احزاب کی مندرجہ ذیل آیات میں خطاب ازواج مطہرات کو ہے، مگر ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لئے عام ہے، چنانچہ سورئہ احزاب کی وہ آیت ملاحظہ ہو:
”یانسآء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاً معروفا۔ وقرن فی بیوتکن ولا تبرّجن تبرّج الجاہلیة الاولی واقمن الصلٰوة وآتین الزکوة واطعن اللّٰہ ورسولہ، انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔“ (احزاب:۳۲/۳۳)
ترجمہ:…”اے نبی کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو پاک صاف رکھے۔“
دیکھئے! یہاں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے ، اگر بالفرض اس آیت کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا جائے، تو کیا کہا جائے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح ننگ دھڑنگ پھرسکتی ہیں؟ کیا جناب خالد مسعود صاحب اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں نماز قائم کرنے، زکوٰة دینے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم بھی صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو کیا امت مسلمہ کی دوسری خواتین نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اللہ، رسول کی اطاعت سے مستثنیٰ ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو بتلایا جائے کہ ایک آیت میں ہی ایک حکم عام تو دوسرا خاص کیوں؟
ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!
صرف یہی نہیں، بلکہ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ خطاب خاص ہوتا ہے لیکن اس کا حکم عام ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”یایہا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن واحصوا العدة، واتقوا اللّٰہ ربکم، لاتخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة، وتلک حدود اللّٰہ، ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ، لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امراً۔“ (الطلاق: ۱)
ترجمہ:… ”اے پیغمبر جب تم …اپنی… عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کو …زمانہ… عدت …یعنی… حیض سے پہلے …یعنی طہر میں… طلاق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، ان عورتوں کو ان کے …رہنے کے… گھروں سے مت نکالو… کیونکہ سکنٰی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے… اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا … مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا… اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس …طلاق دینے…کے کوئی نئی بات …تیرے دل میں… پیدا کردے۔“
کیا خیال ہے خالد مسعود صاحب یا ان کے ہمنوا یہاں حیض کے بجائے طہر میں طلاق دینے، اور عدت کی مدت میں گھر سے نہ نکالنے یا عدت کے حساب رکھنے کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں؟ کیا وہ نعوذباللہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین کی عدت اور عدت میں سکنٰی کے قائل نہیں ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کس بنیاد پر؟ سوال یہ ہے کہ جس طرح اس آیت کے مخاطب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات ہیں مگر اس کا حکم عام ہے، ٹھیک اسی طرح آیت حجاب میں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین اس کی مکلف ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بالفرض قرآن کریم کے احکام صرف اس کے مخاطبین اولین تک محدود ہوتے، تو نعوذباللہ! آج امت مسلمہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے نور ،روشنی اور برکات سے محروم نہ ہوچکی ہوتی؟ کیونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول تو حضرات صحابہ کرام تھے، جب وہ نہیں رہے تو ان کی طرف متوجہ ہونے والا خطاب کیونکر باقی ہوتا؟ چلئے اس کو بھی چھوڑیئے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس آیت اور اس کے حکم کا کیا محمل ارشاد فرمائیں گے؟ جس میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ مومن خواتین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے گھر سے باہر جاتے وقت پردہ کا حکم دیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:
”یایھا النبی قل لا زواجک وبنٰتک ونساء المؤمنین یدینن علیہن من جلابیبہن، ذالک ادنیٰ ان یعرفن فلایؤذین وکان اللّٰہ غفوراً رحیما۔“(احزاب: ۵۹)
ترجمہ:… ”اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“
حافظ ابن کثیر تفسیر ”ابن کثیر“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قال علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس امر اللّٰہ نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطین وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عیناً واحدة۔“
”وقال محمد بن سیرین سألت عبیدة السلمانی عن قول اللّٰہ تعالیٰ یدنین علیہن من جلابیبہن، فغطی وجہہ ورأسہ وابرزعینہ الیسریٰ“ (ابن کثیر ص:۲۳۱، ج:۵، مکتبہ رشیدہ کوئٹہ)
ترجمہ:… علی بن ابی طلحہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سروں کی جانب سے پردہ سے ڈھانپ لیا کریں اور… راستہ دیکھنے کے لئے … صرف ایک آنکھ کھلی رکھا کریں۔ حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سلمانی سے اللہ کے ارشاد:
اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھے او رنہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ نہیں۔
۶… اس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔
۷… اس آیت ”ولایضربن…الخ“ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت والی اشیاء مثلاً زیوارات وغیرہ کی آواز جھنکار کو بھی غیر محرموں کو سنانے سے منع کیا ہے، چاہے وہ درون خانہ ہوں یا بیرون خانہ ، لہذا اس حکم کو صرف بیرون خانہ زندگی کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔
۸…یہ بات صحیح ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ،لیکن آیت ”فلاتخضعن بالقول“ کو صرف موجب فتنہ آواز کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس میں اجنبی مردوں سے بلاضرورت شرعی گفتگو کرنا اور ہنسی مذاق کی بھی ممانعت داخل ہے۔
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
”والدلالة علی ان الاحسن بالمرأة ان لاترفع صوتہا بحیث یسمعہا الرجال،،۔ (۳/۵۲۹ طبع قدیمی)
اس آیت ”ولو اعجبک حسنہن“ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت میں یہ ہے کہ اگرچہ عورتوں کا حسن اچھا معلوم ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ امر غیر اختیاری ہے لیکن اس کے لئے مذموم طریقے پر شرعی اجازت کے بغیر قصدو ارادے سے اجنبی عورتوں کو بنظر شہوت دیکھنا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا اور صرف اسی آیت کو لے کر چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں، دیگر ان تمام آیات وروایات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ جن میں حجاب اور پردے کا حکم دیا گیا ہے، صرف اس آیت سے اپنی خواہش اور پسند کا مطلب نکال لینا اور بقیہ تمام کی تمام صریح نصوص سے آنکھیں بند کرلینا الحاد اور بے دینی کا راستہ ہے۔
۹،۱۰،۱۱،…یہ آیت ہی پردے کی اصل بنیاد ہے، اسی میں عورتوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے حکم دیاگیا ہے، کیونکہ عورت کا تمام بدن قابل پردہ ہے، البتہ اگر گھریلو اثاثوں اور سازوسامان سے متعلق کوئی اجنبی ان سے سوال کرے تو حکم یہ ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرے، تاکہ ان عورتوں کا کوئی بھی حصہ ان کے سامنے ظاہر نہ ہو اور یہی اسلام کا مطلوب اصلی ہے، اس میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے، اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں کہ اس آیت کا تعلق نامحرموں سے ہے، عورتوں سے نہیں، لہذا وہ اپنا چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے کھلا رکھیں، یہ محض رائے زنی اور قرآنی آیات میں من چاہی تاویلات کرنا ہے۔
۱۲…عورت کا اصل مقام گھروں میں بیٹھنا ہے، اس کی خلقت ایسی نہیں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار زندگی میں مردوں کے ساتھ تعاون کریں، جیساکہ سابق میں آیات وروایات سے اس پر حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔ البتہ ضرورت شرعی کے پیش نظر اسلام نے اگرچہ عورت کو گھرسے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہی پردے کی مکمل پاسداری کے ساتھ جس کی تفصیل گذرچکی ہے، لہذا اگر دیندار لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکے عطاء کردہ احکامات پر عمل کرتے ہیں تو یہ قابل عیب نہیں، البتہ اس کو قابل عیب بتانے والے خود اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
۱۳…اس آیت ”فامسکوہن فی البیوت“ کا تعلق عام زندگی سے نہیں، بلکہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ اگر عورت سے کسی فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہوجائے تو چونکہ اس بارے میں کوڑوں اور رجم کے احکامات ابھی تک نازل نہیں ہوئے تھے، اس لئے اس عورت کی سزا یہ مقرر کی گئی کہ اس کو سزا گھر میں قیدی بناکر رکھو، یہاں تک کہ اس کے لئے دوسرا حکم نازل ہوجائے، بعد میں جب سورة النور میں زنا کرنے پر حد جاری کرنے کا حکم آگیا تو گھر میں عورت کو قیدی بنانے کی سزا ختم کردی گئی۔ اس سے ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اگر باکردار ہو تو اس کو باہر گھومنے پھرنے کی مکمل آازادی ہے۔ جبکہ عورتوں کے لئے دوسری صریح آیات اور احادیث موجود ہیں جن میں ان کو گھروں میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو بلاضرورت شرعی ان کے گھر سے باہر نکلنے پر صراحةً ممانعت پردلالت کرتی ہیں۔
پس یہ ملحداور بے دین لوگوں کا شعار رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور احادیث کے واضح اور صریح احکامات کو چھوڑ کر متشابہات اور محتملات والی آیات وروایات کو لے کر اپنا من چاہا مطلب نکالتے ہیں اور الحاد اور بے دینی کی راہ ہموار کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے متعلق ہی باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
”ان الذین یلحدون فی آیاتنا لایخفون علینا“ ۔ (حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:… جو لوگ ٹیڑھے چلتے ہیں ہماری باتوں میں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں یعنی سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شبہات پیدا کرکے ٹیڑھے بناتے ہیں یا خوامخواہ توڑ موڑ کر غلط مطلب لیتے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)
۱۴…عورت کا بوجہ شرعی مکمل پردے کے ساتھ چہرہ چھپاکر گھر سے باہر نکلنا ہی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور تمام آیات اور روایات پر عمل اور ان کی بجاآوری ہے، جس سے پردے سے متعلق اسلامی احکامات اپنی اصل شکل وصورت میں زندہ رہتے ہیں اور حیاء، عفت اور عصمت کے تحفظ کی جو ذمہ داری اسلام نے لی ہے وہ حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آتی ہے۔
۱۵․․․․بخلاف چہرہ کھول کر اجنبی مردوں کو دعوت نظارہ دینے سے اسلام کی حیاء سے متعلق تعلیم اور فلسفے پر زد پڑتی ہے اور اسلام کی روح متاثر ہوتی ہے، یہ اصل اسلام نہیں، بلکہ جاہلیت اولیٰ کی دوبارہ آبیاری ہے، جیساکہ مشاہدے سے ہرعاقل وبالغ اور فکر سلیم کا حامل انسان بخوبی جان سکتا ہے۔
الغرض جس شخص کے یہ نظریات ذکر کئے گئے ہیں، بالکل غلط اور تعلیمات اسلام کے خلاف ہیں، ان نظریات کی پر چار کرنے والا شخص اگر جان بوجھ کر تمام آیات قرآنیہ اور احادیث رسول ا سے صرف نظر کرکے، فقہا ،اکابر اور سلف صالحین کی تشریحات کے خلاف اپنی من چاہی تاویلات اور ترشیحات کرتا ہے تو ایسا شخص سراسر گمراہ ہے ،جس سے تعلیم وتعلم کا سلسلہ قائم رکھنے سے نہ صرف فکری ارتداد کا خدشہ ہے، بلکہ اسلام کی ٹھوس تعلیمات میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے نظریاتی سرحدوں کے تباہ ہونے کا بھی خدشہ ہے، لہذا ایسے شخص سے مکمل اجتناب ضروری ہے، تاکہ دین اسلام کی تعلیمات پر درست طریقے سے عمل کیا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین پردہ کی مکلف کیوں نہیں؟ یا یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ کیوں خاص ہے؟ اگر دوسری مسلمان خواتین اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو کیوں؟ ان کو کب؟ اور کس آیت یا حدیث کی رو سے مستثنیٰ قرار دیا گیا؟ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی قرآنی آیت، حدیث، فقہی جزئیہ، ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تصریح، مسلمہ ائمہ تفسیر، حدیث، اور اہلِ تحقیق میں سے ایسے کسی کے قول، فعل یاعمل کی نشاندہی فرماسکتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہوکہ حجاب اور پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا؟ کیا حضرات صحابہ کرام نے بھی اس سے یہی سمجھا تھا؟ کیا حضرات صحابیات بھی اس حکم سے مستثنیٰ تھیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ کون کون سے صحابہ کرام اس کے قائل تھے؟ اور کن کن صحابیات نے اس حکم الٰہی سے …نعوذباللہ… بغاوت کی تھی؟ تُف ہے اس عقل و دانش پر اور لعنت ہے اس جہالت و سفاہت پر کہ اپنی خواہش پرستی اور انکار دین کو قرآن و سنت اور دین و شریعت کے سرمنڈھ دیا جائے اور نہایت ڈھٹائی، بے حیائی، بے باکی اور بے شرمی سے اسے اچھا لا جائے۔ افسوس !صد افسوس !کہ موصوف نے ایسی کسی آیت، حدیث، تفسیر، تحقیق، کسی صحابی، تابعی یا ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تصریح کی نشاندہی نہیں فرمائی، جس سے ہم جیسے کوتاہ علموں کی راہ نمائی ہوتی، اگر وہ اس قسم کی کوئی نشاندہی فرمادیتے تو ہمیں ان کے دلائل و براہین پر غوروفکر میں سہولت ہوجاتی، نیز ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ انہیں کہاں سے ٹھوکر لگی ہے؟ اور وہ کس بناء پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں؟ یا وہ کس وجہ سے سیدھے سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ تاہم ہمارا حساس و وجدان ہے کہ وہ کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں، بلکہ وہ دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے پر مامور ہیں۔ کیونکہ وہ جاہل و اَن پڑھ نہیں، ”لکھے پڑھے اسکالر “اور ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد و مرتد کے شاگرد و خوشہ چیں، بلکہ ان کے جانشین اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی و مناد ہیں۔ نظر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آیت حجاب میں… جس کا انہوں نے اپنے انٹرویو میں حوالہ بھی دیا ہے… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے متعلق خطاب ہے اور صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، اس لئے غالباً موصوف نے اس سے یہی سمجھا کہ اس آیت میں مذکور احکام و آداب بھی حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں، لیجئے! آیت حجاب پڑھیئے اور موصوف کی فکر رسا کی داد دیجئے! ملاحظہ ہو آیتِ حجاب:
”یا یہا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الٰی طعام غیر ناظرین اناہ، ولکن اذا دعیتم فادخلوا، فاذا طعمتم فانتشروا ولامستأنسین لحدیث، ان ذٰلکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم واللّٰہ لایستحی من الحق واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من ورآء حجاب، ذٰلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن، وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللّٰہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً، ان ذٰلکم کان عنداللّٰہ عظیما۔‘ (احزاب:۵۳)
ترجمہ:… ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو، مگر جس وقت تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جاوے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، لیکن جب تم کو بلایا جاوے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھے رہا کرو ، اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے، سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو، یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو کلفت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ کے بعد آپ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو، یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔“
یہ طے شدہ امر ہے، بلکہ تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم سب سے پہلے سورئہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت میں نازل ہوا تھا، اسی لئے اس آیت کو آیت حجاب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس آیت میں امت مسلمہ کو حجاب کے علاوہ چند دوسرے احکام و آداب کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے مثلاً: دعوت طعام کے آداب، کسی کے گھر میں جانے کے آداب، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم، ازواج مطہرات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنے کا حکم وغیرہ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، اور اس میں ازواج مطہرات کے پردے سے متعلق حکم بھی ہے، لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے، بلکہ یہ حکم عام ہے اور اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سورئہ احزاب کی مندرجہ ذیل آیات میں خطاب ازواج مطہرات کو ہے، مگر ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لئے عام ہے، چنانچہ سورئہ احزاب کی وہ آیت ملاحظہ ہو:
”یانسآء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاً معروفا۔ وقرن فی بیوتکن ولا تبرّجن تبرّج الجاہلیة الاولی واقمن الصلٰوة وآتین الزکوة واطعن اللّٰہ ورسولہ، انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔“ (احزاب:۳۲/۳۳)
ترجمہ:…”اے نبی کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو پاک صاف رکھے۔“
دیکھئے! یہاں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے ، اگر بالفرض اس آیت کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا جائے، تو کیا کہا جائے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح ننگ دھڑنگ پھرسکتی ہیں؟ کیا جناب خالد مسعود صاحب اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں نماز قائم کرنے، زکوٰة دینے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم بھی صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو کیا امت مسلمہ کی دوسری خواتین نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اللہ، رسول کی اطاعت سے مستثنیٰ ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو بتلایا جائے کہ ایک آیت میں ہی ایک حکم عام تو دوسرا خاص کیوں؟
ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!
صرف یہی نہیں، بلکہ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ خطاب خاص ہوتا ہے لیکن اس کا حکم عام ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”یایہا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن واحصوا العدة، واتقوا اللّٰہ ربکم، لاتخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة، وتلک حدود اللّٰہ، ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ، لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امراً۔“ (الطلاق: ۱)
ترجمہ:… ”اے پیغمبر جب تم …اپنی… عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کو …زمانہ… عدت …یعنی… حیض سے پہلے …یعنی طہر میں… طلاق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، ان عورتوں کو ان کے …رہنے کے… گھروں سے مت نکالو… کیونکہ سکنٰی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے… اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا … مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا… اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس …طلاق دینے…کے کوئی نئی بات …تیرے دل میں… پیدا کردے۔“
کیا خیال ہے خالد مسعود صاحب یا ان کے ہمنوا یہاں حیض کے بجائے طہر میں طلاق دینے، اور عدت کی مدت میں گھر سے نہ نکالنے یا عدت کے حساب رکھنے کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں؟ کیا وہ نعوذباللہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین کی عدت اور عدت میں سکنٰی کے قائل نہیں ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کس بنیاد پر؟ سوال یہ ہے کہ جس طرح اس آیت کے مخاطب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات ہیں مگر اس کا حکم عام ہے، ٹھیک اسی طرح آیت حجاب میں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین اس کی مکلف ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بالفرض قرآن کریم کے احکام صرف اس کے مخاطبین اولین تک محدود ہوتے، تو نعوذباللہ! آج امت مسلمہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے نور ،روشنی اور برکات سے محروم نہ ہوچکی ہوتی؟ کیونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول تو حضرات صحابہ کرام تھے، جب وہ نہیں رہے تو ان کی طرف متوجہ ہونے والا خطاب کیونکر باقی ہوتا؟ چلئے اس کو بھی چھوڑیئے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس آیت اور اس کے حکم کا کیا محمل ارشاد فرمائیں گے؟ جس میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ مومن خواتین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے گھر سے باہر جاتے وقت پردہ کا حکم دیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:
”یایھا النبی قل لا زواجک وبنٰتک ونساء المؤمنین یدینن علیہن من جلابیبہن، ذالک ادنیٰ ان یعرفن فلایؤذین وکان اللّٰہ غفوراً رحیما۔“(احزاب: ۵۹)
ترجمہ:… ”اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“
حافظ ابن کثیر تفسیر ”ابن کثیر“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قال علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس امر اللّٰہ نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطین وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عیناً واحدة۔“
”وقال محمد بن سیرین سألت عبیدة السلمانی عن قول اللّٰہ تعالیٰ یدنین علیہن من جلابیبہن، فغطی وجہہ ورأسہ وابرزعینہ الیسریٰ“ (ابن کثیر ص:۲۳۱، ج:۵، مکتبہ رشیدہ کوئٹہ)
ترجمہ:… علی بن ابی طلحہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سروں کی جانب سے پردہ سے ڈھانپ لیا کریں اور… راستہ دیکھنے کے لئے … صرف ایک آنکھ کھلی رکھا کریں۔ حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سلمانی سے اللہ کے ارشاد:
”یدنین علیہن من جلابیبہن“
کے معنی و مفہوم کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سرچھپا کر، صرف بائیں آنکھ ظاہر کرکے… اس کی عملی وضاحت فرمائی۔“
صرف حافظ ابن کثیر ہی نہیں، بلکہ تمام مفسرین نے اس مقام پر اس سے ملتے جلتے الفاظ میں اس کی تفسیر کی ہے۔ ملاحظہ ہو: علامہ آلوسی کی روح المعانی، قاضی شوکانی کی فتح القدیر، جصاص کی احکام القرآن، علامہ قرطبی کی تفسیر الجامع الاحکام القرآن، علامہ قرطبی ہی کی احکام القرآن، تفسیر ابن جریر، تفسیر بحر محیط، تفسیر ابوالسعود، تفسیر زاد المیسر،تفسیر در منثور، تفسیر روح البیان، تفسیر مظہری، تفسیر معالم التنزیل ،تفسیر جمل اور تفسیر بیضاوی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ مغربی اساتذہ سے پڑھتے ہیں، یا ان کا مغرب میں برین واش کیا جاتا ہے، وہ اسی زاویہ نگاہ سے اسلام، قرآن اور اسلامی احکام کو دیکھتے،پڑھتے اور سمجھتے ہیں، چونکہ ان کی فکر، سوچ، دل، دماغ، کان اور آنکھ میں بدگمانی اور تشکیک کا میل کچیل بھردیا جاتا ہے، اس لئے ان کو قرآن، سنت، اجماع امت، صحابہ کرام، تابعین، امت مسلمہ کی تحقیقات و تعامل اور مسلمات دینیہ میں اسی شک و شبہ کا میل کچیل نظر آتا ہے، اس لئے وہ اپنی فکر، سوچ، دل، دماغ، زبان، ہاتھ، کان اور آنکھ سے ہر وہ بات سوچتے، بولتے، لکھتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے مستشرق اساتذہ اور ملحد مربی بولتے اور لکھتے ہیں، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام ، اوامر و نواہی میں اگرچہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے مگر خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں، اور جہاں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں عام مسلمان خواتین بھی اس کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مثلاً پورے قرآن میں خواتین کے حج کرنے سے متعلق کہیں کوئی حکم نہیں ہے، کیا کہا جائے کہ خواتین پر حج فرض نہیں ہے؟اسی طرح تیمم کا حکم دیتے ہوئے عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتیں؟ اسی طرح بے شمار احکام میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین ان احکام سے مستثنیٰ ہوں گی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ناس ہو منکرین حدیث کاکہ انہوں نے ہمیشہ قرآن کریم کو، حدیث و سنت اور فقہائے امت کی تحقیقات کے تناظر میں سمجھنے کی بجائے اپنی کوتاہ عقل و فہم سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، چونکہ انہوں نے اپنی عقل نارسا اور فہم ناقص کو حدیث و سنت اور ائمہ ہدیٰ کی فہم و فراست پر ترجیح دی ہے، اس لئے وہ اغوائے شیطانی کا شکار ہوگئے، اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اسلاف کی تحقیقات کو چھوڑ کر اپنی کور فہمی پر اعتماد کیا، انہوں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگرچہ خالد مسعود جیسے حضرات کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، لیکن ضروری تھا کہ سیدھے سادے مسلمانوں کی راہ نمائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام اور صحابیات کے ارشادات و معمولات میں سے چند ایک یہاں نقل کردیئے جاتے تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ پردہ اور حجاب صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لئے عام ہے اور اس پر قرنِ اول سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا تعامل چلا آرہا ہے۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف
کتبہ
عاطف علی
متخصص فقہ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
صرف حافظ ابن کثیر ہی نہیں، بلکہ تمام مفسرین نے اس مقام پر اس سے ملتے جلتے الفاظ میں اس کی تفسیر کی ہے۔ ملاحظہ ہو: علامہ آلوسی کی روح المعانی، قاضی شوکانی کی فتح القدیر، جصاص کی احکام القرآن، علامہ قرطبی کی تفسیر الجامع الاحکام القرآن، علامہ قرطبی ہی کی احکام القرآن، تفسیر ابن جریر، تفسیر بحر محیط، تفسیر ابوالسعود، تفسیر زاد المیسر،تفسیر در منثور، تفسیر روح البیان، تفسیر مظہری، تفسیر معالم التنزیل ،تفسیر جمل اور تفسیر بیضاوی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ مغربی اساتذہ سے پڑھتے ہیں، یا ان کا مغرب میں برین واش کیا جاتا ہے، وہ اسی زاویہ نگاہ سے اسلام، قرآن اور اسلامی احکام کو دیکھتے،پڑھتے اور سمجھتے ہیں، چونکہ ان کی فکر، سوچ، دل، دماغ، کان اور آنکھ میں بدگمانی اور تشکیک کا میل کچیل بھردیا جاتا ہے، اس لئے ان کو قرآن، سنت، اجماع امت، صحابہ کرام، تابعین، امت مسلمہ کی تحقیقات و تعامل اور مسلمات دینیہ میں اسی شک و شبہ کا میل کچیل نظر آتا ہے، اس لئے وہ اپنی فکر، سوچ، دل، دماغ، زبان، ہاتھ، کان اور آنکھ سے ہر وہ بات سوچتے، بولتے، لکھتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے مستشرق اساتذہ اور ملحد مربی بولتے اور لکھتے ہیں، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام ، اوامر و نواہی میں اگرچہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے مگر خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں، اور جہاں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں عام مسلمان خواتین بھی اس کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مثلاً پورے قرآن میں خواتین کے حج کرنے سے متعلق کہیں کوئی حکم نہیں ہے، کیا کہا جائے کہ خواتین پر حج فرض نہیں ہے؟اسی طرح تیمم کا حکم دیتے ہوئے عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتیں؟ اسی طرح بے شمار احکام میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین ان احکام سے مستثنیٰ ہوں گی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ناس ہو منکرین حدیث کاکہ انہوں نے ہمیشہ قرآن کریم کو، حدیث و سنت اور فقہائے امت کی تحقیقات کے تناظر میں سمجھنے کی بجائے اپنی کوتاہ عقل و فہم سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، چونکہ انہوں نے اپنی عقل نارسا اور فہم ناقص کو حدیث و سنت اور ائمہ ہدیٰ کی فہم و فراست پر ترجیح دی ہے، اس لئے وہ اغوائے شیطانی کا شکار ہوگئے، اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اسلاف کی تحقیقات کو چھوڑ کر اپنی کور فہمی پر اعتماد کیا، انہوں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگرچہ خالد مسعود جیسے حضرات کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، لیکن ضروری تھا کہ سیدھے سادے مسلمانوں کی راہ نمائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام اور صحابیات کے ارشادات و معمولات میں سے چند ایک یہاں نقل کردیئے جاتے تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ پردہ اور حجاب صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لئے عام ہے اور اس پر قرنِ اول سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا تعامل چلا آرہا ہے۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف
کتبہ
عاطف علی
متخصص فقہ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
....
http://www.suffahpk.com/chehry-ka-pardah/
......
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ’’پردہ کے شرعی احکام‘‘ سے اقتبا
حوالہ
مندرجہ ذیل حصہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ’’پردہ کے شرعی احکام‘‘ سے لیا گیا ہے (ط ادارہ اسلامیات) ۔ اس میں حضرت تھانوی کے تین رسا ئل شامل ہیں۔
(1)
ثُبَاتُ الُّتُوْر لِذَوَاتِ اخُدُوْر (ص ۵ تا ۵۳
( ۲)
القول الصواب فی تحقیق مسئلۃ الحجاب (ص۵۵ تا ۸۰
(۳)
القا السکینۃ فی تحقیق ابدا الزینۃ (ص ۸۱ تا ۹۷
اول کی تسہیل بنام القول المیسور فی تسہیل ثبات الستور کے نام سے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے حضرت تھانوی کے حکم سے فرمائی، جو حاشیہ میں درج ہے۔نیز حضرت تھانوی نے ضمیمہ میں ایک مضمون مولانا حبیب احمد صاحب کا بھی ملحق کردیا۔ ثالث کی تسہیل بنام الحسون الحصینۃ فی تسہیل القا السکینۃ کے نام سے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے فرمائی، جو حاشیہ میں درج ہے۔ نیز آخر میں ایک مضمون مولانا حبیب احمد صاحب کا بھی ملحق کردیا(ص ۹۸ تا ۱۱۱)۔
نوٹ:
زیادہ تر تحریر حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی تسہیل سے لی گئی ہے۔
ص ۹
مسلمان عورت جو آزاد ہوزرخرید باندی نہ ہو، بالغ ہو چکی ہو یا بالغ ہونے کے قریب ہو ،جوان ہو یا بوڑھی۔ اس کے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنے کے تین درجے ہیں
ایک (۱) یہ کہ بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے اور بعض کے نزدیک بجز پیروں کے بھی باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایا جائے اور یہ ادنیٰ درجے کا پردہ ہے۔
دوسرے(۲) یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیوں اور پیروں کو بھی برقع وغیرہ سے چھپایا جائے یہ درمیانی درجہ کا پردہ ہے۔
تیسرے (۳) یہ کہ عورت دیوار یا پردہ کے پیچھے آڑ میں رہے کہ اس کے کپڑوں پر بھی اجنبی مردوں کی نظر نہ پڑے۔ یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے اور یہ تینوں درجے قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اور شریعت میں ان کا حکم موجود ہے۔
ص۱۳ تا ۱۵:
شریعت نے ان سب درجوں کا حکم کیا ہے۔ البتہ ان میں اتنا تفاوت ضرور ہے کہ پہلا درجہ اپنی ذات سے واجب ہے اور دوسرا تیسرا درجہ کسی عارض کی وجہ سے واجب ہے مگر اس تفاوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان تینوں میں سے کوئی درجہ واجب نہ رہے بلکہ اس تفاوت کے ساتھ بھی تینوں درجے واجب ہیں کیونکہ درجات کے تفاوت سے نفس وجوب پر کوئی اثر نہیں پڑتا جیسا فرض اعتقادی اور فرض عملی میں درجہ کا تفاوت ہوتا ہے۔ مگر فرض دونوں ہیں اور نفس فرضیت دونوں میں موجود ہے اور چونکہ پہلا درجہ اپنی ذات سے واجب ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی جوان اور بوڑھی عورتوں سب کو عام ہے یعنی بجز چہرہ اور ہاتھوں کے باقی بدن یا سرکے کسی حصہ کا اجنبی کے سامنے کھولنا بوڑھی عورتوں کو بھی جائز نہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کا پردہ چونکہ عارض کی وجہ سے واجب ہے ، اس لئے ان کے واجب ہونے کا مدار اس عارض ہی پر ہے جہاں وہ عارض موجود ہوگا وہاں یہ درجے واجب ہوں گے اور جہاں عارض موجود نہ ہوگا وہاں یہ درجے بھی واجب نہ ہوں گے اور وہ عارض فتنہ کا اندیشہ ہے۔۔۔۔ رہا یہ کہ فتنہ کا اندیشہ کہاں ہے اور کہاں نہیں اس کی تعیین ہمارے رائے پر نہیں رکھی گئی بلکہ قرآن میں اس کا فیصلہ بھی خود ہی فرما دِیا گیا چنانچہ ارشاد ہے
والقوا عد من النساء التی لا یرجون نکا حًا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثبابھن غیر متبرجات بزینۃ و ان یستعففن خیر لھن ط
۔۔۔۔۔۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ جو بوڑھی عورتیں نکاح کے قابل نہیں رہیں ان کو زینت ظاہر کرنے کی تو اجازت نہیں جس سے مراد تمام بدن ہے ہاں چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت ہے جیسا دوسری آیت میں ہے
ولایبدین زینتھن الاماظھر منھا
۔۔۔۔ لیکن اگر یہ بڑی بوڑھی اس سے بھی احتیاط رکھیں اور دوسرے اور تیسرے درجہ کا پردہ اختیار کریں تو مستحب ان کے لئے بھی یہی ہے وان یستعففن خیرلھن کا مطلب یہی ہے۔ اس آیت نے بتلا دِیا کہ فتنہ کا اندیشہ صرف ان بوڑھی عورتوں میں موجود نہیں ہے جو نکاح کے قابل نہیں رہیں اور ان کے سوا ٗ جوان اور ادھیڑ عورتوں سے اندیشہ فتنہ کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اُن میں یہ اندیشہ موجود ہے اور یہی وہ عارض ہے جس پر دوسرے اور تیسرے درجہ کے واجب ہونے کا مدار تھا۔ اور جب شارع نے جوان اور ادھیڑ عورتوں کے بارہ میں یہ حکم کر دِیا کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود ہے اب کسی کو اپنے رائے سے یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود نہیں لقولہ تعالیٰ
و ما کان لمؤمن ولا مؤ منۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیدیں تو ان کو اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے(یعنی اختیار باقی نہ رہے گا بلکہ اس پر عمل کرنا ہی واجب ہوتا ہے)
یہ تفاوت تو ان درجوں میں احتمال فتنہ کے شرط ہونے اور شرط نہ ہونے کے اعتبار سے تھا کہ پہلے درجہ کے واجب ہونے میں احتمال فتنہ شرط نہیں بلکہ وہ ہر حال میں واجب ہے۔ اور دوسرے اور تیسرے درجہ کے واجب ہونے کے لئے احتمال فتنہ شرط ہے۔
ص ۱۷ تا ۲۰:
۔۔۔ مگر ان تینوں درجوں میں اس اعتبار سے تفاوت ہے کہ کون سی ضرورت کس درجہ میں موثر ہے اور کس درجہ میں موثر نہیں ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ جو کہ جوان اور ادھیڑ اور بوڑھی سب عورتوں پر واجب ہے اس سے بہت سخت مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے جیسے علاج معالجہ کی ضرورت یعنی بدوں ایسی سخت ضرورت کے اجنبی کے سامنے بدن کا کھولنا نہ جوان اور ادھیڑ کو جائز ہے نہ بوڑھی عورتوں کو۔
اور دوسرے درجہ سے جو کہ صرف جوان اور ادھیڑ عورتوں پر واجب ہے بوڑھوں پر واجب نہیں، سخت مجبوری کی صورت میں مستثنیٰ ہے گو بہت سخت مجبوری نہ ہو یعنی اجنبی مرد کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا بوڑھی عورتوں کو تو جائز ہوگا گو چھپانا ان کو بھی مستحب ہے جیسا پہلے مذکور ہو ا اور جوان اور ادھیڑ عورتوں کو بدوں سخت مجبوری کے اجنبی کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا حرام ہوگا۔ چنانچہ فقہاء کا یہ حکم اسی قاعدہ پر مبنی ہے
و تمنع الشابۃ وجوبًا عن کشف الوجہ بین الرجال لالانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ کذا فی درالمختار وغیرہ واللفظ للدر
(ترجمہ) اور جوان عورت کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے وجوب کے درجہ میں منع کِیا جائے گا ،نہ اس وجہ سے کہ چہرہ ستر بالذات میں داخل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ جوان عورت کے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے (توسترللعارض ہوا) یہ درمختار کے الفاظ ہیں اور یہ مسئلہ فقہ کی دوسری کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ اور سخت مجبوری کی حالت میں چہرہ اور ہاتھ کا کھولنا جائز ہوگا بشرطیکہ کوئی دوسرا مانع نہ پایا جائے جیسے اجنبی مرد کا اس کو چھونا یا اس کا اس کو چھونا یا اجنبی مرد کو گھورنا یا اجنبی مرد کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا ملنا کہ ان سب کی حرمت شریعت سے ثابت ہے اور اس سخت مجبوری کی صورت میں اگر کوئی مرد اس کو گھورنے لگے تو اس سے عورت کو گناہ نہ ہوگا اور حدیث میں جو آیا ہے
لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ (مشکوٰۃ ص۲۲۸نظامی)
کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت کی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔ تو یہ لعنت عورت پر اسی صورت میں ہے جبکہ اس نے بدوں سخت مجبوری کے اپنا چہرہ وغیرہ کھولاہوورنہ اگر سخت مجبوری سے اُس نے کھولا اور پھر کسی مرد نے اس کو گھورا تو اس گھورنے سے عورت کو گناہ نہ ہوگا۔
اور تیسرے درجہ میں مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے گو سخت مجبوری یا بہت سخت مجبوری کی صورت نہ ہو مگر مجبوری کا درجہ موجود ہو اور اس مجبوری کے معنے یہ ہیں کہ اگر گھر سے یا پردہ سے نہ نکلیں تو کوئی غیر معمولی نقصان یا حرج لاحق ہو جائے ایسی ضرورت میں تمام بدن چھپا کر برقعہ کے ساتھ گھر سے نکلنا جوان اور ادھیڑ عورتوں کے لئے جائز ہوگا اور بدوں ایسی مجبوری کے برقع کے ساتھ تمام بدن چھپا کر بھی ان کو نکلنا جائز نہ ہوگا اور اس دوسرے اور تیسرے درجہ کے پردہ میں مجبوری اور سخت مجبوری کے وقت جو آسان کی گئی ہے اس میں چونکہ فتنہ کا بھی احتمال ہے گو ضرورت پر نظر کرکے آسانی کر دی گئی اور تنگی نہیں کی گئی مگر اس احتمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ خاص خاص احکام سے اس کا انسداد بھی کر دِیا گیا۔ مثلاً عورتوں کو عطروخوشبو لگا کر باہر نکلنے سے منع کِیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ اور ارشاد فرمایا
لکن لیخرجن و ھن تفلات
لیکن عورتوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں (ضرورت کے وقت) باہر نکلنا چاہیے (اس کو ابودائود نے رویت کیا ہے اور اس پر سکوت کِیا صفحہ۹۱ جلد۱، پس حدیث حسن ہے)۔
خلاصہ ان سب احکام کا یہ ہوا کہ بوڑھی عورتوں پر پہلا درجہ تو واجب ہے اور دوسرا تیسرا درجہ مستحب ہے اور بہت سخت مجبوری کی حالت میں پہلے درجہ میں بھی جو کہ واجب ہے کچھ سہولت ووسعت کر دی گئی اور جوان اور ادھیڑ عورتوں کے لئے پہلا درجہ بھی واجب ہے اور بہت سخت مجبوری میں اس میں کچھ سہولت ووسعت بھی ہے اور دوسرا اور تیسرا درجہ بھی ان پر واجب ہے اور بہت سخت مجبوری سے کم درجہ کی مجبوری اور ضرورت کے مواقع میں کچھ سہولت ووسعت بھی ثابت ہے یعنی اگر سخت مجبوری کا درجہ ہو، گو بہت سخت مجبوری نہ ہو تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنا اجنبی کے سامنے ان کو جائز ہے بشرطیکہ فتنہ وفساد کے احتمال کا انسداد بھی کر لِیا جائے یعنی سر اور کلائی اور پنڈلی وغیرہ کا کھولنا حرام ہوگا۔ اسی طرح زیب وزینت کے ساتھ اجنبی کے سامنے آنا حرام ہوگا اور سخت مجبوری کے درجہ سے کم ضرورت ہو مگر مجبوری متحقق ہو محض خیالی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں برقع کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا جوان عورت اور ادھیڑ عورت کو جائز ہے مگر چہرہ اور ہاتھوں کا کھولنا حرام ہوگا اسی طرح زیب و زینت کے کپڑے پہن کر نکلنا حرام ہوگا۔
والسر فی کون الضرورۃ فی الدرجۃ الاولیٰ اشدو فی الثانیۃ شدیدا وفی الثالثۃ مطلقۃ کون الوجوب فی الاولیٰ اکد وفی الثانیۃ اکیدا وفی الثالثۃ مطلقًا فلا بدمن ان یکون المغیر مبنیا للفاعل و ھو العذر مماثلا فی القوۃ للمغیر مبنیاً للمقعول وھو الوجوب وھذا ظاھر فافھم۔
ص ۲۳۔ ۲۴:
۔۔۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کے لئے مساجد اور عیدگاہ میں جانے کی اجازت کا اور صحابہ کے زمانہ میں اس سے ممانعت ہو جانے کا مداراسی قاعدہ پر ہے جس کو حضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے
لوادرک رسول اللہ ﷺ ما احدثت النساء بعدہ لمنعھن کما منعت نساء بنی اسرائیل (رواہ مسلم)
(ترجمہ) اگر رسول اللہ ﷺ اس حالت کا مشاہدہ فرما لیتے جو عورتوں نے آپ ﷺ کے بعد اختیار کی ہے تو یقیناً آپ ﷺ ان کو (مساجد وعیدگاہ میں جانے سے) روک دیتے۔ جیسا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دِیا گیا تھا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے
اور خود رسول اللہ ﷺ نے بھی (اپنے اخیر وقت میں) عورتوں کے لئے اسی کو پسند فرمایا اور اسی کی ترغیب دی ہے (کہ وہ نماز کے لئے مسجدوں میں نہ جایا کریں) ۔۔۔۔۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے صرف ترغیب پر اکتفا فرمایا۔ سختی کے ساتھ عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا کیونکہ) اس وقت عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورتیں زیادہ تھیں اور عام طبائع میں نیکی کا غلبہ اور سزا کا خوف ایسا تھا جس کی وجہ سے فتنہ وفساد کا احتمال کمزور تھا اور بعد میں عام طور پر حالت بدل گئی جس میں عورتوں کی حالت بدلنے کو بھی خاص دخل تھا اور اسی قاعدہ پر فقہاء متاخرین کا یہ فتویٰ مبنی ہے جس میں اُنہوں نے بعض محرموں کو نامحرموں کی مثل ٹھہرایا ہے۔
ویکرہ الخلوۃ بالصھرۃ الشابۃ لفساد الزمان
کہ جوان ساس کے پاس تنہائی میں بیٹھنا مکروہ ہے کیونکہ زمانہ فساد کا ہے اور اس احتیاط کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتی ہے:
احتجبی منہ یا سودۃ
جیسا کہ اُوپر گزر چکا جس میں بطور احتیاط کے شرعی محرم سے پردہ کا حکم ہے۔ (ص ۷۲ پر کچھ یون بیان ہے: ۔۔۔۔اس قاعدہ کے موافق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ہُوا۔ اور محرم ہونے کی وجہ سے پردہ کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن حضور ﷺ نے احتیاطاً بوجہ مشابہت شکل حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حکم پردہ کافرمایا جس پر بہت پابندی کے ساتھ عمل کِیا گیا۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ پردہ کا اس درجہ شدت سے اہتمام تھا کہ خفیف شبہ پر بھی احتیاط کی جاتی تھی)۔
اصل سوالات (ص ۷ ۔ ۸
سوال:
حضرت مولانا دام ظلکم العالی۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ! مزاجِ اقدس۔ چند سوالات بھیجتا ہوں اُمید ہے کہ جناب ان کے جوابات سے مشرف فرمائیں گے۔
(۱)
پنجاب میں شریف عورتیں بلا استثناء برقعہ اوڑھ کر پیدل یا تانگہ میں سوار ہو کر رشتہ داروں سے ملنے یا دوسری دینی ودنیاوی ضرورتوں سے بے تکلف باہر جاتی ہیں۔ اسے وہاں کوئی معیوب نہیں سمجھتا کیونکہ وہاں پردہ کا مفہوم یہی ہے کہ عورت اپنا چہرہ جسم اور زینت غیر محرموں سے مخفی رکھے اور وہاں شرفاء وازاذل میں مابہ الامتیاز چیز یہی ہے کہ ادنیٰ طبقہ کی عورتیں کھلے چہرہ پھرتی ہیں۔ شریف خواتین برقعہ اوڑھ کر جاتی ہیں۔ غرض پردہ مروجہ شرفائے پنجاب شرعی پردہ کہلا سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو ان کے پردے میں شرعی مخدوروقباحت کیا ہے؟
(۲)
یہاں دیوبند میں دیکھا گیا ہے کہ شریف عورتیں نقاب وتستر کے ساتھ باہر نکلنا بھی معیوب خیال کرتی ہیں اور اس سے اجتناب کیا جاتا ہے کیا مسلمات ایسے ہی پردے کی مامور ہیں یا چہرہ اور جسم چھپا کر باہر نکلنے کی اجازت ہے؟
(۳)
اگر ہر جوان عورت کے لئے غیر محرموں سے چہرہ چھپانا واجب اور ضروری ہے تو گھر کی خادمائیں اور باندیاں جوزر خرید نہیں ہوتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں؟ بصورتِ اول استثناء کی شرعی دلیل کیا ہے؟ بصورتِ ثانی گھر کے مرد جو ان کے چہروں کی طرف بلا تکلف دیکھتے اور ان سے ہم کلام ہوتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
(۴)
بعض گھروں میں جو ان یا بڈھے مرد کا م کاج کے لئے نوکر رکھے جاتے ہیں۔ اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو گھر کی مستورات کا اُن کے سامنے چہرہ کھولنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
(۵)
سیاہ فام بدصورت جوان عورت جس کے چہرہ کھولنے میں کسی فتنہ کا خوف نہیں اگر وہ چہرہ نہ چھپائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
(۶)
کسی سلیم الفطرت۔ مامون عن الشہوت جوان آدمی کا کسی غیر محرم خوبصورت جوان عورت سے بلا ضرورت شد یدہم کلام ہونا اور گفتگو کرتے ہوئے بلاشہوت اس کی چہرہ کی طرف دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بصورتِ ثانی عدمِ جواز کی دلیل کیا ہے۔ یہ بات پیش نہادِ خاطر اطہر رہے کہ بعض صحابیات کھلے چہرے کے ساتھ حضور سید العرب والعجم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوتی تھیں اور خاکسار کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حضور ﷺ نے کبھی انہیں پردہ کا حکم دِیا ہو۔
جواب سوال اوّل (۱)
یہ صورت جائز نہیں کیونکہ اس میں پردہ کا ایک درجہ جو واجب تھا فوت ہو گیا اور وہ تیسرا درجہ ہے اور اس کو بلاضرورت چھوڑا گیا۔ کیونکہ تانگہ پر پردہ ڈال کر بھی تونکل سکتی ہیں (پھر محض برقع پر کیوں کفایت کی گئی) اور اگر برقع بھڑک دار ہے تو دوسرا درجہ بھی فوت ہوا کیونکہ جن صورتوں میں برقع کے ساتھ نکلنے کی اجازت ہے اُن پر یہ شرط ہے کہ زیب وزینت کے لباس میں نہ نکلیں۔
جواب سوال دوم (۲)
ہاں مُسلمان عورتوں کو ایسا ہی پردہ کرنا چاہئے کیونکہ ایسے پردے کا حکم شریعت میں ثابت ہو چکا ہے جیسا اُوپر گزرا۔ جس میں صرف ضرورت کے وقت کچھ آسانی اور وسعت ہو جاتی ہے۔
جواب سوال سوم (۳)
تمام بدن کو چھپا کر صرف چہرہ کھول کرنا محرموں کے سامنے (خادمہ کا) آنا یہ ادنیٰ درجہ کا پردہ ہے جو ضرورت اور مجبوری کے وقت کافی ہے۔
باقی (گھر کے مَردوں کو اس حالت میں خادمہ کے چہرہ کی طرف) دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے اس کی اجازت نہ ہوگی (حدیث میں) لعن اللہ الناظر وارد ہے۔ (کہ خدا تعالیٰ نے دیکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے یعنی جو بلاضرورت نامحرم کو دیکھے) اور بات چیت اگر ضرورت سے ہے تو ضرورت کی حد تک جائز ہے اور بلاضرورت لذت نفسانی کے لئے بات چیت کرنا حرام ہے حدیث میں ہے
اللسان یزنی
کہ زبان بھی زنا کرتی ہے (اس کو ایک طویل حدیث میں بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔
جواب سوال چہارم (۴)
نا محرم کے سامنے چہرہ کھولنا عورت کو حرام ہے اور یہاں کوئی ضرورت نہیں ۔ خصوصاً جبکہ اس صورت میں غالباً بلکہ یقینی یہ ہے کہ عورتیں (سروغیرہ کے چھپانے کا بھی اہتمام نہیں کرتیں اور ان نوکروں کے سامنے) کھلے سر پھرتی ہیں اور بعض دفعہ خلوت اور تنہائی کی بھی نوبت آجاتی ہے جو کہ حرام ہے(اس لئے یہ صورت بھی جائز نہیں)۔
جواب سوال پنجم (۵)
سیاہ وسفید کے احکام میں شریعت نے کوئی فرق نہیں کِیا بلکہ جوان عورت کو ہر حال میں محل فتنہ قرار دیا ہے ۔ اس لئے سیاہ فام بدصورت عورت کو بھی بلاضرورت چہرہ کھولنا حرام ہے۔ نیز مشاہدہ یہ ہے کہ بعض لوگ سیاہ فام عورتوں کو گوری عورتوں سے زیادہ پسند کرتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔
اے پیک پے خجستہ چہ نامی فدیت لک
ہرگز سیاہ چردہ ندیدم بدیں نمک
اور یہ بات مسلم ہے
لکل ساقطہ لاقطۃ
کہ ہر گری پڑی چیزکے لئے کوئی اُٹھانے والا ضرور ہوتا ہے۔
جواب سوال ششم (۶)
(سلیم الفطرت ٗ نیک دِل ٗ پاک باز مرد کو بھی اجنبی جوان عورت سے بدوں سخت مجبوری کے بات چیت کرنا اور بدوں شہوت وبدنیتی کے اس کے چہرہ کی طرف دیکھنا) جائز نہیں دلیلیں اُوپر گزر چکی ہیں۔ اور یہ کہیں ثابت نہیں کہ صحابہ کی عورتوں کا (رسول اللہ ﷺ کے سامنے) چہرہ کھولنا بلاضرورت تھا (بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے تھا) پھر ضرورت کی حالت میں حضور ﷺ ان کو کیسے منع فرماتے خصوصاً جبکہ آپ ﷺ حکم شرعی کو عام طور پر اپنے ارشادات میں ظاہر بھی فرما چکے تھے تو اس کے بعد بعض عورتوں کا چہرہ کھول کر آپ کے سامنے آنا (یقینا) ضرورت کی وجہ سے تھا اور یہ بھی ثابت نہیں کہ حضور ﷺ ان کی طرف قصداً نظر فرماتے تھے اور نہ یہ ثابت ہے کہ اس وقت بے پردگی کی عام طور سے عادت تھی۔ چنانچہ یہ احادیث ملا حظہ ہوں
(۱)
حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ہم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ عید کے دن حیض والی عورتوں اور پردہ میںبیٹھنے والیوں کو بھی (عیدگاہ میں) لے جائیں الحدیث۔ اس کو بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔ اس میں ذوات الخدور کا لفظ (جس کے معنے پردہ میں بیٹھنے والیاں ہیں) اس دعویٰ کو ثابت کر رہا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں بے پردگی کی عام عادت نہ تھی۔
(۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے ایک خط دینے کو رسول اللہ ﷺ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ الحدیث۔ اس کو ابودائودونسائی نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ) اس میں عورتوں کا خود رسول اللہ ﷺ سے تیسرے درجہ کا (گہرا) پردہ کرنا مذکور ہے۔
(۳)
ابوالسائب ابوسعید خدریؓ سے ایک نوجوان (صحابی) کے قصہ میں جس کی شادی کو کچھ ہی دن گزرے تھے روایت کرتے ہیں کہ (وہ نوجوان حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا) تو اس کی بی بی دروازہ پر کواڑوں کے بیچ میں کھڑی ہوئی تھی نوجوان نے اپنا نیزہ اس کی طرف سیدھا کِیا تاکہ اس پر حملہ کرے اور جوشِ غیرت سے بیتاب ہو گیاالحدیث اس کو مسلم نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کی رسم اُس زمانے کے لوگوں کی طبیعتوں میں ایسی جمی ہوئی تھی کہ نوجوان صحابی دروازہ پر اپنی بی بی کو کھڑا دیکھ کر طیش سے بے تاب ہو گئے
(ص ۷۸ پر یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے:حضرت ابی السائب نے ابی سعید الخدریؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک نوشہ صحابی کے قصہ میں ہے کہ وہ جو اپنے گھر گئے تو بی بی کو دروازہ میں کھڑے دیکھ کر غیرت آئی اور نیزہ سے مارنا چاہا (آخر سانپ کی وجہ سے باہر نکلنے کی مجبوری معلوم ہوئی)۔ معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کی رسم اس درجہ طبائع میں مرکوز تھی کہ دروازے ہی میں کھڑے ہونے پر بے تاب ہو گئے۔
ص ۳۱
اور قصہ افک میں (جس میں منافقوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹا بہتان لگایا تھا) صحابہ کا خالی ہو دج کا اونٹ پر باندھ دینا اور یہ خیال کرنا کہ اس میں حضرت عائشہ ؓ بیٹھی ہیں نہایت مضبوط تائید ہے۔ اس وقت کی ڈولی کی رسم کی اور کہاروں سے بی بی کے نہ بولنے کی (ورنہ) ہودج باندھنے والوں کو حضرت عائشہ ؓ کی خاموسی سے شبہ ہوتا کہ شاید ہودج خالی ہے) ان سب احادیث میں صاف تصریح ہے کہ اُس زمانہ میں ویسا ہی پردہ تھا جیسا آج کل ہمارے اطراف کے شرفاء کی عورتوں میں رواج ہے۔
ص ۳۴ تا ۴۲ ( تتمہ تذئیل سے مختلف اقتباسات)
۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور واجبات بھی پردہ کے متعلق متروک ہوں گے جواحادیث میں منصوص نہیں مثلاً:
(۱)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورتیں بدوی سخت مجبوری کے نہ نکلیں گی کیونکہ اس صورت میں بے پردگی یا کم مائیگی میں ان کو گھر میں بیٹھنے کی عادت تو متروک ہو جائے گی۔
(۲)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ نکلنے کے بعد وہ سڑک کے کناروں پر دبی دبی چلیں گی وسط پر نہ چلیں۔
(۳)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب پردہ نہ رہا اور باہر بھی مردوں سے اختلاط ہونے لگا تو پھر وہ بغیر اذن شوہر کے کسی کو گھر میں نہ آنے دیں گی۔
(۴)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں اعتیاد بے پردگی میں وہ باہر نکلنے کے لئے ہمیشہ شوہر سے اذن ضرور ہی لیا کریں گی۔
(۵)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب دل کھل گیا تو وہ قصداً کسی اجنبی کو نہ دیکھیں گی۔
(۶)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ان کو کوئی اجنبی نہ دیکھے گا۔
(۷)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں ان کو دیکھ کر اجنبی مردوں کے دل میں شیطانی وسو سے نہ آویں۔
(۸)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ناگہانی نظر پڑنے کے بعد فوراً نظر کو ہٹا دِیا جاوے گا اور کامل پردہ میں تو دوبارہ نظر کا قصد ہی نہیں ہوتا۔
(۹)
اس کا کیا انتظام ہو گا کہ غیر محرم سے بلا ضرورت اور بے تکلف باتیں نہ کیا کریں گی اور بضرورت بات کرنے کے لئے شوہر سے اجازت لیا کریں گی۔ کیونکہ اب تو پردہ کے سبب تکثیر کلام کی نوبت نہیں آتی۔ اس لئے قلیل کا انتظام آسان ہے اور خود طبیعت میں بھی خجلت غالب ہے۔
(۱۰)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ بالخصوص شوہر کے اقارب کو بے تکلف آمدورفت اور خلا ملا سے روکا جا سکے گا۔
(۱۱)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس بے تکلف اختلاط اور ارتباط میں کبھی خلوت کا موقع پیش نہ آوے گا۔
(۱۲)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اجنبی کے ہاتھ سے ان کا ہاتھ نہ لگ سکے گا۔
(۱۳)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ اس حالت میں عورتیں زیب وزینت سے نہ نکلیں گی اور میلے کچیلی نکلنے کو ذلت سمجھیں گی۔
(۱۴)
اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورتیں باہر نکلنے کے وقت عطروغیرہ نہ لگاویں گی۔
(۱۵)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ چہرہ اور کفین کھولنے کی حالت میں سر اور ساعد اور حلقوم وغیرہ بالکل مستور رہے گا۔
(۱۶)
اوراس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ شوہر جب عورت کو ان حدود سے ذرا نکلتا دیکھے گا تو وہ بالالتزام و بالدوام اس کو زجر کیا کرے گا ورنہ دیوث کی وعید میں داخل ہوگا۔
(۱۷)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ جب مردوں اور عورتوں میں خلا ملا ہو جاوے گا تو کبھی ایسا موقع نہ ہوگا کہ مرد عورتوں کے درمیان چلنے لگے۔
(۱۸)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ ان کے چلنے میں زیور کی آواز مطلقاً پیدا نہ ہوگی۔
(۱۹)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ باہر نکلنے کے وقت عورتیں مردانہ جوتے نہ پہنیں گی۔
(۲۰)
اور اس کا کیا انتظام ہو سکے گا کہ عورت کبھی بدوں محرم کے سفر نہ کرے گی۔
ص ۴۳ رفع اشتباہ:
اور حضور اقدس ﷺ کے عہدِ مبارک پر اس زمانہ کا قیاس صحیح نہیں نہ مر د ویسے رہے نہ عورتیں ویسی رہیں نہ باعتبار حالات کے نہ باعتبار خیالات کے نہ ضرورتیں اُس درجہ کی رہیں اور نہ حدوددتغریرات باقی رہے جو مفاسد محتملہ کے مانع وقامع تھے۔۔۔۔
ص ۴۴:
جو آیات و احادیث اُوپرگزری ہیں اور اُن سے جو اصول مستنبط ہوئے جن کا حاصل سدِّباب فتنہ ہے ان کی بناء پر فقہائے اِسلام نے جو کہ حکمائِ اُمت ہیں جو فتاوے ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے بعض کو نمونہ کے طور پر نقل کِیا جاتا ہے:
(۱)
عورت کا جہری نماز میں پکار کر قرأت کرنا جائز نہیں۔
(۲)
عورت کا حج میں لبیک پکار کر کہنا جائز نہیں۔
(۳)
اگر عورت مقتدی ہو (مثلاً اپنے زوج یا محرم کے پیچھے گھر میں نماز پڑھ رہی ہے) اور امام کو کجھ سہو گیا تو عورت کو زبان سے بتلانا جائز نہیں بلکہ ہاتھ پر ہاتھ مار دے تاکہ امام اس کو سُن کر سمجھ جاوے کہ میں کچھ بھولا ہوں اور پھر سوچ کر یاد کر لے۔
(۴)
جوان عورت کا نامحرم مرد کو سلام کرنا جائز نہیں۔
(۵)
جب قرأت بالجہروتلبیہ بالجہر اور سہو امام کے وقت سُبْحَانَ اللہ کہہ دینا جیسا مرد مقتدی کہہ دیتا ہے اور سلام جائز نہیں تو بلا ضرورت کلام کرنا یا اشعار سُنانا یا خط وکتابت کرنا جو کہ کلام سے زیادہ جذبات کو ہیجان میں لانے والا ہے یا اخباروں میں مضمون دینا جیسا کہ اس وقت متعارف ہے کہ اپنا پتہ اور نشان بھی لکھ دِیا جاتا ہے کیسے جائز ہوگا۔
(۶)
اجنبیہ سے بدن دبوانا جائز نہیں۔
(۷)
تو اس کا ہاتھ ٗ ہاتھ میں لینا جیسا جاہل یا بے احتیاط پیر بیعت وقت خدمت کرتے ہیں کیسے جائز ہوگا۔
(۸)
اجنبیہ کے بدن سے متصل کپڑے پر میلانِ نفس کے ساتھ نظر کرنا جائز نہیں۔
(۹)
آئینہ یا پانی پر جو اجنبیہ کا عکس پڑتا ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں اس بناء پر اس کا فوٹو دیکھنا جائز نہیں۔
(۱۰)
اجنبی مرد کے سامنے کا بچہ ہوا طعام عورت کو کھانا یا بالعکس اگر نفس کو اس میں لذت ہو مکروہ ہے۔
(۱۱)
رضاعی بھائی اور داماد اور اسی طرح شوہر کا بیٹا (گویہ سب محارم ہیں) مگر فتنہ زمانہ پر نظر کرکے اُن سے مثل نامحرم کے پردہ کرنا ضروری ہے۔
(۱۲)
عورت کے بال اور ناخن گوبدن سے جدا ہو گئے ہوں ان کو دیکھنا جائز نہیں۔
(۱۳)
اجنبی عورت کے تذکرے سے نفس کو لذت دینا جائز نہیں۔
(۱۴)
اجنبیہ کے تصور سے لذت لینا حرام ہے۔
(۱۵)
حتیٰ کہ اگر اپنی بی بی سے متمتع ہو اور تصور اجنبیہ کا کرے وہ بھی حرام ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ بروئے ایک حدیث کے شیطان کا جال ہے، جال سے جس قدر احتیاط ضروری ہے اسی قدر اس سے۔
ص ۴۴، ص ۵۱ تا۵۳
۔۔۔ایک مضمون مولوی حبیب احمد صاحب کا جو ایک اخباری مشورہ کا جواب ہے فتویٰ بالا کے مناسب ہونے کے سبب اُس کے ساتھ ملحق کر دِیا گیا۔۔۔۔۔۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ پردہ مروّجہ بھی اس پردہ سے گِرا ہُوا ہے جس کو شریعت لازم کرتی ہے ۔ کیونکہ اُس میں بہت سے غیر محرموں سے پردہ نہیں کِیا جاتا جیسے چچا زاد بھائی ٗ ماموں زاد بھائی اور نہ جن سے پردہ کِیا جاتا ہے، ان سے پردہ میں کافی احتیاط برتی جاتی ہے۔ اس لئے شرعاً اسے اور سخت کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی تخفیف نہیں ہو سکتی۔ پردے سے شریعت کا مقصود عفت ہے ۔ پس جو طریق ایسا اختیار کیا جاوے جس میں عفت پر بُرا اثر پڑے وہ شرعًانا جائز ہے خواہ عورتیں کھُلے منہ پھریں یا بُرقعہ اوڑھ کر کیونکہ جب کوئی عورت برقع اوڑھ کر غیر مَردوں کے ساتھ اختلاط کرے گی اور ان سے بے تکلف باتیں کرے گی تو اوّل تو مرد اس کی ذاتی حیثیت کو (کہ خوب صورت ہے یا بدصورت جوان ہے یا بوڑھی وغیرہ) خود نظر سے اور انداز گفتگو سے بھانپ لیں گے اور اگر بالفرض نہ بھانپ سکیں تو وہ ان باتوں کے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے جس سے عفت خطرہ میں پڑ جاوے گی۔ دوسرے خود عورتیں بُرقعہ کی جالی سے مردوں کو دیکھیں گی اور چونکہ عورتوں میں بھی جذبات شہوانی ہوتے ہیں اس لئے جو مردا نہیں پسند ہوگا اُس کے پھانسنے کی وہ خود کوشش کریں گی۔ اور جب عورتیں خود طالب ہوں گی تو ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ برقعہ کیا کام دے سکتا ہے۔ اس لئے برقعہ کے ساتھ عورتوں کو مَردوں کے ساتھ ربط ضبط اور خلاملا کی اجازت دینا ضرور شرعی مقصد کے خلاف ہے اور وہ بھی بے پردگی میں داخل ہے۔ اسی وجہ سے جس طرح شارع نے مردوں کو غیر محرم عورتوں کے دیکھنے سے منع کِیا ہے یوں ہی اُس نے عورتوں کو بھی غیر مردوں کے سامنے سے روکا ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین کے اس سوال کے جواب میں کہ ابن ام مکتوم نابینا ہیں وہ ہم کو نہیں دیکھ سکتے اس لئے اُن سے پردہ کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا تھا کہ وہ نابینا ہیں تم تو نابینا نہیں ہو۔ پس اگر وہ تم کو نہ دیکھیں گے تو تم تو انہیں دیکھوگی پھر پردہ کیا ہوا؟ اس سے شرعی پردہ کی حقیقت خوب واضح ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جناب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ اور ان کے بعد کے مُسلمانوں سے کہیں منقول نہیں کہ وہ اپنی بیبیوں اور رشتہ داروں کو برقع اوڑھا کر اپنے ساتھ لئے پھرتے ہوں اور ان کو مردوں کے مجمع میں شریک کرتے اور ان سے لیکچر دلاتے اور تقریریں کراتے اور دوست آشنائوں سے ملاقاتیں کراتے ہوں۔
پس اگر شرعی پردہ وہ ہوتا جس کو آج خیر الامور اوسطھا کہا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ حضرات عورتوں کو اس طرح مقید کرتے اور آزاد خیالوں کے خیال کے موافق ان پر ظلم کرتے۔ دیکھو جس جہاد سے واپسی میں واقعہ افک پیش آیا ہے اس میں جناب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ تھیں مگر بُرقع پہنے ہوئے اور آزادانہ نہ تھیں بلکہ آج کل کی عورتوں کی طرح محمل میں تھیں۔ اسی طرح جنگِ جمل میں بھی حضرت عائشہ ؓ برقع پوش نہ تھیں بلکہ محمل میں تھیں۔ اگر اس زمانہ میں بُرقع پہن کر آزادانہ پھرنے کی اجازت ہوتی تو محمل کی کیا ضرورت ہوتی اور اس زمانہ میں برقع پہن کر شہروں میں اور جنگلوں میں اور مجمعوں میں عام طور پر پھرنا کیوں نہ منقول ہوتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو حقیقت شرعی پردہ کی آج بتائی جا رہی ہے وہ ٗ وہ ہے جس سے نہ جناب رسول اللہ ﷺ واقف تھے نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ ائمہ مجتہدین اور نہ دوسرے مسلمان ٗ پھر علماء اس کو شرعی پردہ قرار دے کر اس کے جواز کا فتویٰ کیونکر دے سکتے ہیں۔
صاحبو! جرائم ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں چنانچہ لوگ چوری بھی کرتے ہیں ٗ شراب بھی پیتے ہیں ٗ زنا بھی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سو اگر تم کو بھی جرائم کا شوق ہے تو شوق سے کرو مگر خدا کے لئے قانون الٰہی کو نہ بدلو اور جرائم کو خدا کے قانون میں داخل نہ کرو۔ بلکہ جرم کو جرم سمجھو۔ اپنے کو گنہگار سمجھو دوسروں کو بددینی کی دعوت نہ دو۔ ایسا کرنے سے تم مُسلمان رہ سکتے ہو اور قانونِ الٰہی کی تحریف کرکے جرائم کو قانونِ خداوندی میں داخل کرکے خدا کو نعوذ باللہ جاہل سمجھ کر دوسروں کو خدا کے دین سے روک کر تم مُسلمان نہیں رہ سکتے۔
ص ۶۰:
(۳
جس چیز کو حرام یا جرم قرار دِیا جاتا ہے جتنے افعال یا امور اُس حرام یا جُرم کے وسائل اور ذرائع ہوں بوجہ اعانت جرم کے وہ بھی حرام اور جرم ہو جاتے ہیں۔ گو خصوصیت کے ساتھ ان افعال یا امور کو نام بنام جرم نہ شمار کِیا گیا ہو۔ مثلاً استحصال بالجبرجرم ہے تو جتنی صورتیں اس جرم کی ہوں گی۔ مثلاً ڈرانا دھمکانا ٗ کوٹھڑی میں بند کر دینا وغیرہ وغیرہ سب جرم ہوں گے۔ گو یہ سب امور مفصل جُدا جُدا دفعات جرم کے تصریحاً نہ گِنے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر منجملہ جرائم ایسا ہو کہ جس کو خصوصیت کے ساتھ بھی روکا گیا ہو اور اس طرز سے بھی اس کی ممانعت ثابت ہوئی ہو۔
ص ۶۳:
’’ اور جب تم ان بیبیوں سے کوئی چیز مانگنے لگو تو آڑ کے پیچھے سے مانگو اس میں زیادہ پاکی ہے تمہارے دِلوں کی بھی اور اُن کے دِلوں کی بھی۔‘‘(احزاب) یہ آیت بھی صاف بتلا رہی ہے کہ حجاب جس کی حقیقت پردہ متعارف ہے بہت ضروری اور اہتمام کے قابل ہے کہ باوجود یکہ چیز مانگنا ایک گونہ ضرورت بھی ہے لیکن اس ضرورت کے ساتھ بھی رفع حجاب کی اجازت نہیں ہوئی بلکہ اس حالت میں بھی صیغۂ امر کے ساتھ جو شرعاً وعقًلا وجوب کو مفید ہوتا ہے حفاظتِ حجاب کا خطاب کیا گیا تو بھلا جہاں یہ ضرورت بھی نہ ہو یا اس سے خفیف ضرورت ہو جیسے ہوا خوری یا توسیع معاملات دنیا تو وہاں بے حجابی کی کب اجازت ہوگی۔
ص ۶۴:
۔۔۔۔ یُدْ نِیْن َ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۔۔۔
۔۔۔ اس آیت میں تعلیم ہے گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی جو کسی ضرورت سفر وغیرہ سے واقع ہو کہ اس وقت بھی بے حجاب مت ہو بلکہ اپنی چادر کا پلّہ اپنے چہرہ پر لٹکالیں تاکہ چہرہ کسی کو نظر نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ اس تصریح کے بعد اس کہنے کی گنجائش کب ہے کہ چہرہ کا چھپانا فرض وواجب نہیں ہے۔ نص قطعی دلالت قطعی۔۔۔۔
ص ۶۶ :
اصلی حکم حجاب کا مل ہے جہاں ضرورت نہ ہوگی اور بوجہ شباب فتنہ کا احتمال ہوگا عام اس سے کہ فتنہ ابصار ہو یا فتنہ فروج ہو وہاں سے اسی حکم اصلی پر عمل ضروری ہوگا۔ اسی طرح مابعد میں محض پائوں کو زور سے رکھنے سے کس تاکید سے روکا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی علت کہ وجوب اخفائے زینت سے بیان فرما دی گئی ہے۔ ظاہر کہ فتنہ صوت زیور سے بدرجہا فتنہ صورت بڑھا ہوا ہے ۔ جب اس کا انسداد ہوا ہے اس کا کیوں نہ ہوگا؟ پس فی نفسہٖ حجاب کامل کی ضرورت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا
ص ۷۳:
۔۔۔حدیث میں بے ضرورت و بے تکلف عورتوں کے پاس آمدورفت رکھنے کو حرام فرمایا ہے اور فطرت صحیح اور دلالت صریحہ سے ثابت ہے کہ اس آمدورفت کا عمدہ انسداد یہ پردئہ مروجہ ہے ورنہ اور کوئی امر اس درجہ کا مانع قوی نہیں چنانچہ مشاہدہ ہے کہ جب پردئہ مروجہ نہ ہوگا یہ بے محابا آمدورفت بھی ضرور رہے گی ٗ اور ایسی آمدورفت حرام ہے تو بے پردگی جو اس کا ذریعہ ہے نیز حرام ہے (نمبر۳۔ اصول موضوعہ) پس پردہ مروجہ واجب ہے۔۔۔۔
۔۔۔نامحرم مرد عورت کا تنہا جگہ پر بیٹھنا حرام ہے۔ اور اگر پردہ نہ ہو تو عادت اور مشاہدہ شاہد ہے کہ ہرگز اس میں احتیاط نہ کی جائے گی۔ بالخصوص آج کل کے بے باک اور آزاد طبائع سے یہ امر یقینی ہے ۔ پس بے پردگی ذریعہ ہوگی اس تنہائی کی اور یہ تنہائی حرام تو اس کا ذریعہ بھی حرام (نمبر ۳۔ اصول موضوعہ) پس پردہ مروجہ واجب ہے۔
ص ۷۴ :
۔۔۔نظر کرنا اور کرانا حرام ہے۔ اور بے پردگی یقینا اس کا ذریعہ ہوگی تو وہ بھی حرام ہے (نمبر۳۔اصول موضوعہ) پس پردہ واجب ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔عورت کو ایسا باریک کپڑا پہننا جس میں بدن جھلکے حرام اور بے پردگی میں بمقتضائے تکلف وزینت طبعی خصوصاً طبیعت زنان ہند ضرور نامحرم کے روبرو باریک کپڑے پہنے جائیں گے اور یہ حرام۔ پس بے پردگی بھی حرام (نمبر۳۔اصول موصوعہ) بتقریر دیگر حدیث میں تصریح ہے کہ سر کھولنا حرام۔ اور حسبِ عادت بے پردگی میں سرکا کھلنا یقینی پس بے پردگی حرام ہوئی (نمبر۳۔اصول موضوعہ) پس پردہ واجب ہُوا۔
ص ۷۷ حاشیہ :
یعنی جلباب کا چہرہ اور ہاتھوں کو ڈھانپنا آیت میں لفظ یدئین سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس لفظ کی یہی تفسیر کی گئی ہے کہ تمام بدن اُس میں مستور ہو۔ صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لئے کھلی رہے۔ کذاروی عن ابن عباس ؓ۔ ۱۲ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
ص ۸۵:
۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جتنے صیغے استعمال فرمائے ہیں سب میں عورتوں کو فاعل قرار دِیا گیا ہے جیسے ارشاد ہے
یغضضن من ابصار ھن
کہ عورتیں اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں
ویحفظن فروجھن
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں
لایبدین زینتھن
اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔
ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن
اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں
ولایضرین بار جلھن
اور اپنے پیروں کو (زمین پر زور سے ) نہ ماریں۔
ان سب صیغوں میں عورتوں کے کسی نہ کسی فعل کا ذکر ہے مگر الا ماظھر منھا میں ایسا صیغہ اختیار کِیا گیا ہے جس میں عورتوں کے کسی فعل کا بھی ذکر نہیں کیونکہ اس کا ترجمہ یہ ہے مگر وہ زینت جو ظاہر ہو جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ الاماظھر منھا میں زینت کا وہ ظہور مراد ہے جس میں عورتوں کے فعل کو اصلاً دخل نہیں (بلکہ بدوں ان کے ارادہ کے ظاہر ہو جائے) ورنہ دوسرے صیغوں کی طرح یہاں بھی ما اظھرن فرماتے (کہ جس زینت کو عورتیں ظاہر کریں وہ مستثنٰی ہے) مگر قرآن میں ما اظھرن نہیں ہے ماظھر آیا ہے جس میں عورتوں کی طرف ظہور کی نسبت نہیں۔ پس ثابت ہُوا کہ یہاں وہ ظہور مراد ہے جو بدوں عورتوں کے قصد وارادہ کے ہو۔
ص ۹۳ تا ۹۵:
۔۔۔۔جب ان آیات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے متعلق اصل حکم یہی ہے کہ ان کو چھپانا واجب ہے اور یہ حکم ظاہر میں سب عورتوں کے حق میں عام تھا جوانون کے لئے بھی اور بوڑھی عورتوں کے لئے بھی۔ کیونکہ آیت کے الفاظ میں جوان یا بوڑھی کی کوئی قید مذکور نہیں۔ اس لئے آیت
والقواعد من النسآء اللاتی لایرجون نکاحاً
نے بڑی بوڑھی عورتوں کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور بتلا دِیا کہ ان پر چہرہ اور ہتھیلیوں کا چھپانا واجب نہیں) گو مستحب اُن کے واسطے بھی یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو چھپائے رکھیں و ا ن یستعففن خیر لھن کا یہی مطلب ہے اور چہرہ اور ہتھیلیوں کے سوا باقی تمام بدن کا چھپانا عام طور پر سب عورتوں کے حق میں واجب ہے۔ چنانچہ سروغیرہ کا اجنبی مردوں کے سامنے) کھولنا بوڑھی عورتوں کوبھی حرام ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ آیت والقواعد من النسآء نے بوڑھی عورتوں کو دوسری آیات کے حکم سے مستثنیٰ و مخصوص کیا ہے۔
اس کا مبنی وہ اصولی قاعدہ ہے کہ جب خصوص کی دلیل کلام میں مستقل موصول ہو تو وہ دلیل عام کے لئے خصص ہو جاتی ہے اور جس کلام کا منفصل اور موخر ہونا معلوم نہ ہو وہ موصول کے حکم میں ہے۔
پس اب حکم کاحاصل یہ ہُوا کہ ان جوان عورتوں پر تو چہرہ اور ہتھیلیوں کا چھپانا ہر حال میں بدستورواجب ہے سوائے اس حالت کے جبکہ اُن کے چھپانے میں تنگی اور تکلیف ہو اور بوڑھی عورتوں کے لئے بھی چہرہ اور ہتھیلیوں کا مردوں کے سامنے کھولنا جائز ہوتا تو آیت والقواعد من النسآء الخ میں بوڑھی عورتوں کی تخصیص بے فائدہ اور پیکار ہوتی۔۔۔۔اب سمجھنا چاہیے کہ پردہ کے یہ سب احکام اجنبی مردوں کے اعتبار سے تھے اور محرموں کا حکم یا جو لوگ محرموں کے مثل ہیں اسی آیت کے دوسرے جملہ و لا یبدین زینتھن الالبعولتھن الخ میں مذکور ہے جس کی تقریر بیان القرآن میں موجود ہے۔۔۔
ص ۹۶ ۔ ۹۷(تنبیہ):
اخیر میں اس بات پر بھی متنبہ کر دینا ضروری ہے کہ جن مجبوریوں کی حالتوں میں عورتوں کو چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی شریعت سے اجازت ہے اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ عورت کو اگر مُنہ چھپانے میں تنگی یا تکلیف ہو تو بضرورت وہ اپنا چہرہ کھول سکتی ہے یہ مطلب نہیں کہ اُس وقت مَردوں کو بھی عورتوں کے چہرہ کا دیکھنا جائز ہو جائے گا۔ عورتوں کو کسی وقت چہرہ کھولنے کی اجازت دے دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردوں کو بھی اُس وقت اُن کے چہرہ پر نظر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل خود اسی آیت میں موجود ہے کہ باوجودیکہ مَرد کو ناف سے گھٹنے تک کے سوا باقی تمام بدن کا کھولنا جائز ہے۔ مگر عورتوں کو پھر بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور مردوں کے چہرہ وغیرہ کی طرف نظر نہ کریں۔
پس یہاں جس قدر تفصیل عورتوں کے پردہ کے متعلق بیان کی گئی ہے کہ اُن کو اجنبی مردوں سے کس طرح پردہ کرنا چاہیے اور محرموں سے کس قدر اوراجنبی مردوں سے کس وقت اپنی ذات کا چھپانا واجب ہے اور کس وقت بُرقعہ اوڑھ کر باہر نکل سکتی ہیں اور کس حالت میں چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہیں۔ یہ سب تفصیل عورتوں کے فعل میں ہے۔
باقی مردوں کا جو فعل ہے یعنی عورتوں کا دیکھنا اُس کا حکم جُدا ہے جس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ اجنبی عورت سے تو ہر حال میں مرد کو اپنی نگاہ کی حفاظت لازم ہے اور جو عورتیں محرم ہوں اُن سے بوقت احتمال شہوت نگاہ کو پھیرنا واجب ہے۔ یعنی اگر کسی وقت محرم عورت کے دیکھنے میں بھی شہوت نفسانیہ کا احتمال ہو تو مرد پر واجب ہے کہ اس وقت محرم کو بھی نہ دیکھے اور نگاہ کی حفاظت کرے۔خلاصہ یہ کہ مرد کو بجز بیوی اور باندی کے (جو بقاعدہ شرعیہ باندی ہو محض نوکر یا خادمہ یارواجی باندی نہ ہو) اور کسی عورت کا دیکھنا شہوت کے ساتھ جائز نہیں اور اجنبی عورت کو بلا شہوت کے بھی دیکھنا جائز نہیں جب تک دیکھنے کی سخت ضرورت نہ ہو۔ خوب سمجھ لو۔
ص ۱۰۲ (مولا نا حبیب احمد کیرانوی):
۔۔۔پس غیر محارم کی عدم موجودگی میں عورت کا ماسوائے زینت ظاہرہ کو کھولنا خلاف احتیاط ہونے کی وجہ سے خلاف اولیٰ ہوگا۔ اور غیر محارم کی موجودگی میں زینت کا کھولنا بوجہ احتمال فتنہ کے قریب ہونے کے حرام ہوگا۔ اس لئے لا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا میں نہی مطلق طلب کشف کے لئے ہو گی اور لایبدین زینتھن الالبعولتھن میں تحریم کے لئے۔
------------------------------------
http://rahbereislam.com/index.php/sharai-masail/119-parda-summary-from-different-books/202-summary-of-book-parda-ka-sharae-ahkamq
.........
.........
No comments:
Post a Comment